Chitral Times

Apr 27, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

خوشحالی سے بدنامی تک – میری بات:روہیل اکبر

Posted on
شیئر کریں:

خوشحالی سے بدنامی تک – میری بات:روہیل اکبر

آزادی کے بعد بے سروسامانی کی حالت میں پاکستان کا ٹیک آف انتہائی شاندار تھا جس تیز رفتاری سے ہمارا ملک ترقی کررہا تھا وہ قابل رشک تھا شاہ ایران ہر دوسرے ماہ پاکستان کا دورہ کرتے تھے اور پاکستان کی ترقی کو حیرت سے دیکھتے تھے پہلی عالمی آواز بھی پاکستان کی ہی دنیا میں گونجی تھی شام اردن اور مصر کی سفارت کاری آزادی اور بحالی میں بھی پاکستان کا اہم کردار تھا سعودی عرب میں 1970 تک پاکستان سے زکوۃ جاتی تھی اور سعودی شہری خانہ کعبہ میں پاکستانیوں کے رزق میں اضافے کے لیے دعائیں کیا کرتے تھے یو اے ای کی ترقی میں بھی پاکستان کا اہم کردار تھا دنیا کی چوتھی بہترین ایئر لائن ایمریٹس کراچی سے شروع ہوئی تھی ہم نے انہیں جہاز بھی دیا تھا اور عملہ بھی مالٹا کے بچوں کے سلیبس میں پی آئی اے کا پورا ایک باب ہے جسے اب ہم بیچنے کے لیے پر تول رہے ہیں سنگاپور ایئر لائن اور پورٹ دونوں پاکستانیوں نے بنائی انڈونیشیا اور ملائشیا کی اشرافیہ کے بچے پاکستان میں پڑتے تھے ملائشیا کا آئین تک پاکستانی وکلا نے لکھا تھا

 

جنوبی کوریا کی گروتھ میں محبوب الحق کے پانچ سالہ منصوبے کا اہم کردار تھا بھارت پاکستان سے بجلی خریدتا رہا اور منمون سنگھ نے شائننگ انڈیا کا پورا منصوبہ پاکستان سے لیا تھا دنیا کی تین بڑی انجینئرنگ فورمز نے 1960 کی دہائی میں کنسریشیم بنا کر منگلہ ڈیم دیکھا تھا اور ہارورڈ یونیورسٹی کی انجینئرنگ کلاس کے طالب علم جہاز بھر کر مطالعہ اور مشاہدے کے لیے منگلہ آتے تھے اور اس منصوبے کو حیرت سے دیکھتے تھے مسلم دنیا کے فوجی افسر پاکستانی اکیڈمیوں میں ٹرینڈ ہوئے اور بعد ازاں اپنے اپنے ملکوں میں آرمی چیف بنے یو اے ای کے حکمران زید بن سلطان النہان 1970 کی دہائی تک پاکستان کے دورے پر آتے تھے تو ان کا استقبال کمشنر راولپنڈی اور ڈی جی خان میں ڈپٹی کمشنرکیا کرتے تھے ہمارے وزیر بھی ایئرپورٹ نہیں جاتے تھے اور سب سے بڑھ کر 1961 میں جب ایوب خان امریکہ کے دورے پر گئے تو پوری امریکی کابینہ نے صدر جان ایف کینیڈی سمیت ایئرپورٹ پر ان کا استقبال کیا جہاں سے صدر ایوب خان ایئرپورٹ سے وائٹ ہاؤس کھلی گاڑی میں گئے اور سڑک کے دونوں سائیڈوں پر امریکی عوام پھول لے کر کھڑے تھے جوپاکستان زندہ باد اور ویلکم ویلکم کے نعرے لگا رہے تھے بات صرف یہاں تک ہی نہیں تھی بلکہ ابھی حیرت کے پہاڑ اور بھی ہیں ایک ایساشاندار وقت بھی پاکستان نے دیکھا ہے جب دنیا حیرت سے اس کی طرف دیکھتی تھیں جب پاکستان جرمنی اور جاپان جیسے ملکوں کو قرضے اور امداد دیتا تھا

 

