Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

زندگی ….. خاموشی کی طاقت….تحریر: امیر افضل خان اپر چترال

شیئر کریں:

حقیقی اور سچی ذہانت خاموشی کے میدان میں ہی نظر آتی ہے ، مثلاً ایک درخت کے  بے شمار کونپل ایک ساتھ   پھوٹتے ہیں    اور پتوں میں تبدیل ہوتی ہیں پھر شگوفے  کھلتے ہیں    ایک  طویل    سرگرمی  مرحلہ وار  وقوع پذیر ہوتی ہے  اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے    اگر چہ  باطنی طور پر ایک عظیم سرگرمی ہے کیوں کہ زندگی  تخلیق  ہو رہی ہوتی ہے   لیکن سکوت  اور خاموشی کے ساتھ    یہی درخت جب کٹ کے گرتا  ہے  تو  آس پاس کے ماحول  میں اشتغال و ارتعاش   پیدا ہوتی ہے  ۔  درخت کے کونپلوں کے کھلنے  کی مثال خاموشی کی ہے  جہاں کام کی نوعیت  بڑی ہوتی ہے لیکن شور و غوغا نہیں ہوتا ۔   خاموشی ذہنی آسودگی کا ضامن ہے – کسی بھی انسان کو خاموشی اور تنہائی میں زندگی کے انمول خزانے  مل جاتے ہیں ۔ خاموشی  انسان کے اندر جب متحرک ہو جاتی ہے تو ذہانت  جنم لیتی ہے ،  فہم و فراست ، ادراک ، دانشمندی اور تخلیق کی طاقت پیدا ہوتی ہے  جبکہ شور کی حرکت میں تخریب ہوتی ہے ۔ جہاں  تخریب ہوتی ہے وہاں شور ہوتا اور جہاں شور ہوتا ہے  وہاں زندگی  جمود کا شکار ہوجاتی  ۔  جہاں خاموشی ہوتی ہے وہاں  سلیقہ مندی ہوتی ہے اور زندگی ہر رنگ میں متحرک ہوتی ہے  ۔خاموشی وہ مقام ہےکہ جہان پہنچتے پہنچتے انسان قدرت کے سر بستہ  رازوں کا پردہ چاک  کر دیتا ہے ۔ جب انسان کے اندر  تخلیقی صلاحیت پیدا ہوتی ہے   تو وہ مسائل کے انوکھے حل دریافت کر لیتا ہے۔ خاموشی   در اصل ہمارےاندر موجود ایک اعلیٰ ذہانت کا نام ہے  ۔کائینات میں خاموشی وہ واحد چیز ہےجس کی کوئی شکل نہیں ہوتی  جسکا کوئی حلیہ  نہیں ہوتا ۔  ہم اس کی مثال ایک درخت سے  لیکر   گفتگو جاری رکھتے ہیں ۔ فرض کریں آپ کسی درخت کو دیکھ رہے ہیں، آپ کی آنکھ درخت کی ہییت کو دیکھ سکتی ہے، آپ کے کان ہوا سے ہلتے  ہوئےاس کی پتوں کی پیدا کردہ آواز کو سن سکتے ہیں، آپ کی ناک اس کے پھولوں کی خوشبو کو سونگھ سکتی ہے ۔ مگر وہ کون ہےجو اس درخت میں موجود خاموشی کو محسوس کر رہا  ہوتا ہے ؟ اس  سوال کا جواب   باہر نہیں ملتا بلکہ اندر  ملتا ہے  ۔  اس سوال کا جواب  آپ کے وجدان سے حاصل ہوتا  ، یہ ایسا سوال ہے کہ  جسکا جواب تم خود ہو ۔ کیونکہ تم ہی ہو جو اُس درخت کی خاموشی کو  سن سکتے ہو اور محسوس کر سکتے  ہو۔یہی صورت سمندر کی ہے  ۔ ندی اور دریا کے پانی میں کتنا شور ہے جبک سمندر خاموش ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے

