Chitral Times

May 13, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کیا پریاں بھی جیلیس ہوتی ہیں؟………….عبدالکریم کریمی

شیئر کریں:

سکردو آتے ہوئے میں نے سوسن سے کہا تھا کہ دیوسائی میں چاروں اور ایسے پھول کھلے ہوں گے کہ آپ دیکھ کے حیران ہوں گے۔ لیکن جب ہم دیوسائی پہنچے تو برف اور بادلوں کی چادر اوڑھے آسمان کو دیکھ کر حیرت ہوئی تھی۔ کیا یہ وہی دیوسائی ہے جہاں پریاں سرگوشیاں کرتی تھیں، جہاں کا سبزہ آنکھوں کو تراوت بخشتا تھا، جہاں پہنچ کے روئے زمین پر جنت کا گمان ہوتا تھا۔ جس کی منظرکشی رحیم گل نے اپنی کتاب ’’جنت کی تلاش‘‘ کچھ ایسی کی تھی:

’’ہم دیوسائی پہنچ گئے تھے۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ روئے زمین پر ایسا منظر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اگر اٹالین یا سپینی سیاح نے یہ نظارہ دیکھا ہوتا تو یقیناً اس نتیجے پر پہنچتے کہ خدا ہے اور یہی اس کا گھر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سطح سمندر سے تیرہ چودہ ہزار فٹ کی بلندی پر ہتھیلی کی طرح طویل و عریض میدان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تا حدِ نظر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رنگ برنگ پھولوں کا لہراتا ہوا گلزار۔ ہم دم بخود رہ گئے۔ حیرت زدہ ہی نہیں خوفزدہ بھی ہوئے۔ جنوں اور پریوں کا دیس ایسا نہ ہوگا تو پھر کیسا ہوگا؟ اربوں اور کھربوں بلکہ اس سے بھی زیادہ مسکراتے ہوئے ترو تازہ شگفتہ پھول ہمیں خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ تقریباً سو مربع میل کے چاروں طرف برف پوش چوٹیوں کی نورانی فصیل کھڑی تھی۔ زمین تو کیا پوری کائنات میں ایسا منظر دوسرا کاہے کو ہوگا! لیکن انسان کا المیہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! مونٹ ایورسٹ اور چاند پر پہنچنے والے دیوسائی نہ پہنچ سکے! انسان کو ورطۂ حیرت میں ڈالنے کے لیے یہی کیا کم تھا کہ چودہ ہزار فٹ کی سطح مرتفع میں اتنا لمبا چوڑا میدان پایا جائے اور اس پر طرہ یہ کہ نظر کی حد ختم ہوجائے، مگر پھولوں کی سرحد ختم نہ ہو۔ گویا پاؤں میں بھی پھول اور تا بہ افق پھول ہی پھول۔ یعنی زمین پر بھی پھول اور زمین سے گلے ملتے ہوئے آسمان پر بھی پھول۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کاش یہ خواب ہوتا! اے خدا! تو یہ ہے تیری خدائی! ایسی ہوتی ہے دُنیا! کس نے بیج بوئے یہاں؟ کون لایا تھا یہ بیج؟ کس نے بھرے ہیں رنگ ان میں؟ کاسی، نیلے، پیلے، اودے، کالے، سرخ، گلابی اور سفید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کون گوڈی کرتا ہے ان کی؟ اور کون پیاس بجھاتا ہے ان کی؟ کس نے سجایا ہے اتنا عظیم گلدان اور کس نے رنگ چھڑک دئیے ہیں ان پہنائیوں میں؟ پانی کا سمندر دیکھا تھا۔ برف کا سمندر دیکھا تھا۔ مگر کبھی نہیں سنا تھا کہ پھولوں کا بھی سمندر ہوتا ہے۔ یہ پھولوں کا سمندر تھا۔‘‘

لیکن ہمیں تو ایسا کچھ نظر نہیں آرہا تھا، جولائی میں برف، کہاں ہیں وہ پھول، پریوں کی وہ سرگوشیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماری پری کی موجودگی سے دیوسائی کی پریاں جیلیس ہوئی ہوں۔ یہاں تو یخ ہوائیں ہیں، برف ہیں اور کالے بادل۔ موسم کی یہ تبدیلی گلوبل وارمنگ کا حصہ تو نہیں؟ آشا اور آذین نے برف دیکھ کر چیخ کے کہا تھا آئس کریم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے انہیں سمجھایا تھا کہ یہ اللہ میاں کی طرف سے بھیجی گئی آئس کریم ہے۔ بچوں نے برف کو آئس کریم سمجھ کے خوب انجوائے کیا تھا۔
ہم تسلی کے لیے واپس دیوسائی سے جا رہے ہیں کہ ممکن ہے یہ سب گلوبل وارمنگ کا حصہ ہو، ممکن ہے موسم کی تبدیلی ہو، اب تک ممکن ہے پھول کھلے ہوں، ممکن ہے پریاں ناراضگیاں بھول چکی ہوں، ممکن ہے کالے بادل نیلے آسمان کی راہ سے ہٹ گئے ہوں اور ہاں ممکن ہے جھیل کی نیلگوں پانی میں پریاں رقص کر رہی ہوں۔
ممکن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
karimi gilgit


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
25554