Chitral Times

گلگت بلتستان کے نگران وزیراعلیٰ کیلئے وفاق سے کسی بیوروکریٹ کو منتخب کیا جائے۔شرافت خان

گلگت(چترال ٹائمز رپورٹ)تحفظ آئینی حقوق گلگت کے چیئرمین شرافت خان نے اپنے ایک اخباری بیان میں کہا کہ نگران وزیر اعلیٰ کا چناؤ قانون و ضابطے کے مطابق ایک معمول کا عمل تھا لیکن گلگت میں مختلف جماعتوں اور مکتبہ و فکر کے مابین کھینچاتانی سے یہ مسلہ گھمبیر ہوتا جارہا ہے جو کہ علاقہ کے پرامن صورتحال میں مناسب نہیں ہے اور حالات ٹکراؤ کی طرف جاسکتے ہیں۔جب کہ بھارت کا مودی ان علاقوں میں بے چینی کی فضا پیدا کرنا چاہت اہے جس کے لیے ہم سب کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور ہر معاملہ میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرکے قانونی راستہ اختیار کی ضرورت ہے۔
گزشتہ دنوں سے مختلف جماعتوں اور فریق نے پریس اور سوشل میڈیا ایک دوسرے کے خلاف جو بیان بازی شروع کی ہے وہ حالات کو خراب کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔اس لیے ہم تجویز کرتے ہیں کہ حکومت گلگت بلتستان میں الیکشن کے نگراں وزیر اعلیٰ کے طور پر براہ راست وفاق سے کسی سول یا ملٹری، بیروکریٹ کو بھیجے جو ان علاقوں میں منصفانہ الیکشن کراسکے۔جیسا کہ ماضی میں پاکستان میں الیکشن کرانے کے لیے معین قریشی اور شوکت عزیز کو بیرون ملک سے لایا گیا تھا۔امید کی جاتی ہے کہ وفاق سے آنے والے بندے پر کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
36617

ابتدائی بچپن کی تعلیم ۔۔ ای.سی.ڈی…(قسط دوم) ۔۔۔۔۔ تحریر: دیدار علی شاہ

یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ بچے کی پیدائش سے قبل اور پیدائش کے بعد ابتدائی ماہ و سال میں رونما ہونے والے واقعات اس پر زندگی بھر کے لئے اثراندازہوسکتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بچہ اپنی والدین، ابتدائے بچپن کے اساتذہ اور نگہداشت کرنے والے افراد سے جس قسم کی تربیت پاتا ہے اسی سے اس امر کا تعین ہوتا ہے کہ وہ اسکول، معاشرہ اور اپنی عمومی زندگی کے درمیان کس طرح ربط پیدا کرتا ہے۔


Early Childhood Development ECDکی تاریخ اتنی پرانی نہیں ہے تقریباً بیس سالوں سے مختلف ممالک میں رائج ہے۔اس پروگرام کے طریقہ کار میں بچوں کی پیدائش سے پہلے یہ طریقہ تدریس شروع ہوتی ہے۔ خواتین کو ای سی ڈی سینٹرز میں یہ بتایا اور سکھایا جاتا ہے کہ دوران حمل بہتر خوراک کا انتخاب ہوں، غور و فکر اور سوچنے کا انداز مثبت ہوں، گھر کے اندر یا آفس میں بات چیت اور کام کاج تخلیقی انداز میں ہوں وغیرہ۔ اس مثبت غوروفکر اور کام کاج سے اس بچے پر مثبت اور تخلیقی اثر ہوتا ہے۔اس کے بعد جب بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو اسے ایک سال تک گھر کے اندر بہتر ماحول دیا جاتا ہے جو کہ دوران حمل اس بچے کی ماں کو ای سی ڈی سینٹر میں یہ طریقہ کار اور ٹریننگ دی جاتی ہے۔اس کے بعد مرحلہ آتا ہے اس بچے کو ای سی ڈی سینٹر میں داخل کیا جاتا ہے۔ اور یہ شرط ہے کہ ایک ہفتے میں بچے کی ماں باپ اس سینٹر کا دورہ ضرور کریں اور خاص کر ماں کا ہونا ضروری ہے۔کیونکہ ماں اور بچے سب کلاس میں بیٹھتے ہیں۔ایک سال سے آٹھ سال تک کے بچوں کو ای سی ڈی سینٹرز میں کتابوں، کھلونوں، آوازوں، اشکال، ویڈیوز، آڈیوز، کہانی، کھیل کود کے زریعے سمجھایا اور سکھایا جاتا ہے۔لہذا ای سی ڈی پروگرام میں ابتدائی سالوں میں پیدائش سے آٹھ سال کی عمر تک بچے بنیادی مہارتوں اور وہ طریقے سیکھتے ہیں جو ان کی مستقبل کی تعلیم اور بقیہ زندگی میں کامیابی کے لئے نہایت ہی اہم ہوتے ہیں۔یعنی اس پروگرام کے تحت بچوں کو وہ ماحول فراہم کیا جاتا ہے جس میں بچے اپنے اطراف کی اشیاکو استعمال کرتے ہوئے تجربات سے سیکھتے ہیں۔


اگر ہم ای سی ڈی کے فوائد اور خصوصیات کی بات کریں توجدید تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ بچے کی ابتدائی سال بہت اہم ہوتے ہیں۔ جس کے دوران بچے میں سیکھنے کی صلاحیت پروان چڑھتی ہیں۔ اچھی صحت، پرورش کرنے والے محفوظ ماحول اور درست ذہنی حرکات کے زریعے سے نہ صرف بچے کی نشونما کی مضبوط بنیاد رکھی جاسکتی ہے بلکہ یہ اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ بچہ آگے چل کر تعلیم، کام کاج اور معاشرے میں اہم کردار ادا کرسکے۔


گلگت بلتستان میں بھی پچھلے کچھ سالوں سے ایسے ا سکولز موجود ہے جہاں پر بہتر طریقوں سے بچوں کو اس پروگرام کے طریقہ کار کے زریعے تیار کیا جا رہا ہیں۔ اور ضروری ہے کہ نئی نسل کو آنے ولے وقتوں کے لئے تیار کیا جائے۔


ابھی نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کرونا وبا کی وجہ سے متاثر ہے۔ اسی لئے تمام سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز بند ہے۔ اور اسی دوران سب سے زیادہ توجہ طلب یہ چھوٹے بچے ہی ہے۔جن کی عمرآٹھ سال تک ہے اور ان کو گھروں میں خاص توجہ کی ضرورت ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ اسکول بند ہونے کی وجہ سے ان کی توجہ اور پڑھائی میں دلچسپی کم ہوجائے۔


اسی لئے جب بھی ممکن ہو گھر کے اندر بچوں سے بات کریں اور انہیں پیار کریں۔ آپ اپنے اردگرد کوئی بھی شے دیکھیں تو اس پر بچے کو متوجہ کریں۔ چیزوں کے رنگ، اشکال اور جسامت کے متعلق بات کریں اور نہیں چھو کر دکھائیں۔ بچوں سے مختلف چیزوں کے بارے میں پوچھیں۔ والدین کا بچوں کے ساتھ تعلق اور ان کی حوصلہ افزائی بچوں کی خود اعتمادی میں اضافہ کرتا ہے۔ اور بچوں کو زیادہ سے زیادہ سیکھنے میں مدد دیتا ہے۔ گھر کے اندر ان کو ایسا ماحول دیں کہ یہ بچے اسکول اور اساتذہ کی کمی محسوس نہ کریں اور ان کی کارکردگی پر کوئی منفی اثر نہ پڑے۔ اور کوشش ہو کہ ECD طریقہ کار کے مطابق گھروں میں ان کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ چلتا رہے۔اور کوشش کریں کہ جن ECD سینٹرز یا سکولوں میں آپ کے بچے داخل ہیں ان کے منجمینٹ اور اساتذہ کے ساتھ رابطے میں رہے۔ اور بچوں کی بات ان کے اساتذہ سے کروائیں تاکہ بچوں کو حوصلہ ملے کی انھیں واپس سکول جانا ہے۔


والدین کی طرف سے کچھ ایسے جملے ہے جس کے باربار کہنے سے بچوں کے اندر خود اعتمادی اور حوصلہ بڑھتا ہے۔مثلاً مجھے آپ سے محبت ہے، مجھے بہت اچھا لگتا ہے جب آپ فلاں کام کرتے ہو، آپ نے تومجھے خوش کردیا، مجھے آپ پر فخر ہے، مجھے آپ پر بھروسہ ہے، مجھے آپ پر یقین ہے، یقینا آ پ یہ کام کرلیں گے، آپ بہت بڑی نعمت ہے، آپ ہمارے لیے بہت خاص ہے وغیرہ۔ آپ کے بچے گھر میں جو بھی کام کر لیں گے تو آپ ایسے جملے ضرور کہیں تاکہ اُن کو حوصلہ ملیں۔اور ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے دیں، مشاہدات سے انھیں سکھائیں، بچوں کو لطف اندوز ہونے دیں، دوسروں کی عزت کرنا سکھائیں، اور خاص کر بچے کو بچہ ہی رہنے دیں کیونکہ جو آپ سکھا رہے ہیں یا سمجھا رہے ہیں ضروری نہیں کہ وہ سب سمجھ جائے۔


جس اسکول میں آپ کے بچھے داخل ہے اُسی اسکول کے حوالے سے معلومات رکھنا ضروری ہے۔ کہ استاد اور سکول انتظامیہ کا رویہ کیسا ہے؟ کلاس روم کا ماحول کیسا ہے؟ سلبس بچوں کے عمر کے مطابق ہے کہ نہیں؟ دوسرے بچے تنگ تو نہیں کرتے؟ کہیں انگریزی یا اردو زبان مشکل تو نہیں لگ رہی؟ کلاس میں بڑی عمر کے بچوں کی عمر کیا ہے؟ اور یاد رکھیں کہ اسکول کے اندر بچوں پر تشدد کرنا جرم ہے جس کی سزا ایک سال قید اور کم از کم ایک لاکھ روپے جرمانہ ہے۔اور ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ”ہر بچے کو اسکول میں پڑھنے اور سیکھنے، نقصان سے محفوظ رہنے اور اپنے صلاحیتوں کو پورا کرنے کے قابل ہونے کا حق حاصل ہے۔“


ہمارے ملک کے موجودہ تعلیمی نظام کو اگر ہم مختصر بیان کریں تویہ نظام اس طرح سے کام کرتی ہے کہ بچے پڑھتے ہے، ایگزام میں شامل ہوتے ہے،ایگزام پاس کرتے ہے پھر وہ سب بھول جاتے ہے جو کچھ وہ پڑھ چکا تھا۔
ایک مشہور دانشور کا کہنا ہے کہ ” یتیم وہ بچہ نہیں ہے جسے اس کے والدین دنیا میں تنہا چھوڑ گئے ہوں، اصل یتیم تو وہ ہے جن کی ماوں کو تربیت اولاد سے دلچسپی نہیں ہے اور باپ کے پاس انھیں دینے کے لئے وقت نہیں“ اسی لیے ابتدائی بچپن کی تعلیم یعنی ECD دور جدید کے سائنسی اصولوں کے مطابق بچوں کی بہتر ذہنی و جسمانی پروریش کے لئے یہ پروگرام تیار کیا گیا ہے۔ جو کہ دنیا کے پچاس سے زائد ترقی یافتہ ممالک میں اس وقت رائج ہیں۔ اگر ہمارے ملک میں اس طریقہ تدریس کو اپنایا جائے تو پاکستان میں آنے والے نسلوں کے لئے کسی حد تک تعلیم و تربیت کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
اس لیے یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ تربیت کرنا ہمیشہ توجہ اور وقت مانگتی ہے۔اور تربیت کرتے وقت محبت سے کام لیں،
سمجھ داری سے کام لیں اور اپنی بات کے پکے رہیں۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
36451

ابتدائی بچپن کی تعلیم ECD (قسط اول) ……. تحریر: دیدار علی شاہ

کامران گاوں میں نہایت ہی قابل اور ہونہار بچہ تھا۔ہمیشہ کلاس میں اول درجہ حاصل کرتا تھا۔اس کا بھائی اور بہن بھی پڑھائی میں اچھے تھے اسی لئے ان کے والدین، خاندان اور گاوں کے لوگ اُن سے بہت خوش تھے۔جب کامران نے کلاس ہشتم پاس کیا تو والدین نے بچوں کی تعلیم اور بہتر مستقبل کے لئے گلگت شہر منتقل ہوئے۔ یہاں پر شروع کے کچھ مہینوں میں کامران کی پڑھائی اچھی ہو رہی تھیں پھر آہستہ آہستہ گلگت شہر کے ماحول نے اسے اپنے لپیٹ میں لے لیا،حالانکہ اسکول داخلہ سے پہلے کامران کے والد نے اُنہیں شہر میں رہنے کے حوالے سے کچھ نصیحت اور اصول بتائے تھے۔ اُس نصیحت میں یہ بھی شامل تھا کہ اُسے رات کو فلاں وقت تک گھر آجانا چاہیے۔


مگر آج پھر کامران ابھی تک گھر واپس نہیں آیا تھا۔اُس نے تیسری با ریہ حرکت کی تھی۔گلی سے گزرنے والی ہر گاڈی کی آواز سُن کر والدین کو یوں لگتا تھا کہ وہ آگیا ہے،آخر وہ کہا رہ گیا ہے؟، کہیں وہ کسی مصیبت میں تو نہیں پھنس گیاہے؟ کیا اُس کو اس بات کی پرواہ ہے کہ ہم والدین اس کی وجہ سے کتنی پریشان ہے۔آخر کار جب وہ گھر آیا تو والدین کا ردعمل بہت شدید تھا۔


اگر آپ کے بچے ہیں تو کیا آپ نے بھی کھبی ایسا محسوس کیا ہے جیسا ان والدین نے کیا؟ اگر آپ اُن جیسے صورتحال میں ہوتے تو کیا آپ اپنے بچوں کی اصلاح اور تربیت کرتے؟ اور اگر کرتے تو کیسے؟ بچوں کی تعلیم و تربیت کتنا اہم ہے؟


اپنے ملکی منظرنامے پر اگر نگاہ دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ملکی تاریخ میں تعلیم کے حوالے سے حکمرانوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ شعبہ بہت پیچھے رہ گیا ہے۔اگر اس کا موازنہ دوسرے ملکوں کے تعلیمی نظام سے کیا جائے تو عقل دنگ رہ جاتا ہے۔ابتدائی تعلیمی درسگاہوں سے لے کر یونیورسٹی تک کے طالبعلموں کو جو میعاری سہولت اور نصاب آج کے دور کے مطابق میسر ہونی چاہئیں وہ نہیں ہے۔ جبکہ دنیا کے دوسرے ترقی پذیر ممالک میں دورجدید کے مطابق نصاب موجود ہے۔ پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 25اے” تعلیم کے حق کے مطابق“ ”اب یہ ریاست کی زمہ داری ہے کہ وہ 5سے 16سال تک کے بچوں کومفت اور لازمی تعلیم مہیا کرے“ یہ فقرہ آئین میں تو درج ہے لیکن حقیقت میں ایسا نظر نہیں آرہا۔
پاکستان میں پیدا ہونے والے بچوں کی تقریباً 44فیصد تعداد ایسی ہے جن کی ابتدائی عمر میں بہتر نشونما نہیں ہوپاتی۔اور ان کی دماغی اور ذہنی صلاحیت و صحت دنیا کے باقی ممالک کے بچوں کے مقابلے میں کافی پیچھے ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان اور وزیر تعلیم شفقت محمود نے اپنے تقاریر میں کئی بار اس کا ذکر کر چکے ہیں۔وزیر تعلیم نے اس بات کو نہ صرف محسوس کیا ہے کی بچوں کی ابتدائی نشونما و تربیت تو بچے کے پیدا ہونے سے پہلے ہی ماں کے بطن میں ہی شروع ہوجاتی ہے۔ جس میں خصوصاً ماں کی ذہنی و جسمانی حالت خاص طور پر زیر بحث آتی ہے۔


اقوام متحدہ کے رپورٹوں کے مطابق دنیا میں برطانیہ بچوں کے لیے سب سے محفوظ اور بھارت اور پاکستان بچوں کے لیے سب سے کم محفوظ ملکوں میں سرفہرست ہیں۔یہ سب ہمارے ملک کی عکاس پیش کرتا ہے کہ اس سے پہلے لوگوں کی تعلیم و تربیت کیسے ہوئی ہیں اور آج کے دور میں کیسے ہورہے ہیں۔یعنی اس دور میں آپ اپنے بچوں کے ساتھ کیسے سلوک کررہے ہو جنھوں نے آنے والے دور میں اپنے معاشرے اور اس ملک کو آگے لے کے جانا ہے۔


بچوں کی تعلیم و تربیت اور بہتر مستقبل کے لیے بہت سے عوامل کا عمل دخل ہے۔ جس میں سب سے پہلے والدین کا کردار اور گھر کا ماحول، دوسری چیز اساتذہ اور سکول کا ماحول، تیسری چیز نصاب یعنی بچے پڑھ کیا رہے ہیں، چوتھی چیز اسکول کمیٹی اور حکومت کا کردار۔ اور بھی ایسے بہت سارے عوامل ہے جن کی عمل دخل سے بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت کو یقینی بنا کر ایک اچھے انسان کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ان تمام مراحل میں استاد کا کردار بہت ہی اہم ہے۔ کیونکہ ایک استادبچے کی نفسیات اور مزاج کو سمجھ کر اس کی منزل کا تعین کر رہا ہوتا ہے۔اسی لیے ضروری ہے کہ حکومت اور دوسرے نجی تعلیمی ادارے اساتذہ کے انتخاب میں احتیاط سے کا م لے۔اور ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ اساتذہ کرام کو جدید رطریقہ ہائے تدریس سے روشناس کرانے کے لیے خصوصی تربیت دی جائے۔


اساتذہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کا ایک مشہور واقعہ ہے، ہٹلر کو بتایا گیا کہ ہماری قیمتی ترین لوگ جنگ میں ضائع ہو رہے ہیں تو اس وقت ہٹلر نے یہ تاریخی جملہ کہا ”اگر ہوسکے تو میری قوم کے اساتذہ کو کہیں چھپالواگر اساتذہ سلامت رہیں گے تو قیمتی لوگ پھر سے تیار ہوجائیں گے “


ابتدائی بچپن ایک بچے کی جسمانی، فکری، جذباتی، ذہنی اور سماجی ترقی کے لحاظ سے زندگی کا ایک انتہائی اہم مرحلہ ہیں۔ ایک بچے کی قد اور جسامت میں اضافہ بالیدگی کہلاتا ہے، جسم کی بڑوھوتری کے ساتھ اس کا دماغ اور جسم کی اندرونی کیفیات میں بھی تبدیلی رونماہ ہوتی ہے یہ نشونماکہلاتی ہیں۔اسی دوران ماں باپ کی تربیت اور دونوں کا ایک جگہ پر ہونا بچے کی زندگی میں استحکام لاسکتا ہے جس کی وجہ سے صحت مندانہ نشونما ممکن ہوتی ہے۔


ابتدائی بچپن کی تعلیم (Early Childhood Development ECD)ایک ایسا تصور ہے جس میں بچوں کی پرورش کے مختلف پہلوں پر تکنیکی لحاظ سے کام کیا جاتا ہے۔ جس میں بچوں کی تعلیم، صحت، نشونما، توجہ، یعنی انھیں ذہنی، جسمانی،جذباتی، معاشرتی، لحاظ سے تیار کیا جاتا ہے، اور اس کی شروعات بچے کی پیدائش سے پہلے ہی ہوجاتی ہے یعنی ماں کے پیٹ سے، اور ماں کی صحت، دیکھ بھال اس ابتدائی بچپن کی تعلیم کا لازمی جزو ہے۔


اس ای سی ڈی پروگرام کا مقصد پیدائش سے لے کر آٹھ سال کے بچوں کے تعلیم میں تعمیری عمل کے لئے نئے طریقہ کار کو اپناتے ہے،وہ طریقہ کا ر جو آج کے زمانے کے ساتھ سائنسی بنیادوں پر ہو، یعنی وقت اور حالات کے مطابق ایک ایسے نسل کو تیار کرنا جو آنے والے وقت کے مطابق علم اور ذہانت رکھتا ہو۔
بچے اپنے خاندان، معاشرے اور ثقافتی اقدار سے جڑے ہوتے ہیں۔ انہیں طبعی، اخلاقی، جذباتی اور معاشرتی صلاحیتوں کی نشونما میں مدد کی ضرورت ہوتی ہے جو آئندہ زندگی میں ان کی کامیابی اور بقا میں مددگار ثابت ہوں۔ (جاری ہے۔۔)

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
36084

شندور پاس روڈ تاحال بند،نوجوان کی لاش کندھوں پراُٹھاکرلاسپورپہنچایاگیا،فوری کھولنے کا مطالبہ

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) اپر چترال کے عوام نے شندور پاس روڈ نہ کھولنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اس سے اپر چترال انتظامیہ کی نااہلی قراردیا ہے، یارخون ویلی سے تعلق رکھنے والا چیلاس میں حادثے کاشکار جوان ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا، جس کی لاش کو شندور پاس سے کندھوں پر اُٹھاکر لاسپور پہنچایا گیا۔

چترال ٹائمزڈاٹ کام سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے سابق یوسی ناظم یارخون اورپی ٹی آئی رہنما محمد وزیر نے کہا ہے کہ شندور پاس روڈ نہ کھولنے کیوجہ سے چترال کے عوام اورخصوصا اپر چترال کے عوام انتہائی مشکلات سے دوچار ہیں، جبکہ بار بار مطالبے کے باوجود انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہورہی جسکا مقصد کورونا وائرس کی وجہ سے مصائب کا شکار عوام کو مذید مشکلات سے دوچار کرنے کا تہیہ کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کورونا وائرس سے ملک بھر کے تمام علاقے متاثر ہیں اورمتاثر ہورہے ہیں اوراموات کے ساتھ متاثرین کی تعداد میں چترال کے دونوں اضلاع سے کئی گنا زیادہ ہے مگر اسطرح کی پابندی اورلاک ڈاون ملک کے کسی حصے میں بھی نہیں ہے۔ انھوں نے مذید کہا کہ لواری ٹنل سے آمدورفت جاری ہے صرف شندور ٹاپ کو بند رکھنا کونسی عقلمندی کی بات ہے یہ ہماری سمجھ سے بلاتر ہے۔

انھوں نے بتایا کہ چترال کے عوام قانون کے پاسدار اورمحب وطن ہیں جوبھی حکم ریاستی اداروں کی طرف سے ملک میں نافذ ہوئے ہیں سب سے پہلے ان پر عملدرآمد چترال میں ہوا ہے اوراب بھی لوگ براستہ ٹنل چترال پہنچ کر انتظامیہ کی احکامات کی روشنی میں ایس او پیز کے تحت قرنطینہ ہورہے ہیں۔ اسی طرح شندور پاس روڈ سے بھی یہی قانون کو اپنایا جائیگا۔


محمد وزیر نے انتہائی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دنوں یارخون ویلی سے تعلق رکھنے والے مزدوروں کو شندور پاس سے سفر کی اجازت نہ ملنے پربراستہ قراقرم سفر کے دوران بچارہ مزدور چیلاس میں حادثے سے دوچار ہوئے جن میں سے تین زخمی گلگت میں داخل ہیں جبکہ ایک جوان نادر ولد محمد غازی بیگ ساکن ژوپو یارخون زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا جس کی لاش کو براستہ شندور لاسپور کے عوام کندھوں پر اُٹھاکر لاسپور پہنچائے۔جس پر ہم ان کے شکرگزار ہیں۔


سابق ناظم نے مذید بتایا کہ یارخون اور لاسپور ویلی کے غریب لوگ محنت مزدوری کیلئے سردیوں کے موسم میں گلگت جاتے ہیں اوراب واپس گھروں کو آرہے ہیں مگر شندور ٹاپ پر پابندی کی وجہ سے انھیں بشام اورسوات وغیرہ کے راستے سے آنا پڑ رہا ہے جبکہ درجنوں افراد گلگت ودیگرعلاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔
انھوں نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر شندور روڈ سے برف ہٹاکر راستہ کھول دیا جائے اور آمدورفت کی اجازت دی جائے۔ جسطرح کا لائحہ عمل لواری ٹنل پر جاری ہے وہی سسٹم شندور پاس پر بھی قائم کیا جائے۔ تاکہ مسافروہیں پر انٹری کرکے انتظامیہ کے احکامات کی روشنی میں اپنے گھروں تک پہنچ جائیں گے۔ لہذا مسافروں کو مذید مصائب سے دوچار نہ کیا جائے۔

shandur a young man from yarkhun died in gilgit accident3
shandur a young man from yarkhun died in gilgit accident2
shandur a young man from yarkhun died in gilgit accident4
shandur a young man from yarkhun died in gilgit accident5
Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
35955

دیوانوں کی باتیں۔۔۔۔کورونا کی آمد اورہمارا انخلا۔ (اخری قسط)۔۔شمس الحق قمربونی ،حال گلگت

بہر حال گلگت کے حالات دیکھ کر موت اتنی قریب معلوم ہوئی کہ اپنی مٹی میں جاکے موت کو خوش آمدید کہنے میں راحت محسوس ہوئی ۔ میں نے جب چترال جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو بیوی نے حسب روایت سوال جھونک دیا اور بولیں” یہ ایک متعدی وبا ہے یہ تو چترال میں بھی پھیل سکتی ہے موت اگر یہاں آنی ہے تو یہاں آئے گی اگر کسی اور جگہ آنی ہے تو وہاں آئے گی اس سے بچ کے کہاں جانا ہے ؟” جواب میں، میں نے ایک جملہ کس دیا ” ارے یار یہاں اگر مر گیا تو مجھے کون گاؤں لے جائے گا ” یعنی ” ہیئ کہ ابریتام کیچہ بوسی؟ ” یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ میں صرف اپنا ہی سوچ رہا تھا ۔ اس جملے پر میں نے بعد میں بھی بہت غور کیا اور اس میں کسی رد و بدل کی ضرور ت محسوس نہیں ہوئی ۔نتیجہ یہ نکلا کہ مشکل وقت میں انسان ، یعنی میرا جیسا انسان ، اپنا ہی سوچتا ہے ۔
بیوی اور بچے سے اگلی صبح گلگت سے نکلنے کا مشورہ کیا ۔ یہاں سے چترال بہ راستہ شندور یہی کوئی 250 کلو میٹر ہے لیکن شندور تو بند تھا لہذا یہاں سے بہ راستہ سوات 750 کلومیٹر کی طویل مسافت طے کر کا ارادہ پکا ہو گیا ۔ اُن دنوں چترال میں داخلہ ممنوع تھا کیوں کہ چترال پاکستان کا وہ واحد ضلع تھا جس میں ابھی تک کرونا کے سر اُٹھانے کی ہمت نہیں ہوئی تھی لہذا میں نے اپنے دوست پولیس افیسر ایس ـ پی محمد خالد سے مشورہ کیا جو کہ حالیہ مخدوش حالات میں چترال میں لوگوں کی نقل و حرکت پر نظر ثانی کے فرائض پر مامور تھے ۔ خالد بھائی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کام کو اور بھی پُر پیچ بنا دیا ، کہا کہ میری اور آپ کی دوستی اپنی جگہ مجھے اُمید بلکہ یقین ہے کہ آپ مجھ سے قانون شکنی ت کا تقاضا ہر گز نہیں کریں گے ۔ ہمارے قانون کے مطابق تین شرائط ہیں اگر آپ اُن شرائط پر پور ا اُترتے ہیں تو چترال آسکیں گے اگر ایسا نہیں ہے تو اپنے اور اپنے پورے خاندان کے بہتر مفاد میں کسی بھی حال میں گلگت میں ہی خود نظر بندی میں رہیے گا ۔ اُن کی شرائط ِتمہیدی یہ تھی:

  1. اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے چترال آنے والے کنبے کے افراد نے گزشتہ 15 دنوں کو طبی قید میں گزارا ہو ۔ کسی اور جگہ سفر اختیار کرنے کا اتفاق نہ ہوا ہو ۔
  2. کسی مستند ڈاکٹر کی طرف سے یہ سند موجود ہو کہ آپ گزشہ 15 دنوں سے اپنے گھر سے باہر نہ گیے ہوں اور یہ کہ آپ کے جسم کا درجہ حرارت 37 اعشاریہ 5سنٹی گریڈ سے زیادہ نہ ہو
  3. آپ چترال سفر کے دوران گلگت سے چترال تک اپنی ذاتی گاڑی استعمال کریں گے ۔
    انہوں نے مزید کہا کہ ان تمام شرائط پر پوراترنے کےباوجود بھی آپ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ چترال آتے ہوئے راستے میں کھانہ کھانے سے پرہیز کریں ، راستے میں کہیں رات نہ گزاریں اور اگر کہیں گاڑی سے اترنا ہو تو اپنے اور پورے خاندان والوں کے ہاتھ صابن سے خوب اچھی طرح دھو ئیں ۔ خالد کی صفائی کے حوالے سے ارشاد مکرر نے میرے ذہن کو اور بھی حساس بنادیا ۔ میں نے سوچا کہ یہ کیسا ہم جماعت دوست ہے جو میری مدد کے عین وقت قانون آڑے لاتا ہے لیکن پھر میں نے سوچا کہ خالد بالکل بجا کہ رہے ہیں ۔ حقیقتاً وہ اس انداز سے میری مدد کر رہے تھے ۔ مجھ سے کسی کو بیماری نہ لگے اور نہ کسی اور سے مجھے لگے ۔ لہذا خصوصی طور پر اس مخصوص متعدی بیماری میں قانوں کا احترام اور شعبہ صحت سے وابستہ افراد کی نصیحت پر عمل اشد ضروری ہے ۔ میں چونکہ گزشہ ایک مہینے سے کہیں نہیں گیا تھا اور کوئی ہلکی حرارت یا بخار وغیرہ بھی نہیں تھا لہذا میں گلگت میں ایک مستند ڈاکٹر کے پاس گیا اور اُنہیں اپنی کہانی سنائی ۔ ڈاکٹر نے کئی ایک پچیدہ سوالات پوچھنے کے بعد مجھے میری بیوی اور بیٹے کے نا م سرٹیفیکیٹ جاری کردی ۔ گاڑی اپنی تھی تو اگلی صبح 5 بجے ہم نے گلگت کو خیر باد کہا ۔ یہاں سے شانگلا ٹاپ ( 200 کلومیٹر) راستے میں کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوئی ۔ شاہ راہ قراقرم شہر خموشان کا منظر پیش کر رہی تھی کوہستان کی تنگ و تاریک پہاڑوں سے گزرنے والی شاہراہ قراقرم کے سنگ آباد چند ایک ہوٹل کھنڈرات کا نمونہ پیش کر رہے تھے ۔ ہم جب شانگلا ٹاپ پہنچے تو پاکستان آرمی کی طرف سے بہت سخت ناکہ بندی تھی ۔پوچھ گچھ ہو رہی تھی کہ کون کہاں سے آ رہا ہے ، کہاں جا رہا ہے ، کیوں جا رہا ہے ، وہاں سے کب لوٹے گا ٹمپریچر ہے اگر ہے تو کتنا ہے وغیرہ وغیرہ – گاڑیوں کی ایک لمبی قطار تھی ۔ میں گاڑیوں کی قطار میں پیچھے دور کہیں کھڑا تھا کہ ایک باوردی نوجوان منہ میں حفاظتی ماسک باندھے میری جانب لپکے ۔ میں نے سوچا کہ شاید میں نے گاڑی غلط جگہ کھڑی کی ہے فوجی نوجوان کوکہاں معلوم کہ میں ایک ایسے سکول کےسرخیل اساتذہ میں سے ایک ہوں جن کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرنے والے نونہال آج پاکستان کے بڑے بڑے ادروں کے بڑے بڑے نام ہیں۔ یہ فوجی جوان آئے گا اور بہت ممکن ہے کہ میرے ناکردہ گناہوں کے پاداش میں میرے ساتھ بد تمیزی بھی کریگا ۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ نوجوان میری گاڑی کے دروازے تک پہنچے ، میری گاڑی کا دروازہ کھول دیا اور اپنا ماسک اُتا ر کر اپنا تعارف کیا ” سر میں آپ کا شاگرد کپٹن رضوان ہوں میری ڈیوٹی یہاں ہے دور سے آپ کی گاڑی کو پہچانا اور دوڑ کے آیا ۔ آج آپ میرے مہمان ہیں ” مجھے دیکھ کرمیرے بچے کے چہرے پر ابھرنے والے بشاشت کے احساسات معنی خیز تھے۔ لیکن وقت کی نزاکت ایسی تھی کہ میں رضوان کو وقت دینے سے قاصر تھا لہذا میں نے اپنے دوست خالد کی طرف سے موصول ہونے والی ہدایات رضوان کے گوش گزار کر کے اُن سے اجازت لی ۔ انہوں نے مجھے گاڑیوں کی قطار سے نکالا اور ضروری پوچھ گچھ اپنے بہی کھاتے میں درج کر کے رخصتی دی ۔ اُس دن معلوم ہوا کہ تدریس کی دنیا کتنی وسیع ہے ۔ ایسی جگہوں میں بڑی بڑی مچھلیوں کو قطار میں کھڑی رہنا پڑتا ہے ۔یہا ں سے سوات اور بالائی دیر تک سفر اور خوراک کے علاوہ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کی ذمہ داری ہمارے پہلے بیچ کے طالب علم میجر شفا علی کی تھی ۔ جس نے سارے انتظامات کئے ہوئے تھے لیکن شانگلا ٹاپ سے دیر تک شفا علی کو مزید زحمت دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ۔ ہم جیسے ہی سوات میں داخل ہوئے تو یہاں بھی تمام ہوٹل بند تھے ۔ دیر پہنچتے ہی خالد بھائی کا فوں آیا ۔ انہوں نے ہمیں یقین دہانی کی کہ انہوں نے آگے تمام چیک پوسٹ پر ہمارا غائبانہ تعارف کیا ہوا ہے ۔ ہم رات 11 بجے دروش پہنچے یہاں اپنے عزیز مسرور کے دولت خانے میں رات گزاری اور صبح جب چترال بازار پہنچے تو ہر طرف ہو کا عالم تھا یہاں تک کہ کوئی پرندہ بھی پر مارتے ہوئے نہیں دیکھا گیا ۔ ہم پی – آئی – اے افس کےقریب پہنچے تو چترال پولیس کا چوق و چوبند دستہ کھڑا تھا ۔ چترال پولیس کا کیا کہنا ۔ کاش پاکستان کے دوسرے صوبوں کی پولیس بھی عوام کے ساتھ ایسے ہی ادب سے پیش آئے ۔ پولیس نے ہمیں رکنے کا اشارہ کیا ہم رکے تو ڈیوٹی پر مامور پولیس اے ایس آئی نے ہمارا تعارف پوچھا ۔ ہم نے ااپنا تعارف کیا تو پولیس آفیسر نے کہا ” سر پھسہ بازارین بوغور مگر کورا رک بیکو اجازت نیکی ۔ مہ اُمید شیر کہ مہ لوو ہوش کوریرو بومی ” اب چترال پولیس کے فرض شنا س افیسر نے ہمیں کچھ اس انداز سے سمجھایا تھا کہ ہم اخلاقی طور پر کہیں رک نہیں سکتے تھے ۔ میں یہاں پر چترال پولیس کی لیڈر شب کو خراج پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے اپنی پولیس کو اعلی ٰ اخلاقی اقدار کا بہترین نمونہ بنایا ہوا ہے ۔ بالائی چترال جاتے ہوئے ایک دو جہگوں پر پولیس نے روک لیا ۔، تعارف ہوا تو تعار ف کروانے کی زحمت کو ڈیوٹی کی مجبوری کہکر ہمیں رخصتی دی ۔ میرا خیال ہے کہ جس جگہے کی پولیس میں اس انداز کی انسانی صفات موجود ہوں تو ایسے علاقوں میں جرم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ جرم وہاں ہوتے ہیں جہاں انسانوں کے ساتھ انسانوں والا سلوک نہیں ہوتا ۔ میری دعا ہے کہ اللہ اس فورس کو ہر مصیبت سے دور رکھے ۔ پولیس نے تو ہمیں چھوڑ دیا لیکن گھر میں 15 دنوں کی قید بامشقت کا وارنٹ جاری ہوا تھا ۔ ہم جیسے ہی گھر پہنچے تو ماں پاب اور بہن بھائیوں نے دور سے ہاتھ ہلایا اور ہمیں قرنطینہ جانے کا اشارہ کیا ۔ ہم نے 15 دن کمرے سے باہر نکلے بغیر گزارے ایسی تنہا گزاری یا روپوشی کو حالیہ وبا کی زبان میں قرنطینہ کہتے ہیں ۔ چترال میں ہر آدمی کو باہر کسی شہر سے آنے کے بعد گھر کے اندر نظر بند رہنا پڑتا ہے ۔ جو کہ ہم نے گزاری ۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا ” یہ وقت بھی گزر جائے گے
News
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
35889

