Chitral Times

Apr 26, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

خود کی حفاظت زندگی سلامت…..تحریر : سردار علی سردارؔ اپر چترال

شیئر کریں:

اللہ تبارک  و تعالیٰ نے حضرت انسان کو اپنے کمال مہربانی سے جس طرح چاہابہت ہی خوبصورت انداز سے احسنِ تقویم کے اعلیٰ درجے پر پیدا کرکے یہ زندگی امانت کے طور پر اُسے  عطا کی ہے تاکہ وہ خداوند تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہوئے اس زندگی کو خوبصورتی کے ساتھ اور خوشگوار طریقے سے گزارے ۔خدا کی تخلیق میں ہرگز  یہ نہیں کہ انسان اس زندگی کو عبس اور بیکار سمجھتے ہوئے اس کو یوں ہی گزار دے جیسا ک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہأَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا ۔ (23.115 )

 ترجمہ: کیا پھر تم نے یہ گمان کرلیا تھا کہ ہم نے تمہیں بےفائدہ پیدا کیا ہے؟ ۔

مذکورہ آیت میں یہ حقیقت واضح ہے کہ انسان کی خلقت کے پسِ پردہ صانعِ حکیم نے اپنی شناخت بتایا ہے تاکہ خداوندِ تعالیٰ کی معرفت کا اظہار  اُس کے بندوںہی کے ذریعے سے  ہواس لئے انسان کو خلیفتہ اللہ یعنی اللہ کا نائب کے عظیم ٹائیٹل سے یاد کیا گیا ہے۔تاکہ انسان انسان بن کر خدا کی دی ہوئی اس خوبصورت زندگی کو اس کے منشاء کے مطابق گزارے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق  کے ہر ذرے میں خوبصورتی ، عقل ،حسن اور جمالیاتی ذوق کی کشش موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُسے دیگر مخلوقات پر برتری اور فضیلت حاصل ہے۔ اس لئے زندگی  کی سلامتی اُس وقت ہوسکتی ہے  جب اُس کی آبیاری علم و دانش اور عقل و خرد سے کی جائےکیونکہ بزرگوں نے کہا ہے کہ علم اور دانش زندگی ہے جبکہ جہالت ،بےعلمی اور نادانی  مردگی کا دوسرا نام ہے۔کیا خوب فرمایا  حکیم  ناصر خسرو ؒنے۔ 

مرگ جہل است و زندگی دانش ۔۔۔۔۔۔۔۔مردہ  نادان و زندہ دانایان

ترجمہ: جہالت حقیقی موت ہے اور علم زندگی ہے ‘ جاہل (جسمانی طور پر زندہ ہوتے ہوئےبھی) مرے ہوئے ہیں اور دانا لوگ (اگر جسمانی طور پر مرے بھی ہوں پھر بھی حقیقی معنی) میں زندہ  ہیں۔

اہلِ دانش کو یہ بات معلوم ہے کہ  زندگی کی سلامتی کی ضمانت عقل پر رکھی گئی ہے جہاں عقل ہوگی وہاں زندگی خوش و خرم اور خوشگوار ہوگی ورنہ جہالت کے اندھیرے میں انسانی زندگی کی ہمیشگی کی موت ہوگی۔عقل کا تقاضا یہ ہے کہ زندگی  خدا کی طرف سے ایک امانت کے طور پر اُسے دی گئی ہے اُس کو دنیوی گندگیوں، آلائیشوں اور دوسرے موذی اثرات سے بچانا بھی  اُس کی اہم ذمہ داریوںمیں شامل ہے۔کیونکہ بہت سی بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جو غفلت ،نادانی اور صفائی کے اصولوں پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے انسانی زندگی پر حملہ آور ہوتی ہیں جن کی وجہ سے انسان کی تندرست زندگی آہستہ اہستہ موت کے دہانے میں چلی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں  حقوق و فرائض بیان کئے گئے ہیں جس کا آغاز فرد کی ذات سے ہوتا ہے  اور اُس کا اختتام اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ زندگی انسان کو صرف ایک بار ملتی ہے اس لئے اس زندگی کی قدو قیمت خود کرنی چاہئیےاور یہ اُس وقت ممکن ہے کہ ہم اپنی زندگی کو مختلف منفی اثرات سے محفوظ کرلیں۔مثال کے طور پر جب انسان نشہ آور چیزوں میں مبتلا ہوتو اُس کی یہ قیمتی زندگی رفتہ رفتہ تباہ و برباد ہوکر بے وقت موت  کے منہ میں چلی جاتی ہے۔ حالانکہ خداوندِ تعالیٰ  کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے۔ اُس  نے  یہ زندگی تندرست اور صحت مند بنا کر امانت کے طور پر اپنے بندے کو عطا فرمایا تھا لیکن انسان خدا کی اس مشیت سے بغاوت کرکے اپنی مرضی سے زندگی کو چلانے کی کوشش کی تو یہی نتیجہ بھگتنا پڑا۔عقل مند انسان اپنی زندگی کی قدر ضرور کرے گا لیکن نادان اور جاہل اس کی پرورش میں خیانت کرے گا۔مثال کے طور پر کوئی دنیوی زندگی سے مایوس ہوکر اپنے لئے موت کو ترجیح دے گا ، کوئی اپنی صحت کا خیال نہ رکھتے ہوئے قانون کی دھجیاں اُڑائیےگا جس کی وجہ سے اُسے مختلف بیماریوں کا  شکار ہوکر موت کے آغوش میں جانا پڑے  گا ۔حالانکہ خدا کی مشیت میں ایسا نہیں ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے۔ وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا  ٘   (29 :4 )  ترجمہ:  اور تم اپنے آپ کو قتل نہ کرو ، بےشک اللہ تعالیٰ تم پر بہت رحم کرنے والا ہے۔

اس آیت سے واضح ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمیں اللہ کی تخلیق کے بھیدوں کو سمجھنے کی کوشش کرکے مسائل کا مقابلہ قوت ارادی اور عزمِ صمیم کے ساتھ کرنا چاہئے، کسی مصیبت سےگھبراکر زندگی سے فرار اختیار کرنا  ہرگز جائز نہیں ہے  ۔بلاشبہ انسانی زندگی پھولوں کی سیج نہیں  ہے ۔ یہاں  کبھی خوشی کبھی غم کے مصداق غم اورخوشی آتے رہتے ہیں جو انسان کی سیرت سازی میں بھی ایک نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔جو اس کے اندر اس رنج و غم کو سہنے کی ایک طاقت پیدا کر  کے  اُس کو   خدا کے ساتھ پھر سے  اپنے رشتے کو مضبوط کرنے کا ایک زرین موقع دیتے ہیں  اور اُسے یہ یقین  دلاتے ہیں کہ جس طرح یہ زندگی فانی ہے اسی طرح یہ مصائب اور تکالیف بھی عارضی اور فانی ہیں۔نیز ہر مشکل کے بعد آسانی پیدا ہونا لازمی امر ہے۔

اس وقت عالمِ انسانیت  ایک مہلک وبا کی بےتحاشہ وار کی وجہ سے جانی،مالی،معاشرتی، مذہبی  اور ذہنی پریشانی میں مبتلا ہے۔کوئی ادھر بھاگ رہا ہے تو کوئی اُدھر بھاگنے کی تگ و دو میں ہے ۔دوست ،احباب،رشتہ دار حتیٰ کہ ہرکوئی ایک خوفِ بےجا میں مبتلا  ہے۔   گویا اس منظر کو اگر قیامتِ صغریٰ     کا نام دیا جائے تو بےجا   نہ ہوگا کیونکہ قیامت کی نشانی بھی  قرآن پاک کے مطابق یہی ہے جیسا کہ ارشادِ خداوندِ ہے۔      يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ ٘ وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ٘وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ٘لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ٘  (37 تا 43 :80 )

 ترجمہ: “اس دن آدمی بھاگے گا اپنے بھائی سے۔اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے۔اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے۔ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایسی فکر (دامن گیر) ہوگی جو اس کے لئے کافی ہوگی”۔

آج کل یہی کچھ دیکھا جاتا  ہے کہ وبا کے ان ایّام میں ہرکوئی سرگردان اور پریشان حال ہے نہ حال کی فکر ہے  اور نہ ہی مستقبل کی سوچ ۔اگر ہے تو صرف اپنی جان کی فکر۔ اگر جان ہے تو جہاں ہے۔جہاں کی رونق اور خوبصورتی حضرت انسان کی وجہ سے ہے ۔ انسان انفرادی طور پر جتنی بھی ترقی کرلے،دولت کمائے ،طاقت کے بل بوتے پر دوسروں پر غالب آئے پھر بھی زندگی کا بوجھ تنہا نہیں اُٹھا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرہ انسانوں کی وجہ سے بنتا ہے ،فرد نہیں تو معاشرے کا وجود ہی سرے سے مٹ جاتا ہے ۔ معاشرے کی اکائی خاندان ہے پھر رشتہ دار، اسطرح یہ سلسلہ اگے بڑھکر پوری انسانیت تک پہنچ جاتا ہے۔

 یہ تمام حقائق اپنی جگہ مسلمۤہ ہیں لیکن وبا کے ان دنوں میں اپنی جان کی حفاظت کرنا بھی ہرعقل مند انسان کی اولین ذمہ داری میں شامل ہے۔کہ وہ  بازاروں  یا ہجوم والی جگہوں میں جانے کی بجائے اپنے گھر کے اندر ائسولیٹ ہوجائے۔نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں جب پھیلنے والی بیماری آجائے جس سے موت آسکتی ہوتو  آدمی اپنے گھر میں بیٹھا رہے اور صبرکرتے رہے اس نیت سے کہ ثواب ملے گا تو اللہ تعالیٰ اُسے زیادہ ثواب دے گا۔ لیکن یہ بات ضرور یاد رکھے کہ اگر کوئی آدمی اپنے گھر میں رہتے ہوئے اُس میں بیماری کے علامات ظاہر ہوں تو وہ لوگوں سے چھپ کر گھر میں نہ بیٹھے رہے۔بلکہ ہسپتال جاکر علاج کرائیں کیونکہ چھپ کر گھر میں بھیٹنے سے یہ بیماری گھر والوں اور محلے والوں تک پھیل جائے گی اور یہ بہت بڑا گناہ ہے۔پھر بھی کسی ضروری کام سے باہر جانا ہو تو کسی سے مصافحہ یا گلے ملنے کی بجائے  اسلام علیکم یعنی خدا کی رحمت  اور سلامتی تم پر ہو جیسی عظیم دعا پر ہی بھروسہ  کیا جائےاور یہ یقین کیا  جائے کہ خدا کی دی ہوئی اس متبرک دعا سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ مصافحہ کرنا سنت ہے لیکن وبا کے دنوں میں ہاتھ نہ ملانا سنت ہے۔صحیح مسلم کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں لاَیُرِیدُمُمرِدُُ عَلَیٰ مُوصیحِ ۔ ترجمہ: کوئی بیمار کسی صحت مند آدمی سے ملاقات نہ کرے۔اسطرح صحیح مسلم کی یہ بھی روایت ہے کہ جب ثقیف کا ایک وفد رسول ﷺ سے بیعت کرنے کی نیت سے آیا تو اُن میں ایک شخص متعدی بیماری میں مبتلا تھا تو نبی کریم ﷺ نے  اُس سے ہاتھ ملائےبغیر اُس کو فارع کردیا اور فرمایا کہ ہم نے تمہاری بیعت قبول کرلی ہے۔

