Chitral Times

Apr 26, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دین و دنیا میں توازن…..تحریر : سردار علی سردارؔ اپر چترال

شیئر کریں:

خداوند تعالیٰ نے جب اس کائنات کو خلق کیا تو اپنی خلقت کی خوبصورتی اور حُسن کی بنیاد ظاہری اور باطنی دونوں پہلووں پر رکھی۔ ظاہری دنیا کو ہر کوئی دیکھتا ہے لیکن روحانی دنیا عام انسانوں کی نظروں سے اوجھل ہے، لیکن صوفیاءاور عرفاءباطنی دنیا کو اپنی روحانی مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر قریب سے دہکھ سکتے ہیں جن  کی نگاہوں میں ظاہری دنیا کی کوئی وقعت نہیں تاہم ظاہری دُنیا روحانی مشاہدات کرنے کا پہلا زینہ ہے جس کے بغیر علم و عرفان کے منازل کو طے کرنا ناممکن ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ظاہری دنیا باطنی دُنیا کے ساتھ ملی ہوئی ہے اس لئے جسم کے لئے روح اور روح کے لئے جسم کی ضرورت ہے ۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں یعنی دونوں کا وجود ایک دوسرے کے لئے از بس ضروری ہے۔مختصر یہ کہ روح اور جسم ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ ہیں کیونکہ احکامِ الہی کے مطابق دُنیوی زندگی کے  حقوق و فرائض پر صحیح عمل کرنے سے ہی دُنیا کی تکمیل ہوتی ہے۔اور  ہماری روحانی زندگی کی خوبصورتی ہماری دُنیوی زندگی کے سنہری اصولوں پر عمل کرنے سے ہی ممکن ہے۔

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اگر دیکھ لیا جائے تو یہ حقیقت اور بھی واضح ہوکر سامنے آتی ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ لاَرَھبَانِیتَ فیِ السلامِ۔ ترجمہ: اسلام میں  کوئی رہبانیت  نہیں ہے ۔( اسلام دین آسان، مولانا جعفر شاہ پہلواروی ص 64 )

اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں ترکِ دُنیا کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔کہ ایک انسان دُنیوی زندگی کو خیر باد کہہ کر اُخروی زندگی کے پیچھے دوڑ پڑے۔ یہ طریقہ ہندومت، بدھ مت اور جین مت میں شاید ممکن ہو کہ ایک انسان جوگی بن کر روحانی ترقی حاصل کرنے کی سعی کرےلیکن اسلام میں اُس کے لئے کوئی جگہ نہیں کیونکہ دینِ اسلام کی آفاقی تعلیمات میں متوزن زندگی گزارنےکے لئے ہدایات موجود ہیں جن سے کسی صورت میں بھی انحراف  ممکن نہیں ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام دُنیوی ترقی حاصل کرنے کے لئے منع نہیں کرتا اور نہ ہی مادیت پرستی کے لئے تلقین کرتا ہے ۔اسلامی تعلیمات تو یہ ہیں کہ انسان کو جو زندگی عطا کی گئی ہے وہ وقت کے اندر محدود ہے لیکن اس محدود زندگی کو بھی خوبصورت طریقے سے گزارنے کے لئے مسلسل محنت اور دل لگا کر ایسا کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے گویا کہ ہم ہمیشہ کے لئے اس مادی دُنیا میں ہیں۔  اور اس مادی زندگی کے دوران روحانی زندگی جو لامحدود ہے کی آبادکاری کے لئے بھی سعی و عمل کی ضرورت ہے کیونکہ یہ دُنیا ہی آخرت کی زندگی کے لئے زادِ راہ جمع کرنے کی جگہ (مزرعہ) ہےاس لئے دُنیا کی زندگی کو خوبصورت بنانے کے لئے بھی محنت ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی ان دونوں دُنیاؤں کو آباد کرنے کے لئے بارگاِ ہِ خداوندی سےہر روز یہی دعا کرتے ہیں ۔ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ٘ 2.201    

 ترجمہ: اور بعض لوگ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور عذاب جہنم سے نجات دے۔