دیوانوں کی باتیں….. کرونا کی آمد اور ہمارا انخلا……تحریر: شمس الحق قمرؔ بونی، حال گلگت

( پہلی قسط )

گلگت میں کرونا( کوؤڈ- 19 )  کی وبأ نے  جب اپنے خونخوار پنجے گاڑ دیے    تو حکومت کی طرف سے شہر میں مکمل طور پر تالا بندی کا فرمان جاری ہوا ۔ یہ مارچ، 2020 کی 21 تاریخ تھی ۔ 21 مارچ کا دن نوروز کے طور پر گلگت اور بلائی چترال میں بڑے تپاک  اور جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے ۔ اپر چترال اور گلگت  میں 21 مارچ سے دو دن پہلے دیسی  گھر وں کی مکمل  صفائی کی ایک شاندار مہم ہوتی ہے جس میں گھر کے  کمروں سمیت گھر ہستی کے تمام سازو سامان ایک ایک کر کے مکمل طور پر دھوئے جاتے ہیں جسے کھوار زبان میں  ( سوئی دیک ) کہتے ہیں ۔ سوئی دیک کے دو دن بعد نوروز کا تہوار منایا جاتا ہے   روایتی دیسی کمرہ  ( بائی بش ختان) کی شہتیر اور پانچوں  ستونوں  پر دیسی گندم  کا  آٹا چھڑک کرا ُنہیں نئی نویلی دلھن کی طرح  خوب سجایا جاتا ہے   جسے  (  پھتاک دیک ) کہتے  ہیں  سال میں یہی ایک دن ہوتا   ہے جو گلگت اور بلائی چترال میں عید کی سی خوشیاں  بکھیرتا ہے  ۔ گھروں میں روایتی طعام کا بندوبست کیا جاتاہے جس میں ( کلیل شوشب) قابل ذکر ہے ۔ اِس دن کی خاص بات یہ ہے کہ مرد وزن   ٹولوں  میں دن ڈھلنے  تک   گھومتے اور اس دن کی  خوشی سے پھولا نہیں سماتے  ہیں ، لوگ ایک  دوسرے کے گھروں میں جاکر  دیر  تک  بیٹھ کے خوب رنگ رلیاں مناتے ہیں،   افراد اور خاندانوں کی آپس کی چپقلش اور   بے معنی ناچاقیاں  بھی آج کے مبارک دن دلوں سے  دھل جاتی ہیں   ۔ لیکن سن  2020 کا 21 مارچ  اتنا انوکھا تھا کہ ہر  طرف قحط الرجال  رہا ۔ شہر میں ہر آدمی وائرس  ( کوؤڈ- 19 ) کے خوف سے طبی قید اختیار کر چکا تھا اور  رہے سہے  بھونگے جو کہ   اس مہلک وائرس سے بچاؤ کے  عالمی طریقوں  کو قدرت کے خلاف جنگ سمجھ کر زندگی کو  بزور  بازو اپنے  معمول پر رکھنے کی کوشش  کر رہے تھے ، پر خوب  سرکاری تالا بندی عائد ہوئی ۔ عید نوروز کی صبح جب میں جٹیال حسین آباد میں واقع اپنے گھر کے دروازے سے باہر نکل کے آس پاس کے ماحول پر نظر دوڑائی تو  مجھے یہ دیکھ کر خوف ناک حیرت ہوئی کہ کتوں ، بلیوں اور بیل گائیوں نے تمام سڑکوں پراپنی اپنی  راج دھانیاں قائم کی ہوئی تھیں  ۔ ایسا لگتا تھا  گویا وہ انسانوں کے   خلاف جنگ میں  فتح   سے ہمکنار ہوئے ہوں ۔ جس راستے سے میں ہر روز صبح کی سیر کو جایا کرتا تھا  وہ راستے انسانوں  کے پاؤں کے آہٹوں کےلیے  ترس رہے تھے ۔ شہر کے تمام   آوارہ  کتے   اپنی    اپنی دم معمول سے کچھ زیادہ ٹیڑھی کرکے ان راستوں  پر  چوکڑیاں  بھر تے ہوئے  گلی  کوچوں  پر  اپنا  حق ملکیت  جتا رہے تھے   ۔  یہ وہ دن تھے جب ہمیں معلوم ہوا  تھا کہ گلگت میں کرونا کے چار مشتبہ مریضوں کو دنیور میں لے جاکر کسی الگ تھلک جگہے میں رکھا گیا ہے  ایک ایسی جگہ کہ جہاں کوئی تیماردار نہیں ہوتا ۔  مرجانے کے بعد لواحقین کو بتایا  جائےگا کہ  آپ  کا عزیز/ عزیزہ    کرونا    سے ہلاگ ہوا / ہوئی     اور سرکار   کے  اسی کام پر مامور  سرکاری پیادے  لاش کو  پلاسٹک میں لپیٹ کر   مٹی کے نیچے  چھپائیں گے ۔       چچا غالب ؔ   شاید  ایسی ہی جگہ کی  آرزو میں اپنی زندگی  تمام  کر چکے تھے ۔

؎          رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو            ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

غالب ؔ                                    کی           اس غزل کا ایک  اور شعر پڑھ کے   غالبؔ              کی دور

اندیشی پر  رشک آنے لگتا ہے     بظاہر  موصوف نے ایک ایسی   خواہش کا اظہار کیا  تھا جو کہ  اُن کے اِس دار فانی سے رخصتی  کےساتھ ہی اُن کے  سینے میں دفن ہوئی لیکن بہ باطن  اُنہوں   نے اپنی موت کے 150 سال بعد اپنی خواہش کو شرمندہ  تعبیر ہوتے   دیکھا تھا  ۔  دیکھئے   کرونا  کو   کتنی قریب سے دیکھا تھا ۔ کہتے ہیں      ؎

          پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیماردار    اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو

ہم  چونکہ   غالبؔ      ہیں  نہ تھے اور نہ  غالبؔ بن سکتے ہیں ۔    اسد ؔ    تو ہر حال پر  غالب ؔ تھا  ، وہ تو کہتے تھے کہ                                                                  ؎                                         ہو گئیں غالبؔ   بلائیں سب تمام  ایک مرگ ناگہانی اور ہے لیکن  ہم   ناگہانی  موت سے  بہت ڈرتے  ہیں ۔یوں   ہمارے لئے  کرونا سے مرنے اور پلاسٹک  میں  لپیٹے جانے کی    خبر بہت خطرناک تھی کیوں کہ ہم زندگی کو   حقیقی زندگی  سمجھ کر آج تک   جیتے رہے ہیں   ۔    غالب ؔ   تو   قرض تلے دبلے ہوئے   آدمی تھے ہم بھلا کیوں اپنے آپ پر تمام  افتوں کے تمام ہونے  کی بات کریں  ۔  ہمارے لیے تو   زندگی  بڑی معنی رکھتی ہے ۔ آس پاس  کی غٰر یقینی  صورت حال   اور پھر  میڈیا   کی سحر انگیزیاں  دیکھ کر زمیں  میرے  پاؤں  تلے سے  سرک گئی ۔ میں نے فوراً کمپیوٹر کھول کر گوگل سے  اس بیماری کی علامات جاننے کی کوشش کی  اور اس نتیجے تک پہنچا کہ  سر درد ، جسمانی سستی ، گلے میں خراش، زکام  ، کھانسی ، چھینکیں آنا  وغیرہ  اس کی علامتوں میں سے ہیں –  تاہم یہ تو عام علامات تھیں لیکن ایک جگہے پر یہ بھی بتایا گیا تھا کہ بعض  صورتوں میں   جیتے جی یکایک سانس رک جائے گی اور آپ اپنے آپ کو اپنے پورے ہوش و حواس میں اپنے سامنے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے ہوے دیکھنے کا تجربہ کریں گے    مزید  یہ کہ ہو سکتا ہے پاخانہ بے  لگام ہو اور  منہ سے خون کی رال  ٹپکنے لگے ۔     یہ    معلومات  درست تھیں  یا  غلط   لیکن  ایک خوف ناک موت کا  انوکھا نقشہ   دیکھ کر   جسم میں  کپکپی  سی  محسوس ہوئی   ایسے موقعوں  پر   پیٹ  میں تھوڑی سے  جلابی کیفیت  بھی پیدا  ہوا   کرتی ہے  جو کہ ہوئی  کیوں کہ   میں نہیں چاہتا تھا  کہ میں اس انداز سے مروں  ۔   میں نے سوچا کہ کیا بہتر یہ نہیں ہوگا کہ  تھوڑی  سی علامات  کے ظہور پر آدمی   نیند کی  10 گولیاں ایک ساتھ نگل  لے اور  آرام سے   ابدی نیند سو جائے ۔ لیکن  وہ  تو  خود کشی ہے   میں اتنا  بودا  بھی تو نہیں تھا کہ   زندگی  کو   نیند کی گولیوں نذر کر کے تمام کروں  ۔۔۔۔۔۔۔

( باقی دوسری قسط میں ملاحظہ کیجئے    )

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
35828

احساس پروگرام کے حقیقی حقدار جی بی کے سیپ ٹیچرز ہیں، ریلیف میں شامل کیا جائے۔۔خواتین ونگ

گلگت(چترال ٹائمز رپورٹ)SAPٹیچرز ایسوسی ایشن خواتین ونگ گلگت بلتستان کی صدر ملکہ حبیبہ سینئر نائب صدر جینوا خاتون، نائب صدر زینب خاتون جنرل سیکریٹری یاسمین، فنانس سیکریٹری گل خنزہ اور سیکریٹری انفارمیشن تسلیم بانو نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں SAPٹیچرز مستقلی میں انتہائی تاخیر کو حکومتی ذمہ داروں کی سازش قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ جلد 750سینئر حقدار اساتذہ کی مستقلی کو یقینی بناتے ہوئے باقی ماندہ 714اساتذہ کی مستقلی کی پالیسی بھی مرتب کی جائے۔جون 2020-21کے بجٹ میں ہر صورت اسامیاں پیدا کرکے 714اساتذہ کو بھی مستقل کیا جائے بصورت دیگر ہم اساتذہ حقوق کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔اساتذہ کو گروپس میں تقسیم کرکے حقوق سے محروم نہیں رکھا جاسکتا۔انہوں نے کہا کہ وفاقی ناکام ادارہBECS 4سال سے ٹیکسٹ بک دینے سے بھی قاصر ہے۔کبھی بھی قلیل تنخواہ ماہانہ 8000بھی وقت پر نہیں ملی ہے۔گلگت بلتستان کے دور افتادہ غریب علاقوں میں 2عشروں سے بنیادی تعلیم دینے میں مصروف عمل 1464اساتذہ انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہیں۔پھر کرونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن اساتذہ کی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔کرونا ریلیف اور احساس پروگرام فنڈ سے بھی اساتذہ محروم ہیں۔حقیقی ریلیف کے حقدار 1464سیپ اساتذہ ہیں۔ان اساتذہ کی حالت تشویش ناک انتہائی قابل رحم ہے۔ہم خواتین ونگ گلگت بلتستان حکومت وقت خصوصاََ وزیر اعلیٰ، چیف سیکریٹری اور فورس کمانڈر گلگت بلتستان سے اللہ پاک کا واسطہ دے کر اپیل کرتے ہیں کہ ان غریب1464اساتذہ کو کرونا ریلیف فنڈ میں شامل کرکے مالی معاونت کی جائے۔اساتذہ کو بھی اپنے بچوں کے ساتھ عید کی خوشیاں منانے کا موقع فراہم کی جائے۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
35759

فرزند غذر……..تحریر: فداعلی شاہ غذری

وہ غالباََ اکتوبر کی ایک خنک شام تھی جب آج سے 26سال پہلے وادی پھنڈر کی فضا فلک شگاف نعروں کی گونج سے لرز اٹھی اور آیا آیا شیر آیا کی صداوں کیساتھ ایک پر جوش اور جوشیلا مگر ایک سلجھا ہوا دیسی لہجے والا شخص ہمارے سامنے کھڑے ہو ئے، وہ خود کو نواز شریف کا سپاہی اور فرزند غذر قرار دیتے ہوئے چہرے پر جس طمانیت کو ظاہر کیا تھا وہ میرے ذہن سے نکل ہی نہیں پا رہی ہے۔ اپنے گرما گرم سیاسی کمپین کے دوران وہ وادی پھنڈر کے ساتھ اپنے پرانے تعلق کا جس فخر سے اظہار کیا تھا وہ بھی انتہائی جذباتی نوعیت کا تھا۔ اکتوبر 1994کی وہ شام مجھ سمیت گاوں کے کئی بچوں کو سلطان مدد سے واقف کرا گئی اور یوں ذندگی کے پہیئے سے نکلتا وقت کا ہر لمحہ مجھے اس شخص کے ساتھ مزید غائبانہ تعلق اور تعارف کو مستحکم کر تا رہا اور میں ان کے ہر بیان، تقریر اور گفتگو کو ایک خاص حثیت میں پرکھتا رہا۔

اپنی صحافتی زندگی میں کئی بار ان سے بالمشافہ ملتے رہے اور ان کے خالص خیالات سے محضوظ ہوتا رہا۔ 11اپریل 2020 کی سہہ پہر میں اُنہیں فون کر کے “ہائیک ود فدا ” کے مہمان بننے کی درخواست کی تو وہ فوراََ مان گئے لیکن طبعیت میں کچھ خلل کی وجہ سے ہا ئیکنگ پہ آنے سے گریزاں نظرآئے تو میں بھی ان کو اُن کی مرضی کے کسی دن مہمان بنانے کی حامی بھر لی اور پروگرام کا فارمیٹ اور مو ضوعِ ِگفتگو کے آوٹ لائن سمجھانے کے بعد فون بند کر دیا مگر وہ لمحہ لوٹ کر پھر نہ آسکا کہ فرزند غذر کسی پہاڑی پر میرا مہمان بن کر شاید زندگی کا آخری انٹرویو ریکارڈ کرا سکتے ۔۔۔صد افسوس وقت کی تنگ دامنی پر کہ ہمارے لئے رک نہ سکااور رکتا بھی کیوں ہم کونسے اسپ عمر کے تازیانے کے ذمہ دار تھے مگر غالب کے بقول قدرت اتنا صبر فر ما لیتی تو کیا ہوتا؛ تم کو نسے تھے ایسے کھرے دادو ستدد کے کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور ملک الموت تقاضے میں ایک منٹ کا اونچ نیچ کبھی نہیں کرتاا ور تقاضائے حیات بھی یہی ہے کہ جہاں سے یہ مہمان (زندگی) آتی ہے لوٹ کر وہی پہنچنی ہوتی ہے۔ چلے جانے کا معین وقت پھر کس کا انتظار کرتا ہے۔

sultan madad ghizr 1

سلطان مدد جدوجہد اور کا میابی کا وہ نام تھا جو اپنی مناذل کے سنگ و راہ تراشنے کاہنر خوب جانتےتھے مگر کسی کا میابی کے لئے اصولوں کی سودا بازی پر کبھی راضی نہیں ہوئے۔ وہ سراپا محبت کے آمین تھے اور اپنے بھاری بھرکم اور مضبوط جسامت میں ایک نرم دل کے مالک تھے جو سر زمین غذر کے با سیوں کی محبت میں دھڑکتارہا، ان کے دکھ میں بے چین اور سکھ میں پر سکون رہتا تھا۔ ان کی ساری زندگی صبر اور استقامت کی متقاضی رہی اور تمام نا مساعد حالات میں آپ صابرو شاکر رہے۔ وفاداری آپ کی شخصیت میں کوٹ کر بھر دی گئی تھی جس وقت لوگ نواز شریف کے نام لینے سے ڈرتے تھے آپ خود کو ان کے سپاہی قرار دے کر فوجی امر کو للکار رہے تھے، جس دور میں ن لیگ کے کرتے دھرتے رہنما مشیر بن کر مراعات پہ اکتفا اور ن لیگ چھوڑنے کا واچن دے رہے تھے آپ واحد رہنما تھے جو ن لیگ کی کشتی کو خشکی پر چپو دینے میں مصروف عمل رہتےتھے۔

وقت وقت کی بات ہے کہ شریف خاندان پر ٹوٹنے والی سیاسی مصیبت ٹل جانے کے بعد حکمرانی کا تاج دوبارہ ان کے سر سجاتووہ گلگت بلتستان میں اپنے اکیلے وفادار سپاہی کو ساحل پر اُتار کر ساگر کی سیر پر نکلے اورہمراہی وہ لوگ بنے جو مصیبت کے وقت وفاداریاں تبدیل کر چکے تھے۔ جب وقت سلطان مدد کے احسانات کو واپس لو ٹانے کا موقع لے کر آیا تھا تو مفاد پرست اور موقع پرست حفیظ الرحمن بھی اسلام آباد کے ایک ریسٹورینٹ میں سلطان مدد کی پارٹی کے ساتھ والہانہ عقیدت پر سوال اٹھا کر انہیں انتخابی عمل سے دور رکھ کر خود دودھ نوش لینے کا کا میاب پلان بنا رہے تھے اور ہم ان سےمحض ایک ٹیبل دور سلطان مدد کی وفاداری پر حفیظ الرحمن اور ان کی بے وقعت ساتھیوں کی قہقوں پر سُن ہو چکے تھے کیونکہ یہ مفاد پرست ٹولہ پہلے انہیں گورنر بننے اور میاں صاحب سے مکمل مدد کی یقین دہانی کراتے رہے اور جب اصول پرست اور موقف پر ڈٹ جانے والے سادہ لوح شخص گورنر سے کم کسی عہدے پر راضی ہو نے کو تیار نہیں ہوئے تو حفیظ کو بھی ان پر وار کر نے کا ایک اچھا موقع ملا اور وہ سلطان مدد کی ن لیگ اور شریف خاندان کے ساتھ عشروں پر محیط وفاداری کو بغاوت قرار دینے میں دیر نہیں لگائی اور پیدا شدہ عارضی دراڑ میں مٹی ڈالنی شروع کر دی اور حالات بگڑنی شروع ہوئی اوران کو انتخابی عمل سے علیحیدہ کرنے کا آخری حربہ میاں صاحب کی مداخلت کے بعد ناکام ہوا مگر آنا پرست حفیظ الرحمن نے نواز شریف کے اس سپاہی کے ووٹ بنک توڑنے کے لئے امیدوار میدان میں اتارلیااور ان کو ہرا کر اپنی آنا کی جنگ ٹھنڈی کرنے میں کامیاب ہو ئے۔

sultan madad ghizr with nawaz sharif 1

جب سلطان مدد کو یقین ہوچکا کہ حفیظ الرحمن پارٹی پر دوسری مصروفیات اور ترجیحات کو تر جیح دینے لگا تو انہوں نے بھی وفاداری کاباب بند کرنے میں عافیت سمجھ لیااور کافی عرصہ پارٹی کے ناعاقبت اندیشوں کو مصلحت کا موقع بھی فراہم کر تے ہوئے خاموشی اختیار کی مگر تب تک ان کو ما ئنس کر نے کا فیصلہ طے ہو چکا تھا اور وہ اصول پرست، خوددار اور غیرت مند شخص بھی اپنی ذات کو بے مول کرنے کا خطرہ کہاں مول لیتا بس اس لئے چُلو بھر پانی میں خود کشی سے بہتر سمجھا کہ دریا کے کسی قطرے کی طرح خود کو نیکنامی کے سمندر میں شامل کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہو گئے۔ سلطان مدد گلگت بلتستان کی سیاسی افق کا ایک تابندہ ستارہ تھا جس کی چمک اور روشنی آب وتاب سے اپنی وجود کو پورے خطے میں برقرار رکھا اور ہمیشہ برجستہ اور خالص سیاسی رویئے کا منبع رہا۔ غذر اور یہاں کے پرامن مکینوں کیساتھ امتیازی سلوک پر وہ ہمیشہ معترض اور بے تاب رہے اور یہاں بسنے والے ہر ایک شخص کو بقائے باہمی کے امور سیکھاتے رہے۔ ضلع غذر اپنے حقیقی اور تمام تر تعصبات سے بالاتر فرزند کو کھو دیا جس کی کمی صدیوں بعد بھی پُوری نہ ہوسکے گی۔ رب کریم ان کی روح کو غریق رحمت کرے۔ یار زندہ صحبت باقی  

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
35505

احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے تحت مستحق افراد میں 96 ارب سےزائد رقم تقسیم ہوچکی ہے۔ترجمان

اسلام آباد(چترال ٹائمز رپورٹ) احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کے تحت مستحق افراد میں رقم کی تقسیم جاری ہے۔صوبائی و علاقائی لحاظ سے اب تک تقسیم شدہ رقم کی تفصیلات کے مطابق ملک بھر میں کل 96 ارب 49 کروڑ 16 لاکھ روپے سے زائد رقم 79 لاکھ 18ہزار سے زائد افراد میں افراد میں تقسیم کی جاچکی ہے۔احساس ایمرجنسی کیش پروگرام کی طرف سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق پنجاب میں 41 ارب 19 کروڑ روپے سے زائد رقم 33 لاکھ 85 ہزار سے زائد افراد میں تقسیم کی جاچکی ہے۔سندھ میں 30 ارب 20 کروڑ روپے سے زائد رقم 24 لاکھ 99 ہزار سے زائد افراد میں تقسیم کی جاچکی ہے۔خیبر پختونخوا میں 17 ارب 97 کروڑ روپے سے زائد رقم 14 لاکھ 55 ہزار سے زائد افراد میں تقسیم کی جاچکی ہے۔بلوچستان میں 4 ارب 49 کروڑ روپے سے زائد رقم 3 لاکھ 67 ہزار سے زائد افراد میں تقسیم کی جاچکی ہے۔ آزادکشمیر میں 1 ارب 59 کروڑ روپے سے زائد رقم 1 لاکھ 27 ہزار سے زائد افراد میں تقسیم کی جاچکی ہے۔ گلگت بلتستان میں 66 کروڑ روپے سے زائد رقم 52 ہزار سے زائد افراد میں تقسیم کی جاچکی ہے۔اسلام آباد میں 37 کروڑ روپے سے زائد رقم 30 ہزار سے زائد افراد میں تقسیم کی جاچکی ہے۔ احساس ایمرجنسی کیش صارفین میں کیٹگری کے لحاظ سے اب تک تقسیم شدہ رقم کی تفصیلات کے مطابق پہلی کیٹگری میں احساس کفالت صارفین شامل ہیں۔اس کیٹگری کے تحت 54 ارب 54 کروڑ روپے سے زائد رقم ملک بھر میں 44 لاکھ سے زائدافراد میں تقسیم کی جاچکی ہے۔ دوسری کیٹگری میں صارفین کی نشاندہی 8171 ایس ایم ایس سروس کے ذریعے کی گئی ہے۔ اس کیٹگری کے تحت 36 ارب 14 کروڑ سے زائد رقم ملک بھر میں 30 لاکھ سے زائد افراد میں تقسیم کی جاچکی ہے۔ تیسری کیٹگری کے تحت صارفین کی نشاندہی بذریعہ ضلعی انتظامیہ کی جا رہی ہے۔ اس کیٹگری کے تحت 5 ارب 80 کروڑ سے زائد رقم ملک بھر میں 4 لاکھ 83 ہزار سے زائد افراد میں تقسیم کی جاچکی ہے۔ تیسری کیٹگری میں صارفین کو ادائیگیاں 8 مئی سے شروع ہوئی ہیں۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
35493

کرونا قیدی اوریورپ کا ایک صبح……. حمزہ گلگتی(پی ایچ ڈی)


باقاعدگی سے باہر گئے ہوئے لگ بھگ دو ماہ کا عرصہ بیت چکا تھا۔۔۔سب جانتے ہیں کہ ایک ہی چاردیواری کے اندر پتھر کے دیواروں کے پیچھے مجبوری میں انسان چاہے تو بھی سکون کی زندگی نہیں گزار سکتا ہے۔۔ان دو مہینوں میں سارا شیڈول ہی تبدیل ہوا تھا۔۔جب ماہِ رمضان آیا تو دن راتیں اور ہماری راتیں دن بن گئیں۔۔چنانچہ کئی کئی دن اچھی طرح سے دن بھی نہیں دیکھا۔۔ضروری سامان تین سو میٹر کے فاصلے پر موجود مارکیٹ سے دوست لاتے ایک ساتھ کئی دنوں کیلئے۔یوں دن گزرتے گئے اور ہم انٹرنیٹ کے ذریعے ہی دنیا کی سیر کرتے رہے۔چونکہ کورونانامی مرض نے حد درجہ احتیاط کرنے کی ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر بھی ڈال دی تھی۔ سو ہم بھی قیدیوں کی طرح کمروں میں ہی رہے۔ انتہائی ضرورت کے بغیر خال خال ہی باہر جانا نصیب ہوا۔ایک ہی جگے میں رہ رہ کر اور یکساں سرگرمیوں سے تنگ آکر آج دوستوں کی معیت میں احتیاطی تدابیر کو بروئے کارلاتے ہوئے باہر جانے کا پروگرام بنا۔


یاد رہے یورپ کا شمار حالیہ تباہی مچانے والے وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے خطوں میں ہوتا ہے۔یہاں کیسس اور مرنے کا ریشو کافی اوپر چلا گیا ہے۔مگر ان سب کے باوجود احتیاط کے دائرے میں رہ کر یہاں کے باسی زندگی گزارنے کیلئے ضروری کام انجام دیتے ہیں اور باہر بھی جاتے ہیں، جاب پہ بھی جاتے ہیں۔ ہر ایک کو اپنی ذمہ داری کا احساس بھی ہے۔ ہر کام میں کھینچ کر حکومت کو نہیں لاتے بلکہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے جی رہے ہیں۔ حکومت نے ماسک پہننے کو لازمی قرار دیا ہے تو کسی کو بھی ماسک کے بغیر نہیں دیکھاجائے گا، حکومت نے ایک جگہ ہجوم سے منع کیا ہے کوئی ہجوم ڈھونڈ نے سے نہیں ملیگا، حکومت نے سائن بورڈز لگا کر دیکھادیا ہے کہ بس میں سوار ہوتے وقت دودو میٹر کا فاصلہ رکھ کر سوار ہواجائے، اس پر سختی سے عملدرآمد کرتے پاؤگے۔ اب حکومت ہر ایک کے سر میں ڈنڈالیکر کھڑابھی تو نہیں رہ سکتی، اس لئے سب اپنی ذمہ داریاں نبھارہے ہیں۔ ڈرائیورز کے پورشن کو سیل کرکے الگ کردیا ہے اس طرف نہ جانے کا چھوٹا سا سائن اندر لگاکر مقامی اور انگلش زبانوں میں یہ درج کیا گیا ہے کہ ڈرائیوروں کی زندگیاں بچیں گیں تو آپ کو بلا تعطل ٹرانسپورٹیشن میسر آئے گی۔۔۔اب مجال ہے کہ کوئی اس طرف قدم بھی بڑھاتا ہو، ورنہ ٹیپ کی نازک سی پٹی کو اتار پھینک کر اس طرف جاکے بیٹھنا کوئی مشکل بھی تو نہیں۔ لیکن یہ لوگ ایسا کرتے نہیں،کیونکہ ان کی سرشت میں یہ رکھا نہیں اور ان کے تربیت کی بنیاد یہ نہیں۔ صبح نو بجے سے دن بارہ بجے تک مارکیٹوں میں سامان لانے کی باری بوڑھوں کی ہے، بارہ سے شام جوانوں کیلئے مخصوص ہے، مجال ہے کسی کو اپنے اپنے اوقات کار کے علاوہ مارکیٹ میں دیکھوگے۔ یہی اچھے قوموں کے رویے ہیں جن کا ہمیں بتایا جاتا رہاہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے سر پر حکومت ہر وقت ہر کام کیلئے لٹھ لیکرکھڑی رہے، تب ہی جاکے ہم اپنی ذمہ داریاں نبھالیں گے۔۔۔مختصر یہ کہ ہم سنتے سناتے ہیں لیکن اوپر سے لیکر نیچے تک عمل کرنے کیلئے کوئی تیار ہی نہیں۔ اس لئے بجائے کم ہونے کے ہمارے مسائل میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔


خیر سحری کے بعد ہم نے پروگرام بنالیا، فجر باجماعت اداکی اور سفر پر نکلے۔آج ہم نے پہاڑیوں اور جنگلوں میں جانے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ کراچی سے ہمارے دوست انجنیئر سعد جو کہ الیکٹریکل انجنئیر ہے، پروگرام بناکے نہ جانے کو اپنی روایت بنارکھا تھا۔گھومنے جانے کا پلان بنانا اور مخصوص کراچی والے لہجے میں ہونٹوں کو گھماگھما کر تیار ہونے کیلئے روز روز بھاشن دینا کوئی ان سے سیکھے۔ اس لئے جب بھی وہ مخصوص اوقات میں جذباتی ہوکر کہتا کہ آج میں فلاں جگہ چلوں گا تو میں فوراً گویا ہوتا ” نہیں جاؤگے” اس پر سب کی قہقہیں بلند ہوتی اور وہ پیچ وتاب کھاکر کہتے کل دیکھنا مگر ہم نے نہ وہ کل دیکھا نہ سعد کو اپنی بھاری بھرکم ڈیجیٹل کیمرے کیساتھ کہیں جاتے دیکھا۔ یوں میرا کہنا سچ ہی ثابت ہوتا۔۔ آج جب ہم تیار ہوکے اس کے کمرے میں پہنچے تو بیڈ پر لیٹا تھا۔۔ میں اس زعم میں کہ آج تو یہ نا نہیں کریگا۔۔ بولاکہ تیار ہوتے اب تک؟اٹھ بیٹھااور آنکھیں ملتے ہوئے گویاہوا۔۔ حمزہ بھائی وہ کیاہے کہ میں نے رات کو نہایاتھا تو سردی نہ لگے اس لئے آج مجھے تومعاف رکھے، وہ دیکھو چپل بھی گیلے ہیں۔۔۔”تو نہیں جائے گا“۔۔۔اب دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کامرحلہ تھا۔ میں نے وہی پر ہتھوڑی ماری اور ہنستے ہوئے باہر نکلنے ہی لگاتھا کہ بولا چلومیں بھی آنے لگاہوں۔ یہ ہوئی نا بات۔۔