 عقل مند انسان کو معلوم ہے کہ اس وبا کا نہ کوئی دوست ہے، نہ مذہب ہے ، نہ علاقہ ہے ، اور نہ ہی یہ کسی  بزرگ   کو دیکھتا ہے  اور نہ ہی کسی مومن  مسلمان کو۔یہ چھپا دشمن جب چاہے اپنی تلوار چلاتا  رہتا ہے  جس کی وجہ سے اس وقت پوری دنیا میں تین لاکھ انیس ہزار   اٹھ سو ستائیس لوگ اس کے لقمہ بن چکے ہیں جبکہ اٹتالیس لاکھ پچاسی ہزار   سات سو اٹتالیس لوگ  اس وبا میں مبتلا ہوکر ہسپتالوں میں   زیرِ علاج ہیں ، اور کئی لوگ قرنطینہ میں آئسولیٹ ہوکر زندگی کی بازی لڑ رہے ہیں۔ اس موذی وبا کو شکست دینے کیلئے حکومتی تدابیراور حکمتِ عملی اپنی جگہ لیکن ملک کے مختلف  مکتبہ فکر  کے علمائے کرام ،دانشور،سماجی اور سیاسی  کارکن لوگوں  کو اس وبا  میں احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کے لئے بار بار ہدایات دے رہے ہیں جبکہ حکومتی سطح پر  ملک میں اکثر جگہوں میں لاک ڈاون پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ عبادت گاہوں میں  اجتماعی عبادت پر  بھی پابندی لگائی گئی ہے۔لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اکثر  لوگ  ان قوانین پر عمل کرنے کے لئے تیارہی نہیں ہیں گویا ایسا لگ رہا ہے کہ ملک میں کوئی وبا ہی نہیں ہے اور حکومت صرف بیرونی ممالک سے پیسہ کمانے کے لئے یہ ڈرامہ رچا رہا ہے۔ نادان لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمان چونکہ حج اور عمرہ کرتے ہیں ۔خدا پر اُن کا پکا ایمان ہے اُن میں یہ وبا  کبھی بھی نہیں آتی۔ خدا را!  اسلامی تاریخ پر ایک نظر دوڑائیں  کیا وبائیں ماضی میں نہیں  آئی تھیں ؟ ۔ بڑے بڑے صحابہ  جیسے ابو عبیدہ ابنِ جراح ؓ، خالد بن ولیؓد  اور معاز ابن جبلؓ وعیرہ صحابہ کرام  ؓوبا کی وجہ سے  انتقال فرماچکے ہیں۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پانچویں صدی ہجری میں قرطبہ میں ایک مہلک بیماری پھیل گئی  تحی جس کے نتیجے میں اتنے جنازے اُٹھے کہ تُعلِقُ الابوَاب یعنی  مسجدوں میں تالے پڑ گئے  کہ کوئی نماز پڑھنے والا  ہی نہیں بچا ۔حالانکہ وہ بھی نیک مسلمان تھے ۔ اور اب بھی پاکستان میں  جو وبا  پھیلی ہے اس میں بھی نو  سو  سے زیادہ بڑے بڑے نیک اور عبادت گزار لوگ اب تک وفات پاچکے ہیں۔ جبکہ انتیس ہزار سے زائد افراد ہسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔ اچھی خبر یہ کہ بارہ ہزار لوگ اب تک پا کستان میں صحت یاب ہوچکے ہیں۔

ہم دینِ اسلام کی تعلیمات  سے واقف تو ہیں  لیکن   اُن پر عمل کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں۔ہم بیت اللہ شریف کی حرمت  اور اُس کے تقدس کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ  میں پہلی دفعہ یہ دیکھنے کو ملا کہ خانہ خدا اُمتِ مسلمہ کی عبادت و بندگی کے لئے بند ہوچکا ہے۔ یہ ایسا متبرک گھر ہے جہاں دورِ جاہلیت  میں بھی لوگ آمن اور پناہ لینے کے لئے آتے تھے ۔لیکن آج اسلام کے عروج کے اس دور میں وہاں جانا منع ہے کیونکہ پوری دنیا میں وبائی مرض پھیل چکا ہے جس سے لوگوں کو بچانا  اسلامی تعلیمات کا حصہ ہیں۔کہتے ہیں  کہ نبی کریم ﷺ نے ایک دن جب سخت بارش ہورہی تھی حضرت بلال حبشیؓ کےذریعے یہ اعلان کرایا  “صَلوُ فیِ رِحَالِکمُ” نماز اپنے گھروں میں ادا کرو۔ظاہر ہے کہ بارش سے جان کے لئے تو کوئی خطرہ نہیں ہوسکتا پھر بھی رحمت دو عالم نے لوگوں کو تحفظ دینے کے لئے ایسا  ہی حکم  فرمایا ۔اب حالت یہ ہے کہ وبا سے انسانی جان کو خطرہ لاحق ہے۔لہذا ایسی بیماری سے اپنے اپکو بچانا عین اسلام ہے۔لیکن ہم  اسلام کے اس طریقے کو نہ سمجھتے ہوئے الٹا وہاں کے علماء کو برا بلا  کہتے ہیں حالانکہ اُن کی  پوری زندگی قرآن و سنت کے مطالعے میں گزری ہے ۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ قرآنِ پاک  مکہ اور مدینے میں  اُن کی اپنی زبان میں نازل ہوچکا ہے وہ ہم سے بدرجہ ہا قرآن کے عالم ، مفسر اور استاد ہیں ۔ انہوں نے بھی موجودہ وبائی حالات کے پیشِ نظر خانہ کعبہ کو اجتماعی عبادت کے لئے بند کرنے کی فتوے جاری کئے ہیں مگر ہم ایسے خود غرض ہیں کہ عرب کے  جید اور عربی زبان سے آشنا علما ء کو بھی سبق دینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ہماری کامیابی اسی میں ہے کہ اب بھی اُن علماء کے نقشِ قدم پر چل کر دین پر عمل کرنے کی کوشش کریں ۔

