Chitral Times

امریکہ طالبان قضیہ: دوسرا نکتہ نظر…….تحریر: امیرجان حقانی

Posted on

معلوم نہیں آپ طالبان اور امریکہ کے مابین دوحہ معاہدہ امن کو کس حوالے سے دیکھتے ہیں. ممکن ہے آپ بین الاقوامی تعلقات، ڈپلومیسی اور جنگی فنکاریوں پر گہری نظر رکھتے ہوں اور اسی تناظر میں ہار جیت اور معاہدہ کا جائزہ لیتے ہوں مگر میرا نکتہ نظر بالکل مختلف ہے. میں تہذیبی طور پر اس چیز کا مطالعہ کررہا ہوں. یہ ماننے میں حرج نہیں کہ آج کا مغرب اور اسکا سارا تہذیبی فلسفہ حسی بنیادوں پر قائم ہے یعنی محسوسات پر. غیر محسوسات پر ایمان لانا اور قابل بھروسہ سمجھنا ان کے لیے مشکل ہے. ان کی ساری ترقی مادی اور عقلی بنیادوں پر منحصر ہے. دنیا کے ہر معاملہ کو مادہ اور عقل کی دنیا سے دیکھنے کے قائل ہیں. اپنی مادی تہذیب و ترقی کو عقلی دلائل فراہم کرتے ہیں اور دنیا ان کے مادہ اور عقل دونوں سے مرعوب ہوتی ہے.
روح اور الہی قوتوں کے وہ کھبی قائل نہیں رہے. اگر اس طرف رخ کیا بھی تو میسمریزم اور رہبانیت جیسے غیر فطری طریقوں نے ان کی تہذیب کو پنپنے نہیں دیا. اور وہ ایمان جیسی غیر محسوس چیز کی لذت اور طاقت دونوں سے محروم رہے.
ہر مادی چیز کو حرف آخر سمجھنا اور اس کی عقلی دفاع کرنا قوم عاد و ثمود کا شیوہ تھا.اس زمانے میں ان سے زیادہ مادی ترقی کون کرسکتا تھا، قرآن کریم نے بھی قوم عاد و ثمود کی مادی ترقی اور ان کے انجام کا ذکر کیا ہے. (سورہ شعراء کی آیت نمبر 130 سے 150 تک میں ان کی مادی ترقی و تہذیب کا مفصل ذکر ملے گا).

اور آج کا مغرب بھی ٹھیک اسی ڈگر پر چل رہا ہے جس نے جلد یا بدیر ختم ہونا ہے. قوم عاد و ثمود سے زیادہ ماضی میں مادہ کو کوئی قوم استعمال نہیں کرسکی. مگر ان کا وجود کہیں ہے نہ ہی ان کی تہذیب. اور نہ ان کے بڑے بڑے قصر و محلات اور پہاڑوں میں تراشی گئی پناہ گاہیں.
اسلام ان عقلی اور مادی فلسفوں سے الگ ایک مکمل فطری نظام ہے. صرف عقل، مادہ یا ما فوق الفطرت چیزوں پر انحصار نہیں کرتا. اس لیے صدیوں سے چل رہا ہے.
جس جس نے بھی فطرت اسلام کے آفاقی اصولوں کو مدنظر رکھ کر اپنی بقاء اور ترقی کی بات کی ہے وہ مادی، حسی اور عقلی طور پر دنیا کے سامنے کمزور ہونے کے باوجود بھی سرخرو ہوئے ہیں اور جاہلی تہذیب کے مقابلے میں بالآخر فطری تہذیب کے علمبرداروں کو کامرانی نصیب ہوئی ہے.
ہمارے سامنے افغان معاملہ شروع ہوا تھا. پوری دنیا اور اس کے مادی اشیاء(ٹیکنالوجی، عالمی برادری کا تعاون اور ہر قسم کا اسلحہ اور لاجسٹک سپورٹ) امریکہ کے ساتھ تھا. بظاہر عقل اور مادہ دونوں ان کے ساتھ تھے. امارت اسلامی کے پاس خوفزدہ اپنوں کا اخلاقی تعاون بھی نہیں تھا، بلکہ وہ سب ان کی ہلاکت کے درپے تھے اور ڈائریکٹ امریکہ کیساتھ تھے. ان بیس سالوں میں کونسا سپورٹ ہے جو افغان کے خلاف دنیا بھر کے اسلامی ممالک نہیں امریکہ کا نہیں کیا؟ بین الاقوامی سفارتی اصولوں کو بھی پامال کرتے ہوئے افغان سفیر ملا ضعیف کو برہنہ کرکے امریکہ کے حوالہ کیا؟ کیا اس سے بھی زیادہ طاقت سے کوئی مرعوب ہوسکتا ہے؟
مگر انہوں نے مادہ اور عقل کے سامنے جھکنے سے انکار کیا اور دین فطرت کے اصولوں پر سختی سے کاربند رہے.انیباء کا یہی طریقہ کار رہا ہے کہ انہوں نے غیرفطری چیزوں اور مادہ کے سامنے جھکنے کی بجائے قربانی دینے کی ریت قائم کی ہے. نہ اپنوں سے گلہ کیا نہ غیروں کی پروا کی، بلکہ اپنے اصولی مناہج پر سختی سے کاربند رہے اور فتح ہمیشہ اصولوں کی ہوتی ہے.
انسانی تہذیبوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ غیر فطری تہذیبیں بالآخر فطری اور الہی تہذیب و تمدن اور اصولوں کے سامنے ڈھیر ہوجاتیں ہیں. اور انسانی معاشرہ بھی غیرفطری چیزوں کو زیادہ دیر قبول نہیں کرتا بلکہ رد کردیتا ہے.
یاد رہے کہ اسلام نہ مادہ کی نفی کرتا ہے نہ عقل کی، مگر ان دونوں کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرتے ہوئے الہی اصولوں اور انبیائی طریقہ کار کو اپنانے کی بات کرتا ہے اور مادہ اور انسانی عقل سے زیادہ وحی کو قابل اعتبار اوراعتماد سمجھتا ہے اور منہ زور طاقت کے سامنے جکھنے سے انکار کرتا .یہی توحید کا خلاصہ بھی ہے.
.
طالبان نے بھی جب مادہ، ٹیکنالوجی کی چکاچوند،پوری دنیا کا لاجسٹک سپورٹ اور مالی معاونت، بےہودہ طرزاستدلال اور عقلی موشگافیوں، غیروں کی ریشہ دوانیوں اور اپنوں کی بے رعنائیوں کے سامنے جھکنے کی بجائے فطرت الہی کے سرچشمے پر یقین کیا اور ممکنہ حد تک عقل اور مادہ کا استعمال بھی کیا مگر مکمل اس پر منحصر نہ رہے، تو الہی نصرت شامل حال رہی.امم سابقہ بھی اس طرح ہی سرخرو رہی ہیں. امید ہے آگے کے مراحل بھی خدا کے فطری اور آفاقی اصولوں کے مطابق انجام پائیں گے اور جہاں بھی غیرفطری روایات قائم کی جائیں یا جاہلی تہذیب کو اسلام کی ملمع سازی کی کوشش کی جائے گی تو پوری عمارت دھڑام سے گرجائے گی. اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
32566

مگر ان سب سے بہتر ہے کہ تم انسان بن جاؤ………… ممتاز گوہر

Posted on

کوہستان میں حالیہ دنوں ملک آفریں کے حق میں ہونے والے جلسے سے خطاب کرنے والے صاحبان کی سوشل میڈیا میں موجود ویڈیوز کو دیکھا. ان صاحبان نے اپنے جذبات، احساسات، علم، درکار معلومات اور ملک آفرین سے تعلق کو سامنے رکھتے ہوئے جو کچھ کہا وہ ان کے حساب سے ٹھیک ہے۔ جب حکومت سکول اور اساتذہ نہ دے علم سے دور رکھے آئین کے آرٹیکل 25 اے پر عمل درآمد نہ ہو۔ کلچر اور غیرت کے نام پر قلم کے بجائے کلاشنکوف ہاتھ میں تھمایا جائے۔ نظریہ ضرورت کے تحت پہلے عوام کے جذبات اور غیرت کو ابھارا جائے اور پھر نام نہاد مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے۔ حکومت خود کی رٹ قائم کرنے میں ناکام ہو۔ تو ایسے میں وہاں کے بلند خان اور اس جیسے لوگوں سے امن، محبت اور پھول باٹنے کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیئے۔

حیرت اس بات پر نہیں کہ حکومتی رٹ مخصوص علاقوں، مخصوص لوگوں و مخصوص فرقوں تک محدود کیوں ہے۔ بلکہ حیرت تو کوہستان کے اہل دانش سے، علماء سے، امن پسندوں سے اور پڑھے لکھے لوگوں سے ہے جو کوہستان کے ان چند صاحبان کی مسلکی اور نفرت انگیز تقاریر پر بھی مکمل خاموش رہے۔ ہاں ایسے میں کوہستان کے ہی کچھ لوگوں نے سوشل میڈیا میں ببانگ دہل غلط کو غلط کہہ دیا جو کہ خوش آئند امر ہے۔

علاقائی معاملات ہوں، مذہبی و مسلکی ہوں یا سیاسی یہاں کے لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھیلنے کی ہر کسی نے کوشش کی ہے۔ اس بار ہندراپ کے واقعے پر بھی ایسا ھی ہوا ہے۔ ہندراپ کے لوگوں اور ملک آفریں کے قبیلے کے درمیان چراگاہ کا تنازعہ ہے۔ کچھ ماہ قبل ملک آفریں پر ہندراپ کے چار نوجوانوں کے اغواء کا مقدمہ پولیس نے درج کر لیا۔ کیس عدالت میں چل رہی پولیس نے تفتیش کے لئے ملک آفریں کو گرفتار کر لیا۔ گرفتاری کے بعد ملک آفریں اور ان کے ہمدردوں نے قانون کے بجائے مسلکی اور علاقائی کارڈ کو خوب کھیلا۔ شائد انھیں حکومت اور حکومتی رٹ سے آگاہی برسوں سے رہی ہے۔

آپ حکومتی رٹ کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اگر جلسے میں جس طرح کی دھمکیاں اور زبان کا استعمال کیا گیا اگر یہ سب کچھ غذر یا گلگت بلتستان کے کسی حصے میں ہوتا تو آج وہاں سب پر اے ٹی اے اور شیڈول فور لگا ہوتا۔ سب پابند سلاسل ہوتے۔ بے شک وہ دس دس بار ہی کیوں نہ معافی مانگ چکے ہوتے۔

جس مسئلے پر شاہراہ قراقرم سے کسی گزرنے نہ دینے سمیت دیگر جو دھمکیاں دی جا ری ھیں یہ مسئلہ گلگت بلتستان اور کوہستان کا نہیں ہے بلکہ ہندراپ گاؤں اور ملک آفریں کے قبیلے کے درمیان چراگاہ کا تنازعہ ہے. یہ کیس عدالت میں ہے. عدالتی فیصلے سے قبل ہی مسلکی و علاقائی الزامات اور نفرت پر مبنی الزامات گلگت بلتستان کے مفاد میں ہیں نہ ہی کوہستان کے مفاد میں ہیں. صبر سے کام لیں عدالت اور پولیس کو اپنا کام کرنے دینے میں ہی سنجیدگی ہے۔

ہتھیار لہرا کر زبردستی زمینوں پر قبضے، دھمکیوں سے ڈرانا، مسافروں کی لاشیں گرانا کوئی کمال نہیں. کمال تو تب ہے جب قانون کا سہارا لے کر مقدمہ جیت لیا جائے. ملکی اداروں کا احترام اور انھیں مضبوط بنایا جائے. نفرتوں کے بجائے محبتوں کو عام کیا جائے اور اسلام کے تعلیمات کی صرف تبلیغ کے بجائے ان پر حقیقی معنوں میں عمل بھی کیا جائے۔

ہمیں یہ معلوم ہے کہ کوہستان کے لوگ شاہراہ قراقرم میں کسی بھی حادثے کی صورت میں زخمیوں اور لاشوں کو نکالنے کے لئے سب سے پہلے پہنچ جاتے ہیں ہسپتالوں میں زخمیوں کو خون دیتے اور جانیں بچاتے وقت کبھی ان کے مسلک کے بارے میں نہیں پوچھتے. دریا برد ہونے والی لاشوں کو نکالنے کے دوران بھی یہ سوال نہیں کیا کہ یہ لاش کس مسلک سے تعلق رکھنے والے بندے کی ہے. اس وقت ان کے دلوں میں صرف انسانیت ہوتی ہے کوئی مسلکیت اور نفرت نہیں ہوتی۔

یہاں کے مجموعی لوگ شاہراہ قراقرم کے محافظ ہیں یہ سی پیک کو کامیاب اور پاکستان کو مضبوط و خوش حال دیکھنا چاہتے ہیں. یہ لوگ بلند خان اور ان کے چند ساتھیوں کی طرح شاہراہ قراقرم میں نہتے مسافروں کی لاشیں گرانے کی دھمکیاں نہیں دیتے. کوہستان کے مجموعی لوگ سی پیک کے روٹ میں لاشیں گرانے کے نہیں بلکہ انسانی زندگیوں کو بچانے کے حامی ہیں اور اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا ہے. امید یہی ہے کہ کوہستان کے سمجھدار لوگ سی پیک کو سبو تاژ کرنے کے لئے اپنے سرزمین کو استعمال کرنے نہیں دیں گے. ایسے ہتھکنڈے استعمال کرنے والوں کو وہ خود بے نقاب کریں گے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہی شاہراہ ان کی روزگار اور ترقی کا سب سے بڑا سبب بھی ہے.

کچھ سال قبل شندور کے معاملے میں چترال کے ایک نامی گرامی شخص کو استعمال کیا گیا. اس کے ذریعے ایک نفرت انگیز کتابچہ بھی چھپوایا گیا. جس میں گلگت بلتستان کے لوگوں کو “را” کے ایجنٹ ڈکلئیر کرنے کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان اور چترال کے عوام میں نفرتیں بڑھانے کی ہر ممکن کوششیں کی گئیں. بھاشا ڈیم اور حدود بندی پر کوہستان اور گلگت بلتستان میں نفرتیں بڑھائی گئیں اور اب ہندراپ کے واقعے کے بعد ان نفرتوں کو مزید ہوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ گلگت بلتستان کے ہمسائیوں کے ساتھ تنازعات کو حل کرنے کے بجائے انھیں طول دے کر دوریاں بڑھائی جا رہی ہیں جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔

ایسے مذہبی و مسلکی کارڈ ہمیشہ الیکشن کے دنوں میں خوب استعمال کیے جاتے ہیں. گلگت بلتستان کے الیکشن بھی قریب قریب ہیں تو اس طرف بھی توجہ دینا ہوگا کہیں خون کسی کا بہے اور اس کے بدلے کرسی کسی اور کونصیب نہ ہو. مزے کی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے گلگت بتستان کی حکومت نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے. حفیظ الرحمن صاحب اور ان کے مخصوص وزراء ہوائی جہاز پر سفر کر رہیں ہیں تو شاید انھیں مسلک کے بنیاد پر لوگوں کو سفر سے روکنے کی دھمکی سے کوئی سروکار نہ ہو۔

بات وہی آ جاتی ہے کہ گلگت بلتستان اور کوہستان آپس میں ثقافتی، لسانی و مذہبی رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں. نفرتوں اور دوریوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے. سوشل میڈیا کا استعمال سوچ سمجھ کر کیا جائے. اگر بلند خان روڈ پر نکل کر بلند بلند دھمکیاں دیں تو اس کا جواب سوشل میڈیا میں اس سے بھی بڑی بڑی دھمکیوں سے دینا کوئی عقلمندی نہیں ہے. یہ ہندارپ اور اس پار کے لوگوں کا مسئلہ ہے عدالت کو اپنا کام کرنے دیا جائے. اور وہاں سے جو بھی فیصلہ آئے سب کو قابل قبول ہونا چاہیے۔ نفرت، شدت، عداوت جس طرف سے بھی ہو اس کی مذمت ہونی چاہیئے۔

گلگت بلتستان ہو کوہستان ہو یا چترال ان تینوں علاقوں کی حالت ایک جیسی ہے۔ یہاں مجموعی طور پر اب بھی ترقی کی رفتار فرقہ واریت کے مقابلے میں انتہائی سست ہے۔ جب تک یہاں کے عوام اس دلدل سے باہر نہیں نکلیں گے 2020 تو کیا 3030 بھی آئے حالت یہی رہے گی۔ اگر ہم عصر دنیا کا مقابلہ کرنا ہے تو اس فرقہ وارانہ سوچ سے خود کو باہر نکالنا ہوگا۔ یہ وقت آپس کے راستے روکنے اور لاشیں گرانے کا نہیں بلکہ اپنے جائز حقوق حاصل کرنے کا ہے۔ کیا کوہستان کے باسیوں نے اس بات پر کبھی غور کیا ہے کہ پاکستان کے قومی دھارے میں شامل ہوتے ہوئے بھی یہ علاقہ گلگت بلتستان سے پیچھے کیونکر ہے۔ تعصب، فرقہ واریت کو ختم کرکے مثبت سوچ کے ساتھ اب بھی آگے نہیں بڑھے تو یہ ہماری اجتماعی بد قسمتی ہوگی۔

بشر چاہے جہاں کا ھو مِلو یک جان بن جاؤ
تعصُب بھی کرو ایسا کہ تم زیشان بن جاؤ

شعیہ ھے ڈاکٹر تو پھر سُنی کپتان بن جاؤ
ہے گُل اِسماعیلی چاھو تو اک گُلدان بن جاؤ

کوئی کرنل حَسن بابر کوئی شیر خان بن جاؤ
اگر جانباز بننا ھے تو لالک جان بن جاؤ

مگر ان سب سے بہتر ہے کہ تم انسان بن جاؤ

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
32538

حج پالیسی 2020ء کے اہم نکات……….. حبیب الرحمن

Posted on

☜ حج 2020ء کے لئے پاکستان کا کل منظور شدہ کوٹہ = 179,210

☜ سرکاری اسکیم %60 جبکہ پرائیویٹ سکیم %40 کے تناسب سے تقسیم کیا گیا ہے۔

☜ سرکاری اسکیم کے تحت 107,526 اور پرائیویٹ اسکیم کے تحت 71,684 حجاج فریضہ حج ادا کریں گے۔

☜ شمالی ریجن پیکج بغیر قربانی= 463,445 روپے
(اسلام آباد، پشاور، لاہور، فیصل آباد، سیالکوٹ، ملتان، رحیم یار خان)

☜ جنوبی ریجن پیکج بغیر قربانی = 455,695 روپے
(کوئٹہ، کراچی، سکھر)

☜ قربانی اختیاری ہوگی۔ جو حاجی صاحبان سرکاری اسکیم میں قربانی کرنا چاہیں، ان کو 22,825 روپے حج پیکج کے علاوہ جمع کرانے ہونگے۔

☜ پاسپورٹ جس کی کم از معیاد 01 فروری 2021، کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور میڈیکل سرٹیفکیٹ لازمی ہوگا۔

☜ حج درخواستیں 24 فروری سے لیکر 04 مارچ تک نامزد کردہ بینک میں وصول کی جائیں گی۔ کامیاب امیدواروں کا اعلان کمپیوٹرائزڈ قرعہ اندازی کے ذریعہ ہوگا۔

☜ 70 سال سے زائد عمر افراد (01 جنوری 1950 سے پہلے کی پیدائش) کے لئے 10000 کا کوٹہ مختص۔ زیادہ درخواستیں وصول ہونے کی صورت میں زیادہ عمر والوں کو ترجیح۔

☜ پچھلے تین سال (2017، 2018، 2019) سے مسلسل ناکام امیدوار قرعہ اندازی سے مستثنٰی بشریطہ انہوں نے گزشتہ تین سال میں پرائیویٹ اسکیم میں حج نہ کیا ہو۔

☜ اوور سیز پاکستانیوں کے لئے 1000 سیٹیں مختص۔

☜ سرکاری کوٹہ کا %1.5 یعنی 1623 سیٹیں ہارڈ شپ کیسز کے لئے مختص۔

☜ سرکاری کوٹہ میں 500 سیٹیں EOBI سے رجسٹرڈ ورکرز کے لئے مختص۔

☜ تمام درخواست گزار بشمول حج بدل اور نفل حج ادا کرنے والے سرکاری اسکیم کے اہل ہونگے بشرطیکہ انہوں نے پچھلے 5 سالوں 2015 سے 2019 تک سرکاری اسکیم کے تحت حج نہ کیا ہو۔ اس ضمن میں صرف خاتون کے محرم کو استثنٰی حاصل ہوگا۔ لیکن دوبارہ حج کرنے پر سعودی قوانین کے مطابق اضافی رقم روانگی سے پہلے ادا کرنی ہوگی۔

☜ کسی بھی عمر کی خاتون محرم کے بغیر حج پر نہیں جاسکے گی تاہم فقہ جعفریہ کی 45 سال سے زائد عمر حاجن کو محرم کی شرط سے مستثنٰی۔

☜ مکہ مکرمہ میں رہائش عزیزیہ، بطحہ قریش میں ہوگی۔ حرم جانے کے لئے 24 گھنٹے ٹرانسپورٹ کی سہولت۔

☜ مدینہ منورہ میں تمام حجاج کی رہائش مرکزیہ میں دینے کی کوشش کی جائے گی۔

☜ دوران قیام مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، مشائر میں پاکستانی ذائقہ کے مطابق تین وقت کا کھانا بھی پیکج میں شامل۔

☜ حج پر جانے سے پہلے تمام حجاج کو آگاہی مہم کے تحت تربیت دی جائے گی جوکہ لازمی ہوگی۔

☜ دوران حج کسی بھی حاجی کے فوت ہونے پر سعودی حکومت کی ہدایات کے مطابق تدفین سعودیہ میں ہوگی۔

☜ تمام سرکاری اسکیم کے حجاج کو حج سے واپسی پر 5 لیٹر زمزم مہیا کیا جائے گا۔

☜ سعودی عرب میں رہائش کے دوران تمام حجاج کو سعودی قوانین کی پابندی کرنی ہوگی۔

☜ اسلام آباد کے بعد کراچی، کوئٹہ، پشاور لاہور کو بھی روڈ ٹو مکہ پراجیکٹ میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔(چترال ٹائمزرپورٹ )

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستان, مضامینTagged
32410

کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے چائنہ بارڈر کھولنے کے حوالہ وفاق سے رابطہ کیا جائیگا..وزیراعلی

Posted on

گلگت(چترال ٹائمزرپورٹ) وزیراعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے محکمہ صحت کی سفارشات کی روشنی میں چائنہ بارڈر کھولنے کے حوالے سے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا جائے گا۔ پاکستان کے ہمسایہ ممالک کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جس کی وجہ سے کورونا وائرس سے بچاؤ ایک چیلنج ہے۔ گلگت بلتستان کو کورونا وائرس سے محفوظ رکھنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جارہے ہیں۔ ایمرجنسی کا نفاذ کیا گیا ہے اور محکمہ صحت کو درکار وسائل فراہم کئے گئے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے گلگت بلتستان کو کورونا وائرس سے محفوظ رکھنے کے حوالے سے منعقدہ اعلی سطحی اجلاس کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے صوبائی سیکریٹری صحت کو ہدایت کی ہے کہ محکمہ صحت کی جانب سے ہیلتھ ایڈوائزری جاری کی جائے تاکہ کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک کے سفر سے اجتناب کیا جاسکے۔ پاک چائنہ بارڈر کھولنے کے بارے میں فیصلہ محکمہ صحت کی سفارشات کو مدنظررکھتے ہوئے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا جائے گا۔ وزیراعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ کورونا وائرس سے صوبے کو محفوظ بنانے کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے گئے ہیں۔ محکمہ صحت کو درکار وسائل فراہم کئے جاچکے ہیں۔ وزیراعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے صوبائی سیکریٹری داخلہ، صوبائی سیکریٹری صحت اور دیگر متعلقہ آفیسران کو ہدایت کی ہے کہ ایف آئی اے سے روزانہ کی بنیاد پر کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک کا سفر کرنے والوں کی لسٹیں حاصل کریں اور سفر کرنے والوں کی سرولینس ٹیموں کے ذریعے ٹیسٹ کرائے جائیں۔ وزیراعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ صوبے میں 95 ماسک، کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے کٹ اور انسولیشن وارڈز میں وینٹی لیٹرز کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔ کسی بھی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے محکمہ داخلہ، صحت، واٹر اینڈ پاور اور واٹر مینجمنٹ کے مابین کوآرڈینیشن کو مزید بہتر بنایا جائے۔ وزیراعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے تھرمل سکینرز سمیت ضروری آلات کی خریداری ہنگامی بنیادوں پر عمل میں لائی جائے۔ کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جارہے ہیں۔ صوبے میں انسولیشن وارڈز، سرولینس ٹیموں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے اور تمام اضلاع میں سرولینس ٹیموں کو فعال کیا گیا ہے۔وزیراعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ کسی مشکوک کیس کی صورت میں مریض کو انسولیشن وارڈز میں منتقل کرکے کورونا وائرس کے ٹیسٹ کرائے جائیں گے۔ صوبائی سیکریٹری داخلہ کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی تشکیل دی جائے جو کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے کئے جانے والے اقدامات کے حوالے سے ہر تین دن بعد تمام ریجن سے رپورٹ طلب کریں۔ بلتستا ن ریجن پر خصوصی توجہ دیا جائے اور کمشنر بلتستان کی سربراہی میں کمیٹی بنائی جائے۔ سرولینس کمیٹیوں کو فعال کیا جائے اور کورونا وائرس سے بچاؤ کے حوالے سے عوام میں آگاہی مہم چلائی جائے۔ اس موقع پر وزیراعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کو صوبائی سیکریٹری داخلہ اور صوبائی سیکریٹری صحت کی جانب سے کوروناوائرس کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستانTagged
32408

رنج والم کا شکار کالاش خاندان کی طرف سے تمام مخیرحضرات سے مدد کی اپیل

چترال ( محکم الدین ) گردش زمانہ اور حالات و واقعات بدلنے میں دیر نہیں لگتی ۔ ایسے ہی اچانک رنج و الم کے شکار بمبوریت کے مقام بتریک کے ایک کالاش خاندان نے تمام مسلم اور غیر مسلم مخیر حضرات سے امداد کی اپیل کی ہے ۔ اور کہا ہے ۔ کہ اُنہیں سہارا دے کر مزید بکھرنے سے بچایاجائے ۔ خاندان کے واحد کفیل افضل خان کے مطابق اُن کے خاندان پر اُفتاد اُس وقت آن پڑی ۔ جب اُن کے بڑے بھائی پارسل خان جنگل کے ایک تنازعے میں ایک شخص کے قتل کے مجرم ٹھہرے ۔ اور اسے جیل میں ڈال دیا گیا ۔ جس کا صدمہ برداشت نہ کرتی ہوئی والدہ اور بہن بیمار پڑ گئے ۔ اور اسی غم میں فوت ہو گئے ۔
.
ماں ، بہن کی علالت ، تدفین کی رسومات کی آدائیگی ، بھائی کیلئے وکلاء کی فیس گھر کے اخراجات ناقابل برداشت تھے ۔ اس لئے گاوں کا ایک شخص اس شرط پر سات لاکھ روپے قرض دینے پر راضی ہوا ۔ کہ چودہ من اخروٹ جس کی مالیت ایک لاکھ 80ہزار روپے بنتی ہے ۔ سالانہ سود پر ادا کرنے پڑیں گے ۔ اور اگر دو سال آدائیگی نہ ہو ئی ۔ تواصل زر اور سود کے بدلے میں وہ میری ایک قطعہ زمین پر قبضہ کریں گے ۔ مجبوری اتنی ناقابل برداشت تھی ۔ کہ مجھے یہ شرائط ہر صورت ماننے پڑے ۔ دو سال مشکل سے سو د ادا کرتا رہا ۔ لیکن گذشتہ دو سالوں سے سود کی آدائیگی نہ ہونے کے سبب قرض خواہ اصل زر اور سود سمیت 9 لاکھ کی مجموعی قرض کے عوض زمین پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ۔ ایک طرف قرض خواہ کا بوجھ اور دوسری طرف بڑے بھائی پارسل خان کی جیل میں ہارٹ اٹیک سے ہلاکت نے بیوہ اور یتیم بچوں کی مستقل ذمہ داری نے خاندان کو مزید معاشی مسائل سے دوچار کردیا ہے ۔ اور وہ انتہائی طور پر کسمپرسی کی حالت سے دوچار ہیں ۔
.
مجبوری اور غم و صدمے سے نڈھال افضل خان نے اشک بار آنکھوں سے تمام مخیر حضرات سے اپیل کی ہے ۔ کہ ان کے مجبور خاندان کو مزید مصائب سے دوچار ہونے سے بچانے کیلئے قرض کے 9لاکھ روپے کی آدائیگی میں اُن کی مدد کریں ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ ان کا گزارہ محنت مزدوری پر ہے ۔ اور وہ لاہور کے مختلف فیکٹریوں میں مزدوری کرتے ہیں ۔ جس سے اُن کے گھر کے اخراجات ہی پورے نہیں ہو رہے ۔ ایسے میں قرض کی بڑی رقم ادا کرنا اُن کیلئے ایک کوہ گران ہے ۔ انہوں نے توقع ظاہر کی ۔ کہ خدا کی زمین اچھے اور رحم دل لوگوں سے خالی نہیں ۔ اور ضرور مخیر بہن بھائی اُن کے خاندان کے بیوہ یتیم بچوں کو اس مصیبت سے نکالنے کیلئے مد د کریں گے ۔ واضح رہے ۔ کہ پارسل خان کو مقامی عدالت نے جرم ثابت ہونے پر موت کی سزا سنائی تھی ۔ اور وہ جیل میں سزا کاٹنے کے دوران حرکت قلب بند ہونے سے کچھ عرصہ قبل انتقال کر گئے تھے ۔ ان کی بیوہ یتیم بچے اور خاندان کے دوسرے افراد مشکل میں ہیں۔

مخیر حضرات موبائل نمبر 9701411-0344—— اور 03424187316 پر رابطہ کر سکتے ہیں ۔ یا چترال ٹائمزڈاٹ کام کی وساطت سے بھی متاثرہ خاندان کے ساتھ مدد کی جاسکتی ہے .

kalash in chitral jail2 1

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
32273

تعلیم کے حوالے سے غیرجانبدارسرور کے مطابق گلگت بلتستان دوسرے نمبرہے..وزیراعلی

Posted on

گلگت،صوبائی حکومت کے اقدامات کی وجہ سے پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے سروے کرنے والے غیرجانبدار ادارے ”اثر” کے مطابق گلگت بلتستان دوسرے نمبر پر آیا ہے۔ کشمیر پہلے اوراسلام آباد تیسرے نمبر پر ہے اسی طرح پنجاب چوتھے نمبر پر ہے،وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن
.
گلگت(آئی آئی پی) وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت کے اقدامات کی وجہ سے پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے سروے کرنے والے غیرجانبدار ادارے ”اثر” کے مطابق گلگت بلتستان دوسرے نمبر پر آیا ہے۔ کشمیر پہلے اوراسلام آباد تیسرے نمبر پر ہے اسی طرح پنجاب چوتھے نمبر پر ہے۔ گلگت بلتستان کیلئے فخر کی بات ہے کہ غیر جانبدار ادارے کے سروے میں گلگت بلتستان تعلیم کے شعبے میں پورے ملک میں دوسرے نمبر پر ہے۔ محکمہ تعلیم میں قائم کئے جانے والے انڈومنٹ فنڈ سے اس سال 1626 بچوں کو ایک کروڑ 49 لاکھ روپے کے سکالر شپ دیئے جائیں گے۔ قابلیت اور مستحق و نادار طالب علموں کا چناؤ سکالر شپ کیلئے میرٹ پر کیا جائے گا۔وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ ڈپٹی کمشنر، ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن، محکمہ سوشل ویلفیئر اور بی آئی ایس پی کے نمائندے پر مشتمل کمیٹی سکالرشپ کیلئے طالب علموں کا چناؤ کرے گی۔ ان خیالات کا اظہار وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے محکمہ تعلیم کے حوالے سے منعقدہ اجلاس کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے سیکریٹری تعلیم کو ہدایت کی کہ گلگت اور دیامر ریجن میں بھی ‘E’ لرننگ منصوبے کا جلد آغاز کیا جائے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ معیار تعلیم کی بہتری کیلئے صوبائی حکومت نے ماڈل سکولوں کا منصوبہ شرو ع کیا۔ 20 ماڈل سکولوں کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے جس کے انتہائی مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔ آئندہ سال کے اے ڈی پی میں 20 نئے ماڈل سکولوں کے منصوبے کی منظوری دی جائے گی۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ کیڈٹ کالج چلاس کی بلڈنگ کو مئی تک فعال کرنے کیلئے ضروری اقدامات کئے جائیں۔ تمام تعلیمی اداروں میں سوشل ورک ہر صورت لازمی قرار دیا جائے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ صوبے میں پہلی مرتبہ ٹیسٹنگ سروسز اور ایف پی ایس سی کے ذریعے اساتذہ کی بھرتیاں کی ہے جس کے انتہائی مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے سیکریٹری تعلیم کو ہدایت کی ہے کہ محکمے میں موجود تقریبا 700 اساتذہ کے خالی آسامیوں کو ٹیسٹنگ سروس کے ذریعے مشتہر کئے جائیں اورسکیل 1 سے 5 تک کے خالی آسامیوں پر ریکروٹمنٹ کمیٹیوں کے ذریعے تعیناتیاں عمل میں لائی جائیں۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ سب ڈویژن سطح پر بچوں کی سکولوں میں انرولمنٹ کیلئے اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن، علمائے کرام اور سیاسی نمائندوں پر مشتمل کمیٹیوں کے ذریعے کمپئین کا آغاز کیا جائے۔ گزشتہ دو سالوں میں تقریبا 22 ہزار بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کروایا گیا ہے۔
…..
دریں‌اثنا وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے اربن ٹرانسپورٹ اور ٹریفک انفراسٹرکچر کے حوالے سے منعقدہ اجلاس کے موقع پر کمشنر گلگت، ایس ایس پی گلگت، جی ڈی اے اور محکمہ تعمیرات کے متعلقہ آفیسران کو ہدایت کی ہے کہ ٹریفک انفراسٹرکچر کے حوالے سے منظور شدہ منصوبے پر جلد از جلد کام کا آغاز کیا جائے۔ پہلی مرتبہ ٹریفک پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے تقریبا 6کروڑ روپے کے جدید آلات اور مشینری کی خریداری کی جارہی ہے۔ دو ماہ کی مدت میں ٹریفک پولیس کیلئے درکار جدید مشینری اور آلات کی خریداری کا عمل مکمل کیا جائے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ اربن ٹرانسپورٹ کا منصوبہ گلگت کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل منصوبہ ہے۔ اربن ٹرانسپورٹ کے اس اہم منصوبے کو جلد از جلد عملی جامعہ پہنایا جائے۔ گلگت کے شاہراہوں کی ٹریفک انجینئرنگ کیلئے ساڑھے 7 کروڑ روپے فراہم کئے جاچکے ہیں۔ جلد از جلد شاہراہوں کی ٹریفک انجینئرنگ کاکام شروع کیا جائے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ گلگت شہر کیلئے سیوریج کا منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔ سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ کا کام مکمل ہوچکا ہے۔ پہلے مرحلے میں جوٹیال سے سیوریج کو ٹریٹمنٹ پلانٹ سے منسلک کیا جائے گا۔ سیوریج کا منصوبہ مسلم لیگ (ن) کی سابق وفاقی حکومت نے منظور کیا تھا۔ موجودہ وفاقی حکومت نے تاخیر سے ایڈمنسٹریٹیو اپرول جاری کیا۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ صوبے میں اے ڈی پی کے تمام منصوبے مقررہ مد ت سے قبل مکمل ہورہے ہیں جبکہ پی ایس ڈی پی کے منصوبے تاخیر کا شکار ہیں۔ پی ایس ڈی پی کے منصوبوں کے پرنسپل اکاؤٹنگ آفیسر کے اختیارات چیف سیکریٹری گلگت بلتستان کو دینے سے پی ایس ڈی پی کے منصوبے مقررہ مدت میں مکمل ہوسکیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کی سابق وفاقی حکومت نے پی ایس ڈی پی کے منصوبوں کے پرنسپل اکاوٹنگ آفیسرکے اختیارات چیف سیکریٹری گلگت بلتستان کو دینے کی منظوری دی تھی۔ موجودہ وفاقی حکومت نے اس پر عمل نہیں کیا۔ وزیر اعظم سے حالیہ ملاقات میں پی ایس ڈی پی منصوبوں کیلئے پرنسپل اکاؤٹنگ آفیسر کے اختیارات چیف سیکریٹری گلگت بلتستان کو دینے کے حوالے سے بات ہوئی ہے جس پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی ہے۔ امید ہے کہ پی ایس ڈی پی کے منصوبوں کے بروقت تکمیل کیلئے چیف سیکریٹری گلگت بلتستان کو پرنسپل اکاؤٹنگ آفیسر بنایا جائے گا۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کمشنر گلگت اور ڈپٹی کمشنر گلگت کو ہدایت کی ہے کہ تجاویزات کے مکمل خاتمے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ گلگت میں پہلی مرتبہ 9 سے زیادہ پارکس قائم کئے گئے ہیں۔ گلگت ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں پارکس اینڈ ہارٹی کلچر (باغبانی) کا الگ شعبہ قائم کیا جائے گا۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
32185