                                                     ؎                      میں نےسمندر سے سیکھا ھے جینے کا سلیقہ چپ چاپ سے بہنا اور اپنی موج میں رہنا –  خاموشی وہ سمندر ہے جس میں لفظوں کی مچھلیاں جنم لیتی ہیں، خاموشی وہ کوکھ ہے جس سے لفظ جنم لیتے ہیں ۔ چیخ و پکار انسان کے وقار میں کمی کا باعث بنتی ہےخاموشی کے اندر  قابو کرنے کی اعلیٰ صلاحیت موجود ہوتی ہے   یعنی  آپ اپنی خاموشی سے  کائینات کی ہر شئے پر  گرفت مضوط کر سکتے ہو ۔ جو خاموشی کو جان لیتا ہے، وہ لفظوں کو درست طور پر سمجھ لیتا ہے۔ جو کم بولتا ہے وہ قدرت کی تقلید کرتا ہے  ، جب آپ فطرت کی منشا پر چلتے ہو تو گویا آپ   خدا کے قریب ہو جاتے ہو اور جب کوئی خدا کے بہت قریب ہوتا ہے  تو ایسا لگتا ہے کہ کائینات اُن کی منشا کے مطابق متحرک ہے ۔کیوں کہ  وہ انسان فطرت کا ہمراز ہوتا ہے ۔ ارشاد خدا وندی ہے”کہ خدا تمہاری شہ رگ سے بھی قریب  تر ہے”  خاموشی کی آواز روح کو سرشار کر دیتی ہے وہ فطرت کی آواز ہوتی ہے، وہ خاموشی جو باطن کی دنیا میں ہوتی ہے ظاہری دنیا میں اس کا  تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا  ہے۔ جب باطنی سکوت سے تمہارا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے، تو جان لو کہ خود تمہارا تم سےناطہ ٹوٹ چکا ہے جب تمہارا خود سے رابطہ ٹوٹ جاتا ہے تو انسان بے  بسی و بے کسی کا شکار ہو جاتا ہے  ۔انسان ایک بے سہارا تنکے کی مانند ہو جاتا ہے  ، لہروں کی مرضی ہوتی ہے جہاں چاہیں لے جائیں ۔ ہم اس حقیقت کو  حالیہ  وبا ٔ کے تناظر میں بھی پرکھ سکتے ہیں ۔کرونا وائیرس ( کوؤڈ- 19) کی وجہ سے ظاہری  دنیا کا  شو رو غُل جو کائینات کے ماحول کو  بڑی حد تک متاثر کر رکھا تھا  ، ا ایک ناقص مخلوق ” کرونا وائرس” نے ملیا میٹ اور تاخت و تاراج کر کے بہ زور بازو خاموش کرایا ۔   فطرت کی خاموشی میں آواز کا کلیدی  کردار  ہوتا ہے جو دکھائی نہیں دیتا ۔ آواز کے اُس کلیدی کردار نے اقوام عالم کو  سبق  سکھایا اور للکار کر  تنبیہ کی کہ  اے انسان تو جو اپنے آپ کو دنیا کے ہر سفید سیاہ کا مالک سمجھ بیٹھا ہے حقیقت  اس کے بر عکس ہے ۔ اقبال نے شاید انسان کی اس گھمنڈ  پر طنز فرمایا تھا   کہ                                                          ؎                                                 جس نے سورج کی شُعاعوں کو گرفتار کیا           زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا!

حالیہ  بے بسی و بے چینی سے نجات اپنے آپ کو پانے  ، اپنے آپ کو سمجھنے اور اپنے  اندر جھانک کر اپنے آپ سے  رابطے میں مخفی ہے ۔ ہر انسان کا اصل وجود  اُسکی  ذات کے مرکزے میں ہوتا ہے ۔ گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان اپنے جسم  اور اناکے  پردں  میں  چھپا ہوا ہے   ۔ انسان کی بنیادی فطرت جھیل کی گہرائی جیسی ہےجو ساکت ہوتی ہے، چاہے جھیل کی سطح پر جتنی بھی اونچی اونچی لہریں کیوں نہ  اٹھ رہی ہو ں مگر جھیل کا باطن یعنی گہرائی ساکت ہوتی ہے۔ انسان کے  اندر بھی ایک گہری خاموشی موجود ہے مگر تم اسے دیکھ نہیں سکتے ہو یہ گہری خاموشی حقیقت میں تمہاری ذات ہے  جو جھیل کے اوپر  برپا ہونے والے طوفانوں    کو قابو میں  رکھنے کی قوت  ہے   یہ گہرائی وہ مقام ہے جہاں سے دِماغ کو سوچوں کی ترسیل ہوتی ہے۔تم جسم نہیں، تم دماغ نہیں، تم وہ آگہی اور  وہ شعور ہو جس کی  کوئی شکل نہیں، جس کا کوئی نام نہیں اور یہ آگہی ساکت ہے۔ اقبال نے اس فلسفے  کو یوں بیان  فرمایا ہے

؎ عشق کی تقویم میں عصر رواں کے سوا     اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام                               