 اس آیت کی حکمتوں پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ خود خداوندِکریم اپنے بندے کو یہ تلقین کروارہا ہے کہ وہ پہلے اپنی دُنیوی زندگی کو آباد کرنے کے لئے خدا سے دُعا مانگےکیونکہ خداونِدتعالیٰ کو معلوم ہے کہ جب دُنیوی زندگی آباد ہوگی تو اس آباد کاری میں ہی روحانی زندگی کی کامیابی  ممکن ہے ۔یہی وجہ ہے کہ حضورﷺفرماتے ہیں کہ اُمِرتُ لِصَلاَحِ دُنیَاکُمُ وَ نِجَاتِ آخیرَتِکُمُ۔

   ترجمہ: تمہاری دُنیوی بہتری اور اُخروی نجات کے لئے مامور ہوا ہوں۔

آپ ﷺ نے اپنی اُمت کی دُنیوی اور روحانی اصلاح کے لئے دن رات محنت کی ۔دُنیوی زندگی کو سنوارا،آباد کیا اور اپنے تئیس سالہ دورِ نبوت میں مسلمانوں کے لئے مدینے کے اندر ایک مستحکم مثالی  اسلامی ریاست کی بنیاد ڈالی۔جس کے اندر رعایا کی تعلیم و تربیت ،علم و ہنر اور کسبِ معاش وغیرہ کے لئے انتظام و انصرام کے علاوہ دینی اور روحانی تربیت کے لئے مسجد نبوی کے اندر مذہبی تعلیم اور درس وتدریس کا اعلیٰ انتظام بھی موجود تھا جسکی بدولت اہلِ مدینہ نے  آپ ﷺ کی سایہ ء عاطفت میں دین و دُنیا دونوں پر عمل کرکے آنے والی اُمتِ مسلمہ کے لئے مشعلِ راہ بن گئے۔

جاننا چائیے کہ ایک متوازن زندگی ہی روح اور جسم دونوں کی بقا کے لئے ضروری ہے ۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں دُنیوی اور مذہبی تعلیم دونوں کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنی چائیے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنی دُنیوی زندگی کو آباد کرکے آخرت کی زندگی سے غفلت برتی جائیں کیونکہ دُنیوی زندگی عارضی ہے لیکن افسوس کہ آج کا  انسان مادی دنیا ہی کو اپنا مقصد بنا چکا ہےاور زمین پر ہی رہنے کو ترجیح دی ہے حالانکہ اُس کا مقام عالمِ خاکی یعنی مادی دُنیا نہیں بلکہ عالمِ علوی یعنی روحانی دُنیا ہے جہاں اُسے ہمیشہ زندگی گزارنی ہے جیسا کہ حکیم ناصر خسرو ؒاپنے حکیمانہ اشعار میں اُس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

برخاک فتنہ چون شدہء بر سما نگر

برخاک نیست جائی تو بل برتر از سماست۔

فانی بجان نئی بتنی ای حکیمِ تو

جان را فنا بعقل محال است و نارواست۔

ترجمہ: تم زمین پر فریفتہ کیوں ہوئے ہو(ذرا ) آسمان کی بلندی یعنی اپنے روحانی مقام کی طرف دیکھا کرو تمہارا مقام زمین پر نہیں بلکہ آسمان سے بھی اوپر ہے۔ اے حکیم ! تم جسمانی اعتبار سے فانی تو ہو لیکن روحانی اعتبار سے نہیں بلکہ اُس کی حقیقی قدرو منزلت، علم و حکمت اور پندو نصیحت کی باتوں سے ہے۔     ( انتخاب از دیوانِ اشعار ناصر خسرو، ترجمہ: فدا علی ایثارؔ )

مذکورہ  ان اشعار کو اگر اپنی عملی زندگی سے مربوط کیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوجائے گی کہ ہماری اصل منزل روحانی عالم ہے جو بہت دور ہے۔ جس کی تکمیل کے لئے جسمانی دُنیا ایک سہارے کی حیثیت رکھتی ہے مثال کے طور پر تھوڑی دیر کے لئے اپنی آنکھیں بند کرکے اگر سوچ لیں تو ضرور معلوم ہوگا کہ ایک وقت تھا کہ ہم اس دُنیا میں پیدا نہیں ہوئے تھے، پھر ہماری ولادت ہوئی، ہم جوان ہوئے اوراپنی خوبصورت زندگی مستی  کے عالم میں گزاری یا بہت نشیب و فراز سے گزرے، کبھی خوشی کبھی غم انسانی زندگی کا مقدر بنتے رہے،یہاں تک کہ وہ دن بھی آیاکہ انسان اس دُنیا کو خیر باد کہہ کر ایسی جگہ چلا گیاجہاں سے واپسی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن تھی۔ سب کچھ یہی رہ گیا ۔صرف انسان کی روح ہی اُس کے ساتھ رہ گئی یہی اُس کا ہمسفر ہے جو اُس کی نجات کا  ذریعہ ہےارشاد باری تعالیٰ ہے۔قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا ٘۔وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا ٘ (91.10)

