Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان ……..عطر بیز لوگ………. محمد جاوید حیات

Posted on
شیئر کریں:

بعض لوگوں کی صحبت اتنی عطربیز ہوتی ہے کہ ان کے ساتھ گزرے ہوئے چند لمحے عمر لگتے ہیں اور بھلانے سے بھلائے نہیں جا سکتے۔یہ ”سراپاخوشبو“ اصل میں لوگ نہیں ہوتے ”شخصیات“ ہوتے ہیں اور کرشماتی شخصیات کو بھلایا نہیں جا سکتا۔بمبوریت میں آئے روزمہمان آتے رہتے ہیں اور مہمان بھی بھاند بھاند کے ہوتے ہیں۔لیکن دل کے مہمان خال خال میسر آتے ہیں۔۔ ۰۲تاریخ کی شام تھی کہ فون پہ ایک جانی پہچانی آواز نے چونکا دیا۔یہ آواز محترم حنیف اللہ صاحب کی تھی۔حنیف اللہ صاحب چترال میں ڈی ای اومحکمہ تعلیم رہ چکے تھے۔اور نہایت مہربان آفسر تعلیم تھے۔وہ نمایان ماہرتعلیم تھے اس وجہ سے آپ کی ذات سے معلمی ہی ٹپکتی۔وہ تھیکے لہجے کے دلکش شخصیت تھے۔ان کی نگرانی میں ہم نے جتنے بھی کام کئے ہمیں حوصلہ ہی ملا۔بڑوں کی طرف سے چھوٹوں کوحوصلہ ملے تو بڑے مہمیز کی بات ہے محکمہ تعلیم میں ایسا کم کم ہی ہوتا ہے۔ حنیف اللہ صاحب چترال سے گئے مگر چترال کو بھولا نہیں۔روز آپ کا ایک برقی پیغام فون کو لرزاتا ہے اور دیکھنے سے روح میں ایک تازگی کا احساس ہوتا ہے۔۔

