Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

امام جعفر الصادق کی یو م شہادت۔۔۔۔۔۔۔۔محمدآمین

شیئر کریں:

امام جعفر صادق اہل بیت اطہار میں ایک اہم فضلیت کے مالک ہیں اور آپ شیعہ مسلمانوں کے چھٹے امام ہیں آپ ؑامام ذین العابدین کے فرذند ارجمند ہے۔آپ کانام جعفر اور کنیت ابو عبداللہ تھا اور آپ کا مشہور لقب،،صادق،، تھا اور یہ لقب اس وجہ سے بھی تھا کیونکہ آپؑ سچا اور صادق تھا۔اس کے علاوہ اپ کے کئی اور القاب میں صابر،طاہر اور فاضل بھی مشہور ہیں۔آپ کے صاحبزادون اور صاحبزادیوں کی تعداد دس تھے۔آپ 700؁ء میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوا۔امام علی مقام کی پیدائیش یک ایسے گھرانے میں ہوئی تھی جو علم و حکمت کا گہوارا تھا آ پ پنے دادا جناب امام ذین العابدین اور والد ماجد جناب امام محمد باقرسے بچپن ہی سے وہ سب کچھ حاصل کیا تھا جو اللہ پاک نے اہل بیت نبیﷺکے پاک گھرانے کے لیئے مختص کیا ہے۔ حافظ قرآن اور محدث ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ایک اعلی درجے کا مفسر بھی تھا اور بعد میں انے والے مفسرین کی ایک بڑی تعداد نے آپ سے استعفادہ کیے۔


اس کے علاوہ اپ فقہ کے بھی ایک بڑے عالم تھے اور مثالی فقیہ کے عظیم و الشان لقب سے اپکو نوازا گیا اور حتی ٰ کی امام ابو حنیفہؒ اور امام مالک ؒ جیسے عظیم فقہاہ بھی آپؑ کے شاگردوں میں شامل تھے۔امام ابو حنیفہ کا کہنا ہے کہ میری ذندگی کے دو سال جو امام جعفر الصادق کے ساتھ گذرے تھے اگر یہ دو سال میری ذندگی سے نکال دی جائے گی تو میں تباہ و بربا د ہوجاتا۔اآپ فقہی بصیرت کے حامل دور اندیش عالم تھے،اور احکام شریعت کے احکام و رموز پر گہرا عبور حاصل تھا،آپکو قرآن و حدیث کے علاوہ دوسرے تما م مروجہ علوم پر بڑا دسترس حاصل تھا یہاں تک کے شیخ و علماء نے آپ کو شیخ علماء آل امتہ (یعنی امت مسلمہء کے علماء کا پیشوا و رہنما قرار دیئے۔اور آپ کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ ہر جگہ اپ کے علمی شہرت کے ڈھانکہ بجنے لگا اور لوگوں نے آپ سے اتنے علوم حاصل کیئے جنہیں اونٹ لیکر چلتے تھے اور اس قدر لوگ اپ سے اپنی علمی تشنگی بجائے اتے تھے کہ آپ کی شاگردوں کی تعداد چار ہزار سے اوپر تھا۔اور آپ شیعہ اسلام میں فقہ جعفریہ کے بانی ہیں۔


اما م علیہ السلام کے اہم ارشادات میں سے ذیل اہم ہیں؛
اللہ کی معرفت واجب ہے،اور جو کچھ اپ سے محفوظ کیا گیا ہے اللہ کی معرفت اور اس کے دین کو سمجھنے کے وجوب پر انہیں کا ارشادہے میں نے لوگون کے تمام علوم کو چار چیزوں میں پایا ہے ان میں سب سے پہلی یہ ہے کہ اپنی رب کو پہچانواور دوسری یہ کہ اس نے تم پہ کون سے احسانت کیئے ہیں،تیسری یہ کہ وہ تم سے کیا چاہتا ہے اور چھوتھی یہ کہ جان لو کہ کوں سی چیزین تمہیں دین سے خارج کردے گی۔اور یہ ایسی تقسیم ہے کہ جو فراض شدہ فرائض و واجبات کا احاطہ کیئے ہیں کیونکہ سب سے پہلی چیز جو بندہ پر واجب ہے اور اس کا پانے پروردگار کو پہچانا اور جب وہ یہ جان لے کہ اس کا کوئی معبود ہے تو یہ جاننا واجب ہے کہ اس نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے جب وہ یہ جان لے گا تو اس کی نعمتوں کو پہچان لے گا تو اس پر اس کا شکریہ کرنا واجب ہوگا اور جب اس کا شکریہ کرنے کا ارادہ کرے گا تو اس پر واجب ہوگا کہ اس کے مقصد و مراد کو سمجھے تاکہ اس مقصد کو ادا کرکے اس کی اطاعت کرے اور جب اس کی اطاعت واجب ہو تو اس پر ان چیزوں کا جاننا ضروری ہے جو اس کو دین سے خارج کردیتی ہیں تاکہ وہ ان سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے رب کی اطاعت کریں اور اس کی نعمتوں پر شکر بجا لائیں۔