نوید ِسحر……. ذہنوں میں ذہربھرتاسوشل میڈیا…….ڈاکٹرحمزہ گلگتی

Posted on

سوشل میڈیا کی قباحتوں سے انکار اب کسی کے لئے بھی ممکن نہیں رہا۔مگر اس کے اچھے پہلوؤں کو بھی نظر انداز کرناممکنات میں سے نہیں۔اس کی قباحتوں کے مشاہدات کے بعد اچھی نیت سے منفی پہلوؤں کو اجاگر کرنا اب معاشرے کی ایک کلیدی ضرورت بن گئی ہے۔میرااپناخیال ہے کہ اب یہ ذاتی سے زیادہ اجتماعی اور سماجی مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ بن چکاہے۔ان کے برے پہلوؤں اور نوجوانوں کے وقت اور اخلاقیات کوروندنے والی ذرائع پر آنکھیں بند نہیں کیاجاسکتا۔فائدے۔۔بہت۔۔لامحدود۔۔ناقابلِ بیاں۔۔ البتہ معاشرہ زیادہ تر اس کی قباحتوں کا شکار نظر آرہاہے۔کیا کہا جائے جب نئی نسل غلاظتوں بھرے اذہان اور زبان کیلئے اس کو ایک اہم پلیٹ فارم سمجھنے لگے ہوں؟ کون سمجھائے کہ یہ اختلافات کو ہوا دینے اور(معمولی)بات کے بتنگڑ بنانے کیلئے کب بنایا گیاتھا؟
.
اس سلسلے میں گورنمنٹ سوشل میڈیا رولز بنانے کیلئے اب فعال ہونے لگی ہے، اگرچہ اس پر تنقید بھی کیا جاتا ہے مگر کسی بھی چیز کو ایک حد تک رکھنا اور اس سلسلے میں قومی مفادات کا خیال رکھنا حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری ہے۔اس لئے ان رولز کے بھی مثبت اور منفی پہلوؤں ہونگے مگر ملکی مفاد میں اگر یہ ناگزیر ہے تو اس کڑوے گھونٹ کو پینے میں کوئی امر مانع نہیں۔ مگر سوال یہ کہ۔۔ کیا ایسے رولز بنانے سے۔۔صرف ایسے رولز بنانے سے۔۔اس کی حماقتی استعمال سے بچا جانا ممکن ہے؟کیا وہ قوانین عملی طور پر نافذ بھی ہونگے؟ کسی خاص مفاد کیلئے استعمال نہ ہونے کی کیا گارنٹی دی جاسکتی ہے؟ ان سوالات کا جواب کسی اور موقع پر۔۔۔
.
کیا یہ نہیں معلوم کہ اس سوشل میڈیاکا مثبت استعمال معاشرے میں اچھائی کے در آنے کا ذریعہ بن سکتا ہے؟ ہم میں اس کے برے پہلوؤں کا اثر کچھ زیادہ ہی سرایت کرچکا ہے بنسبت اچھے پہلوؤں کے۔ اس بات کا رونا پہلے ہی ہمارے بڑے رو چکے ہیں کہ یہ آج وقت کے ضیاع کا ایک گھناؤنا ذریعہ بنا ہے، اس نے خودنمائی کا زہر ذہنوں میں بھردیاہے، ناچاقی ونااتفاقی کے زہر کاپیالہ معاشرے میں انڈیل دیاہے، اجازت کے بغیردوسروں کی پرائیویٹ چیزوں کو مشتہر کرنے کاوسیلہ بناہے وغیرہ۔مگر ان سب کے علاوہ میری نظر میں اس کی سب سے بڑی گندگی جانے انجانے میں گند اور خرافات کومعاشرے کے چہرے پر ملنا،اور اپنی ذاتی پرائیویسی سے بے خبر رہ کر اپنے رازرکھنے والی معاملات یا چیزوں کو پبلک کرنابھی ہے۔ہمارے پڑھے لکھے نوجوان اور دوسرے احباب،جو صرف وقت گزاری کے لئے اس کا استعمال کرتے ہیں،(خاص طور پر فیس بک)ان کو معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی ایک غلطی سے انکی پرائیویٹ چیزیں پبلک ہوسکتی ہیں۔آنجانے میں وہ ایسے عمل کا شکار ہوکر معاشرے میں لعن طعن کا نشانہ بنتے ہیں۔ہمارا معاشرہ ابھی اس حد تک جدت اختیار نہیں کرچکا کہ ہم ذاتی فعل کہہ کر چیزوں کو نظر انداز کرسکیں۔مغرب تو اس میں کمال کو پہنچا ہے کہ وہاں ایسے معاملات میں کوئی دخیل ہوتا اور نہ ہی کوئی ٹانگ اڑاتا، مگر پھر بھی وہ ایسی چیزیں سوشل میڈیا کے ذریعے پرائیویٹ کبھی نہیں کرتے۔ بلکہ یوں کہئیے کہ وہ تو فیس بک کو بھی افیشلی یوز کرتے ہیں، غیر ضروری چیزوں سے جتناہوسکے پرہیز کرتے ہیں،مگر ہمارے ہاں گنگا الٹی بہتی ہے،یہی ذہنوں میں ڈالا گیا ہے کہ فیس بک تو انٹرٹینمنٹ۔۔صرف انٹرٹینمنٹ۔۔کیلئے ہے اس سے کوئی مثبت کام لیا جانا ممکن ہی نہیں۔
.
ایک اچھے پڑھے لکھے دوست،سے ایک عرصہ پہلے اس طرح کی غلطی میں نے نوٹ کی تھی۔مجھے اس کی یہ جسارت حیرت میں مبتلا کرکے رکھا اورر تعجب کے مارے میں اپنی جگہ بت بنے کھڑا رہا البتہ اگلے ہی لمحے مجھے خیال آیا کہ وہ ایسی حماقت کا مرتکب جان کر نہیں ہوسکتا۔ فوراً ان سے رابطہ کیا تو واقعی اس کو پتہ نہیں تھا اورلاعلمی کے اظہار کے ساتھ شرمندگی اورمعذرت بھی کررہاتھا۔وہ انجانے میں، غیرارادی طور پر اس فعل کے ہاتھوں ایسے نازیبا تصویرپبلک کرکے رسوا ہوچکاتھا۔
.
آج پھر دوران سفر بیٹھے کسی کام میں لگاتھا توایسی قبیح چیز پر نظر پڑی جسکا ہماری اسلامی تہذیب اور علاقائی روایات سے کوئی تعلق نہیں۔گوشہئ ذہن میں خیال آیاکہ ہم کس پگڈنڈی پر نکل پڑے ہیں کہ نہ اپنے تہذیب کا ہمیں علم اورخیال ہے اور نہ ہی ورثے میں ملیں روایات کا پتہ۔مجھے نہیں معلوم کی جان بوجھ کر کیسے، ایسی قبیح کاموں کا ہم ارتکاب کرسکتے ہیں۔اگر پرائیویٹلی ایسے کام کرے تو ہم جانے ہمارا رب، مگر ایسی چیزوں کو پبلکلی کرنا ایک بڑی جسارت ہے جو کسی طور مناسب ہے اور نہ ہی اسلامی اور علاقائی روایات سے یہ میل کھاتاہے۔اس تباہی کا ذکر کیسے نہ ہو، جس سے نوجوان متاثر ہورہے ہیں اور ان کا اخلاق برباد ہورہا ہے، ایسے نوجوان لڑکیوں کیساتھ ویڈیو چیٹ اپلوڈ کرنا، نہ صرف اپ لوڈ کرنا بلکہ ان کو بار بار شیر کرنا۔شیر کرنے سے یہ ایک چین بن جاتا ہے اور لاکھوں لوگوں کی نظر نہ چاہتے ہوئے بھی ان پر پڑتی ہیں۔ ان بچیوں کا کام پیسے کمانا ہوتا ہے یا کچھ اور مجھے نہیں معلوم مگر اپنی نیم برہنہ جسم کیساتھ ویڈیو چیٹ آن ائیر کرتے ہوئے ان کو شرمندگی کا احساس نہ ہوتا ہوگا۔اس دوران قبیح انداز سے وہ ایسی حرکتیں بھی کر رہی ہوتیں ہیں کہ بات کرنے اور دیکھنے والوں کی جنسی خواہشات کو ابھارا جاسکے۔ایسے میں اس طرح کی برائیوں کے تدارک کے لئے اداروں کو اپنے حصے کی ذمہ داریوں سے کما حقہ عہدہ برآ ہونا چاہیے۔ ورنہ نوجوان نسل اپنا قیمتی وقت ان خرافات میں گزار کر بانجھ بن جائے گی۔ اور قوت تخلیق بھی کھودے گی اگرچہ روایات تو کب کے کھوئے گئے ہیں۔
social media logos26

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
32155

آہ! مولانا ایازصدیقی ……… تحریر: امیرجان حقانی گلگت

گلگت بلتستان کے علمی، تبلیغی، سماجی، سرکاری اور دینی حلقوں میں یہ خبر غم و افسوس کیساتھ سنی جائے گی کہ ضلع دیامر چلاس کے معروف عالم دین مولانا ایاز صدیقی 13فروری 2020 کو انتقال کرگئے۔کافی دنوں سے سوشل میڈیا میں مولانا ایاز صدیقی کی علالت کی خبرگردش کررہی تھی۔ مولانا علاج کی خاطر اسلام آباد گئے تو بالآخر منشائے الہی سے اس دنیا کو سدھار گئے جہاں ہم سب نے جانا ہے۔مولانا کی تدفین بروزجمع چلاس میں کی گئی جہاں ہزاروں لوگوں نے نماز جنازہ میں شرکت کی۔ اناللہ واناالیہ راجعون
.
مولانا ایاز صدیقی کی عمر ساٹھ سال سے زائد تھی۔ شناختی کارڈ کے مطابق یکم جنوری 1958کو مولانا ایاز نے لومر نیاٹ میں مولوی عبداللہ مرحوم کے گھرانے میں آنکھ کھولی۔مولانا ایا صدیقی کا پورا گھرانہ دینی تھا۔آپ کے والد مولوی عبداللہ درس نظامی کے استاد تھے۔ مولانا نصیرالدین غورغشتوی رحمة اللہ سے دینی علوم کی تکمیل تھی۔ مولانا ایا ز نے نظم و فقہ اور صرف و نحو کی ابتدائی کتابیں اپنے والد گرامی سے پڑھی تھی۔مولوی عبداللہ نیاٹ لومر میں مسجد کے پیش امام تھے اور اسی مسجد میں درس نظامی کی ابتدائی کتب کی تدریس فرمایا کرتے تھے اور اپنی گھریلوی ضروریات کی تکمیل کے لیے کاشت کاری کرتے۔مولانا ایازصدیقی کا خاندانی پس منظر ملاخیل بھکڑکوہستان سے ہے لیکن مولوی عبداللہ بچپن میں نیاٹ میں آکر بسے تھے اور وہی کے ہوکر رہ گئے۔
.
یہ 1992کی بات ہے۔میں دوسری کلاس کا طالب علم تھا۔ اپنے تایا جان سپرنڈنڈنٹ عذر خان کے پاس پڑھنے چلاس گیا۔پہلا جمع پڑھنے کے لیے مرکزی جامع مسجد مدنی چلاس گیا تو ایک نوجوان عالم دین انتہائی وجہیہ چہرے کیساتھ ممبر رسول پر براجمان تھے اور وعظ و نصائح کا انبار لگارہے تھے۔پہلی تقریر کا کوئی مفہوم تو ذہن میں نہیں لیکن مولانا ایاز صدیقی کا نام اور چہرہ تب سے دماغ کے کسی کونے میں محفوظ ہوگیا تھا۔پھر اٹھویں جماعت تک چلاس میں دوران تعلیم مولانا ایاز صدیقی کے خطبات سنتا رہا ۔جمع ہو یا عیدین ، تبلیغی اجتماع یا کسی فوتگی کی مجلس۔ ہر جگہ مولانا ایاز پہنچتے اور خطبہ ارشاد کرتے۔
.
یہ 2015 کی بات ہے۔ سرکار نے مجھے ڈسٹرب کرنے کے لیے چلاس ٹرانسفر کردیا اور میں نے اس ٹرانسفری کو انجوائی کرنے کا پروگرام بنالیا ۔بہت سی ایکٹویٹیر پیدا کرلی۔ ایک کام میری تحقیقی کتاب ” مشاہیر علما ئے گلگت بلتستان” کی تکمیل بھی تھا۔بہت سال پہلے اس پروجیکٹ پر کام شروع کیا تھا۔اب تک پچاس کے قریب جید علماء کرام پر کام ہوچکا ہے۔ مولانا ایاز صدیقی بھی میری فہرست میں شامل تھے۔ ایک دن مولانا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مولانا سے پہلے ہی سے تعارف تھا۔ مختلف دینی مجالس اور مدارس میں ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ تھا۔ مولانا جامعہ نصرة الاسلام میں میرے پاس کئی دفعہ تشریف بھی لاچکے تھے۔ مولانا کی خدمت میں کتاب کے لیے انٹرویو کی گزارش کی تو کمال محبت سے مولانا نے ٹائم دیا اور دو دن بعد رات اپنے دولت کدے میں مدعو کیا۔مولانا نے ایک پرتکلف دعوت کا اہتمام بھی کیا یوں 15اکتوبر 2015ء کو ان سے تین گھنٹے پر مشتمل ایک طویل انٹرویو کیا۔مولانا کے گھر میں دینی وادبی کتب کا ایک بڑا ذخیرہ تھابہت ساری کتابیں الٹ پلٹ کے دیکھی۔آج بھی وہ منظر اور محفل بھولے نہیں بھولتی۔ آج مولانا کے انتقال کے بعد خیال آیا کہ اس انٹرویو کا خلاصہ آپ کیساتھ بھی شیئر کروں تاکہ مرنے والے کی محبتوں کا اعتراف ہوسکے۔
مولانا ایازصدیقی کے چھ بھائی ہیں اور بہن کوئی نہیں۔ ان کی خاندان کے لوگ آج کل سوات میں آباد ہیں مگر ان کے والد نے یہاں شادی کی اور یہی پر مکمل سکونت اختیار کی تھی۔مولاناایازصدیقی مرحوم کی والدہ ماجدہ کا تعلق یشکن قبیلے سے تھا۔اپنے والد سے بالکل ابتدائی کتب مکمل کرنے کے بعد اپنے بڑے بھائی مولوی سیف الملوک کیساتھ مزید تعلیم کے لیے داریل گئے۔ناظرہ قران کی تکمیل بھی بھائی سے کیا۔پرائمری اسکول داریل سے پانچویں پاس کی جہاں انہیں استاد شیر محمد سے پڑھنے کا موقع ملا ۔اور 1971کو ہائی اسکول گلگت سے مڈل پاس کیا۔مولانا ایاز نے استاد غلام دستگیر سے پرائیوٹ مڈل کلاس کی کتابیں پڑھی اور امتحان دیا۔ دینی علوم کیساتھ عصری علوم کا شوق انہیں بچپن سے تھا۔ اس لیے عصرِ حاضر کی ضروریات کو مولانا اچھی طرح سمجھتے تھے۔
.
یہ1971 کی بات ہے۔ مولانا ایاز صدیقی تبلیغی مرکز کشروٹ میں رہائش پذیر تھے۔مڈل کلاس کی کتابوں کے ساتھ مرکزی جامع مسجد گلگت میں دارالعلوم دیوبند کے فاضل مولانا عبدالرزاق گلگتی المعروف گلمتی استاد سے درس لیا کرتے تھے۔کافیہ یہی قاضی صاحب سے پڑھا اور سورة ق سے آخر تک قاضی عبدالرزاق سے نحوی اجراء و ترکیب کی۔میراث میں سراجی اور نظم مثنوی بھی حضرت قاضی مرحوم سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔مولانا حبیب اللہ مرحوم فاضل دیوبند سے سورة بقرہ کا ترجمہ پڑھا۔محمدی مسجد کشروٹ میں مولانا لقمان حکیم مدظلہ سے ترجمہ قرآن کی تکمیل کی ۔کچھ ایام گلاپور میں مولانا عبداالحئی سے بھی کسب فیض کیا۔یہ تین سال کا عرصہ گزار کر مزید تعلیم کے لیے 1974ء کو کوہستان جل کوٹ تشریف لے گئے جہاں کوہستان کے معروف عالم دین اور قاضی ،جناب قاضی فرقان سے فقہ میں شرح وقایہ اور صرف میں صرف میر کا مکمل اجراء کیا۔1974کے آخر میں مزید تعلیم کے لیے گلگت بلتستان کے معروف مبلغ مولانا عیسیٰ خان صاحب کی معیت میں ملک کی معروف دینی درسگاہ جامعہ دارالعلوم تعلیم القرآن پنج پیر گئے جہاں شیخ القرآن مولانا طاہر پنج پیری مرحوم سے دورہ تفسیر کیا۔ شیخ القرآن طاہر پنج پیری کا قرآن کیساتھ عشق تھا،والہانہ عقیدت تھی۔پنج پیر اپنے عہد کے یگانہ فاضل،زہدو ورع کا مجسم،فضل و کمال کا مجسمہ دنیائے قرآن کا ایک بڑا نام تھا۔علوم دینیہ کیساتھ علوم قرآن کا واقف رموز اورفہم قرآن کا دانائے اسرار تھا۔اسی عشق و عقیدت اور قرآن سے محبت نے، مولانا ایاز کو اتنا کھینچا کہ چھ سال مسلسل ان کے پاس دورہ تفسیرالقرآن کے اسباق لیے۔مولانا ایاز صدیقی کو قرآن کریم سے سخت لگاو ہوا تو قرآنی علوم میں مزید پختگی کے لیے مسلسل چار دفعہ جامعہ تعلیم القرآن راولپنڈی میں شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیے اورقرآنی برکات سمیٹتے رہے۔مولانا غلام اللہ خان صاحب اسلوب مفسر ہیں۔تفسیر اور فہم قرآن میں ان کا اپنا نام و مقام ہے جو مسلم ہے۔ اتنے عظیم استادوں سے رموز قرآن سیکھنے کے باجود بھی ان کا دل نہیں بھرا۔سچ یہ ہے کہ قرآن ایک ایسا خزانہ ہے جس سے جتنی موتیاں اور ہیرے نکال لیے جائیں، مزید علمی موتیوں کی تلاش کی لگن بڑھ جاتی ہے اور پیاس بجھائی نہیں بجتی۔اس پیاس نے اتنا مجبور کیا کہ شیخ القرآن غلام اللہ خان نوراللہ مرقدہ کی وفات کے بعدقرآن کے لعل و گہر کے حصول کے لیے شیخ القرآن مولانا عبدالسلام رستمی کی درگاہ قرآن میں پہنچے ۔اور تین دفعہ ان کے تفسیری دوروں سے اپنے دامن کو لعل و گہر سے بھردیا۔ مدرسہ اشاعت التوحید والسنہ میں مختصرالمعانی مولانا عبدالباقی رستمی، ھدایہ مکمل مولانا عبدالسلام رستمی،جلالین مولانا احسان الحق رستمی سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔کچھ عرصہ سوات میں بھی زیر تعلیم رہے۔دارالعلوم سیدو (گورنمنٹ والی) میں شرح جامی وغیرہ مولانا رحیم اللہ اور مولانا زرداد صاحب سے پڑھا۔۔ مولانا عبدالہادی اور مولانا عیسیٰ خان سے کنزآخر کی تکمیل کی۔کھنر چلاس میں کچھ عرصہ مولانا حق داد سے منطق پڑھی۔چلاس کے معروف عالم دین مولانا عبدالروف چلاسی فاضل دارالعلوم دیوبند سے کنزالدقائق کے کچھ حصے اور ترجمہ قرآن پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔بالآخر 1978کو جامعہ خیرالمدارس ملتان سے سند فراغت حاصل کی۔مولانا ایاز صدیقی کو مولانا محمد شریف کاشمیری سے بخاری شریف اور ترمذی، مولانا مفتی صدیق سے بخاری کی کتاب التفسیر،مولانا شریف جالندھری سے شمائل ترمذی پڑھنے کی عظیم سعادت حاصل ہوئی اور قاسم العلوم میں مفتی محمود سے مسلم شریف اور ترمذی کے کچھ ابواب بھی پڑھ لیے۔مولانا عبدالستار تونسوی سے ملتان میں علمِ مناظرہ پڑھا۔اور مولانا صدیق دیوبندی سے سوات زرخیل میں چار ماہ کا دورة اللغة العربیہ کیااور علم میراث کے اہم مسائل بھی حل کرلیے۔علم منطق و فلسفہ کی تمام اہم کتب کوہستان کے سب سے بڑے فلسفی مولانا عبدالحلیم کوہستانی سے پڑھا۔کچھ عرصہ کراچی میں بھی تعلیم حاصل کی۔کراچی کے تبلیغی مرکز میں 1972کو شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمہ اللہ سے دو احادیث پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔مدرسہ ربانیہ ناظم آباد میں مولانا نورالہدیٰ اور جامعہ فاروقیہ کراچی میں شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان سے کافیہ آخر دوبارہ پڑھا۔ حضرت شیخ کیساتھ مری کا سفر بھی کیا اور ایک پورا مہینہ ان کی خدمت کی۔استاد محترم سلیم اللہ خان نوراللہ مرقدہ سے شرف تلمذ ہونے کی وجہ سے مولانا ایاز صاحب مرحوم میرے بھی استاد بھائی ٹھہرے ، اگر چہ مولانا مرحوم میرے اساتذہ سے بھی سینئر عالم دین تھے۔مولانا نے بتایا تھا کہ انہوں نے مسلسل 21سال دینی علوم و فنون کی تکمیل میں صرف کیے۔
.
مولانا ایاز صدیقی نے اپنے کیئریر کا آغاز اوگی میں دارالعلوم سعیدیہ سے کیا۔1981ء کو جامعہ دارالعلوم تعلیم القرآن راولپنڈی میںمدرس مقرر ہوئے۔ 1982 کو مدرسہ تعلیم القرآن سوات میں پڑھانا شروع کیا دو سال یہی پڑھایا۔فراغت اور تدریس کے شعبے سے منسلک ہونے کے بعد بھی مختلف جگہوں میں جاکر تحصیل علوم و فنون کرتے رہے ، بالآخر 1987ء کو چلاس آئے جہاں جامع مسجد مدنی کی تعمیرات کا آغاز ہوچکا تھا۔مولانا کی نگرانی میں مسجد کا کام ہوتا رہا۔تین سال جامع مسجد میں خدمات کے بعد فاضل دیوبندمولانا عبدالروف اور ایس پی امیرحمزہ نے جمع پڑھانے کا حکم دیا۔1990کو مرکزی جامع مسجد مدنی چلاس میں پہلا جمع پڑھا۔اور درس قرآن کا آغاز کیا۔ چار دفعہ شروع سے آخر تک مسجد میں درس قرآن کی تکمیل کی، یوں عامة الناس کی ایک بڑی تعداد آپ کے حلقہِ تلمذ میں شامل ہوئی۔مسلسل 33سال جامع مسجد مدنی چلاس میں وعظ و اصلاح فرماتے رہے۔جامع مسجد چلاس کے تہہ خانے میں درس نظامی کے طلبہ کو چار سال پڑھایا۔چلاسی بابا کی دارالعلوم عروة الوثقی میں علم میراث پڑھایا۔1990کو دعوت تبلیغ کے سفر میں نکلے۔سوڈان، مصر، میں سال کا تبلیغی سفر ہوا۔ 1996کو سات ماہ کی جماعت کیساتھ یمن اور قطر کا سفر کیا۔ 1997 کو ماسکو، ڈنمارک، جرمن اور سویڈن میں خصوصی جماعت کے ساتھ تشریف لے گئے۔یہ چار اشخاص پر مشتمل رائے ونڈ کے بزرگوں کی ایک جماعت تھی جن میں آپ کے رفقاء میں ڈاکٹر حق نواز، ڈاکٹر منظور احمد امیر تبلیغی جماعت مظفر آباد اور پنڈی کے بزرگ بابر جاوید شامل تھے۔
مولانا ایاز صدیقی کی تعلیم و تبلیغ کے لیے بے انتہا خدمات ہیں۔ 1988میں مدرسہ خدیجة الکبریٰ کے نام سے چلاس شہر میں خواتین کا تعلیمی ادارہ رجسٹرڈ کروایا۔اور چلاس شہر میں لڑکیوں کی تعلیم کا آغاز کیا۔شاید یہ دیامر میں خواتین کی تعلیم کا پہلا رجسٹرڈ ادارہ ہے۔جب ان سے پوچھا کہ اب ادارے کی کیا پوزیشن ہے تو کہا ”کہ اس وقت(2015) 170 غیر رہائشی طالبات مدرسہ میں پڑھ رہی ہیں۔وفاق المدارس العربیہ کے تمام درجات کی تعلیم دی جاتی ہے”۔اس کے علاوہ مولانا کے گھر میں ناظرہ قرآن اور ترجمہ قرآن کا الگ انتظام تھا۔اپنے ہی مدرسہ میں مولانا نے درس نظامی کی تمام کتب بار بار پڑھائی اور ایک طویل عرصہ احادیث کی کتب پڑھائی۔یوں لاکھوں مردوں کے ساتھ ہزاروں خواتین کا بھی استاد ٹھہرے۔
مولانا ایاز صدیقی تصوف و طریقت اور اصلاح احوال کے آدمی تھے۔معروف روحانی شخصیت ختم نبوت کے امیرمرکزیہ مولانا خواجہ خان محمد مرحوم سے اصلاحی تعلق قائم کیا۔ ہرسال رمضان المبارک میں دس دن حضرت کی خانقاہ میں گزارتے اورکسب فیض کرتے۔ خواجہ خان محمد نوراللہ مرقدہ کی طرف سے انہیں خلافت بھی عطاء کی گئی تھی۔مولانا ایاز صدیقی نے مولانا عنایت اللہ شاہ بخاری، مولانا قاضی شمش الدین اور مولانا عبدالحق سے بھی روحانی تربیت حاصل کی تھی۔مولانا عمر پالن پوری، قاری محمد طیب ، مولانا یوسف بنوری اور مفتی شفیع عثمانی سے بھی مختلف اوقات علمی اور روحانی مجالس میں استفادہ کرتے رہے۔
میرے استسفار پر بتایا کہ ”حیاة الصحابہ، جواہرالقرآن، معارف القران لشفیع پسندیدہ کتب میں شامل ہیں۔جواہرالقرآن اور معارف قرآن سے اپنا درس قران تیار کرلیتا ہوں”۔مثنوی کے بہت سارے اشعار مولانا ایاز صدیقی کو زبانی یاد تھے۔ اپنے دروس ، تقاریر اور عام گفتگو میں خوب استعمال کرتے۔مولانا ایاز نے بتایا کہ” تمام دینی تحریکات سے محبت ہے لیکن عملی طور پر ساری عمر تبلیغی جماعت سے جڑا رہا۔ اور جہاں جہاں دینی تحریکات کو ضرورت پڑی حاضر ہوا”۔مولانا میرغیاث، مولانا شیرافضل، مولانا افسر، مولانا فضل الرحمان،مولانا گل مس اورمولوی نذیر بھی مولانا ایاز صدیقی کے استاد رہے۔
.
مولانا ایاز صدیقی نے دو شادیاں کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے دس بیٹے اور دس بیٹیاں عنایت کی۔مولانا کی چھ بیٹیاں درس نظامی کی تکمیل کرچکی ہیں۔او ر دو نے حفظ قرآن بھی کیا۔باقی چھوٹی بیٹیاں پڑھ رہی ہیں۔اور بیٹے بھی دینی علوم سے بہرہ ور ہورہے ہیں۔ بڑے بیٹے کا نام مولانا حسین احمد مدنی ہے جو عالم دین ہیں۔
میں جب تک چلاس میں رہا مولانا سے گاہے بگاہے ملاقات ہوتی رہتی۔مولانا گلگت تشریف لاتے تو بھی ملاقات ہوتی۔ مولانا مرحوم سے آخری ملاقات اس سال حرمین شریفین میں ہوئی جہاں مولانا فریضہ حج ادا کرنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ اللہ نے انہیں کئی بار حرم میں بلایاتھا۔حرم میں جیسے ہی ملاقات ہوئی تومولانا نے عربی میں بات چیت شروع کیا۔یقین جانیں! مولانا ایاز صاحب کمال کی عربی بولتے تھے۔ ان کی عام گفتگو بھی عربی اور فارسی کے اشعار سے مملوء ہوتی۔شینا گفتگو میں بھی ردیف و قافیہ خوب استعمال کرتے۔کلام میں چاشنی پیدا کرنا اور حس مزاح بڑھانے میں کوئی ان کا ثانی نہیں تھا۔کچھ عرصہ سے مولانا کوشدید بخار ہونے لگا۔چلاس میں مرض تشخیص نہیں ہوا تومولانا علاج واسطے اسلام آباد چلے گے جہاں جگر پر کینسر تشخیص کی گئی۔جب مولانا کی علالت کا سنا تو دل مسوس ہوا لیکن انسان دعا کے علاوہ کیا کرسکتا ہے۔ڈاکٹر نے دوا کے ساتھ کیمو تھراپی لازمی قرار دیا تھا اسی کے دوران مولانا اللہ کو پیارے ہوگئے اورراولپنڈی میں انتقال ہوا۔ ان کی میت چلاس لائی گئی ۔ہزاروں لوگوں کا جنازہ پڑھانے والے مولانا ایاز صدیقی کی نماز جنازہ چلاس عیدگاہ میں ان کے بڑے بیٹے نے پڑھائی جہاں ہزاروں لوگ شامل ہوئے۔بلاشبہ مولانا ایاز صدیقی کا جنازہ چلاس کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔ مولانا ہر قبیلہ اور مکتب فکر کے لیے قابل قبول تھے۔ کیا عوام ، کیا طلبہ اور کیا علمائ، غرض سرکار سمیت ہر ایک مولانا سے محبت کرتا کیونکہ مولانا سب سے محبت کرتے تھے۔صحیح معنوں میں مرجع خلائق تھے۔مولانا شرافت کا نمونہ تھے۔بہت سے کمالات کا مجموعہ تھے۔اخلاص اور حسن عقیدت کے پیکرتھے۔حسن عقیدت و اخلاق کے اس پیکر کو کینسر جیسی موذی مرض نے آلیا۔مولانا اس مصیبت کو جھیلتے رہے لیکن بے صبری کی آہ اور تکلیف کی کراہ کبھی ان سے نہیں سنی گئی۔صبر و شکر کا دامن چھوٹنے نہیں دیا۔دیکھنے والوں نے مولانا کی علالت کی حالت دیکھی تو آنسو بھر لائے۔پھر ان کے انتقال پر ہر ایک نے نوحہ کیا۔کیا اپنے کیا غیر سب نے مولانا کی عافیت کے لیے دعائیں کی لیکن رب العالمین نے انہیں اپنے ہاں بلالیا۔سچ یہ ہے کہ مرنے والے کا مدفن تو زمین کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے۔مگرمولانا ایاز کا مزار تو ان کے چاہنے والوں کا دل ہے۔بڑی دیر تک وہ ان کے دلوں میں رہیں گے۔مرنے والے مرجاتے ہیں لیکن چاہنے والے دعاوں سے عرش الہی ہلا دیتے ہیں۔مولانا شوق سے جائیے، لاکھوں کی دعائیں آپ کیساتھ ہیں۔ اللہ تعالی کی رحمتیں آپ کا منتظر ہیں اور رحمت الہٰی تیرے لیے چشم براہ ہے۔حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
32096

گلگت : پروفیسروں کا ایک بھی مسئلہ حل نہ ہونا افسوسناک ہے…..پروفیسرایسوسی ایشن

Posted on

گلگت(چترال ٹائمزرپورٹ) گلگت بلتستان پروفیسر ایسوسی ایشن کے صدر ارشاد احمد شاہ نے کہا ہے کہ وزیراعلی، وزیر قانون اور سیکریٹروں کا متفقہ وعدہ اور معاہدہ کے باجود پروفیسروں کا ایک بھی مسئلہ حل نہ ہونا افسوسناک ہے۔گزشتہ کئی سالوں سے پروفیسر ایسوسی ایشن چیف سیکریٹری، سیکریٹری تعلیم سمیت متعلقہ اداروں کو تحریری طور پر بار بار گزارش کررہی ہے کہ پروفیسروں کے جائز اور بنیادی مطالبات حل کریں لیکن کسی نے کان نہیں دھرے۔ کابینہ کی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے انھوں‌نے کہا کہ نومبر 2019 کو ایسوسی ایشن نے مجبورا ہڑتال کی کال دی جس میں ٹوکن اسٹرائک کے بعد پورے جی بی کے کالجز میں تدریسی عمل معطل ہوا،وزیراعلی گلگت بلتستان نے پروفیسروں کے وفد کو ملاقات کے لیے مدعو کیا۔وزیراعلی کیساتھ وزیرقانون،سیکریٹری ثناء اللہ، ٹیچر ایسوسی ایشن کے صدر شاہد حسین اور ایجوکیشن ڈائریکٹریٹ کے چار ڈپٹی ڈائریکٹرز بھی موجود تھے۔ پروفیسروں اور وزیراعلی صاحب کے درمیان طویل بات چیت ہوئی۔وزیراعلی نے ہائرٹائم سیکیل اور سروس اسٹرکچر کی فوری منظوری کا وعدہ کیا اور دیگر مطالبات کے حل کے لیے وفاق سمیت ہر فورم پر کوشش کرنے کی یقین دھانی کروائی۔وزیرقانون اورنگزیب کی سربراہی میں ان مطالبات کے فوری حل کے لیے کمیٹی تشکیل دینا طے ہوا۔سیکریٹری ثناء اللہ اور ٹیچر ایسوسی ایشن کے صدر شاہد حسین نے گارنٹی دی۔ مگر تین مہینے گزرنے کے باوجود بھی پروفیسروں کا ایک بھی مطالبہ حل نہ ہوسکا۔ بیوروکریسی نے وزیراعلیٰ کی ڈائریکشن کو پس و پشت ڈالا۔ ٹائم سکیل کی فائل تین ماہ سے تین سیکریٹریوں کے درمیان فٹ بال بنی ہوئی ہے۔جو انتہائی قابل مذمت اور افسوسناک ہے۔
.
باخبر ذرائع کے مطابق وزیراعلی نے سیکریٹریوں کو تنبیہ بھی کی ہے کہ دوبارہ پروفیسروں کی شکایت نہیں آنی چاہیے لیکن بیورکریسی نے تنبیہ کو بھی خاطر میں نہیں لایا اور ہائرٹائم سکیل پروموشن کی فائل کو دبائے رکھا۔مردوہ معاشروں اور ناکام نظام حکومتوں میں استادوں کے لیے ایسی رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں۔ زندہ معاشرے اور قومیں، اپنے معماران قوم کے ساتھ ایسا نہیں کرتیں۔ارشاد احمد نے مزید کہا کہ کالجز کے فیکلٹی ممبران میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔بہت جلد سخت قسم کا لائحہ عمل اور جداگانہ طرِز کوشش شروع کرنے والے ہیں۔اب وہ اپنے مطالبات کے لیے کسی کی نہیں سنیں گے بلکہ خود میدان میں آئیں گے تب ان کو روکنا ایسوسی ایشن سمیت کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔یقینا ان کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا جائے گاتو وہ مشتعل ہونگے جس کی تمام ترذمہ داری انتظامیہ اور بیوروکریسی پر ہوگی۔صدر نے یہ بھی کہا کہ بروز پیر 17فروری کو پروفیسر ایسوسی ایشن گھڑی باغ سے وزیراعلی ہاوس تک احتجاجی ریلی نکالے گی جس میں پروفیسرپلے کارڈ تھامے ہونگے اور وزیراعلی ہاوس کے سامنے سینئر پروفیسر خطاب کریں گے اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے۔صدر ارشاد احمد نے مزید کہا کہ پروفیسرایسوسی ایشن اپنے مطالبات کے حوالے سے سول سوسائٹی، صحافی براداری اور سوشل ایکٹوسٹ باخبر کرکے انہیں بھی ایکٹیو کرے گی اور اپنی محروموں کے ازالے کے لیے معاونت کی درخواست کرے گی۔صحافی براداری اور تمام اخبارات نے ہمیشہ سے پروفیسروں کے مطالبات اور مسائل کو اعلی حکام تک پہنچایا ہے جس پر پوری برادری ان کا ممنون و مشکور ہے۔وزیراعلی، وزیرتعلیم اور بیوروکریسی نے کالجز اور ان کے اساتذہ کو مسلسل محروم اور نظرانداز کیا ہوا ہے۔اس کی کیا وجوہات ہیں سمجھ سے بالا تر ہیں لیکن یہ طرز عمل انتہائی مایوس کن، غیرذمہ دارانہ اور سوتیلی ماں والا ہے جو قابل مذمت ہے۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
31896

