Chitral Times

May 1, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

افغان امن میں علاقائی ممالک کا کردار…پروفیسرعبدالشکورشاہ

شیئر کریں:

آپ اسی وقت اچھے پڑوسی بن سکتے جب آپ کا ایک اچھا پڑوسی ہو۔ ہاورڈ ای کوش۔ افغانستان کے ہمسایہ ممالک عرصہ دراز تک اس کے معاملات میں ٹانگ اٹکاتے رہے ہیں۔ لمبے عرصے تک علاقائی عوامل دانستہ اور نادانستہ طور پر افغان حل کے بارے میں کھل کراپنی رائے کے اظہار سے گریزاں رہے۔درحقیقت سبھی افغانستان میں اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم رکھنے کو ہی بہتر تصور کرتے رہے۔ ابھی بھی افغان امن میں علاقائی عوامل کا کردار پس پردہ ہی ہے اور افغان امن معائدے میں علاقائی عوامل کا تذکرہ بلکل ایسے ہی ہو گا جیسے کشمیری پلاو میں کشمیر ہوتا۔ موجودہ صورتحال میں افغانستان میں امریکہ کی اولین ترجیح جلد اور باعزت انخلاء ہے۔ انخلاء تو ہو جائے گا بہرحال عزت واپسی آنی مشکل ہے۔ امریکہ کے لیے افغانستان کا امن زیادہ معانی نہیں رکھتا۔ امریکہ صرف خطے میں اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا ہے باقی معاملہ علاقائی عوامل کا ہے وہ جانیں اور افغانستان کا امن جانے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی طرح دیگر علاقائی ممالک بھی افغان امن کے لیے تگ و دو میں محو نظر آتے ہیں۔

امریکہ چالاکی سے علاقائی عوامل کے زریعے مشرق وسطی، وسط ایشیائی ریاستوں اور جنوبی ایشیاء میں اپنے مفادات کے تحفظ کو افغانستان میں امریکی روانگی کے بعد پیدا ہو نے والی صورتحال کے خوف سے منسلک کر کے ایک تیر سے دو شکار کر رہا ہے۔ افغان امن کو علاقائی پس منظر میں دیکھتے ہوئے ہمیں اندرونی اور بیرونی عوامل کو سب سے پہلے زیر غور لانا ہو گا۔ افغانستان میں موجود مختلف بڑے گروہوں کے درمیان طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے بنیادی کردار ادا کر نا ہو گا۔ یہ گروہ کسی بھی وقت طاقت کے توازن کو تبدیل کر کے ملک کو خانہ جنگی میں دھکیل سکتے ہیں۔ افغان امن کے ساتھ ساتھ امن کے بعد خانہ جنگلی کے علاوہ پیدا ہونے والے دیگر محرکات اور عوامل کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔ ان عوامل میں سب سے بڑا مسلہ آبادی میں بے پناہ اضافہ ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق 2024تک افغانستان کی آبادی 30ملین سے بڑھ کر47ملین ہو جائے گی۔

آبادی میں اسے بے پناہ اضافے کا دوسرا مطلب ہے آنے والے وقت میں افغانستان سمیت اس کے ہمسایہ ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں، معاشی مسائل، قدرتی ذخائر میں کمی، پانی کی کمی، خوراک کی قلت اور دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ افغانستان کے اہم گروہوں میں 42%پشتون،25%تاجک، 10%ہزارہ اور 10%ازبک گروہ شامل ہیں۔ ان جنگجو گروہوں کے درمیان طاقت کے توازن کوقائم کرنے کے لیے علاقائی عوامل کا کردار انتہائی اہم ہے۔ ایک مشترکہ، متحدہ اور متوازن قومی حکومت ہی افغان امن کی ضامن ہو سکتی ہے۔ پرامن افغانستان کے لیے علاقائی عوامل کو اپنے حمایتی گروہوں کو نہ صرف مطمئن کرنا ہو گا بلکہ ان کیے پرامن رہنے کی ذمہ داری لیناہو گی۔ تمام گروہوں کے خدشات اور شکوک و شبہات کو دور کرتے ہوئے انہیں مرکزی قومی حکومت میں شامل کر نا ہوگا۔ امریکہ کی آمد سے پہلے شمالی اتحاد اور طالبان کے حمایتی ممالک اپنا کردار ادا کیے بغیر پرامن افغانستان کے خواب کو شرمندہ تعبیر نہیں کر سکتے۔ ان تمام گروہوں کی پرامن انداز میں مرکزی حکومت میں شمولیت سے نہ صر ف افغانستان میں امن قائم ہو گا بلکہ ہمسایہ ممالک بھی اس امن سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ افغانستان کی قومی فوج اور سیکورٹی اداروں میں ان گروہوں کی موجودگی کا توازن قائم کیے بغیر یہ سب بہت کھٹن ہے۔ یہ امر مرکزی قومی حکومت کے قیام اور تسلسل کے لیے بھی ضروری ہے تاکہ کسی بھی وجہ سے کوئی ایک گروہ قابض نہ ہو جائے۔

