Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بے آسرا بنت آدم – تحریر صوفی محمد اسلم

Posted on
شیئر کریں:

بے آسرا بنت آدم – تحریر صوفی محمد اسلم

ریاست کی ذمہ داری ہے ہر شہری کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کرے۔ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا یا ہوتی ہے تو ریاست کی افراد کے شمار میں ایک فرد کا اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح ریاست کی ذمہ داریوں میں بھی ایک ذمہ داری بڑھتی ہے۔ ریاست ہی اس نومولود بچے کا پہلا گھر اور اس کیلئے پناہ گاہ بن جاتی ہے۔ اس کیلئے قیام،طعام، تعلیم اور تربیت کی ذمہ داریاں ریاست پر ہوتی ہیں۔ ہر شہری کی بنیادی حقوق کا خیال رکھنا ایک فلاحی ریاست کے اولین فرائض میں شامل ہے ۔ یہ ایک شہری کے حقوق ہیں جو ریاست کو ہر لحاظ میں پورا کرنا ہے۔

جب بھی حقوق کی پامالی کی بات آتی ہے تو یتیم ولاوارث بچیاں سامنےآتی ہیں۔ سب سے زیادہ ان ہی کے سارے حقوق زائل کیے جاتے ہیں۔ چاہے والدیں کی طرف سے ہو ،معاشرہ ہو یا ریاست۔ نہ صرف انہیں نظر اندا کرتے ہیں بلکہ انکا جینا بھی دشوار بنایا جاتاہے۔ وہ اپنے گھر،والدیں سے دور ہوتے ہی ہیں ساتھ ساتھ انکی زندگی کے ہر راہ میں کانٹے بچھائےجاتے ہیں۔ جو کچھ والدیں اور رشتہ داروں سے ہوسکتا ہے وہ پہلے ہی کرتے ہیں ان کے جان لینے تک کے منصوبے بنائےجاتے ہیں اور لیتے بھی ہیں، بدقسمتی سے وہ بچ بھی جائے تو بقایا معاشرہ پُر کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انکے لئے خودکُشی یا عظمت فروشی کےسارےجواز یوں پورے کیے جاتے ہیں۔

بدقسمت لاوارث بچیاں جو پیدا تو ماں باپ کے ہوتے ہیں مگر ان کی بد قسمتی کا یہ عالم ہے کہ جنہیں مسکراتے ماں کے اغوش میں پلنا چاہئے تھی وہ گلی کے کسی ڈسٹ بین یا کسی کاٹن کے ڈبے میں گلے سڑے ملتی ہیں۔ جنہیں ماں باپ سے پیار ملنا تھا وہ ماں کی کوکھ سے نفرت سمیٹتی ہیں ۔ ماں باپ سمیت سارے قریبی لوگ انکے جان تک لینے کے درپے رہتے ہیں۔ جنہیں ماں کی دودھ کی ضرورت ہوتی ہے انہیں ماں کی چھائوں تک نصیب نہیں ہوتی ہیں۔ ماں کی تسلی کی ضرورت ہوتی ہے تو انہیں چمکتے دہکتے دھوب میں پھنک دی جاتی ہیں۔ انکے ماتھے پر حرام کا وہ مہر لگ جاتا ہے جنہیں نہ کوئی مٹا سکتا ہے نہ اسے اپنے حال میں جینے دیی جاتی ہے۔ قسمت سے کسی خداترس ایدھی کو مل جائےکم از کم زندہ رہنے کا بہانہ مل جاتی ہے۔اگر کسی بے حس درندے کے نظر میں آجائے تو زندگی گندگی میں لت پت رہ جاتی ہے اور یہی انکے مقدر بن جاتی ہے ۔

سوشل میڈیا میں ایک ویڈیو وائرل ہےجس میں ایسے ہی گندگی میں لت پت ایک بچی سے پوچھا جاتا ہے کہ تم اتنی گندہ ماحول میں کیوں رہتی ہو۔ ایک شہزادے کو کیا معلوم ہے کہ لاوارث ہونا اورایک بے سہارا لڑکی کو زندگی گزارنا کتنا مشکل ہے۔

