Chitral Times

Apr 30, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بزمِ درویش ۔ راشن کی برکت ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

شیئر کریں:

بزمِ درویش ۔ راشن کی برکت ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

میرے موبائل فون کی رنگ مسلسل بج رہی تھی میں نے روشن سکرین پر نام پڑھا تو دل باغ باغ ہو گیا طاہر جمیل کا نام جگمگا رہا تھا جس کو دیکھتے ہی خوشگوار احساس مسکراہٹ کی شکل میں میرے چہرے پر بکھرتا چلا گیا آپ سب کی زندگی میں بھی یقینا ایسے چند لوگ ضرور ہونگے جن کا نام جب آپ کے موبائل فون کی سکرین پر روشن ہو تا ہو گا محبت بھرا تبسم آپ کے چہرے پر پھیل جاتا ہو گا اور جسم میں پھرتی چستی کا نیا زندگی سے بھرپور احساس کہ آپ سب کام چھوڑ کر موبائل آن کر کے پر جوش لہجے میں ہیلو یا نام پکار کر اپنی بھر پور خوشی کا اظہار کر تے ہیں یا کچھ لوگ آپ کے حافظے میں ایسے بھی ہونگے جن کا نام یا خیال آتے ہی آپ کا چہرہ مسکراہٹ سے جگمگا اٹھتا ہے اور اندھیرے سے نکل کر روشنی کی طرف سفر کرتے ہیں آپ بلیک اینڈ وائٹ دور سے کلر دور میں آجاتے ہیں بے ذائقہ اور بے بو خوشبو کی طرف رینگ آتے ہیں یعنی کسی کا خیال تصور ہی آپ کو خوش کر دیتا ہے ایسے لوگ آپ کی زندگی اور معاشرے میں بہت کم ہو تے ہیں ایسے لوگوں کی بھرپور قدر کرنی چاہیے کیونکہ ایسے مثبت لوگوں کی وجہ سے ہی یہ بانجھ معاشرہ حرکت میں ہے ورنہ مادیت پرستی کے پر یشر نے موجودہ دور کے انسان کو ادھ موا سا کر رکھا ہے ایسے مثبت لوگ خوشبو کی طرح معاشروں کو معطر اور زندہ رکھتے ہیں

 

طاہر جمیل بھی ایسے ہی لوگوں میں شامل ہے لیکن طاہر جمیل کے بارے میں ایک الگ حقیقت بھی ہے کہ آج کا زندگی کے رنگوں سے بھرپور طاہر کبھی مایوسی اور ڈپریشن کی چادر میں لپٹا بے رنگ مایوس انسان بھی تھا جو ار ب پتی ہو نے کے باوجود مایوسی اور ڈپریشن کی قبر میں زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا آج جب اِس کو دوست یار پر جوش زندہ دل دیکھتے ہیں تو سوچ بھی نہیں سکتے کہ چند سال وہ کس قدر زندگی سے دور اور موت کے قریب تھا یہ چند سال پہلے کی بات ہے جب یہ ایک کمرے کا قیدی بن کے زندگی کے دن پورے کر رہا تھا زندگی کا یہ تاریک دور اِس طرح شروع ہو ا کہ طاہر اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا والدین پاکستان کے امیرترین خاندانوں میں شامل تھے دنیا جہاں کی نعمتوں کی بارش تھی جو طاہر کے خاندان پر برسوں سے برس رہی تھی کیونکہ طاہر اکلوتا تھا اِس کے والدین کی آنکھوں کا تارا تھا کوئی بھی خواہش ابھی طاہر کے ہونٹوں پر ہوتی کہ والدین اُس کو پورا کر دیتے بچپن سے جوانی تک جو طاہر نے مانگا چاہا والدین نے دولت کے بل بوتے پر حاضر کر دیا اسطرح طاہر کی زندگی میں ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں زندگی اپنے تمام تر خوبصورت رنگوں ذائقوں سے حالت رقص میں تھی والدین کی بے پناہ دولت معاشرت میں بلند مقام معاشرتی وسائل اقتدارکے ایوانوں تک رسائی طاہر کے منہ سے جو نکلتا والد صاحب پورا کرتے اسطرح طاہر انکار غم پریشانی الجھن دکھ غم ناکامی کے لفظوں سے واقف ہی نہیں تھا

 

 

پوری دنیا اُس کے ابروئے چشم پر تھی ملازموں کی فوج اور والدین کے وسائل اُس کے اشاروں پر ناچتے تھے لیکن پھر طاہر کی زندگی میں بہت جان لیوا حادثہ اسطرح ہوا کہ ایک رات باپ کو دل کا دورہ پڑا اور وہ بیڈ پر ہی خالق حقیقی سے جاملا ہسپتال یا ڈاکٹر کے پاس جانے کا بھی موقع نہ مل اب طاہر جو غم دکھ سے نا آشنا تھا اُس پر تو قیامت ہی ٹوٹ پڑی اُس کے لاڈلے باپ کو اُس کے سامنے منوں مٹی کے نیچے دبا آئے یہ پہلا کام تھا جو طاہر کی مرضی کے الٹ ہوا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اُس کی زندگی میں کبھی غم یا انکار بھی ہو گا اُس نے تو دولت کے بل بوتے پر زندگی کی ہر نعمت عیاشی خرید رکھی تھی لیکن یہاں پر اربوں روپے بھی ناکام نظر آتے جب وہ ساری دولت دے کر بھی باپ کی سانسیں واپس نہیں لا سکتا تھا اُس کے دماغ نے والد کی موت کو ماننے سے انکار کر دیا وہ بار بار کہتا مجھے میرا والد زندہ حالت میں چاہیے میں اپنے باپ کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتا سوچ سوچ کر طاہر کا دماغ شل سا ہوگیا طاہر کو زندگی بھر ہر مسئلے کا حل نکالنا آتا تھا یا والد صاحب ہر پریشانی کا حل نکال کر دیتے تھے یہاں وہ بار بار سوچ رہا تھا لیکن والد صاحب کی واپسی کا کوئی حال راستہ نہیں تھا زندگی میں پہلی بار انکار اور حل نہیں مل رہا تھا یہ طاہر کے لیے ناقابل برداشت تھا سوچ کر پاگل سا ہو گیا پھر تنگ آکر خود کشی کی بھی کو شش کی لیکن بچ گیا اب وہ مسلسل غم میں رہنے کی وجہ سے شدید ڈپریشن کا شکار ہو گیا اب زندگی کی ہر خوشی اُس کو دکھ دیتی لہذا اُس نے خوشیوں سے منہ موڑ کر اندھیروں اور غموں کو گلے لگا لیا خود کو ایک کمرے میں بند کر لیا سب سے ملنا جلنا بند گھر سے نکلنا بند ایک اندھیرے کمرے کا قیدی ہو کر رہ گیا

 

اب والد ہ اور ملازمین نے مختلف ڈاکٹروں کو گھر بلانا شروع کر دیا دولت کے بل بوتے پر ملک کے بڑے سے بڑے ڈاکٹر کو گھر بلایا جاتا لیکن مہنگے تجربہ کار ڈاکٹروں سے بھی کوئی حل نہ نکلا اور طاہر ایک کمر ے کا قیدی بن کر رہ گیا ڈاکٹروں نے مایوس ہو کر ا ب تمام لوگ جس طرح جادوٹونے آسیب نظر بد کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ طاہر پر کوئی جادو یا نظر بد ہو گئی ہے لہذا عاملوں بابوں کی چاندی ہو گئی مختلف بابے ملنگ اپنی اپنی شعبدہ بازی کرتے دولت لوٹ کر رفو چکر ہو جاتے جب مختلف بابے بزرگ طاہر کے خاندان سے لوٹ مار میں مصروف تھے تو شہر کے مختلف بابوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا جن میں مجھ فقیر حقیر پر بھی نظر آگئی لہذا ایک دن طاہر کا ملازم خاص میرے پاس آیا کہ میرے سیٹھ صاحب بیمار ہیں آپ میرے ساتھ چلیں میں نے انکار کیا کہ اُس کو یہاں لے کر آؤ تو ملازم نے کہا وہ کمرے کا قیدی ہے آپ منہ مانگی رقم لیں اور اُس کمرے تک چلیں جہاں وہ قید ہو کر رہ گیا میں اپنی زندگی میں بہت مصروف تھا میں ٹال مٹول سے کام لیتا رہا لیکن ملازم روزانہ لگا تار میرے پاس آتا رہا جب میں نہ گیا تو ایک دن طاہر کی والدہ ملازم کے ساتھ آئی اور جھولی پھیلا کر بولی پروفیسر صاحب خدا کے لیے میرے ساتھ چلیں شاید اللہ تعالی آپ کی کو شش میں برکت ڈال دے لہذا میں طاہر کے کمرے میں پہلی دفعہ گیا اُس نے مجھ پر بلکل بھی توجہ نہ دی تو میں نے طاہر کے والد صاحب کے قصے باتیں شروع کر دیں تو طاہر میری طرف متوجہ ہو ا تیسری ملاقات میں طاہر تھوڑا سا بولنا شروع ہوا تو میں نے کہا میں اُس کے والد صاحب کی قبر پر دعا کے لیے جانا چاہتا ہوں لہذا ہم گلاب کے پھولوں کے ساتھ والد کی قبر پر گئے تو میں نے طاہر سے کہا قبر پرپھولوں سے I LOVE Uلکھو تو طاہر نے لکھا اور بہت خوش ہوااب ہم ریگولر والد صاحب کی قبر پر جاتے طاہر نارمل ہو نا شروع ہو ا یک دن بولا میں کیا کام کروں کے والد صاحب خوش ہو جائیں تو میں نے کہا غریبوں کو کھانا اور راشن دیا کرو تاکہ رب ابو پر مہربان ہو جائے اُس دن سے طاہر نے راشن اور لنگر دینا شروع کیا اور پھر آہستہ آہستہ ڈپریشن سے نکل کر نارمل ہو تا گیا اب رمضان کی آمد ہوتی تو ہمیشہ کی طرح اُس کا فون آیا پروفیسر صاحب کہاں راشن تقسیم کر تا ہے کیسے کر نا ہے اِسطرح طاہر موت کے اندھیروں سے زندگی کے اجالوں کی طرف واپس آگیا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
87028