Chitral Times

Apr 26, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دوائے دل……”آزادی مارچ“۔ امکانات اور خدشات …..مولانا محمد شفیع چترالی

Posted on
شیئر کریں:

جمعیت علماء اسلام نے اگلے ماہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد تک مارچ کرنے اور موجودہ حکومت کے خاتمے اور وزیر اعظم عمران خان کے مستعفی ہونے تک دھرنا دینے کا اعلان کر رکھا ہے، جس کی حتمی تاریخ کا اعلان ابھی نہیں ہوا، تاہم ملک بھر میں جے یو آئی کے رہنما اور کارکنان ”اسلام آباد آزادی مارچ“ کے حوالے سے پر جوش دکھائی دیتے ہیں، صوبوں سے لے کر یونٹوں کی سطح تک تیاریاں جاری ہیں اور سوشل میڈیا پر بھی مہم عروج پر ہے۔ جمعیت نے اگر اپنے پروگرام میں کوئی تبدیلی نہیں کی تو اگلے چند ہفتوں کے دوران مولانا فضل الرحمن کا اسلام آباد مارچ میڈیا کا اہم موضوع رہے گا اور بہت ممکن ہے کہ اسلام آباد میں ایک بڑا دنگل دیکھنے کو ملے۔ اس دنگل کا فاتح کون ہوگا؟ اس سے ملک و قوم کو کیا حاصل ہوگا؟ خود جمعیت علماء اسلام، دینی سیاست اور مدارس کے مستقبل پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟یہ بہت اہم سوالات ہیں اور راقم کے ناقص خیال میں ان سوالات پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے اور ممکنہ خطرات اور خدشات کا پیشگی جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔ مولانا فضل الرحمن جیسے تجربہ کار، زیرک اور پختہ کار سیاست دان اور مذہبی رہنما سے اس بات کا خدشہ تو نہیں رکھا جاسکتا کہ وہ اپنی جدوجہد، جماعت، مسلک اور سیاسی قوت کو ریاست سے ٹکراؤ کے راستے پر لگاکرکسی بند گلی کی طرف لے کر جائیں گے یا پھر موجودہ مشکل حالات میں ملک و قوم کے لیے نئے مسائل پیدا کرنے کے موجب بنیں گے، تاہم مولانا کا غصہ اور جلال دیکھ کر ڈر بھی لگتا ہے کہ
کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہوجائے
گزشتہ عام انتخابات کے بعد سے مولانا کے لہجے میں جو غصہ اور جلال دیکھنے کو مل رہا ہے، وہ ان کے بہت سے چاہنے والوں کے لیے حیران کن ہے۔ جہاں تک مولانا کے مخالفین کا تعلق ہے تو ان کاتو ایک ہی تاثراتی بیان ہوتا ہے کہ مولانا چونکہ کافی عرصے بعد اقتدار سے باہر ہوگئے ہیں، اس لیے بپھرے ہوئے ہیں۔ حالانکہ مولانا کی چار دہائیوں کی سیاست کا اگر منصفانہ جائزہ لیا جائے تو زیادہ عرصہ وہ اپوزیشن میں رہے ہیں۔ چند ماہ پہلے مولانا کراچی تشریف لائے تو ایک نشست کے دوران راقم نے یہی سوال ان کے سامنے رکھا کہ پاکستان کی سیاست میں آپ کا لہجہ توازن، اعتدال اور عدم اشتعال کی ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا تھا، اب اچانک اس میں یہ تلخی اور شدت کیوں اور کہاں سے درآئی ہے؟ اس کے جواب میں مولانا نے جو کچھ کہا، اس کا مفہوم اور خلا صہ یہی تھا کہ میں نے سیاست میں شائستگی، رواداری اور مفاہمت کی بات کی ہے، میں نے ہر قسم کی شدت پسندی کی مخالفت کی، نوجوان طبقے کو جذباتیت سے گریز کا پیغام دیااور پاکستان کے آئین کے اندر رہتے ہوئے پر امن سیاسی جدوجہد کا راستہ دکھایا، اس کی پاداش میں مجھے خود ردعمل کا سامنا کرنا پڑا، مجھ پرتین خود کش حملے ہوئے، میرے بیسیوں ساتھی شہید ہوئے اور اس وقت بھی ہم جب گھر سے نکلتے ہیں جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلتے ہیں، یہ سب ہم ملک کی سلامتی اور یہاں آئین وقانون کی بالادستی کی خاطر کر رہے ہیں لیکن ہمیں اس کا یہ صلہ یہ دیا جاتا ہے کہ جب انتخابات کا وقت آتا ہے توملک کے مقتدر ادارے خود آئین و قانون کو ایک طرف لپیٹ کر من پسند افراد اور جماعتوں کی سلیکشن کر لیتے ہیں اور دینی قوتوں کا راستہ روک لیا جاتا ہے، تاکہ اس سلیکشن کو عالمی اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول بنایا جاسکے۔ اب آپ بتائیں کہ اس کے بعد میں سخت لہجہ نہ اپناؤں تو کیا کروں؟