فیس بک نے کم عمر بچوں کی آن لائنس سیفٹی کے حوالےوالدین کیلئے ضروری معلومات جاری کردیں

Posted on

کراچی (چترال ٹائمزرپورٹ ) فیس بک اپنا پلیٹ فارم استعمال کرنے والے والدین اور انکے بچوں کے درمیان اہم گفتگو کی آن لائن حفاظت کے موضوع پر گفتگو کے لئے اہم تجاویز سامنے لایا ہے۔ والدین کے لئے اچھی بات یہ ہے کہ اپنے کم عمر بچوں کے لئے ڈیوائس کے استعمال کا وقت متعین کیا جاسکتا ہے کہ انکے بچے فیس بک پر کتنا وقت استعمال کرسکتے ہیں کیونکہ اسکے ذریعے بہت ساری اچھی تفریحی سرگرمیاں ہوتی ہیں اور اسپورٹس، میوزک اور گیمز وغیرہ بچوں کی ذہنی نشونما کے لئے بھی ضروری ہیں۔

طے شدہ وقت گزارنے پر رضامندی کے باوجود آپ کو بدستور یقین ہوتا ہے کہ یہاں وقت اچھا گزرتا ہے اور دیکھا جانے والا مواد دلچسپ ، معلوماتی اور محفوظ ہے ۔ فیس بک پر والدین کے پورٹل سے اپنے ٹین ایج بچوں کی آن لائن سیفٹی یقینی بنانے کے لئے اس لنک (https://www.facebook.com/safety/parents/tips) سے رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔

یہاں کچھ اقدامات میں اپنے ٹین ایج بچوں سے آن لائن استعمال کے موضوع پر مثبت انداز سے گفتگو یقینی بناسکتے ہیں اور یہ عمل آپ کیلئے معاون ہوسکتا ہے۔

ابتدا سے آغاز: کم عمر بچے آن لائن دنیا میں بڑے ہورہے ہیں۔ وقت نکال کر انہیں ابتدائی عمر سے ہی پرائیویسی اور حفاظتی طریقوں کے بارے میں آگاہ کریں تاکہ انہیں معلوم ہو کہ وہ کب محفوظ ہیں اور کب محفوظ نہیں رہے ۔

حفاظتی کنٹرول پر گرفت رکھیں: ٹین ایج بچے فطری طور پر ُپر تجسس ہوتے ہیں ،اور جیسے جیسے وہ بڑے ہوتے ہیں، وہ مختلف چیزیں تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں۔ فونز، ٹیبلٹس اور لیپ ٹاپس کے ساتھ براڈ بینڈ کنکشن پر بھی والدین کنٹرول حاصل کرسکتے ہیں۔ والدین نہ صرف مواد کو بلاک یا فلٹر کرسکتے ہیں بلکہ یہ بھی کنٹرول کرسکتے ہیں کہ کتنا زیادہ وقت آن لائن دنیا میں گزارا جاتا ہے ۔

حد متعین کریں: ٹین ایج بچوں کو جاننے کا موقع دیں کہ وہ ویب سائٹس، ایپلی کیشنز اور آن لائن سرگرمیوں پر وقت صرف کرسکتے ہیں۔ گیم کھیلنے، چیٹنگ یا میسجنگ کے دوران انکے طرز عمل کا بھی احاطہ ہونا چاہیئے۔ اسے اپنا اصول بنائیں کہ آن لائن دنیا میں ایسا کوئی بھی کام نہ کریں جو آپ عملی زندگی میں نہ کرتے ہوں۔ ٹین ایج بچوں کو اس بات کی یاد دہانی نہایت کارآمد ثابت ہوگی کہ عملی زندگی میں کاروباری ادارے اور کالجز کی جانب سے اکثر سوشل میڈیا پروفائلز اور آن لائن مواد کو چیک کیا جاتا ہے جسے ہٹانا کافی مشکل کام ہوتا ہے۔

پرامید رہیں: انٹرنیٹ تعلیم اور سیکھنے کا حیران کن ذریعہ ہے۔ اپنے ٹین ایج بچوں کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ آپ کو ویب سائٹس دکھائیں اور وہاں جو دلچسپ چیزیں پسند آئیں یا جو سرگرمی کریں، وہ اپنے والدین سے اظہار خیال کریں۔

حقیقت پسند بنیں: اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ بعض اوقات ٹین ایج بچے کو حادثاتی طور پر نامناسب مواد کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، اس لئے اپنا طرز عمل ایسا رکھیں کہ وہ آپ کے علم میں نامناسب مواد لانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔

شرائط عائد کریں۔ بچوں کو نصیحت کے لئے مناسب وقت تلاش کریں اور اپنے اصول طے کریں۔ جس روز آپ کے ٹین ایج بچے کو پہلا فون یا ٹیبلٹ فراہم کریں، اسے آن لائن سرگرمیوں کے لئے اسی روز آسانی سے وہ ہدایات سمجھائیں جن پر آپ خود بھی قائم رہ سکیں۔

آپکی ذمہ داری ہے: والدین کی ذمہ داری ہے کہ انکے بچے جہاں کہیں بھی ہوں وہ انکی حفاظت کریں جس میں آن لائن دنیا بھی شامل ہے۔ جب وہ باقاعدگی سے ڈیوائسز استعمال کرنے لگیں تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ والد یا والدہ میں سے کوئی ایک سوشل میڈیا پر ان کا فرینڈ بن جائے یا انہیں فالو کرے ۔ آپ کو شائد مزاحمت کا سامنا ہو لیکن انہیں رسائی فراہم کرنے کے لئے ان شرائط میں سے یہ شرط لازمی رکھیں۔

مستقل مزاج رہیں: کوشش کریں کہ خود بھی انہی اصولوں کی پاسداری کریں۔ اس کا مطلب ہے کہ مخصوص گھنٹے یا وقت بعد ٹیکسٹ میسج نہیں کریں گے اور ناشتہ یا کھانے کے وقت ڈیوائس استعمال نہیں ہو گی۔ یا پھر بچوں کو واضح کریں کہ بڑوں کے لئے بعض اصول کیوں مختلف اور ضروری ہوتے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
31887

گلگت: وزیراعلی کی نئے بنائے گئے اضلاع کے ہیڈکوارٹرز کیلئے پی سی ون جمع کرانے کی ہدایت

Posted on

گلگت(آئی آئی پی) وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے نئے بنائے گئے اضلاع تانگیر، داریل، روندو اور گوپس یاسین کے ضلعی ہیڈکوارٹرز کے قیام کیلئے پی سی ون جلد منظوری کیلئے متعلقہ فورمز میں جمع کرانے کے احکامات دیئے ہیں۔ نئے اضلاع میں ڈسٹرکٹ کمپلیکس کی تعمیر کیلئے سرکاری زمین میسر ہونے کی صورت میں سرکاری زمین پر ہی ڈسٹرکٹ کمپلیکس تعمیر کئے جائیں گے اور سرکاری زمین میسر نہ ہونے کی صورت میں جدید ڈسٹرکٹ کمپلیکس کی تعمیر کیلئے زمین کی خریداری عمل میں لائی جائے گی۔ نئے اضلاع کیلئے 25 کروڑ کی رقم مختص کی جاچکی ہے۔ واضح رہے کہ باہمی مشاورت سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ ضلع داریل کا ضلعی ہیڈکوارٹر گماری، ضلع تانگیر کا ضلعی ہیڈکوارٹر تانگیر جگلوٹ، ضلع روندو کا ضلعی ہیڈکوارٹر ڈمبوداس اور ضلع گوپس یاسین کا ضلعی ہیڈکوارٹر گوپس میں بنایا جائے گا۔ محکمہ تعمیرات اور جی اے ڈی کو ہدایت کی گئی ہے کہ 20 دنوں میں نئے اضلاع میں جدید ڈسٹرکٹ کمپلیکس کے پی سی ون متعلقہ فورمز میں جمع کرائی جائے۔ ڈسٹرکٹ کمپلیکس میں ون ونڈو آپریشن کی سہولت عوام کو میسر ہوگی۔ تمام دفاتر ڈسٹرکٹ کمپلیکس میں موجود ہوں گے تاکہ عوام کو بہتر سہولیات میسر ہوں۔
.
وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی صوبائی حکومت نے اس سے قبل بھی چار اضلاع بنائے ہیں جو فعال ہوچکے ہیں۔ نئے بنائے جانے والے اضلاع کی قرارداد اسمبلی سے منظور ہوئی ہے جس کے بعد صوبائی کابینہ نے منظوری دی اور لینڈ رینو ایکٹ کے تحت نئے چار اضلاع کا نوٹیفکیشن کی گیا ہے۔ گلگت بلتستان میں اب 14 اضلاع بن چکے ہیں۔ نئے اضلاع کے حوالے سے درکار ترمیم کیلئے وفاقی حکومت سے بات ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے کہا سیوریج کا منصوبہ گلگت کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل منصوبہ ہے۔ صوبائی حکومت نے اپنے وسائل سے سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ تعمیر کیا ہے اور مین ٹرنک کیلئے ایک ارب کے منصوبے کا ٹینڈر کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی سابق وفاقی حکومت کا زون 2 اور3کیلئے منظور شدہ 3363.975ملین منصوبہ کا ایڈمنسٹریٹیو اپرول موجودہ وفاقی حکومت نے جاری کردیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت گلگت کے نشیبی علاقوں زون 2 اور 3میں سیوریج کا نظام مکمل کیا جائے گا۔ دریں اثناوزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے صوبائی وزیر معدنیات محمد شفیق کی ناگہانی موت پر انتہائی دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کی سیاسی، سماجی خدمات پر شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ محمد شفیق انتہائی شریف النفس اور سیاسی ویژن کے حامل تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی گلگت بلتستان خصوصا اپنے حلقے سکردو مشہ بروم کے عوام کی خدمت کیلئے وقف کررکھی تھی۔ مرحوم کی خدمات کو ہمیشہ شاندار الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔
.
وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے صوبائی وزیر محمد شفیق کے وفات پر ان کی بلند درجات اور لواحقین کے صبر و جمیل کیلئے دعا کرتے ہوئے کہا ہے کہ دکھ اور آزمائش کی اس گھڑی میں حکومت گلگت بلتستان لواحقین کے ساتھ کھڑی ہے۔اسکے علاوہ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ 5 فروری دنیا بھر میں مظلوم کشمیری بھائیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد مقبوضہ کشمیر کے عوام کی جدوجہد آزادی میں ان کی حمایت اور بھارتی مظالم کیخلاف اظہار یکجہتی کرنا ہے۔ ماضی میں کشمیر کی مخصوص صورتحال تھی لیکن بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مضبوضہ کشمیر کی مخصوص صورتحال کو ختم کیا اور مقبوضہ کشمیر کو فوجی چھاؤنی میں بدل دیا۔ مسئلہ کشمیر اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی وجہ سے گلگت بلتستان کو اب تک سیاسی حقوق نہیں ملے۔
.
وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ دنیا میں جدوجہد آزادی کی طویل ترین جدوجہد مقبوضہ کشمیر کے عوام کی ہے۔ ملک میں حکومت جس جماعت کی بھی ہو لیکن عوام 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے مناتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر سے غداری کرنے والوں کو قوم کبھی معاف نہیں کرے گی۔ مقبوضہ کشمیر جہاد سے آزاد کرایاجاسکتا ہے۔ گلگت بلتستان صرف تقریروں سے نہیں بلکہ جدوجہد سے آزاد ہوا ہے۔ دنیا کے صرف چار ممالک کے علاوہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کیساتھ کوئی اور ملک کھڑا نہیں ہوا۔ صرف جلسوں اور تقریروں سے مقبوضہ کشمیر کو آزاد نہیں کرایا جاسکتا بلکہ جہاد کے ذریعے سے ہی کشمیر کو آزاد کرایاجاسکتا ہے۔ اگر ہم معاشی طور پر مستحکم ہوتے تو دنیا کے کئی ممالک ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے لیکن موجودہ حکومت سے یہ کام بھی نہیں ہوا۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ مودی کی فاشسٹ سوچ نے ہندوستان کے عوام میں نفرت پھیلا دیا ہے۔ ہندوستان کے پرامن عوام سراپا احتجاج ہیں۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے افواج پاکستان کی قربانیوں پر سلام پیش کرتے ہوئے کہاکہ پوری قوم افواج پاکستان کیساتھ کھڑی ہے۔ وفاقی حکومت صرف تقریریں نہ کرے بلکہ اقوام عالم کو ایک مقررہ مدت دے جس کے بعد جہاد کا اعلان کرے۔ وزیر اعظم پاکستان کو بھی چاہئے کہ ملک میں یکجہتی کا ماحول پیدا کرے۔ سیاسی انتقام اور انتشار کی سیاست سے گریز کریں۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
31727

غذر،جلال آباد آشکومن میں شدید برف باری کے بعد برفانی تودے گرنے کا خدشہ، ماہرارضیات

Posted on

غذر (چترال ٹائمزرپورٹ) جلال آباد آشکومن میں شدید برف باری کے بعد برفانی تودے گرنے کا خدشہ کا جائزہ لینے لیڈیزاسٹر مینجمنٹ گلگت بلتستان کی جانب اور اے کے اے ایچ (اکاہ)کے ماہر ارضیات پر مشتمل ٹیم نے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا.میڈیا رپورٹس کے برخلاف مقامی آبادی اب بھی اپنے گھروں میں مقیم ہے۔ تاہم، اس برادری نے کھا کہ وہ تودے کے خوف سے شام کو اپنے گھر خالی کردیتے ہیں اور صبح واپس آجاتے ہیں۔ کمیونٹی نیگھرانوں کو مستقل طور پر منتقل کرنے کا مطالبہ کیا اور فوری طور پر بستر کے ساتھ ساتھ موسم سرما والے خیموں کا مطالبہ کیا۔دوسری طرف، ماہرین ارضیات نے یہ بات برقرار رکھی ہے کہاے کے اے ایچ نے پہلے ہی اس علاقے کا خطرہ جانچ لیا ہے۔ جس کے مطابق صرف چند مکانات ریڈ زون میں واقع ہیں جبکہ زیادہ تر مکانات کم خطرہ والے علاقے میں واقع ہیں۔اے کے اے ایچ مختصر وقت میں اپنی تازہ رپورٹ بھی پیش کرے گی.مذکورہ بالا کی روشنی میں یہ سفارش کی جاتی ہے کہ کوئی بھی فیصلہ طویل المیعاد ہو یا قلیل مدتی، ماہرین ارضیات کی ماہر کی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے۔غذر (اے پی پی) ترجمان غذر پولیس کے مطابق ڈپٹی کمشنر غذر طارق اور ایس۔پی غذر عبدالروف کا بالائی علاقے گوپس اور یاسین کا دورہ، دورے کا مقصدگزشتہ دنوں کی شدید برف باری کے بعد ان علاقوں میں امدادی کاموں کو دیکھنا، عوامی مسائل کی جانکاری لینا اور امداد کو تیز کرنا مقصود تھا تانکہ لوگوں کے لئے آسانی فراہم کی جا ئے حدود گوپس پر پولیس کے جوان اورمحکمہ تعمیرات مسافروں کو بآسانی سفری سہولیات پہنچانے میں مصروف ہیں اس موقع پر DC غذر نے پولیس کے امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کو سراہتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ ضلع انتظامیہ اس موقع پر اہلیان غذر کے ساتھ ہے SP غذر نے اس موقع پر SHO گوپس وعملہ کو شاباش دیتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ شروع دن سے امدادی کاموں کو جاری رکھے ہوئے ہیں مسافروں کی آسانی کے لئے اسے جاری رکھے اور یاسین کے SHO کے حالیہ اقدامات کو بھی سراہا اور اسے بھی موقع پر ہدایات دیتے ہوئیکہا کہ جب تک برف روڈ سے مکمل ختم نہیں ہوتی ٹرانسپوٹر حضرات کو ہدایات کریں کہ وہ احتیاطی تدابیر اپنائیں تانکہ کسی بھی ممکنہ حادثے سے بچا جا سکے۔ DCغذراورSP غذر نے امدادی سرگرمیوں پر اپنے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے موقع پر چند ضروری ہدایات دیں .

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
31487

جوٹیال گلگت؛ زخمی مارخورکوبحفاظت وائلڈ ڈیپارٹمنٹ کے حوالہ کردیاگیا

Posted on

گلگت(چترال ٹائمزرپورٹ) انصاف یوتھ ونگ کے صدارتی امیدوار غضنفر عباس نے خومر جوٹیال نالے میں زخمی مارخور کو اپنی مدد آپ کے تحت محکمہ وائلڈ لائف کے حوالے کردیا۔مارخور جو کہ گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ پائیجانے والا جانور ہے۔مگر انسان اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے ہم سب کا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ ان جانوروں کا خیال رکھنا چاہئے تاکہ ان کی Generation میں اضافہ کیا جاسکے۔ اس حوالے سے محکمہ وائلڈ لائف کو بھی چاہئے کہ ان جانوروں کی حفاظت کے لئے جن افراد ڈیوٹی پر فرائض انجام دے رہے ہیں ان کی ڈیوٹی میں چیک اینڈ بیلینس رکھنا چاہئے تاکہ لوگوں کو اس کی شکار کرنے سے روکا جاسکے۔چیف سیکریٹری صاحب سے پرزور اپیل کیا جاتا ہے کہ محکمہ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے سٹاف جو کہ خومر جوٹیال نالے میں ڈیوٹی پر مارخور ہے ان کی ڈیوٹی میں حاضر کو یقینی بنایا جائے۔
ghazanfar abbas gb

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
31468

یوم وفات نواب وقار الملک۔رہنماء تحریک پاکستان….تحریر: امیرجان حقانیؔ

Posted on

27 جنوری تحریک پاکستان کے نامور رہنماء نواب وقار الملک کا یوم وفات ہے۔نواب وقار الملک درست معنوں میں قدیم اور جدید علوم کے حسین امتزاج تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے نامور رہنما نواب وقار الملک کا اصل نام مولوی مشتاق حسین تھا۔ وہ 24 مارچ1841 کو ریاست اترپردیش کے علاقہ امروہہ میں فضل حسین کمبوہ کے دولت کدے میں پیدا ہوئے۔
نواب وقار الملک نے ابتدائی تعلیم دینی مکتب سے حاصل کی۔عربی زبان و گرائمر، علوم حدیث اور فقہ اسلامی کی تعلیم مولوی راحت علی امروہی سے حاصل کی۔نواب صاحب نے صرف دینی علوم کے تحصیل پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ جدید عصری علوم وفنون کی طرف بھی متوجہ ہوئے اور انجینئرنگ کی تعلیم انجینئرنگ کالج روکی سے پائی اور ڈگری حاصل کی۔
قدیم وجدید علوم سے بحرور ہونے کے بعد نواب مرحوم نے عملی سیاست میں قدم رکھا تب آپ کی عمر صرف پچیس سال تھی۔ نواب وقارالملک سرسید احمدخان کی تحریک سے حد درجہ متاثر تھے اور ان کے بے حد مداح بھی تھے۔نواب وقارالملک سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کو قدیم علوم کیساتھ جدید علوم سے بھی آراستہ ہونا چاہیے۔سرسید احمد خان کی طرح نواب وقار الملک بھی مسلمانوں کی ترقی جدید علوم میں پنہاں دیکھ رہے تھے اس لیے ان کی تحریک میں شامل ہوئے اور رفیق خاص بن گئے۔سرسید احمدخان کی ہی سفارش پر ریاست حیدر آباد دکن میں ”ناظم دیوانی“ کے عہدے پر فائز ہوئے۔آپ نظم و ضبط کے بہت ہی پابندتھے۔آپ کی صلاحیتوں اور ایمانداری سے متاثر ہوکر وزیراعظم حیدر آباد دکن نے اپنا سیکرٹری منتخب کیا اور بعد میں نواب وقارالملک ریاست حیدرآباد کے نائب وزیراعظم بھی بنے۔سترہ سال بعد ریاست حیدر آباد سے باعزت ریٹائرڈ ہوئے اور پنشن لی۔
پھر ایم اے او کالج جوائن کیا اور آخر دم تک اسی کی ترقی و تعمیر میں اپنی زندگی صرف کی۔جب ایم اے او کالج علی گڑھ کو ”مسلم یونیورسٹی“ بنایا گیا تو آپ نے اس کے لیے چندہ کی مہم کا بھی اسٹارٹ لیا۔اسی زمانے میں ساڑھے سات لاکھ روپے جمع کرکے کالج کے فنڈ میں جمع کرادی۔ایک روایت کے مطابق یہ رقم تیس لاکھ تھی جو نواب وقارالملک کی نگرانی اور کوششوں سے ڈیڑھ سال میں جمع ہوئی تھی۔ یقینا آج یہ رقم اربوں میں ہوگی۔

نواب وقار الملک کوذہانت اور فطانت ودیعت میں ملی تھی۔1870کو مضمون نویسی کے مقابلے میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔آپ کے علمی اور فکری مضامین و مقالات رسالہ تہذیب الاخلاق میں شائع ہوتے رہے۔
آپ ایک بہترین خطیب بھی تھے لکھنو سمیت کئی بڑے شہروں میں مسلمانوں کے جلسے منعقد کرتے اور انہیں علوم کی اہمیت کے ساتھ آزادی ہند کا درس بھی دیتے۔آپ نے اپنی تقاریر اور خطبات کے ذریعے پورے ہندوستان میں آل انڈیا مسلم لیگ کو فعال بنایا اور قومی معاملات اور امور میں مکمل بے باکی سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
.
نواب وقارالملک آل انڈیا مسلم لیگ کے اولین رہنماوں اور بانیوں میں شامل تھے۔30 دسمبر 1906 کو نواب وقا رالملک،سرآغاخان، سر شفیع اور نواب سلیم اللہ خان آف ڈھاکہ نے ملکر ڈھاکہ میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس منعقد کیا۔اس کانفرنس میں نواب سلیم کی طرف سے آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے جماعت قائم کرنے کی تجویز سامنے آئی۔اس اجلاس کی صدرات نواب وقارالملک نے کی۔یوں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ سرآغاخان پہلے صدر منتخب ہوئے اور نواب وقا رالملک کو یہ اعزاز حاصل ہواکہ آپ آل انڈنا مسلم لیگ کے پہلے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کو مسلم لیگ اور پاکستان کا باپ بھی کہا جاتا ہے۔
نواب وقا رالملک کا مذہب کی طرف بھی خوب میلان تھا۔نواب وقا رالملک طالب علموں کو دینی تعلیم و تربیت پر خوب توجہ دیتے۔کالج میں طلبہ کو نمازپنجگانہ کی نہ صرف تلقین کرتے بلکہ خود نگرانی بھی فرماتے۔نواب وقا رالملک کے دینی جذبات اور محبت کو حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا عبدالباری اور دیگر جید علماء کرام پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے۔
نواب وقارالملک بہت ہی بااصول انسان تھے۔آپ کی اصول پسندی کو دیکھ کر 1908 کو حکومت نے ”نواب“ کے لقب سے نوازا۔بہترین انتظامی صلاحیتوں کی بنا پر ریاست حیدرآباد کی طرف سے آپ کو ”نواب الدولہ“ اور ”وقارالملک“ جیسے بہترین القابات سے نوازا گیا۔یہی تمام صفات نواب کی باکمال شخصیت کا آئینہ دار ہیں اور بہتری عکاسی کرتی ہیں۔
نواب محسن الملک کے بعد نواب وقار الملک علی گڑھ کالج کے سیکریٹری منتخب ہوئے تھے۔ پھر طویل عرصہ اس عہدے پر متمکن رہے بالآخر 1912کو بوجہ خرابی صحت نواب وقارالملک نے علی گڑھ کالج کی سیکریٹری شپ سے استعفیٰ دیا۔
تحریک پاکستان کا یہ عظیم رہنماء اور درخشاں ستارہ نے اپنی زندگی کی حسین بہاریں مسلمانان ہند کی خدمت میں صرف کی۔طالبان علوم کی رہنمائی اور معاونت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔اور ہندوستان کے مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی کے لیے تادم مرگ کوشش کرتا رہا۔بالآخر اسلامیان ہند کا یہ عظیم رہنماء جناب نواب وقار الملک نے27 جنوری 1917 کو امروہہ میں داعی اجل کو لبیک کہا اور وہاں گئے جہاں ہم سب نے جانا ہے۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ ان کی مساعی جمیلہ کو قبول و منظور فرمادے اور اپنے بارگاہ میں ا نہیں مقام خاص سے نوازے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامیان ہند کے ان عظیم رہنماوں اور بانیان پاکستان کی ان لازوال کوششوں اور قربانیوں کو نوجوان قوم کے سامنے بلاکم و کاست پیش کیا جائے تاکہ نوجوانان ملت کو اندازہ ہوجائے گا کہ ان کے اسلاف نے کتنی محنتوں اور مشکلات کے بعد آزادی حاصل کی ہے اور مملکت خدادا پاکستان حاصل کیا ہے۔اور انہیں اس کی اہمیت کا اندازہ ہوجائے گا۔
.
نوٹ: یہ تحریر ریڈیوپاکستان کے قومی پروگرام ”صبح پاکستان“ کے لئے خصوصی لکھی گئی ہے۔جنوری 2020 کو ریڈیو پاکستان گلگت کے پروڈیوسر واجد علی یاسینی کی نگرانی میں ریکارڈ کروایا گیا۔حقانی
.
تحریر: امیرجان حقانیؔ
لیکچرار: پوسٹ گریجویٹ کالج مناور گلگت
ریسرچ اسکالر و کالمسٹ

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
31422

جنت نظیر پھنڈرمیں زیرزمین پھلتا پھو لتا ما حو لیا تی طو فان …تحریر: فدا علی شاہ غذریؔ

Posted on

یہ وادی یوں تو خو ش منظر بہت ہیں
نصیبوں میں مگر پتھر بہت ہیں
.
گلگت بلتستان کی دلکش اور حسین وادیوں کی محبت میں گرفتار کسی شاعر نے شاید حسین و جمیل وادی پھنڈر کے لئے یہ شعر کہا ہو گا جو با لکل اس وادی کی حالات زار کی خو ب منظر کشی کر تاہے۔ کرہ ارض پر مو جود گلگت بلتستان کی یہ وادی کسی با کمال مصور کی تخیلا تی کما لات کا مظہر لگتی ہے اور ہر دیکھتی آنکھ یقین کر نہیں پا تی کہ اتنی خو بصورت شاہکار بھی کو ئی تخلیق کر سکتا ہے۔ لیکن یہ وادی کسی انسا نی تخلیق یا تخیل کا مظہر ہر گز نہیں بلکہ”یا مصورُ“ کی ایک اعظیم شا ہکار ہے جو اپنی کمال ِ قدرت کو انسانوں پر عیاں کر تا ہے۔
.
سیا حوں کی جنت وادی پھنڈر قدرتی حُسن سے ما لا مال ہے اور ہر آئے روز سیا حت اورسیا حوں کی منزل بن کر شہرت کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ یہ خو بصورت وادی پہلی نظر میں با لکل ایک خیا لی فن پا رے کا روپ دھا ر لیتی ہے جو کما ل مہارت سے کسی کا غذ پر اُتارا گیا ہو لیکن جوں ہی گمان کی آ نکھ یقین کا منظر سمو لیتی ہے تو انسا نی آ نکھیں اس کے حسین نظاروں سے خیرہ ہوکر رہ جا تیں ہیں۔ قیا س کیا جا رہا ہے کہ آ ج سے سینکڑوں سال پہلے پھنڈر ایک خو بصورت جھیل کی شکل میں مو جود تھا اور اسی جھیل کی وجہ سے ہی اس کا نام پھنڈر پڑ گیا۔”پھن“ کھوار زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہتھیلی کا ہے اور ڈار بھی اسی زبان میں گہرے پا نی کے لئے استعمال ہو تا ہے اگر ہم ان دونوں لفظوں سے وجود پا نے والے ”پھنڈر“ کے معنی دیکھے تو وہ ہتھیلی کی طرح گہر ے پا نی کے معنی دیتا ہے۔
.
نام کی وجہ تسمیے سے یہ قیاس یقین میں بدل جا تا ہے کہ یہاں بسنے والے مکینوں کی را ئے اور معلومات درست ہیں۔ بزرگ فر ما تے ہیں کہ اس وادی کا مو جودہ روپ اس کا تیسرا روپ ہے جب وہ خو بصورت جھیل خشک ہوا تو یہاں نہایت گھنا جنگل اُگ آیا تھا اور مقا می آبادی جو دالو مل اور سیر بل میں آباد تھیں، اُس جنگل سے مستفید ہو رہی تھی۔ یہ بھی روایت ہے کہ مقامی آبادی جنگل سے بہت تنگ آچکی تھیں کیونکہ مختلف انواع کے درندہ صفت جنگلی جانور لو گوں کے مال مو یشیوں کے لئے خطرہ ثا بت ہو ئے تو لو گوں نے جنگل کو ختم کر نے کے لئے مختلف حر بے استعمال کر نا شروع ہو ئے حتی کہ کسی ایک بزرگ کے قیام پر ان سے اس جنگل کے بارے شکا یت کی گئی کہ کس طرح جنگل اُ ن کے لئے وبال جان بن چکا ہے۔ لوگوں کے اسرار پر بزرگ نے دعا مانگی اور وہ جنگل آہستہ آہستہ ختم ہو نا شروع ہوا اور یوں پھنڈر اپنا تیسرا روپ د ھار لیا اور قرب و جوار کے اونچے مقا مات دالومل اور سیر بل سے لوگ یہاں آکر آباد ہو گئے۔
.
وادی پھنڈر اپنے تیسرے روپ میں دنیا بھر میں مشہور بھی ہوا اور محبت کی وادی بن کر اپنی خو بصورتی سے شہروں سے اُکتا ئے ہو ئے چہروں کو فر حت بخشتی ہے اور ڈھیر ساری محبتیں بانٹ اور سمیٹ رہی ہے۔ اس کے دلدادے سیاح جہاں تین مو سموں بہار، گر ما اور خزان کے منا ظر سے خوب محظوظ ہو تے ہیں تو وہاں اس کے چو تھے موسم یعنی سر ما میں یہاں کے مکین مو سم کی سر د مہری سے پناہ ما نگ رہے ہیں۔ اسی اثنا مجھ سمیت کچھ مکین وادی پھنڈر کے چو تھے روپ سے نہا یت خا ئف اور پر یشان ہیں کیو نکہ نیک خواہوں اور سیا حوں کو ظا ہری منا ظر اتنے
بھا جا تے ہیں کہ ظا ہری آ نکھ وادی میں سر اُ ٹھا تے کسی بھی ما حو لیاتی یا مو سمی تغیر اتی عمل سے متوقع مسا ئل پر تو جہ مر کوز نہیں کر پا تی جبکہ مستقل رہا ئشی مکینوں کی نظر نو مبر کے وسط سے مارچ تک سرد و سخت لمحوں کی تیا ری پر مر کوز رہتی ہے اور اسی طرح پھنڈر چپکے چپکے اپنا چو تھا روپ دھار رہا ہے جو کہ ایک انتہا ئی ہیبت ناک روپ ہے۔آج کی نشست میں پھنڈر کے ممکنہ روپ پر گفتگو کر تے ہیں۔
وادی پھنڈر میں زیر زمین ایک ما حو لیاتی طو فان سر اُ ٹھا رہا ہے جو مستقبل قریب میں قرب و جوار کی آبادی کے لئے بھی درد سر بنے گا اور تقر یباً تیرہ ہزار نفوس اس طو فان سے براہ راست متا ثر ہو نگے۔ بظاہر ما حو لیاتی و مو سمیاتی تغیر کے اثرات و محر کات اور ممکنہ حل کی طرف ما ہرین کا دھیان بھی ہے اور دنیا بھر میں ما حو لیاتی پیچد گیوں کے حوا لے سے مفکرین، دا نشور اور سا ئنس دان پر یشان بھی، وہ ہماری زمین کو ان تغیرا تی مشکلات سے نکا لنے کے لئے سر جو ڑ رہے ہیں۔ ہمارا ملک پا کستان دنیا کے اُن دس مما لک میں شامل ہے جہاں ما حو لیاتی پیچد گیاں سر اُ ٹھا چکے ہیں لیکن حقیقت پسندانہ تجز یئے سے یہ بات سا منے آتی ہے کہ ما حو لیاتی مسا ئل اور پیچد گیوں پر سر کاری، غیر سر کا ری،سماجی تنظموں اور مقامی لو گوں کا تو جہ کم جبکہ خطرات کا حجم اور رفتار قدرے زیا دہ ہیں۔ ہمارے ہاں ما حو لیا تی پہلو پر بات بہت کم کی جا تی ہے اور یہ مو ضو ع ہمیشہ دیار غیر کی آواز قرار پا کر نظر انداز رہتاہے لیکن اب وقت آیا ہے کہ ہم ستر کی دھا ئی والا رویہ مزید نہیں اپنا سکتے کیو نکہ ما حو لیا تی پہلو ہمارے وجود کا مسئلہ ہے۔ تین بنیا دی محر کات جن کی وجہ سے ہماری دنیا پگل رہی ہے زمین پر مختلف نو عیت کی گندگی، درختوں کی بے جا کٹا ئی، گرین ہاوس اثرات سے اوزون میں کمی کے سبب دنیا گلو بل وارمنگ کے خطرہ ناک شعاوں کے زیر سا یہ ہے۔ ان کے علاوہ کئی ایسی چیزیں ہیں جو پہلے کبھی ہمارے وہم و گمان میں نہ تھیں اب ہمارے وجود کے لئے خطرہ بن کر نہایت قر یب آرہی ہیں۔
.
سر زمین پھنڈر عا لمگیر نو عیت کے ما حو لیاتی خطرات کے علاوہ زیر زمین ایک اور ما حو لیا تی طو فان کو جنم دے رہی ہے جو فی الحال ان سنی، ان دیکھی اور ان محسو س شدہ مگر ایک پیچیدہ مسئلہ بن کر ا ُ بھر رہا ہے۔ سینکڑوں گھرا نے اس وقت خا مو شی سے انسا نی فضلاء کو ٹھکا نے لگا نے کی تگ و دو میں ہر سال گڑ ھے کھود رہے ہیں جو زیر زمین تین فٹ کی دوری میں پا نی کی موجود گی سے چند مہینوں یا پھر سال کے اندر اندر بھر جا تے ہیں اور یہ عمل دو بارہ دہرا یا جا رہا ہے۔ اس وادی میں ایسا کو ئی گھر نہیں رہا جس کے صحن میں زمین کا کو ئی ایسا گو شہ مو جود ہو جو گٹر کے لئے نہ کھودا گیا ہو۔ گڑ ھے کھو د نے کا عمل جہاں مقا می لو گوں کے لئے ذہنی و جسما نی اذیت کا باعث ہے وہاں یہ عمل ما حو لیا تی آلو دگی کا پیش خیمہ بن کر اُ بھر رہا ہے جو آئندہ چند عشروں میں طو فان کی صورت پو رے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے گا کیو نکہ گیلی زمین اور پا نی کے اندر انسا نی فضلے میں مو جود بیکٹریا نہ صرف زندہ رہتی ہے بلکہ ام الاجراثوم بن کر انسا نی صحت اور ما حول پر حملہ آور بننے کے لئے اپنی پوری فیملی آباد کر رہی ہیں۔ یہ رو ایتی گٹر کا نظام جو ہرسال زمینی خا صیت کے سبب اُ بل کر ما حول کو آلودہ کر نے لگا ہے جس کا با قاعدہ مشا ہدہ کیا
جا سکتا ہے پھنڈر کے میدا نی علاقے (گلو غ تا بُک) اس نظام سے بہت متا ثر ہو ئے ہیں اور خد شہ ہے کہ آ ئندہ سالوں میں اس کے اثرات لو گوں کی صحت پر وبا ئی امراض کی صورت پڑ نا شروع ہو گا۔ ہر سال اُ بلتے گٹر کے گڑ ھے مقا می آ با دی کے لئے معا شی پہلو سے بھی اذیت ناک ثا بت ہو رہے ہیں کیو نکہ اس پُر اشوب دور میں جہاں عا م آدمی مہنگا ئی تلے دب رہا ہے وہاں سا لا نہ کم ازکم تیس ہزار رو پے گیلی زمین پر گڑھا کھو دنے پرخرچ ہو جا تے ہیں اوراجتما عی طور پر تقریباً ۰۸۱ ملین رو پے سا لانہ اہل پھنڈر اس مد میں خرچ کر تے ہیں جو کہ غور طلب پہلو ہے۔
زیر زمین اس ما حو لیا تی طو فان کا شکار صرف انسان ہی نہیں بلکہ زمین کے اوپر اور پا نی کے اندر مختلف انواع کے حیات (با ئیو ڈا ئیورسٹی) بھی ہیں جو برا ہ راست اس مسئلے سے منسلک ہیں۔ خیا ل کیا جا سکتا ہے کہ ما ضی قر یب میں ٹراوٹ ما ہی کا مسکن دریا ئے پھنڈر آج اس نا یاب
مچھلی سے تقر یباً خا لی ہوچکا ہے، ممکن ہے کہ ٹراوٹ مچھلی اس ما حو لیا تی طو فان کا پہلا شکار ہو جو اپنی نسل کھو چکی ہے کیو نکہ دریا پھنڈر انسا نی آبادی کے دو نوں اطراف بہہ رہا ہے جو برا ہ راست گٹر سسٹم سے متا ثر ہے تا ہم یقین سے کچھ کہنا قدرے مشکل ہے کیو نکہ یہ مو ضو ع تحقیق کا مو ضوع ہے۔ مستقبل قر یب میں یہ مسئلہ ایک سنگین انسا نی و دیگر حیا تیا تی مسئلہ بن کر اُ ٹھے گا جس کی روک تھام کے لئے بھر وقت کو ئی عملی قدم نہ اُ ٹھا یا گیا تو پھنڈر اپنا چو تھا روپ ایک خطرہ ناک ما حو لیا تی طو فان کی صورت اختیار کر ے گا جو حکام اور عوام دو نوں کے لئے پر یشا نی کا باعث ہو گا۔
.
اب اس صورت حال سے نپٹنے کے لئے کسی مجا وزہ حل کی طرف بڑ ھتے ہیں تا کہ ممکنہ ما حو لیا تی طوفان کا مقا بلہ ممکن ہو۔ اس بات میں کو ئی دو را ئے نہیں کہ بہتر منصو بہ بندی و پیش بندی میں دنیا کے تمام مسا ئل کا حل مو جود ہے لیکن اس کے لئے با ہمی مشاورت اور معانت دو نوں درکار ہیں۔ شیخ سعدی کے بقول مشاورت، اتحاداور اتفاق میں اتنی بر کت ہے کہ شہد کی مکھیاں بھی با ہمی مشاورت اور اتفاق سے شہد جیسی میٹھی چیز جنم دیتی ہیں تو کا ئنات مسخر کر نے والے خدا کا انسان یکجا ہو ئے تو کیا کچھ انجام نہیں د یا جا سکتا۔
وادی پھنڈر کے مکین زیر زمین سر اُٹھا تے ما حو لیا تی طو فان سے نہا یت خا ئف ہیں اور اس کے مقا بلے کے لئے تیاری کر رہے ہیں اس
حوا لے سے پھنڈر رورل سپورٹ پرو گرام (ایل ایس او) نے ایک گر ینڈ جر گے کا انعقاد کیا جس میں علاقے کے اکابرین، سیا سی نمائندے، بزرگ اور نوجوانوں نے بڑی تعداد میں شریک ہو کر ایک سیر حا صل بحث میں حصہ لیئے اور اس مسئلے پر تشو یش کا اظہار کر تے
.
ہو ئے حکومت گلگت بلتستان، آغا خان ڈیو یلپمنٹ نیٹ ورک اور دیگر این جی اوز سے در خواست کی کہ اس سنگین ما حو لیا تی طوفان سے نمٹنے کے لئے مقا می آ بادی کے ساتھ مل کر کام کا آ غاز کیا جا ئے تا کہ گو شۂ جنت وادی پھنڈر اپنی خو بصورتی سے سیا حوں کو متو جہ کر سکے اور سیا حت کا بول بالا رہے۔ مقا می قیادت اور اہل دانش اس بات پر متفق ہو ئے کہ اس ما حو لیا تی طوفان کا روک تھام ایک منظم سیوریج نظام سے ممکن ہے جس کے زریعے انسا نی فضلے کو وادی میں مو جود خشک جگہوں (مٹی کے ٹیلے مو جود ہیں) میں منتقل کیا جا سکتا ہے اور ٹر یٹمنٹ اور ری
سا یئکلنگ کے بعد زرعی استعمال میں لا یا جا سکتا ہے۔ پھنڈر رورل سپورٹ پروگرام کے چیئر مین حا صل مراد نے شر کا ء کو یقین دلایا کہ اس مشکل صورت حال سے نمٹنے کے لئے ہمیں اداروں اور مقا می لو گوں کی مدد کی ضرورت ہے اور انشا ء اللہ ہم اداروں کیساتھ اس حوا لے سے بات چیت کو آگے بڑ ھا کر نہ صرف ان کی تو جہ مبذول کر وئیں گے بلکہ نظام سیوریج کے لئے با قا عدہ پرو پوزل جمع کر وائیں گے تا کہ ادارے فنڈ کا اجرا ء کر سکے اور اس پر کام شروع ہو۔ انہوں نے عوام پر واضح کیا کہ کمیو نٹی کی مدد کے بغیر کو ئی چیز کا میاب نہیں ہو سکتی اس لئے اہل پھنڈر پر اپنے علاقے کو ما حو لیا تی مسا ئل سے نکا لنے کے لئے قر با نی دینی ہو گی تا کہ اگلی نسل اس وادی میں پر سکون زندگی گزار سکے۔ ڈاکٹر حمزہ خان نے سیوریج کے نظام کو اہلیان پھنڈر کے لئے لائف لائن قرار دیتے ہو ئے حکو مت اور داروں کے ساتھ با ہمی اشتراک کو
بڑ ھا نے پر زور دیا اور اس ما حو لیا تی طو فان کے مقابلے کے لئے ہر قر با نی سے دریغ نہ کر نے کا اعادہ کیا۔
.
وادی پھنڈر اور مکینوں کی نگا ہیں اس وقت وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان، اُن کی حکومت اور آ غا خان ڈیو یلپمنٹ نیٹ ورک جیسے فعال اداروں کی طرف ہیں کہ وہ اس حوا لے سے اپنے وسا ئل برو ئے کار لاکر سیا حتی مقام وادی پھنڈر کو ما حو لیا تی طوفان کی نذر ہو نے سے بچا ئیں گے۔ بصورت دیگر سیا حوں کی جنت بہت جلد انسا نی فضلے کی نذر ہو گی۔