اس  وقت ہر انسان کے لئے لازمی ہے کہ وہ اس سفاک قاتل سے اپنے اپکو بچانے کے لئے حکومتی  اداروں،صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں اور علماء  کی طرف سے دیئے گئے قوانین اور حفظانِ صحت کے اصولوں پر سختی سے عمل  کریں۔

میری رائے  کے مطابق  یہ خدا کی طرف سے ایک آزمائش ہے جس پر ہمیں صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا یقینان ہر تکلیف کے بعد خوشی اور راحت میسر آنا قدرت کے قانون میں شامل ہے ۔یاد رہے کہ اللہ کی رحمت اس کائنات سے ختم نہیں ہوئی ہے وہ رحمان ہے رحیم ہے  اُس کی رحمانیت کی انتہا نہیں ۔ وہ جب چاہے ناممکن کو ممکن بنا نے میں دیر نہیں لگاتا ۔ہمیں اس کی رحمانیت سے نااُمید نہیں ہونا ہے کیونکہ یہ اس  کا اپنا وعدہ ہے  ۔ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ یعنی اللہ تعالیِٰ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔    (39:53)

اللہ کی رحمت اس دنیا سے کہی نہیں گئی ہے بس ُاس رحمت کے فیوض و برکات سے فیض حاصل کرنے کے لئے ہمیں صبرو تحمل کے ساتھ ساتھ توبہ و استغفار کرنا چاہئے۔ خدا کے بندوں کے سا  تھ  رحمدلی، عفو درگزر ،رواداری،مساوات  اور حسنِ سلوک جیسے اہم صفات کو اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہوئے غریب اور بےسہارا  لوگوں کی  مدد اور معاونت کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے آئندہ کے لئے  لائحہ عمل تیار کرنا چایئے۔ انشااللہ اس وبا کے بعد دنیا بدل جائے گی۔ لوگوں کی سوچ، فکر اور طرزِ حیات میں تبدیلی آئے گی اور وہ ترقی اور خوشحالی کا دور دورہ ہوگا۔کیونکہ کسی نئی  منزل تک پہنچنے کے لئےکسی طوفان سے گزرنا پڑتا ہے۔علامہ محمد اقبال ؒ نے کیا خوب فرمایا تھا۔

خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے۔۔۔۔۔کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں۔

مختصر یہ کہ ہماری زندگی کا مقصد  مسائل اور نئی چیلنجیز  کا  مقابلہ کرتے ہوئے اگے بڑھنا ہے ۔ہمارا یقین ہے کہ ہر صبح کچھ نہ کچھ  اپنے ساتھ لیکر نمودار ہوتی ہے۔ ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ  ہم خدا کی دی ہوئی اس زندگی کو اللہ کی امانت سمجھتے ہوئے دنیوی گندگیوں اور اوربیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لئے احتیاطی تدابیر  پر عمل کرکے اس زندگی کو خوشگوار بنانے کی ہرحال  میں کوشش کریں۔اگر یہ زندگی امانت ہے تو اس امانت کا خیال رکھتے ہوئے اپنے اپکو ہلاکت سے بچانا چاہئیے۔ یہ دن بھی چلا جائے گا اور ہماری زندگی خوشحالی کی جانب گامزن ہوگی پھر زندگی کے یہ پریشان کن آیام تاریخ کے اوراق میں قصہ پرینہ کے طور پر ہماری آئندہ نسلوں کے لئے یادگار بن جائیں گے۔ اس دنیا میں غم اور خوشی  آتے رہتے ہیں گویا وہ ہماری زندگی کا لازمی حصہ ہیں ۔  ہمیں انہیں صبرو تحمل سے برداشت کرتے ہوئے مستقبل کی جانب امید کے ساتھ اور یقین کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ ناامیدی گناہ ہے اور گناہ خدا کی رحمت سے دوری کا نتیجہ ہے اور اُمیداور جستجو کامیابی کی کُنجی ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
35697