دوسرا ہمارا بہت ہی پیارا دوست کمپیوٹر انجنیئرشعیب علی ہے، جھنگ جیسے خوبصورت شہر چھوڑ کریورپ پڑھنے آیا ہے۔یہ اپنے کپتان کا باکمال پلئیر ہے۔ (یاد رہے کپتان سے مراد عمران خان نہیں)اور سب کا فرمانبردار ہے۔ان کی کمزوری یہ ہے کہ یہ روز روزکمزور ہوتا جارہا ہے۔کمزور ذہنی طور پر نہیں جسمانی۔ بڑی جتن کررہا ہے کہ کسی طرح فربہ ہوجاؤں مگر سب بے سود۔۔اسی جتن میں فروٹ چاٹتا رہتا ہے۔سو کر جب اٹھتا ہے تو ایسا موڈ بنابیٹھا رہتا ہے جیسے ابھی کسی نے ڈانٹا ہو، ہم لاکھ جتن کرے اور یہ بولے ہی نا۔ہم آپس میں پوچھتے ہوتے ہیں آج بھائی کو کیا ہوا ہے مگر بھائی ہے کہ روٹھے ہی رہے۔۔۔ مارکیٹ سے سامان لانے کی ذمہ داری لیتا ہے۔۔۔گویا کہ ہم نے اسے وزیر خوراک بنارکھاہے۔


آخری دوست ہمارے مٹیریالسٹک یعنی مٹیریل سائنٹسٹ ڈاکٹر اویس قادر ہے جو یہی ہماری بھابھی کیساتھ رہتاہے، بھابھی یہی سے ہے وہ بھی ہماری کمپنی کا حصہ ہے۔اویس میرے اکیلے دنوں کا دوست میرے فیصلوں کا ساتھی، کوئی بھی کام یا فیصلے کا اس سے پوچھے تو یہ براہے نہیں کہے گا، بس اس کی ڈکشنری میں سب ہی اچھا ہے۔۔ ایک دن چڑ کران سے کہا تھا کبھی یہ بھی تو کہوکہ یہ ٹھیک نہیں،امپرومنٹ چاہئے۔ او مائی گاڈ۔.یہی ڈاکٹر اویس آج ہمارا گائیڈ تھا۔ ان کا یہ کہنا مشہور ہے کہ میں کرونگا میں لیکرجاؤنگا مگر کبھی کبھار نہ کچھ کرنا نظر آتا ہے اور نہ ہی ہم کہیں لیجائے جاتے ہیں۔ خیر ان دوستوں کی معیت میں ہم باہر نکلے۔ابھی پرندے اپنے گھونسلے چھوڑ چکے تھے مگر ستارے صبح کی ا ٓمد سے آخری سانسیں لے رہے تھے ہم خراماں خراماں منزل کی جانب نکلے۔آپس کی بات ہے ایک پاکستانی طریقہ یہاں ہم نے بھی اپنالیا۔۔۔جنگلوں سے ہوتے ہوئے پہاڑی کی چوٹی کی جانب بڑھتے رہے۔۔ابھی دھوپ نکلنے میں گھنٹہ باقی تھا ہم منزل کی جانب محوِ سفر تھے۔۔عرصے بعد باہر نکل کر کچھ اور ہی محسوس کر رہے تھے۔۔میں نے ایک جگہ رکنے کو کہا اور بولا کہ سانس بھی روک کے آنکھیں موند کے کچھ دیر محسوسات کی دنیا میں چلے جانا۔مسحور کن مناظر میں رس گھولتی آوازیں انواع و اقسام کے درخت۔۔ایسے لمحات کو محسوس ہی کیا جاسکتا ہے الفاظ میں ڈھالنا ممکن نہیں۔۔۔”پس تم اپنے رب کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤگے“۔۔صبح سویرے پرندوں کی چہچاہٹ،ہلکی سی ہوا سے گھنے جنگل میں اقسام کے درختوں کے پتوں کی سرسراہٹ۔۔اللہ کی نعمتیں یاد دلاتی رہیں۔ دوستوں کیساتھ دو ماہ کے طویل عرصے بعد آج جنگلوں، پہاڑوں اور آبادی سے الگ چند گھنٹے گزار کرانجوائی کی۔ چوٹی سے بدھاپسٹ سٹی کا خوبصورت منظر بیان کرنے کیلئے الفاظ کم
پڑجاتے ہیں۔
حمزہ گلگتی(پی ایچ ڈی)

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
35290

گلگت؛ لاک ڈاون میں نرمی، ماسک اوردستانے لازمی قرار، بصورت دیگرسوروپے جرمانہ ہوگا

گلگت(چترال ٹائمزرپورٹ) وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ کورونا وائرس سے بچاؤ اور روک تھام کیلئے صوبے میں جاری لاک ڈاؤن میں مرحلہ وار نرمی کی گئی ہے اور سماجی دوری اور ایس او پیز پر عملدرآمد لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اسی سلسلے میں گلگت بلتستان میں تمام لوگوں کو گھروں سے نکلتے ہوئے ماسک اور دستانے لازمی قرار دیئے گئے ہیں۔ بغیر ماسک کے گھر سے نکلنے والوں پر 100 روپے جرمانہ عائد کیاجائے گا جس کا قانون بنایا گیا ہے۔ عوام شعور اور بیداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے ڈبلیو ایچ او کی جانب سے جاری کردہ ہدایت نامہ (ایس او پی) اور سماجی دوری پر عملدرآمد کریں۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان میں تین دنوں تک حکومت کی جانب سے مفت ماسک تقسیم کئے جائیں گے تاکہ عوام میں ماسک کی افادیت اور اہمیت کے حوالے سے آگاہی پیدا کی جاسکے جس کے بعد کسی کو بھی گھر سے بغیر ماسک پہنے باہر آنے پر 100 روپے جرمانہ کیاجائے گا۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایس او پیز اور ماسک کے استعمال کو یقینی بنانے کیلئے ہدایات دیئے گئے ہیں۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے ماسک کا استعمال اور سماجی دوری کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے آگاہی مہم کے سلسلے میں ضلع گلگت اور ضلع غذر میں مختلف مقامات پر عوام میں مفت ماسک تقسیم کئے۔ اس موقع پر وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے عوام کو ماسک اور سماجی دوری کے افادیت کے حوالے سے آگاہ کیا۔وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ ضلع غذر اور ضلع ہنزہ کے عوام شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے سماجی دوری اور ماسک کا استعمال یقینی بنارہے ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا مشکلات کا شکار ہوئی ہے۔ پاکستان میں 5 سو سے زیادہ اموات ہوئی ہیں۔ ہمیں اس وبا سے بچنے کیلئے جو اصول و ضوابط متعین ہیں ان کے تحت سماجی دوری اور ماسک کے استعمال کو روز مرہ زندگی کا حصہ بنانا ہوگا۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہاکہ کورونا وائرس کے بعد ہمیں اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانی ہوگی تاکہ ہم اس مہلک وبا سے محفوظ رہ سکیں۔ اس وبا سے بچنے کیلئے اب تک کوئی ویکسین نہیں بنائی گئی ہے بلکہ اس سے بچاؤ کا واحد حل سماجی دور، ماسک کا استعمال اور ڈبلیو ایچ او کے متعین کردہ ایس او پیز پر عملدرآمد ہے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ لاک ڈاؤن میں نرمی سے عوام بے احتیاطی برتنے سے اجتناب کریں۔ کورونا وائرس ایک حقیقت ہے۔ ہم نے اپنی زندگیوں میں تبدیلی لانا ہے اور اس مہلک وبا سے بچنے کیلئے ایس او پیز پر عمل کرنا ہے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے اپنے دورہ غذر کے موقع پر شیر قلعہ آر سی سی پل کے تعمیراتی کام کا معائنہ کیا۔ اس سے قبل وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے مسلم لیگ (ن) کے بانی رہنما سلطان مدد کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور ان کے گھر جاکر لواحقین سے اظہار تعزیت کی اور مرحوم کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ خوانی کی۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
35284

ورلڈ تھیلیسیمیا ڈے،( ٨ مئی ٢٠٢٠۔) ۔۔۔۔۔۔تحریر : ساجد علی گلگت

آج ورلڈ تھیلیسیمیا ڈے ہے  اور آج کے دن کو تھیلیسیمیا کی آگاہی کے لئے مختص کیا گیا ہے۔جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا (جے زڈ ٹی) پچھلے دس سالوں سے اس دن کے حوالے سے پورے پاکستان میں تھیلیسیمیا کی آگاہی کے لئے تقریبات کرتی رہی ہے- اس سال چونکہ لوگ کرونا وائرس کی وجہ سے گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں- اور ان حالات میں تقریبات کو عمل میں نہیں لایا جا سکتا- تو اس سال ورلڈ تھیلیسیمیا ڈے پرہم چاہتے ہیں  کہ میڈیا چینلز اور اخبارات کے زریعے لوگوں تک  تھیلیسیمیا آگاہی کا پیغام پہنچایا جائے۔ آج کے دن کے توسط سے بانی جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا (جے زڈ ٹی) جناب غلام دستگیراور جہاد فار زیرہ تھیلیسیمیا کے تمام رضاکاروں کی طرف سے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اس موذی مرض کو زرہ قریب سے دیکھا جائےاور اس کے خاتمے کے لئے فلفور اقدامات کیے جاہیں-  حکومت کی سپورٹ نہ ہونےکی وجہ سے تھیلیسیمیامریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس پر حکومت کو سوچ سمجھ کر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے- سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ ابھی تک ہمارے پاس کوئی درست نمبر ہی نہیں ہے کہ پاکستان میں کل کتنے  تھیلیسیمیا میجرکے مریض ہیں- اس حوالے سے جے زڈ ٹی کے دو مطالبات ہیں حکومت پاکستان سے، پہلا مطالبہ یہ ہے کہ تھیلیسیمیا سے متاثر تمام بچوں کی رجسٹریشن کی جائے تاکہ ہمارے سامنے ایک درست نمبر آسکے کہ تھیلیسیمیا مریضوں کا اعداد و شمار کتنا ہے- ابھی تک جو بھی اسٹیٹکس ہمارے پاس ہیں وہ سب اندازہ کی بنیاد پر ہیں- جب تک ہمیں درست اسٹیٹکس کا علم نہیں ہو گا تب تک ہم کیسے پاکستان سے  تھیلیسیمیا کا خاتمہ کریں گے-

 جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا (جے زڈ ٹی) بطور رضاکار تنظیم اس مسلے کا حل تجویز کرنا چاہتی ہے، حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ اپنی ورکرز جو کہ پولیو جیسی مہم کا حصہ ہیں ان کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ جب بھی پولیو مہم کے لیے کسی شہر یا دیہات میں جائیں تو وہاں سے یہ ضرور معلوم کر لیں کہ یہاں کوئی بچہ ایسا تو نہیں جسے خون لگتا ہو- اس سے با آسانی ہمیں یہ اندازہ ہو جائے گا کہ پاکستان کے کس شہر، ضلع اور تحصیل میں کتنے تھیلیسیمیا کے مریض ہیں- جب ہمیں یہ پتہ چل جائے گا تو پھر بڑی آسانی سے ہم ان کی فیملیز کو سکرین کر سکتے ہیں- اور آئندہ پیدہ ہونے والے  تھیلیسیمیا مریضوں کو روک سکتے ہیں، اور اسطرح ہم اپنے پیارے ملک پاکستان کو تھیلیسیمیا فری بنا سکتے ہیں- 


آج تھیلیسیمیا ڈے کے حوالے سے جو دوسرا اہم مطالبہ ہم حکومت پاکستان  بلخصوص جناب وزیراعظم عمران خان اور صدرپاکستان جناب ڈاکڑ عارف علوی سے کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا (جے زڈ ٹی) وہ واحد تنظیم ہے جس نے رضاکارانہ طور پر بغیر اپنے رضاکاروں کو کوئی معاوضہ دیے پورے پاکستان میں تھیلیسیمیا سے بچاؤ اور تھیلیسیمیا مریضوں کے لئے بیشتر خدمات انجام دی ہیں- جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا (جے زڈ ٹی) اب تک تقریبا پچاس ہزار سے زائد خون کے بیگز تھیلیسیمیا اور دیگر مریضوں کو عطیہ کر چکا ہے- جے زڈ ٹی کے پروگرام ایچ ون ایز ون (Each one Ease one )کے تحت سات سو سے زائد تھیلیسیمیا مریضوں کی مالی معاونت کر رہا ہے- اس کہ ساتھ ساتھ فاٹا ٹرائیبل ایریا نارتھ پاکستان میں اپنی ایمبولینس سروس بھی متعارف کرا چکا ہے، جو چند سالوں سے تھیلیسیمیا مریضوں کو خون کے عطیات کے لیے لے جانے اور لانے کے کی خدمات انجام دے رہی ہے- 


جہاد فار زیرو تھیلیسیمیا (جے زڈ ٹی) کے علاوہ بھی پاکستان میں بہت سی تنظیمیں کام کر رہی ہیں- ان تمام رضاکارانہ تنظیموں کی طرف سے حکومت پاکستان سے اپیل کرتے ہیں کہ ان رضاکاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے بھی کوئی اقدام ہونا چاہیے- اس کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ ملکی ستہ پر ایک ایواڈ شو منعقد کرایا جائے جس میں تمام رضاکاروں کی خدمات کو سراہا جائے اور ان میں ایواڈز اور سرٹیفیکیٹس تقسیم کر کے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ حکومت پاکستان اپنے ملک میں رضاکارانہ کام کرنے والوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے- اس عمل سے نہ صرف رضاکاروں کی حصولہ افزائی ہو گی بلکہ دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان اپنے ہیروز کو نہ صرف یاد رکھتی ہے بلکہ انکی پشت پنائی بھی کرتی ہے۔ اللہ وطن عزیز کو قائم و دائم رکھے اور اس مہلک بیماری سے جنگ میں ہماری مدد فرمائے- 

Sajid Ali
coordinator Jzt Gilgit Baltistan chapter 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
35276

کراچی میں پھنسے طلبا ودیگر مسافروں کو گلگت پہنچا نے کاعمل جاری، 2000 سے زائد افراد کو لایا گیا،محکمہ ایکسائز

گلگت (چترال ٹائمز رپورٹ) محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن گلگت بلتستان اور حکومت سندھ کے تعاون سے کراچی میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے پھنسے طلبا اور دیگر مسافروں کو گلگت بلتستان پہنچا نے کا عمل جاری ہے۔اب تک 2000 سے زائد طلبا اور دیگر مسافروں کو گلگت بلتستان لایا گیا ہے۔وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان، چیف سیکریٹری گلگت بلتستان محمد خرم آغا، سیکریٹری داخلہ گلگت بلتستان چودھری محمد علی رندھاوا اور سیکریٹری ایکسائز، ٹیکسیشن اینڈ ٹرانسپورٹ گلگت بلتستان جواد اکرم کی خصوصی احکامات کی روشنی میں ڈپٹی ڈائریکٹر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن گلگت بلتستان ابوبکر صدیق خان کی سربراہی میں ایک 10 رکنی ٹیم جس میں ویب ڈویلپر سید تصور مہدی، ایکسائز سپرنٹنڈنٹ شیر بہادر اور دیگر شامل ہیں کو کراچی روانہ کر دیا گیا ہے تاکہ وہ ٹیم کراچی میں موجود طلبا اور دیگر فیملیز کو گلگت بلتستان بھجوانے میں اپنا کردار ادا کریں گی۔کراچی میں موجود طلبا جن میں مدارس بھی شامل ہیں اور دیگر فیملیز کو باقاعدہ گورنمنٹ اف سندھ محکمہ صحت کی SOPs کے تحت کو رونا وائرس کی ٹیسٹ کرنے کے بعد جن کی ٹیسٹ رپورٹ نگیٹو آتی ہیں ان کو ہی گلگت بلتستان کے طرف سفر کرنے کے لئے NOC جاری کرتی ہے اور جن طلبا اور دیگر کی ٹیسٹ رپورٹ مثبت آتی ہیں ان کو وہی پر قرنطینہ میں رکھا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں کراچی میں موجود ڈپٹی ڈائریکٹر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن گلگت بلتستان ابوبکر صدیق خان اور ان کے پوری ٹیم دن رات اپنی خدمات سرانجام دیتے ہیں اور کراچی میں موجود تمام ڈپٹی کمشنرز اور محکمہ صحت سندھ کے ساتھ طلبا کی ٹیسٹنگ کرنے اور بسوں کا انتظام کر نے کے لئے وقتا فوقتا تفصیلی ملاقاتیں بھی کرتے ہیں اس کے علاوہ کراچی میں موجود مدارس،مساجد اور امام بارگاہوں کے ذمہ داروں سے بھی ملاقاتیں کرتے ہوئے طلبا کو گلگت بلتستان بھجوانے کے عمل کو جاری رکھا ہوا ہے۔ترجمان ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن گلگت بلتستان سید توقیر عباس رضوی کے مطابق اس سلسلے کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کراچی سے طلبا اور دیگر مسافروں کو پرائیویٹ بسوں کے ذریعے سے راولپنڈی اسلام آباد کے لئے روانہ کیا جاتا ہے راولپنڈی اسلام آباد پہنچنے کے بعد وہی سے تمام مسافروں کو نیٹکو کی بسوں کے ذریعے گلگت بلتستان لایا جا رہا ہے۔اور گلگت بلتستان کے حدود میں پہنچنے کے بعد دیامر تھور چیک پوسٹ پر محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن گلگت بلتستان اور محکمہ صحت کے تعاون سے تمام مسافروں کی سیکرنینگ اور تفصیلات کو جمع کرنے کے بعد تمام بسوں کو ایک ساتھ وہی سے آگے روانہ کیا جاتا ہے۔

ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن افسر ڈسٹرکٹ دیامر شیر زمان کی زیر نگرانی محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن دیامر تھور چیک پوسٹ کے فیلڈز سٹاف دن رات اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔جوں محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کا عملہ کراچی سے لے کر گلگت بلتستان تک اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اسی طرح یہ ریسکیو کا عمل کراچی اور دیگر صوبوں میں پھنسے ہوئے تمام طلبا اور دیگر فیملیز کو گلگت بلتستان پہنچانے تک جاری رہے گا۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
35114

تقوی اور اس کے مدراج……تحریر: امیرجان حقانی

لفظ تقوی وسیع مفہوم رکھتا ہے. ہمارے ہیں کچھ موٹے موٹے اعمال کرنے والوں کو متقی گردانا جاتا جبکہ انتہائی متقی ٹائپ لوگ بھی معاشرتی تقوی دار کا ٹائٹل سے محروم کیے جاتے.رمضان المبارک میں تفسیری مطالعہ اور فہم قرآن کا سلسلہ جاری ہے. تفیسر معارف القرآن
میں شیخ ادریس کاندھلوی نے تقوی پر جو بحث کی ہے اس کا مختصر مفہوم عرض کیے دیتا ہوں تاکہ تقوی کا خود ساختہ تصور سے اہل فہم کی جان چُھٹے.

تقوی کا پہلا مرتبہ یہی ہے کہ کفر سے تائب ہوکر اسلام اختیار کرنا اور عذاب دائمی کی مضرت سے خود کو بچانا.والزمہم کلمۃ التقوی سے یہی مراد ہے.آج کے دور میں یہ بھی غنیمت ہے. اربوں انسان اس سے بھی محروم ہیں. اللہ ان کو نعمت اسلام سے نوازے.

دوسرا درجہ یہ ہے کہ نفس کو ارتکاب کبائر اور اصرار علی الصغائر سے محفوظ رکھنا یعنی خود کو گناہ کبیرہ سے بچانا اور صغیرہ گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنا یعنی ان صغیرہ گناہوں پر اصرار نہ کرنا.”ولوا ان اھل القرائ آمنوا واتقوا” سے یہی مراد ہے. اہل شریعت تقوی سے یہی مراد لیتے ہیں. حضرت عمر نے حضرت ابی بن کعب سے تقوی کی حقیقت دریافت کی تھی تو انہوں نے یہی فرمایا تھاکہ اللہ تعالی کی معصیت اور نافرمانی سے بچنے کی حتی المقدور کوشش کرنا تقوی کہلاتا ہے. دامن بچا بچا کر چلنا. “ان اکرمکم عنداللہ اتقکم” سے یہی مقصود و مطلوب ہے.ہمیں تقوی کا یہی درجہ مل گیا تو نور علی نور ہوگا. اللہ اس کی توفیق دے.

تقوی کا اخری درجہ یہ ہے کہ مقتضائے شریعت مقتضائے طبیعت بن جائے اور قلب کو ہر اس چیز سے محفوظ کرنا جو اللہ تعالی سے غافل کرتی ہو، “اتقوا اللہ حق تقاتہ” سے یہی مراد ہے. آخری درجہ انتہائی اہم اور مشکل ہے. ایمان کا اعلی ترین درجہ ہے جو ہم جیسے کمزور لوگوں کے لیے ممکن نہیں.یہ انتہائی مستحسن درجہ ہے لیکن ہم جیسوں سے اللہ اس کا تقاضہ بھی نہیں کرتا.

جو لوگ اسلام میں نہیں، کفریہ عقائد رکھتے ہیں ان کے لیے یہی تقوی کے کہ وہ صدق دل سے اسلام قبول کریں اور جو لوگ پہلے سے مسلمان ہیں ان کو کبائر سے بچنا چاہیے جیسے
قتل کرنا
ظلم و جبر کرنا
غصب کرنا
حق دار کا حق کھانا
حقوق العباد سے غافل رہنا
کرپشن کرنا
والدین کی نافرمانی کرنا
جھوٹ بولنا
مصنوعی کساد بازاری پیدا کرنا
بیوی اور اولاد کے حقوق سے غافل ہونا

غرض کبیرہ گناہوں کی بڑی فہرست ہے ان سب سے بچنا اور صغیرہ گناہ ہوجانے پر افسوس کرنا اور ان پر مداومت اختیار نہ کرنا ہی تقوی کا دوسرا درجہ ہے.
اور ان دونوں (کبائر اور صغائر) پر اللہ سے معافی مانگنا اور مخلوق خدا سے ازالہ کرنا ہی تقوی کہلایا گا.. شریعت اسلام کا بھی ہم سے یہی تقاضہ ہے.. حقوق العباد کا بیڑہ غرق کرنے والے بڑے بڑے عبادت گزار بھی نہیں بخشے جائیں گے.. لہذا وہی تقوی معیار ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے مقرر کیا ہے. وہ ہر گز مقصود نہیں جو ہمارے معاشرے میں رواج پا چکا ہے. اللہ ہم سب کو ان خودساختہ متقیان امت سے بچائے جو تقوی کی آڑ میں دوسروں کی پگڑیاں اچھالتے ہیں اور سیدھا دوزخ پہنچا دیتے ہیں. اور اس تقوی کی توفیق دے جو حقیقی معنوں میں تقوی ہے.

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
34999

گلگت،وزیر اعلی کی سوشل میڈیا پر وائرل تصویروں کا نوٹس،اسسٹنٹ کمشنر پر جرمانہ عائد کرنیکی ہدایت

گلگت(آئی آئی پی) وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے اسسٹنٹ کمشنر آفس گلگت میں سماجی دوری کی خلاف ورزی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی تصویروں کا نوٹس لیتے ہوئے صوبائی سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر گلگت پر جرمانہ عائد کیا جائے اور سماجی دوری کی خلاف ورزی پر نوٹس جاری کیا جائے۔ قانون سے بالاتر کوئی نہیں ہے قانون سب کیلئے ہے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے صوبائی سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ قصابوں کے دکانوں پر بھی سماجی دوری پر عملدرآمد نہیں ہورہاہے تمام تجارتی مراکز میں ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی بنایاجائے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ سماجی دوری اور لاک ڈاؤن پر من و عن عملدرآمد کو یقینی بنانے کے حوالے سے گلگت شہر کا ڈرون کیمروں کے ذریعے باقاعدہ مانیٹرنگ کیا جائے گا۔آئندہ دو دنوں میں گلگت میں پول ٹیسٹنگ شروع کیا جائے گا۔ 5 مئی تک گلگت شہر میں تقریبا 800رینڈم ٹیسٹ کئے جائیں گے جس کے بعد لاک ڈاؤن میں نرمی کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا۔

وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان میں ڈبلیو ایچ او اور ہیلتھ ایڈوائزری کے مطابق ٹی ٹی کیو پر سختی سے عملدرآمد کیا جارہاہے۔ کورونا وائرس ایک حقیقت ہے جس سے بچاؤ اور روک تھام کیلئے سماجی دوری اور احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کورونا وائرس سے بچاؤ اور لاک ڈاؤن کے حوالے سے اعلی سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ گلگت بلتستان میں سماجی ڈھانچہ مضبوط ہے۔ یہاں پر بھوک سے نہیں بلکہ کورونا وائرس سے مرنے کا خدشہ ہے۔ لہذا ہمیں کورونا وائرس سے بچاؤ اور روک تھام کیلئے محکمہ صحت کے ہدایت نامے پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔ صوبائی حکومت محدود وسائل میں تمام کورونا وائرس سے بچاؤ کے حوالے سے تمام آپریشنل اخراجات برداشت کررہی ہے۔ وفاقی حکومت نے اس مد میں کسی قسم کی رقم فراہم نہیں کی ہے۔ احساس پروگرا م میں گلگت بلتستان سے زیادہ مستحق لوگوں کو شامل کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ حکومت گلگت بلتستان لاک ڈاؤن کی وجہ سے پیدا صورتحال میں 75 ہزار مستحق گھرانوں میں راشن تقسیم کررہی ہے۔ پہلے مرحلے میں 25 ہزار مستحق گھرانوں میں راشن تقسیم کیا گیا ہے۔ بہت جلد دوسرے مرحلے کا آغاز کیا جائے گا جس کے تحت مزید 25 ہزار مستحق گھرانوں میں راشن تقسیم کیا جائے گا۔

وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے صوبائی سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی کہ لاک ڈاؤن کے دوران گلگت میں ڈیری سنٹرز کے اوقات کار میں اضافہ کیا جائے۔کورونا وائرس سے بچاؤ اور روک تھام کے حوالے سے صوبے میں اتفاق رائے کا ماحول پیدا ہوا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں، علمائے کرام اور سول سوسائٹی کا کردار قابل تحسین ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے 100 فیصد میرٹ کے تحت مستحق گھرانوں میں راشن کی تقسیم کو یقینی بنایا ہے۔ اس حوالے سے کسی قسم کی سیاسی مداخلت نہیں کی گئی ہے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں پرسنل پروٹیکشن کٹس سمیت کورونا وائرس کے حوالے سے تمام دیگر ضروری آلات کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ گلگت اور سکردو شہر میں داخلے کیلئے غیرضروری این او سیز کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ صوبائی سیکریٹری داخلہ ان شہروں کیلئے جاری این او سی کی نگرانی کریں۔ بین اضلاعی نقل و حمل کے حوالے سے متعین ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔

وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ صوبے میں کام کرنے والے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کی زندگیوں کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔ کورونا وائرس سنٹرز میں خدمات سرانجام دینے والے تمام ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کو پی پی ای کٹس کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف بھی ایس او پیز کی پابندی کریں اور بغیر پی پی ای کٹ کے کورونا وائرس کے مریضوں کے قریب جانے سے اجتناب کریں۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے صوبائی سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ کورونا وائرس کیلئے مختص ہسپتالوں میں آئی سی یو کو ہر صورت فعال کیا جائے۔ صوبے میں وینٹی لیٹرزموجود ہیں۔ آئی سی یو میں موجود تمام وینٹی لیٹرز کو فعال کیا جائے اور ٹیکنیکل سٹاف کی ہنگامی بنیادوں پر کمی کو دور کیا جائے۔ ڈویژنل سطح پر کورونا وائرس آئی سی یو کے قیام کرنے کے حوالے سے بنائی جانے والی کمیٹیوں کی سفارشات کی روشنی میں فوری طور پر کورونا وائرس ہسپتالوں میں آئی سی یو فعال کیا جائے۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان
34939

رمضان المبارک اور فہم قرآن……….تحریر: امیرجان حقانی

قران کریم کا جملہ مسلمانوں پر حق ہے کہ وہ اس کو تلاوت، حفظ، ترجمہ، تشریح و تفسیر، تفہیم اور تدبر و تفقہ کے ساتھ پڑھیں.شغف قرآن میں جس کا جو لیول ہے اس کا ضرور پاس رکھے. اپنے لیول سے نیچے اترنا بھی زیادتی ہوگی.

قرآن کو جس انداز سے بھی پڑھا جائے ثواب مل جائے گا لیکن سب سے زیادہ ثواب اور اجر تدبر و تفقہ کیساتھ پڑھنے والوں کو ملے گا.خود اللہ کا فرمان اور قرآن کا تقاضہ بھی یہی ہے.

میرے معمولات میں رمضان المبارک فہم قرآن اور تدبر کے لیے خاص ہے.اگلا مرحلہ تفقہ فی القرآن ہے جس کے لیے بڑا وقت اور محنت  اور بہت سے علوم میں مہارت چاہیے جس کی ہم جیسے کمزورں میں سکت کہاں. اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس کی بھی توفیق دے.

ربیع الاول سیرت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور محرم الحرام سیرت اہل بیت اور اصحاب کرام کے لیے مخصوص ہیں.
ان تین مہینوں میں ان تین موضوعات(فہم قرآن، سیرت الرسول اور مناقب اہل بیت و صحابہ) پر زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی کوشش کرتا، اور ان موضوعاف پر سیلکٹڈ مطالعہ کرتا. اگرچہ دیگر اہم موضوعات  اور تحریروں کا جزوی مطالعہ بھی سال بھر کی طرح چلتا رہتاہے.

سال 2020کے رمضان المبارک میں فہم و تدبر قرآن کے لیے دو عدد تفاسیر کا انتخاب کیا ہے.

1.معارف القرآن، لیشخ ایدریس کاندھلوی

2.تفہیم القرآن: لشیخ ابوالاعلی مودودی

آج پہلے رمضان کے تہجد کے اس وقت دو رکعت صلوۃ برکت فی المطالعہ پڑھ کر دونوں تفاسیر کے مطالعہ کا آغاز کیا ہے. کوشش ہوگی کہ زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرکے فہم و تدبر کیا جائے گا.
ان دونوں تفاسیر کا ترجمہ و تفیسر بالاستعیاب پڑھا جائے گا. اور  ضرورت پڑنے پر دیگر متداول اور مختصر تفاسیر و تراجم سے بھی رجوع کیا جائے گا.جوکہ میرے لیپ ٹاپ میں محفوظ ہیں.

گزشتہ سال 2019 کے رمضان میں فہم قرآن کے لیے
تفسیر ابن کثیر اور تفہیم القرآن کا انتخاب کیا تھا.جن کا بہت فائدہ ہوا. الحمدللہ!

میری گزارش ہوگی کہ رمضان المبارک کے مہینے میں سب سے زیادہ وقت قرآن کریم کو دیا جائے.

عام احباب جو ناظرہ بھی نہیں پڑھ سکتے وہ کسی معروف قاری کی تلاوت کی سماعت کا اہتمام کیجے. جیسے شیخ سدیس وغیرہ
جوگ صرف ناظرہ پڑھ سکتے وہ زیادہ سے زیادہ تلاوت کا اہتمام کیجے.

جو جدید تعلیم یافتہ حضرت ترجمہ پڑھ سکتے ہیں ان سے خصوصی گزارش ہوگی کہ ترجمہ و مختصر تفسیر کا اہتمام کیجے. صرف تلاوت پر قطعا اکتفا نہ کیجے. اس کے لیے سب سے بہتر اور آسان ترجمہ و مختصر تفسیر جسٹس مفتی محمد تقی عثمانی کی آسان ترجمہ قرآن(اردو و انگلش) ہے، جو نہت سلیس انداز میں جدید تعلیم یافتہ احباب کو مدنظر رکھتے ہوئےلکھی گئی ہے.

باقی اہل علم حضرات اپنے ذوق اور فہم و منہج کے اعتبار سے تراجم و تفاسیر کا انتخاب کرسکتے ہیں.

جو احباب یہ سب نہیں کرسکتے وہ قرآن اور اہل قرآن سے محبت کیجے. اللہ ان کو بھی خوب نوازے گا.

اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب جملہ مسلمانوں کی رمضان المبارک کے مہینے میں کی جانے والی ان معمولی کاوشوں میں برکت ڈالے اور اپنے بارگاہ میں ان  کو مقبول و منظور  فرمائے.آمین.