phandar valley ghazr gb 2

phandar valley ghazr gb 5

phandar valley ghazr gb 3

phandar valley ghazr gb 4

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
30934

ادویات کی قیمتوں میں 15 فیصد کمی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا

Posted on

اسلام آباد (چترال ٹائمزرپورٹ) وفاقی کابینہ کے فیصلہ کے مطابق ادویات کی قیمتوں میں 15 فیصد کمی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ منگل کو وزارت صحت کی طرف سے جاری کئے گئے نوٹیفکیشن کے مطابق ادویات کی قیمتوں میں کمی کے علاوہ ادویات کی طے شدہ قیمتوں سے زائد قیمت وصول کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ قبل ازیں وفاقی کابینہ نے ادویات کی قیمتوں میں 15 فیصد کمی کے احکامات جاری کئے تھے۔ نوٹیفکیشن میں 89 ادویات کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے
.
……………..
.
89 ادویات کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے، ادویات کی قیمتوں میں کمی ڈرگ پرائسنگ پالیسی 2018 کا تسلسل ہے، ادویات کی قیمتوں میں 15 فیصد کمی کا اطلاق فوری ہو گا،وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا
.
اسلام آباد(آئی آئی پی) وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا ہے کہ 89 ادویات کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے، ادویات کی قیمتوں میں کمی ڈرگ پرائسنگ پالیسی 2018 کا تسلسل ہے، ادویات کی قیمتوں میں 15 فیصد کمی کا اطلاق فوری ہو گا۔ منگل کو وزارت صحت کی طرف سے ادویات میں کمی کے نوٹیفکیشن کے حوالے سے جاری بیان میں معاون خصوصی نے کہا کہ وزیر اعظم کی ہدایت پر ادویات کی قیمتوں پر عمل درآمد کا آغاز کرتے ہوئے وزارت صحت نے ادویات کی کمی کا نوٹیفکیشن جار ی کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ 89 ادویات کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے۔ ادویات کی قیمتوں میں کمی ڈرگ پرائسنگ پالیسی 2018 کا تسلسل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادویات کی قیمتوں میں 15 فیصد کمی کا اطلاق فوری ہو گا۔ معاون خصوصی نے کہا کہ ادویات کی قیمتوں میں دسمبر 2018 اور جنوری 2019 میں 300 سے 400 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ حکومت کی جانب سے 6 ماہ قبل قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جن ادویات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کیا گیا ان میں ٹی بی،کینسر اور دل کی بیماریوں کی ادویات شامل ہیں۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
30911

گلگت: سیپ اساتذہ کی مستقلی کے عمل میں تیزی لائی لاکر یکم فروری تک مکمل کیا جائے.وزیراعلیٰ‌

گلگت(آئی آئی پی) وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ پرائیویٹ سکول ریگولیشن ایکٹ کو جلد اسمبلی میں پیش کیا جائے گا تاکہ پرائیویٹ سکولوں کی بہتری میں حکومت بھی اپنا کردار ادا کرسکے۔ محکمہ تعلیم میں بنائے جانے والے انڈومنٹ فنڈ سے ایسے نادار اورمستحق قابل طلبا و طالبات کی مدد کی جائے گی جووسائل نہ ہونے کی وجہ سے اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے ہیں۔نئے سکولوں کی تعمیر اور سکولوں کی اپ گریڈیشن کے حوالے سے محکمہ تعلیم جامعہ پالیسی تیار کرکے کابینہ اجلاس میں منظوری کیلئے پیش کرے۔ اساتذہ کی خالی آسامیوں اور سپیشل پے سکیل کے تحت منظور کئے جانے والے آسامیوں کو 15 دنوں میں ٹیسٹنگ سروس کو بھجوایا جائے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ سیپ اساتذہ کی مستقلی کا عمل یکم فروری تک مکمل کیا جائے۔ سرکاری سکولوں میں انرولمنٹ میں اضافے کیلئے ضلعی سطح پر انتظامیہ اور مقامی کمیونٹی پرمشتمل کمیٹیاں تشکیل دی جائے۔
.
ان خیالات کا اظہار وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے محکمہ تعلیم کے حوالے سے منعقدہ اعلی سطحی اجلاس کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے سیکریٹری تعلیم کو ہدایت کی کہ سیپ اساتذہ کی مستقلی کے حوالے سے اسمبلی سے ایکٹ منظور ہوچکا ہے۔ ایکٹ کی روشنی میں سیپ اساتذہ کی مستقلی کے عمل میں تیزی لائی جائے اور یکم فروری تک مکمل کیا جائے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ سکولوں میں بچوں کی انرولمنٹ کے حوالے سے محکمہ تعلیم کے اقدامات تسلی بخش ہیں۔ بچوں کے انرولمنٹ میں اضافے کیلئے ضلعی سطح پر موسم سرما کے چھٹیوں کے دوران ضلعی انتظامیہ، مقامی افراد اور محکمہ تعلیم کے ذمہ داران پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دی جائے تاکہ کوئی بھی بچہ تعلیم سے محروم نہ رہے۔
.
وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے سیکریٹری تعلیم کو ہدایت کی ہے کہ محکمہ تعلیم میں خالی آسامیوں اور سپیشل پے سکیل کے تحت محکمہ تعلیم کیلئے منظور کئے جانے والے آسامیوں کو 15دنوں میں ٹیسٹنگ سروس کو بجھوائی جائے۔ نئے سکولوں کی تعمیر اور سکولوں کی اپ گریڈیشن کے حوالے سے جامعہ پالیسی تیارکیا جائے اور کابینہ اجلاس میں حتمی منظوری کیلئے پیش کی جائے تاکہ نئے سکولوں کی تعمیر اور اپ گریڈیشن کے حوالے سے متعین کردہ معیار کو یقینی بنایا جاسکے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے اجلاس کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ تعلیم میں انجینئرنگ سیل کو فعال کرنے سے محکمہ تعلیم کے منصوبوں کے معیار اور رفتار میں بہتری آئی ہے۔ انجینئرنگ سیل کومزید فعال اور بہتر بنانے کیلئے محکمہ تعلیم کے انجینئرنگ سیل میں چیف انجینئرکی ڈپوٹیشن پر تعیناتی کی جائے گی۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ انجینئرنگ سیل کے تحت تعمیر کئے جانے والے سکولوں اور دیگر منصوبوں کی سیونگ کے حوالے سے صوبائی وزیر تعلیم کو تفصیلی بریفنگ دی جائے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ صوبے کے تمام سکولوں کے مسنگ فیسلٹیز کے حوالے سے کاغذی کارروائی کی جائے تاکہ وفاقی حکومت اور ڈونرز اداروں سے رابطہ کیا جاسکے۔ انڈومنٹ فنڈ کا قیام کا مقصد صوبے میں ایسے قابل طلبا و طالبات کی مدد کرنا ہے جو وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے ہیں۔ صوبے اب کوئی نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والا طالب علم مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اعلی تعلیم سے محروم نہیں ہوگا۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ پرائیویٹ سکولوں کی بہتری کیلئے پرائیویٹ سکول ریگولیشن ایکٹ جلد اسمبلی میں پیش کیا جائے گا تاکہ صوبائی حکومت پرائیویٹ سکولوں کی بہتری میں اپنا کردارادا کرے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے لیکچرارز کے ٹائم سکیل پروموشن کے مسئلے کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے احکامات دیئے۔
.
……………….
.
وفاقی حکومت آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے بھرپور اقدامات کررہی ہے، غیر ملکی سرمایہ کار آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں سرمایہ کاری سے بھرپور فائدا اٹھائیں، وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین خان گنڈاپور
.
اسلام آباد(چترال ٹائمزرپورٹ) وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین خان گنڈاپور نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے بھرپور اقدامات کررہی ہے، غیر ملکی سرمایہ کار آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں سرمایہ کاری سے بھرپور فائدا اٹھائیں، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کا شمار دنیا کے بہترین سیاحتی مقامات میں ہوتا ہے، گزشتہ سال 20 لاکھ سیاحوں نے گلگت بلتستان کارخ کیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو غیرملکی سرمایہ کار گروپ کے نمائندہ وفد سے ملاقات کے دوران کیا۔ ملاقات میں وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین خان گنڈاپور نے کہا کہ وفاقی حکومت آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے بھرپور اقدامات کررہی ہے۔غیر ملکی سرمایہ کار آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں سرمایہ کاری سے بھرپور فائدا اٹھائیں۔ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کا شمار دنیا کے بہترین سیاحتی مقامات میں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال 20 لاکھ سیاحوں نے گلگت بلتستان کا رخ کیا۔ بابو سر ٹاپ ٹنل منصوبے پر پیشرفت جاری ہے۔ حکومت سکردو ایئر پورٹ کو اپ گریڈ کرنے کے لیے اقدامات کررہی ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ گلگت بلتستان میں موسم سرما کے حوالے سے بھی سیاحت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ علاقے میں سکی انگ، آئس ہاکی اور جیپ ریلی جیسی سرگرمیوں کو فروغ دیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں سرمایہ کاری کے لیے تمام تر سہولیات مہیا کر رہی ہے۔ بیرون ملک مقیم کشمیری آزادکشمیر میں سیاحت کے شعبے میں سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھائیں۔ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ پاکستان میں سیاحت کے شعبے میں ترقی کی بہترین صلاحیت موجود ہے۔ سیاحت کے فروغ سے معیشت مضبوط اور عوام کو روزگارکے مواقع میسر آئیں گے۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
30907

صوبائی حکومت زلزلہ متاثرین کی ہر ممکن مدد کیلئے اقدامات کررہی ہے..وزیراعلیٰ‌ جی بی

صوبائی حکومت زلزلہ متاثرین کی ہر ممکن مدد کیلئے اقدامات کررہی ہے۔ استور روڈ کی بحالی کیلئے پاک فوج کے تعاون سے کام کیا جارہاہے،وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن
.
گلگت(آئی آئی پی) وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت زلزلہ متاثرین کی ہر ممکن مدد کیلئے اقدامات کررہی ہے۔ استور روڈ کی بحالی کیلئے پاک فوج کے تعاون سے کام کیا جارہاہے۔ گلگت بلتستان ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی اور ضلعی انتظامیہ کو متاثرہ علاقوں میں الرٹ کیا گیاہے۔ متاثرہ علاقوں میں کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ کمیٹی کی سفارشات پر جن لوگوں کو ٹینٹ درکار ہیں فراہم کئے جارہے ہیں۔ قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کیلئے صوبائی حکومت ہر ممکن اقدامات کررہی ہے لیکن آزمائش اور مشکل کی گھڑی میں ہمیں بحیثیت قوم ایثار اور قربانی کے جذبے کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ جگلوٹ، استور اور بونجی میں ٹینٹ فراہم کئے گئے ہیں اور مقامی سطح پر تشکیل دیئے جانے والے کمیٹیوں کی نشاندہی پر ٹینٹ فراہم کئے جارہے ہیں۔ صوبائی حکومت زلزلہ متاثرین کیساتھ کھڑی ہے۔جن علاقوں کے روڈ بلاک ہوئے ہیں وہاں پر افواج پاکستان کے تعاون سے بذریعہ ہیلی کاپٹر امدادی اشیا اور ٹینٹ فراہم کئے جارہے ہیں۔ زلزلہ متاثرین کی امداد اور متاثرہ علاقوں کی بحالی میں پاک فوج کا کردار قابل تحسین ہے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ زلزلے سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگایا جارہاہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے منظور کئے جانے والی پالیسی کے مطابق مالی نقصانات کے معاوضے دیئے جائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف نے ایک ارب کی خطیر رقم سے ہیوی مشینری گلگت بلتستا ن ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی کو فراہم کی جو تمام اضلاع کو دی جاچکی ہے۔ گلگت بلتستان ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی کا انڈومنٹ فنڈ قائم کیا جاچکا ہے جس میں تقریبا 50 کروڑ سے زیادہ کا رقم موجود ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے صوبائی حکومت کے پاس وسائل موجود ہے۔ فنڈز کیلئے وفاقی حکومت کی طرف نہیں دیکھا جارہاہے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ قدرتی آفات میں سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر انسانی جذبے کے تحت متاثرین کی خدمت کررہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے جگلوٹ اور بونجی میں زلزلے سے متاثرہ علاقوں کے دورے کے موقع پر زلزلہ متاثرین سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے بونجی میں قائم ٹینٹ ویلج کا دورہ کیا اور متاثرین سے مسائل دریافت کئے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے بونجی میں زلزلے سے متاثرہ علاقے کے دورے کے موقع پر بونجی کو تحصیل کا درجہ دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ بونجی آر سی سی پل سمیت دیگر منصوبوں پر جاری کام کو جلد از جلد کام مکمل کرنے کیلئے اقدامات کئے گئے ہیں۔ آئندہ مالی سال کے اے ڈی پی میں بونجی ہسپتال کو 30 بیڈ ہسپتال اپ گریڈ کیا جائے گا۔ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں انتظامیہ اور امدادی اداروں کو الرٹ کیا گیا ہے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے جگلوٹ میں بھی زلزلے سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور زلزلہ متاثرین سے ان کے مسائل دریافت کئے۔ اس موقع پر وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کو زلزلہ متاثرین کی امداد اور بحالی کیلئے کئے جانے والے اقدامات کے حوالے سے گلگت بلتستان ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے گلگت بلتستان ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی اور ضلعی انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ زلزلہ متاثرین کی امداد اوربحالی کیلئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے جگلوٹ دورے کے موقع پر زلزلہ سے متاثرین ہسپتال کا معائنہ کیا اور محکمہ تعمیرات کے متعلقہ آفیسران کو ہدایت کی ہے کہ جگلوٹ میں نئے ہسپتال کے کام کوجلد از جلد مکمل کیاجائے۔
.

وزیر اعلی حافظ حفیظ الرحمن اور فورس کمانڈر ایف سی این اے میجرجنرل احسان محمود نے استور میں زلزلے سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا
دریں‌اثنا وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن اور فورس کمانڈر ایف سی این اے میجرجنرل احسان محمود نے استور میں زلزلے سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ اس موقع پر وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن اور فورس کمانڈر ایف سی این اے میجر جنرل احسان محمود نے متاثرین کی امداد اوربحالی کے کاموں کا جائزہ لیا۔ افواج پاکستان کے تعاون سے زلزلہ متاثرین کی امداد اور استور روڈکی بحالی کیلئے جاری کام کا معائنہ کیا۔ اس موقع پر وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے زلزلہ متاثرین کی مدد اوربحالی کیلئے افواج پاکستان کے کردار کو سراہتے ہوئے خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ افواج پاکستان نے ہرمشکل وقت میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے استور کے دور افتادہ علاقوں میں زلزلہ متاثرین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت گلگت بلتستان افواج پاکستان کے تعاون سے زلزلہ متاثرین کی مدد اور بحالی کیلئے اقدامات کررہی ہے۔ زلزلہ متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔ جن علاقوں میں زلزلے کی وجہ سے روڈ بلاک ہوا ہے وہاں پر افواج پاکستان کے تعاون سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے امدادی اشیا اور ٹینٹ پہنچائے گئے ہیں۔ نقصانات کا تخمینہ لگایا جارہاہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے منظور کردہ پالیسی کے مطابق نقصانات کے ازالے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے۔
.
.
یونیورسٹی آف بلتستان، سکردو، گلگت بلتستان کے طلبا کے 80 رکنی وفد نے وائس چانسلریونیورسٹی آف بلتستان، سکردو، گلگت بلتستان محمد نعیم خاں عباسی کی سربراہی میں پنجاب اسمبلی کا مطالعاتی دورہ کیا
.
لاہور(چترال ٹائمزرپورٹ) یونیورسٹی آف بلتستان، سکردو، گلگت بلتستان کے طلبا کے 80 رکنی وفد نے وائس چانسلریونیورسٹی آف بلتستان، سکردو، گلگت بلتستان محمد نعیم خاں عباسی کی سربراہی میں پنجاب اسمبلی کا مطالعاتی دورہ کیا۔ ڈی جی پارلیمانی افیئرز عنایت اللہ لک نے وفد کا والہانہ استقبال کیا۔ ڈی جی نے کہا کہ ہمارے سٹوڈنٹس کا وژن غیر ملکی سٹوڈنٹس کی نسبت زیادہ وسیع ہے بشرطیکہ انہیں آگے بڑھنے کے مواقع میسر آئیں۔ڈی جی نے امید ظاہر کی کہ وفد میں شریک تمام طلبا اپنی عملی زندگی میں ملکی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیں گے۔عنایت اللہ لک نے طلبا کو پنجاب اسمبلی کی تاریخ اور قانون سازی کے حوالے سے مکمل بریفننگ دی۔انہوں نے مطالعاتی وفد کے طلبا کو پنجاب اسمبلی کا ایوان،مختلف شعبہ جات اور نئی اسمبلی بلڈنگ کا ماڈل بھی دیکھا یا۔ انہوں نے پنجاب اسمبلی کی لائبریری سے متعلق بریفنگ میں طلبا کو بتایا کہ اس وقت لائبریری میں چھیاسٹھ ہزار کتب موجود ہیں۔عنایت اللہ لک نے وفد کو بتایا کہ پنجاب اسمبلی کی نئی بلڈنگ کی تعمیر سے اسمبلی کے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے تاہم رومن طرز تعمیر کی موجودہ تاریخی عمارت کو محفوظ رکھا جائے گا۔انہوں نے طلبا کو اسمبلی کی ساخت’ سٹینڈنگ کمیٹیوں کی کارکردگی اور اسمبلی قوانین کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ 2003 سے اس کے تمام اجلاس اسمبلی کی ویب سائٹ پر براہ راست دیکھائے جاتے ہیں۔ طلبا نے اسمبلی کے قواعد و ضوابط میں گہری دلچسپی لی اور ڈائریکٹر جنرل، پنجاب اسمبلی سے مختلف سوالات کیے۔ جن کے انہوں نے جوابات دیے۔ انہوں نے وفد کو بتایا کہ پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت زیر تعمیرہے جس کا کام تیزی سے جاری ہے اور انشا اللہ اسی سال نئی عمارت میں اجلاس منعقد ہوگا۔انہوں ے نے طلبا کو اسمبلی کی تاریخ کے بارے میں بھی بتایا۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
30855

اسلام آباد؛ چترال اورگلگت بلتستان کے سرکاری افسروں کیلئے چارروزہ ورکشاپ

Posted on

اسلام آباد(سیدنذیرحسین شاہ )اسلامی تہذیب نے عورت کو عزت واحترام دینے کے ساتھ ساتھ کائنات کا اہم ترین جز بھی قرار دیا،اسلام میں عورتوں کو دینی اور دنیوی علوم سیکھنے کی نہ صرف اجازت دی گئی ہے، بلکہ ان کی تعلیم و تربیت کو اسی قدر ضروری قرار دیاگیا ہے کہ جس قدر مردوں کی تعلیم و تربیت ضروری ہے۔جب ہم تصور زن کو دین اسلام کے رنگ میں دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ بنیادی تخلیق میں مساوات زندگی کے بنیادی حق میں مرد وزن کی برابری، فرائض و عبادات میں کوئی تفریق نہیں ہے۔

ان خیالات کااظہارآغاخان رورل سپورٹ پروگرم پاکستان کے پروگرام منیجر جاویداقبال نے گذشتہ دنوں اے کے ارایس پی کے AQCESS پراجیکٹ اور پالیسی ادارہ برائے پائیدارترقی (ایس ڈی پی آئی) کے باہمی اشتراک سے چترال اورگلگت بلتستان کے سرکاری افسروں کے لئے جنیڈر،ماں اوربچے کی صحت،سول رجسٹریشن اوردیگرموضوعات پرمنعقدہ چاروزہ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
.
ورکشاپ میں چترال اورگلگت بلتستان کی سرکاری محکموں کے 25ذمہ داروں نے حصہ لیا۔تربیتی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے پالیسی ادارہ برائے پائیدارترقی (ایس ڈی پی آئی) کے بانی رہنما(ریٹائرڈ)بریگیڈرمحمدیاسین،ڈاکٹرشاہدمنہاس،ڈاکٹرعائشہ بابر،ڈاکٹرافشان ہما،سعدیہ ساٹھی،احمدعثمان،رضاء علی سید،ڈاکٹرعمران خالد،صفدررضاء،اے کے آرایس پی کے یاسمین کریم اوردیگرنے کہاکہ خواتین کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے اورباعزت مقام دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کرکے عورت کو معاشرے کا برابر شہری سمجھ کر اُن کے ساتھ امتیازی سلوک ختم کیا جائے۔خواتین خاندان کی صحت کو فروغ دینے اور دیکھ بھال کرنے میں ایک اہم کردار ادا رہی ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں مرد وخواتین کو برابر حقوق حاصل ہیں اور صنف کی بنیاد پر تفریق کی کسی بھی سوسائٹی میں گنجائش نہیں ہے۔ ایک معاشرے کے اندر مرد اور عورتوں کے درمیان برابری کی طرف پیش قدمی ایک بہتر معاشرہ کے قیام کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔انہوں نے کہاکہ جینڈر ریفارم پروگرام کے ذریعہ خواتین کو ہر سطح پر برابر لانے کا کام شروع ہے۔ قانونی تحفظ کے لیے قانون سازی کی گئی۔ صحت اور روزگار کے لیے بہت کام ہوئے مگر پاکستانی خواتین عالمی سطح اور جنوبی ایشیاء کے مقابلے میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔ اس کی وجہ معاشرتی رویہ ہے جو خواتین کے کام کے صلہ اور حیثیت کو کم کرتے ہیں عام طور پر خواتین کے کام کو گِنا ہی نہیں جاتا۔ دیہات میں خواتین مردوں کے مقابلے میں 70 فیصد زیادہ کام کرتی ہیں۔ اسکے علاوہ شہروں میں بے شمار خواتین غیر روایتی شعبوں میں کام کرتی ہیں مگر انکے کام کو قومی آمدنی میں شمار نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے کہاکہ چترال اورجی بی کے دور درزاورپسماندہ علاقوں میں خواتین کو علاج معالجے کی سہولیات کی یکسان فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے معاشرے کے تمام طبقوں میں آگاہی کی سطح کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
.
انہوں نے کہاکہ صنفی نا انصافی کی نمایاں صورتیں ایک علاقے سے دوسرے علاقے اور ایک عہدسے دوسرے عہد میں مختلف ہو سکتی ہے۔ دوسرے یہ کہ صنفی نا برابری کے اثرات جوکہ مردوں اور عورتوں کی زندگیوں پر بری طرح سے اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ عورت کو حق دینا دراصل سماج کو حق دینا ہے جوں جوں عورت اپنے حقوق حاصل کرتی جائے گی اسی رفتار سے ملک ترقی کرے گا۔
مقریرین نے کہاکہ ملک کے پسماندہ اوردورافتادہ علاقوں میں مائیں بچوں کو جنم دیتے ہوئے موت کے منہ میں چلے جانے کا تناسب کافی حد تک زیادہ ہے۔ اور جو بچ بھی جاتی ہیں ان میں سے بھی بڑی تعداد میں کمزوری کے باعث بچے میں مطلوبہ قوت کی منتقلی کے قابل نہیں ہوتیں، جس کی وجہ سے شیر خوار بچوں کی بڑی تعداد دنیا کا دلکش حصہ بننے سے پہلے ہی منہ موڑ جاتی ہے۔ ہمیں اپنی توجہ اس طرف مرکوز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔انہوں نے کہاکہ ہمارے معاشرے کے موجودہ حالات اور خواتین کی جانب ناانصافی اور عدم مساوات کو دیکھتے ہوئے آپ کی بیٹی کو آپ کی توجہ کی ضرورت بیٹے سے کہیں زیادہ ہے۔ آپ بے شک اسے وہ زیادہ توجہ نہ دیں، مگر کم سے کم اپنے بیٹے کے برابر ضرور دیں۔ مناسب لائحہ عمل کے نہ ہونے کی وجہ سے ہم جنسی نا انصافیوں کے خاتمے، ماؤں اور نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات میں کمی لانے میں آج بھی ناکام ہے۔انہوں نے کہاکہ دوران حمل، بچے پیدائش اور دودھ پلانے کے دوران ماں کو خصوصی طور پر صحت کے بنیادی سہولتیں حاصل کرنے کا حق ہے تاہم اس کی ضرورت اور اہمیت کا اندازہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت ساری مائیں ان سہولیات سے استفادہ نہیں کرپاتیں ہیں۔جو بعد میں بہت ساری پیچیدگیوں، یہاں تک کہ اموات کا باعث بنتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جمہوریت کا بنیادی اصول تمام شہریوں کی آئینی، قانونی، سماجی اور معاشی مساوات ہے۔ ہم اپنے گھر، گلی محلے اور شہر میں جنس، عقیدے، ثقافت اور ذات پات کی بنیاد پر پسماندہ، از کار رفتہ اور غیر جمہوری رویوں کی حمایت کرتے ہیں اور اسمبلی میں جمہوریت مانگتے ہیں۔ جمہوریت ایک ریاستی بندوبست کے علاوہ ایک معاشرتی ثقافت بھی ہے۔
.
انہوں نے کہاکہ پاکستان میں اس حوالے سے تشویش اس لیے بھی پائی جاتی ہے کہ یہاں تعلیم کی کمی نے عورت کو گھر کی چار دیواری میں قید کرکے رکھ دیا ہے۔ حالانکہ انسانیت میں یقین رکھنے والا شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو گا جو معاشرے میں خواتین کو برابری کا درجہ دینے کا حامی نہ ہو۔ اسلام مذہب کا اگر پوری ایمانداری سے تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام نے مردوں کے مقابلے کئی میدانوں میں عورتوں کو زیادہ حقوق دیئے ہیں۔ سماجی تنظیبموں کو خواتین کے حقوق کی آگاہی اور معاشرتی رویوں میں تبدیلی کیلئے اپنی جدوجہد کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ اسی سلسلے گھرگھرآگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔
.
شراکاء ورکشاپ سے خطاب کرتے مقریرین نے کہاکہ بچے ہرگھرکی رونق اورخاندان کو پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ تاہم صرف بچوں کی پیدائش ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ ماں اوربچے کاصحت مند ہونابھی اتناہی ضروری ہے جتناکہ بچے کادنیامیں آنا۔ بچوں کاصحت وتندرستی کے ساتھ دنیامیں آنا ہرماں باپ کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔مقریرین نے کہاکہ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ جب بچوں کی پیدائش میں وقفہ کی بات کی جاتی ہے توخاندانی منصوبہ بندی کی بات ذہن میں آتی ہے اور اس کے پیچھے کوئی سازش نظرآنے لگتی ہے۔ لیکن ان سب باتوں سے درکنار اگریہ سوچاجائے کہ عورت جوبچے کو9ماہ اپنی گودہ میں رکھ کراسے پروان چڑھاتی اور جنم دیتی ہے، پھراس کی پرورش،رضاعت اورنگہداشت بھی اسی کی ذمہ داری ہے تو کیاوہ اس بات کی حقدارنہیں کہ سارے عرصے میں اس نے جوتکلیفیں سہی ہیں اورجن کمزوریوں کاوہ شکارہوئی ہے پہلے اس کاازالہ کرلیاجائے۔
.
انہوں نے مزیدکہاکہ ہمارامعاشرہ غذائی قلت کاشکارہے۔ متوسط طبقے کی آمدنی اتنی کم ہے کہ گھریلو اخراجات ہی پورے نہیں ہوتے تو حاملہ عورت جسے اضافی غذائی اشیا کی ضرورت ہوتی ہے، وہ کہاں سے پوری کرے۔ غذائی قلت ماں کی صحت کوتباہ کردیتی ہے کیونکہ قدرتی طورپربچے کی افزائش کاعمل کچھ ایساہے کہ بچہ تو ماں سے اپنی غذائی ضرورت پوری کرلیتاہے لیکن ماں کمزورسے کمزورترہوتی چلی جاتی ہے۔ بچے کی افزائش، پرورش اور بہتر نشوونما کے لیے ماں کی صحت کابہترہونابھی ضروری ہے۔
.
سول رجسٹریشن کے حوالے سے گفتگوکرتے ہوئے مقریرین نے کہاکہ یہ ہر شہری پر فرض ہے کہ وہ اسے قومی فریضہ سمجھ کر پیدائش وموت، نکاح وطلاق کی صورت میں رجسٹریشن کو یقینی بنائے اور یہی آگے جاکر قومی ڈیٹا بیس کو بھی اپ ڈیٹ کرنے میں ممد ومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں منصوبہ بندی کا فقدان اس لئے ہے کہ ہمارے پاس زندگی کے مختلف شعبوں کے مختلف گوشوں کے بارے میں ڈیٹا کی کمی ہوتی ہے اور ہمارے منصوبہ کار بغیر کسی قابل اعتماد اعدادو شمار کے پلاننگ کرتے ہیں جوکہ آگے جاکر ناکامی پر منتج ہوتے ہیں۔مقریرین نے جی بی اورچترال کے گورنمنٹ کے ذمہ داران پر زور دیاکہ وہ سول رجسٹریشن کے عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اپنی تمام صلاحیتیں اور توانائی بروئے کارلے آئے۔SDPI اور AQCESSپراجیکٹ کے تحت تربیت کو نہایت سودمند قرار دیتے ہوئے ٹریننگ کے شرکاء پر زور دیاکہ سول رجسٹریشن کے بارے میں حاصل شدہ معلومات کو گھر گھر پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں جس کے ثمرات بہت جلد ہی سب سے عیاں ہوں گے۔ انہوں نے کہاکہ یہ رجسٹریشن حکومتی اداروں کوشہریوں کیلئے بہترسہولیات مہیاکرنے کی منصوبندی کے لئے اعدادشمارمہیاکرتاہے اور ان اعدادشمارکی بدولت حکومتی ادارے صحت جیسے سہولیات کے لئے بہترحکمت عملی تیارکرسکتے ہیں جوگلگت بلتستان اورچترال جیسے پسماندہ علاقے کے لئے نہایت ہی اہم ہیں۔انہوں نے کہاکہ اس سلسلے میں مقامی حکومتیں باہمی اشتراک سے نادراکے ساتھ کام رہے ہیں تاکہ شہریوں کواس عمل میں دشواری نہ ہو۔شمالی علاقہ جات میں سول رجسٹریشن کے حوالے سے آگاہی انتہائی کم ہے اور اکثر والدین بچوں کی برتھ رجسٹریشن بھی نہیں کرواتے جوکہ والدین کی قانونی ذمہ داری اور بچے کا بنیادی حق ہے۔
.
انہوں نے کہا کہ کسی بھی ریاست کے پلاننگ کے عمل کیلئے بنیادی اعداد و شمار کا حصول ضروری ہوتا ہے جب ہمارے پاس بنیادی اعداد و شمار موجود نہیں ہونگے تو ہم کسی بھی شعبہ میں بہتر منصوبہ بندی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہاکہ اہم نوعیت کے اعداد و شمارکے حصول کیلئے محکمہ لوکل گورنمنٹ و دیہی ترقی اپنا بھرپور کردار ادا کرناچاہیے۔پیدائش اموات، شادیوں، طلاق اور دیگر بنیادی ڈیٹا کا حصو ل ممکن ہو سکے گا اور اس کو کمپیوٹرائزڈ کرکے نادرا کے ساتھ منسلک کرنے کی ضرورت ہے۔
.
دوران ورکشاپ (ایس ڈی پی آئی)کے زیرنگرانی الشفاء ٹرسٹ ہسپتال اوررہنمافیملی پلان ہسپتال اسلام آبادکادورہ کرایاگیاجہاں ڈاکٹرعائشہ بابر،ریجنل ڈئریکٹررہنمافیملی پلان ہسپتال زاہد،ڈاکٹرنورین فلاک نے ہسپتال کے اعرازمقاصدبتاتے ہوئے ہسپتالزکاتفصیلی معائنہ کروایااوروکشاپ میں گروپ ورک کرکے دوران ڈیوٹی مسائل کامشق کرایا۔پروگرام کے آخرمیں شراکاورکشاپ کوتعریفی اسنادسے نوازاگیا۔
akrsp workshop on gender for chitral GB officials at islamabad 1

akrsp workshop on gender for chitral GB officials at islamabad 11

akrsp workshop on gender for chitral GB officials at islamabad 4

akrsp workshop on gender for chitral GB officials at islamabad 3
akrsp workshop on gender for chitral GB officials at islamabad 7

