Chitral Times

Apr 18, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

اے باغبان گلشن انداز باغبانی کو بدل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابوسلمان چترال

شیئر کریں:

چہار سو بکھری رب العالمین کے جابجا ہے نعمتوں کو دیکھ کر آنکھیں سبحان اللہ سبحان اللہ کہتے نہیں تھکتیں ، اللہ تعالی نے انسان کو بہت ساری نعمتوں سے نوازا ہے اور ایک بہت بڑی نعمت اولاد بھی ہے ، دنیاوی زندگی میں جہاں اور بھی بہت ساری چیزیں ہماری زندگیوں کی رونقیں بڑھاتی ہیں وہاں خوبصورت ترین نعمت اولاد بھی ہے جو ہماری زندگی میں خوشیاں لا کر اس کی زینت بڑھا دیتی ہے ، قرآن میں اللہ تعالی نے نے اولاد کو خوشخبری سے موسوم کیا ہے اور اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کو اولاد کی خوشخبریاں دی ہیں ہیں ، یوں تو بچپن ، جوانی ، بڑھاپا سارے دور ہی اللہ کے بنائے ہوئے ہیں اور خوبصورت ہیں لیکن جو خوبصورتی بچپن کے دور میں ہے وہ کسی اور دور میں نہیں اور بچے تو خوبصورت پھولوں کی مانند ہوتے ہیں اور یوں چہکتے ، مہکتے ، ہنستے ، کھلکھلاتے پھرتے ہیں کہ سبھی لوگ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ، اور اولاد ہی وہ چیز ہے جو والدین کے غموں اور دکھوں کو بانٹتی ہے اور بڑھاپے میں ان کا سہارا بنتی ہے ، والدین کی بڑی ساری چاہتیں بندھی ہوئی ہوتی ہیں اولاد سے ، اور بڑی ساری توقعات وابستہ ہوتی ہیں ، والدین ان توقعات کو پورا ہوتا ہوا تو دیکھنا چاہتے ہیں ،

مگر اپنی اولاد کی درست تربیت نہیں کرتے ، اللہ تعالی نے آپ کو باغبان بنایا ہے اور باغبان تو اپنے گلشن کے پھولوں کی دن رات نگہداشت کرتا ہے تاکہ یہ مرجھا نہ جائیں ان کے پودے کہیں سوکھ جائیں ، الله تعالیٰ نے آپ کو معمار بنایا ہے اور معمار عمارت سازی کرتے ہوئے اس کی تمام خامیاں دور کرتا ہے تاکہ عمارت میں میں کوئی نقص یا خامی نہ رہ جائے ، بالکل اسی طرح والدین کو بھی اپنی اولاد کے حق میں بہت زیادہ فکر مندی اور ذمہ داری کی ضرورت ہے ، اولاد کی تربیت میں محبت اور نرم دلی سے کام لیں ، تشدد اور مار پیٹ نہ کریں ، مار پیٹ اسلامی نظام تعلیم کے خلاف ہے ، رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف چلنے سے سے اولاد کی تربیت میں نقص رہ جائے گا ، اسلام نرمی کا دین ہے ، نرم دلی کو ترجیح دیتا ہے ، بچے تو محبت کے بھوکے ہوتے ہیں ، اس لئے والدین کو چاہیے کہ بچوں کو محبت سے سمجھائیں ، متشددانہ رویہ اختیار نہ کریں ، محبت فاتح عالم ہے ، محبت سے وہ جلد اطاعت کی طرف مائل ہوتے ہیں ، یہاں ایک بات کہنا چاہوں گا کہ۔۔! محبت اور نرمی کے باوجود بھی اگر بچے نافرمانی پر آمادہ ہو جائیں ، تو ایسی صورت میں جتنی غلطی ہو اتنی ہی سزا دی جائے حد سے زیادہ تشدد نہ کیا جائے۔

آئیے دیکھتے ہیں آخر تشدد ہے کیا بلا ؟ جو بچوں پر کرنے سے روکا جا رہا ہے ، تشدد کا مطلب ہے ، زیادتی کرنا ، اپنے عہدے ، اختیارات و وسائل اور قوت کا غلط استعمال کرنا۔
تشدد کی چند ایک قسمیں ہیں۔
جنسی تشدد ، نفسیاتی تشدد ، جسمانی تشدد