اس سوال پر اُس بچی کی جو حالت ہوئی کسی باظرف شخض کے دیکھنے کے قابل نہیں ہے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے پنچھی پنجرے میں پھڑپھڑا رہی ہو ۔چہرےپر موت آلودہ مسکرہٹ سجائی ہوئی بے بسی میں ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔
مگر وہ لڑکا سوال دہراتا رہا کہ کچھ تو کہو تم یہ زندگی کیوں گزار رہی ہو۔

پہلے پہل تو لڑکی سوال نظر انداز کرتی رہی ۔ اس کی انکھں ادھر اُدھر گھومتے رہے جسے کہی پناہ تلاش کررہی ہیں۔آس پاس کھڑے لوگ بھی اس تجسس میں تھے کہ لڑکی کیا جواب دے گی۔ لوگوں کا کیا، جب موقع ملتا تو چھیڑ پھاڑنے آجاتے ہیں اور تفریح کا موقع ملے جمع ہوکر تماشا دیکھتے ہیں۔

جب لڑکی کو کوئی پناہ نظر نہیں ائی تو مجبور ہو کر جواب دینا ہی مناسب سمجھی۔ نم و نادم انکھیں افسردہ چہرہ بے بسی کے سارے داستاں یوں ہی سنارہے تھے۔پر سمجھنے والا کوئی نہیں تھا۔ زبان لڑکھڑا رہی تھی ذہن کشمکش میں مبتلا تھا کہ زندگی کے کونسے دن اور لمحے کا قصہ سنایا جائے۔وہ قصہ سنائوں جب ایک نوالہ روٹی کیلئے جسم کے فرمائش کیا گیا تھا یا وہ قصہ جب ماں باپ اپنے برائے نام عزت بچانے خاطر اسے گلی کے نالے میں پھنک کر چلے گئے تھے یا وہ قصہ جب ١٠سال کی عمر میں بلوغت کا سامنا کرنی پڑی تھی یا وہ قصہ کسی وزیر کے گھر میں چند پیسوں کی عوض رات بھر بھوکے درندوں کے سامنے ناچنی پڑی تھی۔

مگر اسے یہ بھی پتا تھی یہ لوگ،یہ کیمرہ،یہ میڈیا اور ان اُمرا کیلئے وہ ایک تفریح و تماشا سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔جتنی بھی رولوں گڑگڑائوں کسی کو کوئی فرق نہیں پڑنے والی۔
لڑکی: لڑکے کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ:ماں باپ کیا ہوتے ہیں؟
یہ سوال سن کر لڑکا نے مسکرایا اور کہا میں تم سے کیا پوچھتا ہوں اور تم الٹا مجھ سے سوال پوچھ رہی ہو۔
جب لڑکا کوئی جواب نہیں دیا تو خود لڑکی نے کہا!
کہ ماں اندھر ے میں روشنی اور باپ دہکتے دھوب میں چھائوں ہے۔جو میرے پاس نہیں ۔
ماں لڑکی زندگی کیلئےہ باد صبا ہے جو نازک پھولوں کو کو مہکاتی ہے اور باپ خوف میں لڑکی کیلئے پناہ ہے جو میرے پاس نہیں۔
ماں کی دعا مصیبتوں کے سامنے بچوں کیلئے ڈھال ہے اور باپ اس کی دعائوں کا سمر ہے۔ جو اس بیٹی کو میسر نہیں۔
مجھے میرے ہی ماں باپ نے نفرت سے اس دہکتے ہوئے دھوپ میں پھنک کر چلے گئے۔ یہ دھوپ مجھے جلاتی ہے پگلاتی ہے۔
میرے ہی ماں باپ نے اسی بے رحم اندھی کے سپرد کرکے چلے گئے۔یہ اندھی مجھے جہاں چاہتی ہے اُڑا لے جاتی ہے مگر مجھے کوئی بچانے والا نہیں ۔ بھوک اور مجبوریاں حوا کی بیٹی کو نچوڑتی ہے تو دوپٹہ سر سے خود بخود گرتی ہے۔میرا کوئی بھائی نہیں جو میری چیخیں سن کر مجھے بچانے کیلئے دوڑتے آئے۔

یہ کہتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی
آخر میں ایک اور بات کہ کر وہاں سے چلی گئی کہ جب تم روتے ہو تو تمہارے انسو پونچنے کیلئے لوگ جمع ہوتے ہیں مگر یہ لوگ جو جمع ہوگئے ہیں ہماری انسوپونچنے نہیں ہوئے بلکہ اپنی تفریح اور ٹائم پاس کیلئے جمع ہوئے ہیں اور آج یہ تفریح تو تیرے موجودگی میں سہی انہیں یہاں سے ملے۔

