Chitral Times

May 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

مولانا کا آزادی مارچ اور پاکستان کی سیاسی تحریکیں…..محمدآمین

Posted on
شیئر کریں:

قیام پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی قربانیوں اور کاوشوں کا نتیجہ تھا اور اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہندوستان کے مسلمانوں کے مختلیف اداروں اور ےتنظیموں نے اہم کردار ادا کیے جن میں ہراول دستہ تحریک علی گڑہ (جس کا بانی سر سید آحمد خان تقی تھا) اور ال آنڈیا مسلم لیگ تھا جس کی بنیاد 1906ء میں رکھی گئی تھی اور اس کے قیام کا واحد مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک ازاد اسلامی ریاست کا وجود تھا۔علیگڑہ تحریک نے مسلمانوں میں سیاسی شعور اور دو قومی نظریے کا احساس پیدا کیا نیز اس نے ایسے سیاسی لیدرز پیدا کیا جنہوں نے قیام پاکستان میں نمایان کردار ادا کیے ۔اور مسلم لیگ ایک ایسا سیاسی پلٹ فارم فراہم کیا جو قائداعظمؒ کی قیادت میں پاکستان کی وجود کو یقین بنایا۔
جب 14 اگست 1947ء کو ہندوستان دو الگ ریاستوں پاکستان اور بھارت میں تقسیم ہوا تو یہ کوئی معمولی انقلاب نہ تھا بلکہ وہاں کے مسلمانوں کا ایک خواب اور مشن تھا جس کے لیے انہوں نے بیش بہا جانی اور مالی قربانی دے چکے تھے اور وہ ایک ایسے اسلامی ریاست کا قیام چاہتے تھے جہان کے مسلماں اسلام کے زریں اصولوں یعنی عدل و انصاف،مساوات اور روادری کے مطابق اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگی بسر کرسکیں اور یہی بابائے قوم کا مش تھا ۔
.
اگر تحریک پاکستان کے خدوخال کا جائزہ لیاجائے تو یہ حقیقت سامنے اتا ھے کہ ایک طرف مسلماں ایک علیحدہ اسلامی ریاست کے لیے جدوجہد کررہے تھے تو دوسری طرف بعض اسلامی و لبرل جماعتیں گانگریس کے ساتھ مل کر نظریہ پاکستان کی مخالفت کررہے تھے جن میں اسلامی جمیعت علماء ہند ( جمیعت علماء اسلام )،مجلس احرار اور عوامی نیشنل پارٹی قابل ذکر ہیں اور یہ مذہبی اور لبرل سیاسئ جماعتیں ایک عظیم ہندوستان کے حامی تھے لیکن اکثریتی مسلمانوں کے جذبات کے سامنے ان کے تحفظات اور مفادات کچھ نہ کرسکیں۔تاہم جب پاکستان وجود میں ایا تو یہ جماعتیں دوسرے مخالیفیں کے ہمراہ اپنے موقف تبدیل کردیے اور ایسے دیکھانے لگے جیسے کہ یہ ازاد ریاست انہی کے کوششوں کا ثمر تھا۔
یہ حقیقت کسی سے بھی پوشیدہ نیہں ھے کہ قیام پاکستان سے کچھ عرصہ بعد ہی پاکستان کے لیے مشکلات جنم لینے شروع ہوگئے سب سے پہلے بانی پاکستان کا قبل از وقت رحلت نئے مملکت کے لیے مصائب پیدا کیے اور یہ وہ وقت تھا جب مملکت خداداد نے اپنے لیے ایک ائین بھی بنا سکے تھا۔اس کے کچھ عرصے بعد لیاقت علی خان کی وفات نے مشکلات میں مذید اضافہ کردیا۔یہ وہ بدقسمت دور تھا جب نو سال تک نئے ریاست کے لیے کوئی ائین نیہں بنایا گیا جب کہ ہندوستان نے صرف تیں سال کے دورانیے میں اپنا ائین بنایا۔مختلیف سیاسی جماعتیں اور دوسرے اداروں نے اپنے ذاتی مفادات کے خاطر ملک میں سیاسی عدم استحکام اور افراتفری پیدا کیے ۔
.
