Chitral Times

Apr 27, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نوجوان لکھاریوں کے لئے –  شاہ عالم علیمی 

Posted on
شیئر کریں:

نوجوان لکھاریوں کے لئے –  شاہ عالم علیمی

مجھے انگریزی آتی ہے نہ اردو۔ حد تو یہ ہے کہ اپنی مادری زبان بھی بھول چکا ہوں۔ مقامی زبان کو تحریری شکل میں پڑھنا چینی پڑھنے جیسا ہے۔
لیکن جو کچھ ٹوٹی پھوٹی میں بول یا لکھ لیتا ہوں وہ میں نے خود سیکھا ہے۔ انگریزی کے چند الفاظ میں نے اپنے گاوں کی گلیوں میں ہی سیکھا تھا۔
ایک دو سال پہلے  ایک ایڈیٹر صاب نے مجھے ایک ای میل بھیجی اور شکایت کی کہ میں (آ)  کا خیال نہیں رکھتا ہوں۔ انھوں نے پوچھا تھا کہ میری جگہ کون یہ حرف لکھے گا۔
یہ میری تحریروں پر ایک پڑھے لکھے شخص کی طرف سے براہ راست تنقید تھی۔ اس سے میں خوش بھی ہوا اور پریشان بھی۔ خوش اس لیے کہ اس سے میں اپنی اصلاح کرسکتا تھا اور پریشان اس لیے کہ آدھی عمر  صرف پڑھنے  میں گزار دی لیکن الف مد آ یعنی حروف تہجی کا پہلا حرف ہی لکھنا نہیں آتا۔
یقین کریں میں نے اسی وقت نو ہزار روپے کی بارہ کتابیں مانگوائی جن کا براہ راست تعلق اردو زبان و ادب کے ساتھ تھا۔
میں نے ان کا بخور مطالعہ کیا تاکہ میں “آ” سیکھ سکوں۔ ساتھ ساتھ میں نے دوسری کتابوں کا بھی مطالعہ کیا۔  یوں “آ” سے شروع ہونے والا  ایک جھگڑا ڈیڑھ سال تک مطالعے کا باعث بنا۔
یہ ساری بات میں کیوں کررہا ہوں؟  یہ ساری باتیں میں دراصل اپنے چند نوجوانوں کی وجہ سے کررہا ہوں۔
میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ نوجوان پچھلے کئی سالوں سے لکھ رہے ہیں مگر نہ اپنے لکھنے کی اصلاح کررہے ہیں اور نہ ہی اپنے معلومات کی۔
کچھ نوجوانوں کو جنون چڑھا ہے کہ وہ انگریزی میں لکھتے ہیں۔ بہت اچھی بات ہے۔ لیکن خدارا کچھ ایسا لکھیں کہ پڑھنے والا سمجھ بھی پائے کہ آپ نے کیا لکھا ہے۔
ان کی تحریر پڑھ کر یہ خیال ذہن میں آتا ہے کہ اگر انگریزوں کو ان کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ ان سے انگریزی سیکھنے کے لئے شاید ان کو برطانیہ بلا لیں گے۔
دوسری طرف جو اردو میں لکھتے ہیں وہ زرا خود احتسابی سے کام لے کر خود دیکھیں کہ انھوں نے آج جو لکھا ہے وہ کل کے لکھے سے کتنا بہتر ہے۔
میں ایک آن پڑھ  آدمی ہوں لیکن اتنا جانتا ہوں کہ لکھنے والے پر لازمی ہے کہ وہ جو کچھ لکھتا ہے وہ عام فہم زبان میں لکھیں اور سادہ الفاظ استعمال کریں۔
دقیق اور مشکل الفاظ استعمال کرنا علمیت کی نشانی نہیں ہے۔ دورازکار تشبیہات اور روزمرہ کا استعمال دماغ جھاڑنا ہوسکتا ہے لیکن علمیت نہیں۔
اپنی علمیت کا روپ دوسروں پر ڈالنے کا رواج غالب کے دور سے پہلے کے زمانے کا تھا۔ تب سے اب تک زمانہ ہوا لوگ سادہ زبان اور عام فہم الفاظ اور استعارے استعمال کرتے آئے ہیں۔ اور یہی آپ کے باعلم ہونے کی نشانی ہے نہ کہ ناموس مشکل الفاظ روزمرہ اور تشبیہات کا استعمال۔
دوسری اہم بات، جس کو پہلے بیان کرنا چاہئے تھا،  موضوع کا ہے۔ آپ کو پتا ہونا چاہئے کہ آپ کیا لکھ رہے ہیں اور کس صنف میں لکھ رہے ہیں؛  مضمون،  ارٹیکل، انشائیہ، کہانی ،افسانہ، ناول،  شاعری،  سوانح لکھ رہے ہیں یا قصہ یا واقعہ بیان کررہے ہیں۔
ہر موضوع کی اپنی زبان ہوتی ہے۔ اگر آپ ارٹیکل لکھ رہے ہیں تو سیدھی سادھی زبان میں اپنا مدعا بیان کرسکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے سیاسی، سماجی، معاشرتی، حالات حاضرہ اور دوسرے معاملات پر لکھتے ہوئے آپ کی تحریر میں گرامر کی غلطیاں بھی ہوں۔ کوئی بات نہیں۔
لیکن اگر آپ ادبی تحریر لکھ رہے ہیں تو اس میں زبان اور بیان کا اپنا سلیقہ اور طریقہ ہوتا ہے۔ اس میں غلطیوں کی گنجائش نہیں ہوتی۔
ایسی تحریر لکھنے سے پہلے آپ کو پڑھنا پڑتا ہے۔ صرف ایک بہت اچھا پڑھا لکھا آدمی ہی ادبی تحریر لکھ سکتا ہے۔ اس کے لئے وقت،  علم اور ذہنی آسودگی درکار ہوتی ہے۔ میرے جیسا مزدور آدمی ادبی تحریر نہیں لکھ سکتا۔ دن رات غم روزگار سے جس کا دماغ ہی ہل چل میں رہتا ہو اس کے پاس نہ وقت ہوتا ہے اور نہ ہی ذہنی سکون۔ اس کی تحریروں میں غلطیوں کی گنجائش بہت زیادہ ہوتی ہے۔
یہ ہمارے جیسے لوگوں کے بارے ہی بڑے لوگ کہتے رہتے ہیں کہ جن کو پڑھنا چاہیے وہ لکھ رہے ہیں۔
لیکن اس قسم کی تنقید سے ایسا نہ ہو کہ آپ دل برداشتہ ہوکر قلم چھوڑ دیں۔ لکھنا بہت اچھی بات ہے بلکہ سب سے اچھا کام لکھنا ہے۔ ہر کوئی لکھ نہیں سکھتا۔ جس کے اندر جذبہ،  علم اور تجسس ہو وہ لکھ سکتا ہے۔ تاہم آپ لکھنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ مطالعہ بھی کرتے رہیے۔ اور ہاں خود احتسابی کو ہر گز نہ بھولنا. یعنی یہ دیکھتے رہیے کہ آج جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ کل کے لکھے سے کتنا بہتر ہے۔
اس کے لئے آپ اپنے مضمون کے پہلے پیراگراف کو دس بیس دفعہ خود ہی پڑھیں اور دیکھیں اس میں گرامر کی غلطیاں کتنی ہیں اور اس موضوع سے متعلقہ معلومات میں کتنی کمی ہے۔

شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
70591