یعنی عشق کے کلینڈر  اور عشق کے حساب کتاب  میں  اِس زمانے اور اس زندگی  کے علاوہ  بھی زمانے     اور زندگی موجود ہیں کہ جن کا  کوئی نام نہیں اور جن کی کوئی ہییت   جو کہ  پہناں ہیں  ۔حکیم ناصر خسرو  نے گلاب کی شاخ کی مثال پیش کی ہے۔ فرماتے ہیں گلاب کے پھول میں شاخ کے ساتھ کانٹے بھی ہوتے ہیں جو ہوا چلنے سےشور کرتےہیں پھر اس میں غنچے نکل آتے ہیں وہ بھی شور کرتےہیں لیکن ظاہری کان سےاُن کی آواز سنائی نہیں دیتی اسکے بعد پھول کھلتےہیں ،پھول نظر آتے ہیں لیکن اس میں شور نہیں ہوتا ہے، پھر پھول سے خوشبو کی مہک آتی ہے، جو سونگھنے سے محسوس تو ہوتی ہے لیکن نظر نہیں آتی شور بھی نہیں کرتی  یہی اصل طاقت  اور اصل حقیقت ہے ۔ یہی وہ زندگی اور یہی وہ زمانہ ہے جو عشق کی دنیا میں قدم رکھنے سے ہی حاصل ہوتی ہے ۔مولانا رومی اپنے مثنوی میں فرماتے ہیں کہ اخروٹ کی گری جب چھلکے میں ہے تو وہ بجتا ہے جب چھلکا ٹوٹ جائے تو پھر وہ آواز جو چھلکے کے ساتھ تھی ختم ہو جاتی ہے۔ اخروٹ کی گری بھی  اگرچہ آواز رکھتی ہے لیکن ظاہری کان اُس آواز کو سننے کے متحمل نہیں ہو سکتے ،  البتہ اُس آواز کی سرسراہت کو سننے کے لیے دل کے کان  کی ضرورت ہوتی ہے ۔، پھر اخروٹ کی گری کو تیل بننے تک کا سفر کئی ایک مشکل مراحل سے گزرنے کے بعد  طے ہوتا ہے  یہی مثال انسان کی ہے کہ جسے حقیقت کی منزل تک پہنچنے کےلیے آزمائشوں سے گزرنا ہوتا ہے ۔کہیں کُٹ جاتا ہے ،کہیں ٹوٹ جاتا ہے ، کہیں جڑ جاتا ہے یوں اپنی حقیقی منزل سے ہمنکار ہوتا ہے  اور یہ حقیقی منزل  اخروٹ کی گری سے کشید ہونے والے تیل میں موجود  وہ طاقت ہے جو نظر نہیں آتی لیکن  انسان کو توانائی   بخشتا ہے اور تیل کے اندر  موجود  یہ  طاقت  ظاہری آنکھ سے کبھی بھی  نظر  نہیں آتی ۔  اس طویل سفر میں صرف اور صرف خاموشی ہے جو انسان کےلیے مشغل راہ بن جاتی ہے اور اندھیروں میں راہ دکھاتی ہے ۔    لاؤ تسو ( چوتھی صدی قبل مسیح )کہتا ہے کہ کائینات کی حقیقی فطرت ہم اہنگی پر مبنی ہے،اس کائینات کی فطرت کی باطن میں سکون ہے، خاموشی ہے، ٹھہراؤ ہے، خوشی ہے، مسرت ہے۔ انسان کی بنیادی فطرت سکوت ہے یعنی سکون اور مسرت انسان کی بنیادی حالتیں ہیں۔ خاموشی کہ جو  بےوجود سہی ، بےہیئت سہی مگر یہی بے ہیئت ذہن و احساس سے ماورا صداقت ہے جس سے ہر ہیئت کو زندگی ملتی ہے ۔ ہر چیز کی سانس ہے یہی حتمی صداقت ہے،  یہی  ہرشئے کی حقیقت  کا آغاز ہے۔

 لاؤتسو کے مطابق وہ یہ سب کچھ اس لئے جانتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے اندر جھانک چکا ہے ۔کبھی آپ نے خاموشی کو سنا ہے، کبھی دو سوچوں کے درمیان موجود وقفے کی طرف توجہ دی ہے ؟  جب  آپ انا اور شخصیت سے ماورا ہوکر زندگی سے ملتے ہیں تو یہ وہ چیز ہے جو آپ کو حقیقی معنوں میں انسان بنا دیتی ہے  کیوں کہ  آپ میں موجود ہستی وہ حقیقت ہے جو آمن کو جانتی ہے اور امن کو چاہتی ہے ، سکون کو جانتی ہے، خاموشی کو جانتی ہے، محبت کو جانتی ہے اور چاہتی ہے۔ فرض کر لیجئے کہ ایک جھیل ہے جس میں لہریں تخلیق ہوتی ہیں اگر جھیل خود کو لہریں ہی سمجھ لے تو آپ کیا کہیں گے؟  یہی ہم انسانوں کا المیہ ہے ، ہم اپنی سوچوں کو اپنا آپ سمجھتے ہیں، حالانکہ سوچیں ہمارے وجود کی وجہ سے  جھیل میں اٹھی ہوئی لہروں  کی مانند ہیں،اور سراب سے زیادہ ان کی کچھ حقیقت نہیں ہے۔اس حوالے سے اکہارٹ ٹولے(1948) کہتا ہے، اگر آپ اپنے اندر موجود اس امن و سکون تک رسائی چاہتے ہو ، تو اس خاموشی کو سنیں جو لفظوں اور فقروں کے درمیان ہوتی ہے۔ خاموشی بولتی ہے، خاموشی کی آواز میں شور نہیں ہے۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے

خاموشی میں آواز کا کردار کوئی ہے

جو بولتا ہی رہتا ہے لگاتار کوئی ہے

اس خاموشی کو توجہ کا مرکز بنائیے جو دو خیالات دو سوچوں کے درمیان موجود ہوتی ہے، خاموشی وہ جھیل ہے جس میں یہ لہریں پیدا ہوتی ہیں جب آپ اس خاموشی کے ساتھ ایک ہو جاتے ہیں تو پھر آپ کا تصوّر غلطیوں سے ماورا ہو جاتاہے اور انسان اور حقیقت اُس پر افشا ہوتی ہے ۔ غیر مرئی حالات  کا شعور پانا ہی اصل میں وہ ہتھوڑا ہے جو انسان اور خدا کے درمیان موجود دیوار کو توڑ دیتا ہے۔مراقبے  کی اہمیت بتانے والے اکثر یہ مشورہ دیتے ہیں  کہ اپنی سانس پر توجہ دیں ، جب آپ سانس کےاندر جانےاور سانس کے باہر آنے پر توجہ دیتے ہیں تو اُس وقت آپ کا رابطہ اُس خاموشی سے ہوتا ہےجو سانس کے اندر جانےاور سانس کے باہر آنے کے درمیان موجود ہوتی ہے ، یہی وہ مقام ہے کہ جہاں سے آپ کا رابطہ ظاہر و موجود دنیا سےنکل کر مخفی دنیا سے ہوتا ہے اور تب اعلی تر شعور پیدا ہوتا ہے۔ دنیا کے ہر انسان میں شعور کی ایک گہری سمت موجود ہے جو سوچوں سے کہیں گہری ہے، اور شعور کی یہی گہری سطح اصل میں  آپ ہی ہیں ، یہی آگہی یہی شعور ہی وہ میدان ہے جس میں یہ سوچ ، خیالات اور جذبات واقع ہوتے ہیں ۔ خاموشی کوئی چیز نہیں ہے،یہ ضروری بھی نہیں کہ خاموشی کے لیے ظاہر کی دنیا خاموش ہوجائے، کیونکہ اگر آپ اصل حقیقت سے جڑے ہونے کی لذت سے آشناء ہیں، تو آپ شدید شور میں بھی باطنی طور پر خاموش رہ سکتے ہیں ۔ حقیقت آواز نہیں حقیقت خاموشی ہے۔ آواز پیدا ہوتی ہے، جب کہ خاموشی اس فضاء میں پہلے سے  موجود ہوتی ہے اور ہمیشہ رہتی ہے  ۔خلاء اور خاموشی حقیقت  میں اپنا وجود رکھتی ہیں ۔ آپ کے اندر کا شعور اس خاموشی سے آگاہ ہے۔ جیسے ہی آپ اس خاموشی کی آگاہی پا لیتے ہیں تو اس وقت آپ باطنی طور پر پرسکون ہوجاتےہیں ۔ خود اور خدا کے درمیان جو پردہ ہے، وہ یہی شور ہےیہی دماغ کی تراشی دنیا ہے۔ دنیا میں موجود انسانوں کی اکثریت ان کی  ہے جو اپنی  سوچ اور خیالات کے بنائےہوئےقید خانوں میں قید و صعوبت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔جب آپ اپنے اندر موجود اس “خود” کی شناخت کرتے ہیں  تو اس انا سے آزاد ہو جاتے ہیں  جب تک آپ اس انا سے آزاد نہیں ہونگے تب تک آپ کی زندگی میں محبت، خوشی، تخلیقی وسعت اور اندر کا سکون کبھی نہیں آسکے گا۔آپ ایک نو مولود بچے کو دیکھو، کیا وہ اُن مسائل سے الجھ رہا ہے جو اُن کے والدین کو درپیش ہیں  ۔  معصوم اور سچے اذہان ہمیشہ خاموشی سے اپنے حصے کا کام کرتے ہیں ۔سچی ذہانت خاموشی سے کام کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ   عبد لاستار ایدھی اور مدَر ٹریسا  جیسی نابغہ  روزگار شخصیات  خاموشی سے لوگوں کی خدمت  کیا کرتی تھیں اور یہ ہے خاموشی کی طاقت ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
44675