Chitral Times

May 13, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ایک چشم کشا رپورٹ ……….محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

غربت میں کمی اورعالمی معیشت کا مشاہدہ کرنے والی بین الاقوامی تنظیم آکس فیم نے اپنی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ دنیا بھر کی خواتین کو مجموعی طور پر 12 ارب 50 کروڑ گھنٹے یومیہ بغیر معاوضے کے کام کرنا پڑتا ہے۔ ان گھنٹوں کا اوسط معاوضہ 10 ہزار 800 ارب ڈالر سالانہ بنتا ہے۔ لڑکیوں اور خواتین کو سب سے زیادہ غربت کا سامنا ہے۔ پوری دنیا میں 42 فی صد خواتین بے روزگار ہیں۔رپورٹ کے مطابق دنیا کے 2153 ارب پتی افراد کے پاس موجود دولت دنیا کی 60 فی صد آبادی کی مجموعی دولت سے زیادہ ہے۔ ارب پتی افراد کی تعدادمیں گزشتہ ایک دہائی کے دوران دگنا اضافہ ہوا ہے۔ پورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر دنیا کے صرف ایک فی صد امیر ترین افراد اپنی دولت پر 10 سال تک صرف اعشاریہ پانچ فی صد اضافی ٹیکس ادا کریں تو اس سے بزرگوں اور بچوں کی دیکھ بھال، ان کی تعلیم اور صحت کے شعبے میں 11 کروڑ 70 لاکھ نئی ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے درکار سرمایہ کاری کی کمی دور ہو سکتی ہے۔دنیا کی مجموعی آبادی چھ ارب کے لگ بھگ اور اس کا نصف حصہ خواتین پر مشتمل ہے گویا دنیا بھر میں تین ارب خواتین بستی ہیں۔لیکن حوا کی یہ بیٹیاں ہر معاشرے میں اپنے حقوق سے محروم ہیں۔خواتین کو تعلیم اور شہری حقوق سے محروم رکھنے کا الزام مغرب والے ہم مسلمانوں پر دھرتے ہیں۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو ہماری تھیں۔ پہلی سپیکر فہمیدہ مرزا بھی پاکستانی ہیں۔ سب سے کم عمر نوبل انعام یافتہ بچی ملالہ یوسف زئی ہماری بیٹی ہے۔ مائیکروسافٹ کی دنیا میں پہچان بنانے والی ارفع کریم ہماری بیٹی تھی۔ دنیا کی فلک بوس، برف پوش سرکش چوٹیوں پر اپنے ملک کا پرچم لہرانے والی ثمینہ خیال بیگ کا تعلق بھی ہمارے ملک سے ہے۔ ہماری خواتین نہ صرف تعلیم و صحت بلکہ معیشت، سیاست، انتظامی امور اور کھیلوں کے شعبوں میں اپنی مہارت کا لوہا منوا رہی ہیں۔ تاہم یہ وہ خواتین ہیں جنہیں تعلیم حاصل کرنے اور اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع مل گیا۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں بھی ستر سے اسی فیصد خواتین امور خانہ داری سے وابستہ اور بیگاری ہیں دنیا کی ہر عورت اگر روزانہ چھ گھنٹے بھی بلامعاوضہ کام کرے تو ان کا بیگاربارہ ارب گھنٹے بنتا ہے۔حالانکہ ہمارے گھروں میں مائیں، بہنیں، بیٹیاں، بیویاں،پھوپھیاں،بھانجیاں اور بھتیجیاں صبح صادق سے اٹھ کر کام میں جت جاتی ہیں کب دن ڈھل گیا انہیں پتہ بھی نہیں چلتا۔ رات کو سب سے آخر میں تھک ہار کر بستر پر گر جاتی ہیں۔اگر ان کے معاوضے کے دس ہزار آٹھ سو ارب ڈالر کا دس فیصد بھی انہیں مل جائے تو وہ نہ صرف خودمالامال ہوں گی۔بلکہ اپنے خاندانوں کی بھی کفالت کریں گی۔آکس فیم کی رپورٹ کا دوسرا حصہ بھی غور طلب ہے کہ دنیا بھر میں ارب پتی افراد کی تعداد مجموعی آبادی کا اعشاریہ پانچ فیصد بھی نہیں۔ اس کے باوجود اگر وہ اپنی دولت کا اعشاریہ پانچ فیصد فلاحی کاموں کے لئے وقف کریں تو گیارہ کروڑ ستر لاکھ بے روزگاروں کو ملازمتیں مل سکتی ہیں۔انہیں معلوم ہے کہ یہ دولت وہ اپنے ساتھ قبر میں نہیں لے جاسکتے۔ مگر ان پر دولت جمع کرنے کا بھوت ایسا سوار ہوتا ہے کہ انہیں کوئی دوسری بات نہیں سوجھتی۔مغرب کے ارب پتی پھر بھی ہم سے اچھے ہیں وہ اپنی دولت کا کچھ نہ کچھ حصہ فلاح انسانیت کے لئے وقف کرتے ہیں بل گیٹس کی مثال ہمارے سامنے ہے وہ دنیا سے پولیو کے خاتمے کے لئے روپیہ پانی کی طرح بہارہے ہیں ایک ہمارے ارب پتی ہیں جو دوسروں پر پیسہ خرچ کرنے کو اپنی امارت کی توہین اور وسائل کا ضیاع سمجھتے ہیں۔عرب ملکوں کے شیوخ اور ہمارے ملک کے کنجوس ارب پتی اپنی ساری دولت بیرون ملک خصوصاً یورپ میں جائیدادیں خریدنے اور سوئزرلینڈ کے بینکوں میں جمع کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔اور فلاحی کاموں کو ایدھی فاونڈیشن جیسے بے وسائل اداروں پر چھوڑ دیا ہے۔اگر ہمارے اپنے ملک کے ارب پتیوں کو ملک و قوم اور انسانیت کی خدمت کی توفیق نصیب ہو اور وہ اپنی دولت کا پانچ فیصد بھی وقف کریں تو ہم بیرونی قرضوں سے نجات پاکرترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں۔ہم دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے امراء کو اپنی جان و مال اور اولاد پر صدقہ دینے اور ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
31527