سیاستدانوں ،اسٹپلشمنٹ اور جاگیرداروں کے ٹرائکا نے اس ملک کے ساتھ وہ کھیل کھلا جس کا سزا ابھی تک بھگت رہے ہیں اور جب بھی ملک کسی سیاسی استحکام اور جامع اصلاحات کی طرف گامزن ہوتے نظر ائے تو کچھ قوتیں مختلیف بہانوں اور طریقوں سے رکاوٹ بنے اور نظام کو گرادینے میں مددگار ثابت ہوئے اور مختلیف اتحادیں بنی اورتحریکیں جنم لی۔تاریخ گواہ ہے جب مارشل ایوب خان کے دور میں اقتصادی آصلاحات ملک کو بہتری کی طرف لے جارہے تھے تو بعض قوتیں اس کو گرانے کے لئے منظم ہوئے اور اپنے ارادے میں کامیاب ہوئے ۔جب قائد ملت ذولفقارعلی بھٹو کے دور میں نامصائب حالات کے باوجود ملک میں انقلابی اصلاحات شروع ہورہے تھے تو یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرانڈ (UDF ( اور پاکستان نیشنل الاینز (PNA) بن گیے جو بالاخر بھٹو کی اقتدار سے دستبرداری اور قتل کا سبب بنا۔جب جنرل ضیاء کے دور حکومت میں بدتریں امریت نے جنم لیے تو اس کی حکومت کے خلاف الائنز فار رسٹوریش اف ڈیموکریسی (ARD) تشکیل دی گئی۔
.
جنرل ضیاء کے اقدار کے خاتمے کے بعد تاثر یہ دی جارہی تھی کہ اب ملک میں صحیع معنوں میں جمہوری طرز حکومت قیام پذیر ہوں گی لیکں حالات توقعات کے عیں برعکس ثابت ہوئے جب 1990ء میں بنظیر بھٹو شیہد کے خلاف جمہوری اسلامی اتحاد بنا اور پاکستان پپلز پارٹی کے ہاتھوں سے اقتدار چھینی گئی۔اس کے بعد ملک 1990ء تک ڈھول مٹول کا شکار بنے اور اخر کر وہی ہوا جس کا ڈر تھا اور ایک دفعہ پھر جنرل مشرف نے ملک میں مارشل نافذ کیا اور ان تمام کے پھیچے سیاسی جماعتوں اور رھنماؤں کے گھت جوڑ اور غیر طرز جمہور بشمول کرپشن تھے۔ایک طویل عرصے کے بعد حکومت سویلیں کو منتقل ہوگئی لیکں حالات میں کوئی خاص تبدیلی نظر نیہں ائی جن کا بنیادی وجہ ملک میں بے شمار چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں کا وجود ،انفرادی مفادادت کی جنگ اور بڑے پیمانے پر کرپشن تھے۔
.
پاکستان تحریک انصاف ایک لمبے عرصے کی جدوجہد کے بعد اقتدار لینے میں کامیاب ہوا اور اس کا بنیادی نعرہ موجودہ حالات (status quo) کو تبدیل کرنا،سستی دام میں انصاف کی فراہمی اور سب کا احتساب تھا کیونکہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے مطابق ملک میں بد عنوانی اور کرپشن عروج پر تھے اور حکومت دو بڑے سیاسی پارٹیوں کے ارد گرد گھوم رہی تھی اور دوسرے چھوٹی موٹی جماعتین ان کے لیے سہولت کار کےکام سرانجام دیتے تھے۔عمران خان نے لوگوں کو ان کو بقول کرپٹ حکمرانوں کے خلاف کھڑا ہونے کے لیے تاریخ کا سب سے لمبا دھرنا اسلام اباد میں دیا جس کا دورانیہ تقریبا 136 دن تھے اپنے خطبات میں عمران خان اور پارٹی کے دوسرے لیڈرز نے مروجہ حکومت کے خلاف پارٹی ورکرز کو متحد کردیے اور ان میں سیاسی شعور پیدا کیے ۔
.