 ترجمہ: جس نے اسے پاک کیا وہ کامیاب ہوا اور جس نے اسے خاک میں ملا دیا وہ ناکام ہوگا۔

انسان کی کامیابی روح کی  صفائی اور ترقی پر ہے جو معرفتِ الہی اور علم و حکمت کے حصول میں پوشیدہ ہے ۔کیونکہ روح کی خصلت میں علم حاصل کرنے کی تڑپ اور جذبہ موجود ہے اگر روح کے اس جذبے کو دبا دیا جائےتو اُس کی نشوونما نہیں ہوسکتی جو اُس کی نامرادی کی علامت ہے۔ عارفوں کے نزدیک یہ روح کی اصل کمزوری اور بلند پروازی میں کوتاہی ہےجو ایک جگہ مقید ہوکر رہ گئی ہےحالانکہ اُس کی تخلیق میں اُنچا مقام کا حصول اور بلند پروازی لکھ دیا گیا تھا جو وہ حاصل نہ کرسکی۔ اب مادی دُنیا بھی اُس کے ہاتھ سے چلی گئی جو اُس کے ساتھ ہمیشہ کے لیےرہ جانے والی نہیں۔ موت کےبعد اس کس مپرسی کے عالم میں انسان کی تمام جمع پونجی سب کچھ دُنیا ہی کی زینت بن گئی ۔دنیا کی کوئی بھی شئی اُس کے ساتھ جانے والی نہیں ہے۔ ہاں اُس کی روح دائمی طور پر ضرور اُس کے ساتھ رہے گی۔

ایسا بھی نہ ہو کہ ہم دُنیوی زندگی کو خیر باد کہہ کر گوشہء تنہائی میں ذکرِ الہی میں ایسا محوہوجائیں کہ کاروبارِ زندگی متاثر ہوجائے۔کیونکہ ہماری دُنیوی زندگی میں ہمارے والدین بھی ہیں جنکی نگہداشت کی ذمہ داری بھی ہم پر عائد ہوتی ہےاُن کی خدمت میں لاپروہی  ہماری ناکامی کا سبب بن سکتی ہے، یہاں ہمارے بچے بھی ہیں جنکی اچھی پرورش کی ذمہّ داری بھی اپنی جگہ مسلمہّ ہے وہ قدم قدم پر علمی، روحانی، اخلاقی اور عقلی پرورش کے لئے ہمارے محتاج ہیں اور جن کے بارے میں ضرور ہم سے باز پرس ہوگی۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں ان تمام فرائض سے لاتعلق نہیں ہونا چاہئے۔ اس لئے ہمیں اپنی روحانی اور دُنیوی زندگی کے دونوں پہلوؤں پر خصوصی توجہ دے کر اُن پر کما حقہ عمل کرنا چاہئے۔

یہ حقیقت ہے کہ ہمیں اپنی روحانی اور مادی دونوں ذمہ ّداریوں کو ہر حال میں پورا کرنا چاہئے کیونکہ انسان جسم اور روح دونوں کا مرکب ہے۔ جس طرح جسم کومادی  غذا کی ضرورت ہے اسی طرح روح کے لئے بھی روحانی غذاکی اتنی ہی اہمیت ہے۔ ہم اپنے جسم کو چوبیس گھنٹوں میں کتنی دفعہ غذا پہنچانےکا اہتمام کرتے ہیں۔ اگر کسی مجبوری سے ایک وقت کا کھانا نہ دیا جائے تو انسان کا جسم خود بخود کمزور ہوجائے گا۔  اس طرح اگر ہم اپنی روح کو بھی روحانی غذا دینے میں کوتاہی کریں گےتو ہماری روح بھی کمزور اور لاغر ہوجائے گی۔ ہماری روح کی روحانی غذا کا دارومدار تسبیح، عبادت و بندگی اور خدا کی یاد سے وابسطہ ہے جو روح کی نشوونما کا اصل سبب ہے جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے۔  أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ  ٘ (13.28)   

