Chitral Times

Mar 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بلدیاتی ادارے کے بھوت ملازمین – محمد شریف شکیب

شیئر کریں:

بلدیاتی ادارے کے بھوت ملازمین – محمد شریف شکیب

ؒہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق پشاور کے بلدیاتی اداروں کے 92ملازمین گذشتہ بیس سالوں سے دفاتر سے غائب ہیں جبکہ ان کی تنخواہیں ہر مہینے جاری ہوتی ہیں اور ہرسال تنخواہوں میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔لاپتہ ملازمین میں نائب قاصد، ڈرائیورز، مالی، کمپیوٹر آپریٹرز،الیکٹریشن،ہیلپرز، کٹھ قلی، مرد اور خواتین سویپرز، روڈ گینگ قلی اور واٹر ریٹ کلرکس شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ٹاون ون کے 55، ٹاون تھری کے 16جی اے ڈی کے 10فائر بریگیڈ کے چار اور دیگر اداروں کے ملازمین برسوں سے دفتر نہیں آئے۔ یہ تمام ملازمین سابق وزراء،اراکین اسمبلی،ناظمین، چیئرمینوں،ٹی ایم اوز، ایڈمنسٹریٹرز سیکرٹری لوکل کونسل بورڈ، چیف انجینئر، ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر، ٹھیکیدار اور قانونی مشیر کے گھروں پر کام کر رہے ہیں۔ اور سرکاری خزانے سے تنخواہ لے رہے ہیں۔ یہ اعدادوشمار ڈائریکٹر ایسٹ و ویسٹ زون اور ڈائریکٹر میٹروپولیٹن کی طرف سے جاری کئے گئے ہیں۔مراسلے میں کہا گیا ہے کہ شہریوں کو سہولیات کی فراہمی کے لئے افرادی قوت کی کمی ہے۔ کیونکہ ایک چوتھائی ملازمین بڑے لوگوں کے گھروں میں کام کرتے ہیں۔یہ صرف پشاور میٹروپولیٹن کا مسئلہ نہیں۔ تقریبا تمام سرکاری محکموں کا یہی حال ہے۔

 

بدقسمتی سے جو شخص جتنا بااثر ہوگا وہ اتنا ہی بدعنوان بنتا ہے۔ سرکاری ملازمین سے اپنے گھر کے کام کرانا بھی کرپشن کی سنگین قسم ہے۔ اپنے سیاسی اور مالی مفاد ات کے لئے قومی اداروں میں غیر قانونی بھرتیاں بھی کرپشن کے زمرے میں آتا ہے۔پاکستان سٹیل مل، پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز، پاکستان ریلوے اور دیگر ادارے ضرورت سے زیادہ بھرتیوں کے بوجھ تلے ڈوب چکے ہیں۔ سٹیل مل گذشتہ کئی سالوں سے بند ہے اور اس کے ہزاروں ملازمین گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں۔ حکومت کو ہر سال نقصان میں جانے والے سرکاری اداروں کو بیل آوٹ پیکج دینا پڑتا ہے۔انہی شاہ خرچیوں کی وجہ سے ہمارے ملک کی معیشت آج آخری سانسیں لے رہی ہے۔ وفاقی وزراء عوامی اجتماعات میں اعتراف کر رہے ہیں کہ ملک عملی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود ارباب اختیار کی عیاشیوں میں کوئی کمی نہیں آرہی۔ حال ہی میں حکومت کی طر ف سے قومی اسمبلی میں ایک تحریری جواب جمع کرایا گیا جس کے مطابق 25وفاقی وزراء کے غیر ملکی دوروں پر قومی خزانے سے 6کروڑ52لاکھ روپے کے اخراجات آئے ہیں۔

 

وفاقی وزراء کے یہ دورے کسی قومی ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے نہیں تھے۔ وہ سیر سپاٹے، اپنے بچوں سے ملنے، اپنا غم غلط کرنے اور میڈیکل چیک اپ کے لئے قومی خزانے کے خرچے پربیرون ملک گئے تھے۔ اس میں وزیراعظم اور وزیرخارجہ کے غیر ملکی دوروں کے اخراجات شامل نہیں ہیں۔ایوان کو بتایا گیا کہ وفاقی وزیر عبدالقادر پٹیل کے دورے پر ایک کروڑ چار لاکھ بیس ہزار، چوہدری سالک پر 37لاکھ، شیری رحمان کے دورے پر 49لاکھ، اسعد محمود پر 18لاکھ، نوید قمر پر 59لاکھ، زبیدہ جلال پر 9لاکھ، اسرار ترین پر26لاکھ، خواجہ آصف کے دورے پر 31لاکھ، خرم دستگیر پر 26لاکھ، مصدق ملک پر 35لاکھ اوراسحاق ڈار کے بیرونی دوروں پر 24لاکھ روپے خرچ کئے گئے۔دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار ملک کی وفاقی کابینہ میں وزراء، وزرائے مملکت، مشیروں اور معاونین خصوصی کی مجموعی تعداد ایک سو کے قریب پہنچ گیا ہے اگر ہر وزیر پر خرچ ہونے والی رقم اور ان کے صوابدیدی فنڈ کا حساب کیا جائے تو اربوں روپے بنتے ہیں۔

 

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اشرافیہ کو عوام کی کوئی فکر نہیں ہے۔ اس ملک کے حکمران اور اعلیٰ افسران اپنے مراعات میں کسی قسم کی کمی کے روادار نہیں۔ انہیں اس بات کی قطعی کوئی فکر نہیں کہ اس ملک کا مستقبل کیا ہوگا۔ موجودہ نگران حکومت غیر سیاسی لوگوں پر مشتمل ہے۔انہیں سرکاری خزانے پر بوجھ بننے والوں کا مکمل محاسبہ کرنا ہوگا اور اداروں میں تطہیر کرنی ہوگی۔آج سوشل میڈیا کا دور ہے۔ بہت سی چوریاں منظر عام پر آرہی ہے اور عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ایسا نہ ہو کہ عوام آپے سے باہر ہوجائیں اور ملک لوٹنے والوں کا خود محاسبہ کریں۔اگر وہ مرحلہ آگیا تو حالات پر قابو پانا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔


شیئر کریں: