Chitral Times

Apr 26, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

جمہوریت بہترین انتقام….. محمد شریف شکیب

شیئر کریں:


حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی گیارہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس میں وزیراعظم سے استعفیٰ طلب کرنے، حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے اور اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ کانفرنس سے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف اور جے یو آئی کے قائد مولانا فضل الرحمان کا خطاب قابل ذکر تھا۔ جے یوآئی نے کانفرنس میں شریک جماعتوں کو ایک بار پھر یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ جب تک قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے اپوزیشن کے منتخب ارکان اجتماعی استعفے نہیں دیتے، اس وقت تک موجودہ حکومت کا بال بھی بیکا نہیں کیا جاسکتا۔ مولانا نے اس خدشے کا بھی برملا اظہار کیا کہ مارچ2021میں سینٹ انتخابات سے پہلے حکومت کو چلتا کرنا ضروری ہے۔سینٹ میں بھی ان کی اکثریت ہوگئی تو اپوزیشن کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔اے پی سی میں شامل دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے جمہوریت کو مستحکم کرنے پر زور دیا۔ بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ جمہوریت ہی سب سے بہترین انتقام ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ لنگڑی لولی جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہے۔ موجودہ اسمبلیوں میں عوام کے منتخب کئے ہوئے نمائندے ہی بیٹھے ہیں خواہ ان کا تعلق حکمران جماعت سے ہو یا اپوزیشن پارٹیوں سے۔کسی بھی حکومت کو اپنے منشور پر عمل درآمد کرنے میں پانچ سال کا عرصہ لگ ہی جاتا ہے۔دو ڈھائی سال میں کوئی بھی حکومت نتائج نہیں دے سکتی۔ بار بار اسمبلیاں توڑنے اور حکومتیں گرانے سے ملک میں جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا رہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو اس حقیقت کا احساس بھی ہے اور ان کے قائدین کے لب و لہجے سے بھی عیاں تھا کہ وہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کے حق میں نہیں ہیں۔یہ بات طے ہے کہ احتجاجی تحریکوں کے ذریعے حکومت گرانے کی کوشش کی گئی تو حکمرانوں کو سیاسی شہید کا درجہ ملے گا۔اور اگر حکومت گرانے کے بعد دوبارہ انتخابات میں عوام نے اسی کو مینڈیٹ دیا تو پھر کیا ہوگا۔ اورصورتحال کا دوسرا رخ یہ ہوسکتا ہے کہ ملک میں عدم استحکام پیدا ہونے کی صورت میں تیسری قوت کو اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے کا موقع مل سکتا ہے۔ ماضی میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا ہے۔ 1977میں ذوالفقار علی بھٹو پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر اپوزیشن جماعتوں نے ان کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک چلائی جس کے نتیجے میں نہ صرف پیپلز پارٹی کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا بلکہ اپوزیشن کو بھی کچھ نہیں ملا اور جنرل ضیاء الحق گیارہ سال تک حکمرانی کرتے رہے۔ 1998میں بھی یہی کچھ ہوا۔ ملک میں سیاسی انتشار کا فائدہ تیسرے فریق نے اٹھایا اور جنرل مشرف نے دس سال حکومت کی۔2008کے انتخابات کے بعد ملکی تاریخ میں پہلی بار دو منتخب حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور تیسری منتخب حکومت کو اقتدار میں آئے دو سال ہی گذرے تھے کہ اپوزیشن نے احتجاجی تحریک کی ٹھان لی ہے۔ جمہوریت اگر بہترین انتقام ہے تو موجودہ حکومت کو پانچ سال حکومت کرنے کا شوق پورا کرنے دیجئے۔ اگر وہ ڈیلیور نہ کرسکی تو عوام خود ووٹ کی پرچی کے ذریعے انہیں مسترد کردیں گے۔میاں نواز شریف کے بقول ووٹ کو عزت دو کے اصول پر عمل کرکے ہی جمہوریت کو مضبوط بنایاجاسکتا ہے۔ ملک میں سیاسی و جمہوری نظام کو مضبوط بنانے کے لئے آئین میں ترامیم اور جامع قانون سازی کی ضرورت ہے۔ حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام جمہوری قوتوں کو اپنی توانائیاں جمہوریت کے استحکام کے لئے بروئے کار لانے ہوں گے۔ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے نتائج وہ ماضی میں دیکھ چکی ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ بے روزگاری بھی بڑھی ہے۔ لیکن کچھ اچھے کام بھی ہوئے ہیں اداروں میں اصلاحات کا عمل جاری ہے۔ کرپٹ عناصر کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے۔ملکی مفاد میں قانون سازی بھی ہورہی ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار کشمیر کے مسئلے کو عالمی فورم پر موثر طریقے سے اجاگر کیا گیا ہے۔ کورونا وباء کے خلاف حکومت کی حکمت عملی کا عالمی سطح پر سراہا جارہا ہے۔ سیاحت کے فروغ اور ماحولیات کے تحفظ کے لئے ملکی تاریخ میں پہلی بار ٹھوس اقدامات کئے جارہے ہیں۔حکومت کی خامیاں سیاسی جماعتیں اور میڈیا نشاندہی کریں اور ان خامیوں پر قابو پانے کے لئے حکومت پر دباؤ ڈالیں اگر موجودہ منتخب جمہوری حکومت نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کی تو اس سے ملک میں جمہوری استحکام آئے گا۔احتجاج، دھرنے، مظاہرے، توڑ پھوڑ، گھیراؤ جلاؤ اور بدامنی سے ملک اور قوم کا نقصان ہی ہوگا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
40414