 ترجمہ: یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے ۔

قلوب قلب کی جمع ہے جس کے معنی دل کے ہوتے ہیں حکما ء کے بقول دل روح کا مسکن ہے دل کے اطمینان سےمراد روحانی خوشی و مسرت ہے اس لئے حکماء نے اس دل کو عبادت و بندگی ،ذکرِ  الہی اور نیک اعمال سے ہی پاک رکھنے کو کہا ہے تاکہ خدا کا نور اس دل کے اندر داخل ہوسکےاور وہ بیرونی دُنیا کا مشاہدہ آسانی کے ساتھ کرسکےکیا خوب فرمایا عارف رومیؒ نے۔

آئینہ دل چون شود صافی و پاک

نقش ہا بیند بیرون از آب وخاک

روزنِ دل گر کشادست و صفا

میرسد بے واسطہ نورِ خدا

ترجمہ: جب دل کا آئینہ پاک اور صاف ہوگا تو پانی اور مٹی (مادے) سے ماوریٰ (روحانی)صورتوں کو دیکھ سکے گا اگر دل کا دریچہ کشادہ اور صاف ستھرا ہے تو براہِ راست اس میں خدا کا نور داخل ہوگا۔   (مولانا جلال الدین رومیؒ، کلیات مثنوی ص 594)

رومیؒ کے اس عارفانہ کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ آئینہ دل کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے عبادت و بندگی اور زکرِ الہی کی انتہائی ضرورت ہے ۔ دل کا آئینہ چونکہ گناہ سے گندھا ہوجاتا ہےاور اس میں کچھ نظر نہیں آتا ۔ جس طرح عام آئینے میں دیکھنے سے انسان کی اپنی صورت بھی نظر نہیں آتی۔دل کی صفائی توبہ استغفار، ذکرِ الہی ، عبادت و بندگی، پاکیزہ خیالات، سچ بولنا اور وعدہ پورہ کرنا جیسے اوصاف کو اپنے اندر پیدا کرنے سے ہی ممکن ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر عزیزا للہ نجیب ؔ اپنی کتاب ” کتاب الانوار ” میں رقمطراز ہیں” اور جو سچ بولتا ہے اور وعدہ پورا کرتا ہے وہ اپنی روح کے اندر ایک سکون اور اطمینان پالیتا ہےاور لوگوں سے (اپنے متعلق)ذکرِ خیر سن لیتا ہےاور اُس کی روح کے اندر اسی ایفائے عہداور سچائی سے ایک ایسی روحانی تصویر پیدا ہوتی ہےجس کی مسرت اور خوشی ہمیشہ کے لئے اُس کے ساتھ وابسطہ رہتی ہے”

چونکہ انسان اور خدا کے درمیان ایک پردہ ہے جس کی وجہ سے انسان بیرونی دُنیا  کا مشاہدہ  کرنے سے قاصر ہے۔ ہاں اگر کوئی اپنے دل کو صاف رکھے تو یہ پردہ خود بخود ہٹ جاتا ہے۔ جب حجاب اُٹھ جاتا ہے تو انسان روحانی مشاہدات  کرسکتا ہے  تو اُس وقت وہ خدا کا محبوب بن جاتا ہےاور اُس کا ہر عمل خدا کا عمل بن جاتا ہے جیسا کہ حدیثِ قدسی میں تفصیل سے اس کا ذکر ہے۔” میرا بندہ ہمیشہ زائد عبادات کے وسیلے سے میری نزدیکی حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اپس کو اپنا محبوب قرار دیتا ہوں اور جب میں اُس کو اپنا محبوب بناتا ہوں تو میں اُس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اُس کی انکھیں جن سے وہ دیکھتا ہےاور اُس کے ہاتھ جس  سے وہ پکڑتا ہے اور اُس کی زبان جس  سے وہ بولتا ہے اور اُس کے پاؤں جس سے وہ چلتا ہےپس میرے ہی ذریعے سے چلتا ہے”     ( کتاب الوسیلہ از ڈاکٹر عزیز اللہ نجیبؔ ،ص 64 )