اب جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت تیں صوبوں کے علاوہ مرکز میں بھی قائم ہوچکی ہے اور سخت حالات میں بمشکل ایک سال کا وقت گزرا ہے اور اس دوران دو بڑی سیاسی جماعتوں کے چوٹی کے رہنما کرپش کے الزامات میں سلاخوں کے پیچھے بند ہیں جمعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل رحمن نے موجودہ حکومت کے خلاف اذادی مارچ کا اعلان کرکے ملک کے دروالخلافہ میں پھلاؤ ڈالا ہے ۔
.
مولانا کے ازادی مارچ کا مقصد وزیر اعظم پاکستان کا استعفیٰ اور ملک میں نئے انتخابات کا انعقاد کراناہے کیونکہ مولانا اور اس کے اتحادیوں کا دعوی ہے کہ موجودہ حکومت ایک جامع دھاندلی کے باعث وجود میں ایا ہے کیونکہ مولانا کو اپنے ابائی سیٹ کھونے کا بڑا دکھ ہے مولانا صاحب نے مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں تصادم کی طرف جانے کا عندیہ دیا ہے جن میں شاہراہوں اور مارکیٹوں کی بندش وغیرہ شامل ہیں۔
اگر ہم مولانا کے ازادی مارچ کی کامیابی یا ناکامی کا تقابلی جائزہ لیں تو زیل حقائیق سامنے اتے ہیں کہ مولانا کا ازادی مارچ قبل از وقت ہے اور ایک سال کے دورانیے میں کسی بھی حکومت کی کارکردگی کا پیمائیش نیہں کی جاسکتی ہے جبکہ حالیہ اندرونی اور بیرونی حالات و واقعات حکومت وقت کے بڑے پیمانے پر مسائل اور چیلنجز پیدا کیے ہوئے ہیں ۔
.
مزید بران مولانا صاحب کا مذہبی کارڈ کا استعمال پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے لیے غیر موزوں اور ان کے منشور کے عیں مخالف ہیں اور دونوں جماعتوں کے رہنماؤن نے واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی صورت میں بھی اس مارچ/احتجاج کا حصہ نیہں بنیں گے جس سے ازادی مارچ کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے کیونکہ اب مولانے صاحب اکیلا کھڑا ہوگا
.
فرض کریں اگر مولانا صاحب کے مطالبات کو تسلیم بھی کیا جائے تو ملک میں ایک غیر جمہوری روایت قائیم ہوگی اور ہر کوئی چھوٹی سیاسی جماعت لوگوں کی ایک ہجوم لیکر اسلام اباد اکر حکومت کو چل پڑنے پر مجبور کرے گی۔اور اس کا نقصان بڑے سیاسی جماعتوں کو ہوگا ۔اس کے علاوہ ازادی مارچ کے شرکاء کا اپنی خطبات میں فوج اور دوسرے حساس اداروں کو تنقید کا نشانہ بنانا بھی اس وقت کے حالات کے مدنظر ملکی سالمیت کے لیے اچھا نیہں ہے کیونکہ ہندوستان جس طرح مقبوضہ کشمیر میں مظلوم لوگوں پر جو مظالم ڈھائے ہیں اور مذکورہ علاقے کی ائینی حثیت کو ختم کرکے اسے انڈین یونیں کا حصہ بنایا ہے اور پاکستان کے خلاف ایک غیر اخلاقی پروپگنڈا برپا کیا ہے ان حالات میں ملک میں سیاسی افراتفری ملک کے سالمیت کے لیے اچھی نیہں ہے۔
.
مولانا شائد 1960،1970 اور 1990ء کے عشروں کے پیش نظر تحریک چلانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اج ملک کی اندرونی اور بیرونی حالات اس چیز کا متحمل نیہں ہوسکتی ہے مولانا کو حکومت گراؤ اور تصادم تحریک کے بجائے مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف احتجاج کرنا چاہئے کیونکہ پورامن اور جائزاحتجاج ہر شہری اور سیاسی جماعت کا حق ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
28437