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
30503

گلگت جوٹیال میں بزمِ کھوار پروگرام، کھوارموسیقی اورمحفل مشاعرہ

Posted on

گلگت(چترال ٹائمزرپورٹ) ”کوزی لاج“گلگت جوٹیال میں پاکستانی نژاد امریکی اور ممتاز انسان دوست اور علم دوست سماجی کارکن بلال احمد کے نام ایک شام کے نام سے بزمِ کھوار پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔اس پروگرام کے دو حصے تھے۔پہلے حصے میں کھوار زبان کے ممتاز شاعروں اور گلوکاروں نے انتہائی پُر سوز اور دلکش موسیقی پیش کیے جو گلوکار اور فنکار اس پروگرام کے پہلے حصے میں‌حاضرین کو محظوظ کرتے رہے. ان میں بشارت خان، شبیر احمد، محمد علی، زاہد خان، قاسم علی اور حسنین عالم شامل تھے۔جبکہ اس پروگرام کے دوسرے حصے میں محفلِ مشاعرہ کا اہتمام ہوا۔جن شعراء کرام اپنے نظموں اور غزلوں سے ادبی حُسن کو دوبالا کردیئے۔اُن میں صوبارشاہ صابری، بشارت خان، شجاعت علی اور امتیاز علی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
.
بزمِ کھوار پروگرام میں بلال احمد بحیثیت مہمان خصوصی تھے۔معزز مہمان کے ساتھ دیگر مہمانوں میں چیئرمین شندور ویلفیئر اور چیف ایڈیٹر ماہانہ شندور محمد علی مجاہد اور کے پی کے پلاننگ ڈویژن کے پلاننگ آفیسر الطاف الرحمن رومی کے علاوہ مشہور ستار نواز ریشم خان اور سابق ڈسٹرکٹ کونسلر خان اکبر خان بھی شریک ہوئے۔
.
مہمان خصوصی بلال احمد نے اپنی خطاب میں مقامی زبانوں کی ترقی و ترویج کے ساتھ ساتھ کھوار شاعری، کھوار موسیقی اور کھوار ثقافت کو گلگت بلتستان میں زندہ رکھنے پر نوجوانوں کی کوششوں اور کاوشوں کو سراہا۔انہوں نے کہا کہ دنیا میں زندہ قومیں وہ ہیں جو انسانوں کے مابین محبت اور دوستی کو رواج دیتے ہیں اور اس اہم کام کے لئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔انھوں نے گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو گلگت بلتستان کی ثقافت کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی تجویز اور ترغیب دی۔
.
اس پروگرام کے صدر محفل محمد علی مجاہد نے کہا کہ چترال اور گلگت بلتستان کے مابین ثقافت کی یک رنگی کی بنیادی وجہ کھوار زبان ہے۔انہوں نے کہا ماہانہ شندور کی اجراء کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ چترال اور جی بی کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لایا جائے اور ان کے مابین محبت و الفت کو پروان چڑھایا جائے۔انہوں نے آئندہ کے لئے اس عزم کا اظہار کیا کہ ماہانہ شندور کی دوبارہ اشاعت کے بعد اس میں چترال اور گلگت بلتستان میں بولی جانے والی تمام مقامی زبانوں کو خصوصی جگہ دی جائے گی۔
.
اس پروگرام سے پلاننگ آفیسر اور کھوار زبان کے ممتاز شاعر الطاف الرحمن رومی نے انتہائی پرمعزز خطاب کیا انہوں نے علم کی طرح زبان و ادب کی ترقی و ترویج کو گلگت بلتستان اور چترال کے نوجوانوں کے لئے ضروری قرار دیا۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستانTagged
30479

بلی کی نیت و تمنا ………. بر ملا اظہار: فدا علی شا ہ غذریؔ

Posted on

کتے اور بلی کو یہ سعادت حا صل ہے کہ دنیا بھر کے انسان انہیں پا لتو جا نور کے طور پر پا لتے ہیں۔ مغرب میں ان کو خا صا پرو ٹو کول دیا جا تا ہے اور مشرق میں بھی ان کو ایک اچھا مقام دیا گیا ہے۔ یہ دو نوں جانور اپنی اپنی صلا حیتوں اور خا صیتوں کے سبب مقبول ہیں۔ کتا ایک وفادار جانور کے طور پر دیکھا جا تا ہے اور جہاں بات وفاداری کی ہو انسان کتے کی مثال دینے پر مجبور ہو جا تا ہے جبکہ بلی بھی انسا نی رغبت کا زیادہ حقدار ٹھہری ہو ئی ہے۔ بلی پر کئی مضا مین، شاعری، محا ورے اور ضرب المثل دنیا کی ہر ادب کا حصہ رہے ہیں۔ غا لباً ایک ہی تھیم کے ضرب الامثال اکثر ہر زبان میں ملتے ہیں۔فا رسی کے نامور شاعر پیر نا صر خسرو کی شاعری میں بلی کی ایک خا صیت بتا ئی گئی ہے جس میں بلی کو اپنے بچوں کا دشمن گر دانا گیا ہے اور دنیا کو اپنے بچے کھا نے والی بلی سے تشبہح دی گئی ہے۔ ہمارے ہاں کھوار میں بھی کئی محاو رے اور ضرب الامثال بلی سے منسوب ہیں۔ فا رسی کے نا صر خسرو اورانگریزی ادب کے ایلن پو بلی سے منسوب جن ضرب الامثال کا ذکر اپنی تحریروں میں کر تے ہیں وہی سوچ اور سچا ئی بلی کے بارے ہمارے ہاں بھی ہر زبانوں میں مو جود ہے۔ کھوار کے ایک ضرب المثل بلی کی دعا اور نیت کے با رے بھی ہے جو اکثر خود غرضی اور فرد واحد کی اپنی ذات کے لئے منفی جدوجہد کو بیان کر تا ہے۔ کہتے ہیں کہ بلی کی نیت ہمیشہ برا ئی کامظہرہے،ٹھاٹ سے گھر میں رہنے والی بلی چا ہتی ہے کہ گھر میں سب لوگ مر جا ئے، بو ڑھی اماں اندھی ہو جا ئے تا کہ وہ اپنی مر ضی سے جب چا ہے دودھ نوش کر سکے۔ اس نیت سے بلی کی اصلییت واضح ہو جا تی ہے لیکن بے چاری کو سمجھ نہیں آتی کہ دودھ الماری تک پہنچا نے میں گھر کے کئی لوگوں کی محنت شا مل ہو تی ہے۔
.
میں گاوں کا رہنے والا ہوں اس لئے گاوں کے بلیوں کو سمجھانے کے لئے گاوں کا ہی مثال دے دیتا ہوں۔ میں اپنی بستی کے لوگوں کواکثر گا ئے بکریوں کے پیچھے خوار ہو تے دیکھ رہا ہوں، وہ صبح نکلتے ہیں شام کو واپس آتے ہیں، گا ئے بکری چرتیں ہیں او ر جب شام کو ددوھ نکا لنے کا مر حلہ آتا ہے گھر کی ما لکن اکثر دودھ نکا لنے کا کام انجام دیتی ہے اور کا فی محنت کے بعد دودھ الماری تک پہنچتا ہے اور وہاں سے بلی سمیت سب کو حسب نصیب مل جا تا ہے۔ اب ذرا ایک منٹ کے لئے سو چیئے گا! بلی کی نیت پوری ہو تی ہے اُ ن کی دعا عرش تک پہنچ کر منظور ہو جا تی ہے، گھر میں سوائے نا بینا اماں کے کو ئی نہیں بچتا اورہر طرف بلی کا راج ہو تا ہے، تو بتا یئے! بلی کی را ج نیتی میں دودھ گا ئے کے بدن سے الماری تک کیسے پہنچے گا؟ بے چاری گا ئے کو گھاس تک لیجا نے، چرا نے اور واپس لا نے کا کام کون انجام دے گا؟ کیا کو ئی ایسا بلا اس بیو قوف بلی کو نصیب ہو گا جو یہ سب مرا حل طے کر کے دودھ اس کے لئے الماری میں رکھ سکے؟
.
ہمارا معا شرہ بھی بلی کی نیت و تمنا کا مظہربن چکا ہے اور ایسے انسانوں سے بھر رہا ہے جو چا ہتے ہیں کہ سب مر جا ئے اُن کا راج ہو،سب محتاج ہو جا ئے اُن کے پاس دولت ہو، سب زیر دست ہو جا ئے اور وہ زبر دست بنے، تمام لوگ اندھیروں کے مکین ہو جبکہ وہ روشنی کا مسا فر، بستی کے مکینوں کی حالت تا ر تار اور چور چور ہو جبکہ صا حب کی جوتوں میں اُن کا چہرہ نظر آئے، ان پڑھ اور جا ہلوں کی جھر مٹ میں وہ ہی چمکے با قی سب کی ماند ہو، ہر محفل میں اُ ن کی آ مد کے طبلے بجے باقی سب سانس لیئے بغیر تا لیاں پٹتے رہے، دو دھ ان کے حصے میں ہی رہے اُ س سے کو ئی غرض نہیں کہ نا بینا دودھ نکا لے یا کانا، نیز زندگی کا ہر میدان صا حب کی کا میا بی کے جھنڈوں سے لبر یز ہو اور ہر طرف اُ نکی جیت ہو با قی سب کی مات۔
.
آرے بھا ئی! اندھوں میں کا نا را جہ بننا کو ئی اہمیت نہیں رکھتا، اہم تو یہ ہے کہ سب نا بینے مل کر با صلا حیت کا نے کو اپنا راجہ ما ننے پر مجبور ہو جا ئے تا کہ معا شرہ انصاف پر مبنی اُ صولوں کا تجر بہ گاہ بن سکے، ہر شخص اپنی بساط میں کچھ کر اور بول سکے، ہر شخص کو یہ حق حا صل ہو کہ وہ کچھ بننے کا خواب دیکھے اور اپنے خوابوں کو شر مندہ تعبیر کرنے کی تگ و دو جا ری رکھے۔ معا شرہ برابری کی بنیاد پر قائم رہ کر تر قی کر سکتا ہے،ہر شخص اپنی ذات میں بے شمار صلا حیتوں کو سنبھال کر مو قع کا متلا شی ہے اور کو ئی کسی سے کم نہیں ہو تا بس ہر ایک کا اپنا وقت ہوتا ہے چمکنے کا، کچھ کر دیکھانے کا، عزت و متا ع کما نے کا، کسی کے کام آنے کا اور کچھ بن کر دیکھا نے کا۔
.
میرے گا وں کی بلیوں کو اب اپنی نیت اور دعا کا لب ولہجہ اور متن تبدیل کر نی ہو گی تا کہ اُ ن کو اُن کے حصے کا دودھ ملتا رہے۔ سب مر جا ئے کی دعا اپنے وجود کے لئے مفید نہیں کیو نکہ بلی کا انحصار انسانوں کی محنت و حر کت پر ہے۔ اور با لکل ا سی طرح بلی کی سوچ کے حامل افراد کو بھی ’ربطِ ملت‘ کے فلسفے کو پروان چڑ ھا نا ہوگا ورنہ بقول اقبال دریا کے دامن میں ہی ’موج‘ مستی کر تا ہے بیرون دریا نہ تو کو ئی موج ہے نہ ہی اُسکا کو ئی کھوج۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
.
یار زندہ صحبت با قی

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
30477

گلگت سے چکدرہ براستہ شندورچترال روڈ کوسی پیک کے متبادل روٹ کے طورپربنایا جائیگا.وزیراعلیٰ

Posted on

پشاور(چترال ٹائمزرپورٹ )‌ وزیراعلی خیبرپختونخوا محمود خان نے کہا ہے کہ صوبے میں کمیونیکیشن نیٹ ورکس و دیگر مواصلات و تعمیرات ،سڑکوں کی تعمیر وبحالی, سیاحتی مقامات کی ترقی اور صنعتی زونز کی تیز تر فعالیت صوبائی حکومت کی اولین ترجیحات کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری صوبے کی ترقی کیلئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے جبکہ موجودہ صوبائی حکومت بیرونی سرمایہ کاری کے فروع اور صوبے میں کاروبار دوست ماحول کو یقینی بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ صوبائی حکومت صوبے بشمول نئے ضم شدہ قبائلی اضلاع میں معاشی انقلاب برپا کرنے کیلئے تمام ممکن اقدامات اٹھا رہی ہے۔انہوں نے واضح کیا ہے کہ صوبائی حکومت کے مفاد عامہ کے تمام تر اقدامات سے عوام کی آگاہی یقینی بنائی جائے گی تاکہ عوام ان اقدامات سے بھرپور استفادہ کر سکے۔
.
ان خیالات کا اظہارانہوں نے وزیراعلی سیکرٹریٹ پشاور میں صوبائی وزیر مواصلات و تعمیرات اکبر ایوب سے ایک ملاقات کے دوران کیا ہے۔ ملاقات میں صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی ، وزیراعلی کے پرنسپل سیکرٹری شہاب علی شاہ، ایم ڈی پی کے ایچ اے اور دیگر حکام بھی موجود تھے۔اس موقع پر وزیراعلی کا کہنا تھا کہ صوبے میں معیشت کے استحکام کیلئے مربوط حکمت عملی وضع کی گئی ہے۔ صنعتی زونز میں سڑکوں کی تعمیر وبحالی اور دیگر تمام سہولیات کی فراہمی ممکن بنائی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ صوبے بھر کے صنعتی زونز کے فعال ہونے سے نہ صرف صوبہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا بلکہ عوام کو روزگار کے وسیع تر مواقع بھی میسر آئیں گے۔ وزیراعلی کا کہنا تھا کہ صوبے کی معیشت کی بہتری کے لئے سیاحت کے شعبے کو تیزی سے فروع دیا جارہا ہے۔ شمالی علاقہ جات میں سیاحتی مقامات کو ڈیولپ کیا جارہاہے۔انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت کی کاوشوں سے گلگت سے چکدرہ براستہ شندور اور چترال روڈ کو سی پیک کے متبادل روٹ کے طو ر پربنایا جائے گا۔ اس روٹ کی تکمیل سے شمالی علاقہ جات میں سیاحت اور تجارت کے شعبے میں بہتری آئے گی جبکہ مقامی افراد کو روزگار بھی میسر آئے گا۔ وزیراعلی نے کہا ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ صوبے کے امن وامان پر بھی توجہ دی جارہی ہے۔ ا نہوں نے کہاکہ صوبہ خیبرپختونخوا بشمول ضم شدہ قبائلی اضلاع میں عوا م اورسکیورٹی اداروں کے تعاون سے امن لوٹ آیا ہے۔ صوبائی حکومت قبائلی اضلاع کی دیرپا ترقی و خوشحالی کے لئے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل ممکن بنا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے افغانستان اور دیگر سنٹرل ایشیائی ممالک کے ساتھ دو طرفہ تجارت کی بہتری کیلئے کوششیں جاری ہیںجس سے علاقائی تعاون ، امن و امان اور دو طرفہ تجارت مزید بہتر ہو گی۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
30405

تندرستی ہزار نعمت ہے…………… بر ملا اظہار: فدا علی شاہ غذریؔ

20 دسمبر 2018 کی رات جب وادی سوات کی وجا ہتوں کو خدا حافظ کہہ کر اسلام آباد کی جا نب رخت سفر با ندھا تو دل اُداس اُداس دھڑک رہا تھا۔ کئی سو چ و تمنا دل کے چاروں گو شوں سے سر اٹھا رہے تھے، کچھ لطیف خیالات سے فر حت محسوس ہورہی تھی جبکہ ان ہی گوشوں سے ما ضی سے منسلک یا دوں کی ڈھیر سے دھواں بھی اُٹھ رہا تھا۔ مینگو رہ کے جدید بازار سے گزر ہوا تو دل مزید اُداسی کی لپیٹ میں رہا کیو نکہ یہ وہی مینگورہ تھا جو مینگاوری کے نام سے سن بلو غت میں اپنے والد محترم سے سن رکھا تھا۔ میرے والد محترم اور گاوں کے بزرگ عما ئدین برا ستہ ہندرپ نالہ وادی کلام سے ہو تے ہو ئے مینگورہ آ یا کر تے تھے وہاں سے سودا سلف لے کر واپس اُسی راستے کئی دنوں کی مسا فت طے کر کے پھنڈر پہنچ جا تے تھے۔ اور میں اُسی منگاوری میں تھا جہاں میرے تا یا جان اور ولد صا حب پہلی بار ٹرک سے واقف ہو ئے تھے جو اُن کو ملتستان سے مینگورہ تک چھت پہ بیٹھا کر لے آیا تھا۔ اُن کی زبا نی جس شہر کا نام سنا تھا ٹھیک ڈھا ئی عشروں کے بعد اُسی شہر میں اُن کا رودادِ سفر مجھے اُداس کر رہا تھا۔
ہماری گاڑی تیزی سے چکدرہ کی جانب دوڑ رہی تھی لیکن میرے تخیل کی پرواز مینگورہ، کلام، ملتستان سے ہو تی ہو ئی ہندرپ نا لے کے دشوار گزار دروں اور راستوں پر جا ری تھی اور میں اپنے گاوں کے اُن بزرگوں کے نقش پا ڈھو نڈ نے میں مصروف تھا جن کو ضرو ریات زندگی اور جغرا فیا ئی پسما ندگی نے اتنی مشکل مسافت طے کر نے پر مجبور کر چکی تھیں۔ آصف صا حب کی آواز سے مجھے جاری سفر کا احساس ہوا تو میں اُن کو اپنے بزرگوں کے اُس سفر کا روداد سنانے لگا اور خوا ہش کا اظہار کیا کہ گر میوں کے دوران میں بھی اسی راستے سے ہو تے ہو ئے وادی ِپھنڈر پہنچ جا وں تا کہ مجھے احساس ہو سکے کہ اتنی طو یل مسافت کے بعد اپنے خاندان کی ضرو ریات زندگی پو ری کر نے کا ہنر کتنا مشکل تھا جو صرف اُ ن بزرگوں کو آتاتھا۔ دوران سفر ہی اپنے ارادے کو سو شل میڈیا کے ذریعے دوستوں کو آگاہ کیا تو کئی احباب نے بھی سفر میں ساتھ ہو نے کی حا می بھر لی، لیکن اللہ تعا لیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا میرا رادہ ادھو رہ رہا اور اگلے دن مجھے بستر سے اُ ٹھنے کی سکت نہیں ہو ئی لاکھ کو شش کے با و جود بھی میرے جسم کا نچلا حصہ ہل نہ سکا۔میرے وجود کیساتھ عر صہ دراز سے منسلک کمر کے مہروں کی شکایت شدت اختیار کر چکی تھی اور مجھے بستر مرگ کے مسا فر بنا نے کی نوید سنا رہی تھی۔ میری آنکھوں میں زندگی فلم کی طرح پیش ہو نے لگی اور میں بے اختیار آسمان کی طرف دیکھ کر اپنی بے بسی کا اظہار کر تے ہو ئے کہنے لگا
ای بے اسپوک چو لینی بے شا ئے آرمانن گا نی
بو غاوا ڈوم چھو ریتائے لوڑاوا بوم پو ریتا ئے
.
یوں ہر آ ئے روز میرے اور درد کے درمیان دو ستی بڑ ھتی ہو گئی، میں اپنی صحت کھو چکا تھا اور بھا ری بھر کم جسم کا بو جھ دوستوں، رشتوں اور عزیزوں کے کندھوں پر آن پڑا تھاجو انہوں نے نہا یت خندہ پیشا نی سے اُ ٹھا تے رہے۔ چار مہینے مجھے بستر نے اپنا لیا اور اسی دوران میرے احباب، رشتے اور خاندان نے میرے حو صلے بڑھا تے رہے اور ددر کو شکست دینے کا گُر سکھا تے رہے۔ میں رب ِ کر یم کا شکر گزار ہوں جس نے میرے خشک رگوں میں دوران خون بحال کر کے مجھے دو بارہ صحت جیسی اہم دولت اور نعمت سے سر فرازکیا۔ میں اپنے اُن تمام دوستوں اور رشتوں کا فر داً فرداً مشکور ہوں جنہوں نے میری خبر گیری کر تے رہے۔ مجھے اپنے بے پناہ محبت رکھنے والے والدین، بھا ئیوں، بہنوں اور خاندان کے ہر فرد پر فخر ہے جو مجھے زندگی کے اس کھٹن مو ڑ پر سہارا بن کر سنبھا لتے رہے، میرے خا ندان کے صبرو استقلال نے بلا آخر آغا خان ہسپتال کرا چی میں درد کو شکست دے کر ایک مر تبہ پھر میرے جسم کو طا قت مہیا کی اور مجھے اپنے پاوں پر دو بارہ کھڑا کر دیئے۔
میں اس درد کا بھی احسان مند ہوں جو مجھے بستر پر روز ایک ہی سبق یا د کرواتا رہا کہ تندرسی ہزار نعمت ہے، یہ درد ہی تھا کہ جس نے مجھے شا عر قر بان علی سالک سے متفق نہ ہو نے کا درس بھی دیا کیونکہ اُن کے نزدیک تندرستی تنگ دستی کے بغیر نعمت ہے جیسے کہ خود لکھتے ہیں؛
تنگ دستی اگر نہ ہو سا لک
تندرسی ہزار نعمت ہے
.
جبکہ میں تندرستی کو دُنیا کی سب سے بڑی دولت و نعمت سمجھنے لگا ہوں اور دنیا کہ اس بڑی حقیقت تک رسا ئی مجھے زندگی کی ۵۳ بہا ریں گزار نے کے بعد بھی نصیب نہیں ہو ئی تھی چند مہینے دردکی رفا قت نے یہ راز اشکا ر کر دی کہ تندرستی ہی اصل نعمت ہے۔ مجھے بفضل اللہ تعا لیٰ تندرستی دو بارہ مل چکی ہے میں اپنے اُن تمام دو ستوں سے معذرت خواہ ہوں کہ اس طویل بیماری اور طبعی آرام کے دوران کچھ وعدے ایفا نہیں ہو سکے،ملا قات نصیب نہیں رہی اور دانستہ اور غیر دانستہ طور پر دو ریاں بھی پیدا ہو ئیں۔ میرے احباب دل بڑا رکھے اور مجھے اپنی غلطیاں
سد ھا رنے کا مو قع عنا یت فر ما ئے تا کہ ایک نئی زندگی کا آغاز نئے جذبوں اور ولولوں سے شروع کی جا سکے۔
یار زندہ صحبت با قی!

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
30392

سیب ٹیچرز گلگت بلتستان کا درینہ مسئلہ حل ہوگیا، گورنراوروزیراعلیٰ کا شکریہ۔۔حاصل خان

Posted on

گلگت(چترال ٹائمزرپورٹ) سیب ٹیچرز گلگت بلتستان کے ریگولرکاکرنے درینہ مسئلہ حل ہوگیااورسمری پر اخری دستخط گورنرگلگت بلتستان نے کردی ہے۔ سیپ ٹیچرز گلگت بلتستان کے ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین حاصل خان کے اپنے اخباری بیان میں SAPٹیچرز 750/-کی ریگولرٹی پروسس مکمل اور سمری پر فائنل سائن کرنے پر گورنر گلگت بلتستان راجہ جلال مقپون، وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حفیظ الرحمن اور تمام ارکان اسمبلی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ ان صاحبان کی انتھک محنت اور کوششوں کی وجہ سے غریب اور لاچار SAPاساتذہ کا مستقبل تاریک ہونے سے بچ گیا ہے اور خاص کر صوبائی حکومت کا یہ شاندار کام پر عوام کی طرف سے پذیرائی ہوئی ہے۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
30360

سید طفیل کی شہادت اور انصاف ……تحریر: شمس الحق نوازش غذری

Posted on

نوجوان گیند کے پیچھے دیوانہ وار دوڑ رہا تھا۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی انہیں ایسے بریک لگا کہ خود انہیں سنبھلنا مشکل ہوا۔ان کے قدموں کی زمین کے ساتھ زوردار رگڑ سے مٹی کی دھول نے تھوڑی دیر کے لئے سموگ کا منظر پیش کیا، دھول چھٹتے ہی وہ مسحور کن مسکراہٹ اور ادب کے ساتھ میری طرف بڑھا اور انتہائی عجز و انکساری سے مصافحہ کے لئے دونوں ہاتھوں کو آگے بڑھایا۔ میری لائف ہسٹری میں ان کے ساتھ میری یہ پہلی ملاقات تھی۔اس وقت ان کے چہرے پر ظرافت اور شرافت نمایاں تھی اور اوپر سے انتہائی شستہ اور خالص چترالی کھوار میں “کیچہ آسوس، تازہ گی شیرا”کے جملے کی مدہم مگر میٹھی آواز میں ادائیگی نے میرے وجود پر رقت طاری کر دیا۔ گفتگو اور گفتار کا انداز کچھ ایسا تھا کہ سنتے رہئے اور سر دھنتے رہئے۔”تھے جام خدایار”کے بعد دلِ با زوق کی آرزو یہی تھی
چھیڑتی جا اس عراقِ دلنشین کے ساز کو
.
لیکن یہ ہماری پہلی مگر دلچسپ ملاقات تھی، ملاقات میں گرمجوشی کی تمام وجوہات کے علاوہ سب سے بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اُن کے والد محترم پروفیسر مولانا سید عبدالجلال بیک وقت میرے اُستاد اور میرے حضرت اباجان مولانا حمایت الحقؒ کے انتہائی قریبی دوست تھے۔وہ روزمرہ کی طرح اس دن بھی غذر کے چند دوستوں کے ساتھ اپنی گلی میں کرکٹ کھیل رہا تھا۔اس وقت ایک طرف اُن کے حُسنِ صبیح اور وجیہ شخصیت تو دوسری طرف اُن کی شائستہ اور ادب العالیہ نے پہلی ملاقات میں ہی دوسری ملاقات کے لئے ترسا دیا۔لیکن اس نوجوان ملاقاتی کے ساتھ ابھی تعلقات کا آغاز ہی نہیں ہوا تھا کہ حیاتِ مستعار کے اختتام کا مرحلہ بھی سر ہوا۔غالباََ ایسے ہی کسی موقع کے لئے شاعر نے کہا ہے
تھا بہت دلچسپ نیرنگ سیراب زندگی
اتنی فرصت ہی نہ پائی جو ٹھہر کے دیکھتے
.
پھر جب بھی میں نے اُسے کرکٹ کھیلتے ہوئے دیکھا تو وہ فیلڈنگ میں بہت کم ہی نظر آیا۔میں نے اکثر اُسے کرکٹ کی ”کریز“ پر ڈٹا ہوا پایا۔کرکٹ کے راز و رموز سے گہری شغف رکھنے والوں کا کہنا ہے۔اچھا بیٹسمین وہ نہیں ہوتا جو زیادہ چوکے اور چھکے مارتا ہے بلکہ اچھا بلے باز وہ ہوتا ہے جو زیادہ دیر تک وکٹ پر قائم رہتا ہے اور استقامت کے ساتھ وکٹ میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔اس لئے دور اندیش کہتے ہیں دُنیا میں کامیاب لوگ وہ ہیں جو دنیا میں پیش آنے والے حادثات کو ”بلے باز“ کی طرح دیکھتے ہیں۔وہ اپنی طرف آنے والی گیندوں کو روکتے ہیں۔سید طفیل الرحمن شہید نے بھی اسلامک یونیورسٹی کے گیٹ میں کرکٹ کے کریز کی طرح ڈٹا رہا۔اور جمعیت کے کُتب میلہ پر حملہ آوروں کو لوز بال کی طرح چوکے اور چھکے مارتا رہا۔یہ کرایے کے غنڈے ایک دن پہلے بھی جمعیت کے طالبات کے پروگرام کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کیے تھے لیکن یہاں جب تک طفیل کے بدل میں روح باقی تھا۔تب تک وہ مسلح غنڈوں کی راہ میں سیسہ پلائی دیوار بنا رہا۔رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد بننے کا درس صغر سنی میں انہیں اُس وقت ملا تھا جب وہ بوتل پی رہا تھا اور جومدرس انھیں شب و روز درسِ شہادت سے نواز رہا تھا۔ااس مدرس کو بھی اللہ تعالیٰ نے شیخ الحدیث مولانا عبدالرحیم چترالی اور مولانا عبدالحق قادری جیسے آساطین علم اور آفتاب زمانہ سے بھرپور استفادہ کی سعادت سے نوازا تھا۔۔۔۔جی ہاں! وہی مولانا عبدالرحیم چترالی جو آج سے تقریباََ کوئی22سال پہلے شندور میں وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے سامنے سپاسنامہ پیش کرنا چاہ رہے تھے۔چترال کے منتخب نمائندے کی حیثیت سے سپاسنامہ پیش کرنا اُن کا آئنی اور قانونی حق تھا۔لیکن اُس وقت کے صوبہ سرحد اور اِس وقت کے خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلیٰ مولانا مرحوم کو اس جُرم میں سپاسنامہ پیش کرنے سے روکنا چاہ رہے تھے کہ ان کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا اور ردِ عمل میں مولانا چترالی آفتاب احمد شیر پاؤ کے ریشمی بالوں کو کھینچ کر اُن کے چہرے پر زوردار تھپڑ اس لئے ریسد کر رہے تھے کہ اُن سے اُن کا یہ قانونی اور آئینی حق دُنیا کی کوئی طاقت چھین نہیں سکتی۔ اور آج بھی کوہِ ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں میں سے اُسی تھپڑ کے آواز کی صدائے باز گشت اس لئے سنائی دے رہی ہے کہ ظالم کے سامنے کلمہئ حق کہنا جہاد ہے تو ظالم پروار کرنا جہادِ اکبر ہے
.
سید طفیل الرحمن پر بزدلوں نے گیٹ کے عقب سے چُھپ کر اینٹ سے وار کردیا۔دراصل یہ اینٹ، اینٹ نہیں اور یہ دہشت گردوں کا ہتھیار بھی نہیں بلکہ یہ سید طفیل کا وہ آرزو اور وہ خواہش تھی جس کے حصول کے لئے وہ شعور کی سرحد پر قدم رکھتے ہی ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے تھے کیونکہ انھیں آنکھ کھولتے ہی شہادت سے سرفرازی کا درس ملا تھا اُن کا پہلا اور آخری آرزو بھی یہی تھا۔انھوں نے دُنیاوی تمام تقاضوں کو ضرورت اور شہادت کو مقصد کا درجہ دے رکھا تھا۔یہ اُن کی اصل منزل تھی اس منزل کا انہیں بچپن سے تلاش تھی۔12دسمبر کی سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی اُن کو اُن کی آخری منزل مل چکی تھی۔دُنیا والوں کا خیال ہے وہ اب زندہ نہیں لیکن رب العالمین کا اعلان ہے”بَل احیاء“ وہ زندہ ہے لیکن اہلِ دُنیا کو اس کا شعور نہیں۔
.
دُنیا میں ایسے بچے خوش نصیبی اور خوش قسمتی کا ہار گلے میں ڈال کر جنم پاتے ہیں جو بہنوں اور بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہوتے ہیں۔پاکستان کے شمالی سماج میں والدین اور تمام بہن بھائیوں کی محبتوں اور شفقتوں کا مرکز عموماََ چھوٹا بھائی یا چھوٹی بہن ہوتی ہے یہاں خوش طالع اور اچھی تقدیر والے تمام بہن بھائیوں میں سب سے آخر میں جنم پاتے ہیں اور سید طفیل الرحمن کا نام بھی اُن خوش نصیبوں کی فہرست میں شامل تھا۔جن کی سب سے آخر میں آفرینش ہوئی تھی۔یہی وجہ ہے طفیل دُنیا میں آنکھ کھولتے ہی سب کی محبتوں کا آمین اور سب کی شفقتوں کا مرکز ٹھہرا، بچپن میں اُن کی معصوم اداؤں اور اُن کے حُسن و دلکشی کے سبب گھر میں انھیں نیوکلس کا درجہ حاصل تھا۔
.
وہ زندگی کے حسین ترین رنگوں سے بھرپور تھا بلکہ وہ شرافت و شائستگی اور خدمت سے بھی لبریز تھا۔اُن کی جہانِ فانی سے اُٹھ جانے کے بعد میں فیس بُک میں جب اُن کی تصاویر دیکھتا رہا تو وہ ہر تصویر میں مسکرا رہا تھا۔اِن تصویروں کو دیکھ کر ہر انسانی آنکھ سے آنسوؤں کا چھلکنا فطری تھا یوں میرے پورے بدل سے آنسو برستے رہے۔اس انجہانی کیفیت میں، میں نے اُن کی تصویر سے کہا تم واپس آجاؤ۔ انہی تصویروں سے آواز اائی۔اس شاہراہ پرجب بھی کسی نے قدم رکھا ہے وہ کبھی واپس آیا ہے اور نہ کبھی واپس آئے گا۔میں تو شہادت کا پیراہن اوڑھ کر جنت کی طرف عازمِ سفر ہوں، جہاں حوروں کا ہجوم میری پیشوائی کے لئے بیتاب ہے۔
.
سید طفیل الرحمن کا وطن عزیز کے بائیس کروڑ عوام سے سوال ہے۔میرا جُرم کیا تھا ور مجھ سے کس جُرم کی پاداش میں جینے کا حق چھینا گیا۔دُنیا میں کیمیائی، بارودی اور ایٹمی ہتھیاروں کی د وڑ میں کتابوں کی نمائش کیا اتنا سنگین جُرم ہے۔کیا علاقائیت اور لسانیت کے مقابلے میں پاکستانیت کا نعرہ لگانے والے پاکستان کے دارالحکومت میں بھی محفوظ نہیں ہیں؟ اس وقت لسانیت کے نام پر جو لوگ پاکستان کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں اُن کے مذموم عزائم سے میرزہ غالب آج سے کئی سو سال پہلے واقف تھے۔کہنے والے کہتے ہیں ”غالب انگریزوں کی سازش بھانپنے والا پہلا شخص تھا وہ کہتا تھا انگریز برصغیر کو زبان کی بنیاد پر تقسیم کرے گا۔وہ مسلمانوں کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کو اردو اور ہندؤں کی بولی کو ہندی کہے گا۔غالب کہتا تھا مجھے سمجھ نہیں آتی زبان ہندو یا مسلمان کیسے ہوسکتی ہے۔زبان تو صرف زبان ہوتی ہے۔یہ تو بالکل ایسے ہے جیسے مسلمانوں کی بھینس مسلمان اور ہندؤں کی ہندو، آج انگریز تو موجود نہیں لیکن اُن کے حواری لسانیت اور علاقائیت کے بتوں کی تعمیرمیں انگریزوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔لسانیت کے نام پر عصبیت کے بتوں کی معماران کے کرتوتوں سے زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لئے سرگرداں دانشور اور ادیب یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ زبانوں کی ترقی کے عمل کے نتیجے میں اگر ”ٹکراؤ“ مقدر ہے تو پھر زبانیں لاکھ معدوم ہوجائیں لیکن انسانوں کا انسانوں کے ساتھ زبان اور لسانیت کے نام پر بغض و عداوت نہ ہو۔
.
یہاں انتہائی جنیوئین سوال کا اصل پہلو یہ ہے کہ شہید طفیل الرحمن کے والدین کو اس بات کا دُکھ اور ملال نہیں کہ اُن کی مفارقت ابدی ہے بلکہ یہ رنج وغم اُن کے صدمے اور غم کو غم فزا بناتا جا رہا ہے کہ جس طرح سید طفیل کے سفاک قاتلوں نے عقب میں روپوش ہوکر اُن کا خون کردیا کہیں یہ خونخوار قانون کی نظروں سے بھی اپنی کمین گاہوں کے عقب میں چُھپ کر روپوش تو نہیں ہونگے۔طفیل کے خون سے رنگین درندہ صفت ہاتھوں میں کہیں معصومیت کے دستانے تو نہیں چڑھیں گے۔طفیل کے قاتل کہیں مہذب طالب علم کا ماسک اپنے منحوس چہرے میں چڑھا کر اسلامک یونیورسٹی میں دھندناتے تو نہیں پھریں گے۔
.
انصاف یہ نہیں۔۔۔کہ اس جانکاہ حادثے کی صرف مذمت کی جائے۔انصاف یہ نہیں کہ روایتی احتجاج کے بعد یہ حادثہ قصہ پارینہ بن جائے انصاف یہ نہیں کہ حکمران صرف اور صرف دُکھ اور افسوس کا اظہار کریں انصاف یہ ہے کہ شفی القلب قاتلوں کو ایک نہ ایک دن سرِ شام مقفل زندان کے سلاخوں کے پیچھے سے اُن کی ورثاء سے آخری ملاقات ہو۔انصاف تو یہ ہے ایک نہ ایک دن اُن کے قدموں تلے پھانسی کا تختہ گلے میں پھانسی کا پھندا اور سامنے کوئی جلاد مسیح کھڑا ہو۔
.
آخر میں کھوار کے ممتاز شاعر حسن بصری کے ان اشعار سے اجازت