جو کچھ آپؑ سے توحید اور نفی تشبیہ کے سلسلے میں محفوظ ہے اس میں اپ کا ارشاد ہے کہ خدا کی ذات سے مشبیہ نہیں اور نہ کوئی چیز اس سے مشابہت رکھتی ہے۔وہ ذات برخلاف ہے اس کے جو وہم و گمان میں اسکے۔
عد ل کے بارے میں اپ کا ارشاد ہے کہ اے زرارہ:میں تجھے قضا و قدر میں مجمل سی بات بتاوٗں زرارہ نے عرض کیا جی حضور میں اپ پر قربان جاوں تو آپ نے فرمایا کہ جب قیامت کا دن ہوگا اور خدا مخلوق کو جمع کرلے گا تو ان سے جس چیز کے بارے میں کہا گیا ہے باز پرس ہوگی لیکن قضاء قدر کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا (تذکرۃالاطہارؑ)۔


دین خدا میں غور و فکر کرنے اور اولیاء خدا کی پہچان پر ابھارنے کے لیئے اپنے فرمایا کہ اس چیز میں اچھی طرح غور و فکر کرلو جس سے جاہل و غافل رہنا فائدہ نہیں دے گا اپنے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہوئے اس چیز کے حصول کے لیئے کمربستہ ہوجاوٗ جس سے دوری کا عذر فائدہ نہیں دے گا۔کیونکہ دین خدا کے کچھ ارکان ایسے بھی ہیں جن کو جانے بغیر سخت قسم کے عبادات بھی اتنے فائدے نہیں دے گا اور جس نے جان لیا اور اطاعت کی۔یہاں اس سے مراد امام کی معرفت ہے۔


اپنے فرمایا ہمیشہ توبہ میں جلدی کرو اور توبہ میں تاخیر کرنا دھوکہ اور زیادہ دیر کرنا موجب پریشانی ہے اور خدا کے خلاف حیلے بہانے ہلاکت و تباہی ہے اور گناہ پر سرار و تکرار کرنا اللہ کے عذاب سے مطمئن و مامون ہوتا ہے اور گھاٹے خسارہ میں رہنے والی قوم کے علاوہ کوئی بھی خدا کے عذاب سے مامون نہیں رہتا۔


آپؑ پندرہ رجب 765؁ء کو مدینہ منورہ میں شہادت پا یا اور یہ شہادت عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کے زہر دلوانے کی وجہ سے واقع ہوا اور جنت البقیع میں اپنے خاندان کے بزرگوں کے ساتھ دفن کیاگیا۔امام شفعیؒ فرماتا ہے
میں نبی مصطفی ﷺ کی اولاد سے محبت کرتا ہوں اور اس کو واجبات دین میں سے سمجھتاہوں،اگر اہل بیت کا نام رافضیت ہے تو جنس و انس گواہ رہنا کہ میں بھی رافضی ہوں۔


قرآن پاک میں محمدﷺ کی آل سے مودد کو اللہ پا ک نے لازمی قرار دیا اور اللہ پاک نبی ﷺ کے پاک گھرانے سے محبت کو ہمارے دل میں استحکام دے اور ان سے محبت کی توفیق عطا فرمائیں۔آمین


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
48733