Chitral Times

May 14, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بونی ہسپتال کا ایک دل خراش واقعہ ۔ تحریر عبد الحی چترالی

Posted on
شیئر کریں:

بونی ہسپتال کا ایک دل خراش واقعہ ۔ تحریر عبد الحی چترالی

اس کا کون انکار کر سکتا ہے کہ ڈاکٹر اور مریض کے درمیان ایک رازدای اور مخلص انسانی ہمدردی کا رشتہ جڑا ہوتا ہے۔ ایک با صلاحیت اور خیر اندیش طبیب کے لیے یہ رشتہ سب رشتوں کے بڑھ کر ہی ہوتا ہے۔

وجہ اس کی ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کو غیر مشروط تکریم سے نوازا ہے۔ اس کے لیے نہ صالح و مومن ہونا شرط ہے اور نہ ہی کفر و فسق اس شرف و فضیلت سے مانع ہے۔ لہذا ہر وہ شخص جو اس بات کے لیے اپنے آپ کو تیار کرتا کہ اس اشرف المخلوقات کی خدمت و اصلاح بدن کا بار اٹھائے یقیناً عند اللہ و عند الناس معزز ہوگا۔ علم الابدان کے ماہرین کو ہر معاشرے، ہر مذہب اور ہر زمانے میں یہ منصب و مرتبہ حاصل رہا ہے۔

 

دوسری طرف اتنے اعلی و ارفع منصب کے حاملین کی ادنی سی غفلت بھی جرم سمجھی گئی ہے۔ اب سوچیے کہ یہ انسانیت کے درد پر مرہم رکھنے والے اگر عمدا کسی بے یار و مددگار کو محض چند ٹکوں کی خاطر بے رحمی کی موجوں کے حوالے کردیں تو آسمان و زمین سے عذاب ان پر نہ آئے گا تو کس پر آئے گا۔

 

کل وادی چترال کے مشہور بونی ہسپتال میں بچی کے قتل کا جو دل خراش واقعہ پیش آیا اس سے سب کا دل دکھا ہوا ہے۔

شدید عوامی احتجاج کے بعد ابتدائی کارروائی کے طور پر واقعے میں ملوث عملے کو دوسرے علاقوں میں ٹرانسفر کیا گیا.

متوفیہ بچی کے والد کے بقول ہسپتال عملےسے جب اس نے بچی کی سیریس کنڈیشن بتا کر مدد کی اپیل کی تو عملے کا ایک شخص بدتمیزی پر اتر آیا اور سائل کو لات مار کر باہر نکالنے کا حکم صادر کیا جو طبی اخلاقیات کے لحاظ سے سنگین نوعیت کا مجرمانہ عمل ہے۔

 

ہم کو تو یہ بتایا گیا ہے کہ میڈیکل اسٹاف کو مختلف کورسز کے دوران ایمرجنسی مریض کو ڈیل کرنے، ان کو ابتدائی طبی امداد دینے میں پھرتی دکھانے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ کر ان کے لئے ویل چیئر وغیرہ کا انتظام کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ ان کو آنے والوں کا خیال رکھنے کا کہا جاتا ہے اور ہر طرح کی تسلی دینے کے طریقوں سے رو شناس کروایا جاتا ہے۔ معلوم نہیں مذکورہ شخص ان نصابوں سے بے استفادہ کیسے گزر گئے۔ شاید موصوف ان کورسز میں صرف حصول سرٹیفکیٹ کیلئے شرکت کرتا رہے ہوں گے۔

 

تریچ کی جواں سال بیٹی کی اس موت کو بعض لوگ شاید ایک حادثہ کہہ کر رفع دفع کر دیں لیکن اس غم زدہ باپ کو جس چیز سے زیادہ تکلیف پہنچی ہے وہ طبی عملے کا غیر اخلاقی رویہ و بے لحاظ زبان ہے جس کو وہ شاید عمر بھر بھلانا بھی چاہے بھلا نہیں سکتا ہے.

 

حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ میڈیکل اسٹاف کو اس طرح کی بد اخلاقی کرنے کی ہمت کیسے ہوئی۔ نہ دنیا کا خوف نہ فکر اخرت۔ کس چیز نے اس قدر بے رحمی پر ابھارا۔ یہ گمان کیوں نہیں گزرتا کہ اگر کل کو میرے کسی عزیز کے ساتھ کسی ظالم نے یہ حرکت کی تو کیا حشر نشر ہوگا۔

 

بقراط نے جب علم طب کو عام کیا تو اس نے نا اہل لوگوں سے اس مقدس پیشے کو محفوظ رکھنے اور اس سے وابستہ لوگوں کو طبی اخلاقیات کا پابند رکھنے کیلئے ایک عہد نامہ تیار کیا جو معاہدہ بقراط (Hippocratic Oath ) کے نام سے مشہور ہوا.

 

اس جانکاہ حادثے کے بعد انتظامیہ کی طرف جو کمیٹی بنائی گئی ہے میں اپنی اس تحریر کے توسط سے اس کمیٹی کے معزز اراکین سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کر کے مجرم کو قرار واقعی سزا دلوانے میں اپنا کردار ادا کریں.

 

یہ مسئلہ صرف ایک بچی کی جان کا نہیں ہے بلکہ جملہ انسانیت کی عزت، تکریم اور احترام کا مسئلہ ہے… اس حوالے سے ہم سب کا ایک ایک قدم اور کوئی بھی ادنی سی کوشش کسی صورت رائیگاں نہیں۔

 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
65668