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
34801

بہتر حکمت عملی کی وجہ سے کورونا سے پیدا صورتحال مثبت سمت کی طرف جارہاہے۔ وزیر اعلی جی۔بی


گلگت(آئی آئی پی) وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے صوبائی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی حکومت کی بہتر حکمت عملی کی وجہ سے کورونا وائرس سے پیدا صورتحال مثبت سمت کی طرف جارہاہے۔ لاک ڈاؤن کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا ہے۔ کورونا وائرس کی وبا پوری دنیا کیلئے ایک المیہ بن چکی ہے۔ محکمہ صحت اور ڈبلیو ایچ او کی جانب سے جاری ہیلتھ ایڈوائزری دین اسلام کے عین مطابق ہے کسی مذہب کے خلاف نہیں بلکہ انسانیت کی بہتری کیلئے ہے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ لاک ڈاؤن میں تاجر برداری کا کردار مثبت رہا ہے۔ انتظامیہ تاجروں کے عزت نفس کو مجروع نہیں کرے بلکہ مثبت انداز میں لاک ڈاؤن پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ کورونا وائرس سے پیدا صورتحال میں لاک ڈاؤن کے دوسرے مرحلے کے حوالے سے کابینہ کمیٹی کی سفارشات پر ایپکس کمیٹی میں مشاورت ہوئی جس کی آج حتمی منظوری صوبائی کابینہ دے رہی ہے۔ صوبائی کابینہ کی جانب سے قائم کابینہ کمیٹی کو لاک ڈاؤن کے حوالے سے سفارشات مرتب کرکے ایپکس کمیٹی کی مشاورت کے بعد حتمی منظوری صوبائی کابینہ نے دینی تھی۔ پریس کانفرنس کا مقصد عوامی آرا لینا تھا۔

وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے موجودہ صورتحال دہشتگردی سے بڑا چیلنج ہے۔ صوبائی وزیر تعمیرات ڈاکٹر محمد اقبال کو غلط فہمی ہوئی ہے جس کو دور کیا جائے گا۔ اس حوالے سے صوبائی وزرا پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو صوبائی وزیر تعمیرات ڈاکٹر محمد اقبال کے تحفظات دور کرے گی۔ کورونا وائرس کی وجہ سے درپیش موجودہ صورتحال میں سیکریٹری داخلہ کا کردار بھی قابل تحسین رہاہے۔ صوبائی کابینہ کے اجلاس میں لاک ڈاؤن کے دوسرے مرحلے کے حوالے سے سفارشات کی حتمی منظوری دی گئی۔ صوبائی کابینہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تینوں ڈویژنوں کے کمشنرز ایس او پیز پر عملدرآمد کیلئے ڈپٹی کمشنرز کی مشاورت سے حکمت عملی مرتب کریں۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے صوبائی سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی کہ صوبائی کابینہ کے اجلاس کی روشنی میں فوری طورپر اوگرا سے رابطہ کرکے ایل پی جی کے متعین کردہ نرخوں کا گلگت بلتستان میں اطلاق کو یقینی بنانے اور گلگت بلتستان کیلئے اوگرا کی جانب سے جاری ایل پی جی کوٹہ کے حوالے سے رابطہ کیا جائے تاکہ عوام کو ریلیف فراہم کی جاسکے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے لاک ڈاؤن کو کامیاب بنانے اور موجودہ صورتحال میں سیاسی و مذہبی جماعتوں اور فلاحی تنظیموں کے کردار کو سراہا۔

وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے صوبائی سیکریٹری صحت کو ہدایت کی کہ دیامر میں سی پی آر ٹیسٹنگ لیب کے قیام کیلئے اقدامات کئے جائیں اور تمام مضافاتی علاقوں میں ڈاکٹرز کو پرسنل پروٹیکشن کٹس کی فراہمی کو یقینی بنائی جائے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ کورونا وائرس کے حوالے سے جاری آپریشن میں وفاقی حکومت کی جانب سے اب تک کسی قسم کی رقم نہیں دی گئی ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے پونے دو ارب کی ڈیمانڈ وفاقی حکومت کوبجھوائی گئی ہے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہاکہ 25 ہزار مستحق گھرانوں میں خصوصی رمضان پیکیج تقسیم کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں صوبائی حکومت نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے 25 ہزار مستحق اور نادار افراد کے گھروں میں راشن پہنچایا جارہاہے۔ دوسرے مرحلے میں مزید 25 ہزار مستحق گھرانوں میں راشن تقسیم کیا جائے گا اور ماہ رمضان المبارک میں خصوصی رمضان پیکیج کے 25 ہزار فوڈ پیک مستحق گھرانوں میں تقسیم کیا جائے گا۔

وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے متعلقہ آفیسران کو ہدایت کی کہ مستحق گھرانوں میں راشن کی تقسیم کو بروقت یقینی بنانے کیلئے سپلائی کے نظام کو بہتر بنایا جائے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ ماہ رمضان المبارک کے آمد سے قبل 20 اپریل سے صوبے بھر میں صفائی مہم کا آغاز کیا جارہاہے۔ تمام کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز، ویسٹ مینجمنٹ کمپنی اور ولنٹیئرز کے تعاون سے صوبے بھر میں صفائی مہم کا آغاز کریں۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے صوبائی سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی کہ نئے تحصیل اور سب ڈویژنز کو فعال کرنے کیلئے فوری طور پر اقدامات کئے جائیں۔ اجلاس میں ذخیرہ اندوزی اور چوری بازاری کیخلاف قانون کی منظوری دی گئی۔صوبائی کابینہ کے اجلاس میں ڈاکٹروں کی مستقلی کیلئے ڈرافٹ ایکٹ اور ویسٹ مینجمنٹ بورڈ ایکٹ کی بھی منظوری دی گئی۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان
34430

گلگت میں کرونا کے 118 مریض صحت یاب ہوچکے ہیں۔۔۔وزیراعلیٰ

گلگت(چترال ٹائمزرپورٹ) وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ صوبے میں 215 کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد تھی جن میں سے 118 صحت یاب ہوچکے ہیں اور اپنے گھر چلے گئے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے ہدایت نامے کے مطابق صحت یا ب ہونے والوں کا کورونا وائرس کا ڈبل ٹیسٹ منفی آنے کے بعد انہیں گھر جانے کی اجازت دی گئی۔ آئندہ چند دنوں میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں واضح کمی آئے گی۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف اور صدر محمد شہباز شریف نے ہمیشہ گلگت بلتستان کے عوام کی مدد کی ہے۔ ہر آزمائش کی گھڑی میں گلگت بلتستان کے عوام کیساتھ کھڑے رہے ہیں۔ پنجاب اور وفاق میں حکومت نہ ہونے کے باوجود صدر مسلم لیگ (ن) محمد شہباز شریف نے گلگت بلتستا ن کیلئے ایک ہزار پرسنل پروٹیکشن کٹس فراہم کئے ہیں اور کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے درکار ہائی جین کٹس گلگت بلتستان کو دیئے ہیں۔ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں جن کی حکومت ہے انہوں نے کسی قسم کی مدد نہیں کی ہے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ میرٹ کی بنیاد پر تقریبا 30 ہزار مستحق گھرانوں میں راشن تقسیم کئے جارہے ہیں۔ مستحق گھرانوں کا چناؤ 100 فیصد میرٹ پر کیا گیا ہے۔ کوئی سیاسی مداخلت نہیں کی گئی ہے۔ 14 اپریل تک صوبے میں لاک ڈاؤن جاری رہے گا۔ 14 اپریل کے بعد کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے لاک ڈاؤن کو جاری رکھنے یا نرمی کا فیصلہ کرنے کیلئے کابینہ کمیٹی تشکیل دی گئی جس کی سفارشات کی روشنی میں لاک ڈاؤن کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ ان خیالات کااظہار وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد شہباز شریف کے زیر صدارت اجلاس میں ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں جو منصوبے اور ترقیاتی کام ہوئے وہ 70سالوں سے زیادہ ہے۔ چند سیاسی مخالفین کو مسلم لیگ (ن) کے تعمیر و ترقی کے ایجنڈے سے تکلیف ہے اور چاہتے ہیں کہ تعمیر و ترقی کا عمل ماضی کی طرح دوبارہ جمود کا شکار ہو۔ عوام نے پانچ سال کا مینڈیٹ دیا ہے۔ آخری دن تک عوام اور علاقے کی خدمت کریں گے۔ اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیر اعلی پنجاب محمد شہباز شریف نے حکومت گلگت بلتستان کے کورونا وائرس سے بچاؤ اور روک تھام کے حوالے سے کئے جانے والے اقدامات پر وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے جس بہترین حکمت عملی اور منظم منصوبہ بندی کیساتھ کورونا وائرس کی روک تھام اور بچاؤ کیلئے اقدامات کئے گئے ہیں وہ دیگر صوبوں کیلئے قابل تقلید ہے۔ مناسب اور بہترین حکمت عملی کی وجہ سے گلگت بلتستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 215سے کم ہوکر صرف 66تک پہنچی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ بہت جلد گلگت بلتستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد صفر ہو۔ جس طرح دن رات عوام کی خدمت وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کررہے ہیں وہ دیگر صوبوں کے وزرائے اعلی کیلئے بھی ایک مثال ہیں۔

گلگت بلتستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں بتدریج کمی آرہی ہے۔ حکومت اس وبا سے بچاؤ اور روک تھام کیلئے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لارہی ہے،وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن


گلگت(آئی آئی پی) وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں بتدریج کمی آرہی ہے۔ حکومت اس وبا سے بچاؤ اور روک تھام کیلئے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لارہی ہے۔ صوبے کے داخلی راستوں پر کورونا وائرس سے متعلق سکریننگ اور قرنطینہ کے عمل کو یقینی بنایا جائے۔ فضائی راستے سے آنے والے تمام مسافروں کا بھی سکریننگ کیا جائے۔ علامات ظاہر ہونے کی صورت میں مسافروں کے قرنطینہ اور آئیسولیشن کو یقینی بنایا جائے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ لاک ڈاؤن کے انتہائی مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں جس میں علمائے کرام، عوام اور اداروں کا کردار قابل تحسین ہے۔ 14 اپریل کے بعد لاک ڈاؤن کے حوالے سے حکمت عملی وضع کی جائے گی جس کا فیصلہ کابینہ کمیٹی کے سفارشات کی روشنی میں کیا جائے گا۔ کورونا وائرس کے پوسٹ سناریو کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنے زندگیوں میں تبدیلی لانی ہوگی۔ سکول، سرکاری دفاتر، ہسپتالوں اور عوامی اجتماعات کے حوالے سے واضح ایس او پی مرتب کی جائے گی جس پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ 14 اپریل کے بعد ترقیاتی شعبے سے متعلق بھی فیصلہ کیا جائے گا تاکہ صوبے کے تعمیر و ترقی کا سفر متاثر نہ ہو۔ حکومت گلگت بلتستان نے صوبے میں مستحق گھرانوں تک راشن پہنچانے کیلئے اقدامات کئے ہیں۔ میرٹ پر مستحق گھرانوں کا چناؤ کیا گیا ہے اس عمل میں کسی قسم کی سیاسی مداخلت نہیں کی گئی ہے۔ مستحق گھرانوں کو راشن پہنچانے کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ صوبے کے تینوں ریجن میں جدید کورونا وائرس سے متعلق آئی سی یو سنٹر ز قائم کئے جارہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے صوبائی کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام نے دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے قربانی دی ہے۔ چند وفاقی وزرا دیامر بھاشا ڈیم کو صرف واٹر ریزوائر بنانے کے حوالے سے بیانات دے رہے ہیں جسے قبول نہیں کیا جائے گا۔ دیامر بھاشا ڈیم کیلئے قربانی اس لئے دی ہے تاکہ اس منصوبے سے بجلی پیدا کی جائے اور ملک سے اندھیروں کا خاتمہ ہو۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے صوبائی سیکریٹری تعلیم کو ہدایت کی ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کے ایڈمنسٹریٹیو اپرول کے اجرا میں غیرضروری تاخیر نہیں کی جائے۔ صوبائی کابینہ کے اجلاس میں 2000 سے 2017 تک محکمہ برقیات کے گھریلو صارفین جن کے بجلی کا یونٹ 300سے کم ہے ان کو 34 کروڑ کے بلوں کی ایمنسٹی کی منظوری دیتے ہوئے وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ محکمہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ایمنسٹی کے بعد تمام صارفین بجلی کے بلوں کے بروقت ادائیگی کو یقینی بنائیں۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے صوبائی سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی کہ نئے سب ڈویژنز اور تحصیلوں کو فوری طور پر فعال کئے جائیں تاکہ عوام کے مسائل ان کے دہلیز پر حل ہوں۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
34198

کیا سوشل میڈیا نے ہمیں نرگسیت کا شکار بنایا ہے؟۔۔۔۔۔تحریر: امیرجان حقانی

میرے ایک دوست نے سوال اٹھایا کہ ”کیا سوشل میڈیا نے ہمیں نرگسیت کا شکار بنایا ہے؟کہیں ہم مجموعی طور پر نرگسیت کا شکار تو نہیں“۔ یہ دراصل میری ایک پوسٹ پر ایک سنجیدہ کمنٹس تھا۔اس کمنٹس کا تعلق اگرچہ پوسٹ سے نہیں تھا لیکن یہ سوال بہت اہم ہے۔مجموعی طور پر ہم اپنی زندگی پر نظرڈالیں تو واقعی بہت سارے معاملات میں ہم نرگسیت کا شکار ہیں۔ سوشل میڈیا ہو یا عام لائف، واقعتا ہم بری طرح اس کے شکنجے میں آچکے ہیں۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آخر نرگسیت ہے کیا چیز، اس کا مفہوم کیا بنتا ہے۔ یہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ نرگسیت ایک ایسی کیفیت ہے کہ شعوری اور غیرشعوری طور پر ہم زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر شکار ہوہی جاتے ہیں۔ یہ ایک ایساعمل ہے جو دانستہ اور نا دانستہ طور پرہم انجام دیتے ہیں۔اپنے آپ میں حد سے زیادہ کھو جاتے ہیں، اپنی ذات کے خول میں بند ہوجاتے ہیں۔اپنی شخصیت کی لامتناہی محبت کے اسیر ہوجاتے ہیں۔اپنی باتوں اور لن ترانیوں میں فریفتگی کی حد تک ملوث پائے جاتے ہیں۔ بعض دفعہ نرگسیت کا یہ عمل اتنا شدید ہوتا ہے کہ ہم دلیل و برہان کو بھی خاطر میں نہیں لاتے، درست بات کو بھی تسلیم کرنے سے جھجک جاتے ہیں۔تسلیمِ حق اپنی توہین لگتی ہے۔کوئی ہماری رہنمائی سچائی کی طرف کرے بھی تو ہم جھڑک دیتے ہیں۔آواز اونچی کردیتے ہیں۔تعصب اور نفرت سے اس کا سامنا کرتے ہیں۔ اور سوشل میڈیا میں تو بلاک تک کرکے سکھ کا سانس لیتے ہیں اور اس پر اتراتے بھی ہیں۔ ہمارے اندر ایک اَنا سی پیدا ہوجاتی ہے جو ہمیں سچ اور حق تسلیم کرنے سے بھی روک دیتی ہے۔ہم جانے انجانے میں بہت ساری باتیں، بہت ساری ایکٹویٹیز اور اعمال ایسی کرجاتے ہیں،جن سے ہماری خود پسندی بلکہ نرگسیت ٹپک رہی ہوتی ہے۔ اپنی ذات، اپنی خاندان، اپنے مسلک و مذہب، اپنے حسن و جمال اور اپنے علاقے و نسل اور اپنی رائے کی برتری پر اتنی شدت اختیار کرجاتے ہیں کہ ہم خودپرستی کا شکار ہوجاتے ہیں۔بلکہ نرگسیت زدہ بن جاتے ہیں۔کھبی کبھار ہم اپنے فن و علم پر گھمنڈ کرنے لگتے ہیں۔ اپنی تحریر کے سحر میں کھوجاتے ہیں۔ تقریر کے اسیر ہوجاتے ہیں اور اپنے حسن و جمال کے خوغر بن جاتے ہیں۔تب ہم کسی کو خاطر میں نہیں لاتے، یہی وہ کیفیت ہوتی ہے جو مکمل طور پر خود ثنائی، انانیت،خود ستائی،خودنمائشی اور نرگسیت کہلاتی ہے۔نرگسیت کے حوالے سے میرے بیان کردہ باتوں سے آپ اختلاف کرنے کا مکمل حق رکھتے ہیں۔


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم آخر ایسا کیوں کرتے ہیں؟ یا ہم نرگسیت کا شکار کیوں ہوجاتے ہیں؟۔اس سوال کے افہام و تفہیم سے پہلے ہمیں ایک اصول کا ادراک کرنا چاہیے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ ہر حال میں زندہ رہنا چاہتا ہے بلکہ نمایاں طور پر زندہ رہنا چاہتا ہے اور مسلسل آگے بڑھنا چاہتا ہے۔میں نے ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے ذیل میں دو اصول کہیں پڑھے ہیں۔ڈارون کا ایک اصول ”جُہدللبقاء“ یا ”تنازع للبقاء“ (Struggle of existance) ہے۔ اور اسی سے ملا جلا دوسر ا اصول ”بقائے اصلح“ (Survival of the fittest) ہے۔ ان دونوں اصولوں کا خلاصہ یہی بنتا ہے کہ ہر انسان کو زندہ و جاوید رہنے کے لیے مستقل جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اپنے وجود کا احساس دلانے کے لیے کچھ نیا کرنا پڑتا ہے۔دنیا میں وہی انسان زندہ رہ سکتا ہے، معروف ہوسکتا ہے جو دوسروں سے آگے بڑھنے کی خواہش رکھتا ہے اور اس خواہش کی تکمیل کی صورتیں نکال لیتا ہے۔


اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم سوشل میڈیا میں جو پھرتیاں دکھاتے ہیں کہیں وہ زندہ رہنے کے لیے اور نمایاں بننے کے لیے تو نہیں کرتے۔؟ جناب ڈارون صاحب کے دور میں سوشل میڈیا کا وجود نہیں تھا۔ معلوم نہیں،کہ لوگ نرگسیت زدہ زندگی کے لیے کیا کرتے ہونگے، لیکن ہم مجموعی طور پر بنظر غائر دیکھیں تو یہی کچھ کرتے دکھائی دیتے ہیں جو نرگسیت کے زمرے میں آتا ہے۔ہم غور سے دیکھیں تو آج سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک میں بہت سار ے لوگ بڑے بڑے تعلیمی ادارے اور رفاہی تنظیمیں چلارہے ہوتے ہیں۔فٹافٹ سینئر رہنماء، صحافی، اسکالر،ماہرامراض اور نہ جانے کیا کیا بننے کی تگ و دو کررہے ہوتے ہیں۔ کچھ علامے اور فہامے بنے پھرتے ہیں۔کچھ علم و فن کی موتیاں بکھیرتے نظر آتے ہیں۔کچھ لوگ بڑے بڑے بزنس دکھا رہے ہیں۔کچھ اپنے حسن وجمال کی ساحرانہ تبلیغ کرتے ہیں۔


کوئی کسی بڑے لیڈر کیساتھ سیلفی بناکرخود کو بڑا ثابت کرنے اور پُروایکٹوو بننے میں مصروف ہے۔دنیا کے بڑے بڑے لوگ سیلفی کے خبط میں شکار ہوجاتے ہیں۔اپنی خدا ترسی کو بیان کرنے کے لیے کسی غریب، فقیر یا بھکاری کے ساتھ سیلفی تک لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں، لیکن اگلے ہی مرحلے میں ہاتھ جھاڑتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔ہم دائیں بائیں کا جائزہ لیں تو ہم سیلفی کے سہارے جی رہے ہوتے ہیں۔ہمارا کل اثاثہ کسی بڑے لیڈر، علمی شخصیت،مفکر و ادیب اور فنکار و گلوکار اور کسی حسین وجمیل انسان کے ساتھ لی گئی سیلفی ہوتی ہے۔جو بار بار شیئر کی جاتی ہے۔ اگلی سال اسی دن انکل فیس بک ہماری وہ سیلفی دکھا رہا ہوتا ہے اور ہم فخریہ شیئر کررہے ہوتے ہیں۔یہ ماننے میں مجھے باک نہیں کہ نرگسیت کا شکار فرد اپنی ہی ذات اور برتری کے خول میں مرتکز ہوکر دنیا اور اہل دنیا کا مشاہدہ کررہا ہوتا ہے۔جو لوگ اپنی ذات میں گم ہوکر دنیا دیکھتے ہیں و ہ حقیقی اور معروضی دنیا سے نابلد ہی ہوتے ہیں۔
غرض سوشل میڈیا میں بہت کچھ ہوتا دکھائی دیتا ہے جس کی تفصیل یہاں ممکن نہیں۔اور یہاں تک کہ بڑے بڑے سمجھ دار اور سلجھے ہوئے لوگ بھی سوشل میڈیا کا سہارا لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔پانچ کلو کا ”امدای پیکج“ دینے کے لیے دس دس لیڈر اور رفاہی رضاکار کھڑے تصویریں بنواتے ہیں اور اگلے ہی مرحلے سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل کرواتے ہیں۔

بھلا یہ سب کیا ہے؟۔انتہائی غور سے دیکھیں تو اس طرح کے لوگ غریب کی عزت نفس کا استحصال کرکے، اس کے ضمیر اورشخصیت کو مجروح کرکے دلی سکون پاتے ہیں۔یہی اصل نرگسیت ہے۔لاریب نرگسیت زدہ لوگ انتہائی تعصب، کینہ پروراور استحصالی ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ اپنی اَناوں کی تسکین کے لیے جدید طریقے استعمال کررہے ہوتے ہیں جن کا مشاہدہ روز ہمیں کسی نہ کسی نئے روپ میں ہوہی جاتا ہے۔
میری والدہ پارکن سن کی مریضہ ہے۔ یہ نیورو سے متعلق کوئی بیماری ہے۔ایک نیورو فزیشن نے مجھے بتایا تھا کہ انسان کا ذہن دوسروں کی خوشی، غمی اور جذبات کو شیئر کرتا ہے۔ لہذا آپ اپنی پریشانیاں اپنی والدہ سے شیئر نہ کریں بلکہ خوشی ہی خوشی کی بات کریں تاکہ آپ کی خوشیاں اور ہنسیاں دیکھ کر انہیں ریلکس ملے۔میں والدہ کو ہنسانے اور خوش رکھنے کے بہت سارے جتن کرتا۔بعض دفعہ جب والدہ بہت ڈسٹرب ہوتی ہے تو میں ان کے سامنے ناچنا بھی شروع کرتا، اس سے والدہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوتی ہے۔
اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم سوشل میڈیا میں بھی خوشی غمی کے موقعوں پر کیا ری ایکٹ کرتے ہیں۔اور ہمارا رسپونس کیا ہوتا ہے۔؟ بہت دفعہ دیکھنے میں آیا کہ ہم کسی کی خوشی میں خوشی کے گیت گارہے ہوتے ہیں۔ کسی کی پریشانی میں خود کو پریشان ظاہر کرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا خوشی اور غمی میں ہمارا رسپونس حقیقی ہوتا ہے یا پھر سوشل میڈیا میں خود کو سماجی اور دردمند انسان باور کرانے کے لیے یہ سب کرتے ہیں؟۔ یہ میرا اپنا مشاہدہ رہا ہے کہ لوگ سوشل میڈیا میں بڑی بڑی ڈینگیں ماررہے ہوتے ہیں لیکن جب ان کے ساتھ کہیں ملاقات ہوتی ہے تو ان کا رسپونس فرضی سا ہوتا ہے۔آپ تعارف بھی کروادیں تو ہاں، ہوں سے گزارہ کرلیتے ہیں۔


آپ کا بھی مشاہدہ ہوا ہوگا کہ کوئی فرد آپ کی تعریفات میں مبالغہ کررہا ہوتا ہے۔آپ کو خود بھی حیرت ہوتی ہے کہ آخر میں اتنہا اہم کیوں ہوگیا ہوں۔ جب آپ، محبت کے اس چشمے کی فراوانی کو دیکھتے ہیں تو کچھ پسیج جاتے ہیں۔جیسے ہی آپ کادل پسیج جاتا ہے تو اگلا آدمی سمجھتا ہے کہ میں نے اس کو نرگسیت اور خودفریبی میں مبتلا کردیا، پھر وہ اپنی مطلب کی بات کرتا ہے۔دراصل یہ ایک تیکنیک ہے جو دوسروں سے مطلب براری کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں اس کا جلدی شکار ہوجاتے ہیں۔
ڈارون صاحب نے شاید زندہ رہنے کے لیے اور آگے بڑھنے کی جو تجویز دی ہے وہ یہ نہ ہو،جو ہم کررہے ہیں۔ دل ودماغ کے کسی نہاں خانے میں یہ بات رچی بسی ہوتی ہے کہ ہم زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کے لیے سوشل میڈیا میں یہی سب غیر مصنوعی کررہے ہیں۔


ایسے میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔ اس سوال کا مختصر جواب یہی ہے کہ ہمیں ہر کام حکمت اور دانائی کیساتھ کرنا چاہیے۔ بیشک سوشل میڈیا سے دوری اور برات ممکن نہیں لیکن اس کے استعمال میں اندھا دھند ایسا کچھ نہیں کرنا چاہیے جو ہماری رسوائی اورنالائقی کا سبب بن جائے۔ہمیں اچھی طرح سوچ بچار کرکے آگے بڑھنا چاہیے اور غور و فکر کرنا چاہیے کہ ہمارے اس طرح کے اقدامات کے کیا نتائج برامد ہوسکتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ دانائی و حکمت اور درست معلومات و اطلاعات کے بغیر، جلد بازی میں کیے جانے والے اقدامات اچھے نتائج کبھی بھی پیدا نہیں کرسکتے۔بہت دفعہ اس کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔بالخصوص ہماری صحافی برادری ”سب سے پہلے“ کے چکر میں بہت کچھ غلط کرجاتی ہے،جس کی وجہ سے عام لوگ اذیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور بعد میں صحافیوں کو بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا۔ایسی بہت ساری چیزیں ہیں جو ہم اپنے ہی ہاتھوں سے اور اعمال و افعال اور اقوال سے پیدا کرجاتے ہیں اور مصیبت کا شکار ہوجاتے ہیں۔لاریب ہمیں ایسی درگتوں اور مصیبتوں کے عوامل کا سنجیدگی سے تجزیہ کرنا چاہیے اور بقیہ زندگی میں ان سے بچنے کی احتیاطی تدابیر کرنی چاہیے۔


ایک بات یاد رہنی چاہیے کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔دراصل انسان خطاوں اور غلطیوں سے سیکھتا ہے۔میں غلطیوں کو غلطیاں نہیں سمجھتا بلکہ سیکھنے کا عمل کہتا، ہاں اگر ہماری خطائیں اور غلطیاں ہمیں سیکھانے اور آئندہ بہتری کی طرف گامزن نہیں کرتی،بلکہ ہم ان پر ڈٹ جاتے ہیں تو یہ بھی نرگسیت کی ایک قسم ہی ہوگی کہ ہم اَنا کے خول سے نکلنا ہی نہیں چاہتے۔ بڑائی اس میں قطعا نہیں کہ انسان غلطی پر ڈٹ جائے بلکہ عظمت اسی میں ہے کہ انسان نرگسیت کے خول سے باہر نکلے، کھلے دل سے غلطی کا اعتراف کرے او ر آئندہ بہتری کا سفر جاری بھی رکھے۔خطائیں بھی دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک کا تعلق بندہ اور اس کے رب کے مابین ہوتا ہے۔ ان کو ہائی لائٹ کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔ اللہ سے معافی تلافی کی جانی چاہیے۔ اور دوسری قسم کی جو غلطیاں ہیں وہ بندہ اور بندہ اور بندہ اور معاشرہ کے مابین ہوتی ہیں۔ ان غلطیوں کا نہ صرف اعتراف ضروری ہے بلکہ ازالہ بھی ضروری ہے۔اپنی ساکھ کے مجروح ہونے کے ڈر سے اپنی یا اپنی جماعتی اور گروہی غلطیوں پر پردہ ڈالنا یقینا غلط بات ہے۔ اگر ان غلطیوں کا تعلق عامۃ الناس کے حقوق اورمفادات سے ہوں تو ان پر ڈٹ جانا، پردہ ڈالنا اور ازالہ نہ کرنا ظلم عظیم ہے۔میرے نزدیک یہ بھی نرگسیت کی ایک قسم ہے۔کہ انسان اپنی انا کی تسکین کے لیے یہ سب کرجاتا ہے۔جو لوگ نرگسیت کا شکار ہوتے ہیں وہ تعریف و توصیف کے بھوکے ہوتے ہیں۔مدحت کے بھوکے لوگ عموما ضدی اور ہٹ دھڑم ہوتے ہیں۔اور اپنی تعریف و توصیف تو چاہتے ہیں لیکن اسی باب میں دوسروں کا استحصال کرکے انہیں سکون ملتا ہے۔اور وہ دوسروں کی بے عزتی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔نرگسیت پسند لوگوں کا یہ محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔


ہم عصبیت کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔ہر حال میں خود کو برتر سمجھتے ہیں۔یقینا عنداللہ وہی لوگ مکرم ومحترم ہیں جو تقوی والے ہیں۔مگر عصبیت بعض دفعہ ہمیں بہت نقصان پہنچا دیتی ہے۔ اور ہمارا سماجی و اخلاقی اور دینی مرتبہ ختم کرنے کا سبب بنتی ہے۔عصبیت بھی ہمیں نرگسیت میں مبتلا کرجاتی ہے۔
بات کافی طویل ہوتی جارہی ہے، خلاصہ کلام کہ ہمیں اپنے تمام افعال و اقدام کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا کہ ہم کہیں واقعی نرگسیت کا شکار تو نہیں۔ اگر سوچ و بچار کے بعد یہ معلوم ہو کہ ہاں! ہم نرگسیت کا شکار ہیں تو فورا فکر مند چاہیے۔نرگسیت پر قابو پانے کے لیے اپنی ذات کا جائزہ لینا، اور اپنا ہی احتساب شروع کرنا سب سے اہم ہے۔اپنی ذات کے احتساب میں یہ بات سمجھ آگئی کہ سب انسان برابر ہیں۔ فضیلت صرف اور صرف علم و تقوی کی بنیاد پر کسی کو حاصل ہوسکتی ہے تو بڑی حد تک انسان نرگسیت سے چھٹکارا پاسکتا ہے۔


نرگسیت ایک پوشیدہ مرض ہے جو ہمیں اندرسے کمزور کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا ہے کہ ہم اپنی تمام معلومات جناب ”گوگل چاچا“ اور ”انکل فیس بک“ کے پاس Submitکروارہے ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ ایسے آپشنز ہمارے سامنے آتے ہیں کہ ان پر کلک کرنے سے ہماری جمع کردہ معلومات و افکار کے مطابق وہ آپشنز ہمیں ہماری پوری معلومات، افکار،پیشہ، اچھائی،برائی، خاندانی معلومات غرض سب کچھ بتارہے ہوتے ہیں۔معلومات کی فراہمی بہت دفعہ ہم انجانے میں کرتے ہیں اور بہت دفعہ خود کو نمایاں اور سرفہرست بنانے کے لیے کرتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا کہ کہ ہم اپنے آپ کو پروایکٹوو بنانا چاہتے ہیں۔ لاریب! بہت دفعہ ہم نیک نیتی اور کارخیر سمجھ کر بھی کچھ تصاویر، معلومات،اور خیالات وافکار شیئر کررہے ہوتے ہیں۔اگر کوئی نشاندہی کرے کہ یہ درست نہیں تو اس وقت ڈٹ جانے کی بجائے سوچ و بچار شروع کرنا چاہیے کہ آخر ان چیزوں سے کسی کو نقصان تو نہیں پہنچ رہا ہے؟ کسی کی شخصیت متاثر تو نہیں ہوتی ہے اور کہیں ہم اپنی انا کی تسکین کے لیے تو یہ نہیں کرتے؟اور کہیں یہ سب کچھ کرنے سے میری اپنی شخصیت مجروح تو نہیں ہورہی ہے۔ بخدا! اگر اس نتیجے پر پہنچ جائیں تو فورا اصلاح کا عمل شروع کرنا چاہیے۔نرگسیت سے بچنے کے لیے تنقید کرنے والے اور نشاندہی کرنے والی کی بات پر غور کرنا ضروری ہے۔ اگر وہ تنقید برائے اصلاح کرررہا ہے تو اس کا شکریہ بھی بنتا ہے اور اپنی اصلاح کا موقع بھی ملتا ہے۔


ذہنی بالیدگی اور تندرستی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔اس حق کا خیال بھی انسان کو خود ہی رکھنا پڑتا ہے۔اللہ کو عجز و انکساری پسند ہے۔ تکبر اور گھمنڈ سے نفرت ہے۔سورہ فرقان میں اللہ کا فرمان ہے کہ ”اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں۔ اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) خطاب کرتے ہیں تو وہ سلامتی کی بات کہتے ہیں“(فرقان 63)۔ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم رحمن کے بندوں میں شامل ہیں کہ نہیں۔تکبر سے اکٹرتے تو نہیں۔جباروں اور ظالموں کی طرح اپنی گفتار اور سوشل ایکٹویٹز سے اپنا زور تو نہیں جتاتے۔اپنی سیلفیوں سے ریا کاری کی نمائش تو نہیں کررہے ہیں۔کہیں تصنع کی فریب کاری کا شکار تو نہیں۔بہر صورت یہ وہ باتیں ہیں کہ ان سے بچنے سے ہی رحمان کا بندہ بننا ممکن ہوتا ہے۔اگر ہماری اچھی کاوشوں پر بھی کوئی جاہلانہ طور طریقے اپنالے اور بے ڈھب گفتگو کرے،تو ہمیں پھر بھی سلامتی کی بات کرنی چاہیے۔سلامتی ہی میں ہم سب کی کامیابی ہے۔اگر کوئی مسلسل بے ڈھبی سے کام لیتا ہے اور توہین و تضحیک پر اُتر آتا ہے، سلامتی کا بات کا اثر بھی نہیں لیتا تو خاموشی سے ایسے لوگوں سے کنارہ کشی بہتر ہے۔ اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
34188

نرسز کو سیلیوٹ نہیں، سہولیات چاہئیے ۔۔۔۔یکے از تحاریر: عبدالکریم کریمی

آج صبح میری ایک جاننے والی نرس نے ایک تحریر انباکس کیا۔ یقین کیجیئے اس تحریر کے حرف حرف نے مجھے رُلا دیا۔ میں نے ان سے وعدہ کیا کہ آپ کی آواز ایوانِ بالا تک ضرور پہنچاؤں گا۔ میں تھوڑا حساس انسان ہوں اور صاحبِ اولاد بھی۔ ایسی چیزیں برداشت سے باہر ہوتی ہیں۔ پہلے آپ وہ تحریر پڑھیئے اس کے بعد اس پر تبصرہ کرتے ہیں۔ اس تحریر میں نرس نے اپنا دل اور دردِ دل نکال کے ہمارے سامنے رکھا ہے۔ وہ خود کو نرس نہیں سپاہی کہتی ہیں اور لکھتی ہیں:

“میں ایک بی ایس سی رجسٹرڈ نرس ہوں اور آج کل روٹیشن پر میری ڈیوٹی آئی سی یو میں لگی ہوئی ہے۔ کورونا سے مجھے بھی اسی طرح ڈر لگتا ہے جیسے عام لڑکیوں کو لیکن ایک فرق ہے کہ میری ہم عمر ساری لڑکیاں گھروں میں بیٹھ گئی ہیں اور شاید اب وہ اپنے بچوں کو زیادہ وقت بھی دے رہی ہوں گی لیکن میرے ساتھ اور مجھ جیسی باقی لیڈی نرسز کے ساتھ اُلٹا ہو گیا ہے۔ میں ان دنوں تین دفعہ رات کی ڈیوٹی کر چکی ہوں اور سب کہتے ہیں کہ ان کو کورونا انفیکشن ہونے کا شک ہے۔ اگر یہی سچ ہے تو میں کورونا کا پکا انفیکشن لے چکی ہوں۔ ٹیسٹ کروانے کا کوئی بندوبست نہیں۔ بس ڈر کے مارے گھر نہیں جا رہی کہ گھر پہنچنے پر جب میرا دو سال کا اکلوتا بیٹا بھاگ کے مجھ سے لپٹے گا تو کیا کروں گی۔ تین دن سے ہاسپیٹل میں ہوں۔ میاں سے کپڑے منگوالئے ہیں اور وہ بھی دُور سے ہی لیے تاکہ میاں اور بیٹا محفوظ رہیں۔ کبھی خیال آتا ہے کہ کیوں بنی نرس۔ کتنے مزے میں ہیں وہ لڑکیاں جو بی اے کرکے شادی کرتی ہیں اور میاں کی خدمت کرکے خوش رہتی ہیں۔ خوب فیشن کرتی ہیں۔ گھومتی پھرتی ہیں اور اپنے بچوں کو بھی توجہ سے پالتی ہیں۔ دوسری طرف مجھ جیسی نرسز ہیں جن سے نہ گھر والے راضی ہوتے ہیں نہ لوگ وہ عزت دیتے ہیں جس کے خواب ہم سب نے نرسز بننے سے پہلے دیکھے تھے۔ خود کے لیے وقت کہاں سے لائیں کہ ہم تو اپنے بچوں کو بھی وقت نہیں دے سکتیں۔ اب کورونا نے قیامت ڈھائی ہے تو وہ لوگ جو ہمیں برا کہتے تھے ہمیں قوم کے سپاہی کہہ رہے ہیں۔ ہمیں کسی سے بھی کوئی گلہ نہیں مگر جس طرح ملک و قوم اپنے فوجی سپاہیوں کو بندوق دے کر سرحد پر حفاظت کے لیے کھڑا کرتے ہیں پلیز ہمیں بھی کچھ حفاظتی چیزوں کا بندوبست تو کردیں۔ ہم تو ایسے بے یار و مددگار سپاہی ہیں کہ جو دُشمن کے وار سے خود کو بھی نہیں بچا پا رہے نہ کوئی مورچہ ہے نہ کوئی بندوق۔ لگتا ہے غازی بنیں نہ بنیں شہید پکے ہوں گے۔ اللہ بھلا کرے کافروں کا جنہوں نے اسمارٹ فون اور واٹس ایپ کی سہولت مہیا کررکھی ہے ورنہ تو تین دن سے اپنے بچے کو بھی نہ دیکھ پاتیں۔ میرا بیٹا پوچھتا ہے مما گھر کب آؤ گی تو دوسری طرف منہ کر لیتی ہوں کہ آنسو نہ دیکھ لے۔ بس کورونا نہ ہوا تو پندرہ دن بعد ضرور گھر جاؤں گی۔ اس یقین کے ساتھ ڈیوٹی کر رہی ہوں کہ میرے ڈر کے بھاگ جانے سے اگر کسی مریض کو طبی امداد نہ ملی تو میری اس ڈگری کا کیا فائدہ۔ مزید یہاں ہاسپیٹل میں پڑے رہنے کا ایک ذاتی فائدہ بھی ضرور ہے کہ اگر مجھے کورونا انفیکشن ہو چکا ہے تو میرے دور رہنے سے میرا بیٹا اور میاں بھی تو محفوظ ہیں۔ بیٹے کو گلے لگانے کو بہت دل چاہتا ہے مگر آئی سی یو میں پڑے لوگوں کو بھی نہیں چھوڑ سکتی کیونکہ اب تو آپ سب لوگ ہمیں قوم کے سپاہی کہنے لگے ہیں۔ اب ہم سب نے لڑنا ہے یا مرنا ہے۔ نہ رہی تو فیصلہ آپ ہی کر لینا کہ میں ماں اچھی تھی یا نرس سپاہی۔”

اب ذرا دل پر ہاتھ کر کہہ دیجئیے کہ اس نرس کو سیلیوٹ چاہئیے یا سہولیات؟ ہم عجیب قوم، ہمارے عجیب لیڈرز اور ان کے عجیب منطق۔ اب ان کو کون سمجھائے کہ سیلیوٹ تو گزشتہ ستر سالوں سے ہم ہر ایرے غیرے کو مار رہے ہیں نہ صرف سیلیوٹ بلکہ سفید ٹوپیاں بھی پہنا کر نسلی غلام ہونے کا ثبوت دے چکے ہیں۔ اب خدارا! یہ ٹوپی ڈرامہ بند ہونا چاہئیے۔ کسی نے بڑے پتے کی بات کی ہے کہ دُنیا میں سب سے مشکل کام کسی غلام قوم کو یہ سمجھانا کہ تم غلام نہیں ہو۔ خیر آج ہمارا ٹوپک غلام قوم اور ان کی غلامانہ ترجیحات نہیں۔ اس پر پھر کبھی بات کرتے ہیں۔

وزیراعلیٰ صاحب اور فورس کمانڈر صاحب ان دنوں بہت ایکٹیو نظر آرہے ہیں ان سے چند گزارشات کرنی ہے اگر وہ ان کو عملی جامہ پہناتے ہیں تو تاریخ میں امر ہوسکتے ہیں۔

فی الحال ہمارے کرنے کے کام یہ ہیں جیسے۔۔۔

۔ پیرامیڈیکل اسٹاف جن میں ڈاکٹرز، نرسز، ٹیکنشنز وغیرہ کو حفاظتی کٹس کی ہنگامی بنیاد پر فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ کاش! ڈاکٹر اسامہ ریاض کو سہولیات کے ساتھ ڈیوٹی دی جاتی تو ایک نوجوان ڈاکٹر ضائع نہیں ہوتا یہ محکمہ صحت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ڈاکٹر اسامہ ریاض کے لواحقین محکمہ صحت کے بڑوں پر کیس دائر کرسکتے ہیں۔ یہ ان کا حق ہے۔

۔ فی الفور پیرا میڈیکل کے چھوٹے اسٹاف خصوصاً نرسز کی تنخواہیں ڈبل کر دی جائیں۔ یہ ان کا بنیادی حق ہے۔ ہاں ڈاکٹرز کی تنخواہ پہلے سے بہتر ہے اور ساتھ اپنے قصاب خانے میرا مطلب اپنے کلینکس اور دکانوں سے بھی وہ خاطر خواہ کماتے ہیں۔ ایک ہاسپٹل ایک ڈاکٹر کے بغیر تو چل سکتا ہے لیکن ایک نرس کے بغیر نہیں۔ یہ شعبہ فوری توجہ کا طالب ہے۔

۔ معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جنرل نرسنگ کی کئی آسامیاں گزشتہ پندرہ سالوں سے خالی ہیں یا جان بوجھ کر خالی رکھی گئی ہیں جن کو فی الفور مشتہر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قابل اور مستحق ڈگری ہولڈرز اس فیلڈ میں آکر اپنی خدمات دے سکے۔ 

۔ آپ حیران ہوں گے ملک کے بڑے بڑے ہاسپٹلز جیسے آغا خان ہاسپٹل، الشفا انٹرنیشل، پمز، شوکت خانم، ضیا الدین، ڈاؤ ہاسپٹل وغیرہ میں جائیں آپ کو گلگت بلتستان کے کوالیفائیڈ بیٹے بیٹیاں ڈاکٹرز اور نرسز کی صورت میں نظر آئیں گے لیکن گلگت بلتستان کے ہاسپٹلز ایک سالہ ڈپومہ ہولڈر عارضی نرسنگ اسسٹنٹس اور اسسٹنٹ ٹیکنیشنز کے رحم و کرم پر ہیں جوکہ اس قوم کے ساتھ زیادتی ہے۔ لہٰذا اس پر فوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ مذکورہ آسامیاں بروقت مشتہر ہوتی ہیں تو خطے کے کوالیفائیڈ بیٹے بیٹیاں ملک کے دیگر حصوں میں دربدر ہونے کی بجائے اپنے علاقے میں رہ کر قوم کی بہتر خدمت کرسکتے ہیں۔

۔ ہسپتالوں کے معیار کو فی الفور بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ مستقل بنیادوں پر لوگوں کو صحت کے حوالے سے بہتر سہولیات مل سکے۔

گورنر صاحب، وزیراعلی صاحب اور فورس کمانڈر صاحب! یہ وقت سیلیوٹ مارنے کا نہیں سہولیات کو یقینی بنانے کا ہے۔ ہسپتالوں کے ںظام کو ٹھیک کرنے کا ہے۔ کام چور ڈاکٹرز پر نظر رکھنے کا ہے۔

کورونا وائرس سے پہلے کا واقعہ ہے۔ ایک بندہ میرے آفس میں آکر پھوٹ پھوٹ کر رویا کہ ہسپتال کئی دنوں سے جا رہا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب (نام لکھنے کی ضرروت نہیں۔ مجموعی طور پر سب ڈاکٹرز کا یہی حال ہے۔ اللہ انہیں ہدایت دے۔) دیر سے ہسپتال آیا اور تھوڑی دیر کچھ مریضوں کو وہ بھی منظورِ نظر مریضوں کو اندر بھلا کر چیک کیا۔ پھر چوکیدار باہر آکر کہتا ہے ڈاکٹر صاحب تو پچھلے دروازے سے نکل گئے۔ آپ کو زیادہ پریشانی ہے تو آپ کلینک جائے۔ میرے خیال میں جس جس ڈاکٹر کا یہ رویہ ہے وہ اپنے بچوں کو حرام کا لقہ کھلا رہا ہوتا ہے۔ میں نے خود کئی بار ان ڈاکٹرز کا رویہ ہسپتال میں الگ اور ان کے کلینک میں الگ دیکھا ہے۔ حیرت ہوتی ہے ہسپتال میں سلام کا جواب نہ دینے والے کلینک میں چائے تک کا آفر کرتے ہیں۔ مادیت پرستی نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ میرے خیال میں سب سے پہلے ان کو اخلاقیات پر لیکچر دینے کی ضرورت ہے۔ میں جی بی گورنمنٹ کو اعزازی طور پر اپنی خدمت دینے کے لیے تیار ہوں۔ آپ اس وبا کے بعد جب حالات معمول پر آجائے ان تمام ڈاکٹرز اور کام چور آفیسران کی ایک کانفرنس بلائیں۔ مجھے اپنے کلچر کے لیے تین گھنٹے دیں میں اسلام میں اخلاقیات کے پہلوؤں پر لیکچر دوں گا۔ مجھے اللہ کی ذات سے امید ہے کہ اس لیکچر کے بعد ایک بڑی تعداد جن میں ضمیر نام کی کوئی چیز ہے تو سدھر سکتی ہے۔

پھر آپ صاحبان گورنر صاحب، وزیراعلیٰ صاحب اور فورس کمانڈر صاحب! بھلے ان ڈاکٹرز کی تنخواہیں ڈبل کر دیں ان کو ہر حوالے سے مطمئین کریں لیکن آٹھ گھنٹے کی پوری ڈیوٹی ان سے لیں، پچھلے دروازے کو مستقل بند کردیں اور کلینک اور دکان چلانے پر سخی سے پابندی لگائیں۔ خلاف ورزی کی صورت میں ڈاکٹر کو فارغ کر دیا جائے۔ محکمہ صحت کو کسی دبنگ آفیسر کے حوالے کر دیں جو بروقت انتظامات کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ ایک آدھ ایسے سخت فیصلے کریں جن سے نظام ٹھیک ہو جائے۔

ورنہ صرف سیلیوٹ مارنے سے حالات ٹھیک نہیں ہوسکتے یا کسی شہید ڈاکٹر کو قومی ہیرو کا ٹائٹل دینے سے ان کی جان واپس نہیں آسکتی۔ بس تھوڑا دبنگ اور سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
34166

بے سکونی کی وبا اور سکون کے ایام۔۔۔۔ یکے از تحاریر: عبدالکریم کریمی

مجھے آج آپ سے ایک ٹاپک پر بات نہیں کرنی بہت سارے بکھرے موضوعات ہیں جن پر باتیں ہوں گی۔ مجھے اُمید ہے آپ خود بھی پڑھیں گے اور اپنے پیاروں سے بھی یہ باتیں شیئر کریں گے۔ آپ حیران ہو رہے ہیں گے کہ بے سکونی کی کیفیت میں سکون کے ایام کیسے میسر ہوسکتے ہیں؟ آپ اگر عقلِ سلیم رکھتے ہیں تو ہر چیز میں خیر کا پہلو ضرور دیکھنے کی کوشش کریں گے۔

ہم آپ سب اکثر یہ گلہ کر رہے ہوتے تھے کہ زندگی بہت مصروف ہوچکی ہے ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ میں نے کئی بار اس حوالے سے لکھا ہے کہ گزشہ دو تین سالوں سے سفر در سفر اور پروفیشنل مصروفیات اتنی بڑھ چکی تھیں کہ گھر پر ہوتے ہوئے ہفتوں بعد بچوں سے ملاقات ہوتی کہ جب آپ صبح سویرے گھر سے نکلتے تو بچے سو رہے ہوتے اور رات کو واپس آتے تو پھر وہ نیند کی آغوش میں چلے جاتے۔ اور یہ صرف میرا نہیں ہر اس فرد کا معمولِ زندگی تھا جو کام کرتا ہے۔

اگر بے سکونی کی اس وبا نے ہمیں کچھ وقت سکون کے دئیے ہیں تو سکون کے ان ایام کو بھرپور جینے کی کوشش کیجیئے اور اس وبا کے پیچھے رب کی اس مصلحت پر سربسجود ہوجائے کہ اس کے حکم کے بغیر تو ایک پتا بھی نہیں ہلتا۔ سورہ انعام کی آیت انسٹھ میں ارشاد ہے “درخت سے گرنے والا کوئی پتا ایسا نہیں جس کا اسے علم نہ ہو۔” تو پھر وہ آنسو جو تیری آنکھ سے ٹپکا، وہ درد جس نے تیرے دل کو بے کل کیا۔ کیا اس ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والے رب کو اس کی خبر نہیں۔ بس اطمینان رکھئیے گا اس کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔

میں حیران ہوتا ہوں جب اکثر لوگ مجھے فون کرکے مختلف سوالات پوچھتے ہیں کہ سر! ہماری دُعائیں رنگ کیوں نہیں لاتیں؟ گھر میں وقت نہیں گزرتا، بوریت ہوتی ہے، ہمیں ان دنوں سے کیسے فائدہ لینا چاہئیے، آخر بندہ کب تک گھر میں یوں بیٹھا رہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ پھر کچھ من چلے میاں بیوی کے مقدس رشتے پر عجیب و غریب لطیفے بھیج کر دل کی بھڑاس نکال دیتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم اپنا پورا وقت اپنے گھر اور گھر والوں کو دیں۔ جیسے۔۔۔

۔ اپنے دن کا آغاز ذکر خداوندی سے کریں کہ رب کا وعدہ ہے “الا بذکرللہ تطمئین القلوب” کہ اللہ کا ذکر ہی دلوں کو سکون دیتا ہے۔ شرط صرف اتنا ہے کہ اس ذکر کی بنیاد عشق پر ہو۔ پھر دیکھئیے کہ آپ کی دُعائیں کیسے شرفِ قبولیت پاتی ہیں۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ رب کے عشق میں ایک مقام وہ بھی آتا ہے کہ دُعا تو دُور کی بات ہے انسان صرف سوچتا ہے اور رب نواز دیتا ہے۔

۔ قرآن پاک کی تلاوت اور کسی اچھے اسکالر کی لکھی ہوئی تفسیر پڑھنے کی عادت ڈالے۔

۔ اپنی پسند کی کوئی کتاب تسلسل سے اور روزانہ کی بنیاد پر پڑھئیے۔

۔ بچوں کے ہوم ورک میں ان کی رہنمائی کریں۔

۔ دسترخواں پر بچوں کے ساتھ دینی باتیں کیا کریں۔ غیبیت سے پرہیز کریں۔ آج کل تو یہ ایک فیشن بن گیا ہے کہ دو دوست ملتے ہیں تو تیسرے کی غیبت شروع کر دیتے ہیں۔ نبی کریم صلعم کا ارشاد ہے کہ غیبت کرنا اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے کے برابر ہے۔ خدارا! قرنطین کے ان دنوں اس مرض پر قابو پانے کی کوشش کیجئے جو کورونا سے زیادہ مہلک ہے۔

۔ کسی کی کامیابی پر حسد نہ کریں۔ کسی نے بڑے پتے کی بات کی ہے کہ حسد ایک ایسا زہر ہے کہ جس کو انسان پیتا خود ہے اور مرنے کی امید دشمن کی رکھتا ہے۔ اس حوالے سے ایک ڈرامہ “حسد” آن ائیر ہوا ہے۔ اپنے بچوں کے ساتھ مل کر اس ڈرامے کو دیکھنے اور اس سے سبق لینے کی کوشش کیجئے۔

۔ روزانہ کی بنیاد پر کوئی اچھی فلم دیکھنے کی کوشش کریں۔ سر دست حضرت یوسفؑ پر بنی ڈاکومنڑی جو پینتالیس قسطوں پر مبنی یوٹیوب پر دستیاب ہے روزانہ کی بنیاد پر دیکھنے کی کوشش کیجیئے۔

۔ کچھ وقت میوزک سننے کی کوشش کریں کہ اکابرین نے کہا ہے کہ میوزک روح کی غذا ہوتی ہے۔

۔ ہماری ایک اور اجتماعی بیماری خود کو دودھ سے دُھلے اور دوسرے کو غلطیوں کا پلندا سمجھنے کی ہے۔ بابا جی کہتے ہیں کہ اگر انسان اپنی انگلیوں کا استعمال اپنی ہی غلطیوں کو گننے کے لیے کرے تو دوسروں پہ انگلی اٹھانے کو وقت ہی نہ ملے۔

۔ اپنی فرینڈ سرکل کو محدود کیجئیے۔ میں ان دنوں روزانہ کی بنیاد پر سو ڈیڑھ سو لوگوں کو اپنے فیس بک فرینڈ لسٹ سے ہار پہناکر رخصت کرچکا ہوں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ مولا علیؑ کا قول ہے “ہزاروں دوست بنانا اہم نہیں بلکہ ایک دوست ایسا بناؤ جب ہزاروں آپ کے خلاف ہوں تو وہ ایک آپ کے ساتھ کھڑا ہو۔” جن سے آپ کے خیالات نہیں ملتے۔ ہمیشہ شکایت سے بہتر ہے کہ کسی کو نقصان دئیے بغیر اپنی راہیں الگ کیجئے۔ شاید کچھ لوگ اس قابل ہی نہیں ہوتے ہیں کہ ان کو دوست رکھا جائے۔ جن کے بارے میں کہوار زبان کا ایک خوبصورت شعر ہے؎

ہر ای اجناری تن اصلو ویشکی بیر

گوردوغو ہُن دیکو اِستور نو غیرور

میں اس خوبصورت اور برمحل شعر کا ترجمہ کرکے اس کی لذت کو بے مزہ نہیں کرنا چاہتا۔ کہوار سمجھنے والے احباب کمنٹ میں اس کی تشریح کر سکتے ہیں۔

۔ ممکن ہو، غیرت اجازت دے اور مردانہ وقار کو ٹھیس پہچنے کا احتمال نہ ہو تو کیچن کی یاترا بھی کیا کریں تاکہ بیگم صاحبہ کو حوصلہ تو ملے کہ کوئی تو ہے جو اس کی فکر کرتا ہے۔ ورنہ وہ خود کو اکیلی محسوس کرے گی۔ اللہ معاف کرے ایسی مستورات جو شوہر سے نہ ملنے والے سکون کے پاداش میں کسی اور کے ساتھ کسی کیفے ٹیریا میں چائے کے پیالے سے اڑتے بھاپ میں اپنا غم غلط کرنے کی سزاوار ہوتی ہیں۔ کہانی چائے اور کسی انجان کے ساتھ بیتی شام پر ہی ختم ہوتی تو کوئی بات نہ تھی۔ لیکن اس غضب ناک شام اور کافرانہ اداوں کے ساتھ عکس بندی جب اس کیپشن “سکون کے لمحات” کے ساتھ سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ہے تو قیامت برپا ہوتی ہے اور ستم رسیدہ شوہر کا وقت سے پہلے بوڑھا ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔ پھر یہی دیسی دانشور مستورات، دنیا داری نبھانے کے لیے کبھی اپنے آفیشل شوہر کے ساتھ تصویر سوشل میڈیا پر دیتی ہیں تو دیکھنے والے بھی غضب کے سوال پوچھتے کہ میڈیم یہ ساتھ کھڑا چچا کیا آپ کا والدِ محترم ہیں؟

اس سوال کا جواب تو بہت دلچسپ ہے لیکن فی الحال رہنے دے۔

خیر یہ بات جملہ معترضہ کے طور پر آئی۔ بس اتنی سی گزارش ہے کہ خدارا اپنے گھر کو دوزخ نہ بنائے۔ میاں بیوی کے اس مقدس رشتے کو مردو زن دونوں سنجیدگی سے لیں۔ نبی کریم صلعم نے جہاں مردوں کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ اپنی بیویوں کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ رکھو وہاں یہ حدیثِ پاک بھی ہماری آنکھوں کو تراوت بخشتی ہے کہ “اگر سجدہ خدا کے علاوہ کسی کو جائز ہوتا تو میں عورت سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔” یہ پاکیزہ تعلیمات ہماری ازدواجی زندگی کے لیے ذادِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔

بابا جی کہتے ہیں کہ رشتہ بنانا اتنا آسان ہے جیسے مٹی پر مٹی سے لکھنا اور رشتہ نبھانا اتنا مشکل ہے جیسے پانی پر پانی سے لکھنا۔ ہم شاید احساس کا مادہ کھو چکے ہیں۔ اشفاق احمد نے بڑے پتے کی بات کی ہے:

“فاتحہ لوگوں کے مرنے پہ نہیں، احساس کے مرنے پہ پڑھنی چاہئیے، کیونکہ لوگ مر جائیں تو صبر  آجاتا ہے مگر احساس مر جائے تو معاشرہ مر جاتا ہے۔”

انسان ہمیشہ اس چیز کے پیچھے بھاگتا ہے۔ جو اس کے پاس نہیں ہوتا۔ ہم شاید اپنے گھروں میں اپنے پیاروں کو سکون نہیں دیتے کہ وہ سکون کی تلاش میں کہیں اور جا رہے ہوتے ہیں۔ قرنطین کے ان دنوں جن کو میں سکون کے ایام کہتا ہوں، ہمیں اپنے پیاروں کے ساتھ بِتانے کی ضرورت ہے ہمیں اپنے رشتے کے احساس کو جگانا ہوگا۔ ہمیں ایک دوسرے کو اپنی محبت کا یقین دلانا ہوگا پھر نہ بیوی کو شوہر کو آف لائن پر رکھ کر کسی منچلے سے بات کرنے یا سکون کی تلاش میں کہیں اور کافی پینے کی ضرورت پڑے گی نہ شوہرِ نامدار اِدھر اُدھر ہانکنے کی کوشش کرے گا۔

ہاں بہت سارے احباب پوچھتے ہیں کامیابی کے لیے کیا کرنا چاہئیے۔ لوگ آگے بڑھنے نہیں دیتے رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہیں، تنقید کی جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ان سے گزارش ہے کہ ایسے لوگوں کے سامنے خاموش رہئیے۔ یاد رہے کہ خاموشی اختیار کرنا دب جانے کی علامت نہیں ترجیحات کا فرق ہوتا ہے کیونکہ ہر بات اور ہر بندہ جواب کا مستحق نہیں ہوتا۔ یہ جو بے جا اعتراضات کرتے ہیں یہ اصل میں حاسد ہوتے ہیں اور حاسدین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حسد اس وقت کرتے ہیں جب یہ دوسرے کو خود سے بہتر سمجھتے ہیں۔ ممکن ہے ان کی حسد کے پیچھے بھی کوئی محبت ہو۔ ایک اور کہوار شعر آپ کی بینائیوں کی نذر؎

مہ سار نفرت کورونیان بر ناحقہ

ہیہ الفتو علامت سریران

یاد رہے کہ آپ کا مذاق اڑایا جاسکتا ہے، آپ پر تنقید کی جاسکتی ہے، مسترد کیا جاسکتا ہے، آپ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاسکتی ہیں لیکن اگر آپ پُرعزم ہیں تو یہ سب کچھ آپ کو کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتا۔

مارٹن لوتھر نے کہا تھا “اگر آپ اُڑ نہیں سکتے ہیں تو دوڑو۔ اگر آپ دوڑ نہیں سکتے ہیں تو چلو۔ اگر آپ چل نہیں سکتے ہیں تو رینگو۔ پر آگے بڑھتے رہو۔ اپنی سوچ اور سمت کو درست رکھو، کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔”

ہینری فارڈ کہتے ہیں “اس دن تک محنت کرو جب تمہارا دسخط ایک آٹو گراف کہلایا جائے۔”

بس جاتے جاتے بارِ دیگر یہ التجا ہے کہ جہاں سوشل میڈیا کی رنگینی یا یوں کہیئے کہ سنگینی نے کتاب بینی ہم سے چھینا تھا وہاں یہ ایام ہمیں دوبارہ کتاب کی طرف لے جاسکتے ہیں بشرط کہ ہم کتاب بینی کی مہک کو روح کی گہرائیوں تک محسوس کرسکنے کے قابل ہوں۔

اپنا، اپنے پیاروں کا اور اپنے گرد و نواح میں رہنے والے سب کا بہت سارا خیال رکھئیے گا۔ وبا کے یہ دن بھی گزر جائیں گے کہ وقت کا کام ہی گزرنا ہے۔ حفیظ بھائی کے ان خوبصورت اشعار کے ساتھ اجازت چاہوں گا؎

وہ مزہ وہ چین دُنیا تیری رونق میں کہاں

جو سکوں میرے کتابوں سے بھرے کمرے میں ہے

اِس لیے شاید دلوں پر چھوڑتا ہوں نقش میں

عشق کا درویش میرے فقر کے ہجرے میں ہے

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
34090

اظہار تشکر۔۔۔۔۔۔۔محمد اسماعیل اینڈ فیملی

ہم اپنے اُن تمام دوستوں، بہی خواہوں اوررشتہ داروں کا تہہ دل سے مشکورہیں کہ جنھوں نے ہمارے پیارے والد محترم محمد عباس منیجرکی اچانک وفات کے موقع پرتعزیت اورہماری دلجوئی کیلئے ہمارے گھرریشن چترال تشریف لائے ،مساجد اورنجی مخفلوں میں اجتماعی دعا کا اہتمام کیا گیا اور بےشمار ٹیلی فون کالز، ٹیکسٹ مسجز، خطوط، سوشل میڈیاودیگرذرائع سے ہمارے غم میں برابرکے شریک رہے ، آپ سب کا فردافرداشکریہ اداکرنا ہمارے بس میں نہیں لہذا چترال کے موقربرقی اخبارچترال ٹائمزڈاٹ کام کی وساطت سے آپ سب کا فردافردا شکریہ اداکرتے ہیں اوردعاکرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو جزائے خیرعطافرمائے اورمرحوم کو اپنے جواررحمت میں جگہ عنایت فرمائے۔۔آمین۔

فقط سوگواران

محمد اسماعیل (ICMOD) نیپال

محمد اسحاق ایڈوکیٹ اینڈ فیملی ریشن چترال پاکستان

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
34069

پاک فضائیہ کا سی130 طیارہ دالبندین سے زائرین کو لے کر اسکردو پہنچ گیا

اسلام آباد(چترال ٹائمزرپورٹ) حکومت پاکستان کی ہدایت پر پاک فضائیہ کوویڈ 19 کے خلاف جنگ میں امدادی کارروائیوں میں سرگرم عمل ہے۔ اس سلسلے میں پاک فضائیہ کا ایک سی130 طیارہ دالبندین (بلوچستان) سے زائرین کو لے کر اسکردو پہنچا۔ زائرین کو پاکستان اور ایران کی سرحد پر واقع تافتان میں عارضی طور پر رکھا گیا تھا۔ انہوں نے اس دور دراز مقام پر بہترین ممکنہ سہولیات کی فراہمی پر حکومتی کوششوں کا اعتراف کیا۔ انہوں نے گلگت بلتستان کے زائرین کو اس خصوصی پرواز کے ذریعے اسکردو پہنچانے پر پاک فضائیہ کا بھی شکریہ ادا کیا۔ پاک فضائیہ کا ایئرٹرانسپورٹ بیڑا کوویڈ 19 وبائی مرض کے حوالے سے امدادی سرگرمیوں میں پیش پیش ہے اور انہی طیاروں کے ذریعے اب تک ہمسایہ ملک چین سے کئی ٹن امدادی اور طبی سامان پاکستان لایا جا چکا ہے

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستان
33952

ماں جی کے لیے دعا کی اپیل…… تحریر: حسنین قاسمی

کیا آپ ایسی ماں کیلۓ دعا نہیں کریں گے جس نے ایسی شخصیت کو جنم دیا؟
آئیے۔۔ان سے ملیۓ. امید ہے ان سے مل کر آپ کو خوشی ہوگی.
یہ امیر جان حقانی صاحب ہیں.
یہ ایک شخص نہیں، ایک شخصیت ہیں۔ یہ اگرچہ کسی تعارف کے محتاج نہیں لیکن میں آپ کو ان کا تعارف کراۓ دیتا ہوں.
لیکن بات یہ ہے کہ کن الفاظ میں ان کا تعارف کراؤں۔۔؟
آپ ایک استاد ہیں، لو مدرس رہ گیا، آپ ایک مدرس بھی ہیں ، کالج پروفیسر ہیں ، انتہائی عمدہ کالم نگار ہیں ، اور یہ لیں آپ کی سماجی خدمات کا تذکرہ رہ گیا۔۔۔آپ موٹیویشنل سپیکر ہیں، بہترین ادیب ہیں.
حافظ قرآن اور عالم دین ہیں.
لیں! آپ کے فن خطابت اور شستہ گفتگو کا موضوع تو آیا ہی نہیں۔۔
الغرض
یہ کہ مجھ جیسا کمزور و ناتواں طالبعلم آپ جیسی شخصیت کا تعارف کرانے سے قاصر ہے.
مختصرا یہ کہ آپ میرے استاد ہیں۔میرے محسن ہیں۔یہی شخصیت ہیں جنہوں نے اس جسم نامی خاکے میں زندگی گزارنے کا ڈھنگ اور سوفٹ ویئر انسٹال کیا اور اس کو رن run کیا۔۔اور یوں ہمارا سسٹم ان کے انسٹال کردہ تربیت پر چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔
مجھے کالج کا دور اور کالج کی کلاسیں تمام تقریبا بھول چکی ہیں سواۓ ان کے جن میں وقت جناب استاد محترم امیر جان حقانی صاحب کے ساتھ گزرا ہے۔میں اپنے تمام دوستوں سے کہتا ہوں کہ استاد جی کی کلاس پولیٹیکل سائینس کی ہوتی تھی لیکن استاد جی نے ان تمام پیریڈز میں ہمیں انسانیت سکھائی اور پولیٹیکل سائینسیز کے اسباق کسی اداس بیوہ کی طرح کلاس کے دروازے کے ساتھ لگ کر اداس اداس پڑے رہے۔استاد جی نے دو سالہ مختصر عرصے میں انسانیت کا وہ سوفٹ ویئر اپنے طالب علموں کے اذہان میں انسٹال کر دیا کہ پولیٹیکل سوشل میڈیکل اور ریسرچ سائینسیز جس کے سامنے ہیچ ہیں.
اولاً استاد کی باتیں سماعتوں سے ٹکراکر واپس ہوتے ہوۓ کلاس کے کسی کونے میں چھپ جاتی تھیں اور آخر کو وہاں سے غائب ہوتی تھیں.
میں سمجھتا تھا کہ استاد جی جو کچھ ہمیں بتانے کی کوشش کر رہے ہیں یا تو یہ اس قدر اونچا سبق ہے کہ یہ ہم جیسے کم علم اور کم عقلوں کے دماغ میں بس کر اپنی ذلت برداشت کرنے سے کسی کونے میں ڈوب مرنے پر ترجیح دے رہا یا اس قدر غیر ضروری اور نیچ سبق ہے جس کی طرف ہمارا ذہن متوجہ نہیں ہو رہا۔۔
لیکن بخدا۔۔۔استاد جی کا وہ سبق تب کارآمد ہوا جب ہم کلاس کے حدود سے نکل کر معاشرے کے حدود میں داخل ہوۓ اور پھر کلاس میں استاد کی وہ گونج جو پہلے ہمارے کانوں سے ٹکراکر کہیں گم ہو جاتی تھیں اب انہیں دیواروں سے ٹکراکر واپس ہمارے کانوں میں آلگنے لگی.
امیر جان حقانی کیا ہیں۔۔ان کا سبق کیا تھا۔۔ان کا مشن کیا تھا؟ وہ طلبہ کو کیا سمجھانا چاہتے تھے، ان کا حاصل کیا تھا؟
اب کہیں جاکر سمجھ آجانے لگا۔
استاد جی کے نزدیک طلباء کو کوئی بھی سبق پڑھانے کی کوئی اہمیت اور حیثیت نہ تھی بلکہ استاد جی کا مشن تھا کہ طالب علم سیکھ جائیں۔۔سیکھ جائیں چاہے وہ کچھ بھی سیکھ لیں۔۔پر اچھا سیکھ لیں
آپ کی اپنے شاگردوں سے محبت کا حال دیکھ لیجۓ کہ ایک مرتبہ کسی معاملے میں آپ سے مشورہ کرنے کیلۓ کال کیا۔آپ محترم نے کال اٹینڈ کی رسمی سلام دعا کے بعد جب میں نے مشورہ دینے کیلۓ معاملے کا ذکر کرنا چاہا تو کہا کہ آپ مجھ سے کسی فارغ وقت ملاقات کر لیں تفصیلی گفتگو وہاں ہوگی.
مختصرا ایک دو ون بعد ،بعد از نماز عصر جوٹیال میں ریڈیو پاکستان گلگت کے بالکل سامنے ایک ہوٹل کے اوپری منزل پر میری اور استاد محترم کی ملاقات ہوئی۔استاد جی نے ویجیٹیبل سوپ منگوائی جس کی بھینی بھینی خوشبو کمرے کے فضا کو مزید خوشگوار بنارہی تھی.
استاد جی کی میٹھی باتیں سوپ کے ہر ہر چمچ کو مزید ذائقوں سے بھر پور بنارہک تھیں۔عصر کے بعد کی یہ نشست طول پکڑ کر عشاء تک چلی گئی اوریوں دیکھتے دیکھتے استاد جی نے اپنی قیمتی اور مصروف زندگی کے تین 3 گھنٹے ایک نکمے طالبعلم کیلۓ وقف کر دیۓ
یہ نشست یہیں ختم نہیں ہوئی۔۔بلکہ ہم جیسوں کو جب بھی کسی قسم کی کوئی ضرورت پڑی استاد جی ایک دوست اور بھائی کی طرح میدان میں کود پڑے۔بارہا رات کو بھی اپنے آفس میں بلوایا اور کام مکمل کر لیا۔۔۔ساتھ یوں برتاؤ کیا جیسے ہمارا بچپن کا یارانہ ہے۔
سچ کہوں تو استاد جی ہمارے استاد کم دوست زیادہ رہے۔کلاس میں استاد کے ساتھ ،استاد شاگرد کا تعلق کم اور دوستی کا تعلق زیادہ حاوی رہتا تھا۔۔۔مجھے نہیں یاد استاد جی نے اپنے کسی شاگرد کو نام سے پکارا ہو۔۔۔
کوئی بھی استاد جی کو سامنے سے ملنے آتا تو کہتے “آؤ جی! یہ لو ہمارا دوست آگیا۔۔۔آؤ جی آؤ جی۔”
استاد جی کی اس محبت کا ثمرہ تھا کہ دیگر کلاسس میں 109 کی تعداد میں سے بمشکل 50 یا 55 حاضر ہوتے تھے لیکن مجھے نہیں یاد کہ کبھی استاد جی کی کلاس میں طلبہ کی تعداد 95 سے کم رہی ہو۔۔۔وہ طلباء جو کالج سیر کی غرض سے آتے تھے وہ بھی استاد جی  کی کلاس ضرور لیکر گھر جاتے تھے۔کبھی یہ نہیں سنا کہ استاد جی کے کلاس کا رزلٹ اچھا نہیں رہا۔۔۔البتہ یہ ضرور سنا کہ استاد جی کے مضمون میں کوئی بھی فیل نہیں ہوا ہے۔
کلاس میں طلبہ کے ساتھ ہنسی مذاق کلاس کی نوعیت کے مطابق کیا کرتے تھے۔۔کلاس میں کل تعداد میں سے اگر ایک چوتھائی کا موڈ بھی پڑھائی کی طرف اگر نہیں ہوتا، تو استاد جی سٹڈیز کا رخ موڑ کر کہیں اور لیکر جاتے تھے اور پھر وہاں سے طلبہ کو سبق کے دائرے میں داخل کر دیتے، تب تک طلباء کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ہم سبق شروع کر چکے ہیں.
طلباء اس قدر آپ کی گفتگو میں محو ہوجاتے تھے۔
کالج میں کوئی کانفرنس ہو یا کوئی پروگرام ہو۔۔امیر جان حقانی پہلی صف میں ہوتے تھے اور باقی تمام طلباء آپ کے ساتھ پچھلی صفوں میں پاۓ جاتے تھے۔
امیر جان حقانی نے مجھ کو جو سبق سکھایا۔۔وہ میری زندگی کا سبق ہے۔۔انہوں نے مجھے جس مشن پر ڈال دیا۔۔۔میں آج بھی اسی مشن پر گامزن ہوں۔
میں انکی زندگی کو کلی طور پربیان کرنے سے قاصر ہوں کہ مجھ جیسے کمزور اور ناتواں شخص کے بس کی بات نہیں۔گو کہ ہم ان کی کلاس سے نکل آۓ اور ان کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کرنے سے رہے۔مگر آج بھی ہم آپ کے شاگردوں کی صف میں شامل ہیں۔۔دل کے کالج میں آج بھی آپ کی کلاس جاری ہے اور یہ رہے گی۔
آپ کا سبق ہمیشہ جاری رہے گا۔۔۔آپ سے محبت کا حال یہ ہے کہ آج بھی آپ کو کہیں کسی مارکیٹ، شاپنگ مال کسی روڈ پر گاڑی میں یا پیدل چلتے دیکھتا ہوں تو اپنی جگہ کھڑا ہوکر بالکل فوجی سیلوٹ کرتا ہوں۔۔۔کیونکہ آپ کا یہ حق ہے۔میں آپ کو سیلوٹ کرتا رہونگا سر۔۔۔میں آپ کا غلام ہوں۔۔غلام آقا کو سلام کرتا رہے گا۔۔۔آپ ہماری اولین دعاؤں میں شامل ہیں۔۔اللہ تعالی آپ کو دنیا و آخرت کی تمام کامیابیاں کامرانیاں نصیب فرماۓ۔۔۔اور ایمان و عمل کے ساتھ عمر دراز نصیب فرماۓ۔۔آپ کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر قائم رکھے
آمین
نوٹ: استاد محترم کی والدہ ماجدہ بیمار ہیں۔آپ سب سے ماں جی کی صحتیابی کیلۓ دعاؤں کی درخواست ہے۔کیا آپ ایسی ماں کیلۓ دعا نہیں کریں گے جس نے ایسی شخصیت کو جنم دیا؟استاد جی کی والدہ ماجدہ بیمار ہے. ان کے تلامذہ سے درخواست ہے کہ اس پوسٹ کو شیئر کر کے استاد جی کے شاگرد ہونے پر فخر کریں۔۔اور ماں جی کے لیے کیجے اللہ انہیں صحت کاملہ دے.

ReplyReply allForward
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان
33709

سابق وزیر گلگت بلتستان عبد الجہاں خان کاشکریہ……..شمس یار خان بونی

 بونی ( چترال ٹائمزرپورٹ )  ضلع اپر چترال کی معروف شخصیت شمس یار خان نے  گلگت سے آنے والے بروغیل کے باسیوں کی شندور سے واپسی اور  ضلع غذر میں رہائش کی سہولت فراہم کرنے پر گلگت بلتسان کے معروف ماہر تعلیم  اور سابق وزیر خوراک  گلگت بلتسان جناب عبد الجہاں خان  کا شکریہ ادا کرتے ہوہے کہا  ہے کہ دوست اور احباب مشکل وقت آنے پر پہچانے جاتے ہیں ۔  بلاشبہ عبد الجہان صاحب ہمارے مشکل وقت کے دوست ہیں ۔ صاحب موصوف  نے گلگت سے آنے والے بروغل کے مسافروں کو بہترین رہائش اور خوراک مہیا کر کے نہ صرف چترال کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے بلکہ ہمارے اوپر بہت بڑا احسان بھی کیا ہے ۔ ہم  صاحب موصوف کی محبتوں کے مقروض ہیں ۔  اللہ ہمیں بھی کسی موقعے پر گلگت بلتسان کے عوام اور خصوصی طور پر  عبد الجہاں صاحب اور پھنڈر کے بہن بھائیوں کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے ۔ میں کلی چترال  اور خصوصی طور پر بروغیل کے باسیوں کی جانب سے عبد الجہاں کی انسان دوستی اور اعلیٰ ظرفی پر اُنہیں سلام پیس کرتا ہوں  اور بدست دعا ہوں کہ اللہ عز و جل آپ کو اجر عظیم سے نوازے ۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستان
33682

چترال کے عوام تین ہفتوں تک چترال آنے کی کوشش نہ کریں۔۔ڈی سی، ڈی پی او

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) ڈپٹی کمشنر لویر چترال نوید احمد اور ڈسٹرکٹ پولیس افیسر وسیم ریاض خان نے چترال سے باہر رہائش پذیر چترالی عوام پر زور دیا ہے کہ وہ جہاں پر قیام پذیر ہیں، آئندہ تین ہفتوں تک چترال آنے کی کوشش نہ کرے تاکہ چترال کرونا وائرس کے مہلک خطرے سے محفوظ رہے اور یہی ان کا اپنے علاقے پر احسان اور ذمہ دار شہری ہونے کا عملی ثبوت ہوگا۔ اتوار کے روز مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ چترال میں ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن، چترال پولیس اور چترال سکاوٹس کرونا وائر س سے نمٹنے کے لئے ایک پیج پر ہیں اور بہترین عوامی مفاد میں ہر وہ قدم اٹھارہے ہیں جواس دورافتادہ علاقے کو اس مہلک وائرس سے بچائے رکھنے کے لئے ضروری ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت چترال میں کرونا وائرس پھیلانے کے حوالے سے باہر سے آنے والے وہ لوگ رسک ہیں جوکہ اس وقت اس علاقے کو وائر س سے پاک سمجھ کر وائرس سے متاثر علاقوں سے یہاں واپس آنا چاہتے ہیں اور ملک کے دیگر اضلاع میں تبلیغ جماعت اور خصوصاً رائیونڈ مرکز سے آنے والے تبلیغی حضرات بھی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ چترالی عوام سے بار بار اپیل کے باوجود روزانہ 100کے لگ بھگ افراد لواری ٹنل کے راستے چترال آرہے ہیں جن کو واپس بھیجنے کی بجائے ان کی عشریت کے مقام پر اسکریننگ کرکے مشتبہ مریضوں کو قرنطینہ دروش اور چترال شہر میں قائم قرنطینہ میں منتقل کرتے ہیں تاکہ پروٹوکول کے مطابق چودہ دن تک ان کی نگرانی کی جاسکے۔ انہوں نے کہ ایسے مسافروں کو انتظامیہ کے ساتھ مکمل تعاون کرتے ہوئے اپنے بارے میں کوئی معلومات خفیہ نہ رکھے۔ انہوں نے عوام پر زور دیا کہ دفعہ 144پر دل وجان سے عمل کرے اور اپنے آپ کو تین ہفتوں تک گھروں میں محدود رکھے تاکہ ہم چترال کو کرونا وائر س سے پاک ضلع قرار دینے کے پوزیشن میں ہوں۔ ضلعی انتظامیہ اور ضلعی پولیس کے سربراہان نے کہاکہ چترال میں غذائی قلت کا کوئی خطرہ نہیں اور نہ ہی روزمرہ کے اشیائے ضرورت کی کمی کا سامنا ہے اور ہمارے پاس کم از کم چالیس دنوں کے لئے کافی خوراک کا ذخیرہ موجود ہے۔ انہوں نے دفعہ 144خلاف ورزی کرنے اور ذخیرہ اندوزی میں ملوث افراد کے خلاف سخت کاروائی کا بھی عندیہ دیتے ہوئے کہاکہ ضرورت پڑنے پر وہ کوئی بھی سخت قدم اٹھانے سے گریز نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ سول سوسائٹی کو آگہی دینے کے لئے چترال سکاوٹس کے ساتھ مل کر چترال کے کونے کونے میں پہنچ رہے ہیں اور غیر ضروری اجتماعات کی حوصلہ شکنی کررہے ہیں۔ اجلاس میں شریک میجر عثمان نے چترال سکاوٹس کے کمانڈنٹ کرنل علی ظفر کا پیغام پہنچاتے ہوئے کہاکہ ملک کے دوسرے حصوں کی طرح چترال میں بھی پاک فوج ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن اور پولیس کے مل کر دن رات اس مہلک وائر س کے خلاف جنگ میں مصروف ہے تاکہ چترال کو اس وبا سے دور رکھا جاسکے۔ انہوں نے چترال کے عوام سے اپیل کی کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کریں اور اپنے آپ کو گھروں تک محدود رکھیں۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ افیسر ڈاکٹر حیدر الملک نے کہاکہ چترال میں کرونا کے مصدقہ کیسوں کی تعداد ابھی تک زیر و ہے اور محکمہ صحت اپنے محدود وسائل کے اندر رہتے ہوئے میدان عمل میں ضلعی انتظامیہ کا ساتھ دے رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اب پہلے کی طرح مشتبہ مریضوں کو ٹیسٹ کے لئے پشاور بھیجنے کی بجائے ان سے مواد کے نمونے لے کر پشاور یا اسلام آباد میں لیبارٹری بھیجنے کے لئے مطلوبہ سازوسامان انہیں دستیاب ہوگئی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ محکمہ صحت کے 500کے لگ بھگ لیڈی ہیلتھ ورکر بھی گھر گھر جاکر آگہی دے رہی ہیں جبکہ اس سلسلے میں ریپڈ رسپانس ٹیمیں بھی بنائی جارہی ہیں۔ اس موقع پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر حیات شاہ، اسسٹنٹ کمشنر چترال عبدالوالی خان، اسسٹنٹ کمشنر (ریونیو) شہزاد احمد، ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر دروش عبدالحق اور سیٹلمنٹ افیسر فداء الکریم بھی موجود تھے۔ دریں اثناء ڈی سی چترال نے بتایاکہ اس وقت 94افراد چترال اور دروش میں قائم قرنطینہ میں رہائش پذیر ہیں اور اس سلسلے میں چترال میں معروف ہوٹل مالکان ضلعی انتظامیہ کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستان
33664

احتیاط اور تدابیر……….ڈاکٹرحمزہ گلگتی (پی ایچ ڈی)

Posted on

وقت کی ڈوری کا سرا ہاتھوں سے سرکتا محسوس ہوتا ہے۔۔۔لمحے سرپٹ گھوڑے کی طرح دوڑ رہے ہیں۔۔۔لمحہ لمحہ دنیا سے سینکڑوں اموات کی خبریں نفسیاتی طور پر مفلوج کردیاہے۔۔۔دنیا پر ٹوٹی ناگہانی آفت نے سب کو ہلا کے رکھاہے۔۔۔بڑے بڑے لوگ پریشان سرگرداں ہیں۔۔۔کسی کو سمجھ نہیں آتی کہ ان حالات سے کیسے نمٹا جائے۔۔۔موذی اور متعدی مرض کی بڑھوتری اور مرنے والوں کی شرح برق رفتاری سے بڑھ رہا ہے۔۔۔میرے سامنے اس وقت اس مرض کے ہر پہلو سے لمحہ لمحہ اپ ڈیٹ کرنے والی ادارے کی ڈیٹیلز پڑی ہیں۔۔اب تک کی اطلاعات کیمطابق دنیا میں اس وقت کل چار لاکھ اٹھتیس ہزار سات سو سترہ رجسٹرڈ مریض ہیں، ہر گزرتے لمحے کیساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔۔۔انیس ہزار چھ سو اٹھاون اموات ہوچکیں ہیں۔۔۔ایک لاکھ گیارہ ہزار نو سوتئیس لوگ اس موذی مرض کو شکست دے کر گھروں کو لوٹ بھی چکے ہیں۔۔۔۔دنیا میں مرنے کی سب سے بلند شرح اٹلی اور اسپین میں ہے۔۔۔ہر چوبیس گھنٹے میں اٹلی کے اندر چھ سے اٹھ سو افراد اس مرض کے ہاتھوں منوں مٹی تلے چلے جارہے ہیں۔۔۔اب تو اطلاعات ہیں کہ دفنانے کیلئے جگہیں اور لوگ بھی نہیں بچے۔۔۔اسپین میں اسی طرح چار سے پانچ سو اموات کی روزانہ شرح ہے۔۔۔ ایران میں روزانہ ڈیڑھ سو افراد لقمہ اجل بن رہے ہیں۔۔۔اسی طرح پوری دنیا لپیٹ میں ہے۔۔۔چائنہ کے بعد ایران پھر یورپ اور اب اس غیر مرئی وائرس نے پوری دنیا میں اپنی پنجیں گھاڑ دی ہے۔۔۔یورپ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک جدید ٹیکنالوجی کے باوجود اس کے اثرات کو روکنے یا کم کرنے میں ناکام ہیں۔۔۔مجھے جھرجھری سی ہونے لگتی ہے جب میں اپنے ملک پاکستان اور اسی طرح کے دوسرے غریب ممالک کے بارے سوچتا ہوں۔۔۔اگر ہمارے ملک میں ہماری بے احتیاطی سے یہ اسی طرح پھیل گیا جیسے یورپ میں،تب تو اللہ معاف کرے کیا ہوگا۔۔۔نہیں سکت تصور کرنے کی بھی،بس وہی ایک ذات ہے جو سب کچھ بدل سکتا ہے۔۔۔ان وجوہات کی وجہ سے حکومتی ادارے، سماجی افرادعلمائے کرام اور صحافی سب لگے ہیں کہ کیسے اس سے بچا جاسکتا ہے۔۔۔مگر المیہ یہی نہیں کہ مرض پھیل رہا ہے۔۔۔المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔۔۔کہنے سننے کے باوجود لوگ احتیاط کرنے سے پرے بھاگ رہے ہیں۔۔۔ ایسے لگ رہا ہے جیسے انہیں کوئی پرواہ ہی نہیں۔۔۔سب باتوں کی ایک ہی بات ہے کہ احتیاط کیا جائے۔۔۔
.
لاک ڈاؤن سے پہلے احباب کو شکایت تھی کہ اگر ایسا ہوا تو لوگوں کیلئے مشکلات ہونگیں وغیرہ۔۔۔ میرا خیال تھا کہ مرنے سے بہتر ہے کہ کچھ دن بھوکا زندہ رہا جائے۔۔۔اور یہ یقین ہے کہ کوئی بھوکا نہیں مرے گا۔۔۔ان حالات میں اگرچہ ہر ایک کی ذمہ داریاں بڑھ گئیں ہیں۔۔۔مگر ایمرجنسی لگانے کے بعد سب کو کچھ چیزیں یاد رکھنی چاہئے۔۔۔حکومت نے غریبوں کیلئے پیکج کا اعلان کیا ہے۔۔۔بہے ہی مستحسن بات ہے۔۔۔جب ہم زندہ رہیں گے تو اپنے ملک کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کر سکیں گے۔۔۔اس لئے یاد رکھے کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ ہمارے محلے میں کون غریب ہیں۔۔بڑے شہروں میں بھی کافی حد تک اس چیز کے بارے پتہ ہوتا ہے کہ کون لوگ زیادہ غریب ہیں اور کون روزانہ کی دھاڑی سے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا تھا۔۔۔اس لیے ایسے لوگوں کی نشاندہی کرنے کیلئے اداروں کی مدد بھی کرے اور جو لوگ بیس پچیس دن نکال سکتے ہیں ان کے پاس اتنا خرچہ ہے خدارا وہ غریبوں کے ان راشنوں پر آنکھیں نہ ٹکا دے۔۔۔بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے بڑے بڑوں کے ہاتھ صاف کرنے کی خبروں سے ابھی دھول نہیں چھٹی ہے۔۔۔مجھے اندیشہ ہے کہ اس پر بھی بعض لوگ ٹوٹ پڑیں گے۔۔۔احتیاطی تدابیر کے اختیارکے بعد اب یہی ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ کوئی بھوکا نہ سوئے۔۔۔کسی کے بچے دو وقت کی روٹی کو نہ ترسے۔۔۔حکومتی امداد اُن تک نہ پہنچے تو اپنے سرکل میں فون کرکے انہیں اِن کا بتا دے پھر بھی نہ ہو تو خود سے ان کیلئے چند دن دو وقت کی روکھی سوکھی کا بھی اہتمام کرے۔۔۔سب کو یاد رکھنا چاہئے کہ وائرس تو پوری دنیا میں پھیل چکا ہے۔۔۔یہ آزمائیش ہے اللہ کی طرف سے۔۔۔اس کے ساتھ جو ہونا یا اس نے ہمارے ساتھ جو کرنا وہ ہوکے رہے گا۔۔۔مگر۔۔۔اگر ہمارے آس پڑوس میں کوئی بچہ بوڑھا بھوکا مرا تو اس کی تلافی ممکن نہیں۔۔۔پھر اللہ کے عذاب کا منتظر رہنا۔۔۔ان حالات میں غریبوں کی مدد مصیبتوں کوٹال سکتی ہے لہذا ایسوں کا خیال رکھنا اور ان کی سفید پوشی کا بھرم بھی ٹوٹنے نہ دینا۔۔۔۔احتیاط وائرس سے کرے اور تدابیر غرباء کیلئے۔۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
33468

کراچی میں پھنسے طالب علموں کو گلگت پہنچانے کی ہدایت،وزیراعلیٰ‌گلگت بلتستان

Posted on

گلگت،وزیر اعلی حافظ حفیظ الرحمن نے کراچی میں پھنسے طالب علموں کو گلگت بلتستان پہنچانے کیلئے سیکریٹری ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو ہدایات جاری کردیں
.
گلگت(چترال ٹائمزرپورٹ) وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کراچی میں پھنسے گلگت بلتستان کے طالب علموں کو گلگت بلتستان پہنچانے کیلئے سیکریٹری ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو ہدایات جاری کردیئے۔ واضح رہے کہ کراچی میں زیر تعلیم طالب علموں نے ہاسٹلز اور ٹرانسپورٹ کے بند ہونے کی وجہ سے گلگت بلتستان آنے میں درپیش مشکلات کی نشاندہی کرتے ہوئے وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن سے اقدامات کرنے کی اپیل کی تھی۔
………….

گلگت بلتستان کیلئے اشیا خوردنوش کی ترسیل کو یقینی بنایا جائے گا،صوبے میں دو ماہ کیلئے گندم کا سٹاک موجود ہے اور اضافی گندم کے حصول کیلئے پاسکو سے رابطہ کیا جارہاہے،وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن
.
گلگت(چترال ٹائمزرپورٹ) وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کیلئے اشیا خوردنوش کی ترسیل کو یقینی بنایا جائے گا۔ وفاقی حکومت اور دیگر صوبوں سے اس حوالے سے رابطہ کیا گیا ہے۔ صوبے میں دو ماہ کیلئے گندم کا سٹاک موجود ہے اور اضافی گندم کے حصول کیلئے پاسکو سے رابطہ کیا جارہاہے۔ محکمہ صحت کی سفارشات کی روشنی میں ریڈ زون ایریاز کو مکمل لاک ڈاؤن کیا جائے گا اور حکومت ان علاقے کے مستحق لوگوں کو راشن پہنچائے گی۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے صوبائی سیکریٹری صحت کو ہدایت کی ہے کہ صوبے میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے کورونا وائرس کے مریضوں کیلئے مختص ہسپتالوں میں پری فیب کمروں کی تیاری اور ضروری طبی آلات اور مشینری کی تنصیب کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے سیکریٹری صحت اور کمشنر گلگت کو ہدایت کی ہے کہ قرنطینہ سنٹرز اور آئیسولیشن سنٹرز میں موجود کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کو حفظان صحت کے مطابق کھانے کی فراہمی کو یقینی بنائی جائے اور سہولیت فراہم کئے جائیں۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے قرنطینہ سنٹرز اور آئیسولیشن سنٹرز کی سیکورٹی کو بھی یقینی بنانے کی ہدایت کی۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے ویسٹ مینجمنٹ سٹاف کو مکمل کٹس فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری طور پر محکمہ داخلہ میں کنٹرول روم قائم کرنے کی ہدایت کی ہے جس میں محکمہ صحت، پولیس اور دیگر متعلقہ محکموں کے آفیسران کی موجودگی یقینی بنانے کے احکامات دیئے ہیں۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے محکمہ صحت اور انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ صوبے میں جراثیم کش سپرے کیلئے فوری طور پر اقدامات کئے جائیں۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے سیکریٹری برقیات کو ہدایت کی ہے کہ قرنطینہ سنٹرز اور آئیسولیشن سنٹرز میں بجلی کی فراہمی بلاتعطل یقینی بنائی جائے اور گلگت کے تمام واٹر پمپس کو 18 گھنٹے بجلی کی فراہمی کی جائے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے ہیلتھ ورکرز، ویسٹ مینجمنٹ اور کورونا وائرس سے متعلق آپریشن میں فرنٹ لائن میں کام کرنے والوں کیلئے ایک ماہ کی اضافی تنخواہ کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے آئی جی پی گلگت بلتستان کو ہدایت کی ہے کہ قرنطینہ سنٹرز اور آئیسولیشن سنٹرز میں ڈیوٹی پر معمور پولیس جوانوں کو ماسک کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور جوانوں کو بروقت کھانا فراہم کیاجائے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے صوبائی سیکریٹری صحت کو ہدایت کی ہے کہ ریٹائرڈ ڈاکٹرز، پیرمیڈیکل سٹاف اور تربیت یافتہ پیرمیڈیکل سٹاف کی خدمات حاصل کرنے کیلئے فوری طور پر خصوصی سیل قائم کیا جائے۔ صحت کے شعبے میں مشتہر آسامیوں پر جلد بھرتیاں عمل میں لائی جائے تاکہ موجودہ کورونا وائرس کی وجہ سے درپیش صورتحال سے نمٹا جاسکے۔ ان خیالات کا اظہار وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے صوبائی وزیر قانون اور مشیر اطلاعات کی جانب سے کورونا وائر سے متعلقہ درپیش صورتحال کے حوالے سے دیئے جانے والے بریفنگ کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ حکومت گلگت بلتستان نے گلگت، سکردو اور دیامر کے ہسپتالوں میں تعمیر کئے جانے والے ٹراما سنٹرز کیلئے منصوبے میں وینٹی لیٹرزکی خریداری کیلئے رقم مختص کی ہے لیکن موجودہ ہنگامی صورتحال کی وجہ سے حکومت گلگت بلتستان کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کررہی ہے۔

……………………
.
گلگت،وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے گورنر سنکیانگ کو خصوصی مراسلہ لکھ دیا،کورونا وائرس جیسے مہلک بیماری سے کامیابی سے نمٹنے پر حکومت چین کے اقدامات کو شاندار الفاظ میں سراہا
.
گلگت(آئی آئی پی) وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے گورنر سنکیانگ کو خصوصی مراسلہ لکھا تھاجس میں کورونا وائرس جیسے مہلک بیماری سے کامیابی سے نمٹنے پر حکومت چین کے اقدامات کو شاندار الفاظ میں سراہتے ہوئے پاکستان اور پوری دنیا کیلئے ایک مثال قرار دیا تھا۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے اپنے مراسلے میں کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے متعین پروٹوکول اورگائیڈ لائن کو پوری دنیا کیلئے اس مہلک بیماری سے نمٹنے میں معاون قرار دیتے ہوئے حکومت چین کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات کو قابل تقلید قرار دیا تھا اور اس خواہش کا بھی اظہار کیا تھا کہ اس کورونا وائرس جیسے مہلک بیماری سے نمٹنے کیلئے سنکیانگ حکومت حکومت گلگت بلتستان کیساتھ تعاون کرے۔ جس پر گورنر سنکیانگ نے وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کی جانب سے حکومت چین کی طرف سے کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے کئے جانے والے اقدامات کو سراہنے پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ سنکیانگ اور چائینز حکومت کورونا وائرس پر قابو پانے کیلئے حکومت گلگت بلتستان کو ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی۔ گورنر سنکیانگ نے کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے د رکار ضروری طبی آلات اور 10 ٹن دیگر اشیا خصوصی طور پر حکومت گلگت بلتستان کو بھجوائے ہیں جو 27 مارچ کو بارڈر پر حکومت گلگت بلتستان کے حوالے کئے جائیں گے۔ طبی آلات اور ضروری اشیا میں 5وینٹی لیٹرز، 2ہزار N95ماسک، 2لاکھ فیس ماسک، 2ہزار ٹیسٹنگ کٹس، 2ہزار میڈیکل پروٹیکٹیو کٹس سنکیانگ گورنر کی جانب سے بجھوائے گئے اشیا میں شامل ہیں۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
33451

عقل سے پیدل لوگ اور کورونا وائرس ……… تحریر: عبدالکریم کریمی

ہمارا دین ہمیشہ عقل و برہان پر زور دیتا رہا ہے اور ہماری بدقسمتی کہ ہم ہمیشہ عقل کے حوالے سے پیدل واقع ہوئے ہیں۔ کل سے تو خود کو انسان کہتے ہوئے بھی شرم محسوس ہو رہی ہے جب جوان سال ڈاکٹر اسامہ کے حوالے سے بے بنیاد خبریں وائرل کی گئیں۔ ہم کیسے لوگ ہیں اور نہیں معلوم ہماری صحافت کن جاہل ہاتھوں میں یرغمال ہے۔ ہم صاحبِ اولاد لوگ ہیں ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیئے گا کہ ایسی حماقتوں سے ڈاکٹر اسامہ کے گھر والے کس کرب سے گزرے ہوں گے۔ بی بی سی لندن کی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق یہ قابلِ فخر فرزند ابھی چند لمحے پہلے رحلت کر گئے ہیں۔ وہ صرف ریاض صاحب کے بیٹے یا فرزند دیامر نہیں بلکہ ہم سب کے بیٹے ہیں اور ہمارا فخر ہے۔ اللہ پاک اپنے حبیب کے صدقے اس روحِ نو رفتہ کو غریقِ رحمت فرمائے۔ آمین!

نہیں معلوم کچھ لوگوں نے ریٹنگ کے چکر میں دو دن پہلے ہی اس قابلِ فخر فرزند کی موت کی بے بنیاد خبر دے کر سوشل میڈیا کو قبرستان کیوں بنایا تھا۔ اللہ معاف کرے۔ پھر ایک نجی ٹی چینل پر ایک نوے سالہ بزرگ، جو طبعی موت مرے ہیں، کو بھی کورونا کا مریض ثابت کرکے نہ جانے صوبائی حکومت دُنیا میں گلگت بلتستان کا کیا امیج قائم کرنا چاہتی ہے۔ اس خبر پر صوبائی حکومت کو فوری ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ اور سوشل میڈیا کے یوزرز سے بھی دردمندانہ گزارش ہے کہ علاقے میں خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش نہ کیجئے گا۔ خدا کے لیے۔ آپ کی یہ بے تکی حرکت دیکھ کر مرحوم جون ایلیا بے اختیار یاد آئے۔ انہوں نے بڑے پتے کی بات کی تھی کہ جن لوگوں کو پڑھنا چاہئیے وہ لکھ رہے ہیں۔

اب ذرا بات کرتے ہیں اس وبا کی کہ جس نے پوری دُنیا کو اپنے شکنجے میں لیا ہے۔ ہم ایک دفعہ پھر اندھی تقلید کا مرتکب ہو رہے ہیں۔ ہمارا دین سات سو چھپن بار عقل پر زور دیتا ہے۔ اس حوالے سے علما کا کہنا ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں مصافحہ سنت ہے، وہ درست کہتے ہیں، مگر ان کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ نقصان کے اندیشے کے باوجود مصافحہ کرنا سنت ہے، بلکہ یہاں مصافحہ نہ کرنا سنت ہے، ثقیفہ کے وفد میں ایک کوڑھی شخص بھی دربارِ رسالت میں حاضر ہوا، رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسے اس کے مقام سے ہی لوٹا دیا، نہ عملاً بیعت کی، نہ مصافحہ کیا اور نہ ان کا سامنا کیا۔ (دیکھئے صحیح مسلم کی حدیث بائیس سو ایکتیس) گویا ایسے موقعے پر مصافحہ کرنا نہیں، نہ کرنا سنت ہے۔

جو لوگ کہتے ہیں، ایمان کے ہوتے ہوئے احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں، وہ صحیح نہیں کہتے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، کوڑھی سے یوں بھاگو، جیسے شیر سے خوفزدہ ہو کر بھاگتے ہو۔ (دیکھئے بخاری شریف کی حدیث نمبر پانچ ہزار سات) گویا ایسے موقعے پر وائرس زدہ کا سامنا کرنا نہیں، اس سے بچنا سنت ہے۔

جو لوگ کہتے ہیں، ہمیں اللہ پر توکل ہے اور احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں ،وہ بھی صحیح نہیں کہتے ہیں، سرکار دو عالم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا فرمان مقدس ہے، اونٹ کا گھٹنہ باندھو اور پھر توکل کرو۔ (دیکھئے ترمذی شریف کی حدیث نمبر پچیس سو سترہ) گویا اسباب اختیار کرنا توکل ہے، اسباب سے بے نیازی توکل نہیں۔

جو لوگ کہتے ہیں، کچھ ہو گیا تو ہمیں پھانسی دے دیں، ہمارا ایمان قوی ہے، وہ بھی صحیح نہیں کہتے ہیں، کیونکہ خلیفہ ثانی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ طاعون زدہ شام نہیں گئے تھے، انھوں نے احتیاط کی تھی، چنانچہ آج کے کسی بھی شخص کا ایمان، تقویٰ اور توکل حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ نہیں ہو سکتا، خواہ وہ یہ بھی کہے کہ مجھے گولی مار دو یا پھانسی دے دو۔

یہ اسلامی تاریخی حقائق ہے جہاں جہاں ضرورت محسوس کی گئی رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، اہلِ بیت علیہم السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے اپنے کردار و عمل سے دکھایا کہ کب کیسے اور کہاں اسلام کی عقلی تعلیمات کو زادِ راہ بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے خدارا! ہمیں اسلام کی حقانیت کو مدنظر رکھ کر جوش سے زیادہ ہوش سے کام لیتے ہوئے اس وبا کا مقابلہ کرنا ہے۔ سنا ہے کہ یہ وائرس بہت خطرناک ہے، دُنیا کی تاریخ میں اس سے زیادہ خطرناک وائرس نہیں آیا۔ اسی لیے ساری دُنیا لاک ڈاون ہو رہی ہے۔ آپ بھی لاک ہو جائیں۔

ان تمام ہدایات کو ہلکا یا مذاق میں نہ لیں ورنہ بعد میں پچھتانے کا موقع نہیں ہو گا۔ اگر تاریخ کے پندرہ سو سالوں میں خانہ کعبہ میں نماز بند ہوسکتی ہے تو میرے اور آپ کے محلے کی مسجد میں نماز بند ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔ یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بارش میں بھی گھر میں رہ کر نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ اور یہ وائرس بارش سے ہزار گنا زیادہ خطرناک ہے۔

غیر ضروری طور پر اپنے ایمان کی مضبوطی کا مظاہرہ نہ کریں، اپنی اور اپنے پیاروں کی جان بچائیں۔ بیماریاں اللہ کی طرف سے ہیں لیکن بقول قرآن ہمیں حکم ہے کہ اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالیں۔ (البقرہ)

اللہ پاک عالمِ انسانیت کو اس خونی اور جان لیوا وبا سے نجات دے۔ آمین!