ہماری اسٹیل مل اپنے عروج پر تھی ہماری انڈسٹری کا پہیہ گھوم رہا تھا کاٹن انڈسٹری میں جان تھی لوگوں کے پاس روزگار تھا ہنر مند لوگوں نے محنت مشقت سے اپنی ذاتی فیکٹریاں لگانا شروع کردی تھی اور کراچی روشنیوں کا شہر بن چکا تھا لاہور میں امن،سکون اور خوشحالی کا راج تھا لیکن پھر اس ملک پر ایک ایسا دور آیا کہ ملک کنگال اور حکمران دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل ہونا شروع ہوگئے دنیا بھر میں انکی جائیدادیں اور کاروبار پھیلنا شروع ہوگئے اور ہمارے قومی ادارے تباہ حال ہوکر ڈیفالٹ کرگئے کراچی اسٹیل مل بند کردی گئی ،عوام بے روزگار اورملک بھر کی انڈسٹری بند ہوتے ہوتے بند ہوگئی ملک مقروض ہوگیااور ہم اپنا قرضہ کی قسط دینے کے لیے مزید قرضہ لینے پر مجبور ہوگئے ہمارے حکمران ایک ارب ڈالر کے لیے دنیا کے دروازے پر بھکاری بن کر بیٹھ گئے وہی ملک جسکے صدر نے ائر پورٹ پر ہمارے صدر کا استقبال کیا تھا اسی ملک کے ائر پورٹ پر ہمارے وزیر اعظم کے کپڑے تک اترواکرتلاشی لی گئی اور دنیا نے نفرت ہمیں دیکھنا شروع کردیا ایک وقت تھا جب ہم ویزے کے بغیر پوری دنیا میں سفر کرتے تھے اور آج یہ وقت بھی ہم نے دیکھ لیا ہے کہ جب ہمیں افغانستان کے ویزے کے لیے بھی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے

 

بھارت ہمیں ویزہ ہی نہیں دیتا اور یورپ والے ہمیں منہ نہیں لگاتے دنیا کا کنگال سے کنگال ملک بھی پاکستانیوں کے لیے ویزے کی سہولت دے تو وہاں جانے کے لیے بھی لوگوں کی لائن لگ جائیگی سعودیہ،دبئی،مسقط اورقطرمیں لاکھوں پاکستانی مزدوری کررہے ہیں جو کئی کئی سال سے اپنے گھروں کا منہ نہیں دیکھتے انکے والدین اور بیوی بچے انکی شکل دیکھنے کو ترس گئے ہیں لیکن وہ کام میں ایسے پھنسے ہوئے ہیں کہ گھر واپسی کا راستہ بھول چکے ہیں اس لیے کہ انہی کی محنت و مشقت کے زریعے انکے گھر کا چولہا جلتا ہے انکے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں اگر وہ واپس پاکستان آگئے تو پھر انکا حشر بھی ہمارے عامپاکستانیوں جیسا ہو جائیگا ایسا کیوں ہوا کیا کبھی ہم نے سوچنے کی زحمت کی ہے ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہم نے بڑی محنت اور جدوجہد سے اس ملک کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے مگر سوال پھر بھی وہی ہے کہ کیا ہمارے پاس واپسی کی کوئی گنجائش ہے تو جی ہاں ابھی بھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلاخوش قسمتی سے ہم تاحال ایک قوم ہیں اور ہمارا جغرافیا بھی بحال ہے

 

 

لہذا ہم آج اگر نیند سے جاگ اٹھیں اور اپنے حال پر رحم کریں تو ہم چندبرسوں میں دوبارہ اس لیول پر ا ٓسکتے ہیں جس پر ہم دوسرے ملکوں کو امداد اور قرضے دیاکرتے تھے کیونکہ ہمارے پاس زرخیز زمین ہے،معدنیات سے مالا مال پہاڑ ہیں خوبصورت گلگت بلتستان ہے دل کو موہ لینے والے نظاروں والاجنت نظیر کشمیر ہے لیکن اس کے لیے ہمیں ٹھگ قسم کے حکمرانوں سے جان چھڑوانا ہوگی پڑھی لکھی،باشعور اور محب وطن قیادت کو آگے لانا ہوگا جنکی دنیا میں تو کیا پاکستان میں بھی جائیدادیں نہ ہو ں اعجاز قریشی،محی الدین وانی،طاہر رضا ہمدانی،طاہر انوار پاشااورخواجہ احمد حسان جیسے افراد کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نہ صرف اہم ذمہ داریاں دی جائیں بلکہ انہیں مکمل آزادی بھی دی جائے کہ آپ نے ملکی اداروں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے ملک کو خوشحال بنانا ہے بچوں کو عملی تعلیم سے روشناس کروانا ہے اگر ایسا نہیں کرسکتے تو پھر خدارا پی آئی اے کو بیچنے کی بجائے خواجہ اکبر یا بجاش نیازی کو ٹھیکہ پر دیدیں جنہوں نے فیصل موورز اور نیازی بس سروس کو ایک ٹرمینل سے بڑھاتے بڑھاتے پورے ملک کے شہروں تک پھیلا دیا ہے ہمارے قومی ادارے ہمارا اثاثہ ہیں انہیں ترقی دینے کے لیے ترقی پسند لوگوں کو آگے لائیں نہ کہ انکی نجکاری کرنے والوں کو براجمان کریں پاکستان ہمارا ملک ہے اور اسے ہم نے ہی لیکر آگے جانا ہے بس ہمت،جرات اور حوصلے کی ضرورت ہے ورنہ گھر کی چیزیں بیچتے بیچتے ایک دن کہیں خدانخواستہ پورا گھر ہی نہ بیچنا پڑجائے اب بھی وقت ہے گذرگیا تو پھر واپس نہیں آئے گا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
86504