Chitral Times

May 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

لوکل گورنمنٹ اور سیلاب ۔ عدنان علی بونی چترال اپر

شیئر کریں:

لوکل گورنمنٹ اور سیلاب ۔ عدنان علی بونی چترال اپر

ماحولیاتی تبدیلی کے نتائج پوری دنیا میں نظر آ رہے ہیں. لیکن پاکستان میں اس کے اثرات سب سے زیادہ ہے . بدلتے ہوئے موسمی حالات پاکستان کے لیے سال بسال مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں. حالیہ سیلاب نے پورے پاکستان میں تباہی مچا دی. گلگت بلتستان کی بلند مکینوں سے لے کر بلوچستان کے ساحلی علاقوں تک جتنی بھی عوام ہیں کسی نہ کسی طرح سے سیلاب سے پریشان ہوئے ہیں. بلوچستان میں اس کے اثرات سب سے زیادہ ہے. ان سیلاب کی سب سے بڑی وجہ مسلسل بارشیں جنہوں نے نا صرف راستوں کو تباہ کیا بلکہ کہیں دیہات ان کی زد میں آگئے. بے شمار مکانات ,مویشی اور زمین زیر آب آگئے لیکن سب سے بڑا صدمہ لوگوں کی جانوں کا تھا. بلوچستان ہی میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ سیلاب کی نذر ہو گئے. اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کی پاکستان ان موسمی تبدیلیوں کا سامنا کرنے کے لیے قدغن بھی تیار نہیں ہے. بلوچستان میں لوگوں کو پسپا کرنے کے بعد ان بارشوں نے شمالی پاکستان اور صوبہ سندھ کی طرف رخ کیا. ملک کے حالات اس طرح ہے کہ ہر طرف سیلاب اور سیلاب زدگان کی مدد کرنے کے لئے لوگ آوازیں لگا رہے ہیں.

 

حکومت وقت اور دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی بھر پور کوششیں کیں کہ وہ بین الاقوامی اداروں اور دوست ممالک سے امداد حاصل کریں اور اس کو کسی طرح سے ضرورت مندوں تک پہنچا دیں. ملک کے معاشی حالات درست نہ ہونے کی وجہ سے ان سیلاب زدگان کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے اور ساتھ ساتھ حکومت کو بھی یہ احساس ہوگیا ہے کہ معاشی حالات کھل کے لوگوں کی مدد کرنے کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنے بجٹ سے زیادہ سیلاب زدگان کی مدد میں خرچ کرے. معاشی کمزوری حلیہ حکومت کی غلطی نہیں ہے. البتہ یہ 75 سال کی ناکام پالیسیوں اور اقدامات کا نتیجہ ہے. لہذا اس بحث کو یہیں رہنے دیتے ہیں اور سیلاب زدگان اور آفت زدہ علاقوں کی بات کرتے ہیں. وادی چترال بھی اس سال بہت بڑے سیلاب کی زد میں آگیا جس کی وجہ سے نا صرف گھر, زمینی, اور راستے تباہ ہوئے بلکہ پانچ لوگوں کی جانے بھی گئی. چترال ایک دور افتادہ علاقہ ہے جس میں امداد پہنچانا آسان کام نہیں ہے البتہ حکومتی طاقت کو اگر نچلے درجے کے حوالے کی جائے تو ان پریشانیوں سے آسانی سے کیا جا سکتا ہے. پاکستانی حکومت کے تین بڑے ستون ہیں جس میں وفاقی حکومت پہلے نمبر پر ہے. صوبائی حکومت دوسرے نمبر پر ہے اور اور آخری نمبر پہ لوکل حکومت ہیں. حکومت کے ان تین درجوں میں سب سے اہم درجہ ہے لوکل محبت کا درجہ ہے.

 

یہ سب سے نچلا درجہ اپنی جگہ لیکن عوام کے ساتھ قریبی رابطے کی وجہ سے یہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے. اس پے توجہ بہت کم دیا جاتا ہے اور نہ ہی اس کو طاقت اور سپورٹ دیا جاتا ہے جو عین اس کے لیے مختص کرتا ہے. لیکن این کی بات کر ہی دی ہے تو بتاتا چلوں کہ اٹھارویں ترمیم کے تحت لوکل حکومت کی سپورٹ اور ان کو بحال کرنے پر خصوصی ہدایات دی گئی ہیں. اس آئینی ذمہ داری کو صوبائی حکومت اور حکومت علیکم السلام علیکم پاکستان میں کرنے سے قاصر ہیں. اگرچہ چترال میں اس سال صوبائی حکومت اور الیکشن کمیشن کے زیر سایہ لوکل حکومت کے لیے انتخابات ہوئے اور حالیہ دنوں میں ان کی بحالی بھی ہوئی لیکن ان کو سپورٹ اور وہ طاقت ابھی تک نہیں دی گئی ہے جو ان کو اس مقام پر لے آئے کہ وہ لوگوں کی جلد از جلد مدد کر سکیں. یہ المیہ صرف اور صرف صوبہ خیبرپختونخوا کا نہیں ہے بلکہ پورے پاکستان کا ہے. کسی بھی صوبے میں لوکل گورنمنٹ کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے اور اس کو سپورٹ نہیں ہے .اس کے پاس کوئی فنڈز نہیں ہے جو اس کو دینی چاہیے اپنے معاملات کو درست طریقے سے چلانے کے لئے. حکومت کی امداد اور رسائی جب تک عام عوام کے ساتھ نہیں ہوگی وقت کی امداد ملنے میں اتنی ہی دیر ہوگئی. اگر پورے پاکستان میں نظر دوڑائی جائے تو ہمارے چار عینی صوبوں میں سے پختونخواہ صوبہ گورننس کے اعتبار سے سب سے آسان ہیں. لیکن ہماری نااہلی اور غیر ذمہ دارانہ سیاست حکومت اور عوام کے درمیان فاصلے کو برقرار رکھتی ہیں.