تہ حَسن دست بہ دُعا نصیب لوٹ مقام تتے بائے
حساب کتابار پروشٹی جنتو پیغام تتے بائے
گیانی حوران تتے پروشٹ وا ہیتان سلام تتے بائے
تو بیکو سف روئے رینیان وفو ای کردار راہی ہوئے
نو نسائے ھردی پھتی مہ ھردیو یار راہی ہوئے

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
30358

اے.کے.ایچ.ایس.پی کے زیراہتمام کمیونٹی مڈوائفوں‌کیلئے ہیلتھ ورکشاپ کا انعقاد

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) آغا خان ہیلتھ سروس پاکستان کے ایکسس(AQCESS) پراجیکٹ کے تحت کمیونٹی مڈ وائفوں کے لئے منعقدہ موبائل ہیلتھ ورکشاپ میں بتایاگیا کہ جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے ضلعے کے دوردراز علاقوں میں حاملہ خواتین تک تربیت یافتہ دائیوں کی رسائی اور ان کو علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی اس ادارے کی ہیلتھ سیکٹر میں جدت پسندی کی علامت ہے جس کے بہترین نتائج برامد ہورہے ہیں اور حاملہ خواتین اور زچہ وبچہ کی شرح اموات میں نمایاں کمی آئی ہے۔ چترال بھر سے آئے ہوئے مڈوائفوں کے لئے منعقدہ اس موبائل ورکشاپ کا اعراض ومقاصد بیان کرتے ہوئے اے کے ایچ ایس کے ریجنل منیجر معراج الدین نے کہاکہ یہ ادارہ 1962سے چترال میں صحت کے شعبے میں خدمات انجام دے رہی ہے جس کے ساتھ اس وقت 4ہسپتال اور 30بیسک ہیلتھ سنٹرز کام کررہے ہیں جوکہ دو لاکھ آبادی کو براہ راست ہیلتھ کیر سروس دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ رسائی، ہیلتھ کیر سروس میں کوالٹی اور ادارتی استحکام اس ادارے کے تین بنیادی مقاصد ہیں جبکہ چترال کی مخصوص جعرافئیے کے پیش نظر رسائی ایک اہم مسئلہ رہا ہے جس پر ادارے نے خصوصی توجہ دی۔ انہوں نے کہاکہ گورنمنٹ آف کینیڈا کی مالی معاونت اور آغا خان فاونڈیشن کی مدد سے ایکسس پراجیکٹ کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے اقدامات کئے گئے اور کمیونٹی مڈوائفوں کی تقرری اور تربیت کے ساتھ ساتھ ان کو موبائل فون پر مخصوص ایپ کی فراہمی اس پراجیکٹ کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ چترال بھر سے ایسے مڈوائفوں کو اس ورکشاپ میں ایک جگہ جمع ہونے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ اس موقع پر لویر چترال کے شیعہ اسماعیلی کونسل کے صدر ڈاکٹر ریاض حسین صدر محفل تھے جبکہ محکمہ صحت چترال کے ہیلتھ ورکرز پروگرام کے کوارڈینیٹر ڈاکٹر سلیم سیف اللہ خان مہمان خصوصی تھے۔ ڈاکٹر ریاض حسین نے ہیلتھ کیر میں مقدار کی بجائے معیار پر زور دیتے ہوئے کہاکہ موبائل ہیلتھ پراجیکٹ میں بہتری لانے کے مڈوائفوں پرمشتمل ورک فورس کی عملی تجربات سے استفادہ کیا جائے اور انہیں اپنے تجربات بیان کا موقع دیا جانا چاہئے۔ ڈاکٹر سلیم سیف اللہ نے اے کے ایچ ایس کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہاکہ یہ ادارہ حکومت کا ممد ومعاون ہے اور دوردراز علاقوں میں علاج معالجے کی معیاری سہولیات کی فراہمی انتہائی مشکل کام ہے جسے یہ بخوبی نبھارہے ہیں۔ڈسٹرکٹ ای پی آئی کوارڈینیٹر ڈاکٹر فیاض رومی نے موبائل ہیلتھ پراجیکٹ کو نہایت سودمند اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ قرار دیتے ہوئے اس بات پر بھی زوردیاکہ فیلڈ میں حاصل ہونے والے ڈیٹا کو محکمہ صحت کے ساتھ شیئر کئے جائیں جس سے حکومت کو پلاننگ میں مددملے گی۔ اس سے قبل اے کے ایچ ایس کے منیجرز قدر النساء، نصرت جہان اور انور بیگ نے ایکسس پراجیکٹ اور خصوصی طور پر موبائل ہیلتھ کے حوالے سے نگہداشت پروگرام کی تفصیلات بیان کی۔ آغا خان ایجنسی فار ہبیٹاٹ کے ریجنل پروگرام امیر محمد خان اور آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے منیجر امتیاز احمد بھی اس موقع پر موجود تھے۔ اس موقع پر ادارے کی طرف سے مہمانوں کو سوینئر پیش کئے گئے۔
akhsp aqcess project midwifes workshops chitral 3

akhsp aqcess project midwifes workshops chitral 1

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
30344

جنرل پرویزمشرف کے حق میں مستوج اورگرم چشمہ ریلی اورجلسہ

مستوج/ گرم چشمہ (نمائندگان چترال ٹائمز)‌ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ اظہار یکجہتی کے سلسلے میں‌مستوج خاص ریلی اورجلسہ کا انعقاد کیا گیاہے. جس میں‌مختلف مکاتب فکرنے کثیرتعداد میں شرکت کی. جلسہ سے ظفرعلی خان، قاضی علی مراد، عبدالرحمن ودیگر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنرل مشرف محسن چترال اور محسن پاکستان ہیں انھوںنے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایاہے وہ کسی صورت غدار نہیں ہوسکتا لہذخصوصی عدالت اپنے فیصلے پر نظرثانی فرمائیں. مقرریں‌نے کہاہے کہ جنرل پرویز مشرف نے مستوج آرسی سی پل، مستوج سے گلگت تک سڑک کے علاوہ چترال کیلئے موت و حیات کا مسئلہ لواری ٹنل کی کھول کرہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے . ہم اُس کے احسانات فراموش نہیں‌کرسکتے . جلسہ میں شرکاء بینرز اورپلے کارڈ اُٹھارکھے تھے جس میں جنرل مشرف کے حق میں نعرے درج تھے.

اسی طرح کا ایک اورجلسہ تحصیل لوٹکوہ کے مرکزی مقام گرم چشمہ میں‌منعقد ہوا. جس میں سردی کے باوجود کثیرتعداد میں لوگوں‌نے شرکت کی. جلسہ سے پہلے ایک ریلی نکالی گئی جوبازار سے ہوتے ہوئے پولوگراونڈ میں جلسہ کی شکل اختیارکی. جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مقرریں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی کہ جنرل مشرف کے خلاف فیصلہ پر نظر ثانی کی جائے. وہ کبھی بھی غدار نہیں‌ہوسکتے انھوں نے چالیس سال پاکستان کی خدمت کی ہے . انھوں‌نے کہا کہ جنرل مشرف کا چترال کے عوام ساتھ خصوصی ہمدری اورمحبت تھی . یہی وجہ ہے کہ دنیا بھرمیں انھوں نے چترالیوں‌کو اچھے القاب سے پکارا اورہمیں‌محبت دی.
general pervez musharaf jalsa chitral mastuj 4
general pervez musharaf jalsa chitral mastuj 2 1

general pervez musharaf jalsa chitral mastuj 2

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
30262

چند خاطرات دل…………. تحریر: امیرجان حقانی

Posted on

الحمداللہ! مجھے روز کچھ اچھا پڑھنے کو ملتا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کچھ نہ کچھ لکھنے کی کو شش کرتا رہتا ہوں. آج کی محفل میں کچھ خاطرات دل پیش خدمت ہیں. امید ہے آپ پسند فرمائیں گے. ملاحظہ ہو.
.
1.ہمہ گیر پیغام
قوم کے سامنے ایک ہمہ گیر اور ٹھوس پیغام موجود نہیں، اس لیے قوم کا اختلاف اور انتشار میں غلطاں ہونا فطری بات ہے. اور بدقسمتی سے اسلام کا آفاقی پیغام اور بنیادی تعلیمات بھی ٹھوس، جامع اور سہل انداز میں پیش کرنے کا نظم موجود نہیں.
مسیحت جس انداز میں تنظیمی(سسٹمیٹکلی) طور پر منظم ہے، اسی انداز میں فکری طور پر لاورث ہے مگر مہذب انداز میں چھایا ہوا ہے. مغرب اپنی تہذیب کو مسیحیت کا لبادہ پہنا کر گھر گھر پہنچا رہا ہے. بہترین تنظیم اور جدید ٹیکنیک کیساتھ.
اور اسلام جس انداز میں فکری اور دلائل و براہین کے ساتھ مزین ہے اسی لیول پر مسلمان تنظیمی اور تیکنیکی طور پر کمزور ترین پوزیشن میں ہیں. جس کا لازمی نتیجہ قوم کا اسلام سے دوری اور فروعی اختلافات میں الجھنا ہے.اور الحاد کی طرف بڑھنا ہے.
کاش کہ کوئی اسلام کا ہمہ گیر پیغام منظم و مربوط انداز میں قوم کے سامنے پیش کرتا.
صرف کلمہ پڑھ کر رسول اللہ کی حرمت پر جان نچھاور کرنے والی قوم کے سامنے پوری سیرت پیش کی جاتی تو قوم کا مورال کیا ہوتا، اور فکری اور علمی بلندی کیساتھ عملی دنیا میں کہاں پہنچی ہوتی کوئی اندازہ کرسکتا ہے؟.
.
2.ہیروز
ہماری بدقسمتی دیکھیں کہ ہر لڑنے اور انسانوں کا استیصال کرنے والا ہمارا ہیرو بن جاتا ہے. 1857سے آج تک کے تمام لڑاکو اور جنگیں کرنے والے لوگ ہمارے ہیروز ہیں.پاکستان اور گلگت بلتستان میں بھی وہی لوگ ہی ہیروز ہیں جو بہر صورت جنگجو تھے.ان کی تاریخ لکھی جاچکی ہے اور انہیں ہر سال مختلف شکلوں میں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے.
مجھے سخت حیرت ان لوگوں پر بھی ہے جن کو روز سماجی خدمات اور تعلیمی ترویج پر فرامین ملتے ہیں.ان کی پہچان ہی سماجی ایکٹیویٹیز اور تعلیمی سرگرمیاں ہیں مگر انہوں نے بھی ایک کمانڈو کو ہیرو مان لیا ہے..تاریخ یہی بتاتی ہے کہ لڑنے والے افراد، قومیں اور ریاستیں بہر حال اپنا عروج کھو بیٹھی ہیں.
ڈاکٹر عبدالقدیر خان، حکیم سعید، عبدالستار ایدھی، طارق جمیل اور بابا چلاسی جیسے لوگ ہمارے ہیرو نہ بن سکے.
.
3.مواقع خود پیدا کیجے
.
ملٹن نے کہا تھا
If opportunity doesn’t knock, build a door.
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھنے سے کامیابی نہیں ملتی. اگر آپ کو کامیاب ہونے اور آگے بڑھنے کے مواقع میسر نہیں ہیں، تو کوئی بات نہیں. آپ اپنی ویلیو اتنی بڑھا دیں، کہ مواقع خود آپ کو ڈھونڈتے پھریں.
کامیابی تب دروازے پر دستک دے گی جب آپ کا کوئی دروازہ ہوگا تو.بصورت دیگر مواقع اور کامیابی نئی نویلی دلہن کی طرح ہوتی ہیں کہ نہ آسانی سے گھونگٹ سرکاتی اور نہ ہے دستک دے کر آپ کو جگاتی، نہ ہی آسانی سے دروازے کی کنڈی اوپن کرتی.وہ منتظر رہتی مگر شرماتی للجاتی.
میاں رونے دھونے سے بہتر یہی ہے کہ گھونگٹ بھی خود سرکا دو، دستک بھی خود دے دو اور کنڈی پر بھی ہاتھ مارو، پھر دیکھنا کہ نئی نویلی دلہن کی طرح کامیابی آپ کے بانہوں میں کیسے گرتی ہے.
مواقع اور کامیابیاں بس آپ سے دو قدم کے فاصلے پر شرماتے ہوئے آپ کا شدت سے منتظر ہیں..کاش کہ تم اس کی طرح بڑھو اور باریک دوپٹہ سرکا کر ایک ترچھی نظر مارو اور پھر کامیاب ہوتے چلے جاو.
.
4.لوگ کیا کہیں گے:
.
دیپاک چوپڑا نے کہا تھا
What people think of you is none of your business.
مجھے گزشتہ دس سال یہ جملے ہزار بار سننے کو ملےہیں. کہ
آپ یہ کیا کررہے ہیں؟
کس سمت کا تعین کیا ہے؟
لوگ کیا کہیں گے؟
زمانے میں پنپنے کا یہ کیا اسٹائل اپنا رکھا ہے؟
آپ کا پس منظر یہ نہیں.
آپ اپنی پہچان کھو رہے ہو.
صاحب بھٹک گئے ہو.
آپ سے یہ امید نہیں تھی.
اس طرح کے ملے جلے الفاظ نے ہمیشہ میرا راستہ کاٹنے کی کوشش کی مگر دفعتا میں نے ان الفاظ سے اپنی جان چھڑا دی اور آگے چل دیا.
صاحب اگر آپ کا بھی کوئی وژن ہے.
کوئی ٹارگٹ طے کیا ہے.
کوئی منزل متعین ہے.
کوئی ھدف مقرر ہے.
تو جانے دیں ان سب باتوں کو جو لوگ کہیں گے.
بس آگے بڑھیے!
دیکھ لینا کل یہی سارے لوگ اپنے بچوں کو آپکے نشانات بتائیں گے.
یہ آپ کا کام نہیں کہ لوگ آپ کے متعلق کیا خیال کرتے ہیں. آپ کا کام یہ ہے کہ اپنے کام سے کام لیں. پھر آپ نہیں آپ کا کام آپ کی پہچان بن جائے گا.
.
5.آپ تیار تو ہوجائیں:
گوتھم بودھا نے کہا تھا:
When the student is ready, the teacher will appear.
ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم پڑھنے کے لیے تیار ہی نہیں مگر ہم چاہتے ہیں کہ استاد سب گھول کر دماغ میں انڈیل دے. صاحب ایسا نہیں ہوتا. آپ پیاسا تو بن جاؤ، پھر آپ کو کنواں تلاشنا ہوگا. یہ نہیں ہوتا کہ کنواں آٹھ کھڑا ہوجائے اور تمہیں تلاشتا پھرے.المیہ یہ رہا کہ استاد کو ملازم تصور کیا گیا ہے. ملازم سے توقع نہیں کی جاسکتی.وہ علم ووفن نہیں بانٹ سکتا بلکہ ملازمت کرلیتا ہے.
آپ استاد کی عزت نفس بحال کیجے.یہ جان لیجے کہ آپ کا بچہ سب سے زیادہ انسپائریشن استاد سے لیتا ہے. استاد خود کو ملازم جانے اور مسائل کا دکھڑا سنا دے تو پھر طالب علم کھبی بھی کامیابی کے گُر استاد سے حاصل نہیں کرسکے گا. اگر بچہ عزیز ہے تو استاد کا مورال بلند کیجے. پھر بچے کی اپروچ از خود کمال کی ہوگی.
.
6.جی بی طلبہ احتجاج اور ناعاقبت اندیشی
انتہائی ناعاقبت اندیشی کے ساتھ ہائی سکینڈری بورڈ، فیڈرل منتقل کردیا گیا.ملا ہوا اختیار واپس کرنا نااہلی اور نالائقی کی بدترین مثال ہے.جس جس نے اس میں کردار ادا کیا ہے اس نے علاقے کیساتھ شدید غداری کی ہے.
سالانہ کروڈوں کے حساب سے جی بی کا پیسہ وفاق منتقل ہورہا ہے.
کے آئی یو کے چند ناہنجاروں کا منحوس کردار اور کچھ باہر کے لوگوں کے ذاتی مفادات اپنی جگہ، مگر اس میں اصلاح کی مکمل گنجائش تھی.منحوس کردار اور ذاتی مفاد کو بنیاد بناکر قومی مفادات کا استیصال نہیں کیا جاسکتا ہے.
سچ یہی ہے کہ پری پلاننگ کے مطابق بورڈ منتقل کردیا گیا ہے جس سے علاقے کا سالانہ کروڈوں کے نقصان سمیت طلبہ و طالبات اور سرپرستوں کی خجل خواری الگ ہے.
.
اب خاموشی سے ماحول بنایا جارہا ہے کہ جی بی کالجز میں بی ایس پروگراموں کی ایفیلی ایشن بھی کے آئی یو کے سوا کہیں اور کی جائے.جس کی مد میں بھی سالانہ کرڈوں روپیہ کہی اور منتقل ہوگا. یہ بھی علاقے سے غداری کے سوا کچھ نہیں.
بورڈ منتقلی کے آفٹر شاکس شروع ہوچکے ہیں. کے آئی یو جی بی ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کا پانچ کروڈ بجٹ ہضم کرکے بھی طلبہ کو فیسوں میں ریلیف نہ دے پارہی ہے.طلبہ احتجاج کناں ہے.سخت قسم کے نعرے لگ رہے ہیں. جگہ جگہ احتجاجی مناظر دیکھنے کو ملے ہیں.نوجوان بپھر چکے ہیں.ان کو روکنا اب مشکل ہوتا جارہا ہے. ایوان صدر تک آواز اور احتجاج پہنچ چکی ہے.
.
ان لوگوں کو نوٹ کرنا چاہیے جن کو مقتدرہ یا اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے کہ بورڈ منتقلی کے بعد بی ایس پروگراموں کی ایفیلی ایشن بھی کہیں اور کردی گئی تو پھر تعلیمی اداروں کا اللہ حافظ ہے. کے آئی یو کے ساتھ کالجز بھی دیوالیہ ہونگے.اور قوم کو اربوں کا ٹیکہ سالانہ لگتا رہے گا.
علاقائی رقم یہاں پر ہی گھوم رہی تھی، کسی اور جگہ منتقل ہوتی رہے گی.
.
حافظ حفیظ الرحمان صاحب اور اس کی ٹیم پر لازم ہے کہ جی بی کا تعلیمی سسٹم بچانے کے لیے ہنگامی طور پر قانون سازی کریں.کالجز کی ایفیلی ایشن اور آزاد بورڈ کے حوالہ سے ایکٹ آنا بہت ضروری ہے. فی الحال وفاق بجٹ نہیں بھی دیتا ہے تو بھی اپنے ذرائع اور آمدن سے آزاد بورڈ کے لیے ایکٹ لانے اور اس کی روشنی میں فوری بورڈ کا قیام ضروری ہے.
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
30236

جنرل (ر) پرویزمشرف کے حق میں بونی اور ہرچین لاسپورویلی میں جلسہ اورریلی

بونی /مستوج(نمائندگان چترال ٹائمز ) اپر چترال کے ہیڈکوارٹر بونی میں جنرل پرویز مشرف کی حمایت میں ایک پرآمن جلسہ منعقد کیا گیا. یہ جلسہ ظہیر الدین بابر کی کال پر منعقد ہوا۔ جلسے کی صدارت سلطان نگاہ نے کی۔ جس میں مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں کے عہدیداران اور بڑی تعداد میں عوام نے شرکت کی۔
.
مقررین میں شاہ وزیر لال، سابق چیئرمین فضل الرحمان، سلطان امیر چارویلو، ظہیر الدین بابر، محمد شافی صدر بازار یونین بونی، عزیز محمد موردیر وغیرہ شامل تھے۔
.
مقررین نے سابق صدر پرویز مشرف کی خدمات اور خصوصاً چترال کے لیے اہم خدمات پر روشنی ڈالی۔ مشرف کی خدمات چترال کے حوالے سے تا قیامت سنہری حروف سے لکھے جائیں گے۔ اور چترالی عوام جنرل پرویز مشرف کی خدمات و احسانات کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔
انھوں نے حکومت اور چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی کہ اس فیصلےپرنظرثانی کی جائے. بصورت دیگر اپر چترال کے عوام مشرف سے پہلے تختہ دار پر چڑھنے کیلئے تیار ہونگے۔
…..
دریں‌اثنا لاسپورویلی کے مرکزی مقام ہرچین میں‌ بھی جنرل پرویزمشرف کے ساتھ اظہاریکجتی کے طور پر ریلی نکالی گئی . انتہائی سردی اوربرف باری کے باوجود ریلی میں‌مختلف مکاتب فکرکے سینکڑوں‌افراد نے شرکت کی.

مقرریں نے کہا کہ جنرل پرویزمشرف کبھی بھی غدارنہیں‌ہوسکتے . ان کے دورحکومت میں پاکستان میں‌خوشحالی تھی. اورخصوصی طور پر چترال اورگلگت بلتستان کے لوگوں‌ کے ساتھ انکی دلی محبت کسی سے ڈھکی چپھی نہیں‌ہے. انھوں نے کہا کہ چترال کے عوام جنرل پرویز مشرف کے دورحکومت میں‌ خودکوپاکستانی کہنے کے قابل ہوئے جبکہ ان کی حکومت سے پہلے ہم سال کے چھ چھ مہینے ملک کے دوسرے حصوں‌سے کٹے رہتے تھے. انھوں نے کہاکہ ان کے بعد کی جمہوری حکومتوں‌سے پرویز مشرف کی ڈیکٹیٹرشپ میں ملک اورعلاقے میں‌خوشحالی تھی. انھوں نے گلگت اورچترال کےدرمیان پختہ سڑک تعیمرکرکے دونوں‌علاقوں‌کو سال بھرکیلئے ایک ساتھ ملایا. مشرف ہی کے دور میں گلگت سے مستوج کے درمیان نیٹکو بس سروس شروع ہوئی جس سے دونوں‌علاقوں‌کے عوام ابتک استفادہ کررہے ہیں. انھوں نے مذید کہا کہ پرویز مشرف واحد حکمران ہیں‌جنھوںنے دنیا میں چترالی عوام کو تہذیب یافتہ اورمثالی قراردیا ہے. جس پر ہم اس کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں‌کرینگے. مقرریں نے چیف جسٹس آف پاکستان اورصدرپاکستان سے خصوصی عدالت کےحکم پر نظرثانی کا مطالبہ کیا.

جلسہ میں‌شریک درجنوں‌افراد نے پرویز مشرف کی جگہ پھانسی چڑھنے کیلئے خود کو پیش کئے.
musharaf solidarity rally booni harchine mastuj 2

musharaf solidarity rally booni harchine mastuj 5
musharaf solidarity rally booni harchine mastuj 8

musharaf solidarity rally booni harchine mastuj 4

musharaf solidarity rally booni harchine mastuj 7

musharaf solidarity rally booni harchine mastuj 3

musharaf solidarity rally booni harchine mastuj 1

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
30122

پاک فوج ہم شرمندہ ہیں………..عبدالکریم کریمی

Posted on

جب سے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف صاحب کو سزائے موت سنائی گئی ہے تب سے دل بہت افسردہ ہے۔ خود کو انسان کہتے ہوئے بھی شرم محسوس ہو رہی ہے۔ نہیں معلوم ہم کس بے حسی کا شکار ہیں کہ اپنے محسنوں کو غدارِ وطن کہتے ہوئے تھوڑی سی بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ جو بندہ پاک فوج کا سالار رہا ہو، جس نے چالیس سال پاک دھرتی کی مٹی کی حفاظت کی ہو، جس نے بفسِ نفیس کئی جنگیں لڑی ہوں اور ہاں جو پاکستان کا ایک عرصے سے آئینی سربراہ رہ چکا ہو، وہ غدار کیسے ہوسکتا ہے۔ ہم بحیثیت مسلمان دُنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ ہم تو اس نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت ہیں کہ وہ بیماری کی حالت میں اپنے دشمن کی بھی عیادت کیا کرتے تھے۔ نہیں معلوم ہمیں کس پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ ایک بیمار شخص کو سزائے موت بھی سناتے ہیں، اور شرم و حیا کی حدوں کو پار کرتے ہوئے یہ ریمارکس بھی دیتے ہیں کہ وہ بیماری کی حالت میں مر گیا تو اس کی لاش ڈی چوک پر تین دن تک لٹکایا جائے۔ مجھے معاف کر دیجئیے گا کہ ہم اس نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امتی ہیں کہ جس نے دشمن کی لاش کی بھی توہین کی اجازت نہیں دی تھی۔ مشرف کے لیے توقع تو یہ تھی کہ پوری قوم نماز جمعہ کے بعد ان کی صحت یابی کے لیے دعا کرتی، دنیا کو یہ بتاتی کہ ہمارے اندرونی اختلافات اپنی جگہ لیکن ہم بقول قرآن نفسِ واحدہ کی تفسیر ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔ بھلا ایسا کیوں کر ہو انہوں نے آئین جو تھوڈا۔ کاش! ہم تاریخ اسلام ہی پڑھتے۔ جہاں شریعت محمدیؐ میں تبدیلی یا ترمیم ہوسکتی ہے تو وہاں آئین میں ترمیم کونسا جرم ہے۔ دوسرا خلیفہ راشد کا دور ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شریعتِ محمدیؐ کے اندر کئی ترمیمات کرتے نظر آتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور میں چور کا ہاتھ کاٹا جاتا تھا اور آپؐ کا ارشاد پاک ہے کہ اگر فاطمہؑ بھی چوری کی مرتکب ہو تو اس کے ہاتھ بھی کاٹے جائیں گے۔ لیکن حضرت عمرؓ یہ کہتے ہوئے اس سزا میں ترمیم کرتے ہیں کہ اگر کوئی مجبور ہوکر ایک روٹی چوری کرتا ہے تو اس چور کے ہاتھ کاٹنے کے بجائے حکمرانِ وقت کا ہاتھ کاٹا جائے۔ پھر فرماتے ہیں کہ اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر جائے تو اس کا ذمہ دار حکمرانِ وقت ہے۔ دوسری مثال یہ کہ نبی کریمؐ کے دور میں خواتین بھی مسجد نبوی آیا کرتی تھیں۔ آگے مرد ہوتے تھے پیچھے خواتین نماز ادا کیا کرتی تھیں۔ اس میں بھی ترمیم خلیفہ ثانی نے جو وجہ بتا کے کیا وہ لکھتے ہوئے ہاتھ کانپتے ہیں۔ (دیکھئیے کتاب ’’اولیاتِ عمرؓ) یہ تو سر دست میں نے دو مثالیں پیش کیں اس کے علاوہ کئی اور مثالیں موجود ہیں کہ خلیفہ ثانی نے کس طرح شریعت محمدیؐ میں بیاسی ترمیمات کی تھیں۔
Mushraf general at gb

یہاں ایک ہی سوال اٹھتا ہوا نظر آتا ہے کہ ایسی ترمیمات کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے کیونکہ وقت بدلتا ہے، حالات بدلتے ہیں، انسان ایک سا نہیں رہتے۔ شریعہ، آئین یا اصول انسانوں کی سہولت کے لیے بنائے جاتے ہیں انسان اصولوں کے لیے نہیں ہوتا۔

میری اور آپ کی بدقسمتی کہ ہمارا تعلق اس معاشرے سے ہے جہاں مولوی سے سوال پوچھو تو مرتد، امجد شعیب جیسے کسی کم فہم انسان سے سوال پوچھو تو غدار اور جج سے سوال پوچھنے کی گستاخی کرو تو توہینِ عدالت۔۔۔۔۔۔ یا اللہ! ہم جائے تو کہاں جائیں۔۔۔۔۔۔

ایسے میں رانا سعید دوشی کا شعر حسبِ حال لگتا ہے؎

میں چُپ رہوں تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر
گواہی دی تو عدالت میں مارا جاؤں گا

مشرف کو غدار کہنا ایک فردِ واحد کی توہین نہیں بلکہ پاک فوج کی عظمت پر سوال ہے۔ محسن پاکستان اور پاک فوج ہم شرمندہ ہیں۔ عدلیہ تو رہی ایک طرف کہ جس کے خلاف بولنا توہین عدالت سہی۔ لیکن اس بے حس قوم کو کیا ہوا کہ اس ظلم پر وہ پھولے نہیں سما رہی۔ یہاں تک سنا گیا کہ یار لوگوں نے اس خوشی میں مٹھائیاں تک بانٹیں۔ آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اپنے آپ سے پوچھے کہ مشرف کے دور میں پاکستان کا امیج کیا تھا، ترقی کی جس شاہراہ پر انہوں نے پاکستان کو چڑھایا تھا وہ این سعادت بزور بازو نیست کہ ایسے کاموں میں رب کی تائید شامل ہوتی ہے۔ پاک فوج نے ہر مشکل گھڑی میں جس طرح قوم کا ساتھ دیا ہے لفظوں میں اس کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ یہ تو ہماری بدقسمتی تھی کہ بینظر بھٹو کے قتل کے بعد بینکوں تک کو جلا کے پاکستان کی معیشت کو خاک میں ملا دیا گیا۔ کیا کریں ہم ذرا جذباتی قوم جو ٹھہریں۔ اپنی املاک تباہ کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں۔ خیر لگے ہاتھوں ایک واقعہ پڑھئے ممکن ہے آپ کو میرا مدعا سمجھ آجائے۔

محمد کریم مصر کا حکمران تھا اچانک فرانس نے مصر پہ حملہ کر دیا، نپولین فرانس کا بادشاہ تھا، محمد کریم اپنے ملک کے لیے جتنا لڑ سکتا تھا لڑا لیکن بدقسمتی سے فرانس نے اس کو ہرا دیا اور مصر پر قبضہ کر لیا نپولین بونا پارٹ کے فوجیوں نے محمد کریم کو زنجیروں میں جکڑ کر اس کے سامنے پیش کر دیا۔ نپولین نے کہا تم نے میرے بہت سے فوجی مار دیئے لیکن جس دلیری اور بہادری سے تم نے اپنا ملک بچانے کی کوشش کی ہے میں تمہیں ایک موقع دینا چاہتا ہوں تم نے جتنے میرے فوجی مارے ہیں ان کا فدیہ دے دو، میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔ فرانس کے فوجی محمد کریم کو زنجیروں میں جکڑ کر مصر کے بڑے بڑے تاجروں کے پاس لے جایا گیا۔ محمد کریم کا خیال تھا کہ وہ اس کی بھرپور مدد کریں گے کیونکہ اس نے ان کی آزادی کے لیے ایک طویل جنگ لڑی تھی لیکن مصر کے تاجروں نے اس سے منہ پھیر لیا اور فدیہ کے لیے رقم دینے سے انکار کر دیا۔ شام کو جب محمد کریم کو نپولین کے سامنے پیش کیا گیا تو اس کا سر شرم سے جھکا ہوا تھا نپولین نے کہا میں تمہیں سزائے موت اس لیے نہیں دے رہا کہ تم نے میرے بہت سے فوجی مارے ہیں تمہیں سزائے موت اس لیے دے رہا ہوں کہ تم ایک غلام اور مطلبی قوم کے لیے لڑتے رہے۔

آپ فرانس کے محمد کریم کی جگہ پرویز مشرف صاحب کو رکھ دیجئے ممکن ہے کچھ افاقہ ہو۔ پھر بھی مسلہ ہے تو ایک اور واقعہ سن لیجئے۔ آپا نور الہدیٰ شاہ اپنی ایک تحریر میں لکھتی ہیں:

’’بوڑھے ملزم کے آگے زیر کا پیالا رکھا گیا۔ جج نے کہا پیو اگر تم حق پر ہو۔ بوڑھے نے کہا تم بھی پیو اگر تم منصف ہو۔ جج نے کہا آدھا آدھا پیتے ہیں جو حق پر ہوگا وہ زندہ رہے گا ناحق مر جائے گا۔ دونوں نے آدھا آدھا زہر پیا۔ جج مر گیا بوڑھا زندہ رہا۔ پیالے میں زہر نہیں پانی تھا ناحق خود زہر ہوتا ہے یہ جج بھی نہیں جانتا تھا۔‘‘

آپ حیران ہوں گے پھر مشرف صاحب کے خلاف فیصلہ سنانے والا جج کیسے زندہ رہا۔ بس یہاں تھوڑی تبدیلی یہ ہوئی کہ جج تو زندہ رہا لیکن انصاف ہمیشہ کے لیے مر گیا۔
.
یکے از تحاریر کریم کریمی
گلگت شہر
بیس دسمبر دوہزار اُنیس

