سوشل میڈیا و موبائل کا استمعال – تحریر: انوار الحق
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ پرنٹنگ پریس، انٹرنیٹ کے بعد انسانی زندگی کو سب سے زیادہ اثر انداز سوشل میڈیا اور موبائل کے استعمال نے کیا ہے۔ موبائل اور سوشل میڈیا کا استعمال ایک ساتھ کرنا آج کل ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ سوشل میڈیا اور موبائل نے ہماری زندگیوں میں بہت ساری آسانیاں پیدا کیے ہیں لیکن ان آسانیوں کے ساتھ ساتھ بہت ساری مشکلات کا دروازہ بھی کھول دیا ہے۔ میرے نزدیک کسی بھی چیز کو استعمال کرنے سے پہلے اس چیز کے حوالے سے انسان کے پاس شعور ہونا بہت ضروری ہے۔ جیسے ڈرائیور گاڑی چلانے سے پہلے گاڑی چلانا سیکھتا ہے، تیز رفتاری کے نقصانات، ہوش و حواس سے گاڑی چلانے کے فائدوں کو اچھی طرح سمجھ کر جب گاڑی چلاتا ہے تو ان سب چیزوں سے مسافروں، ڈرائیور اور گاڑی کو بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
بلکل اسی طرح موبائل اور سوشل میڈیا کے فوائد اور نقصانات کو سمجھنا پھر اس کو استعمال کرنا ہم سب کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر جیسے ڈرائیونگ نہ سیکھ کر چلانے کی وجہ مسافر،گاڑی اور ڈرائیور کو خود نقصان ہوگا ٹھیک ویسے ہی سوشل میڈیا اور موبائل کے نقصانات کو نہ سمجھ کر استعمال کرنے والے کو خود، اس کے گھر والوں اور معاشرے میں سب کو اس نقصان کے ازالہ بھگتنا ہوگا۔
حالیہ دنوں میں ہمارے گلستان کے مانند اس خوبصورت سرزمین چترال جو کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے یقین کریں دل خون کے آنسو روتا ہے۔ آئے روز لیک ویڈیوز،لیک پکچرز اور لیک آڈیوز دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہیں۔ ان سب کے ذمدار ہم خود ہیں۔ ہم نے اپنے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل تھمانے سے پہلے انکو awareness نہیں دی۔ انکو سوشل میڈیا کے نقصانات کے بارے میں آگاہ نہیں کیا۔ بحیثیتِ والدین یہ ہماری اوّلین ذمداری تھی۔
آخر میں میں اپنے نوجوان نسل خصوصاً اپنے بہنوں سے مخاطب ہوں کہ خدا کا واسطہ ہے اس مطلب پرستی اور مادہ پرستی کے دور میں اپنے عزت کسی اور کے ہاتھوں میں نہ دیں۔ کسی کو پسند کرنا غلط بات نہیں ہے لیکن اس پسند کرنے کی وجہ سے اپنی عزت کو دوسروں کے ہاتھوں نیلام کر کے اپنے ماں باپ کو خون کے آنسو نہ رلائیں۔ آپ کے نادانی میں کی گئی اقدام کی وجہ سے آپکے ماں باپ اور خاندان والوں کے سر کسی کے سامنے شرم سے نہ جھک جائیں۔
اس حوالے سے کچھ ضروری و حفاظتی اقدامات جو ہم سب کو بحیثیتِ بیٹا،بیٹی،ماں،باپ،بھائی اور بحیثیتِ مسلمان و انسان کر سکتے ہیں۔
1:اپنے پرائیویٹ لمہوں کو کیمرے کے آنکھ میں نہ لائیں۔
2: اس بات کو پلے سے باندھ لیں کہ اس دنیا میں آپ کی عزت آپ کے اپنے ہاتھوں میں ہے۔
3:ایسا کچھ کرنے کی سوچ ہو تو ایک بار اپنے خاندان کی عزت کے بارے میں سوچیں۔
4:بحیثیتِ ماں باپ اپنے بچوں کے موبائل فراہم کرنے سے پہلے انکو awareness دیں۔
5: اگر کسی کے پاس ایسے آڈیوز،ویڈیوز یا پکچرز آئیں تو برائے کرم اپنی اخلاقی و مذھبی ذمداری سمجھ کر آگے نہ پہنچائیں۔
6: اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہم ایک مسلمان ہیں اور ہم نے کل کو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے عدالت میں پیش ہونا ہے اور اللہ تعالی کو اپنے زندگی کے بارے میں حساب دینا ہے۔ جزاک اللہِ خیرا وبارک