 

اس سال کے سیلاب ہو یا یا ماحولیاتی تبدیلی سے ہونے والے مستقبل کے حالات ان سب سے مقابلہ کرنے کے لئے سب سے بہترین حل لوکل گورنمنٹ کو بحال کرنا ہے. پاکستان میں اس پر کی جانے والی ریسرچ یہ ثابت کرتی ہے کس صوبائی حکومت جان بوجھ کر لوکل حکومت کو بحال نہیں کرتی کیونکہ ان کے مطابق ان اپنی طاقت کم ہو جاتی ہے. تاریخ کے اوراق اگر دیکھی جائے تو لوکل حکومت کا آغاز ایوب خان کے دور میں ہوا جس میں اس کو بیسک ڈیموکریسی کا نام دیا گیا لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت میں اس پر مزید توجہ نہیں دی گئی. جب ضیاء الحق میں آئے تو انہوں نے سیاسی جماعتوں کی سرپرستی کے بغیر الیکشن کروائے اور اس طرح لوکل حکومت کو پھر سے سانس لینے کا موقع ملا. یہ بات عقل کے منافی ہے کہ جمہوری حکومتوں میں لوکل گورنمنٹ کی طرف توجہ نہیں دیا گیا لیکن فوجی آمریت میں اسے بھرپور استعمال کیا گیا. اگرچہ فوجی آمریت میں لوکل گورنمنٹ اس کو پذیرائی ملی لیکن ان کو کوئی آئینی حقوق اور سپورٹ نہیں ملا. یہ حکومت کے رحم و کرم پر کام کرنے لگے. حالات اس طرح کے تھے کہ ان کو حکومت کبھی بھی ختم کر سکتی تھی. انیس سو نوے تک جو لوکل حکومت تھی وہ موجودہ نظام سے مختلف تھی.

 

اس میں دیہاتی اور شہری نظام کو الگ رکھا گیا تھا جو لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001 سے بالکل مختلف ہے. 2019 آرڈیننس ایک اور فوجی امیر جنرل پرویزمشرف لے کر آئے تھے جس نے پاکستان کو اس کا موجودہ لوکل گورنمنٹ کا نظام دیا . جس کے اندر 3 مختلف درجے ہیں پہلا یونین کونسل دوسرا تحصیل کونسل اور آخری ضلع کونسل. 2001 کیے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں خواتین کے لیے 33% سیٹ مختص کیے گئے جو اس سے پہلے کسی بھی نظام میں شامل نہیں تھا. اگرچہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں یہ نظام رائج کیا گیا ہے لیکن اس کے اندر وہ سارے مسائل ابھی بھی موجود ہیں جو فوجی آمریت کی دنوں سے چلتی آ رہے ہیں. فوجی امیروں نے لوکل گورنمنٹ اس کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا اور ان سیاستدانوں سے مقابلہ کرنے کے لئے لوکل گورنمنٹ کو استعمال کیا جو ان کے لیے مشکلات پیش کر رہے تھے. بظاہر لوکل حکومت کو بحال ہونا عوام کے لیے مختلف سہولیات تک رسائی کا ایک عمل ہے لیکن اس کو با اثر طریقے سے انجام دینے کے لیے نہ صرف صوبائی حکومت کو اپنا کردار نبھانا ہوگا بلکہ حکومت کو بھی کی حمایت کرنی پڑے گی. پاکستان جیسے ملک میں نظام کو بہتر طریقے سے چلانے کے لئے ایک خود مختار آزاد اور لوگوں تک رسائی رکھنے والا لوکل گورنمنٹ چاہیے جو ہر صورت حال میں چاہے وہ ماحولیاتی تبدیلی سے رونما ہونے والے مشکل حالات ہوں یا دیگر عینی جب دیگر بنیادی ضروریات مسائل ہو لوکل حکومت یہ ان کا بہترین ہو سکتی ہے.


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
65778