افغانستان میں موجود تمام گروہوں کو بیرونی اشیر باد حاصل رہی ہے اور ابھی بھی حاصل ہے۔اس ضمن میں افغانستان میں برسرپیکار علاقائی اور غیر علاقائی دونوں عوامل کا کردار بہت اہم ہے۔ سعودی عرب اور ایران کو طاقت کی رسہ کشی سے نکل کر افغان امن کے لیے مشترکہ اور متفقہ کوشش کرنی چاہیے نہ کہ اپنی گروہوں کی پشت پناہی کو جاری رکھیں۔ سعودی عرب پشتون گروہوں اور ایران ہزارہ گروہوں کے حمایتی ہیں۔ پرامن افغانستان سعودیہ اور ایران دونوں کے مفاد میں ہے۔پرامن افغانستان سے سعودیہ اپنے علاقائی اور اندرونی مسائل پر توجہ دے پائے گا اور ایران کے سر پر منڈلاتی امریکہ کی تلوار بھی دور چلی جائے گی۔ شمالی اتحاد کے دیگر اتحادیوں میں بھارت اور روس شامل ہیں جو تاجک، ازبک اور ہزارہ گروہوں کی معاونت کرتے رہے ہیں۔ پر امن افغانستان سے روس نہ صرف امریکہ سے اپنا انتقام لینے میں کامیاب ہو گا بلکہ جنوبی ایشیاء میں موجود غیر علاقائی کردار سے بھی اس کی جان چھوٹ جائے گی۔ افغانستان میں امن سے مشرق وسطی کی ریاستیں جو مکمل طور پر روس پر انحصار کرتی ہیں وہاں روس کی تجارت کو فروغ ملے گا۔

پر امن افغانستان سے روس منشیات کے کنڑول میں کامیاب ہو گا کیونکہ روسی نوجوانوں میں یہ لت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ بھارت واحد ملک ہے جو افغانستان میں امریکہ کی موجودگی کا حامی ہے اور یہ سب وہ اپنے ذاتی مفادات کے لیے کر رہا ہے نہ کے افغان امن کے لیے۔پرامن افغانستان سے نہ صرف بھارت اپنے اندرونی مسائل پر توجہ دے گا بلکہ چین کے ساتھ بارڈ کے تنازعے کو بھی بہتر طور پر حل کر پائے گا۔ پرامن افغانستان سے بھارت کی پاکستان مخالف سرگرمیاں محدود ہوں گی جو دونوں ممالک کے لیے بہتر ہے۔ پاکستان کے لیے پرامن افغانستان سب سے اہم ہے اسی لیے پاکستان نے افغان امن کے لیے ہمیشہ سب سے بڑھ چڑھ کرنہ صرف کردار ادا کیا ہے بلکہ بے شمار قربانیاں بھی دیں ہیں۔

لاکھوں کی تعداد میں افغانوں کو پناہ دی ہے۔ پر امن افغانستان سے پاکستان کا نہ صرف دفاع مضبوط ہو گا بلکہ مہاجرین کی واپسی سے معاشی بوجھ بھی کم ہو گا۔ پرامن افغانستان سی پیک کے لیے بھی بہت ضروری ہے۔ پر امن افغانستان سے پاکستان کے خلاف بھارتی کاروائیوں میں کمی واقع ہو گی اور بلوچستان میں دیرپا امن یقینی بنے گا۔ بھارت چین سے خوفزدہ ہو کر امریکہ کی افغانستان میں موجودگی کی گردان دہراتا ہے جو بے سود ثابت ہوئی ہے۔ بھارت پاک چین مشترکہ ترقیاتی منصوبوں سے بھی خائف ہے۔دیگر ممالک کی طرح چین بھی افغانستان میں امن کا شدید خواہاں ہے۔ پرامن افغانستان سے چین کی سی پیک میں سرمایہ کاری محفوظ رہے گی۔ امن سے چین کے افغانستان سے ملحقہ صوبوں میں بدنظمی ختم ہو گی اور مشرق وسطی میں چین کی تیل کی مانگ میں خلل نہیں آئے گا۔ افغان امن میں اہم کردار اد ا کرنے کی وجہ سے چین کے دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ بھی بہت خوشگوار تعلقات قائم ہو ں گے۔ مسلم دنیا چین کو ایک متبادل سپر پاور کے طور پر سامنے لانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔

دیگر ممالک کی طرح ایران افغانستان کے مغرب میں ہزارہ گروہوں کی حمایت سے کسی بھی وقت افغانستان کی صورتحال کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے جسے ایران اپنے قومی مفادات کے لیے بوقت ضرورت استعمال کرے گا۔ پر امن افغانستان سے ایران افغان مہاجرین کی واپسی سے اپنا معاشی بوجھ بھی کم کرنے میں کامیاب ہوگا۔ 2030تک ایران کو پانی کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس وقت ایران افغانستان کے ہرماد دریا سے 70%پانی استعمال کر رہا ہے جو معائدے سے کہیں زیادہ ہے۔ اس لحاظ سے بھی پرامن افغانستان ایران کے لیے بہت فائد ہ مند ہے۔ ان بنیاد ی علاقائی کرداروں کے ساتھ کئی دیگر غیر علاقائی کردار بھی افغان امن کے لیے اہم ہیں جن میں نیٹو او ر دیگر یورپی ممالک کے ساتھ ترکی بھی شامل ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
47948