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
30119

آغا خان ایجوکیشن سروس گلگت بلتستان کے زیرانتظام جاری نصابی سرگرمیاں‌اختتام پذیر

Posted on

گلگت (چترال ٹائمزرپورٹ) آغا خان ایجوکیشن سروس گلگت- بلتسان، پاکستان کے زیرانتظام و انصرام مصروف عمل تمام سکولوں کے طلبہ کے مابین ریجنل سکولز ڈیویلپمنٹ یونٹ (RSDU) کی سطح پرہونے والی ہم نصابی سرگرمیوں کے مقابلے پچھلے دنوں آخری مرحلے میں داخل ہوئے (RSDU) سطح پرمقابلے جیتنے والے سکولوں کے مابین گلگت بلتسان کی سطح پر مرکزی مقابلے ہوئے۔ سرگرمیوں کے اختتام پر آغا خان ڈائمنڈ جوبلی سکول سونی کوٹ کے ہال میں ایک پر وقار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ ہم نصابی سرگرمیوں کے ان مقابلوں میں حمد و نعت ﷺ، سوال و جواب کے مقابلے، تقاریر، مباحثے، اسٹیج ڈرامے، مختلف پروجیکٹس کی پرزینٹیشن، مضمون نویسی اور ادبی نشستوں کے علاوہ کھیلوں میں فٹ بال، والی بال اور کرکٹ کے مقابلے شامل تھے لیکن یخبستہ موسمی حالات کے پیش نظر کچھ سرگرمیاں ملتوی ہوئیں جن میں کھیل بھی شامل تھے۔
.
تفصیلات کے مطابق تعلیمی سال برائے 2019-20کے آغاز سے آغا خان ایجوکیشن سروس گلگت بلتسان کی اعلیٰ قیادت نے باہمی افہام و تفہم سے یہ فیصلہ کیا تھا کہ طلبہ کی تعلیمی سرگرمیوں کو اُجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے اندرموجود مخفی صلاحیتوں کو مزید اجاگر کیا جاسکے تاکہ ادارہ بچوں کی صلاحیتوں کو درست خطوط پر پرکھتے ہوئے اُن کے درخشان مستقبل کیلیے مخصوص پیشہ وارانہ تعلیم کے بہتر زاویوں کا اسانی سے انتخاب کر سکے۔ آغاخان ایجوکیشن سروس کا اولیں مقصد نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں کے ذریعے طلبہ کی پوشیدہ اور مثبت صلاحیتوں کی کھوج بین کرتے ہوئے اُن کی علمی اور ذہنی پرداخت کرنا اور اُنہیں ملک کا بہترین شہری بنانا ہے تاکہ ادارہ ہذا کی زیر نگرانی علم و ہنرسے مستفید ہونے والی نوجواں نسل عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد اپنے فہم ادراک و دانشمندی اور علمی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ و ارفع اخلاقی اقدار کے حامل پاکستانی شہری بن سکے۔ مذکورہ ہم نصابی سرگرمیوں کا انعقاد اسی خیال کو عملی جامہ پہنانے کی پہلی کڑی تھی جس میں آغا خان ایجوکیشن سروس کے تمام سکولوں میں ہم نصابی سرگرمیوں کے مقابلوں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ان مقابلوں میں(RSDU) سطح پر ہونے والے مقابلوں کو دو مختلف مراحل سے گزارنے کے بعد مرکزی مقابلوں کے لئے طلبہ کا چناؤ عمل میں آیا۔
.
پچھلے دنوں اُن تمام سرگرمیوں کے اختتام پر آغا خان ڈائمنڈ جوبلی سکول سونی کوٹ کے ہال میں ایک پروقار تقریب ہوئی جس کی صدارت پریزیڈنٹ اسماعیلی ریجنل کونسل گلگت، نعیم اللہ خان نے فرمائی جبکہ سکریٹری ایجوکیشن (ریٹائرڈ) محبوب علی اس پروگرام کے خاص مہمان تھے۔پروگرام کی نظامت مس نسرین اور مس فوزیہ نے انجام دیں۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ ڈائمنڈ جوبلی سکول محمد آباد کے طالب علم کریم جان نے تلاوت کلام پاک کی سعادت حاصل کی جبکہ طالبہ نیہا نے آیت کریمہ کا انگریزی زبان میں ترجمہ سنایا۔ اس کے بعد ڈائمنڈ جوبلی ہائی سکول دنیور کے طالب علم فہمید فدا اور ہم نواؤں نے نبی پاک ﷺ کے حضورعقیدت کے پھول نچھاور کئے۔ نعت رسول مقبول ﷺ کے بعد آغا خان ایجوکیشن سروس گلگت بلتستان کے سنئیر منیجر برائے سکول ڈویلپمنٹ شاہ اعظم خان نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور اس پروگرام کی غرض وغائیت کا تذکرہ کرتے ہوئے ہم نصابی سرگرمیوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ آغا خان ایجوکیشن سروس جہاں بچوں کو جدید تعلیم سے روشناس کرانے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے وہاں اُنہیں اپنی علاقائی ثقافت اور تہذہب کے دائرے میں رہتے ہوے تربیت حاصل کرنے کے ضمن میں بھی سنجیدہ گی سے کوشاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان مقابلوں کا مقصد ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑ کر خود آگے بڑھنا ہر گز نہیں ہے بلکہ ان کا بنیادی مقصد اپنی صلاحیتوں کا ادراک کرتے ہوئے اپنی خوبیوں اور خامیوں کو ناپنا اور پھر اپنے آپ کو بہترین آفاقی شہری بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سرگرمیاں بچوں میں محبت، آشتی، امن اور اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے مثبت راستوں کے تعیّن میں ممدو معاؤن ثابت ہوسکتی ہیں۔
صاحب موصوف کے ابتدائی کلمات کے بعد (RSDU) کی سطح پر ہم نصابی سر گرمیوں کے مقابلوں کے آخری مرحلے تک پہنچنے والے سکولوں کے مابین مختلف مقابلے ہوئے جن کی تفصیل اس طرح ہے:
،
سوال و جواب برائے پرائمری (سائنس)
1- سریم ذولفقار، ڈائمنڈ جوبلی ہائی سکول دنیور نے پہلی پوزیشن حاصل کی
2- طالبہ علینا، ڈائمنڈ جوبلی سکول اشکومن، غذر اور علی آکاش ڈائمنڈ جوبلی سکول گولوغ مولی غذر کے نمبر مساوی رہے اور دونوں نے دوسری پوزیشن حاصل کیں۔
.
سوال و جواب برائے مڈل (معاشرتی علوم)
1- تاشفین،ڈائمنڈ جوبلی ہائی سکول نومل نے پہلی پوزیشن حاصل کی
2- باسط علی، ڈائمنڈ جوبلی ہائی سکول اشکومن نے دوسری پوزیشن حاصل کی
3- فیصل یعقوب، LRS پھنڈر نے تیسری پوزیشن حاصل کی
مضمون نگاری (انگریزی)
1- طالبہ ز ادی یوسف ، ڈائمنڈ جوبلی ہائی سکول سونی کوٹ نے پہلی پوزیشن حاصل کی
2- طالبہ جبین ڈائمنڈ ہائی سکول درکھوت نے دوسری پوزیشن حاصل کی
3- اور طالبہ عمبرین ڈائمنڈ ہائی سکول تھنگئی نے تیسری پوزیشن حاصل کی
.
مضون نگاری (اُردو)
1- طالبہ جنیفر، ڈائمنڈ جوبلی مڈل سکول سلطان آباد نے پہلی پوزیشن حاصل کی
2- طالبہ بی بی سلطانہ، ڈائمنڈ جوبلی ہائی سکول چٹور کھنڈ نے دوسری پوزیشن حاصل کی
3- نازیہ جبین، جوبلی سکول محمد آباد نے تیسری پوزیشن حاصل کی.
.
تصویر نگاری
1- طالبہ شاہ مینہ ڈائمنڈ جوبلی ہائی سکول پھنڈر نے پہلی پوزیشن حاصل کی
2- طالب علم ذولفقار ڈائمنڈ جوبلی ہائی سکول سندی یاسین نے دوسری پوزیشن حاصل کی
3- طالبہ نازیہ صبا ڈائمنڈ جوبلی ہائی سکول چٹور کھنڈ نے تیسری پوزیشن حاصل کی
.
انگریزی زبان میں تقریری مقابلے (موضوع سی پیک کے چیلینجیز)
1- طالبہ سلطانہ نذیر ڈائمنڈ جوبلی ہائی سکول سونی کوٹ، گلگت نے پہلی پوزیشن حاصل کی
2- طالب علم فیضان ڈائمنڈ جوبلی ہائی سکول سوست گوجال ، نے دوسری پوزیشن حاصل کی
3- پرویز بی بی ڈائمنڈ جوبلی ہائی سکول تیرو غذر، کویتا، ڈائمنڈ جوبلی ہائی سکول چٹور کھنڈ اور فہمیدہ عزیز نے تیسری پوزیشن حاصل کیں۔
.
ُردو ڈرامہ ا (والدین کے ساتھ حسن سلوک)
یہ ڈرامہ ڈائمنڈ جوبلی مڈل سکول ذولفقار آباد کی طرف سے پیش کیا گیا۔ جس میں والدین کے ساتھ حسن سلوک اور موجودہ دور کی نفسا نفی کو اُجاگر کیا گیا تھا جوکہ تقریب میں موجود تمام ناظرین کی دلچسپی کا مرکز رہا۔
.
ہم نصابی سر گرمیوں پر مبنی اس پروگرام کے آخر میں تقسیم انعامات کی بھی ایک مختصر تقریب سجائی گئی جس میں صدر محفل، مہما ن خصوصی اور دیگر شرکا ٔ نے طلبہ میں انعامات تقسیم کیے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی سکریٹری ایجوکیشن (ریٹارئرڈ) محبوب علی اور صدرِ تقریب پریزیڈنٹ اسماعیلی ریجنل کونسل گلگت، نعیم اللہ خان نے اپنی اپنی تقاریر میں تعلیم کے میدان میں علاقے کے نونہالوں کو معیاری تعلیم اور اعلی تربیت دینے پر آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان کے اعلی حکام اور خصوصی طورپر گلگت بلتسان کی جواں عزم قیادت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ آغا خان ایجوکیشن سروس علاقے میں کم و بیش 25 ہزار طلبہ کو معیاری تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کر رہی ہے۔ یہ سکولوں کا وہ نظام ہے جہاں محمود ایاز میں کوئی تفاوت نہیں ہے۔ شمشال ہو یا درکھوت ، چپرسن ہو یا پھنڈر، گلگت ہو یا چترال تمام علاقوں کے نونہالوں کو بلا امیتازِ رنگ و نسل، زبان، علاقہ اور مسلک کے معیاری تعلیم فراہم کی جارہی ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ جب ہمارے یہ تمام بچے عملی زندگی میں داخل ہوں گے تو ہمارا علاقہ اور ہماری قوم دنیا کی ترقیافتہ علاقوں اور قوموں کی صف میں شمار ہوگی۔ آخر میں طلبہ کے ساتھ ایک گروپ تصویر کشی کے ساتھ یہ تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔
akesp gilgit baltistan competition 1

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
30081

خود کشی کا سچا واقعہ……… تحریر: شمس الحق نوازش غذری

Posted on

یہی دن تھے یہی خزاں کا موسم تھا اور یہی دسمبر کا مہینہ تھا،اس دن اس ماہ اوراس موسم میں اس نے خود کو پھانسی کی ٹکٹکی سے باندھا۔لغت اردو میں سانحے کے ماہ و موسم کو کیا کہتے ہیں یہ نہیں معلوم البتہ اس دن کو برسی کا نام دیا جاتا ہے۔آئیے!اس کی برسی کے مو قع پر مختصر لمحے کیلے اسکی حسین یادوں کو اپنے حافظے میں زندہ کردیں۔ویسے تو اکثر نازک اعصاب اور نازک مزاج کے مالک لوگ ایسی یادوں سے مزید دلبرداشتہ اور رنجیدہ ہوجاتے ہیں، بقول شاعر ؎
؎یاد ما ضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
.
جی ہاں! وہ بچپن سے نہ صرف ماں باپ کا بلکہ تمام گھر والوں کا لاڈلاتھا۔اگرچہ اس سے چھوٹے بہن بھا ئی بھی گھر میں موجود تھے لیکن جو محبت و شفقت شیرخواری میں اس کے حصے میں آ ئی وہ الفت و پیار و جوانی تک اس کے حصے میں رہی۔عمومماً ہر معاشرے کے اکثر گھروں میں دور ِ صغر سنی کی محبت ہر کسی کو جوانی تک میسر نہں ہوتی لیکن یہ اپنے معاشرے کا واحد خو ش نصیب انسان تھاجو سب کی محبتوں کا امین اور سب کا محبوب تھا۔یوں جب اس نے الفت اور پیار کی آغوش میں میٹرک پاس کر لیاتو مزید پڑھائی کی راہ میں لاڈلے پن کی دیوار حا ئل رہی۔حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہو ئے جونہی اس نے پاک آرمی میں بھرتی ہونے کی خواہش ظاہر کی تواس خواہش سے گھر والوں کوسخت دھچکا لگا اس عمر تک انہوں نے اس بچے کو شہزادے کی طرح پالا پوسا تھااب وہ اسے وطن عزیز کے کسی اونچے محاز پر دشمن کی گولیوں کے سامنے کھڑے ہونے کی اجازت کیسے دے سکتے تھے۔ان کے والدین کی معصوم سی خواہش تھی کہ وہ کسی سول محکمے میں چھوٹی سی ملازمت اختیار کرلے اور بدستوران کا دل لبھاتارہے۔والدین کے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ہر سول محکمے کی طرف سے جاری کردہ اشتہا رد یکھ کر و ہ درخواست جمع کرتا رہا،وقت گزرتا رہا اور نوجوان دفتروں کا چکر کاٹتا رہا۔انہیں ہمیشہ ہر محکمے کا اکاونٹنٹ اور ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ انٹری ٹسٹ میں بلانے کا کہہ کر درخواست وصول کرتا۔۔۔ لیکن انہیں خبر ہونے تک ہر بار کسی آفسر کا کزن،کسی کا بھائی اور کسی کا بہنوئی چور دروازے سے داخل ہوکر ایک ماہ کی تنخواہ بھی ہضم کر چکا ہوتا تھا۔یہ سلسلہ کیئ سال جاری رہا،ہر دفتر سے اسے انٹری ٹیسٹ میں بلانے کا جھانسا دیاجاتا رہا۔وہ جب بھی حصول روزگار کے لیے درخواست جمع کرواتااس کے درخواست کو دفتری بابوفا ئل کے کفن پہنا کر الماریوں کے قبرستان میں دفنا دیتے اور اسے ہمیشہ سرکاری کلرکوں کے تلخ زبان سے پھر کبھی پتہ کرو،آپ کا کام ہوجاے گاکا روایتی جواب ملتا۔۔۔
؎رات یہاں پر دن کہلاے
جیسی دنیا ویسی رسمیں
ان کی زبان سے سچ لگتے ہیں
جھوٹے وعدے جھو ٹی قسمیں
.
کافی عرصے بعد میری اُ ن سے ملاقات ایک ہوٹل کے لان میں ہو ئی۔یہ گلگت کی ایک جھلسا دینے والی دوپہر تھی،گرمی کی شدت سے ہر شخص مبہو ت ہوکررہ گیاتھا اور ہمارے جسموں سے پسینے کے چشمے بہہ رہے تھے۔دوران گفتگو ا نھوں نے اپنا بریف کیس کھولا اور اندر سے فایئل نکالی۔فائل میں موجود حصول برائے روزگار کے عنوان سے لکھی گیئ درخواستوں کو بے روزگار نوجوان نے پھا ڑ پھاڑکرعجیب نظروں سے مجھے گھورنے لگا میں بھی حیرت سے اُسے تکتا رہا۔اس نے کرسی سے ٹیک لگائی اور روایتی طور پر دامن جھاڑتے ہو ئے چائے کی چسکی لی۔اس وقت اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے، اسکی کیفیت دیکھ کر میرے ذہن میں کیئ سوالات کلبلانے لگے۔میں نے پریشانی کی وجہ دریافت کی تو اس نے بوٹ کی ایڑیوں سے طبلہ بجاتے ہوے سر اٹھایا اور میز پر موجود پرچ کو گھماتے ہوے گویا ہوا اللہ تعالیٰ کی اس وسیع و عریض زمین میں بھی ایک بھی آفیسر مجھے ایسا نہیں ملا جو دل میں خوف خدا اور مرنے پر یقین رکھتا ہو۔سب کے حرص کی ماری نظریں مجھ جیسے بے روز گار نوجوانوں کی جیب پر مرکوزہیں اوروہ انتہائی بے شرمی اور ڈھنائی سے رشوت کا مطالبہ کرتے ہیں۔یہ ظالم اپنے آپ کو کس مخصوص مٹی سے بنے ہو ئے انسان سمجھتے ہیں،یہ لو گ خدا کو بھو ل گیئ ہیں۔یہ اپنے اختیار،اپنی رسا ٰئی اپنی عزت اور اپنے غرور کو غریبوں کا خدا سمجھ بیٹھے ہیں (معاذ اللہ)۔میرے دوست نے ایک ہی سانس میں ایمانداری اور دیانت داری سے محروم آفیسر وں کی کالے کار توتوں کو مختصر مگر جامع انداز میں بیان کر کے چا ے ئ کی پیالہ کے لیے ہاتھ آگے بڑھایااس وقت اس کے چہرے پر ایک وقار اور تمکنت تھی لیکن اس کے دل سے نکلنے والے شعلوں کی شعاعیں اس کے چہرے پرصاف دیکھائی دے رہی تھیں اس نے ٹھنڈی آہ بھر کر چا ئے کی آخری چسکی لی اور کڑک دار آواز کیساتھ پیالی کو پرچ پر رکھتے ہوے مجھے یہ شعر سنا کر رخصت ہوےٗ۔
؎ زندگی جرم محبت کی سزا ہو جیسے
موت چھپتی پھرتی ہے خفا ہو جیسے
عمر بھر شدت احساس نے جینے نہ دیا
زندہ رہنا بھی کو ئی میری خطا ہو جیسے
.
کہنے والے کہتے ہیں کہ ایک طرف بے روزگاری کے بے رحم تپھیڑ وں نے اس کی زندگی اجیرن کر دیا تھاتو دوسری طرف معاشرے میں موجود چند ناسو ر اور کینہ پرور لوگوں کی وجہ سے اس کا دل آزردہ اور رنجیدہ بن چکا تھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرہ ایسے بد امو ز اور بد اندیش لوگوں سے خالی نہیں جن کی زندگی کا مقصد غیبت اور،چغلی کے علاوہ دوسروں کی ذات پر کیچڑ اچھالنا ہے۔اگر اپ کی جیب سے ہمیشہ مختلف کرنسی کے نوٹ برآمد ہوتے ہیں،آپ کے پاس اعلیٰ عہدہ ہے آپ اگر اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں تو حریص سماج کے خود غرض افراد نہ صرف آ پ کا گروید ہ بنیں گے بلکہ آپ کے ساتھ ہر طرح کا ناتا جوڑ نے میں بھی دیر نہیں کرینگے۔یہ لوگ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ماں سے سوا چاہے پھاپھا کٹتی کہلاےٗ کے مصداق ماں سے ز یادہ پیار جتا ئیں گے۔اگر خدانخواستہ آپ حرس و ہوس کے ان بچاریوں کی خواہشات پر پورے نہ اترے توان کی نطروں میں آپ اور کوبرا سانپ میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔
؎ ہمسفر آج ہیں کل داغِ جداٰئی دیں گے
ر اہ میں صرف بگولے ہی دکھائی دیں گے
مانتا ہوں کہ مجھے سب سے وفا کرنے ہے
جانتا ہوں کہ مجھے سب ہی برائی دیں گے
.
ہمارے معاشرے میں موجود یہ سرکش اور شریر بھیڑیے اگرچاہیں تو ماں کے موم دل کو سنگ میں اور ماں کی ممتا کو عداوت میں بدل سکتے ہیں اگر ان شرارتی شیطان مجسم کو شرارت سوجھے تو یہ باپ کی محبوبیت کو دشمنی میں تبدیل کرسکتے ہیں۔میں یہاں یہ بات و ثوق سے کہہ سکتا ہو کہ میرے دوست کے سا تھ بھی ایسا ہی ہوا۔ان کے بد خواہوں نے ان کے ماں باپ کے سامنے ان کی اس حد تک غیبت کی کہ دفعتا ایک ماں اپنے دل کی دھڑکن اور اپنے لخت جگر کے ساتھ تند خو ئی او ر ترش روی سے پیش آنے لگی،معاشرے میں موجود ان بد تہنیت افراد کی مسلسل غیبت نے بلاآخر ایک باپ کے جگر پارہ کو باپ کا عدو بنا کے رکھ دیا۔ بقول شاعر
؎ہوا جس کو لگنے نہ دیتی تھی بلبل
وہ گل آج باد خزاں کھا رہا ہے
.
واقفانِ حال کہتے ہیں کہ ایک دن عین وقت ِ افطار ماں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہواٍٍٍ‘ اس وقت ماں خدا سے بھرا ئی آواز میں التجا ئیں کر رہی تھی لیکن شومیئ قسمت سے وقتی جذبات نے بدعا کے ایک دو بول بھی مُنہ سے نکلوا دیے‘ اِدھر ان الفاظ کے منہ سے نکلنے کی دیر تھی ُادھر فرشتوں نے آمین کہہ دی اور بددعا قبول ہوئی۔بقول کیفی ؎
؎شکوہ تو کچھ نہیں مگر اتنی سی بات ہے
تم نے وہ کہہ دیا جو دلِ دشمناں میں تھا
کیفی ہے جان گداز بہت قرب دوست بھی
مجھ کو ہی کچھ خبر ہے میں جس امتحان میں تھا
.
جب بٹیے نے ماں کی منہ سے ان الفاظ کی ادائیگی سنی تو اس کا دل نہ صر ف چھلنی ہوابلکہ اس کے جذبات کو اور ؎بھی بھڑکا دیادل ہی نے اسے سمجھایا کہ اگر اللہ کی وسیع زمین تجھ پرتنگ ہو گئی ہے تو کیا ہوا؟ تیرے پاس مرنے کا اختیار تو ہے‘یہ اختیار دنیا کی کوئی بھی طاقت تم سے چھین نہیں سکتی‘تجھے اپنی مرضی کی موت مرنے کا حق تو ہے‘اس وقت زمین تیرے لیے سمٹ گئی ہے اور آسمان تجھ پر تنگ ہوا ہے۔کیونکہ
ہر طرف جھکتی ہوئی چٹیل چٹانیں ہیں یہاں
اس جہنم زار تنگ و تار گھاٹی سے نکل
.
دل حزین دل۔۔۔۔کے فیصلے کو لبیک کہتے ہوے۔۔۔زندگی سے ہاتھ اٹھا کر۔۔۔جینے سے مایوس ہو کر۔۔اور مرنے کے لیے تیار ہو کر نوجوان جب گھر کی چوکھٹ سے قدم باہر رکھا تو جیون ساتھی سے رہا نہ گیاوہ بھی اس کے پیچھے باہر نکلی۔نوجوان نے پیچھے مڑ کر گلوگیر آواز میں انہھیں مخاطب کیااور کہاکہ ”میں تھوڈی دیر بعد واپس آجاؤں گا‘ کل کے بعد ہی کہی جانے کا حتمی فیصلہ کروں گا۔میرے بارے میں بلکل پریشان مت ہوہاں ایک ضروری بات یاد آگیٗ تمھیں کل بتانا بھول گیا تھاکہ آپ نے عید کی خوشیاں خوشی سے منانی ہے
اور ہمیشہ خوش رہنے کی کوششں کرنی ہے‘اس وقت رات کا اندھیرا گہرا ہوتا جارہا ہے لہذاتم گھر لوٹ جاؤ
ہر روز یہ ستم ہر لمحہ یہ ماتم یہ سوا د کوئے جاناں
تو یہی سے گھر لوٹ جا تیری زندگی ہے پیاری
.
جب وہ اپنی اہلیہ کونصیحت کر رہا تھا تو وہ ان پر عمل کرنے کا وعدہ بھی کررہی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسوبھی رواں تھے او راسے یہ بات بھی عجیب لگ رہی تھی کہ وہ خود تو گھر سے نکل رہا ہے اور مجھے عید کی خوشیاں منانے کی تلقین کر رہا ہے غالباًایسے ہی کسی موقع کے لیے شاعر کایہ شعر صادق آتا ہے
تیرے آنگن میں رہے عید کی خوشیاں رقصاں
ؔ؎دل جگر سوختہ ہم واپس گھر کو آئیں کیسے
.
حیات جا دیدانی کی طرف کوچ کر جانے سے پہلے اس نے با ئیں ہاتھ سے آنسو پونچھتے ہوے دائیں ہاتھ سے اپنے جیون ساتھی سے آخری بار مصافحہ کے واسطے ہاتھ آگے بڑھایا نوجوان جوڑے کا یہ خاکی زمین پر آخری غمگین اور افسردہ مصافحہ تھاالودعی مصافحہ کے اس لخراش منظرکو صرف رات کی تاریکی‘آسمان کے تارے اور دیو ہیکل پہاڈ دیکھ رہے تھے۔اس مصافحہ کے دوران دونوں ہاتھوں کو جونہی میاں بیوی کے محبت کے شکنجے سے رہائی ملی توزمین ہلنے لگی‘پہاڑ لرزنے لگے اور تاروں کی چمک ماند پڑگئی او ر یہ نوجوان رات کہ اس تاریکی میں اس ملک کے نظام سے بغاوت کے واسطے اور ظالم سماج کے بدخواہوں کے تیروں کی طرح چھبتی نظروں سے چھٹکارے کی خاطراپنے جیون ساتھی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوااور لڑکھڑ اتے قدموں سے آہستہ آہستہ ایک نظر آسمان کے تاروں پرڈال کر یہ شعر گنگنانے لگا۔
میں اہل زمین کی سنوں چہ مگو ئیا ں کب تک
میرے آسمان کی خاموشیو ذرا کلام کرو
.
اس کی رفیقہئ حیات کے وہم و گمان میں بھی نہ تھاکہ اس نے اپنے زندگی کے خاتمے کااندوہناک منصوبہ تیار کیاہوا ہے اب اس گھنا ؤنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اس سے آخری بار مصافحہ کر رہا ہے۔ یہ تو اس کے فرشتوں کو بھی معلوم نہ تھاکہ آج کی شب دیجورکی تاریکی میں اس کا ہمدم اپنے ہاتھوں سے اپنی ر وح کو تن سے جدا کر کے گھر کو ماتم کدہ ‘ بستی کو غم زدہ اور اس کی زندگی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انتہائی درد ناک اورافسوس ناک صدمہ دے کرخود پیوند زمین ہونے والا ہے۔خیر وہ اس کی واپسی کا خواب دل میں بسا کراور اس کی آخری مسکراہٹ پر اعتمادکر کے خواب گاہ کی طرف چل دی۔بقول شاعر
.
؎تبسم میں چھپا رکھا ہے اپنے غم کو اس ڈ ر سے
پریشاں دیکھ کر ہم کو پریشاں او ر بھی ہوں گے
ابھی تو آنسوؤں کی کہکشاں آنکھوں میں چمکی ہے
محبت ہے سینے میں تو چراغاں اور بھی ہونگے
.
اسے کیا معلوم تھاکہ کل صبح طلوع ہونے والا سورج تلخی کی چادر اوڈھ کر غموں اور خون کے قطروں کی آمیزش کو ا پنی کرنوں میں رسمیٹ کراور افسردہ سانسوں کواپنی شعاؤں میں بسا کران پر پڑتے ہی اس کے تن بدن میں آگ لگانے والا ہے اور صبح جی ہاں!کل کی صبح ہوتے ہی اس کی حسین خوابوں کے محلات چکنا چور ہونے والے ہیں۔رات بھر انتظار کی شدت نے اسے بے چین کر دیا‘نیند اڑ گیئ اور سحری تک پلک سے پلک نہ لگی۔سحری کے بعد سونے کی بہت کوشش کی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات بالآخر خرتارے گنتے ہوے ئجب صبح ہوگیئ تووہ اپنے گھریلومعاملات نمٹاکراسکی راہ تکنے لگی۔ ”الانتظار اشدت من الموت“کے مصداق جب اس کے راہ تکتے تکتے تھک گیٗ تو انتظار اضطراب میں بدل گیا‘بے قراری انتہاکو پہنچ گیٗ‘اس حالت میں اس نے کمرے کے اندر بکھر ئے ہوا سامان سٹور میں رکھنے کے لیے جونہی سٹور کا دروازہ وا کیا تو اس کا محبوب۔۔جی ہاں وہی محبوب جس سے ملنے کے لیے وہ ہر لمحہ بے تاب رہتی تھی‘جس کی راہیں تکتے تکتے اس کی آنکھیں پھترا گیٗ تھیں۔وہ دلبراور دلاویز شخصیت اپنے ہاتھوں سے اپنی گردن میں پھانسی کا پھندا ڈال کر خود کو پھانسی کی ٹکٹکی سے باندھ کر آنکھیں موندھے ہوے ئلٹک رہا ہے اور بزبان حال کہہ رہا ہے
.
؎ یہ منزل دشوار تھی سر ہو گئی کیسے
حیرت ہے مجھے تاب نظر ہو گئی کیسے
آتے ہی تیر ا تصور آنسو نکل آے ئ
کمنجت ان آنکھوں کو خبر ہو گئی کیسے
ہم ہوش میں آے ئ تو لٹک رہے تھے
پھر یا د نہیں کچھ کہ سحر ہو گی ٗ کیسے
.
یہ کر بناک منظر دیکھتے ہی اس پر قیامت ٹوٹ پڑی وہ چیختی ہوئی اپنی شریک حیات کوجھنجوڑنے لگی لیکن اس کے بدن سے زندگی کب کی رُخصت ہوچکی تھی اوراس کا ملایم ئ اور نازک بدن لکڑی کا تخت بنا ہوا تھا۔اس وقت اسکی کیا حالات و کیفیت تھی میرا ناتواں قلم اس درد ناک منظر کو بیان کرنے قاصر ہے جب گھر میں ایک ساتھ چیخیں اٹھیں تو اہل محلہ اور اہل گاوں کا پلک جھپکتے ہی حاضر ہونا فطری تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے گھر کا صحن انسانوں سے بھر گیا‘ہر ایک کے لیے قیامت خیز خبر تھی۔اس ہجوم میں ایک بھی شخص ایسا نہ تھاجو دھاڑیں مار کر رو نہ رہا ہو‘چندمضبوط ا عصاب کے مالک افراددوسروں کو صبرو تحمل کا درس دیتے ہوے ئخود اپنے آنسوضبط نہ کر سکے جب ان کی میت کو آخری دیدارکے لیے ماں کے سامنے نہ رکھا گیا تو اس وقت سب کے ضبط کے بدھن ٹوٹ گییئ۔شاید ایسے ہی موقع کے لیے شاعر نے کہا
.
؎کیا ستائیں گی ہمیں دوران گی گردشیں
ہم اب حدو د سود وزیاں سے نکل گیے
شاید ہمارے بعد درخشاں ہو بزم گل
ہم تو ہیں اسے پھول جو صحر ا میں جل گیے ئ
کس دل سے اب کسی سے امید وفا کریں
جب تم ہی مثل گردش دوراں بدل گئے
.
بیٹا بیٹا پکارتے ہوے ئ ماں کی ہچکی بندھ گیٗ اور ماں کی زندگی کا پہلا دن تھا کہ بیٹا بیٹا کہہ کررونے والی ماں کو ہمیشہ مسکراہٹ کے ساتھ لبیک کہنے والی زبان تقدیر کے فیصلوں پر خاموش تھی۔بلاآخر آنسؤں اور سسکیوں میں ان کی نعش ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گھر والوں سے الوداع ہوکر کیفی کی زبان میں دنیا کویہ کہتے ہوے ئآخری منزل کی طرح رواں ہوئی۔
؎ رہو آرام سے اہل چمن اب کچھ نہیں ہوگا
یہ چشمک برق و باراں ہمارے آشیاں تک تھی
.
قارئین کرام!ان کے جسد خاکی کو آغوش زمیں کے سپردجب ہم واپس ماتم کدہ پہنچے۔۔۔ہمارے سماج کے چند شاطر دماغ شیطان ٹولیوں میں بیٹھ کراس وقت انکی خوبیوں کے تذکرہ کر رہے تھے جب وہ قبر کا مہمان بنا ہوا تھا۔ریاکاروں اور منافقوں کی مکارمی دیکھ کرمیں اور میرے چند دوست یہ سوچنے پر مجبور ہوگییئ کہ کاش زمین پھٹ جاے ئاور ہم اس میں سما جائیں لیکن اس سے قبل کہ ہمارے پاوٗں کے نیچے سے زمین سرک جاتی محفل ماتم میں موجودایک حرف ابجدسے نابلد بوڑھے دانشورنے ہمارے پریشانی کو بھانپ کر اپنا فلسفیانہ قول داغ دیا۔عزیزاں! یہ بات یاد رکھے مردے وہ نہیں کہ جن کی روحیں ان کے جسم سے پروازکر چکی ہیں بلکہ مردے وہ ہیں جن کے تن بدن میں روحیں تو ہیں لیکن ضمیر نہیں۔۔ضمیر سے محروم زندوں کی بستی میں زندہ رہنے سے روح سے محروم مردوں کے قبرستان میں گھر بسانالاکھ درجہ بہتر ہے۔لہذا بے ضمیرانسانوں کے منہ سے کسی کی خوبی کے تذکرے پرپھولے نہ سمانا یا کسی کی تذکرہ خامی پرناراضگی مول لینامورکھ پن کی علامت ہے۔عزلت نشین بوڑھے کے یہ الفاظ سُن کر مجھے ہوش آیا کہ بوڈھے دانشور نے ہمارے جذبات کی چنگاریوں میں اس لیے صبرو تحمل کا یخ پانی انڈھیل دیاکہ مایوسی کی یہ چنگاری کسی کے دل میں بے بسی کی شعلے اگلوا کرپھر کسی حسین نوجوان کوخود کشی کی سراے ئ میں دھکیل نہ دے۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
30005