مولانا کے اس موقف سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، کیونکہ گزشتہ عام انتخابات میں دینی قوتوں کی ناکامی کے بہت سے داخلی اسباب بھی تھے، جن سے انکار نہیں جاسکتا، تاہم اس میں بھی کسی کو شک نہیں ہے کہ گزشتہ انتخابات میں اچھی خاصی ”پولیٹیکل انجینئرنگ“ کی گئی اور اس انجینئرنگ میں یہ بات بھی شامل تھی کہ دینی جماعتوں کی کامیابی کا حجم کم سے کم رکھا جائے۔ ابھی گزشتہ ہفتے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا بیان چھپا ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں دینی جماعتوں کو منصوبے کے تحت ہرایا گیا۔ اس ضمن میں بعض باوثوق ذرائع یہاں تک بتاتے ہیں کہ جماعت اسلامی کی گزشتہ انتخابات میں پہلی ترجیح تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد یاکم ازکم سیٹ ایڈجسٹمنٹ تھی لیکن اسے صاف جواب دیا گیا، تاکہ تحریک انصاف کی ”لینڈ مارک فتح“ کو عالمی اسٹیبلشمنٹ کی نظر میں متنازع یا مشکوک بننے سے بچایا جاسکے۔ اس کے بعد ہی جماعت اسلامی نے مجلس عمل میں شمولیت کا فیصلہ کیا، جب بہت دیر ہوچکی تھی۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ انتخابات کے بعد امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اپنے بیان میں انتخابات پر کچھ تحفظات کے ساتھ اس بات پر خاص طور پر اطمینان کا اظہار کیا کہ پاکستان میں ”انتہا پسندوں“ کو شکست ہوئی ہے۔
اس پس منظر میں دیکھا جائے تو مولانا کا مقدمہ زیادہ کمزور نہیں ہے۔ گزشتہ ایک برس کے دوران ملک کے مختلف شہروں میں مولانا کے جلسوں اور ملین مارچ کے عنوان سے نکالے گئے جلسوں میں جس بڑے پیمانے پر لوگ شریک ہوئے ہیں، اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کے دینی طبقات اور مذہبی کارکنوں میں موجودہ”بندوبست“ کے خلاف غصہ بہر حال موجود ہے ……لیکن کیا اس غصے کو اب باقاعدہ ٹکراؤ کی صورت اختیار کرنے دینا چاہیے اور مرحلہ وار جدو جہد کی اپنی روایت کو ایک فیصلہ کن معرکے کی شکل دینے کا وقت آچکا ہے؟ یہ سوال سنجیدہ غورو فکر کا متقاضی ہے۔
جمعیت علماء اسلام نے ابھی چونکہ اپنے حتمی پروگرام اور لائحہ عمل کا اعلان نہیں کیا، اس لیے اس پرابھی حتمی رائے بھی نہیں دی جاسکتی، تاہم اب تک کے اعلانات کے مطابق اکتوبر میں اسلام آبادمارچ کا فیصلہ طے ہے۔ اگر پروگرام اسلام آباد تک مارچ کرنے اور ایک پر امن احتجاج ریکارڈ کرواکر واپس لوٹنے کا ہے تو ظاہر ہے اس سے کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا مگرجمعیت علما ء اسلام کے نچلی سطح کے رہنماؤں اور کارکنوں کی سوچ اور جذبات کی اگر بات کی جائے تو وہ سمجھتے ہیں کہ ملک کے چاروں صوبوں سے لاکھوں افراد اسلام آباد کی طرف چل پڑیں گے، راستے میں قافلے ملتے جائیں گے اور کاروان بڑھتا جائے گا، مارگلہ کی پہاڑیاں تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھیں گی اور لاکھوں فرزندان اسلام شاہراہ دستور پر پُر امن مارچ کریں گے اور دھرنا دے کربیٹھ جائیں گے توایوان اقتدار کی چولیں ہل جائیں گی، سلیکٹڈ وزیر اعظم عمران خان استعفاء دے کر بنی گالا جائیں گے اور اسٹیبلشمنٹ اپنے ماضی کے گناہوں سے توبہ تائب ہوکر مستقبل میں شفاف انتخابات کرواکر اقتدار اہل افراد کے حوالے کرنے اور آیندہ اپنے کام سے کام رکھنے کا عہد کرلے گی……
