Chitral Times

May 2, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ذرا سوچئے – عورت – تحریر: ہما حیات سید

Posted on
شیئر کریں:

ذرا سوچئے – عورت – تحریر: ہما حیات سید

ایسے معاشرے میں رہ کر جہاں دو مرد اگر جھگڑ رہے ہوں تو گالی عورت کو دیتے ہیں کچھ تحریر کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ ہر الفاظ لکھتے ہوئے دس مرتبہ سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں میری بات معاشرے کے محافظوں کے لیے ناقابل برداشت تو نہیں کیونکہ جہاں حلوہ لکھا ہوا قمیض پہننے پر اپ کو ہراساں کیا جاتا ہے وہاں اپنی بات کہنا کافی بھاری پڑ سکتا ہے۔

8 مارچ عورتوں کا عالمی دن ہے۔ اس دن ان خواتین کا دن منایا جاتا ہے جو ماں، بہن، بیٹی، بیوی، بہو ہوتے ہیں۔ اج انہیں سراہا جاتا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے لیکن صرف منہ زبانی۔ اب اگر اتنی باتیں ہو رہی ہیں تو ہم بھی ہمت کر کے تھوڑی سی زبان درازی کر لیتے ہیں۔

 

ہمارے معاشرے میں جب بھی عورت کی بات ہوتی ہے تو اسے ناقص العقل کہا جاتا ہے۔ وہ دنیا داری کی باریکیوں کو نہیں سمجھ سکتی۔ وہ اپ کے گھر کے دال، چاول کا حساب تو رکھ سکتی ہے لیکن گھر کے فیصلوں میں وہ اپنی رائے پیش نہیں کر سکتی۔ عورت کو صنف نازک کہا گیا ہے اور شاعر اسے پھول، چاند، کلی وغیرہ سے تشبیہ دیتے ہیں لیکن اگر یہ صنف نازک ذرا سی ہمت کر لے اور مردوں کی شانہ بشانہ کھڑی ہو کر خود کو صنف اہن منوا لے تو یہ بیٹی، بیٹا جیسا ہے۔ یعنی اگر ایک بیٹی بہادر ہوتی ہے تو اس کا معیار یہ ہے کہ وہ بیٹا کہلاتا ہے۔ عورت اگر اولاد کو جنم دے تو ماں کہلاتی ہے لیکن اولاد کی نعمت سے محروم عورت کا مقدر صرف سوتن ہوتی ہے۔ دنیا میں سب سے پیارا رشتہ خیال رکھنے والی بہن کا ہوتا ہے لیکن یہ تب تک بہن ہے جب تک خاموش ہے۔ اگر وہ اپنے حق کے لیے اواز اٹھائے گی تو اس سے سارے رشتے ختم کیے جائیں گے اور کبھی کبھار غیرت کے نام پر اس کی زندگی بھی۔

 

رحمت بنا کر بھیجی گئی بیٹی بھی تب تک رحمت سمجھی جاتی ہے جب تک گھر میں اس کے بعد کوئی بیٹا پیدا نہ ہو۔ اگر خدانخواستہ یک کے بعد دیگر بیٹیاں ہوئی تو اس بیچارے پر منحوس ہونے کا ٹھپہ لگ جاتا ہے۔ دنیا میں عورت کے بہت سارے کردار ہیں اور ان کرداروں کے پھر بہت سارے روپ ہیں اور ہر کردار کے ہر روپ پر کیے جانے والے ظلم کو ایک تحریر میں بیان کرنا مشکل ہے۔ صرف وہی جس کا اپ کے ساتھ کوئی رشتہ ہو عورت نہیں ہے۔ راہ چلتی عورت بھی عورت ہی ہے، دفتر میں کام کرنے والی عورت بھی عورت ہی ہے، اپنے حق کے لیے اواز اٹھانے والی عورت بھی عورت ہی ہے، اپ کی عزت اور غیرت کی ذمہ داری لیے ہوئے عورت بھی عورت ہی ہے۔ لہذا صرف اج کے دن ہی نہیں، ہر دن ان عورتوں کی عزت کریں انہیں تحفظ دیں اور کوشش کریں کہ انہیں کوئی تکلیف نہ ہو۔

 

اگر اج  خواتین کی بات ہی رہی ہے تو ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ عورت کی ہاں اور نا دونوں کو اہمیت دی جاۓ۔ اج اگر عورت مرد کے سامنے نا کہ دے تو سمجھا جاتا ہے کہ وہ عورت نافرماں ہے اور سزا کی مستحق ہے۔ اگر یہی نا مرد کی طرف سے ہو تو یہ اس کی مرضی قرار دی جاتی ہے۔ کیا یہ تضاد تفرق پیدا نہیں کرتی؟ اگر کرتی ہے تو ہونا یہ چاہیے کہ عورت کی نا کو بھی اس کی مرضی اور رضا مندی سمجھا جاۓ۔

ایک اچھا معاشرہ تبھی تشکیل پاتا ہے جب ہر جنس کو اس کے حقوق کی برابر فراہمی مہیا کیا جاۓ۔ اگر اسلام کے حدود میں رہ کر بات کی جاۓ تو مرد اور عورت دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق سمجھنے چاہیے تا کہ کسی کی حق تلفی نہ ہو اور پھر ذرا سوچۓ۔۔۔ عورت کو مرد کے ساتھ برابری حقوق میں چاہیے ناکہ جنسی مشقت میں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
86043