Chitral Times

Apr 26, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

نوزائیدہ ضلع اپر چترال تاریخ کے آئینے میں ……….تحریر: ایم ایس شکیب

شیئر کریں:

ساڑھے چودہ ہزار مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلی ہوئی وادی کی دو انتظامی یونٹوں میں تقسیم دیرینہ مطالبہ تھا
اپر چترال واحد ضلع ہے جو صوبائی ایوان میں نمائندگی سے فی الحال محروم ہیں، یہاں خواندگی کی شرح85فیصد سے زائد ہے
اپرچترال کی سڑکیں خستہ اور پل شکستہ ہیں، عوام کو تعلیم، صحت، رسل و رسائل اور مواصلات کے شعبوں میں مسائل کا سامنا ہے
ساڑھے آٹھ ہزار مربع کلو میٹر رقبے پر محیط اپر چترال کا ہر قصبہ اور گاوں قدرتی حسن سے مالامال مگر مشکلات میں گھرا ہوا ہے
پولو اور فٹ بال کے فروغ، سیاحتی مقامات کی ترقی اور معدنی ذخائر سے استفادہ کرکے ضلع کو ترقی کی راہ پر ڈالا جاسکتا ہے
حکومت جشن شندور، قاق لشٹ میلہ، جشن بروغل اور دیگر روایتی تقاریب کو کیلنڈر ایونٹس میں شامل کرے، عوام کا مطالبہ
ضلعی ہیڈ کوارٹر اور ڈسٹرکٹ ہسپتال کی تعمیر کے علاوہ بوائز اور گرلز کالجوں کے قیام پرفوری توجہ دینے کی ضرورت

تحریر: ایم ایس شکیب
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے وادی چترال کو دو انتظامی اضلاع میں تقسیم کردیا ہے۔ ارندوسے جگومی اور مداکلشٹ سے گبور تک کا زیریں علاقہ لوئر چترال کہلاتا ہے۔جن میں چترال ٹاون، دروش، ایون، بروز، جوغور، وادی کیلاش، گرم چشمہ اور شوغور کے قصبات بھی شامل ہیں۔ نوزائیدہ اپر چترال گرین لشٹ سے لے کر شندور اوربروغل جبکہ پرپش سے لے کر تریچ اور ریچ تک پھیلا ہوا ہے۔ 2018کی مردم شماری میں چترال کی مجموعی آبادی ساڑھے چار لاکھ ظاہر کی گئی ہے جس میں پشاور، پنڈی اسلام آباد، لاہور، کراچی اور ملک کے دیگر شہروں و بیرون ملک مقیم چترالیوں کو شمار نہیں کیا گیا۔چترال سے تعلق رکھنے اور کہوار زبان بولنے والوں کی مجموعی تعداد ساڑھے سات لاکھ بنتی ہے۔وادی چترال رقبے کے لحاظ سے صوبے کا سب سے بڑا علاقہ ہے جو ساڑھے چودہ ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ ضلع اپر چترال کی آبادی تین لاکھ اور رقبہ آٹھ ہزار مربع کلو میٹر سے زیادہ ہے۔ ضلع اپرچترال کے اہم دیہات اور قصبات میں ریشن، کوراغ، بونی، مستوج، سنوغر، لاسپور، یارخون، بروغل، زوندرانگرام، واشچ، تریچ، وریجون، کوشٹ، لون کہگیر اور اویر شامل ہیں۔دنیا کا بلند ترین قدرتی سٹیڈیم شندور، کوہ ہندوکش کی بلند ترین چوٹی تریچ میر اور وسیع غیر آباد علاقہ قاق لشٹ بھی اپرچترال میں واقع ہیں۔ضلع اپرچترال میں مجموعی شرح خواندگی 85فیصد سے زیادہ ہے۔خواتین کی شرح خواندگی بھی یہاں پورے صوبے میں سب سے زیادہ ہے۔اپر چترال کی 75فیصد آبادی زراعت پر انحصار کرتی ہے۔ یہاں کے رسیلے بے دانہ توت، سیب، ناشپاتی اور انگوراپنی مثال آپ ہیں۔مردم شماری کے بعد چترال کی آبادی کو دو صوبائی حلقوں کے لئے ناکافی قرار دے کر اس کی ایک صوبائی نشست واپس لی گئی تھی۔ 