یہ تصور تو بہت ہی دلکش اور انقلاب آفریں ہے مگر کیاحقیقت میں بھی ایسا ہونا ممکن ہے؟میں نہیں سمجھتا کہ خود مولانا فضل الرحمن جیسے زیرک سیاست دان کو بھی اس کا یقین ہوگا۔ پھر مولانا کے ذہن میں کیا لائحہ عمل ہے؟وہ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ یہ ملین ڈالر کا سوال ہے۔ مولانا کی سیاست پر روایتی تبصرہ کرنے والے بعض تجزیہ کاروں کا توخیال ہے کہ شاید موجودہ بندوبست کے بانی مبانی اس سے مایوس ہوچکے ہیں، وہ اب تبدیلی چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ مولانا کے اسلام آبادمارچ کو بروئے کار لانا چاہتے ہیں۔ یہ تجزیہ اس لیے درست نہیں لگتا کہ اول تو اس بات کے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ بندوبست کرنے والے ناراض یا مایوس ہیں۔ پھر اگر بالفرض وہ مایوس بھی ہوئے ہوں تو انہیں حکومتیں تبدیل کرنے کے لیے اتنا بڑا کھڑاگ کرنے کی شایدضرورت نہیں ہوا کرتی۔ تیسری بات یہ ہے کہ مولانا کی پوری تحریک ہی اسٹبلشمنٹ کے خلاف ہے، اگر وہ خود بھی اسٹیبلشمنٹ کے گھوڑے پر سوار ہوکر آئیں گے تو ان کی یہ تحریک اخلاقی طور پر کہاں کھڑی ہوگی؟ اس لیے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ مولانا کو راولپنڈی یا آبپارہ سے کوئی کمک ملے گی۔ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ اس وقت حکومت اور مقتدر ادارے ایک پیج پر ہی ہیں اور مولانا کے اسلام آباد مارچ سے نمٹنے کے لیے بھی وہ مل کر لائحہ عمل بنائیں گے۔ ظاہر ہے کہ ان کی کوشش ہوگی کہ اول تو اسلام آباد لاک ڈاؤن یا مارچ کی نوبت ہی نہ آئے، اگر ایسی کوئی صورت بنتی ہے تو تصادم نہ ہو مگر ہم جانتے ہیں کہ یہاں بہت سی داخلی اور خارجی قوتیں ہیں جو یہ چاہتی ہیں کہ اسلام آباد میں سیکورٹی اداروں اور دینی کارکنوں کے درمیان ٹکراؤ ہوجائے اور لال مسجد آپریشن کی یاد تازہ ہوجائے۔ ان کے لیے بڑاخوش کن منظر ہوگا کہ پیچھے وردی والے اور آگے ڈاڑھی اور پگڑی والے ہوں اور وہ اپنے کیمرے سیٹ کرکے دنیا کو لائیومناظر دکھاسکیں۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟اس کا تصور کرتے ہی خوف محسوس ہوتا ہے۔
یہ جمعیت علماء اسلام کے علاوہ باقی دینی قوتوں کے لیے بھی بڑی آزمائش ہوگی کہ وہ اس دوران کہاں جاکر کھڑے ہوں۔ لاک ڈاؤن کی حمایت اور مخالفت پر مبنی تقسیم دینی قوتوں بالخصوص وفاق المدارس میں تفریق اور انتشار کا باعث بن سکتی ہے، جس کا نقصان شاید ناقابل تلافی ہو۔ اس وقت جو دیگر خدشات ذہن میں کلبلارہے ہیں، ان کو ایک طرف رکھتے ہوئے آئیے دوبارہ اس امید اور توقع کا سہارا لیتے ہیں کہ ہماری پختہ کار دینی سیاسی قیادت کوئی ایسا فیصلہ اور اقدام نہیں کرے گی جس سے ملک و قوم کے لیے بالعموم اور دینی قوتوں کے لیے بالخصوص نئی آزمائشوں کا دروازہ کھل سکتا ہو۔
اپنی رائے ضرور دیجیے گا!


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
26206