Chitral Times

Apr 26, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

صرف کتے ہی نہیں بھونکتے……….عبدالکریم کریمی

شیئر کریں:

پاکستان کے نامور کالم نگار جناب عطا الحق قاسمی صاحب بڑے ادبی پیرائے میں بھونکنے والوں پر وار کرتا ہے۔ ’’کتوں کو بھونکنے دیں!‘‘ ان کے کالم کا عنوان ہے۔ جسے پڑھ کر مجھے ونسٹن چرچل بے اختیار یاد آگئے۔ انہوں نے بڑے پتے کی بات کی تھی:

’’آپ اپنی منزل پر کبھی بھی نہیں پہنچ پائیں گے اگر آپ راستے میں بھونکنے والے ہر کتے کو پتھر ماریں گے۔‘‘
ہم سب کو اکثر بھونکنے والوں سے واسطہ پڑتا ہے اور یہ بات بھی یاد رکھئیے گا کہ ضروری نہیں کہ بھونکنے والے کتے ہی ہوں۔ اس لیے ان کا کالم آپ کی بینائیوں کی نذر کیے دیتا ہوں۔ پڑھئیے اور بھونکنے والوں کو نذر انداز کیجئیے کہ بھونکنا ان کا کام ہے اور منزل پر پہنچنا آپ کا حدف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ لکھتے ہیں:
Barking Dog
’’کتوں کے بارے میں میرے خیالات ایسے ہیں جو کتوں کو کبھی اچھے نہیں لگے۔ میں سمجھتا ہوں ان کی دوستی اچھی ہے نہ ان کی دشمنی، چنانچہ میں ممکن حد تک ان کے ذکر سے اجتناب کرتا ہوں، البتہ ان کے بنیادی حقوق کے لئے میں ہمیشہ آواز اٹھاتا رہا ہوں اور آئندہ بھی اٹھاتا رہوں گا۔ میرے نزدیک بھونکنا ان کا بنیادی حق ہے۔ کئی لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ وہ بلاوجہ بھونکتے رہتے ہیں۔ میرے خیال میں ایسا کہنا زیادتی ہے کیونکہ کوئی کتا بلاوجہ نہیں بھونکتا، اعتراض کرنے والوں کو اور خود مجھے علم نہیں کہ جب وہ بھونکنے کی صورت میں گفتگو کر رہے ہوتے ہیں وہ آپ کو کیا کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں؟ اس ضمن میں سب سے بڑی زیادتی تو یہ ہے کہ ہم نے دنیا جہان میں ہونے والی زبانوں کو نام دے رکھے ہیں لیکن کتوں کی زبان کو ہم نے جو نام دیا ہے وہ ’’بھونکنا‘‘ ہے۔ یہ تعصب کی انتہا ہے۔ وہ بیچارے اگر آپس میں کوئی معقول بات بھی کر رہے ہوں تو ہم اسے بھی بھونکنے کے زمرے میں شامل کرتے ہیں۔ وائلڈ لائف پر بننے والی دستاویزی فلموں نے جانوروں کی زندگی کے حوالے سے بہت انکشافات کئے ہیں۔ کاش وہ ’’لسانیات‘‘ کی طرف بھی توجہ دیں اور خصوصاً یہ پتہ کریں کہ کتے جب بھونکتے ہیں تو کیا کہہ رہے ہوتے ہیں، ممکن ہے وہ رحمو قسائی کی شکایت کر رہے ہوں کہ وہ گاہکوں کو چھیچھڑوں سمیت گوشت فروخت کر رہا ہے اور یوں وہ اس کی دکان کے پھٹے تلے بیٹھے چھیچھڑوں کا انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہوں، ممکن ہے ان میں سے کچھ کتے نامراد عاشق ہوں اور ان کی فریاد کی لے کو بھی ہم یہ کہہ کر نظر انداز کر رہے ہوں کہ ان کا تو کام ہی بھونکنا ہے۔ ممکن ہے ان میں سے کوئی شاعر ہو اور وہ اپنا تازہ کلام سنا رہا ہو، یہ امکان بھی موجود ہے کہ اس کا تعلق زندگی کے کسی ایسے شعبے سے ہو جس سے وابستہ لوگوں کو یہ گمان ہو کہ وہ سب سے پیچھے رہ گئے ہیں اور یوں ’’خود تشخیصی اسکیم‘‘ کے تحت انہوں نے اپنا جو مرتبہ خود تعین کیا تھا، وہ رتبہ نہ ملنے پر وہ ’’بھونک‘‘ رہے ہوں۔ ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ممکن ہے وہ کسی ’’ٹاک شو‘‘ میں بیٹھے ہوں اور ہم ان کے باہمی مکالمے کو بھونکنا قر ار دے رہے ہوں۔ ہم یہ بھی تو سوچ سکتے ہیں کہ قسائی کے پھٹے تلے چھیچھڑوں کے انتظار میں بیٹھے اور اپنی دم سے مکھیاں اڑاتے ہوئے یہ مظلوم ان کتوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہوں جو صاحب کی کوٹھی کے ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں رہتے ہیں، جنہیں انسان نہلاتے ہیں اور جن کو ہر نعمت میسر ہوتی ہے مگر ہم اس طبقاتی تقسیم کے خلاف ان کے احتجاج کو بھی ان کو بھونکنا ہی قرار دیتے ہیں، تاہم ان تمام امکانات کے بیان کا یہ مطلب نہیں کہ سارے کتے کسی ٹھوس وجہ ہی کی بناء پر بھونکتے ہیں۔ ’’بھونکنا‘‘ ایک رویئے کا ہی تو نام ہے۔ چنانچہ کئی انسان بھی تو بھونکتے ہیں۔