مذکورہ حدیث سے  اس بات کی نشان دہی ہوتی ہے کہ خدا کے رنگ میں رنگ جانے کے لئے خدا کے عادات کو اپنانا پڑتا ہےجیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے ۔صِبْغَةَ اللَّهِ ۖ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً ۖ وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ ٘ (2.138)

ترجمہ:   اللہ کا رنگ اختیار کرو اور اللہ تعالٰی سے اچھا رنگ کس کا ہوگا   ہم تو اسی کی عبادت کرتے ہیں۔

“خدا کے کونسے رنگ ہیں؟ یہ خدا کی وہ صفات ہیں جنہیں خدا نے اپنے خوبصورت نام (اسمائے حسنیٰ) قرار دیا ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ خدا کے نناوے اسمائے حسنیٰ ہیں جنہیں اس کے صفاتی نام سمجھنا چاہئے جب کہ اُس کا ذاتی نام صرف “اللہ” ہے انسان کی پہنچ خدا کی صفات تک ہے اور یہ اُس کا خصوصی امتیاز ہے کہ وہ خدا کی صفات میں رنگا جاسکتا ہےاور اس امتیاز کی بنیاد صرف یہ ہے کہ انسان کے اندر خدا کی روح موجزن ہے جو انسان کے لئے خدا کے رنگ میں رنگے جانے میں اس کی مدد کرتی ہے”

    (اسلام کی روحانی قدریں، از محمد حنیف رامے، ص 14)

خدا کے عادات میں سے ایک عادت روح کی پاکیزگی ہے روح کی پاکیزگی کا دارومدار اخلاقِ حسنہ، نیکو کاری اور دعا وبندگی پر ہےاور یہ دُعا بندگی ہی محبوبِ حقیقی سے ملاقات کا ذریعہ ہے خواجہ حافظ شیرازی ؒنےکیا خوب فرمایا ہے۔

دُعائے صبح و آہ و شب کلیدِ گنج مقصود است

بدین راہِ روش بیرو کہ بادلدارِ پیوندی

ترجمہ: صبح کی دُعا اور رات کی گریہ وزاری مقصد کے خزانے کی چابی ہیں تو اس راستے اور اس طریقے پر چلتا رہ تاکہ تو اپنے محبوب سے ملاقات کرنے اہل ہوجائے۔

مختصر یہ کہ روح کی نشونما اور ترقی کا دارومدار عالمِ روحانی اور عالمِ جسمانی دونوں پر یکسان توجہ دینے میں ہے جسطرح ہم دُنیوی ترقی کے لئے کوشش کرتے ہیں اسطرح روحانی ترقی کے لئے بھی مسلسل سعی کرنے کی ضرورت ہے اور یہ متوزن زندگی ہی ہماری کامیابی کی ضامن ہے  ۔ اس لئے ضروری ہے کہ انسان کو اس دُنیا میں جو زندگی دی گئی ہے وہ بہت ہی محدود ہے ا س لئے اس محدود زندگی کے دوران اپنی روحانی زندگی کو جوکہ لامحدود ہے کو  خوبصورت بنانااور بھی زیادہ ضروری ہے کیونکہ روحانی نعمتوں سے مستفیض ہونا انسان کی زندگی کا بنیادی مقصد ہے اور یہ اُس وقت ممکن ہے کہ جب ہم ظاہری دُنیا ہی میں  روحانی دُنیا کے لئے فکر کریں اور ایک لمحے کے لئے بھی ایسا کوئی کام انجام نہ دیں جو ہماری دُنیوی اور روحانی دُنیا کی راہ میں رکاوٹ بنے۔روح کی ترقی دُنیوی زندگی کی آباد کاری کے ساتھ وابسطہ ہے ۔ ہم ترکِ دُنیا کرکے آخرت کی فکر نہیں کرسکتے ۔بلکہ دُنیا کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرکے اپنی روحانی زندگی کو بہتر بناسکتے ہیں۔ یہی ہے زندگی کا فلسفہ اور یہی ہے ہماری نجات کا ذریعہ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
37849