Chitral Times

Apr 30, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دوائے دل – پاک سعودی تعلقات ۔ یہ رشتہ  خلوص ہے ٹوٹے گا کس طرح؟ – مولانا محمد شفیع چترالی

شیئر کریں:

دوائے دل – پاک سعودی تعلقات ۔ یہ رشتہ  خلوص ہے ٹوٹے گا کس طرح؟ – مولانا محمد شفیع چترالی

کہا جاتا ہے کہ آج کی دنیا مفادات کی دنیا ہے، ملکوں کے تعلقات میں دوستی، خلوص، ہمدردی اور محبت جیسے الفاظ محض زیب داستاں کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں، ورنہ ہر ملک صرف اور صرف اپنے مفاد کی خاطر ہی سوچتا اور دیگر ممالک سے تعلقات بناتا ہے۔ معروضی حقائق کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو یہ بات کچھ زیادہ غلط بھی نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ آج کے دور میں بین الممالک سفارتی تعلقات کی بنیاد سراسر مادی معاملات پر ہوتی ہے۔ کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک کو کچھ دیتا بھی ہے تو سب سے پہلے یہ سوچتا ہے کہ اس کاریٹرن کیا ہوگااور اس میں اس کا اپنا مفاد کس طرح حاصل ہوسکے گا۔ مگر اگر دیکھا جائے تو اس باب میں بھی کچھ مستثنیات پائے جاتے ہیں۔ پاکستان کی نسبت سے اگر بات کریں تو کچھ ممالک ایسے ہیں جو ہم پاکستانیوں کے دلوں کے بہت زیادہ قریب ہیں اور جن کے ساتھ ہماری وابستگی ہر قسم کے مادی اور تزویراتی مقاصد سے بالاتر ہے۔ حرمین شریفین کی حرمت و تقدس کی امین مملکت عربیہ سعودیہ کی سرزمین سے الفت و محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور اگر ہم اپنے وطن پاکستان سے اپنی مٹی اور مولد و مسکن ہونے کے ناتے پیار کرتے ہیں تو ارض حرمین کی مٹی کو اپنی آنکھوں کا سرمہ سمجھتے ہیں۔ شاید ہی کوئی پاکستانی کلمہ گو ہوگا جو حرم کی فضاؤں میں جینے اور مکہ مدینہ میں مرنے کی تمنا نہ رکھتا ہو۔

مقام شکر ہے کہ ارض حرمین سے ہماری یہ محبت یک طرفہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن خوش نصیب لوگوں کو اپنے حرم کی ولایت وخدمت کا اعزاز بخشا ہے، ان کے دلوں میں ہماری محبت بھی ڈال دی ہے۔ اگر ہم بحیثیت قوم اپنی تاریخ کا جائزہ لیں اور چلیں مادی تعاون کے لحاظ سے ہی دیکھیں تو سعودی عرب ہی وہ ملک ہے جس نے ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا، ہر مشکل وقت میں ہماری دستگیری کی اور دوستی کے ہر امتحان میں پورا اترا ہے۔ پاکستان پر جب بھی معاشی لحاظ سے برا وقت آیا، سعودی عرب نے نہایت فراخدلانہ تعاون پیش کیا۔ کئی دفعہ پاکستان کو مفت تیل فراہم کیا اور وہ اس وقت بھی پاکستان کو موخر ادائیگی پر تیل فراہم کر رہا ہے۔ زیادہ دور کیوں جائیں؟ 2018ء میں جب پاکستان کو معاشی دیوالیہ ہونے کاخطرہ درپیش تھا، سعودی عرب نے 3ارب ڈالر سے زاید کا سرمایہ فراہم کرکے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کو استحکام بخشا۔ ابھی پاکستان میں حالیہ تباہ کن سیلاب کے تناظر میں سعودی عرب نے نہ صرف پاکستان کا 3ارب ڈالرز کا واجب الادا قرضہ موخر کیا بلکہ سیلاب زدگان کی امداد کے سلسلے میں بھی سب سے پہلے امداد پہنچائی۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ان ممالک میں سے ہیں جنہوں نے اب تک پاکستان کو سب سے زیادہ امداد فراہم کی ہے۔ پاکستان میں اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے سعودی عرب کی خدمات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔

پاکستانی قوم اس خلوص اور ہمدردی پر مملکت عربیہ سعودیہ کی شکر گزار ہے۔ اس شکر گزاری کا اظہار ہم نے 23ستمبر کو سعودی عرب کے 92ویں قومی دن (العید الوطنی) کے موقع پراسلام آباد اور کراچی میں منعقدہ تقاریب میں اہم ترین شخصیات کی بھرپور شرکت کی صورت میں دیکھا۔ اسلام آباد کی تقریب میں پاکستان کی اعلیٰ سیاسی و عسکری قیادت نے شرکت کی اور اس خاص دن کی مناسبت سے سعودی بھائیوں کو ہدیہئ تبریک پیش کیا جبکہ کراچی کے مقامی ہوٹل میں منعقدہ خصوصی تقریب میں بھی نیول چیف، گورنر اسٹیٹ بینک، صوبائی وزراء اور معززین شہر کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی۔ تقریب کی خاص بات شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کی شرکت تھی۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے علماء شریک تھے۔ سعودی قونصل جنرل شیخ بندر فہد الدائل نے اپنے مختصر خطاب میں الیوم الوطنی کی مناسبت سے اپنے خیالات کا اظہار کیااور سعودی عرب، پاکستان کے برادرنہ تعلقات پر مختصر روشنی ڈالی اور معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا، بعد ازاں المملکۃ العربیہ السعودیہ کی تاریخ پر ایک نہایت مختصر مگر انتہائی جامع ڈاکومنٹری دکھائی گئی جس میں صدیوں کے ارتقائی سفر کی جھلکیاں چند منٹوں میں سمودینے کی خوبصورت کوشش کی گئی ہے۔ ”ھی لنا دار“ (یہ ہمارا گھر ہے) کے ماٹو کے تحت ہونے والی اس تقریب میں سعودی عرب اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے افرادکی ایک بڑی تعداد نظر آئی جن کے چہروں پر اپنے وطن اور ارض حرمین سے محبت کے جذبات ہویدا تھے۔ گزشتہ برس کی تقریب میں راقم نے سعودی قونصل خانے سے وابستہ اپنے کرم فرما شیخ ابو عدنان سے عرض کیا تھا کہ ”ھی لنا دار“ کے ساتھ ”ایضاً“ لگا نے کی اجازت ہو تو ہم آپ کے بہت ممنون ہوں گے کہ ہم سمجھتے ہیں ”وہ ہمار ا بھی گھر ہے۔“ کیونکہ ارض حرمین کے ساتھ ہماراوہ اٹوٹ رشتہ ہے جس کو قیامت تک فنا کے ہاتھ نہیں لگ سکتے۔ ؎
یہ رشتہئ خلوص ہے ٹوٹے گا کس طرح
روحوں کو چھو سکے ہیں بھلاکب فنا کے ہاتھ؟


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
66310