سو جیسا کہ میں نے اس تحریر کے آغاز میں عرض کیا تھا کہ کتوں سے نہ دوستی نہ ان سے دشمنی اچھی، تاہم ان کے بنیادی حقوق کی بات میں ہمیشہ کرتا ہوں، مجھے ویسے بھی جانوروں کی عادات و اطوار سے خصوصی دلچسپی ہے اور ان میں کتے سرفہرست ہیں۔ میری متعدد تحریریں اس مخلوق کے حوالے سے ہیں۔ گزشتہ روز ’’سنہری حروف‘‘ کے نام سے ایک جریدہ مجھے موصول ہوا تو کتوں کے بارے میں میری ایک تحریر مجھے اس میں بھی نظر آئی جو برسوں پہلے کی تھی اور جس کے مطابق میرے بہت سے دوستوں نے بہت خوفناک قسم کے کتے پالے ہوئے ہیں۔ یہ دوست اس سگ نوازی کے بہت سے فائدے گنواتے ہیں۔ صرف ایک فائدہ نہیں گنواتے اور وہ یہ کہ ان کتوں کی موجودگی میں کوئی شریف آدمی ان سے ملنے نہیں آ سکتا کیونکہ اہل خانہ سے پہلے ان کے یہ کتے اپنے مہمان کا استقبال کرتے ہیں، یہ کتے اتنے خوفناک قسم کے ہیں کہ انہیں سامنے پا کر استقبال کا ایک قافیہ ہی انتقال یاد آتا ہے۔ میرے یہ دوست اپنے ان کتوں کے لئے رطب اللسان رہتے ہیں، ان کی کچھ خوبیوں کا تو میں بھی معترف ہوں اور ان میں سے ایک خوبی ان کے استقبال کا والہانہ انداز ہے، جب میرا کوئی سگ نواز دوست دروازہ کھولتا ہے اور مجھے بتاتا ہے کہ یہ کتا اس کی موجودگی میں مجھے کچھ نہیں کہے گا لہٰذا اندر چلے آؤ تو میں دوست کی بات پر یقین کر کے اپنے سہمے ہوئے قدم ان کے گھر میں رکھتا ہوں اور اس کے ساتھ ہی مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ کتا واقعی بہت بھلا مانس ہے بلکہ نہایت مہمان نواز بھی واقع ہوا ہے، وہ میرے پیٹ پر نوکیلے پنجے جما کر کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنی تھوتھنی جس سے رال ٹپک رہی ہوتی ہے، میرے منہ کے بالکل قریب لے آتا ہے، وہ غالباً معانقے کے بعد میرا بوسہ بھی لینا چاہتا ہے۔ اس پر میں اپنے دوست کو مشورہ دیتا ہوں کہ اس ’’لُوز کریکٹر‘‘ کتے کو گھر میں رکھنا مناسب نہیں، اسے چلتا کرو، مگر دوست میری بات پہ ہنستا ہے اور کہتا ہے کہ تم غلط سمجھے ہو۔ میں نے یہ کتا ایک پولیس اہلکار سے خریدا تھا، اسے لوگوں کا منہ سونگھنے کی عادت پڑی ہوئی ہے، میں اسے جب سیر کے لئے گھر سے باہر لے جاتا ہوں تو یہ راہ گیروں کا منہ سونگھنے کی بھی کوشش کرتا ہے اس کی یہ حرکت بد اخلاقی نہیں، اخلاق سنوارنے کے زمرے میں آتی ہے۔

چلیں مان لیا، لیکن کچھ کتے تو ایسے ہیں جو شکل سے خود شرابی کبابی لگتے ہیں، ان کی آنکھوں کے سرخ ڈورے بہت کچھ بتاتے ہیں۔ اگر نہ بھی بتائیں ان کی حرکتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف نارمل حالت میں نہیں ہیں، یہ بلاوجہ بڑھکیں لگاتے رہتے ہیں، مین گیٹ کے نچلے حصہ سے تھوتھنی باہر نکال کر راہ چلتے لوگوں پر غراتے ہیں، گھر آئے مہمان کی پتلون یا شلوار کا پائنچا دانتوں میں دبا کر اسے اپنی طرف کھینچتے ہیں، ایسے مواقع پر نہ صرف یہ کہ پتلون اور شلوار میں کوئی تمیز روا نہیں رکھتے بلکہ کسی دھوتی کا پلو بھی منہ میں لے کر کھینچنے لگتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ اس طرح کے مدہوش کتے مجھے زہر لگتے ہیں لیکن میرے ایک دھوتی پوش دوست کو یہ بہت پسند ہیں۔ یہ دوست ان کی اس حرکت کو ایک بے ضرر سی حرکت قرار دیتا ہے جبکہ ناظرین کو اس سے اختلاف ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود میں کچھ دنوں سے کسی اچھی نسل کے کتے کی تلاش میں ہوں۔ ایک دوست میرے لئے لے کر بھی آئے مگر وہ کتا نہیں کتیا تھی، سو میں نے معذرت کر لی کیونکہ کتیا بہت سوشل ہوتی ہے۔ اس کے مہمانوں کو کون سنبھالتا پھرے گا۔ علاوہ ازیں کتوں کے بارے میں میری پسند بہت مختلف قسم کی ہے، مجھے پُرامن اور بے ضرر قسم کے کتے پسند ہیں۔ نوکیلے جبڑوں اور گدھے جتنے قد کے کتے مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ مجھے تو وہ چھوٹے چھوٹے سے کتے اچھے لگتے ہیں جن کے لمبے لمبے بال ان کی آنکھوں کو ڈھانپے ہوئے ہوتے ہیں اور جو بھونکتے بھی ہیں تو اتنے مترنم انداز میں کہ ان کی پیروی کرنے کو جی چاہتا ہے۔

ایک امریکی مزاح نگار لکھتا ہے کہ بچپن میں ہم لوگ اتنے غریب تھے کہ گھر میں کتا رکھنا افورڈ نہیں کر سکتے تھے چنانچہ رات کو چوروں سے محفوظ رہنے کے لئے ہم اہلِ خانہ باری باری بھونکنے کی ڈیوٹی انجام دیتے تھے۔ ایک دوست نے میرے لئے یہ کتا لانے کا وعدہ کیا تھا جس کے لمبے لمبے بال اس کی آنکھوں کو ڈھانپے رکھتے ہیں۔ اگر انہوں نے وعدہ نبھایا تو پھر میں اس کتے کے خصائص تفصیل سے بیان کروں گا، گو ابھی تک گھر میں کتا رکھنے کے حوالے سے میرے ذہن میں کچھ رکاوٹیں ہیں، مثلاً یہی کہ میں نے جب کبھی کوئی کتا پالا ہے وہ بالآخر مجھی پر بھونکا ہے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ فرق پڑتا ہے اگر اسے کاٹنے کی سہولت بھی فراہم کی جائے اور اللہ کا شکر ہے اس کی نوبت کبھی نہیں آئی۔ بھونکنے والوں کو اس وقت تک بھونکنے دینا چاہئے جب تک وہ تھک نہ جائیں اور اس عالم میں بے بسی سے آپ کی طرف دیکھنا نہ شروع کر دیں۔‘‘


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
20530