و ما علینا الا البلاغ المبین!

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
33393

عیدِ نوروز کا پیغام…………عبدالکریم کریمی

Posted on

دنیا کی ثقافتوں اور تہذیبوں میں مخلتف صورتوں میں بہار کی آمد کے موقع پر جشن منائے جاتے ہیں ایک ایسا ہی ثقافتی جشن نوروز ہے جو تاریخی طور پر فارسی بولنے والی اقوام مناتی رہی ہیں۔ روایت بیان کی جاتی ہے کہ نوروز کی رسم برصغیر میں ایرانی مہاجرین لے کے آئے تھے جو گجرات میں سنجان کے مغربی ساحل کی طرف غالباً دسویں صدی عیسوی میں آئے۔

اس دن کی اہمیت پیغمبر اسلامؐ کی احادیث اور ائمہؑ کے فرامین کے ذریعے بتائی گئی ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں یہ بیان کیا گیا ہے نبی کریمؐ کو شرینی کا پیالہ نوروز کے تحفے کے طور پر پیش کیا گیا تو آپؐ نے اسے قبول فرماتے ہوئے دعا و برکات فرمائیں۔ مزید اس سلسلے میں مشہور ہے کہ مولا علیؑ کو ایک ایرانی زمیندار کی طرف سے نوروز کے تحفے موصول ہوئے تو آپؑ نے فرمایا ’’ہمارا ہر دن نوروز ہو۔‘‘

تاریخ پر جب ہماری نظر پڑتی ہے تو تاریخ شہادت دیتی ہے کہ اس سیارۂ زمین کی پیدائش سے لے کر اب تک نوروز کے موقع پر جتنے بھی عجیب و غریب اور انتہائی عظیم واقعات رونما ہوۓ ہیں۔ اتنے واقعات کسی اور موقع پر نہیں ہوۓ ہوں گے۔ چنانچہ علامہ مجلسی کی کتاب ’’زادلمعاد‘‘ کے حوالے سے یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ حضرت امام جعفرالصادق علیہ السلام نے فرمایا:

’’نوروز وہ مبارک دن ہے جس میں خداوندِ عالم نے بندوں کی روحوں سے یہ اقرار لیا کہ وہ اس کو خداۓ واحد سمجھیں۔‘‘

جیسا کہ قرآن پاک کا ارشاد ہے:

’’اور وہ وقت یاد کرو جب کہ تمہارے پرورگار نے اولاد آدمؑ کی پشتوں سے ان کی اولاد کو لیا اور انہیں ان کی اپنی اپنی ذات پر گواہ قرار دیا۔ اور ان سے پوچھا کیا میں تمھارا پرورگار نہیں۔ یہ اقرار اس لیے لیا۔ تاکہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہو کہ یقیناً ہم اس سے بالکل بے خبر تھے۔‘‘ (سورہ الاعراف آیت ایک سو بہتر)

مذکورہ روایت کے مطابق نوروز ہی تھا۔ جس میں حضرت نوحؑ کی کشتی طوفان تھم جانے کے بعد کوہ جودی پر ٹھہری۔ حضرت ابراہیمؑ نے اسی روز ملک عراق کے شاہی بتوں کو توڑ ڈالا تھا۔ حضرت موسیؑ نے اپنے زمانے میں اسی دن فرعون مصر کے جادوگروں کو شکستِ فاش دے دی تھی۔ اور آنحضرتؐ نے بھی اسی نوروز کے موقع پر مولانا علیؑ کو اپنے مبارک کندھوں پر چڑھاکر خانہ کعبہ کے تین سو ساٹھ بتوں کو توڑوایا تھا۔ اور ہاں یہی نوروز کا دن تھا جب نبی کریمؐ نے مولا علی کو غدیرخم کے مقام پر لاکھوں حاجیوں کی موجودگی میں اپنا جانشین مقرر فرمایا تھا۔ نوروز کے متعلق اس قسم کی بہت سی روایات مشہور ہیں۔ لیکن پھر بھی اس یومِ سعید کی بہت سی حقیقتیں ہوسکتی ہیں۔ جو اب تک پردۂ راز میں پوشیدہ رہی ہوں۔

عید وہ روز ہے جس دن ہم خداوند متعال کی یاد اور اس کے انبیاؑ و ائمہؑ سے کئے ہوئے عہد و پیمان سے غافل نہ ہوں، جس روز ہم خدا اور انبیاؑ و ائمہؑ کی یاد سے غافل ہوں (چاہے وہ عید ہی کا دن کیوں نہ ہو)، وہ دن حقیقت میں روز عزاء ہے، اور اسی مطلب کی تائید مولائے کائنات حضرت علیؑ کا یہ فرمانِ پاک کرتا ہے:

کلُّ یومٍ لا یُعصیٰ اللہُ فیه فهو عیدٌ

’’ہر وہ دن جس میں اللہ کی معصیت نہ کی جائے، عید کا دن ہے۔‘‘

آئے آج ہم اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نشانی پر غور کرتے ہیں جس کا اس عید سعید یعنی نوروز عالم افروز سے گہرا تعلق ہے اور وہ عظیم نشانی یہ آسمانی سورج ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ اس روئے زمین پر ہر زندہ شے کی زندگی اور بقا کا انحصار اور اس کے جسمانی عروج و زوال کا دار و مدار اس ظاہری آسمانی سورج کے قریب اور اس سے دور ہونے پر ہے اور سال کے چاروں موسم بہار، گرما، خزاں اور سرما اسی سورج سے قربت اور دوری کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

مفہوم: اور ان (لوگوں) کے لیے مردہ زمین ایک نشانی ہے ہم نے اسے زندہ کیا اور ہم نے اس میں سے دانہ نکالا۔ پس وہ اس میں سے کھاتے ہیں۔‘‘ (القرآن سورہ چھتیس آیت تینتیس)

یہاں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ رب کائنات نے مردہ زمین کو براہِ راست زندہ نہیں کیا ہے بلکہ اس کی زندگی کے لیے آسمانی سورج اور پانی کو بطورِ وسیلہ پیدا کیا ہے اور زمین کی زندگی سورج کی قربت سے مشروط ہے۔ ایک اور آیت میں خالق کائنات ارشاد فرماتا ہے:

مفہوم: ’’بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے اختلاف میں صاحبانِ عقل کے لیے البتہ نشانیاں ہیں جو اٹھتے اور بیٹھتے اور کروٹوں پر لیٹے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش پر غور کرتے ہیں۔‘‘ القرآن سورہ تین آیت ایک سو نوے، اکیانوے)

اس آیۂ مبارکہ میں رب کائنات نے صاحبانِ عقل و خرد پر دو نہایت ہی اہم ذمہ داریاں عاید کیا ہے ان میں سے پہلی ذمہ داری ہر وقت اور ہر حالت میں اللہ کو یاد کرنا کیونکہ یادِ الٰہی سے انسان کی بصیرت تازہ ہوجاتی ہے جس کو چشم بصیرت بھی کہا گیا ہے۔ جیسے کہ مولانا رومیؒ فرماتے ہیں؎

’’ذکر آرد فکر را در احتراز‘‘ یعینی ذکر انسان کی فکر کو حرکت میں لاتا ہے۔

دوسری ذمہ داری حق تعالیٰ کی طرف سے انسان پر یہ ہے کہ وہ نظام کائنات پر غوروفکر کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا مقدس کلام تمثیلی زبان میں ہے اور نشانیوں کو سمجھنے کا مقصد کتابِ مقدس میں بیان شدہ امثال کے ممثول و مراد کو دریافت کرنا ہے جوکہ اس کی اصل غائت ہے۔

مذکورہ بیان کا مقصود یہ ہے کہ ںظام کائنات میں یہ آسمانی سورج اللہ تعالیٰ کی نشانیوں اور مثالوں میں سے ایک ہے اور اس کا ممثول اور مقصود دورِ نبوت میں رسولؐ اور دورِ امامت میں آل نبیؐ ہیں۔ جس کا ثبوت قرآن پاک کی تفاسیر اور بزرگانِ دین کے بصیرت افروز کلام کے بغور مطالعے سے ملتا ہے۔ پیر ناصر خسروؒ نے اپنے اس حکیمانہ شعر میں اس جانب اشارہ کیا ہے؎

چشمِ سر بی آفتابِ آسمان بیکار گشت
چشمِ دل بی آفتابِ دین چرا بیکار نیست

مفہوم: ’’جب سر کی آنکھ آسمانی سورج کے بغیر بیکار ہے تو (اس صورت میں) دین کے سورج کے بغیر دل کی آنکھ کیوں بیکار نہیں ہے۔‘‘

ہم دیکھتے ہیں یہ آسمانی سورج روئے زمین پر موجود برتر اور کمتر ہر شے پر مساوی روشنی بکھیرتا ہے لیکن سورج کی روشنی اور حرارت سے اسعفادہ کرنے میں تمام اشیا اور مخلوق مساوی نہیں ہیں۔ اسی طرح روحانی سورج جو نور کا منبع ہے اور انسانی قلوب کو روشن کرنے والا ہے، بغیر امتیاز رنگ و نسل اور مذہب کے تمام بنی نوعِ انسان کو فیض پہنچاتا ہے۔

عید نوروز زبان حال سے پر زور الفاظ میں ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم نظام فطرت سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنے خیالات، عادات اور رویوں میں بہتری لانے کی کوشش کریں۔ یادِ الٰہی کو زادِ سفر بنائے۔ ہمارا تعلق کسی بھی مسلک سے کیوں نہ ہو اپنے طریقے کے مطابق اس روحانی سورج سے نزدیکی حاصل کرکے روحانی بہار کی لذتوں سے بھی لطف اٹھانے کی کوشش کریں تاکہ نوروز کے باطنی پیغام کو سمجھ سکیں۔ نامور اسماعیلی داعی اور اسکالر ابو اسحاق کے ان فکر انگیز اشعار کے ساتھ اجازت چاہوں گا؎

نوروز ظاہری بود تغییرِ ماہ و سال
نوروز باطنی بود تغییرِ کیف و حال
نوروز اہلِ صدق بود ترک فعلِ بد
نوروز اہلِ کذب بود زیبِ جسم و مال
نوروز آن بود کہ بود ایمن از زوال

مفہوم: ’’ظاہر نوروز ماہ اور سال کی تبدیلی کے نتیجے میں آتا ہے جبکہ باطنی نوروز اندرونی کیفیات اور حالات میں مثبت تبدیلی کی صورت میں آتا ہے۔ اہلِ صدق کا نوروز برے افعال سے اجتناب کرنا ہے جبکہ اہلِ کذب کا نوروز محض جسم اور مال و دولت کی نمائش کرنا ہے (جوکہ زوال پذیر ہے) اصل نوروز وہ ہے جو زوال سے محفوظ ہے۔‘‘

اللہ پاک ہم سب کے دلوں کو اپنے نور سے منور کردے۔ آمین!

و ما علینا الا البلاغ المبین!

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
33338

گلگت: عوام اپنے گھروں میں رہیں غیر ضروری باہر نکلنے سے اجتناب کریں،وزیر اعلی

Posted on

گلگت، کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے صوبائی حکومت سخت فیصلے کررہی ہے تاکہ قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جاسکے۔حافظ حفیظ الرحمن
.
گلگت(چترال ٹائمزرپورٹ) وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے صوبائی حکومت سخت فیصلے کررہی ہے تاکہ قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جاسکے۔ عوام اپنے گھروں میں رہیں غیر ضروری باہر نکلنے سے اجتناب کریں۔ رات12 بجے سے صوبے بھر میں ہوم لاک ڈاون کیا جائیگا۔ گلگت بلتستان سکاؤٹس، رینجرز، ایف سی،پولیس صوبے بھر میں ہوم لاک ڈاؤن کو یقینی بنائینگے۔ پاک فوج کی ریکوزیشن کی گئی ہے پاک فوج کے دستے سٹینڈ ہائی رئینگے۔ مستحق اور نادار افراد کے گھروں میں فاقے نہیں ہونے دئینگے حکومت راشن فراہم کریگی۔ حکومت عارضی ملازمین کی تنخواہیں ادا کریگی۔دفعہ144 کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کوئی رعایت نہیں کی جائے قید اور جرمانے کیے جائیں۔ ڈاکٹر اسامہ اور فیلڈ میں کام کرنے والے آفیسران اور سٹاف ہمارے ہیرو ہیں۔ حکومت ڈاکٹروں پیرا میڈیکل سٹاف اور دیگر متعلقہ سٹاف کو پرسنل پروٹیکشن کٹس کی فراہمی ہر صورت یقینی بنائیگی۔ آئیسولیشن وارڈ اور کورن ٹائین سینٹرز کی آیس او پی پر عمل درآمد کرایا جائے۔ ریٹارڈ ڈاکٹروں، پیرا میڈیکل سٹاف کی خدمات لی جائیگی۔ وفاقی حکومت اور صوبوں سے گلگت بلتستان کیلئے سپلائی لائن بحال رکھنے کیلئے رابطہ کیا گیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کرونا وائرس کی روک تھام کے حوالے سے اعلی سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں ویڈیو لنگ کے ذریعے کمشنر بلتستان، کمشنر دیار سمیت دیگر آفیسران نے شرکت کی۔ وینٹی لیٹر اور دیگر آلات کی خریداری کی جارہی ہے۔ وفاقی حکومت کو بھی ضروری طبعی آلات کی فراہمی کی شفارش کی گئی ہے۔ کرونا وائرس سے متاثرہ علاقوں سے آنے والے فوری طور پر صحت مراکز سے رابطہ کرکے ٹیسٹ کرائیں۔سرولینس کمیٹیوں کی نشاندہی پر سخت کاروائی کی جائے۔ حکومت اشیا خوردونوش اور دیگر اشیا کی دستیابی یقینی بنائیگی۔ زخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف بھی قانونی کاروائی کی جائے۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
33324

گلگت،صوبے میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 30 ہوئی ہے۔…وزیراعلیٰ

Posted on

182 افراد کے ٹیسٹ کا رزلٹ آنا اب بھی باقی ہے،وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن
.
گلگت(آئی آئی پی) وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے وزیر اعظم پاکستان کے زیر صدارت نیشنل کوآرڈینشن کمیٹی کے اجلاس کے موقع پر ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔ اس موقع پر وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ گلگت بلتستان میں زائرین اور کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک سے لوگوں کی بڑی تعداد آئی ہے۔ صوبے میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 30 ہوئی ہے۔182 افراد کے ٹیسٹ کا رزلٹ آنا اب بھی باقی ہے۔ گلگت بلتستان میں صرف کورونا وائرس کی ٹیسٹ کیلئے ایک لیبارٹری قائم ہے جس میں ایک دن میں صرف 10 افراد کا ٹیسٹ ممکن ہے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ وفاقی حکومت بلتستان ریجن میں بھی کورونا وائرس کے مریضوں کی ٹیسٹ کیلئے لیبارٹری کے قیام میں معاونت کرے۔ صوبائی حکومت نے 1330آئیسولیشن رومز ہوٹلوں میں مختص کئے ہیں جن میں سے 330 آئیسولیشن رومز میں زائرین کو رکھا گیا ہے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے نیشنل کورڈینشن کمیٹی کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے گلگت بلتستان میں پہلا لوکل ٹرانسمیشن کورونا کیس نگر میں سامنے آیا ہے۔ وفاقی حکومت صوبے کے تینوں ریجنز میں پی سی آر اور ریپٹ ٹیسٹنگ فیلسٹی فراہم کرے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے وزیر اعظم پاکستان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سکردو میں فلائٹس کی کمی کی وجہ سے شدید مشکلات درپیش ہیں۔ سکردو کیلئے ہفتے میں کم از کم چار روز فلائٹس کو یقینی بنایا جائے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ وفاقی حکومت اور این ڈی ایم اے گلگت بلتستان کے تینوں ریجنز میں کورونا کیلئے مختص تین پری فیب ہسپتالوں کے قیام کیلئے فوری طور پر اقدامات کرے۔حکومت گلگت بلتستان نے کورونا وائرس کے روک تھام اور بچاؤ کیلئے سنجیدہ اقدامات کئے ہیں۔ علمائے کرام کا کردار انتہائی قابل تحسین اور مثالی ہے۔ اہل تشیع اور اسماعیلی کمیونٹی نے مساجد اور جماعت خانے بند کردیئے ہیں اور اہل سنت نے بھی اپنے جمعے کے اجتماع کو انتہائی مختصرکردیا ہے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہاکہ مقامی سیاحوں پر مکمل پابندی عائد کی گئی ہے۔ 21 مارچ سے صوبے کے تجارتی مراکز کو بند کئے جارہے ہیں۔ صرف میڈیکل سٹورز اور اشیا خوردنوش کی دکانیں کھلی رہیں گی۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہاکہ حکومت گلگت بلتستان نے کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے تقریبا 13 کروڑ روپے خرچ کئے ہیں۔ ضروری طبی آلات کی خریداری کی ہے اور وینٹی لیٹرز کی خریداری عمل میں لائی جارہی ہے۔ کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے صوبائی حکومت کی جانب سے وفاقی حکومت کو 60 کروڑ کے طبی آلات اور دیگر ضروری آلات کی خریداری کا ڈیمانڈ بھجوایا گیا ہے ابھی تک فراہمی نہیں کی گئی ہے۔
.
…………
گلگت، زیارات سے آنے والے زائرین، عمرے سے واپس آنے والے اور کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک سے آنے والے تمام لوگ آئندہ48 گھنٹوں میں محکمہ صحت کے متعلقہ مراکز سے فوری رابطہ کریں۔رابطہ نہ کرنے کی صورت میں صوبائی حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ سرولینس ٹیموں کی نشاندہی کی صورت میں متعلقہ افراد کیخلاف فوجداری قوانین کے تحت سزا اور جرمانے کئے جائیں گے،وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن
.
گلگت(چترال ٹائمز رپورٹ) وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے صوبے میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے حوالے سے منعقدہ اعلی سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زیارات سے آنے والے زائرین، عمرے سے واپس آنے والے اور کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک سے آنے والے تمام لوگ آئندہ48 گھنٹوں میں محکمہ صحت کے متعلقہ مراکز سے فوری رابطہ کریں۔رابطہ نہ کرنے کی صورت میں صوبائی حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ سرولینس ٹیموں کی نشاندہی کی صورت میں متعلقہ افراد کیخلاف فوجداری قوانین کے تحت سزا اور جرمانے کئے جائیں گے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ آئندہ48گھنٹوں میں بین الاضلاعی پبلک ٹرانسپورٹ پر بتدریج پابندی عائد کی جائے گی۔ بدقسمتی سے نگر میں پہلا لوکل ٹرانسمیشن کورونا کے مریض کی تشخیص ہوئی ہے۔ عوام ذمہ داری کا احساس کرے۔ غیر ضروری طور پر گھروں سے نکلنے سے اجتناب کرے۔ حکومت گلگت بلتستان کورونا وائرس سے بچاؤ اور روک تھام کیلئے سنجیدہ اقدامات کررہی ہے۔ عوام بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے صوبائی وزیر قانون کو ہدایت کی ہے کہ 24 گھنٹوں میں چھوٹے مقدمات کے قیدیوں اور تین مہینے سے کم سزا باقی رہنے والے قیدیوں کے حوالے سے تفصیلات اور سفارشات تیار کرکے پیش کرے جس پر فیصلہ صوبائی ایمرجنسی کونسل کرے گی۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے علمائے کرام کے کردار کو سراہتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا جنہوں نے کورونا وائرس کی روک تھام اور اس سے بچاؤ کیلئے انتہائی مثبت کردار ادا کیا ہے۔ کورونا وائرس سے متعلق غیرمصدقہ اطلاعات اور خبروں کی اشاعت کی روک تھام کے حوالے سے صوبائی وزیر قانون اورنگزیب ایڈووکیٹ اور مشیر اطلاعات شمس میر کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی تشکیل دی ہے کمیٹی میں سیکریٹری صحت، سیکریٹری اطلاعات اور کورونا وائرس سے متعلق فوکل پرسن ڈاکٹر شاہ زمان کو شامل کیا گیا ہے۔ صحافی حضرات کورونا وائرس سے متعلق اطلاعات او رخبروں کی تصدیق کیلئے متعلقہ کمیٹی کے سربراہ صوبائی وزیر قانون اورنگزیب ایڈووکیٹ اور مشیر اطلاعات شمس میر سے تصدیق کے بعد کورونا وائرس سے متعلق خبروں کی اشاعت کو یقینی بنائیں۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
33233

عورت مارچ، کورونا وائرس اور اسلامی تعلیمات …….. تحریر: عبدالکریم کریمی

میں اپنے قارئین کی محبت کا ہمیشہ سے مقروض رہا ہوں وہ میری کمی محسوس کرتے ہیں۔ میری تحریروں کا انتظار کرتے ہیں اور یہ انتظار جب شدت اختیار کرتا ہے تو پیار سے پوچھتے ہیں “سر! کہاں غائب ہیں۔ عورت مارچ پر کچھ نہیں لکھا۔” میری طرف سے مسلسل خاموشی پر لہجہ قدرے تلخ ہو جاتا ہے “سر! کورونا وائرس پر تو کچھ لب کشائی کیجئیے گا، مساجد، امام بارگاہے اور عبادت خانے حتیٰ کہ خانہ کعبہ تک کو بند کر دیا گیا۔ اسلام کی تعلیمات کیا ہیں؟ آپ کی خاموشی سمجھ سے باہر ہے۔”وغیرہ وغیرہ۔

یہ دلچسپ مسیجز کرنے والے میرے شُب چنتک ہیں۔ ان کا کہنا بجا ہے۔ ایک عرصے سے ذہن ماوف سا ہے۔ عورت مارچ گزر گئی۔ چاہت کے باوجود نہیں لکھ سکا۔ کورونا وائرس اپنے عروج پر ہے۔ ہر طرف خوف و ہراس ہے، قلم اٹھانے کی جرات نہیں ہوئی کہ یہ میدان تو میڈیکل سائینس کا ہے بھلا میں کیا لکھ سکتا ہوں۔ نیم حکیم والا کام اچھا نہیں ہوتا۔ کسی نے خوب صورت تبصرہ کیا تھا کہ پاکستان میں کورونا کے مریض کم اور ماہرین زیادہ ہیں۔ لیکن جناب! ذرا ٹھہریے! کل تو حد ہوگئی۔ پوری دنیا اس وبا کی روک تھام کے لیے کاوشیں کر رہی ہیں لیکن ایک ٹی وی چینل سے اس خبر نے مجھے اندر سے ہلاکے رکھ دیا۔ خبر سنانے والی خاتون کا کہنا تھا “خانہ کعبہ کا معجزہ تو دیکھئے۔ جب یہ لوگوں کے لیے بند کر دیا گیا تو اللہ نے پرندوں کے ذریعے اپنے گھر کی طواف کروائی۔” اس خبر پر تبصرے کرنے والوں میں ایک دل جلے نے کمنٹ کیا “کل ہمارے مندر کے طواف کے لیے بھی کچھ پرندے منڈلا رہے تھے۔”

میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ خانہ کعبہ کا طواف کرنے والے پرندے حق پر ہیں یا مندر پر منڈلانے والے پرندے؟ ہم کب تک ان سطحی معجزات کو لے کر زندہ رہیں گے؟ ہم کب تک کھجور کھانے کے اسلامی طریقوں اور چپکلی مارنے کے اسلامی طریقوں پر کتابیں لکھ کرجدید مسائل کا مقابلہ کر سکیں گے؟ ہم کب تک مخالف مسلک کو کافر کہتے ہوئے دل کا بھڑاس نکالیں گے؟ (مجھ سے اختلاف کرنے والے یوٹیوب پر صرف مناظرہ لکھے اور دیکھیئے کہ پورے مسلمان تو خیر ائمہ اربعہ کو ماننے والے بھی ایک دوسرے کی مسلمانیت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آپ کی آسانی کے لیے لنک دیا گیا ہے) ہم کب تک عورت مارچ کی مخالفت کرتے رہیں گے؟ ہم کب تک اسلامی لباس کا رونا روتے رہیں گے؟ ہم کب تک دین اسلام کی سطحی چیزوں کو زادِ راہ سمجھتے رہیں گے؟ آخر کب تک؟

لنک: مناظرہ (ضرور ملاحظہ فرمائیے گا۔)

خلیجی ملک کویت میں کورونا وائرس کے بڑھتے کیسز کے پیش نظر جہاں مساجد میں نماز پر عارضی پابندی عائد کی گئی ہے وہاں اذان میں بھی تبدیلی لائی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر شئیر کی گئی ویڈیوز میں سنا جا سکتا ہے کہ موذن “حی علی الصلواہ” یعنی آو نماز کی طرف کی بجائے “الصلات فی بیوتکم “کہہ رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ اپنے گھروں میں نماز ادا کریں۔

پھر ہماری اجتماعی نمازوں کا ثواب کہاں جائے گا؟ یہاں ان لوگوں کے لیے بھی اہم پیغام ہے جو یہ کہتے ہیں کہ شریعہ میں تبدیلی ممکن نہیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو اس وائرس سے نجات کے لیے ہمیں اجتماعی عبادات میں حصہ لینا چاہئیے تھا مگر کیا کریں وائرس نے جو ڈرا دیا ہے۔ ہم تو اذان تک کے الفاظ تبدیل کرنے پر مجبور ہیں۔ کیوں؟ اس کیوں کے پیچھے بہت سارے دلائل ہیں۔ سر دست ایک ہی دلیل آپ کی بینائیوں پر ٹانکتا ہوں کہ اسلام دینِ فطرت ہے اور دینِ فطرت میں تبدیلی زندگی کی نشانی ہے۔ شریعہ کی تعریف میں بھی جائے تو ایک دلچسپ تعریف نظر نواز ہوتی ہے کہ شریعہ وہ راستہ ہے جو چلتا ہوا پانی کی طرف جائے۔ اب ہماری بدقسمتی یہ رہی کہ ہم نے راستہ تو چھوڑیئے اس چلتے ہوئے پانی کو بھی روکنے کی کوشش کی اور ہزار سال پہلے کی تعلیمات کو اپنے نصاب کا حصہ بنایا اور ہزار سال پہلے ہمارے علما (نام لکھنے کی ضرورت نہیں، تاریخ سے وابستہ لوگ بہتر جانتے ہیں) نے عقل پر پابندی لگاکر کہا عقل سے کام لینے والے مشرک ہیں۔ اور جس جس نے عقل سے کام لیا حکمران وقت نے ان کے سر پر کوڑے برسائے۔ سائینس اور عقل کو جوتے کی نوک پر رکھنے کی روایت اتنی شدت اختیار کر جاتی ہے کہ مولوی کے کہنے پر ابنِ رشد جیسا ماہر فلکیات، اتنے بڑے سائنسدان کو مسجد کے ستون کے ساتھ باندھا جاتا ہے اور نمازیوں سے کہا جاتا ہے کہ آتے جاتے ان پر تھوکو۔ یعقوب الکندی جو فلسفے کا باپ تھا۔ اس عظیم مفکر کو عراق میں حاکم وقت نے پچاس کوڑے مارے اور ہر کوڑے پر عوام تالیاں بجاتے رہے۔ کہانی ختم نہیں ہوتی۔ الرازی جس نے چیچک اور خسرہ کے درمیان فرق کو واضح کیا۔ حاکم وقت نے حکم دیا کہ اس کی اپنی لکھی ہوئی کتاب اس کے سر پر اتنا مارو کہ یا کتاب پھٹ جائے یا اس کا سر ٹوٹ جائے۔ تاریخ کہتی ہے کہ اس تشدد میں الرازی جیسے عظیم سائنسدان نابینا ہوجاتے ہیں۔

ایسے میں امام مالکؒ اور امام ابو حنیفہؒ جیسی ہستیوں کی مثالیں بھی تاریخ میں روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ جب خلیفہ منصور جو امام مالکؒ کے ہم مکتب بھی تھے، امام سے گزارش کرتے ہیں کہ آپ فقہ کی کتاب لکھے تاکہ لوگ اس کے مطابق زندگی گزارے۔ امام انکار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ ٹھیک نہیں لوگوں کی سوچ کو آزاد رہنے دیا جائے۔ ورنہ وہ افکار کے غلام ہوں گے۔ پھر یہی درخواست امام ابو حنیفہؒ سے کی جاتی ہے لیکن وہ بھی انکار کرتے ہیں تو خلیفہ منصور جب دیکھتے ہیں کہ امام نہیں مان رہے تو امام کو قاضی القضاد یعنی چیف جسٹس کا عہدہ آفر کرتے ہیں۔ امام ابو حنیفہؒ اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے، فرماتے ہیں کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ خلیفہ منصور غصے میں کہتے ہیں کہ آپ جھوٹ بولتے ہیں۔ جواب میں امام فرماتے ہیں اگر میں جھوٹ بولتا ہوں تو آپ ایک جھوٹے آدمی کو قاضی القضاد کیسے بنا سکتے ہیں؟ خیر اس چپقلش میں امام ابو حنیفہؒ جیل کو ترجیح دیتے ہیں لیکن قاضی القضاد بن کر فقہ کی کتاب لکھنے کی حامی نہیں بھرتے کیونکہ وہ ایک دور اندیش عالم دین تھے ان کی دوربین نگاہیں مسلمانوں کو غلام بنانا نہیں چاہتیں۔ بعد میں ان سے منسوب جو فقہ کی کتاب لکھی گئی وہ ان کے شارگرد قاضی ابو یوسف نے لکھا تھا۔

امام مالکؒ اور امام ابو حنیفہؒ جیسے جید عالم دین کیوں نہیں چاہتے کہ فقہ کی کتاب لکھی جائے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس طرح ہم مسلمانوں کی سوچ پر قدغن لگاسکتے ہیں۔ آپ اسلام کے آٹھویں تا چودھویں صدی عیسوی میں منطقی علوم میں مسلمانوں کے فتوحات پر ںظر ڈالیں، تو آپ کو حضرت امام جعفر الصادقؑ، طفیل ابن کندی، ابنِ رشد، الزاواری، یعقوب الکندی، الرازی، نصیر الدین طوسی، ابن الہیثم، ابنِ سینا اور اس قبیل کے سائنسدان نظر آئیں گے۔ مریم اضطرلابی کا نام مسلم خواتین کے لیے یقیناً چراغِ راہ ہے۔ پھر آپ ذرا رسول کریم صلعم کے دور میں جائیں تو آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی۔ علم حاصل کرنے کے لیے ہر مسلمان مرد و عورت کو چین جانے تک کی تلقین کی جاتی ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا مدینے سے شام تک تجارت کرتی نظر آتی ہیں اور رسول کریم صعلم کو شادی کا پیغام بھی خود بھیجتی ہے۔ ایک خاتون کتنی آزاد تھی، مسجد نبوی میں آگے مردوں کی صفیں اور پیچھے عورتیں ہوتی تھیں اور مرد و عورت ایک ساتھ نماز پڑھا کرتی تھی پھر کیا ہوا کہ ہم نے کہا نہیں عورتوں کے مسجد آنے سے شیطان ہمیں اغوا کرتا ہے لہذا عورتوں کو چادر اور چار دیواری کے اندر نماز پڑھنی چاہئے۔ عورتوں کو مردوں کی پہنچ سے دور رکھنے کی اس سوچ نے اتنی شدت اختیار کیا کہ ہم نے تالیاں بجانے پر بھی خواتین کو قتل کرنا شروع کیا، پھر مسجد تو دور کی بات ایک خاتون اپنا بنیادی حق “حقِ رائے دہی” سے بھی محروم ہوئی۔ چادر اور چار دیواری میں یہ لاوہ اتنا پکا کہ ہمیں وہ دن بھی دیکھنا پڑا کہ “میرا جسم، میری مرضی” کہتی ہوئی ہمارے گھر کی خاتون عورت مارچ کرنے لگی اس میں قصوروار خاتون نہیں ہمارا پدرشاہی سماج ہے کہ جس نے ایک باعزت خاتون جو کبھی تاریخ اسلام میں سائیسندان بنکر مریم اضطرلابی کی صورت میں دنیا کو حیرت میں ڈالتی تھی اور خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی صورت میں مدینہ سے شام تک تجارت پر چھائی ہوئی ہوتی ہے وہی خاتون آج “میرا جسم، میری مرضی” کہنے پر مجبور ہوئی۔ وجہ صرف یہ کہ ہم نے اسے انسان سمجھنے اور انسانی حقوق سے دور رکھنے کی کوشش کی۔

اللہ معاف کرے ہم وہ لوگ ہیں کہ جب ہلاکو خان مسلمانوں کا عظیم علمی سرمایہ دریا کی نذر کر رہا تھا تو مصر کے ایک مسجد میں دو مولوی صاحبان اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ خرگوش ہلال ہے یا حرام؟؟؟

یہ ہلال حرام اور جنت دوزخ کی تقسیم کا عمل بھی تب سے شروع ہوا جب ہم نے عقل پر پابندی لگادی اور سائینس کو حرام قرار دیا۔ جب یورپ ڈارگ ایج سے روشنی کی طرف محو سفر تھا تو اس دوران پرنٹنگ پریس مشین کا ایجاد ہوتا ہے یورپ میں کتابیں مشینوں پر پرنٹ ہوتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں علما فتویٰ دیتے ہیں کہ مشین وضو نہیں کرتی اس پر اسلامی کتابیں چھاپنا حرام ہیں۔ لاوڈ اسپیکر آتا ہے تو شیطان کی آواز کہہ کے ایک دفعہ بھی یہ ایجاد فتووں کی نذر ہوجاتا ہے۔ پھر آپ دیکھتے ہیں کہ اس کو شیطان کی آواز کہنے والے ہی اس کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ ترقی کے آگے بند نہیں باندھا جا سکتا۔ ہماری بدقسمتی یہ رہی کہ ہم شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپاکر سمجھتے رہے کہ طوفان تھم جائے گا۔ سائینس و ٹیکنالوجی کا طوفان کبھی تھمنے والا نہیں بلکہ ہمیں اپنے دین کے اندر لچک پیدا کرنے کی ضرورت ہوگی۔ سطحی چیزوں سے نکل کر اسلام کی سچائی اور قرآن پاک کی گہرائی پر غور کرنا ہوگا جو سات سو چھپن دفعہ عقل پر زور دیتا ہے۔

پھر نہ ہمیں کورونا وائرس کے علاج کے لیے مغرب کی طرف دیکھنا ہوگا اور خواتین مارچ ہوں گے اور نہ خواتین مارچ سے ہمیں پریشانی ہوگی۔ ورنہ ہماری یہ سطحی سوچ کورونا وائرس سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔

اللہ پاک ہمیں حقیقی سمجھ عطا فرمائے۔ آمین!