یہ پیغام ایک سبق ہوتا ہے۔۔اخلاقیات کا ایک باب۔۔جو صدیوں کوئی پڑھائے تب بھی مزہ آئے۔حنیف صاحب آج کل مردان بورڈ کے چیرمین ہیں۔۔حنیف صاحب نے کہا کہ آپ بمبوریت میں ہیں۔یہ سن کر کانوں پہ یقین نہیں آیا۔آنکھیں چمک اٹھیں اور پھر دیکھنے کو ترس گئیں۔۔بتایا گیا کہ میں ان کے لئے شب گزاری کا بندوبست کروں۔رات نو بجے تشریف لائے۔گاڑی ہم نے سکول میں کھڑی کر دی۔ سامان اٹھا کر برون گاؤں میں ایران کائے کے گھر جہان پہ حنیف صاحب کے آنے کی پہلے سے اطلاع تھی لے گئے۔گھر اس لئے گئے کہ حنیف صاحب کے ساتھ ڈاکٹر شائستہ بھی تھیں اور ان سب کوگھر کا ماحول چاہیے تھا۔میں نے خود سامان ساتھ اٹھایا یہ میرا اعزاز تھا اور اوپر گاؤں کی طرف روانہ ہوئے۔ میرا اور ڈاکٹر شائستہ کا آپس میں تعارف نہیں تھا البتہ ایک مانوس آواز جو کسی اجنبی کو بھی اجنبی نہیں رہنے دیتی۔۔
.
رہ رہ کے سننے کو ملتی۔۔میں راستے کا تعارف کراتا۔کچھ گاؤں کے بارے میں بتاتا۔کچھ کیلاش قوم کی تاریخ سناتا۔مگر یہ آواز ایک تجسس اور اشتیاق ملی ہوئی ہوتی اور سوال پہ سوال کرکے بتانے والے کو یہ باور کراتی کہ یہ آواز ایک مربی اور بہت بڑے کی آواز ہے۔ہم گاؤں سے ہوتے ہوئے ایران بی بی کائے کے گھر پہنچے۔۔مہمان خانہ کھولا گیا۔۔ہم اندر گئے۔حنیف صاحب نے حال احوال پوچھا۔۔سامان رکھے گئے۔۔یہی پر وقار اور مانوس آواز ڈاکٹر شائستہ کی تھی۔میں اپنے کمرے کو واپس آیا۔صبح حنیف صاحب نے کال پہ اطلاع دی کہ ناشتہ ہو رہا ہے۔میں ان سے ملنے گیا اور ان کے چہروں کوبمبوریت کی خوبصورت صبح کی طرح روشن اور خوبصورت پایا۔ہم اس گھر سے رخصت ہوئے۔بہت سارے شکریے ادا کیے اور ساتھ ایک طمانیت لے کے روانہ ہوئے۔۔
.
جب ہم کلاشہ دور میں داخل ہوئے تب ڈاکٹر شائستہ نے اپنا مکمل تعارف کرایا کہ آپ ایبٹ آباد بورڈ کی سکریٹری ہیں اور چیرمین شپ کا اضافی چارچ بھی پاس ہے۔ایک شائستہ اور باصلاحیت آفیسر ہیں۔آپ واقعی میں ”بڑے“ ہیں بڑے لوگ بڑائی جتاتے ہیں۔ہمارے ہاں ”بڑے“ اپنے سے بہت ”بڑا“ ہونے کی کوشش کرتے ہیں اس وجہ سے ان کا بڑا پن چھوٹے پن میں بدل جاتا ہے اور ہر کوئی چھوٹا ان سے کتراتا ہے۔اصل میں یہ لو گ کمپلس کا شکار ہوتے ہیں۔حنیف صاحب گریٹ بیس کے آفیسر ہیں مگر لگتا ہے کہ آ پ کے بڑے بھائی ہیں تم ابھی پاؤں پاؤں چلتے ہو اور وہ تمہارا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھ رہاہے۔ یہ بڑا پن نہیں مگر ”بڑوں“کو اور بڑا اور کرشماتی بنا دیتا ہے۔۔یہ شائستگی ہے۔یہ شائستہ پن ڈاکٹر شائستہ میں بھی بہ درجہ اتم موجود تھی۔وہ پل میں لاپرواہ سی لڑکی بن جاتی کیوں کہ اس کے سامنے کلاشہ دور کے پرائمری سکول کی بچیاں ہوتیں دوسرے لمحے ان کے اساتذہ ہوتیں تو لڑکی سے ایک مانوس،ہنس مکھ اور باوقار خاتون بن جاتیں ان سے گل ملتیں اور ان کو اپنائیت کااحساس دلاتیں۔ان کالہجہ شہدجیسا،باتیں میٹھی میٹھی،انداز دلکش ایسا کہ ان کامخاطب مبہوت ہوجائے،شخصیت دیدہ زیب،چہرہ چاند،چلت پرت میں وقار،الفاظ میں جادو،شاعروں کالونا(LUNA)، آنکھیں چمکتی ذہین۔۔
.
ان کی تعلیم نے ان کو بلاکاپراعتماد بنا دیاتھا۔اس کوہرکہیں حسن نظر آتا تھا اور لگتا کہ یہ قدر تی حسن وہ اپنے اندر جذب کر لے گی۔ اس کوفطرت سے پیار تھا اور اس لئے وہ کبھی کبھی نظارے میں خودمنظر بن جاتی۔وہ انگریزی ادب کی طالبہ تھی جس نے اس کوفطرت پرست اور حقیقت پسند بنا دیا تھا۔پھر انگلینڈ کی گلاس گو یونیورسٹی سے ایجوکیشن میں پی ایچ ڈی نے لازماً اس کو انسان شناس،فطرت شناس اور حقیقت شناس بنا دیا تھا۔آپ مختلف یونیورسٹیوں میں لکچرر رہ چکی تھیں۔مختلف یونیورسٹیوں میں رجسٹرار اور دوسری اعلی عہدوں میں رہ چکی تھیں۔مختلف بین القوامی پروگراموں میں کورس کوارڈنیٹر رہی تھیں۔ان کوبڑے بڑے کا م کرنے کا جنون تھا۔ڈاکٹر شائستہ نے دنیا دیکھی تھیں اور زندگی کا لطف صلاحیتوں میں ڈھونڈ رہیں تھیں۔ان کے ساتھ زندگی کے کچھ گھنٹے گزرے لیکن ثبت کر گئے کہ زندگی کبھی کبھی بہت انمو ل ہو جاتی ہے۔میں جب حنیف اللہ صاحب اور ڈاکٹر شائستہ کو الوداع کہہ رہا تھا تو گویامیرے ہاتھ نہیں اُٹھ رہے تھے بلکہ وہ خوبصورت لمحے میری گزرتی عمر کاحصہ بن رہے تھے۔جن کومیں فراموش نہیں کر سکوں گا۔۔یہ عطر بیز لوگ عضب کے جلد باز ضرور ہوتے ہیں لیکن اپنی خوشبو ساری رہتی عمر کیلئے چھوڑ جاتے ہیں۔۔
shaista dr kalash valley visit


شیئر کریں: