Chitral Times

Apr 26, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

تکثیریت….تحریر:سردار علی سرداراپر چترال

شیئر کریں:

تکثیریت کثرت سے ماخوز ہے۔ جس کےمعنی  زیادتی ،بہتات اور فراوانی کے ہوتے ہیں اور جدید اصطلاحی معنوں میں مختلف  ثقافتوں ،تہذیبوں، عادات و اطواراور روّیوں کا ایک وحدت میں ضم ہونے کو تکثیریت کہا جا تا ہے۔گویا  تکثیریت ایک ایسا نظریہ اور ذہنی روّیہ ہے جوکسی حقیقت  کی ایک سے زیادہ تشریحات کے امکانات پر زور دیتا ہے ۔

یہ بذات خود ایک بہت وسیع اصطلاح ہے جو ہر شعبہ زندگی میں  اس کے معنی و مفہوم کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ تنوع اور انفرادیت اللہ تعالیٰ کی تخلیق کی ایک اہم خصوصیت رہی ہے  یہی وجہ ہے کہ ہر انسان کی شکل و صورت  مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی طبیعت میں  نرمی اور سختی کے آثار بھی نمایاں ہوتے ہیں۔جیسا کہ حکیم ناصر خسرو ؒنے اس حقیقت کو  نہایت دلکش انداز میں یوں بیان کیا ہے۔

یکی زما چو گل است و یکی چو خار بطع۔۔۔۔۔ اگرچہ یکسرہ جملہ بسانِ گلزاریم

ترجمہ: ہم انسانوں میں سے طبیعت کے لحاظ سے ایک پھول کی طرح ہے تو دوسرا انسان کانٹے  کی طرح ہے ۔ اگرچہ بظاہر ہم سب انسان ایک گلستان کی مانند ہیں جس مین کانٹے اور پھول ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔

جاننا چائیے کہ پروردگارِ عالم نے  اس کائنات کی خلقت  کی بنیاد تکثیریت  پر رکھی ہے گویا مرد اور عورت کی پیدائش اور قوم اور قبیلوں میں تقسیم ہی اس تصوّر کو واضح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ازل ہی سے تکثیریت کو خلقت کی خوبصورتی کا ذریعہ بنایا ہے۔   اگر غور کیا جائے تو اس کائنات میں مختلف اور متفرق اشیاء نظر آتی ہیں۔ جو اپنی جنس اور نوع کے لحاظ سے اگرچہ مختلف ہیں لیکن اس کائنات کا حصّہ ہونے کی وجہ سےحقیقت میں  وہ ایک منظم تنظیم کے مختلف ارکان کی حیثیت رکھتی  ہیں۔ “دنیا کا کوئی مذہب کوئی مادی یا ٹھوس شکل لیکر پیدا نہیں ہوتا مگر اس دین کے عقائد و اقدار اور اصول اُس کے مقدس کتب سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ قرآن پاک اللہ کا مقدس کلام ہونے کے ناطے اسلام کا بنیادی جزو ہے ، جس میں  عالمگیر اخلاقیات پر مبنی کئی آیات موجود ہیں جن سے دور جدید میں تکثیریت جیسے تصورات کی نمائندگی ہوتی ہے ۔ لہذا قرآن میں تصوّر ِتخلیق سے متعلق آیات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح واحد ایک کلی کے کھلنے کے بعد پھول کی مختلف پتیاں ، اس کی پنکھڑی اُس کے زیرے کثرت کی شکل میں پھول کی وحدت کی نمائندگی کرتے ہیں بالکل اسی طرح اسلام کے تصورِ وحدت میں کثرت پائی جاتی ہے اور یہی کثرت وحدت کی بھی نشان دہی کرتی ہے”  (تکثیریت   واعظین ریسورس پیک جنوری 2013)

جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔  يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ     ٘  49.13