2018کے انتخابات میں چترال سے متحدہ مجلس عمل کے مولانا عبدالاکبر چترالی ایم این اے اور ایم ایم اے کے مولانا ہدایت الرحمان ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ پی ٹی آئی نے پہلی مرتبہ کیلاش قبیلے کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی دی اور خصوصی نشست پر وزیرزادہ کو ایم پی اے بنادیا جنہیں بعد ازاں اقلیتی امور سے متعلق وزیراعلیٰ کا مشیر مقرر کیاگیا ہے۔اگرچہ سابق ضلع چترال کے منتخب ایم پی اے کا تعلق اپرچترال کے علاقہ موڑکہو سے ہے۔تاہم وہ لوئر چترال کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وزیرزادہ ایم پی اے اور مولاناعبدالاکبر چترالی ایم این اے کا تعلق بھی لوئر چترال سے ہے۔ فی الوقت ضلع اپرچترال کی صوبائی اسمبلی میں نمائندگی نہیں ہے۔ تاہم توقع ہے کہ آئندہ انتخابات میں ضلع اپرچترال کو بھی نمائندگی دی جائے گی۔ نوزائیدہ ضلع میں ڈپٹی کمشنر، ڈی پی او اور دیگر انتظامی افسروں اور اہلکاروں کی تقرریاں ہوئی ہیں تاہم ضلعی ہیڈکوارٹر کی بونی میں گنجائش بہت کم ہے جس کی وجہ سے صوبائی محکموں کو اپنے امور کی انجام دہی میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ بونی کے قریب وسیع غیر آبادعلاقے قاق لشٹ میں ہاوسنگ سکیم شروع کرنے کی سابقہ حکومت نے منظوری تو دی تھی مگر اس پر عمل درآمد تاحال نہیں ہوا۔ ضلعی ہیڈکوارٹر کے لئے قاق لشٹ موزوں ترین علاقہ ہے۔ جہاں مختلف محکموں کے ضلعی دفاتر قائم کرنے کے لئے کافی گنجائش موجود ہے۔ضلعی دفاتر کے ساتھ یہاں پر ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتال بھی قائم کیا جاسکتا ہے کیونکہ ٹی ایچ کیو بونی کو اپ گریڈ کرنے کی صورت میں اس کی توسیع کی گنجائش کم ہی ہے۔ساڑھے آٹھ ہزار مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلے ہوئے ضلع اپرچترال میں ایک بوائز اور ایک گرلز کالج بونی میں قائم ہیں تورکہو، موڑکہو اور بیار کے علاقہ لاسپور، یارخون اور بروغل سے طلبا و طالبات کے لئے حصول تعلیم کی خاطر بونی آنا کافی دشوار ہے۔بارشوں، برفباری، سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے باعث یہاں کی سڑکیں اکثر بند رہتی ہیں۔سردست انہیں فوری طور پر صاف کرکے ٹریفک بحال کرنا اس لئے ممکن نہیں کہ علاقہ بہت وسیع، دور افتادہ اور دشوار گذار ہے اور متعلقہ محکموں کے پاس مشینری بھی نہیں ہوتی۔ اکثر لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ہی سڑکیں صاف کرکے ٹریفک بحال کرتے ہیں۔ 2011میں ریشن کے قریب کڑوم شوغور کے مقام پر چترال بونی روڈ کا نصف کلو میٹر حصہ دریا برد ہوگیا۔ ڈھائی سال تک اپرچترال کی ٹریفک مقامی لوگوں کی تیار کردہ متبادل دشوار گذار سڑک پر ہی چلتی رہی۔ اس دوران سڑک کی تعمیر نو کے لئے ٹینڈر بھی ہوئے، ٹھیکہ بھی دیا گیا پیسے بھی ہضم ہوگئے مگر سڑک نہ بن سکی۔پھر ریشن، زیئت، شوگرام، اویر، لون، گہکیر، کوشٹ اور کوراغ کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک مہینے کے اندر نئی سڑک تعمیر کرکے ٹریفک بحال کردی۔یہی حال ضلع اپر چترال کے رابطہ پلوں کا بھی ہے۔ ارندو کے راستے افغان علاقہ بریکوٹ، اسمار، غازی آباد، اسد آباد اور جلال آباد سے ہوتے ہوئے ورسک ڈیم میں گرنے والے دریائے چترال کا منبع بھی اپر چترال ہے۔ دریائے لاسپور، دریائے یارخون اور دریائے موڑکہو بمباغ کے مقام پر آپس میں ملتے ہیں وادی کی تمام بستیاں ان دریاوں کے کناروں پر آباد ہیں کچھ مقامات پر سرکاری محکموں نے لکڑی کے پل تعمیر کئے ہیں اور اکثر مقامات پر لوگوں نے اپنی آمدورفت کے لئے عارضی پل بنا رکھے ہیں دریاوں میں طغیانی کی وجہ سے یہ پل دریابرد ہوجاتے ہیں اور ان علاقوں کا پورے ضلع سے زمینی رابطہ منقطع ہوجاتا ہے۔دریاوں کے علاوہ ندی نالوں میں سیلاب آنے کی وجہ سے دیہات اور قصبوں کے پل بھی تباہ ہوجاتے ہیں۔ 2014کے تباہ کن سیلاب کی وجہ سے ریشن، کوشٹ، موژگول، مستوج اور کھوژ کے علاوہ تورکہو اور موڑکہو کے کئی پل ریلے میں بہہ گئے تھے جن کی بحالی میں دو سے تین سال لگ گئے۔ اور بعض علاقوں کے رابطہ پل چھ سال گذرنے کے باوجود اب تک بحال نہیں ہوسکے۔سب تحصیل تورکہو اور موڑکہو کو مشترکہ طور پر تحصیل کا درجہ دینے اور اس کا ہیڈکوارٹر وریجون میں رکھنے پر بھی تورکہو کے لوگ نالاں ہیں ان کا کہنا ہے کہ معمولی کاموں کے لئے بھی انہیں ہزاروں روپے خرچ کرکے موڑکہو جانا پڑتا ہے۔ضلع اپرچترال یہاں کے عوام کا ایک دیرینہ مطالبہ رہا ہے۔ ریاستی دور میں بھی اپرچترال الگ انتظامی یونٹ ہوا کرتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد ظفر اللہ ضلع اپرچترال کے ڈپٹی کمشنر رہے۔ شہزادہ محی الدین بھی اپر چترال کے ڈی سی کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ اس زمانے میں اپر چترال کو عموماً ضلع ثانی اور لوئر چترال کو ضلع اول کہا جاتا تھا۔ جس کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔تاہم ماضی کی حکومتیں ضلع کی بحالی کے عوامی مطالبے کو نظر انداز کرتی رہیں۔بلاشبہ اس کو عملی جامہ پہنانے کا سہرا تحریک انصاف کی موجودہ حکومت کو جاتا ہے۔ نوزائیدہ ضلع اپرچترال کے عوام کو زندگی کے مختلف شعبوں میں مسائل کا سامنا ہے۔ جن میں سب سے اہم مسئلہ سوختنی لکڑی کا ہے۔ اپرچترال کے پہاڑ جنگلات سے عاری اور چٹیل ہیں۔ جلانے کی لکڑی کے لئے اپرچترال کے لوگوں کو بھی لوئر چترال پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ تاہم چترال ٹاون سے پندرہ بیس من جلانے کی لکڑی تریچ، تورکہو، موڑکہو، بونی، مستوج، لاسپور، یارخون اور بروغل جیسے دور افٹادہ علاقوں تک پہنچانے پر ٹرانسپورٹیشن کا خرچہ اصل قیمت سے دوگنا ہوجاتا ہے۔جس کی وجہ سے لوگ اپنے پھلدار درخت کاٹ کر شدید سردی کے موسم کے لئے سٹاک کرتے ہیں جس سے انہیں مالی نقصان کے علاوہ ماحولیاتی مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں درختوں کی بے دریغ کٹائی سے سیلاب آنا اب معمول بن چکا ہے جس سے قیمتی انسانی جانوں کے علاوہ مکانات، فصلیں، باغات اور زرخیز زرعی اراضی بھی تباہ ہوتی ہے۔بونی، ریشن، مستوج، تورکہو اور موڑکہو میں گیس سلینڈرز کے ڈپوقائم کرکے اس سنگین مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اپرچترال میں شرح خواندگی اگرچہ بہت زیادہ ہے تاہم تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بیروزگاری کی شرح بھی تشویش ناک حد تک زیادہ ہوچکی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں نوجوان یونیورسٹی کی ڈگریاں لے کر گھروں میں بیٹھے ہیں۔ روزگار کے متبادل ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے نوجوانوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔نئے ضلع کے قیام سے یہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ ملازمت کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے جس سے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو باعزت روزگار ملے گا اور علاقے میں غربت کی شرح میں بھی کمی آئے گی۔چترال کے لوگ بالعموم اور اپر چترال کے لوگ بالخصوص پولو کے شوقین ہیں ہر بڑے قصبے میں ریاستی دور کے پولو گراونڈ موجود ہیں تاہم اکثر پولو گراونڈ استعمال نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں نے ان پر قبضہ کرلیا ہے۔ حکومت سیاحت اور کھیلوں کے فروغ کو اپنی ترجیحات قرار دے رہی ہے۔ رواں سال چترال میں پندرہ پولو گرانڈز اور سٹیڈیم تعمیر کرنے کا اعلان بھی کیا جاچکا ہے۔ توقع ہے کہ پولو کے کھیل کی حکومتی سرپرستی سے نہ صرف یہ کھیل زندہ ہوگا بلکہ سیاحت کی ترقی میں بھی مدد ملے گی۔پولو کے علاوہ اپرچترال میں فٹ بال، والی بال، کرکٹ، ڈونکی پولو، یاک پولو، بزکشی اور پیراگلائیڈنگ کا ٹیلنٹ بھی موجود ہے۔ چترال کے نوجوان پاکستان کے قومی فٹ بال ٹیم کے علاوہ پاک آرمی اور مختلف محکموں کی ٹیموں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہے ہیں۔مقامی سطح پر کھیلوں کے فروغ سے قومی سطح کا بہترین ٹیلنٹ یہاں سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔چترال اپنے ثقافتی ورثے کی وجہ سے نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ پورے ملک میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس ورثے کو سرکاری سرپرستی کی ضرورت ہے تاکہ اسے بیرونی ثقافتی یلغار سے محفوظ رکھا جاسکے۔جشن شندور، قاق لشٹ میلہ، جشن بروغل اور دیگر مقامی تقریبات کو صوبے کے کیلنڈر ایونٹس میں شامل کرکے بھی ملکی و غیر ملکی سیاحوں کو چترال کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے۔ ہنزہ اور گلگت بلتستان کے دیگر سیاحتی علاقوں کی طرز پر گھروں میں غیر ملکی سیاحوں کو ٹھہرانے کا بندوبست کرنے سے ایک طرف سیاحت کو غیر معمولی ترقی دی جاسکتی ہے دوسری جانب ہزاروں خاندانوں کو روزگار کے مواقع بھی فراہم کئے جاسکتے ہیں۔قدرت نے اپرچترال کے سنگلاخ پہاڑوں کو معدنی دولت سے مالامال کیا ہے لیکن اب تک اس پوشیدہ دولت سے استفادہ نہیں کیا جاسکا۔ یہاں سونے کے ذخائر بھی ہیں، زمرد، اینٹی منی، شیلائٹ، عقیق اور دیگر قیمتی و نیم قیمتی پتھروں اور کیمیکلز کی کانیں بھی موجود ہیں ان معدنیات کو بروئے کار لایا گیا تو نہ صرف چترال بلکہ پورے صوبے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔توقع ہے کہ صوبائی حکومت اپرچترال کی تعمیر و ترقی کی منصوبہ بندی کرتے وقت ان سفارشات پر سنجیدگی سے غور کرے گی۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
31474