Chitral Times

Apr 26, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

غذر چترال ایکسپرس وے اور معاشی خوشحالی – کریم علی غذری

شیئر کریں:

غذر چترال ایکسپرس وے اور معاشی خوشحالی – کریم علی غذری

کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں انفراسٹرکچر کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ بہتر روڈ ریلوے کا مربوط نظام، پیغام رسانی کی بہترین سہولیات نہ صرف اس علاقے کی انفرادیت میں خاطر خواہ اضافہ کرتے ہیں بلکہ دوسرے علاقوں کو بھی ایک دوسرے سے منسلک کرکے آمدنی، روزگار، بہتر زندگی گزارنے کا باعث ہوتے ہیں۔ جدید ترقی یافتہ ممالک میں زندگی گزارنے کو محض اس لیے ترجیح دی جاتی ہے کہ وہاں زندگی کے بنیادی سہولیات ان کی دہلیز پر میسر ہوتی ہیں۔

لیکن ہمارا ملک دنیا کے نقشے پر جب سے آزاد مملکت کی حیثیت سے نمودار ہوا ہے تب سے لے کر آج تک سات دہائیوں سے ہر چیز کو غیر منصفانہ طور پر تقسیم کا رواج عام رہا ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ ہمیں یہ ورثے میں ملا تھا۔ جب برطانوی سامراج نے اپنے تخت و تاج دو آزاد ریاستوں میں بانٹ دیا تب سے غیر منصفانہ ضرب و تقسیم کا رواج ہم میں پروان چڑھا۔

سات دہائیاں گزارنے کے بعد بھی ہم انھی الجھنوں کے دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ منفرد اور خاص جگہوں کو سرفہرست رکھنا اور ازل سے ترقی کو ترستے مقامات کو مذید محرومیوں میں دھکیلنا ہمارے حکمرانوں اور اداروں کا شیوہ بن گیا ہے۔
ہم نے محض دنیا کے نقشے پر جیوگرافیکلی آزادی حاصل کی لیکن ہمارا زہن اسی غلامی کے زنجیروں میں جگڑا ہوا ہے۔ کبھی سیاست کی آڑ میں تو کبھی مذہب کو تو کبھی سماجی تفرقات کی بنا پر نفرت کی چنگاری میں جلتے رہے۔

جب بھی مملکت کی بھلائی کی کوئی راہ ہموار ہوئی ہے کسی نہ کسی طور ہم نے اس میں تضاد اور اشتعال انگیزی کی ہوا کو جنم دیا ہے، اس وجہ سے سائنس، ٹیکنالوجی، ریسرچ؛ ان شعبوں میں دنیا سے پیچھے رہ گئے ہیں۔

ایک عداد و شمار کے مطابق چین میں 2020 میں ریسرچ پبلشڈ پیپرز کی تعداد ڈیڑھ لاکھ ہے۔ جب کہ ہم نے دس سال کے عرصے میں 17000 ریسرچ پیپر لکھے ہیں ان اندرونی اختلافات کی وجہ سے نہ صرف سائنس ہم ہر شعبہ زندگی میں تنزلی کی طرف جارہے ہیں۔
اگر معاشی بحران کو دیکھا جائے تو آئے دن ہمارے گرد گیرا تنگ ہوتا جارہا ہے۔

21 ویں صدی کے اس جدید دور میں ہم پاکستان کے جو دور دراز پہاڑوں میں زندگی بسر کرتے ہیں بہت ساری بنیادی سہولیات کے منتظر بیٹھے ہیں۔

اپنی ترقی کو ہمیشہ روڈ اور ایکسپریس وے میں ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔
یہ بات بجا ہے کہ کسی بھی علاقے میں میگا پروجیکٹ سے وہاں ترقی کے نئے شاہراہ کھل جاتے ہیں، لوگوں کی زندگی میں ایک مثبت سوچ کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔ لیکن ترقی اور خوشحالی کے لیے اپنے افکار، سوچ، اور نظریے کو محض ایکسپرس وے سے جوڑنا قطعاً غلط ہے۔
قدرت کا ایک منفرد نظام ہے اگر آپ کو ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل ہونا ہے تو اندرونی ماحول کو بیرونی ماحول سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔


اس میں سب سے پہلا امر اپنے ذہن کو اس انے والے رجحان کے لیے تیار کرنا ہے۔
میں نے بہت سارے لوگوں کو یہ گفت و شنید کرتے ہوئے سنا ہے کہ غذر ایکسپرس وے سے ہم ترقی کی بلندیوں کو چھوئیں گے، اس کی تکمیل کے بعد ہمارے وارے نیارے ہوجائیں گے وغیرہ۔

ایک لمحے کے لیے سوچ بچار کیجئے اس روڑ کے بننے سے پہلے کیا ہمارے ہاں اتنے قدرتی وسائل نہیں تھے جو ہماری کٹھن زندگی کو آسان اور کرب سے نجات دلاسکیں؟
مثلاً ہم نے اپنے علاقے کی خوبصورتی سے سیاحت کے میدان میں کتنا ریونیو پیدا کیا؟ کیا ہم نے اس سے پہلے اپنے علاقے کی قدرتی خوبصورتی سے استفادہ کیا؟ یا محض اسے کوڑوں اور کچروں کا ملبہ بنا کر چھوڑ دیا!

کسی بھی میدان میں اگے بڑھنے کے لئے سب سے پہلے خود کو اس قابل بنانا پڑتا جب ترقی و خوشحالی آپ کے دہلیز تک پہنچ جائے تو اس سے مثبت طور پر استفادہ کر سکے۔
اگر ہم بغیر سوچ بچار اس میدان میں اتریں گے تو یقناً ہمارے قدم ڈگمگا جائیں گے اور ہم اس میدان میں زیادہ دیر تک چل نہیں سکیں گے۔

دوسری اہم بات ہم نے وہ اوزار ہی دوسروں کے سپرد کر دیا ہے جو اس ترقی کے راہ میں ہمارے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ہم نے اپنے نایاب اثاثہ جات کو ان لوگوں کے سپرد کردیا ہے جو کل کو ہماری ہی زمین پر ہمیں ہی زمین بوس کردیں گے۔
ہم اگر چند دن کے آرام اور عیش و عشرت والے دنوں کی خاطر آنے والی نسلوں کی جڑیں کھوکھلی کردیں تو روزِ محشر ہم اس کے جواب دہ ہوں گے۔

بجائے اپنی ملکیت زمینیں دوسروں کو سونپنے کے اگر ہم اپنے بزنس پلانس، آمدنی کے زریعے پیدا کرے تو ہم سب ایک روشن مستقبل کا داغ بیل دال سکیں گے ۔ جو مستقبل میں مزید ترقی کی راہیں ہموار کرے گا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
56772