” اے لوگوں! یقینان ہم نے تمہیں مرد اور وعورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمہیں خاندان اور قبیلے بنایاتاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔یقیناََ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں زیادہ مکرم وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے”۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ  صرف  مسلمانوں سے ہی نہیں بلکہ يَا أَيُّهَا النَّاسُ کہہ  کر تمام بنی نوعِ انسان سے مخاطب ہےجو بذاتِ خود تکثیریت کی طرف اشارہ ہےپھر قبائل اور خاندانوں کے تصوّر کے ذریعے نسلِ انسانی کی کثرت کو واضح طور پر ظاہر کیا ہے۔کہ دنیا میں لوگوں کے  مختلف خاندان اور قبائل ہوتے ہیں۔تو یقینی بات ہے کہ ہر خاندان اور قبیلے کے لوگوں کے خیالات ،افکار ،طور طریقے اور رسم و رواج  ایک دوسرے سے الگ ہی ہونگے۔ لہذا انسانوں کی یہ تفریق  تکثیریت کی واضح دلیل ہے کہ وہ ایک دوسرے کے سماجی،معاشرتی اور ثقافتی تنوع کو قبول کریں اور ایک دوسرے سے تعاون کریں  کیونکہ ہر شخص کو اپنے عقیدے کے مطابق اپنے نظریات اور   مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے ذاتی اختلافات کو چھوڑ کر اپنے خیالات اور نظریات کو مثبت انداز سے ایک دوسرے کے ساتھ شئیر کی جائیں ۔ایک دوسرے سے اختلاف کی اصل  وجہ صرف ناواقفیت  ہے جس سے ہمیں گریز کرنا چاہئے جیسا کہ پرنس کریم آغاخان نے 2006 ء کو جرمنی میں  “رواداری ایوارڈ” وصول کرتے ہوئے یوں فرمایا ”  جب لوگ ان دنوں ہماری دنیا میں ایک ناگزیر” تہذیبوں کے ٹکراؤ”کے بارے میں بولتے ہیں تو اس سے کیا مراد ہوتی ہے؟ ۔ میرا خیال ہے کہ اس سے مراد “ناگزیر مذہب کا ٹکراؤ “ہے لیکن میں ایک قطعی مختلف اصطلاح استعمال کروں گا۔ بنیادی مسلہ جیسا کہ میں اسے سمجھتا ہوں مسلم دنیا اور مغرب کے مابین تعلقات کے بابت “ناواقفیت کا تصادم” ہے ۔ اور جو تجویز میں دونگا ایک بنیادی ابتدائی اقدام کے طور پر وہ ایک مرکزی تعلیمی کاوش ہے۔ہمیں ایک دوسرے پر برسنے کے بجائے ایک دوسرے کو لازماََ سننا چایئے اور ایک دوسرے سے سیکھنا بھی چاہئے”۔

ایک دوسرے سے سیکھنا اور ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہی تکثیریت کا پیغام ہے جس پر ہمیں ہر حال میں عمل کرنا چاہئے کیونکہ اسلام رواداری ، برداشت، بھائی چارہ، فیاضی، رحمدلی،عدل وانصاف اور مساوات کی تعلیم دیتا ہے اگر ان اصولوں کو زندگی کا معیار بنایا جائے تو یہی اصول بنی نوعِ انسان کے مختلف رنگ و نسل اور مختلف ثقافتوں میں بسنے والے لوگوںکو اپنے نظریات اور احساسات کا آزادی کے ساتھ اظہار کرتے ہوئے اپنے اپنے طریقے اور مذہب پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزارنے کی ضمانت دیتے ہیں۔اسی فلسفے کو سمجھنے کا نام تکثیریت  ہےاور قرآن پاک تو اسی اصول کی حمایت کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ فرماتا ہے۔

وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ۔5.48

 ترجمہ:اگر خدا چاہتا تو تم سب کو ایک ہی اُمت بنادیتا ۔ لیکن خدا کا مقصد یہ تھا کہ اُس نے جو کچھ تمہیں دیا ہے اُس میں تمہارا حال ظاہر کرے۔ پس تم نیکیوں کی طرف سبقت کرو۔

اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کسی اختلاف کو مٹانے کی کوشش درحقیقت فطرت کے عالمگیر قانون کے خلاف ہے۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے سامنے تمام راستے کھلے ہیں ہمیں کسی سے اختلاف  کا  اظہار دشمنی اور منافرت کی صورت میں  کرنے کی بجائے  خلوص وفاداری ،سچائی،اور دیانت داری کے ساتھ اپنے راستے پر چلنا چاہئیے  تاکہ آسانی کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچ سکے۔کیونکہ تکثیریت  کا نظریہ ہمیں بتاتا ہے کہ عقیدہ ایک روحانی معاملہ ہے لہذا کسی شخص یا جماعت کو صحیح یا غلط کے خانوں میں تقسیم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کونکہ ہر انسان یا جماعت انسانیت کا فیملی ممبر ہوتا ہے۔جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ الخلقُ عَیَالُ اللہ: مخلوق سارے اللہ کے کنبے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

ہم سب اللہ کے بندے ہیں ایک آدم کی اولاد ہیں، ایک ہی زمین پر پیدا ہوئے ہیں۔ہم تمام کے ایک جیسے اعضائے بدن ہیں۔مگر ہم ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔جزوی طور پر جسم کے کسی حصّے کو انسانی جسم کا نام نہیں دیا جاسکتا بلکہ ان مختلف حصوّں کے خارجی اور ظاہری  امتزاج کو انسانی جسم کا نام دیا جاتا ہے جیسا ک شیخ سعدیؒ  فرماتے ہیں۔

