Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دو رخ ….. تحریر : انعم توصیف،کراچی

شیئر کریں:

” بہت اچھا رشتہ لے کر آئی ہوں۔ لڑکا اکلوتا ہے۔ مہینے کے پچاس ہزار کماتا ہے۔ ماں تو ہے نہیں اور باپ بھی بیمار رہتا ہے۔ عیش کرے گی تمہاری بیٹی۔” رشتے والی خالہ نے پرجوش انداز میں کہا۔” واہ بھئی! یہ لائی ہو نا تم رشتہ۔ بس مجھے ایسا ہی رشتہ چاہیے تھا اپنی بیٹی کے لیے۔ کسی رشتے کا کوئی جھنجھٹ ہی نہیں۔ باپ کا کیا ہے مر ہی جائے گا۔” صغری بیگم نے لڑکے کی تصویر دیکھتے ہوئے اطمینان سے کہا۔  ان دو کرداروں سے ملتے جلتے کتنے کردار ہمیں نظر آنے لگے ہیں۔ پہلے لوگ رشتہ ڈھونڈتے ہوئے بھرے پرے خاندان تلاش کرتے تھے۔ لوگوں کی سوچ ہوتی تھی کہ جوائنٹ فیملی میں شادی کرنے کے بے شمار فوائد ہیں۔ دکھ، تکلیف، بیماری میں لوگ ایک دوسرے کے کام آئیں گے تو وہیں خوشیوں کا بھی مزا دوبالا ہو جائے گا۔

لیکن گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ ہی لوگوں کی سوچ کا معیار اس قدر گر چکا ہے کہ ماں باپ کا نہ ہونا، لڑکے کا اکلوتا ہونا اس کو خوش بختی تصور کیا جاتا ہے۔ جب مائیں اپنی لڑکیوں کی تربیت ایسی کریں گی۔ ان کے ذہن میں یہ بات بٹھادیں گی کہ ساس سسر کا ہونا ایک بوجھ ہے، تو وہ لڑکی کبھی بھی اپنا گھر نہیں بسا سکے گی۔ کیا وہ ماں یہ بات نہیں سوچتی کہ بیٹا اس کا بھی ہے۔ بہو اس کے گھر بھی انی ہے۔ آج وہ جو بھی تعلیم اپنی بیٹی کو دے گی۔ اس کی تعلیم پہ عمل اس کی بہو بھی کرے گی۔ پھر وہ کیا کریں گی؟ اتنی عقل تو سب کے پاس ہے کہ جیسا انسان کرتا ہے اس کا بدلہ پاتا ہے۔ پھر کیوں مائیں اپنی بیٹیوں کو ایسی سیکھ دیتی ہیں؟ اگر بیٹیوں کی قسمت میں ایسا رشتہ نہ ہو، جس کے خواب مائیں اپنی بیٹیوں کو دکھاتی ہیں پھر تو لڑکی کا گھر اجڑنا یہ ایک عام سی بات ہے۔ پھر ایسی بیٹیاں گھر بسا نہیں پاتیں۔ ایسی صورت حال میں مائیں اپنی بیٹیوں کی سب سے بڑی دشمن ثابت ہوتی ہیں۔ پھر یہ ہی مائیں لوگوں کے رویوں کا رونا روتی ہیں۔ خود کو مظلوم ثابت کرتی ہیں۔نپولین بونا پارٹ کا مشہور قول ہے:” تم مجھے اچھی مائیں دو۔ میں تمہیں بہترین قوم دوں گا۔” بڑھتے ہوئے طلاق کے واقعات کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ مائیں اپنی بیٹیوں کی اچھی تربیت کریں۔ اس کے ساتھ ہی بیٹوں کی بھی تربیت پہ خصوصی توجہ دیں۔ بیٹوں کی محبت میں اتنا دیوانہ نہ ہو جائیں کہ کل کو آنے والی اس کی بیوی کی شراکت کو آپ برداشت نہ کرسکیں۔

بیٹوں کو اپنی بہوؤں کے خلاف کرنے کی گری ہوئی سازشیں کرکے آپ اپنے گھر کا سکون ہی تباہ کریں گی۔ اپنے بیٹوں کو عورت کی عزت کرنا سکھائیں۔ اس کا “اچھا” شوہر بنتا دیکھ کر جورو کا غلام نہ کہیں بلکہ اس کو شاباشی دیں۔ آپ اپنی بہو کو خوش رکھیں گی تو اللہ آپ کی بیٹی کو اپنے سسرال میں خوش حال رکھے گا۔ زندگی بہت مختصر ہے اس کو آسان بنائیں۔ اللہ کا خوف دل میں رکھیں۔ نہ اپنی زندگی کو مشکل بنائیں اور نہ ہی دوسروں کی زندگی کو جہنم بنائیں۔یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے۔ آئیے آپ کو دوسرا رخ بھی دکھاتی ہوں۔” میں اس شخص کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی اماں!” فریال نے روتے ہوئے ماں سے التجائی انداز میں کہا۔” چپ کر جا۔ پاگل ہوگئی ہے۔

میں کتنی بار تجھے سمجھا چکی ہوں کہ عورت جس گھر میں ایک بار شادی ہوکر جاتی ہے۔ وہاں سے اس کا جنازہ ہی نکلتا ہے۔” ماں نے دبی دبی آواز میں غصے سے کہا۔” اماں لیکن۔۔۔!” ” پہلے ہی تیرے باپ کی کمر جہیز جمع کرتے کرتے جھک گئی ہے۔ اب تیرے ماتھے پہ لگا طلاق کا داغ وہ برداشت نہیں کر پائے گا۔”” اماں! میں مرجاوں گی وہاں۔ وہ مجھے روز مارتا ہے۔ گالیاں دیتا ہے۔” فریال سسک اٹھی۔” صبر کر۔۔ بس یہ ہی تیرا نصیب۔۔۔” اور پھر نتیجہ یہ نکلا کہ چند مہینوں بعد اخبار کی زینت ایک خبر بنی۔ ” گھریلو جھگڑوں سے تنگ آکر فریال نامی بیس سالہ لڑکی نے شادی کے ایک سال بعد زہر کھا کر خود کشی کرلی۔ بوڑھی ماں بیٹی کے غم میں ذہنی توازن گنوا بیٹھی۔” 

ایسے کتنے واقعات ہمیں اپنے ارد گرد پھیلے نظر آتے ہیں۔ والدین لوگوں کی باتوں میں آکر جلد بازی میں اپنی بیٹیوں کو بیاہ دیتے ہیں۔ وہ بیٹیاں جن کی موجودگی سے گھروں میں رونق اور بہار کا سماں رہتا ہے۔ جن کی پیاری سی مسکان ماں باپ کی تھکن اتاردیتی ہے۔ وہ بیٹی جب شادی کے قابل ہوتی ہے تو لوگوں کی ، کی جانے والی باتیں، ماں باپ کو اس قدر فکر میں مبتلا کرتی ہیں کہ ماں باپ جلد بازی میں جوڑ تلاش کردیتے ہیں۔ پھر چاہے لڑکا جیسا بھی ہو اگر وہ اچھا کماتا ہے تو اپنی بیٹی کو اس کے ساتھ بیاہ کر بے فکر ہوجاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بس اب ان کا فرض ادا ہوگیا۔ پھر بیٹیاں اگر کبھی کوئی شکایت بھی کریں تو انہیں “صبر” کرنے کا کہہ کر چپ کرا دیا جاتا ہے۔ اس کے نتائج ہمیشہ لڑکی کو ہی بھگتنے پڑتے ہیں۔ وہ ہی بیٹی زندگی بھر ظلم سہتے سہتے مر جاتی ہے یا پھر حالات سے تنگ آکر خود کشی جیسے قبیح فعل کو منتخب کر بیٹھتی ہے۔ اس کا ذمہ دار کون ہوتا ہے؟ کیا بیٹیاں بوجھ ہوتی ہیں؟ کیا آپ اپنی بیٹی کو یہ مان نہیں دیکھ سکتے کہ آپ کی بیٹی اگر پریشان ہو، سسرال میں وہ گزارا نہ کر پارہی ہو، وہ اپنے شوہر کے ساتھ خوش نہ ہو تو وہ آپ کو بتانے کی ہمت کرے۔ وہ اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر نہ مرے۔

آپ اپنی عزت کی فکر کرنے کے بجائے اور یہ سوچنے کے بجائے اپنی بیٹی کی زندگی کے بارے میں سوچیں۔ اس کو یہ یقین دلائیں ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ فریقین کو ہر ممکن حد تک سمجھائیں لیکن اگر کوئی راہ نہ نکلے تو بیٹی کے لیے واپسی کے دروازے کھلے رکھیں۔ آپ کی اولاد آپ کی زمہ داری ہے۔ اپنی اولاد کو بوجھ نہ سمجھیں۔ یہ اللہ کی نعمت ہے۔ اس کے بارے میں آپ سے سوال کیا جائے گا۔ خدارا ! دنیا والوں سے نہیں دنیا بنانے والے سے ڈریں۔ اللہ ہم سب کو عقل و شعور عطا فرمائے۔ آمین


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
45171