جسمانی تشدد : ہمارے بیمار معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے اور یہ ایک شرمناک اور تلخ حقیقت ہے ، اس کا ثبوت آپ کسی بھی اخباری تراشے پر نظر دوڑائیں ، بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات سے اخبارات بھرے ہوئے ہیں ، کہیں لڑکوں کے ساتھ تو کہیں لڑکیوں کے ساتھ ، اور ان معاملات کا زیادہ المناک پہلو یہ ہے کہ ان جارحانہ اور اخلاق سوز حرکتوں میں ملوث باہر کے افراد کے علاوہ ان بچے بچیوں کے محرم رشتے دار ہوتے ہیں ، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے الحمد للہ صحیح اسلامی گھرانے اس درندگی کے عمل سے پاک ہیں ، کیونکہ ان گھرانوں میں فرامین نبویہ ، تعلیمات نبویہ ، سنن رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل ہوتا ہے ، بچوں کو ابتدا ہی میں تعلیمات اسلامیہ سے روشناس کروایا جاتا ہے ، انہیں اسلامی آداب و اخلاق سے بہرہ ور کیا جاتا ہے ، محرم اور غیر محرم کے فرق سے روشناس کروایا جاتا ہے ، جب وہ سن بلوغت کو پہنچتے ہیں تو ان کے بستر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق الگ الگ کر دیے جاتے ہیں ، لڑکیوں کو ایک ایسا لباس پہننے کا حکم دیا جاتا ہے جس سے وہ غیر محرموں کی نگاہوں سے محفوظ رہ سکیں ، لڑکوں کو نگاہیں جھکا کر رکھنے کا حکم دیا جاتا ہے ، مگر افسوس کی بات یہ ہے ہے مسلم معاشرے میں بھی مغربی تہذیب کی کرب انگیز اور شرمناک رنگینیاں گھر گھر میں داخل ہوگئی ہیں ، اور اس کی وجہ بالکل صاف ہے ، جن گھرانوں میں موبائل اور انٹرنیٹ کے ذریعے فحاشی اور عریانیت داخل ہو کر کے انہیں اسلامی تعلیمات سے دور کر رہی ہیں وہ گھرانے معاشرے میں خود اعلی اور ماڈرن کہلوانا چاہتے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں جنسی تشدد تو نہیں ہے لیکن بچوں کے ساتھ جذباتی ، نفسیاتی اور جسمانی تشدد حد سے زیادہ پایا جاتا ہے ، اسلام اس تشدد کو بھی ناپسند کرتا ہے۔

*جذباتی ، نفسیاتی اور جسمانی تشدد یہ ہے کہ بچوں کو زبان سے صلواتیں سنائیں جائیں ، تم بہت سست ہو ، تم سے کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں ہو پاتا ، دوسرے بچوں کے ساتھ ان کا موازنہ کرنا اور ان کو کاہل ، سست ، نکما اور ناکارہ قرار دینا اگر ان میں کوئی جسمانی عیب یا نقص ہے تو اس حوالے سے انہیں برے القابات سے نواز کر ان کے احساسات اور جذبات کو ٹھیس پہنچانا وغیرہ ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ارشاد فرمایا ہے ، ” اکرمکم اولادکم ” اپنی اولادوں کو عزت دو ، یہ قانون فطرت ہے کہ عزت کے بدلے عزت ملتی ہے ، انہیں عزت نہیں گے تو جواب میں وہ بھی تمہیں عزت نہیں دیں گے ، بچوں سے کوئی کمی یا کوتاہی ہو گئی تو انہیں مارنا پیٹنا ، چھوٹی چھوٹی باتوں پر انہیں جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا ، بار بار جھڑکیاں دینا ، ڈانٹنا ، اپنی گھریلو پریشانیوں کا غصہ ان ننھے ننھے پھولوں پر نکالنا ، خود ہر وقت ٹی وی اور موبائل پر مصروف رہنا اور انہیں پڑھائی کے لیے دباؤ میں رکھنا ، یہ سب تشدد کے زمرے میں آتا ہے ، بچوں کی اچھی تربیت کے لئے والدین کو ان تمام برے رویوں کو اپنے اندر سے ختم کرنا ہوگا ، اگر انہی رویوں کو اپنا کر اصلاح کرنے کی کوشش کی جائے تو اصلاح کی بجائے بگاڑ پیدا ہو گا ، اور یہ بات اچھی طرح جان لیں بچوں میں بگاڑ کا پہلا ریزن سختی اور تشدد کے ساتھ ان کی اصلاح کرنا ہے ، کیونکہ سختی اور تشدد سے بچوں کے دماغ یہ پیغام لیتے ہیں کہ ان کے والدین ان سے محبت نہیں کرتے اور وہ خود کو ان سے غیر محفوظ سمجھنے لگتے ہیں اور غیروں کو اپنا ہمدرد اور غمگسار سمجھنے لگتے ہیں ،