بنی آدم اعضائے یک دیگراند             کہ در افرینش ز یک جوہراند

چو عضوی بدرد آورد روزگار                    دیگر عضوہا را نماند قرار

تو کز محنت ِ دیگران بی غمی                            نشاید کہ نامت نہند آدمی

اگر انسانی جسم کے کسی عضو درد  میں ہوتا ہے تو جسم کے سارے اعضا ء بےقرار ہوجاتے ہیں  اسطرح بنی آدم از روئے خلقت ایک ہی جوہر سے ہیں اُ ن کی اصلیت ایک ہی جوہر سے ہے۔اگر تو دوسروں کے دکھ درد سے لاپرواہ ہے تو پھر تو انسانیت کے زمرے سے بہت دور ہے تو تجھے انسان نہیں کہا جاسکتا اور نا تو اس قابل رہا کہ تجھے اولادِ آدم کہا جائے۔

تکثیریت کا لفظ ہمارے لئے کوئی  نیا نہیں ہے .ہماری ابتدائی تاریخ سے ہی انسان کا رابطہ ذاتی، خاندانی،سماجی، اور معاشرتی طور پر اس موضوع سے ہوتا رہا ہے اور جوں جوں زمانہ اگے بڑھتا جائے گا اس موضوع کی فکری اورعملی اہمیت میں اضافہ ہوتا جائے گاکیونکہ اس سے معاشروں کے قیام، استحکام، انسانیت کی قدراور مستقبل وابستہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ پرنس کریم آغاخان نے 23 اکتوبر   2000ء میں کراچی میں  اس حقیقت کی یوں وضاحت کی۔

“ہمیں یہ ضرور سمجھنا چاہئے کہ ہماری جماعت میں تکثیریت  اللہ کی جانب سے ایک عظیم رحمت ہے اور ہمیں تمام ذریعوں سے خواہ وہ  کہیں سے بھی ہوں ،علم ،تصوّر اور تخلیقی سوچ حاصل کرتے ہوئے اس تکثیریت  کو جماعت کے فائدے کیلئے ، بلکہ دنیا بھر کی جماعت کے فائدے کےلئے استعمال کرنا چاہئے “۔

جاننا  چائیے کہ تکثیریت  معاشرے میں قیامِ امن کے لئے بنیاد فراہم کرتی ہے جس میں تمام لوگوں کو جینے کا حق حاصل ہے ۔ کوئی بھی فرد  طاقت کے بل بوتے پر کمزور طبقے کا استحصال نہ کرے بلکہ برداشت ،صبرو تحمل اور بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ زندگی کو اپنے لئے خوشگوار بناکر آئندہ آنے والی نسل کیلئے خوبصورت  بناکر حوالہ کی جائے  تاکہ ہماری یہ خوبصورت دنیا ہماری آئندہ نسلوں کے لئے ایک بہتر اور محفوض جگہ ہو۔

تکثیریت کو جب ہم  اسلامی تاریخ کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو نبی کریم ﷺکی زندگی میں بہت سی مثالیں ہمارے سامنے آتی ہیں جن میں میثاقِ مدینہ، صلح حدیبیہ ،فتح مکہ اور حجۃالوداع  کاآخیری خطبہ بہت ہی آہم ہیں۔ اسپین میں مسلمانوں کی پانچ سو سالہ حکومت رہی جن میں تینوں بڑے مذاہب یعنی اسلام، یہودیت اور عیسایت کے درمیان خوشگوار تعلقات رہے۔ اسطرح مصر  میں فاطمی خلافت قائم رہی جس  میں تکثیریت  پر مبنی معاشرہ قائم ہوا  اس دور میں غیرمسلموں کو بھی حکومت کے اندر ملازمت کرنے کے مواقع میسر تھے ۔ یہی وہ حقائق ہیں جن پر چل کر  آج  اُمتِ مسلمہ کو دینِ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں تکثیریت پر    بھر پور طریقے سے عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی کو خوشگوار طریقے سے گزارنے کی کوشش کرنی چایئے ۔

واضح ہے کہ تکثیریت انفرادیت و اختلاف کی قبولیت کا نام ہے اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان پیدائشی  طور پر ان اختلافات اور انفرادیت کو قبول کرنے کے جذبے کا حامل نہیں ہوتا مگر انسان کو اپنے رویےّ میں لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اگر وقت کے ساتھ ساتھ رویوّں میں لچک پیدا نہ ہو تو وہاں تکثیریت جیسے جدید تصورات پنپ نہیں سکتے۔اسلام کی تعلیمات  میں ہمیں  اپنے اپنے  روّیوں میں لچک پیدا کرنے کی ہدایات ملتے  ہیں۔

مختصر یہ کہ اسلام دینِ فطرت ہے جس کی تعلیمات ہمیشہ حسنِ سلوک ، رواداری،صبرو تحمل،عفو درگزر اور احترامِ انسانیت پر مبنی ہیں جن پر عمل کرکے ہی اسلام کے آفاقی اور عالمگیر اُصولوں کی ترجمانی کرسکتے ہیں ۔لہذا یہی وہ زرّین اُصول ہیں جنہیں آج کل کی جدید دنیا میں تکثیریت  کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور جن پر عمل کرنے کیلئے     دینِ اسلام ہم سے تقاضا کرتا ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
45148