لڑکا کچھ دیر تک یوں کھڑا رہا ادھر اُدھر دیکھا سارے لوگ جارہے تھے۔ وہ بھی کیمرہ سمیٹ کرچلاگیا۔

یہ سب دیکھ کر ذہن میں ہزاروں سوالات جنم لیتے ہیں مگر مجال ہے کہ ایک سوال کا جواز ڈھونڈ سکے۔ بس اتنا اندازہ لگا لیا کہ ان کی زندگی کاہر لمحہ ایک ازمائش ہے اور کئی مصبتیں ہیں۔ آخر کوئی راستہ تو ہوگا جو ان نظرانداز لوگوں کیلئے پناہ کا ذریعہ بنے سکے اور آخر کس کی ذمہ داری ہیں یہ لوگ۔ قصورار کوں ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ اس مقام تک پہنچتے ہیں۔

وہ اتنی بدقسمت ہوتی ہیں کہ انکے پیدا ہونے پر ماں باپ اپنے سارے گناہ انکے سر ڈال کر معاشرے کے درندگی کو سپرد کرکے اپنی زندگی اپنی مرضی کے جینے نکلتے ہیں ۔ کسی کو کوئی اندازہ بھی نہیں کہ وہ کیسے جیتے ہیں ۔ پیٹ پالنے کیلئے انہںں کیا کیا کرنی پڑتی ہے۔ ایک طرف درندہ صفت بازار تو دوسری طرف یہ بلکتے بچیاں ۔ ایک دلدل کو پار کرکے دوسرے دلدل میں غوطہ لگانا ہی انکا مقدر بن جاتی ہے۔ نہ کوئی ہاتھ پکڑنے والا ہوتا ہے نہ سہارا کی کوئی امید ۔ یوں بِکتے بھٹکتے لوگوں کی ہوس کی آگ بجھانے لگ جاتی ہیں اور اپنی زندگی یوں کسی کے رحم و کرم پر چھوڑ کے زندگی کی شام ہونے کے انتظار کرلیتی ہیں۔ اگر کسی کی طرف مدد کی امید سے دیکھے بھی تو کسے دیکھے ۔ کیا یہ معاشرہ یہ ریاست اس قابل ہے کہ اس پر امید رکھا جائے۔

ایسے حالات میں اگر کسی کو ذمہ اٹھانا ہے تو وہ ہے ریاست۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ایسے بچیوں کے ہاتھ تھامے انہیں یہ احساس دلائے کہ تم پہلی ریاست کے بچیاں ہو بعد میں ماں باپ کے۔ اگر ماں باپ چھوڑ بھی دے تو ریاست تمہاری ذمہ داریاں اٹھائے گی اورتمہیں ڈھوبنے نہیں دےگی

۔
یہ ان پر کوئی احسان نہیں بلکہ ریاست پر انکے بنیادی حقوق ہیں۔ اگر کوئی قصوروار ہیں تو وہ بھی ہم اور ہمارا ہی معاشرہ ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا مشرقی معاشرے اور ریاستیں ایسے ہی ہیں ۔جہاں قائدیں کو اپنے بچوں کے پیٹ پالنے اور انکے لئے جائیداد بنانے سے فرصت نہیں ملتے۔ اپنی کرسیاں اور ان کے اردگرد منڈلانے والوں کو تحفظ سے فرصت نہیں ملتے ہیں تو بے سہاروں اور بے یارمدد گاروں کے حقوق کے بارے میں کیا خاک سوچینگے۔ کوئی سوچے گا تو عملی اقدام بھی ہوگا۔

بحیثیت اسلامی ریاست ایک ایسا ادارہ بنانا چاہئے جو ایسے بچیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اُنہیں تحفظ دے ۔ ان کیلئے پناہ گاہیں بنائے ۔ انکے لئے قیام،طعام، تعلیم و تربیت کا معقول بندوبست کرے۔ انہںں ایک اچھی شہری کے زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرے اور ایسے ہی ریاست کو اسلامی فلاحی ریاست کہتے ہیں۔
نہ تھی نفرت زمانے سے کسی کا جب سہارا تھا
جہان والو سنبھل جائو کہ اب بے آسرا ہوں میں

وماعلینا الالبلاغ


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
72084