ماحولیاتی بے خبری اور موسمیاتی جنگ(قسط اول) ………تحریر: دیدار علی شاہ

Posted on

دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے اس آبادی کے بڑھنے سے دنیا کے وسائل میں کمی آرہی ہے۔ ماضی میں اس کمی کو پورا کرنے کے لئے صنعتی دور کا آغاز ہو ا، اور دنیا ترقی کرتا رہا اور لوگوں کی ضروریات کو سائنسی بنیادوں پر پورا کرناشروع ہوا۔جہاں یہ ضروریات پوری ہوئی اس کے ساتھ ساتھ اس ترقی نے دنیا میں منفی اثرات چھوڑاجو کہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ بنی۔
.
پھر صنعتوں سے خارج ہونے والے دھویں میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ اور کاربن مونو آکسائیڈ فضائی آلودگی کا باعث بنتے رہے۔
یہ کاربن آکسائیڈ ز درجہ حرارت میں اضافہ کرتے ہیں جسے ہم گلوبل وارمنگ کہتے ہیں۔ جس سے گلیشرز کے پیگھلاو شروع ہوتا ہے۔
دنیا میں دہشت گردی اور عالمی معاشی اتار چڑھاؤ کے ساتھ ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی سب سے زیادہ زیر بحث آنے والامسئلہ بن چکا ہے جس کے اثرات دنیا میں ہر طرح سے اثرانداز ہو رہا ہے۔جس نے سائنسدانوں اور ماہرین کو ممکنہ حل کے لئے ایک جگہ بیٹھنے پر مجبور کیا ہیں۔ا گر پچھلے تیس سالوں سے ابھی تک دیکھا جائے تو ہمیں محسوس ہوگا کہ موسم بدلا ہے، آلودگی بڑھی ہے، زلزلہ میں تیزی آئی ہے، سمندری طوفان میں تیزی، سیلاب اور برفباری، قحط سالی، گلیشرز کا پگھلاو اور جانوروں کے مسکن پر بہت زیادہ اثر پڑا ہے۔
.
ڈبلیو ڈبلیو ایف WWF نے ICIMODکے تعاون سے انوائرمنٹل جرنلزم کے نام سے گلگت میں تین روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا۔جس میں صحافی، کالم نگار اور بلاگرز شریک تھے۔اس ورکشاپ کا مقصدپرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کا بہتر استعمال کرتے ہوئے ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے صحافیوں کو آگاہ کر کے لوگوں میں شعور اُجاگر کرنا شامل تھا۔اور ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر قدرتی ماحول کی تحفظ اور موسمی اثرات کے حوالے سے گلگت کی سطح پر پالیسی مرتب کر کے اس کے نفاذ کو یقینی بنانا شامل تھا۔یہ بات ناگزیر اس لئے بھی ہے کہ پاکستان میں تقریباً اسی فیصد گلیشرز گلگت بلتستان میں ہے۔ جو کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے تیزی سے پگل رہے ہیں۔اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو یہ ملک خشکی میں تبدیل ہوجائے گا۔
.
اگر ہم اپنے ملک پاکستان کی بات کرے تو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات یہاں پر بہت زیادہ ہے اور دنیا میں اس سے متاثرہ ممالک کے فہرست میں پاکستان آٹھواں نمبر پر ہے۔ دنیا میں بائیس ممالک اور جنوبی ایشیا میں تین ممالک ایسے ہے جہاں سردی، گرمی، بہار اور خزاں یعنی چاروں موسم پائے جاتے ہے ان تین میں سے ایک پاکستان بھی شامل ہے۔
.
ماحولیاتی ماہرین نے اس بات سے پاکستان کو آگاہ کرچکے ہے کہ جس تیزی سے پاکستان میں درختوں اور جنگلوں کی کٹائی ہورہی ہے۔ اگر اسے نہ روکا گیا اور نئے درخت نہ اُگائے گئے تو آنئدہ دس سالوں میں پاکستان میں صرف دو موسم سردی اور گرمی رہ جائیں گے۔
پاکستان کے بیشتر افراد اس بات سے آگاہ نہیں ہے کہ ملک میں جو بجلی استعمال ہوتی ہے وہ اُس جگہ سے آتی ہے جہاں پر توانائی کی پیداوار کے لئے کوئلہ، تیل اور دوسری ایسی چیزوں کا استعمال کرتے ہے جس سے ہوا، پانی آلودہ ہوتی ہے۔ زمین اور جنگلی حیات تباہ ہوتی ہے، ماحولیات کو نقصان پہنچتاہے۔لوگوں کی صحت متاثر ہوتی ہے اور عالمی سطح پر درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔
.
موسمی تبدیلی اور ان سے ہونے والے نقصانات یہ سب اچانک نہیں ہوا ہے۔بلکہ دنیا والوں کو یہ پہلے سے معلوم تھا کہ یہ سب ہونے جا رہا ہے اور اس کی وجہ 1750ؑؑؑؑؑسے شروع ہونے والا صنعتی انقلاب، اور عالمی جنگوں نے دنیا کے موحول کو تباہ و برباد کیا ہے۔
مختلف ممالک میں حیرت انگیز طور پر موسم تبدیل ہو رہا ہے جو پوری دنیا میں پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے۔ماہرین ماحولیات کے مطابق جنوری 2019کے صرف 31دنوں میں گرمی کے 35 اور سردی کے دو نئے ریکارڈ قائم ہوگئے ہیں۔
.
ماہرین کے مطابق دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ کاربن گیسوں کا اخراج ہے۔
اقوام متحدہ کے رپورٹ کے مطابق 2000 سے کوئلے کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے اور اسے روکنے کے لئے کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ رپورٹ کے مطابق خطرہ یہ بھی ہے کہ 2100 تک زمین کی سطح کے درجہ حرارت میں 3.7اور 4.8ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوسکتا ہے۔
اقوام متحدہ نے دسمبر 2015میں پیرس میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی تھیں۔کرہئ ارض کے درجہ حرارت کے عمل کو روکنے اور ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لئے اہداف مقرر کئے گئے تھے۔
.
موسمیاتی تبدیلی سے پاکستان میں اب تک ہزاروں افراد متاثر ہوئے،اربوں روپے مالیت کے فصلیں، مکانات وغیرہ سیلاب کی نظر ہوگئے ہیں۔جس میں 2010کا سیلاب نمایاں ہے۔ پاکستان کے تین بڑے شہر کراچی، لاہور فیصل آباداور گلگت موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے خطرناک تصور کئے جاتے ہے۔ 2015میں آنے ولے ہیٹ ویو سے تھر اور کراچی کے ہزاروں لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
.
پاکستان بھی ان 190ممالک میں شامل ہے جنھوں نے پیرس کلائمیٹ ایگریمنٹ پر دستخط کئے ہے۔ماہرین کے مطابق اگر زمین کے درجہ حرارت میں اسی طرح سے اضافہ ہوا تو بہت سے ممالک ڈوبنے کا اندیشہ ہے۔اور ساتھ ساتھ بحرہ عرب بڑھنے سے کراچی اور ملیر کے ڈوبنے کا بھی اندیشہ موجود ہے۔اور بین الاقوامی اداروں نے یہ بھی خبردار کیا ہے کہ اگر کراچی ڈوب جائے تو تین سے چار کروڈ افرادماحولیاتی مہاجرین بن سکتے ہے۔
اس ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پاکستان کے دریاوں میں 15 سے 20فیصد کمی آچکی ہے۔اور پاکستان میں آبی ذخائر نہ بننے کی وجہ سے سالانہ 21ارب ڈالرمالیت کا پانی سمندر میں شامل ہوجاتا ہے۔جبکہ پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف 30دن ہے۔
بی بی سی کے مطابق سائنس دان کہتے ہے کہ موسم اچانک تبدیل ہونے کی وجہ سے جانداروں کی نسلیں ناپید ہونگے، بارشوں میں اضافہ ہوجائے گا، سمندر سے دور علاقوں میں خشک سالی ہوگی اور موسم گرما کا دورانیہ بڑھ جائے گا۔اور زیادہ اثر غریب ملکوں پر پڑے گا جہاں اس تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لئے وسائل کی کمی ہے۔
.
عالمی ادارہ صحت نے بھی خبردار کیا ہے کہ پانی سے پیدا ہونے والے بیماریاں، اور قحط سالی سے لاکھوں لوگ مر جائیں گے۔
مختلف ماہرین اور اداروں کے مطابق سال 2018 میں انسانی استعمال سے سینتیس کروڑ ٹن اضافی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس ہماری فضا میں داخل ہوئی۔اور اس میں سے پاکستان کا حصہ تقریباً ڈھائی لاکھ ٹن ہے۔اقوام متحدہ کے رپورٹ کے مطابق صرف گزشتہ سال میں چھ کروڑ سے زائد افراد ماحولیاتی تبدیلی سے براہ راست متاثر ہوئے اور نقل مکانی کرنا پڑی۔
انٹرنیشنل پینل آن کلائمیٹ چینج اور نیشنل اوشین اینڈ ایٹماسفیرک ایڈمنسٹریشن کے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2016 نے گذشتہ برس کے بھی درجہ حرارت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔اور گذشتہ 137برسوں سے جب سے درجہ حرارت کو ریکارڈ کیا جا رہا ہے اس وقت سے ابھی تک یہ گرم ترین سال رہا ہے۔

ایک اور طبی جریدے دی لینسٹ کی رپورٹ کے مطابق 2015میں دنیا میں 90 لاکھ افراد کی ہلاکت کی وجہ آلودگی تھی۔سائنسدانوں کا کہناہے کہ پیرس معاہدے کی پاسداری کرنا ہوگی جس میں 150 سے زائد ممالک عالمی حدت میں دو سنٹی گریڈ محدود کرنے پر متفق ہوئے ہیں۔ (جاری ہے)

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
29972

چترال میں قومی پولیومہم کاآغاز، چوبیس یونین کونسلوں‌ میں پولیو سے بچاو کے قطرے پلائےجائینگے

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) اتوارکے روز ویمن اینڈ چلڈرن ہسپتال کے احاطے میں چیئرمین ڈیڈک واقلیتی ممبرصوبائی اسمبلی وزیرزادہ،اسسٹنٹ کمشنر چترال عبدالولی خان،ای پی آئی کوآرڈنیٹرڈاکٹر فیاض علی رومی اوردیگرنے بچوں کو قطرے پلا کر چار روزہ انسداد پولیو مہم کا باقاعدہ آغاز کیا جس کے ساتھ بروغل کے سوا تمام چوبیس یونین کونسلوں میں پولیو مہم شروع ہوگئی۔ اس موقع پر ای پی آئی کوآرڈنیٹرڈاکٹر فیاض علی رومی نے حاضرین کو بتایاکہ ان چوبیس یونین کونسلوں میں 70942بچوں کو ان کے گھروں میں جاکر پولیو کے قطرے پلائے جائیں گے۔ جس کے لئے کل 509ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں جن میں رومنگ، ٹرانزٹ، فیکس اور 117موبائل ٹیمیں شامل ہیں۔اس موقع پرچیئرمین ڈیڈاک اور ایم پی اے وزیرزادہ نے پولیوسے متعلقہ اسٹاف کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ پولیومہم کا مقصد پاکستان میں پولیو کے حوالے سے آگاہی دینا اور شہریوں کو اس مقصد میں تعاون کے لیے یکجا کرنا ہے جس میں والدین اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے میں پولیو اہلکاروں کی مدد کریں۔ انہوں نے کہاکہ پولیو کے حوالے سے ذرا سی غلطی زندگی بھر کی پشیمانی کا سبب ہوتا ہے۔ اس لئے اس میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ ڈاکٹرفیاض علی رومی نے کہا کہ پولیوکے ٹیمیں گھر گھر جا کر پانچ سال سے کم عمر کے تمام بچوں کو پولیو کے قطرے پلائیں گی۔ اپنے پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو کے حفاظتی قطرے ضرور پلائیں اور عمر بھر کی معذوری سے نجات دلائیں۔ اگر کسی وجہ سے محکمہ صحت کی ٹیمیں آپ کے گھر نہ پہنچ سکیں تو اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کے مرکز یا مرکز صحت سے قطرے ضرور پلائیں۔انہوں نے کہاکہ یہ انتہائی خوش آیند بات ہے کہ چترال گذشتہ بیس سالوں سے پولیو فری ضلع چلا آرہا ہے۔ اور یہ مقامی ہیلتھ کے اداروں،اسٹاف کی اچھی کارکردگی اور عوام کے بھر پور تعاون سے ممکن ہوا ہے۔انہوں نے کہاکہ اس سال ملک کے مختلف حصوں میں پولیو کے 98کیسز کا سامنے تشویش کی بات ہے جوکہ والدین کی عدم تعاون کی وجہ سے پیش آئے ہیں۔ اس موقع پرپاکستان تحریک انصاف کے سینئررہنماعبدالطیف،سرتاج احمد خان،افتاب ایم طاہر،امین الرحمن، ڈاکٹر سلیم سیف اللہ خان ، ڈاکٹرگلزاراحمد،ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر چترال فیاض قریشی اوردیگرنے بچوں کوپولیوکے قطرے اورطاقت کے کیپسول کھلایا۔
chitral anti polio campaign kicked off0

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
29885

خیبرپختونخوا میں ایک اورسندھ میں مزید 2 پولیو کیسزکی تصدیق، مجموعی تعداد101 ہوگئی

کراچی(چترال ٹائمزرپورٹ)صوبہ سندھ میں مزید 2 پولیو کیسز کی تصدیق ہوگئی، رواں برس سامنے آنے والے پولیو کیسز کی تعداد 101 ہوگئی۔تفصیلات کے مطابق سندھ کے پولیو حکام نے سندھ سے مزید 2 پولیو کیسز کی تصدیق کی ہے۔ دونوں کیسز میرپور خاص سے رپورٹ ہوئے ہیں۔پولیو حکام کا کہنا ہے کہ سندھ میں رواں برس پولیو کیسز کی تعداد 16 ہوگئی ہے۔ جبکہ ایک کیس صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی میں‌ رپورٹ ہوا ہے .

خیال رہے کہ رواں برس ملک بھر میں پولیو کیسز میں تشویشناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اب تک سامنے آنے والے پولیو کیسز کی تعداد 101 ہوگئی ہے، یہ شرح سنہ 2015 سے بھی زیادہ ہے جب ملک میں 54 پولیو کیسز رپورٹ کیے گئے۔صرف خیبر پختونخوا میں ریکارڈ کیے گئے پولیو کیسز کی تعداد 73 ہوگئی ہے۔ 16 کیسز سندھ میں، 7 بلوچستان اور 5 پولیو کیسز پنجاب میں سامنے آچکے ہیں۔ اخری اطلاع کے مطابق ایک اورکیس گجرانوالہ میں‌ سامنے آیا ہے تاہم اسکی تصدیق نہ ہوسکی ہے.
.
گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے انسداد پولیو مہم کا آغاز کرتے ہوئے تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ انسداد پولیو مہم میں جان دینے والے ورکرز قومی ہیرو ہیں، پولیو پر قابو نہ پایا گیا تو عالمی سطح پر مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔انہوں نے کہا تھا کہ اگر کسی وجہ سے ورکر آپ کی دہلیز تک نہ پہنچیں تو مائیں خود اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے لیے لے کر جائیں، ہم سب کو پولیو کے خاتمے کے لیے کام کرنا چاہیئے۔
WPV cases in pakistan polio case 101

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
29868

اسلامک یونیورسٹی کے طالبعلم طفیل کے قتل کے خلاف جمعیت طلبہ چترال کا احتجاجی مظاہرہ

چترال ( محکم الدین ) اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں اسلامی جمیعت طلبہ کی طرف سے کُتب میلے کے اختتامی پروگرام کے موقع پر لسانی گروپ کی طرف سے حملہ کرکے غذر گلت سے تعلق رکھنے والے بی ایس اکنامکس کے طالب علم سید طفیل الرحمن ہاشمی کو قتل اور کئی طلبہ کو زخمی کرنے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ پی آئی اے چوک چترال میں کیا گیا ۔ جس میں اسلامی جمیعت طلبہ کے ساتھ مختلف پرائیویٹ تعلیمی اداروں‌کے طلبہ اور اساتذہ نے شرکت کی ۔
.
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سابق ناظم جمیعت اشفاق احمد ، سابق معتمد پشاور یونیورسٹی ابرارالرحمن ، صدر جے آئی وجیہ الدین نے خطاب کرتے ہوئے کہا ۔ کہ حکومت دیے گئے ڈیڈ لائن کے اندر قاتلوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دے ۔ بصورت دیگر امن کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ موجودہ حکومت برائے نام ہے ۔ اس کی نا اہلی کی وجہ سے ہسپتال کے ڈاکٹرز ، مریض ، وکلاء اور طلبہ کوئی بھی محفوظ نہیں ۔ انہوں نے مسلح لوگوں کو فری ہینڈ دیا ہے ۔ اور ملک میں ایک انارکی کی کیفیت ہے ۔ انہوں نے کہا ۔ کہ مدینہ کی ریاست بنانے کے دعویدار وں کی نا اہلی اب عام ہو گئی ہے ۔ اور کوئی بھی ان کی باتوں پر اعتبار نہیں کرتا ۔ لوگوں کیلئے ایک طرف مہنگائی اور بے روز گاری کی وجہ سے زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے ۔ تو دوسری طرف زندگی محفوظ نہیں ہیں ۔ انہوں نے حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے طفیل کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا.ت
islami jamiat talba chitral protest rally for iiu isb insident 2

islami jamiat talba chitral protest rally for iiu isb insident 3

islami jamiat talba chitral protest rally for iiu isb insident 4

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
29831

“وقت اور علم کا نذرانہ” سب کی ضرورت…….. تحریر: امیرجان حقانی

Posted on

آج پرنس کریم آغاخَان کی سالگرہ ہے.تمام اسماعیلی بہن بھائیوں کو مبارک ہو.گلگت ڈویژن میں حکومت گلگت بلتستان کی طرف سے عام تعطیل ہے.پرنس کریم آغاخَان کی بدولت ہم بھی چھٹیاں منارہے ہیں. مجھے ایکس اسپیکراسمبلی وزیر بیگ صاحب کا وہ بات یاد آرہا ہے جو انہوں نے اہل سنت کے وفد سے کہا تھا کہ “ہم اسماعیلی اور اہل تشیع اپنے آئمہ کے ایام ولادت و شہادت پر چھٹی کرلیتے ہیں اور سرکاری سطح پر بھی منوایا ہے.آپ بھی ایسا کرسکتے ہیں لیکن کرتے نہیں،جس میں کسی اور کا نہیں آپ کا اپنا قصور ہے. آپ کے ممبران اسمبلی اس کی ڈیمانڈ کیوں نہیں کرتے تاکہ ہم فورا اسمبلی سے قرارداد منظور کریں”.
.
پرنس کریم آغاخان نے اپنے فالورز کو ایک سوچ اور فکر دی ہے. یہ ایک ایسا نظریہ ہے جس میں سراسر فائدہ ہی فائدہ ہے.معاشرے کی ترقی ہے. انسانیت کی خدمت ہے. پرنس کریم آغاخَان بھیک لینے اور دینے کے قائل نہیں ہیں. وہ ہنر دینے کی بات کرتے ہیں. اور تعلیم ان کا موٹو ہے.جدید تعلیمی ماہرین سے سروسز لینا ان کا فرمان ہے. وقت کی نبض پکڑ کر فیصلے کرنا ان کی فطرت ہے. اپنے فالورز کو وقت سے چار قدم آگے کی تلقین کرنا اور عملی طور پر ایسا ماحول مہیا کرنا ان کی پلاننگ میں شامل ہے.اگر “مال امام” لیا بھی جاتا ہے تو اس کی واپسی معیاری اداروں کے قیام کی شکل میں کی جاتی ہے جو بہر حال مستحسن ہے.
.
پرنس آغاخَان کا فرمان “وقت اور علم کا نذرانہ” عملی طور پر دراصل ان لوگوں کے لیے ہے جو سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں جاب کرتے ہیں اور ان لوگوں کے پاس مختلف قسم کے سکلز ہیں. آغاخَان صاحب کا کہنا ہے کہ آپ اپنے وقت اور علم و ہنر سے تھوڑا سا حصہ اپنے مذہبی اور رفاہی اداروں کے لیے بطور نذرانہ پیش کیجے تاکہ کمیونٹی کی خدمت بہتر طریقے سے کی جاسکے.
.
پرنس صاحب کے اس نظریہ/فرمان کے مطابق گلگت بلتستان اور چترال کےتمام سرکاری، نیم سرکاری اداروں کے ملازمین اور دیگر ہر فیلڈ کےباہنر اور اہل علم لوگ امامتی اداروں سے جڑے ہوئے ہیں.بینک میں ملازمت کرنے والے پارٹ ٹائم امامتی اور رفاہی اداروں میں اکاونٹ کے معاملات دیکھتے ہیں. پولیس اور فوج سے متعلق آفیسر اور سپاہی فارغ وقت میں امامتی اداروں کے سیکورٹی کے معاملات سنھبالتے ہیں. اساتذہ اور تعلیم سے متعلق احباب تعلیمی اور سماجی امور کے معاملات میں امامتی اداروں کے معاون بنے ہوئے ہیں. غرض ہر طبقہ کے لوگ فرصت میں اپنے مذہبی اداروں کو شاندار سروسز مہیا کررہے ہیں.اور مزے کی بات یہ سب کچھ فخریہ طور پر کیا جارہا ہے اور کرنا بھی چاہیے. ان لوگوں کی معاونت سے ان کے مذہبی ادارے اور رفاہی و تعلیمی ادارے اوج کمال کو پہنچے ہوئے ہیں. ان اداروں میں امور بھی تقسیم ہیں.کوئی ادارہ دوسرے کے کام میں نہ مداخلت کرتا ہے نہ کرنے دیا جاتا ہے.نہ ان کے آئین میں اس کی گنجائش ہے. تقسیم اختیارات اور چیک اینڈ بیلنس کا شاندار مظاہرہ یہاں دیکھنے کو ملتا ہے.اطرب مذہبی، Akes تعلیمی اور ریجنل کونسلات انتظامی معاملات ڈیل کرتے. اسی طرح دیگر کام بھی اداروں میں تقسیم ہیں.ان کے کسی ادارے یا آفس کا وزٹ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کس شاندار انداز میں یہ ادارےکام کر رہے ہیں. ان اداروں میں کل وقتی ملازمین بھی ہیں مگر اکثر لوگ وہ ہیں جو “وقت اور علم کا نذرانہ” والے فرمان پر عمل کرکے اپنے مذہبی اداروں کو کم وبیش فری میں سروسز دے رہے ہیں.تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات سے بھی خدمات لی جاتی ہیں. انہیں مختلف کاموں کے لیے رضاکارانہ طور پرانگیج کیا جاتا ہے. امامتی ادارے تمام سرکاری اور دیگر اداروں سے ہمیشہ رابطے میں رہتے ہیں اور بہت سارے کام سرکار کیساتھ اشتراک وتعاون اور حکومت کی اجازت سے انجام دیتے ہیں جو قابل ذکر بات ہے.پرنس کریم کا فرمان ہے کہ سرکار اور کمیونٹی کی معاونت و اشتراک سے کام کیا جائے.گلگت بلتستان اور چترال میں سرکار کی معاونت و اجازت اور لوکل کمیونٹی کے تعاون سے سینکڑوں ادارے اور ہزاروں پروجیکٹ چل رہے ہیں. پرنس کریم صنفی امتیاز پر بھی یقین نہیں کرتے. عورت کو بھی سماج کا بھرپور حصہ قرار دیتے ہیں اور ان سے بھی سروسز لی جاتی ہیں.شعبہ ہائے زندگی میں خواتین ہرجگہ نظر آتی ہیں. ان کے اس نظریے کی بدولت دیامر جیسے یک طرفہ مسلک کے ہسپتال میں بھی ساری ان کی نرسیں اسپتالوں کو سنبھالے ہوئیے ہیں. گوہرآباد جیسے گاؤں میں بھی ڈیلوری کی ایمرجنسی کیسیز ڈیل کررہی ہوتی ہیں. انتظامی طور پر بھی خواتین باقاعدہ شامل ہیں. ریجنل کونسل کی جنرل سیکریٹری بھی ایک خاتون پروفیسر ہیں.خواتین بااختیار ہیں اور خود کو معاشرے کا بھرپور حصہ سمجھتی ہیں اور بڑی حد تک اپنی ذات کی متعلق بھی فیصلے خود کرتی ہیں.
.
یہ انداز کسی حد تک اہل تشیع برادری کے احباب بھی اپنائے ہوئے ہیں لیکن ابھی ان میں بھی اتنا شعور اور رہنمائی نہیں.خال خال لوگ اپنے مذہبی اداروں کو بہترین سروسز دے رہے ہیں. مشاہدہ یہی بتاتا ہے کہ مستقبل قریب میں یہ حضرات بھی ایسا سسٹم ڈیویلیپڈ کریں گے جس کے تھرو ان کے تمام اہل علم و ہنر اپنے اداروں کو بڑی حد تک بہترین سروسز مہیا کریں گے.
.
میں روز سوچتا ہوں کہ جی بی کی اہل سنت برادری کا کوئی لیڈر اٹھ کھڑا ہوجائے اور اپنے لوگوں سے “وقت اور علم کا نذرانہ” مانگے. سرکاری اور نیم سرکاری ملازمین اور دیگر باہنر اور اہل علم حضرات سے مسجد و مدرسہ اور رفاہی اداروں اور تعلیمی اداروں کے لیے چندہ مانگنے کی بجائے ان سے فری میں سروسز مانگے.ایک ایسا سسٹم وضع کرے کہ شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ فی سبیل اللہ کچھ نہ کچھ دینی اداروں کو سروسز دے سکیں اور سکون و ثواب کی دولت سے مستفید ہوجایئں.ان لوگوں کو احساس دلائے اور انہیں مکمل عزت و توقیر بخشے کہ آپ جہاں کہیں بھی ملازمت اور کام کرتے ہیں، کرتے رہیے مگر تھوڑا سا وقت، علم اور ہنر اپنے دینی اداروں کو بھی دیں.تاکہ سسٹر کمیونٹی کی طرح تمہارے ادارے بھی بام عروج کو پہنچے.اے کاش! ایسا ہوجاتا.
کیا ہی بات ہوتی کہ کسی دینی مدرسہ اور جامعہ کے تعلیمی معاملات میں پروفیسروں اور ماہرین تعلیم سے خدمات لی جاتی.ادبی اور تحقیقی کاموں پر محققین اور ادباء سے وقت مستعار لیا جاتا.
.
کسی مسجد اور مدرسے کی تعمیرات میں انجیںرز اور آرکیٹکس سے سروسز کا ڈیمانڈ کیا جاتا.صفائی اور ستھرائی کے لیے میونسپل والے کو بلایا جاتا. رفاہی اور تعلیمی اداروں اور مدرسوں کے اکاونٹس کو کوئی بینکر اوراکنامسٹ دیکھتا. فنڈ رائسنگ اور پروپوزل رائٹنگ وغیرہ کے امور این جی اوز والے احباب نمٹاتے. سیکورٹی کے معاملات میں فوجی اور پولیس کی رہنمائی لی جاتی. منیجمنٹ میں کسی منیجر کی جبکہ ایڈمنسٹریشن میں ڈی ایم جی لیول کے افسران کی سروسز لی جاتی. پبلیکشن اور میڈیا کی سروسز کے لیے صحافیوں کو انگیج کیا جاتا.باغات اور نرسریوں کے لیے زراعت اور فارسٹ اور ڈیری فارمز کے لیے لائیو اسٹاک والوں کو مدعو کیا جاتا.
غرض ہر انسان سے اس کے علم و ہنر اور اس کے فیلڈ میں خدمات لی جاتی تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اہل سنت کے تعلیمی اور رفاہی ادارے اور مذہبی ادارے کس عروج کو پہنچیں گے؟
.
ہمارے ہاں تو المیہ یہ ہے کہ ایسا سوچنا بھی گناہ تصور کیا جاتا ہے بلکہ اپنے اختیارات میں مداخلت گردانی جاتی ہے. سرسید کی اولاد کا طعنہ دیا جاتا اور دنیا دار کہہ کر دھتکار دیا جاتا ہے.المیہ یہ ہے کہ یہ باصلاحیت ملازمین اور دیگر ماہرین فن بھی اپنے دینی اداروں کو جسٹ دعا اور ختم قرآن کے ذریعے ایصال ثواب تک کے لیے محدود سمجھتے ہیں. اور کوئی زیادہ ہمت کرے تو اپنی صدقات و زکواۃ وہاں جمع کراتے اور بس.
.
میرے جیسا کوئی پاگل فری ٹائم میں فری خدمت کرنا بھی چاہیے تو اسے ٹیکنیکل طریقے سے ذلیل کیا جاتا ہے. طعنے ملتے ہیں. اور پھر ڈرایا بھی جاتا ہے کہ آپ کو خطرہ بھی ہوسکتا. بہر صورت ایسا ہونا ممکن نہیں مگر سوچنے اور کہنے پر پابندی بھی نہیں.میں خواب دیکھنے کا عادی انسان ہوں، آج نہیں تو کل تعبیر مل جائے گی. آنے والی نسلوں کو نقوش چھوڑ رہا ہوں. وہ خود بہتر فیصلہ کریں گے کہ ان کو کیا کرنا ہے اور وہ کیا بہتر کرسکتے ہیں. اور ان سے وقت کیا ڈیمانڈ کرے گا.دیکھتے جائے گا. وقت سب سے بڑا قاضی ہے. اپنا فیصلہ سناکر ہی دم لے گا.
.
پرنس کریم آغاخَان کے اس نظریہ(وقت اور علم کا نذرانہ) پر برادر کمیونٹیز بھی عمل کرکے گلگت بلتستان اور چترال کو سونے کی چڑیا بناسکتی ہیں اور اپنے اپنے اداروں کو آغاخانی مذہبی و تعلیمی اور رفاہی اداروں کی طرح عروج پر لے جاسکتی ہیں اور ایک خوشحال اور باصلاحیت کمیونٹی کا مقام حاصل کرسکتی ہیں.اگر ایسا ہوا تو پورے خطے میں استحکام و استقلال ہوگا. مقابلے کی ایک دوڑ ہوگی. ہر مکتب فکر تعمیر و ترقی میں خود کو سرفراز کرنے کی تگ و دو کرے گا.
.
اگر کسی کو سمجھ آئی ہے میری بات تو دعا دیجے. ورنا حسب سابق فتوی لگانے اور احساس کمتری کا طعنہ دینے سے گریز کریں.کیونکہ میری سوچ اور میرے خواب پر میرا پورا پورا اختیار ہے. آپ کو کوئی حق نہیں بنتا مجھے لتاڑنے کی.اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
29825

طفیل کی شہادت اورپروفیسر سید جلال کا حوصلہ……….تحریر: امیرجان حقانی

پروفیسر سید عبدالجلال صاحب میرے جگری دوست ہیں. میرے ہم خیال ہیں. مجھ پر اعتماد بھی کرتے اور مجھ سے محبت بھی. آج سویرے جب ان کے جواں سال اور سب سے چھوٹے بیٹے طفیل کی شہادت کی خبر سنی تو دیر تک سکتے میں رہا… پھر پروفیسر صاحب کو فون کیا تو انتہائی کنفییڈنس کیساتھ پروفیسر نے وعلیکم السلام بھی کہا اور خیریت پوچھنے لگے تو بے ساختہ میرے آنسو نکلے اور ہچکی بندھ گئی. میں چاہتے ہوئے بھی آواز نہ نکال سکا.اور لائن کٹ گئی. کافی دیر بعد دوبارہ فون کیا تو مولانا صاحب نے دورباہ حوصلے کیساتھ بات کی اور تمام تفصیل بتا دی. انا اللہ وانا الیہ راجعون.
.tufail iiu isb gilgit
میں طفیل کو اس وقت سے جانتا جب یہ بچہ آرمی پبلک سکول گلگت میں پڑھتا تھا. کئی دفعہ اس کو موٹر پر سکول تک چھوڑ بھی دیا راستے سے. اور دسویں دفعہ پروفیسر جلال صاحب کالج جاتے ہوئے اپنی گاڑی میں مجھے بھی پک کرتے. تب گاڑی میں طفیل بھی ہوتا. یہ جوان انتہائی باصلاحیت ہونے کیساتھ خوبصورت اور وجہیہ بھی تھا.طفیل الرحمان اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں Bs اکنامکس کا طالب علم تھا.پروفیسر صاحب کا دوسرا بیٹا عتیق الرحمان میرا شاگرد ہے.بڑا بیٹا محبوب صاحب ڈاکٹر ہیں. جب بھی گھر جاتا تو دونوں بھائیوں میں ایک اکثر موجود ہوتا.وہ میرے اور اپنے والد گرامی کے لیے چائے اور کھانے پینے کی سروسز دیتے.کھبی ڈاکٹر کا بیٹا یعنی جلال صاحب کا پوتا یہ سروسز دیتا.
..
لوگ بنیادی طور پر شریف النفس، ملنسار اور خدمت گار اور مہمان نواز بھی ہیں. ضلع غذر کا خمیر ہی کچھ ایسا ہے. پھر مولانا جلال صاحب سر تا پا استاد ہی استاد ہیں. شیخ الحدیث مولانا عبدالحق سے حدیث اور شیخ القرآن غلام اللہ خان سے علم تفسیر حاصل کی. اپنے اساتذہ کے بہت ہی قدردان تھے. مجھے تین گھنٹے کا انٹرویو دیا جس میں اساتذہ کی محبت جھلک رہی تھی. پوسٹ گریجویٹ کالج گلگت سے ریٹائرڈ ہونےکے بعد میری گزارش اور خواہش پر جامعہ نصرۃ الاسلام میں حدیث، فقہ اور ادب کی کتب بغیر کسی معاوضے کے پڑھا رہے ہیں.
.
مولانا جلال صاحب کو واقعی اللہ نے صبر اور برداشت کا مادہ عنایت کیا ہے ورنا اتنے لارڈلے بیٹے کی جواں سالی میں شہادت پر کوئی باپ حوصلہ کرسکتا ہے اور ایسی تحریر لکھ سکتا ہے. مولانا پروفیسر جلال صاحب نے اپنی وال سے جو پیغام شیئر کیا ہے ملاحظہ کیجے. لکھتے ہیں:
.
“آج بروز جمعرات بتاریخ 12 دسمبر 2019 کو لادینیت کے پرچارک طلبہ کے غنڈوں نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ،،کتاب میلہ ،،پروگرام کے اختتامی نشست کے موقعے پر اچانک مسلح حملہ کر کے میرے سب سے چھوٹے ،والدین اور بہن بھائیوں کے ،،دلارے ،،پیارے سید طفیل الرحمن ھاشمی کو ،،شھید ،،اور دوسرے متعدد طلبہ کو شدید زخمی کردیا ۔میں اسلام آباد سے دور ،،گلگت ،،میں اپنے پیارے کی شھادت کی خبر تقریباً ساڑھے نو بجے فیسبک میں دیکھ لیا اور اپنے اوسان پر مکمّل قابو رکھتے ہوئے انا للہ واناالیہ راجعون کہ کر گھر والوں کو یہ خبر جانکاہ سنائی ۔
.
میں اپنے لاڈلے بیٹے کی شھادت کا اپنے مرشد سید مودودی رح کے اتباع میں اللہ تعالی کے ھاں ایف ۔آئی آر درج کرتے ہوئے اللہ تعالی ھی کے حضور درج کر رھا ھوں ۔اللہ تعالی خود ان سفاک ،ظالم قاتلوں سے نمٹے ،،انما اشکو بثی وحزنی الی اللہ ۔۔
میں جماعت اور جمعیت کے دوستوں اور سر براھان کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔جنھوں نے ٹیلیفونک رابطہ کرکے مجھے تسلیوں اور دعاؤں سے نوازا ۔ان میں پاکستان اور آزاد کشمیر کے جماعتی اور جمعیتی اعلیٰ قیادتیں شامل ھیں ۔جزاھم اللہ خیرا
.
کل صبح ،دس بجے محترم سراج الحق صاحب کی امامت میں نماز جنازہ ادا ھونے کے بعد ،،شھید ،،کی جسدِ خاکی پہلے گلگت اور پھر میرے گاؤں پکورہ تحصیل اشکومن بھیجا جائے گا ۔ ۔اللہ تعالی ھم سب کو ،،صبر کی ،،تو فیق عطا فرمائے آمین ؟(احباب تعزیت کیلئے میرے گلگت والے گھر آنے کی زحمت نہ کریں ۔کیوں کہ ھم لوگ صبح سات بجے گاؤں روانہ ھونگے ۔”
جلال صاحب! میں آپ کے حوصلے کو سیلوٹ کرتا ہوں. اور اللہ سے دعا ہے کہ اللہ آپ سب کو صبر جمیل دے اور طفیل الرحمان ہاشمی کا نعم البدل دے. اور اپنے دربار میں ان کی شہادت قبول کرے. آمین

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
29812

اسماعیلی والنٹئیرزنے اپرچترال کے مختلف سڑکوں کی مرمت اورکھڈوں‌کی بھرائی کردی

مستوج (نمائندہ چترال ٹائمز) اسماعیلی کمیونٹی کی روحانی پیشوا ہزہائی نس پرنس کریم آغاخان کی چترال آمد کی یاد میں‌ اپر چترال کے اسماعیلی والنٹئرز نے اپرچترال کے اکثرسڑکوں‌ کی مرمت کرڈالی. جبکہ ہزہائی نس پرنس کریم آغاخان کی چترال آمد کے موقع پر اپنی مدد آپ کے تحت اپرچترال کی تمام سڑکیں مرمت کرکے ٹریفک کیلئے انتہائی اسان بنا دیا گیا تھا. اُسی جذبے سے گرین لشٹ سے لیکرمستوج کے بالائی علاقوں‌تک والنٹئرز نے کھڈوں‌ کی بھرائی اورمرمت کرکے اس دفعہ بھی مسافروں‌کے ساتھ ٹرانسپورٹروں‌کادل بھی جیت لیا ہے اوران سڑکوں‌پر سفرکرنے والے ان کو داد دئیے بیغیرنہیں‌گزرتے ہیں. مختلف مکاتب فکر نے انھیں‌خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسماعیلی والنٹئیرز نے اپنی مدد آپ کے تحت سڑکوں‌کی مرمت کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ایک منظم کمیونٹی ہونے کے ساتھ اپنے روحانی پیشوا سے کس قدرمحبت کرتے ہیں.
ismaili volunteers1

ismaili volunteers upper chitralt

ismaili volunteers upper Chitral road repaired8

ismaili volunteers upper Chitral road repaired22

ismaili volunteers upper Chitral road repaired

ismaili volunteers upper Chitral road repaired2

ismaili volunteers upper Chitral road repair

ismaili volunteers upper chitral

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
29796

چترال کے معروف فنکارمنصورعلی شباب کوماونٹین ایوارڈ سے نوازاگیا

Posted on

اسلام آباد(چترال ٹائمزرپورٹ ) چترال کے معروف فنکارمنصورعلی شباب کو DEVCOM کی طرف سے مونٹین ایوارڈ سے نوازا گیا . یہ ایوارڈ گزشتہ روز کامسیٹ یونیورسٹی اسلام آباد میں‌منعقدہ ایک تقریب میں انکو کہوارفوک موسیقی کیلئے ان کی گرانقدرخدمات کے اعتراف میں‌دیا گیا. تقریب میں برٹش ہائی کمشنر، نیپال کے ایمبسڈر، بین الاقوامی مونٹینئرنذیر صابر، آر ایس پی این کے چیف ایگزیکیٹو شعیب سلطان کے علاوہ جی بی کے معروف شخصیت جان علی، عبدالغفارچیلاسی ودیگر بھی موجود تھے. تقریب انٹرنیشنل مونٹین ڈے کی مناسبت سے سجائی گئی تھی. جہاں‌پہاڑی علاقوں‌کے لوگوں‌کو ان کی خدمات کے اعتراف میں یہ ایوارڈ دئے گئے . منصورعلی شباب ڈپٹی ہائی کمشنراورجی بی کے معروف آرٹسٹ جان علی جان کے ہاتھوں‌سے اپنا ایوارڈ وصول کیا. بعد ازاں منصورعلی شباب نےاپنے فن کا بھی مظاہرہ کیا. جس سے حاضرین محظوظ ہوئے.

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
29727