اچھی تربیت کا خاصہ یہ ہے کہ۔۔۔! بچے اس بات کا یقین کر لیں کہ ساری دنیا کی محبت ایک طرف اور ان کے والدین کی محبت ایک طرف ، وہ یقین کر لیں کہ والدین ہی دنیا میں ان کے سب سے بڑے ہمدرد اور خیر خواہ ہیں ، اور اس اعتماد میں کسی لمحے بھی کوئی کمی واقع نہیں ہونی چاہیے ورنہ معاملات اصلاح کی بجائے بگاڑ کا مفسدات کا شکار ہو سکتے ہیں ، اگر ان میں یہ اعتماد نہ آیا ، تشدد کی وجہ سے بے اعتمادی پیدا ہو گی تو ایسے بچے دوسروں پر بھی تشدد کرنا سیکھ جاتے ہیں ، انہیں بھی دوسروں کو جسمانی ، جذباتی ، نفسیاتی زک پہنچا کر سکون ملتا ہے ، ان میں انتقامی جذبات پیدا ہو جاتے ہیں ، ان کے آپس کے تعلقات بھی خراب ہو جاتے ہیں ، اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اس بے اعتمادی کے باعث اپنے ہم عمر بچوں سے کوئی بھی تعلق نہیں بنا پاتے ، ایسے بچوں کو اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ اگر کسی سے کوئی بات منوانی ہے تو اس کا واحد طریقہ مار پیٹ اور تشدد ہے ، اس لیے تربیت کے پہلوؤں کو اختیار کرتے ہوئے اپنے عمل کے بارے میں والدین کو بہت زیادہ احتیاط برتنی چاہیے ،

والدین کو چاہیے کہ۔۔! اپنے اور بچوں کے درمیان تبادلہ خیال اور گفتگو کے ربط کو کو اتنا مضبوط کریں کہ بچے کسی بھی معاملے میں آپ سے اظہار خیال میں میں جھجھک محسوس نہ کریں ، وہ اپنے سارے معاملات پر بغیر خوف کھائے آپ سے ہم کلام ہو سکیں ، اگر بچے کے کسی عمل کی وجہ سے آپ کو کوئی تکلیف ہو رہی ہے تو اسے محبت سے نرمی سے سمجھائیں مار پیٹ والا رویہ اختیار نہ کریں ، صرف تشدد کرنے سے کبھی بھی اصلاح نہیں ہوتی اس سلسلے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سامنے رکھیں تو اس میں حضور اکرم صلی وسلم کی زندگی کا یہ خوبصورت ترین پہلو دکھائی دیتا ہے کہ۔۔! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بچوں پر اور اپنے اہل و عیال پر سب سے زیادہ نرم دل اور محبت کرنے والے تھے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا محبت اور نرمی کا یہ برتاؤ ہمارے لئے مشعل راہ ہے ، احادیث کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ۔۔۔! حضور نبی اکرم صلی وسلم تو نماز جیسے اہم ترین رکن کی ادائی کے دوران اگر کسی بچے کے رونے کی آواز سن لیتے تو نماز میں تخفیف کر دیتے ، نماز میں دوران سجدہ اگر کوئی بچہ پیٹھ پہ چڑھ بیٹھا تو آپ سجدہ طویل کر دیتے ، یہاں تک کہ بچہ اتر جاتا اور کسی اور کھیل میں متوجہ ہو جاتا ، حضور اکرم صلی وسلم گھر میں داخل ہوتے تو نبوت کی ساری پریشانیاں بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے نواسوں کے ساتھ کھیلتے ، مسکراتے اور انہیں اٹھاتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کے ساتھ بہترین رویہ رکھتے۔ تعلیمات نبویہ یہی ہیں کہ۔۔۔! بچوں کے ساتھ نرمی ، شفقت اور پیار و محبت کا رویہ رکھا جائے ، اس بات کو اپنے دماغ میں بٹھا لیں بچوں پر تشدد فائدے کی بجائے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ، اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے جو لوگ اپنے بچوں سے متشددانہ رویہ رکھتے ہیں ، بڑھاپے میں انہیں تنہائیوں اور بے بسیوں کا منہ دیکھنا پڑتا ہے ، جب اولادیں ان کے قریب بھی نہیں پھٹکتیں ، اس لئے بچوں کی تربیت میں شفقت ؤ محبت اور نرمی کا پہلو غالب رہنا چاہیے تاکہ جب وہ بڑے ہو جائیں تو معاشرے کا ایک اچھا فرد بن کر خوشگوار زندگی جی سکیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
49025