حوالہ جات:
دنیا کو ایک نئی نظر سے دیکھنے کے لیے چند کتابوں کا نام دیا جاتا ہے۔ ان کا مطالعہ کیجئے اور دل پر ہاتھ رکھ کر کہیئے کہ میں اور آپ کہاں کھڑے ہیں؟

۔ دی ری کنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ اِن اسلام از ڈاکٹر علامہ اقبالؒ
۔ پاکستان اَنڈر سیج از مدیحہ افضل
۔ سیپئنس از ڈاکٹر یول نوح ہراری
۔ ہومو ڈِیوس از ڈاکٹر یول نوح ہراری
۔ فاطمی اور ان کی تعلیمی روایات از ہینز ہالم
۔ خلافت و ملوکیت از مولانا سید ابو اعلیٰ مودودیؒ
۔ کیجڈ ورجن از آیان حرسی علی

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
33135

علماء کی بہترین کاوش………. تحریر: امیرجان حقانی

Posted on

ڈی ایچ کیو ہسپتال چلاس کے اسپیشلسٹ ڈاکٹروں نے اپنے جائز مطالبات حل نہ ہونے پر اپنا استعفیٰ وزیراعلی کو بھجوا دیا تھا. عالمی سطح پر نوول کرونا وائرس کی دھماچوکڑیوں کے موقع پر احتجاج اور بائیکاٹ کی کال غیر مناسب اور بے موقع تھی لیکن مطالبہ بہرحال جائز تھا.
ڈاکٹروں کے مسائل پر کسی نے کان نہیں دھرے، انتظامیہ نے سنجیدگی سے سوچنے کی بجائے ڈاکٹروں کو انتظامی کاروائیوں سے ڈرایا.یہ رویہ بھی غیر منطقی تھا.
میں نے دیامر کے تین ممبران و وزراء سے گزارش کی کہ بیوروکریسی اور وزیراعلی سے مل کر ڈاکٹروں کے مسائل حل کریں اور عوام کو کرب سے نکالیں. ان کو یہ بھی بتایا کہ سوشل میڈیا پر دیامر کے ممبران و وزراء پر ڈاکٹروں کے ایشو پر سخت تنقید ہوری ہے.
لیکن ان کے کمنٹس دیکھ کر مجھ سمیت پروفیسر ایسوسی ایشن کے صدر ارشاد احمد شاہ کو سخت افسوس ہوا.ہم کف افسوس ملتے رہے.
واللہ! دیامر کے ممبران کو مخلص ہونے کیساتھ تعلیم یافتہ بھی ہونا ضروری ہے.ورنا مسائل یوں ہی الجھتے رہیں گے. یوتھ اس چیز کا آئندہ الیکشن میں خوب خیال کیجے.اپ کے نمائندے تگڑے اور باصلاحیت ہوں تو بہت سارے مسائل دہلیز پر ہی حل ہونگے.
شیخ الحدیث مولانا عبدالقدوس کی سربراہی میں علماء کرام اور سول سوسائٹی کے ورکرز کی خصوصی محنت اور گزارش پر چلاس کے ڈاکٹروں نے احتجاج اور بائیکاٹ ختم کرکے ڈیوٹی دینا شروع کیا جو خوش آئند ہے.

الحمداللہ!
اب بھی سواسائٹی میں علماء بااثر ہیں. رفاہی اور سماجی کاموں کے لیے علماء کرام کو یوں کردار ادا کرتے رہنا چاہیے.
ڈاکٹر صاحبان سے گزارش ہے کہ نوول کرونا کی اس عالمی مصیبت میں اپنے جائز مطالبات میں بھی نرمی کا مظاہرہ کریں اور انتظامیہ سے گزارش ہے کہ ڈکٹیٹر بننے کی بجائے فیسلیٹیٹر کا کردار ادا کریں. تاکہ صحت جیسے اہم مسئلے میں عامۃ الناس کو پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے.
یہ ماننے میں حرج نہیں کہ علماء کرام معاشرے کے اندر مضبوط جڑیں رکھتے ہیں. بہت بااثر ہیں. ان کی بات مانی جاتی ہے. لوگ احترام کرتے ہیں اور ان کا سماجی کردار تسلیم بھی کرتے ہیں. اگر علماء اپنا سماجی اور اصلاحی کردار ادا کرنا چاہیے تو بہت کچھ کرسکتے ہیں. گلگت بلتستان میں قیام امن کے لیے علماء کرام نے بہت ہی مثبت رول ادا کیا ہے.بڑے بڑے جرگوں کے ذریعے پورے جی بی میں امن کو یقینی بنایا ہے.صلح صفائیاں کروائی ہیں.
امن معاہدہ 2005، امن معاہدہ 2012، امن معاہدہ استور اور امن معاہدہ بلتستان صرف اور صرف جید علماء کرام کی رہین منت ہے. پورے جی بی کے تمام مکاتب فکر کے علماء و شیوخ نے ان معاہدوں کی تشکیل و تنفیذ میں بنیادی کردار ادا کیا ہے. امن معاہدوں اور قیام امن کے لیے، جی بی اسمبلی، سول انتظامیہ، آرمی، اور عوام الناس اور اہل علم و فکر کیساتھ مل بیٹھ کر رہنمائی اور رہبری کا رول ادا کیا ہے.
ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم، صحت اور عدل و انصاف جیسے لازمی امور میں بھی علماء اپنا سماجی کردار ادا کریں. یقین جانیں اگر ان تین امور پر بھی تینوں مکاتب فکر کے علماء و مشائخ ایک پیج پر آئے تو کمال ہوسکتا ہے.
علماء کرام سے میری خصوصی گزارش ہوگی کہ ہر وہ کوشش کریں جس سے تعلیم عام ہو، صحت کے مسائل حل ہوں، اور معاشرے میں قیام عدل ممکن ہوسکے.
یہ طے ہے کہ علماء کرام کے پاس اتھارٹی نہیں لیکن علم و عمل کے ذریعے بہترین رہنمائی اور آگاہی دے سکتے ہیں اور جہاں ضرورت پڑے اخلاص کیساتھ حاضر ہوکر بڑے بڑے مسائل حل کرسکتے ہیں. اس کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں.
مبارکباد کے لائق ہیں دیامر کے علماء کرام اور یوتھ، جنہوں نے مشکل کے اس وقت میں ایک بہت بڑا سماجی مسئلہ حل کردیا. اللہ اس کا اجر عظیم دے.
لاریب!
خالص جذبوں اور نیک نیتی کیساتھ انجام دی جانے والی کاوشیں بہترین نتائج دیتی ہیں.

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
33060

نبی معلم کی امت اور کرونا وائرس……….. تحریر: امیرجان حقانی

Posted on

جب بھی یہ سوال اٹھتا ہے تو دل پریشان سا ہوتا ہے کہ نبی معلم کی امت کہاں کھڑی ہے؟
اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اسلام نے جدید سائنسی علوم کی کھبی مخالفت نہیں کی بلکہ جدید علوم و فنون کی حمایت کی اور ان کی پروموشن کی بات کی.
جس نبی کو معلم بناکر مبعوث کیا گیا اور اس نے معلمی کا حق ادا بھی کیا مگر پھر اس کی امت تعلیم سے دور ہوتی گئی کہ آج اس نے تعلیم میں تقسیم کرڈالا.

یہ اسلامی تعلیم
وہ دنیاوی تعلیم

اس تقسیم نے اسلامی دنیا کو کہیں کا نہیں چھوڑا. سچ یہ ہے کہ یہ تقسیم لایعنی ہے.
تعلیم کے حوالے سے ہم فکر وعمل میں تضاد کا شکار ہیں.
پرائمری سے یونیورسٹی تک اور ناظرہ سے بخاری تک
.
کے اساتذہ کیساتھ سرکاری اور پرائیوٹ سطح پر ہمارا جو عمومی، سماجی اور انتظامی رویہ ہے اس پر کسی آگاہی کی ضرورت نہیں.
عملی شکل میں معلم کو جو اسٹیٹس ہم نے دیا ہے اس سے یہ طبقہ اچھوت ہی کہلا سکتا ہے.
جب صورت حال یہ ہو تو پھر نبی معلم کی امت کا جو حال ہے وہی ہونا تھا. اس میں خفگی کی ضرورت بھی نہیں.
یہ شکایت عبث ہے کہ نبی معلم کی امت تحقیق و تخلیق اور فن و علم اور سائنس میں کیوں پیچھے رہ گئی اور دیگر انیباء کی امتیں کیوں آگے نکل گئی.
ایک کرونا کیا وجود میں آیا، مسلم دنیا تعلیم گاہوں کے ساتھ عبادت گاہوں کو بھی بند کررہی ہے جبکہ مسیحی اور یہودی اور دیگر نان مسلم دنیا سائنسی تحقیق کی طرف بڑھ رہی ہے کہ آخر اس وبا کا کیا سائنسی حل نکل سکتا. متضاد خبریں آرہی ہیں کہ اس کا ویکسین تیار ہوچکا ہے اور نبی معلم کی امت اس ویکسین کی انتظار میں ہے کہ مہنگے داموں خریدے. ہم نے انتظامی، سماجی اور قانونی سطح پر تعلیم اور معلم کا جو حشر کیا ہے اس کا رزلٹ یہی نکلنا ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں.
ایک ابہام دور کرلیجے کہ تعلیم و تحقیق اور علم و فن کے متعلق اسلام کے احکام، ترغیبات اور نبی معلم کا عمل واضح اور دو ٹوک ہے.یہ جو خرابیاں اور کمزوریاں پیدا ہوئی ہیں، نبی معلم کی زندگی اور الہی تعلیمات سے روگردانی کا نتیجہ ہے جو مسلم اہل اقتدار اور صاحبان بست وکشاد نے اپنائی ہوئی ہیں.

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
32989

کروناوائرس کا خدشہ، انتظامیہ کی ضلع کے چارمقامات پر مسافروں کی اسکریننگ کا فیصلہ

Posted on

چترال ( نمائندہ چترال ٹائمز ) ملک میں کرونا وائرس سے متاثر افراد کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر حفاظتی اقدامات لیتے ہوئے لویر چترال کے ڈپٹی کمشنر نوید احمد نے ضلعے میں داخل ہونے کے چار مقامات لواری ٹنل، ارندو بارڈر، ارسون اور چترال ایر پورٹ پر ضلعے میں داخل ہونے والے مسافروں کی اسکریننگ کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اس وائرس سے متاثرہ کوئی شخص یہاں بیماری کے پھیلانے کا باعث نہ بن سکے۔ ذرائع کے مطابق ان مسافروں کی اسکریننگ کی جائے گی جن میں کروناوائرس سے متاثر ہونے کے علامات میں کوئی ایک علامت پائی جائے جن میں بخار اور ہائی ٹمپریچرکے ساتھ کھانسی اور زکام شامل ہیں۔ فیصلے کے مطابق لواری ٹنل سے چترال میں داخل ہونے والوں کی اسکریننگ بیسک ہیلتھ یونٹ عشریت میں، ارندو بارڈر کے مسافروں کی بیسک ہیلتھ یونٹ ارندو، ارسون بارڈر کے مسافروں کا تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتال دروش اور ہوائی جہاز سے آنے والے مسافروں کا ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال میں ہوگی۔ چترال ضلع کے ڈپٹی کمشنر شاہ سعود نے گلگت بلتستان کے شندور سے آنے والے مسافروں کی اسکریننگ کرانے کا فیصلہ کیا ہے جس کا قریب ترین ہسپتال رورل ہیلتھ سنٹر مستوج ہے۔ درین اثناء لویر چترال کے ڈپٹی کمشنر نوید احمد نے کرونا وائرس سے بچاؤ کے لئے ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ غیر ضروری عوامی اجتماعات اور سفر سے گریز کیا جائے اور اس حوالے سے افواہوں اور غیر مستند خبروں کے ذریعے افراتفری پھیلانے سے صورت حال بگڑ سکتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ کرونا وائرس سے انفرادی طور پر بچاؤ کے لئے دئیے گئے اختیاطی تدابیر پر مکمل عمل کیا جائے۔
public notice for corona virus chitral

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
32975

گلگت میں اب تک 3 کورونا وائرس کے مریضوں کی تشخیص ہوئی ہے..وزیراعلیٰ

Posted on

تینوں مریض کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک سے آئے ہیں۔ ملک کے ایئرپورٹس اور ملک کے بارڈرز پر سکریننگ کا نظام تسلی بخش نہیں ہے،وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن
.
گلگت(آئی آئی پی) وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے وزیر مملکت برائے صحت ظفر مرزا، وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار، وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ، پاکستان ویژن کمپئن کی سربراہ تانیہ ادریس اور صوبائی وزیر صحت خیبر پختونخوا کورونا وائرس سے بچاؤ کے حوالے سے ویڈیو کالنگ کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان میں اب تک 3 کورونا وائرس کے مریضوں کی تشخیص ہوئی ہے۔ تینوں مریض کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک سے آئے ہیں۔ ملک کے ایئرپورٹس اور ملک کے بارڈرز پر سکریننگ کا نظام تسلی بخش نہیں ہے۔ اگر بارڈرز اورایئرپورٹس پر باقاعدہ سکریننگ ہوتی اور تفتان میں قرنطینہ باضابطہ طریقے سے ہوتا تو یہ کیسز وہی پر تشخص ہوچکے ہوتے۔ صوبے اپنے طور پر اقدامات کررہے ہیں لیکن وفاقی حکومت کی وہ سنجیدگی نظر نہیں آرہی جو بین الاقوامی وبا سے نمٹنے کیلئے ہونے چاہئے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ ترقیافتہ ممالک بھی کورونا وائرس کی وجہ سے بری طر ح متاثر ہوئے ہیں اور کنٹرول نہیں کرسکے۔ وفاقی حکومت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اب تک گلگت بلتستان حکومت کو وفاقی حکومت کی جانب سے کٹس اور ضروری آلات کی فراہمی نہیں ہوئی ہے۔ صوبائی حکومت اپنے طور پر تمام وسائل بروئے کار لارہی ہے۔ صوبے میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے۔ سکول بند کردیئے گئے ہیں۔ عوامی اجتماعات سے اجتناب کرنے کے ہدایات جاری کردیئے گئے ہیں۔ صوبے کے تمام اضلاع میں سرولینس ٹیمیں فعال ہیں۔ بیرون ملک سے آنے والوں کی سکریننگ کی جارہی ہے۔ سکریننگ کی وجہ سے ہی کورونا وائرس کے تین مریضوں کی تشخیص ہوئی ہے۔ وفاقی حکومت ایئرپورٹس اور بارڈرز پر قرنطینہ صحیح انداز میں کرے تو متاثرہ لوگوں کا داخلہ ممکن نہیں ہوگا۔ تفتان میں تمام زائرین کو ایک ساتھ رکھا جاتا ہے جو قرنطینہ کرنے کا صحیح طریقہ نہیں ہے۔ تمام لوگوں کو 14 دنوں کیلئے الگ الگ رکھا جائے تاکہ متاثرہ شخص کی الگ تشخیص ہو اور دیگر افراد متاثر نہ ہو۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ اگر تفتان میں قرنطینہ کا بندوبست نہیں کیا جاسکتا ہے تو زائرین کو حاجی کیمپ میں قرنطینہ میں رکھا جائے جس کے بعد اپنے علاقوں میں جانے کی اجازت دی جائے۔ محکمہ صحت کی جانب سے 30 مارچ تک سکول بند کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے۔ کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک سے گلگت بلتستان آنے والے 1500 سے 1441 افراد کی سکریننگ کی گئی ہے۔ دیگر افراد کی بھی سکریننگ کی جارہی ہے۔ اس موقع پر وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے بھی وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کی موقف کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کا رویہ انتہائی غیرذمہ دارانہ اور غیر سنجیدہ ہے۔ وزیر اعظم پاکستان سے متعدد بار کورونا وائرس سے بچاؤ کے حوالے سے بات کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وزیر اعظم کے پاس اس اہم مسئلے پر بات کرنے کیلئے بھی وقت نہیں ہے۔ صوبہ سندھ اپنے طور پر کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے اقدامات کررہاہے۔ اب تک کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تشخیص صوبائی حکومت نے کی ہے۔ ایئرپورٹس اور بارڈرز میں کسی ایک شخص کی بھی تشخیص نہیں کی گئی ہے۔ سندھ میں تین متاثرہ مریض دبئی سے آئے ہوئے ہیں۔ وفاقی حکومت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے بھی بارڈرز کو بند کرنے اور ایئرپورٹس پر سکریننگ کا نظام سخت کرنے سمیت ویزا پالیسی کا ازسرنو جائزہ لینے کی تجویز دی۔ وزیر مملکت برائے صحت ظفر مرزا نے یقین دہانی کرائی کہ وفاقی حکومت کورونا وائرس سے بچاؤ کے حوالے سے صوبائی حکومتوں کیساتھ بھرپور تعاون کرے گی۔ انہوں اس بات کا اعتراف کیا کہ تفتان میں قرنطینہ مروجہ اصولوں کے مطابق نہیں ہورہاہے جس کو بہتر بنایا جائے گا۔ کورونا وائرس سے بچاؤ کے حوالے سے آج وزیر اعظم پاکستان کے زیر صدارت ہونے والے نیشنل سیکورٹی اجلاس جس میں تمام صوبوں کے وزرائے اعلی شریک ہوں گے میں اہم فیصلے کئے جائیں گے۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
32905

گلگت: کورونا وائرس کا خدشہ . تمام تعلیمی ادارے بشمول مدارس 14مارچ تک بند رکھنے کا فیصلہ

گلگت (چترال ٹائمزرپورٹ) گلگت بلتستان میں کورونا وائرس کی وبا پر نظر رکھنے اور ضروری اقدامات کرنے کے لیے قائم سیکریٹریز سٹئیرینگ کمیٹی کا اجلاس، ملک بھر میں کورونا وائرس کے پھیلنے کے خدشات کے پیش نظر گلگت بلتستان کے تمام بڑے ہسپتالوں میں 130آئیسولیشن رومزقائم کر دیے گئے، اور تینوں ریجنز میں خصوصی آئیسولیشن ہسپتالوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔تھور چیک پوسٹ، استک سکردو، گلگت اور سکردو ائیر پورٹس پر خصوصی اسکریننگ ڈیسک قائم، نیشنل انسٹویٹیوٹ آف ہیلتھ NIHاسلام آباد سے تربیت یافتہ پیتھالوجسٹ کنسلٹنٹ اگلے دو ہفتوں میں سیمپل ٹیسیٹ کے مواد کی فراہمی کے بعد گلگت میں سیمپل ٹیسٹ لیبارٹری کا کام شروع کرے گا۔ کورونا وائرس کے پھلاؤ کے خدشات کے پیش نظر گلگت بلتستان کے تمام نجی و سرکاری تعلیمی ادارے بشمول مدارس کو 14مارچ تک مزید بند رکھنے کا فیصلہ۔ علاوہ ازیں پولیس ٹریننگ سنٹرز، کھیلوں کی سرگرمیاں، فیسٹیولز، خنجراب ٹاپ،شندور ٹاپ، یتیم خانے، ووکیشنل سنٹرز، جیلوں میں قیدیوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ اور دیگر تمام اجتماعات کو تا حکم ثانی محدود اور بند کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق سیکریٹری داخلہ گلگت بلتستا ن چوہدری محمد علی رندھاوا کی زیر صدارت سیکریٹریز سٹئیرنگ کمیٹی برائے کورونا وائرس کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا۔ سیکریٹری صحت راجہ رشید علی نے کورونا وائرس کی بیماری سے نمٹنے کے لیے اب تک محکمے کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات پر تفصیلی بریفنگ دی۔ سیکریٹری صحت نے اپنی بریفنگ میں کہا کہ اس وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر صوبے بھر میں 130آئیسولیشن رومز کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے جہاں پر تمام انتظامات مکمل کیے گئے ہیں اور تربیت یافتہ عملہ ہائی الرٹ ہیں۔ تینوں ریجنز میں خصوصی آئیسولیشن ہسپتالوں (محمد آباددنیور، بسین ہسپتال، ڈی ایچ کیو ہسپتال چلاس میں قائم آئسولیشن ونگ، گمبہ سکردو ہسپتال، ہادی آباد چوک سکردو میں نئی تعمیر شدہ سرکاری عمارت) کے علاوہ ڈی ایچ کیو ہسپتال گلگت، سٹی ہسپتال گلگت، سول ہسپتال کریم آباد ہنزہ، ڈی ایچ کیو ہسپتال گاہکوچ، استور، خپلو، نگر، سٹی ہسپتال کھرمنگ و دیگر تمام بڑے ہسپتالوں میں فوری طور پر آئسولیشن رومز قائم کردیے گئے ہیں۔ جبکہ CMHگلگت میں 49آئسولیشن رومز کا قیام بھی عمل میں لایا جا چکا ہے۔ سیکریٹری صحت نے مزید بتایا کہ ہم نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد سے مکمل رابطے میں ہیں، اب تک 22 مشتبہ افراد کے سیمپلز بھجوائے گئے تھے جن میں سے صرف ایک مریض میں وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوگئی ہے جو کہ آئسولیشن میں ہے اور مریض صحت یابی کی طرف گامزن ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ محکمہ صحت نے تمام اضلاع و تحصیل سطح پر ایمرجنسی آپریشن سنٹرز بھی قائم کیئے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر رپورٹس طلب جارہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بیرون ملک سے آنیوا لے تمام زائرین اورمسافروں سے رابطے میں ہیں اور ان کی مانیٹرنگ کی جا رہی ہے۔ محکمہ صحت کی جانب سے قائم کردہ تمام چیک پوسٹس بشمول ائیر پورٹس پر قائم سکرینینگ سنٹرز میں عملہ زائرین و مسافروں سے سکریننگ کے ساتھ ساتھ ان کے کوائف بھی حاصل کر رہا ہے اور ایک مربوط ڈیٹا بیس بنایا جا رہا ہے تاکہ کسی بھی طرح کی طبی شکایت پر فوری طور پر مدد فراہم کی جا سکے۔اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ عوام الناس کو اس وائرس سے بچاؤ اور آگہی کے حوالے سے مختلف عوامی مقامات پر بینرز اور تشہیری مواد آویزاں کیا جا رہا ہے۔ اجلاس میں علما کرام سے بھی اپیل کی گئی کہ وہ جمعے خطبات میں کورونا وائرس کے حوالے سے احتیاطی تدابیر سے عوام کو آگاہ کریں۔ اس سلسلے میں محکمہ صحت اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے عوام کو ٹی وی، ریڈیو اور سوشل میڈیاکے زریعے معلومات و آگاہی دی جارہی ہے۔ اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ اس وقت گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے چار سو کے قریب زائرین بلوچستان میں موجود ہیں جن کی مکمل سکریننگ کے بعد ان کو قرنطینیہ میں رکھا جا رہا ہے۔ ان زائرین کو طبی بنیادوں پر مقررہ مدت کی تکمیل پر گھروں کو واپس بھیجا جائے گا۔ اس حوالے سے محکمہ صحت گلگت بلتستان بلوچستان انتظامیہ سے روزانہ کی بنیاد پر رابطے میں ہیں۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
32724

ملک کے بالائی اور وسطی علاقوں میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش کی پیشگوئی

Posted on

ِاسلام آباد (چترال ٹائمزرپورٹ )‌ملک کے بالائی اور وسطی غلاقوں میں بدھ سے ہفتہ کے دوران تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش کی پیشگوئی کی گئی ہے. ترجمان محکمہ موسمیات کے مطابق مغربی ہواؤں کا ایک طا قتور سلسلہ ملک کے بالائی علاقوں میں بدھ کے روز سے داخل ہوگا اورجمعرات سے وسطی اور بالائی علاقوں کو اپنی گرفت میں لیکر ہفتہ تک موجود رہے گا۔ جس کے زیر اثر

بدھ سے ہفتہ کے دوران خیبرپختونخوا کے تمام اضلاع، اسلام آباد ، کشمیر، گلگت بلتستان، اسلام آباد ، راولپنڈی ، اٹک ، جہلم ، چکوال ، میانوالی ، سرگودھا ، خوشاب ، بھکر ، فیصل آباد ، جھنگ ، ٹوبہ ٹیک سنگھ ، شیخوپورہ ، لاہور ، گوجرانوالہ ، سیالکوٹ ، گجرات ، حافظ آباد اور نارووال کے اضلاع میں تیز ہواؤں اورگرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے

بدھ سے جمعرات کے دوران کوئٹہ ، ژوب ، پشین ، ہرنائی ، زیارت ، ڈیرہ غازی خان ، ملتان ، خانیوال ، ساہیوال ، اوکاڑہ ، بہاولپور ، بہاولنگر ، خان پور ، رحیم یار خان ، سکھر ، جیکب آباد اور لاڑکانہ کے اضلاع میں گرد آلود ہواؤں اورگرج چمک کے ساتھ بارش کی توقع ہے ۔جمعہ اور ہفتہ کے روز کراچی سمیت زیریں سندھ میں گرد آلود ہوائیں چلنے کا امکان ہے۔

دیر ، سوات ، شانگلہ ، بونیر ، مانسہرہ ، ایبٹ آباد ، پشاور ، مردان ، نوشہرہ ، چارسدہ ، صوابی ، کوہاٹ ، اسلام آباد ، راولپنڈی ، اٹک ، چکوال ، جہلم ، گوجرانوالہ ، لاہور ، فیصل آباد ، سرگودھا اور کشمیر کے اضلاع میں جمعرات اور جمعہ کے روز موسلادھار بارش ( ژالہ باری) کا امکان ہے۔ اس دوران پشاور ، اسلام آباد ،راولپنڈی ، گوجرانوالہ ، فیصل آباد ، سرگودھا اور لاہور کے نشیبی علاقوں میں سیلاب کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ خیبر پختونخوا ، گلگت بلتستان ، کشمیر ، راولپنڈی اور اسلام آباد میں موسلادھار بارش سے سیلاب اور پہارٰ ی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کا خدشہ ہے۔

راولپنڈی اور لاہور میں جمعرات، جمعہ اور ہفتے کے روز پی ایس ایل کے میچز متاثر ہونے کا امکان ہے۔
اس دوران تمام متعلقہ حکام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
32652

گلگت بلتستان پروفیسراینڈ لیکچرارایسوسی ایشن کا اپنے مطالبات کے حق میں‌ احتجاجی ریلی

Posted on

گلگت(چترال ٹائمزرپورٹ) گلگت بلتستان پروفیسر اینڈ لیکچرار ایسوسی ایشن کی تحریک پر ضلع گلگت کے پانچ کالجز کے فیکلٹی ممبران نے گورنمنٹ فاطمہ جناح ڈگری کالج سے وزیراعلیٰ ہاوس تک احتجاجی ریلی نکالی۔ احتجاجی ریلی میں گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج مناور گلگت، گورنمنٹ گرلز فاطمہ جناح کالج گلگت، گورنمنٹ بوائزڈاگری کالج دنیور، گورنمنٹ گرلز رتھ فاو کالج سطان آباد گلگت اور گورنمنٹ انٹرکالج بسین گلگت کے تمام فیکلٹی ممبران نے شرکت کی۔پروفیسروں کی یہ پرامن ریلی ہاتھوں میں احتجاجی بینرز اور پلے کارڈ تھامے ہوئے فاطمہ جناح وومن کالج سے وزیراعلیٰ ہاوس تک پہنچی اور وزیراعلی ہاوس کے سامنے گلگت بلتستان پروفیسر ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر ارشاد احمد شاہ ،جنرل سیکریٹری پروفیسر محمد رفیع، پروفیسر حسن بانو اور پروفیسر لال بانو نے خطاب کیا اور اپنے مطالبات دہرائے۔
.
احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ایسوسی ایشن کے صدر ارشاداحمد شاہ نے کہا کہ وزیراعلی، وزیر قانون اور سیکریٹروں کا متفقہ وعدہ اور معاہدہ کے باجود پروفیسروں کا ایک بھی مسئلہ حل نہ ہونا افسوسناک ہے ۔گزشتہ کئی سالوں سے پروفیسر ایسوسی ایشن چیف سیکریٹری، سیکریٹری تعلیم سمیت متعلقہ اداروں کو تحریری طور پر بار بار گزارش کرچکی ہے کہ پروفیسروں کے جائز اور بنیادی مطالبات حل کریں لیکن کسی نے کان نہیں دھرے۔ نومبر 2019 کو ایسوسی ایشن نے مجبورا ہڑتال کی کال دی جس میں ٹوکن اسٹرائک کے بعد پورے جی بی کے کالجز میں تدریسی عمل معطل ہوا،وزیراعلی گلگت بلتستان نے پروفیسروں کے وفد کو ملاقات کے لیے مدعو کیا۔اور وعدہ کیا کہ ہائرٹائم سیکیل پروموشن اور ریوائزڈ فورٹائر دونوں فوری طور پر منظور کیے اور بہت جلد نوٹیفیکیشن نکالنے کا وعدہ کرتے ہوئے بیوروکریسی کو احکامات بھی جاری کیے مگر بیوروکریسی نے بار بار دھوکہ دیا،تاخیری حربے استعمال کیے اور پروفیسروں کو زدکوب کرنے کی کوشش کی۔پروفیسروں کو بیوقوف اور شودر سمجھنے کا عملی مظاہر ہ کیالیکن انہیں یاد ہونا چاہیے کہ ہمیں پروفیسری پر فخر ہے۔ہماری اطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ نے سیکریٹری تعلیم کو اپنے ہاوس میں بلا کر ہائرٹائم سیکیل پروموشن کا نوٹیفکیشن فوری طور پر نکالنے کا حکم صادر کیاور فائنانس سیکریٹری کو بھی کہا کہ جب پروفیسروں نے تمام ضروری ڈاکومنٹس جو وفاق اور دیگر صوبوں میں ہوچکے ہیں ،کو اپنی فائل کے ساتھ منسلک کرکے کیس بناکر بھیجا ہے تو خوامخواہ لیٹ کرنا اور اساتذہ کو ڈسٹرب کرنا غیرضروری ہے مگر بیوروکریسی مسلسل ٹرخاو پالیسی پر عمل پیرا ہے اور چار ماہ سے مسلسل تاخیری حربے استعمال کررہی ہے۔ہم نے بھی اتفاق رائے سے عزم کیا ہے کہ جب تک نوٹیفیکیشن نہیں نکلتا سکون سے نہیں بیٹھیں گے۔پروفیسروں کی برادری اپنے مطالبات پر اتفاق رائے رکھتی ہے اس لیے اس برادری کے سامنے بیوروکریسی کو ڈھیر ہونا پڑے گا۔ چیف سیکریٹری کو اپنے سیکریٹروں کے ان تاخیری حربوں کا نوٹس لینا چاہیے۔بیورکریسی کا رویہ پروفیسروں کے ساتھ انتہائی ظلم و زیادتی پر مشتمل ہے۔اپنے مراعات لینے کی بات ہو تو راتوں رات بیوروکریسی کے لوگ نوٹیفیکشن نکالتے ہیں لیکن پروفیسروں کی بات ہو تو ہزار بہانے بناتے ہیں۔صدر ارشاد احمد شاہ نے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ ہم تعلیم و تدریس جیسے عظیم شعبے سے تعلق رکھتے ہیں مگر ہم سے ہی تعلیم حاصل کرکے ایک آفیسر بن کر لیکچراروں اور پروفیسروں کو شودر سمجھنا چھوڑ دیں۔میں بیوروکریسی کو تنبیہ کرتا ہوں کہ اپنا قبلہ درست کریں اور وزیراعلی کی ڈائریکشن کے مطابق ہمارے بنیادی حقوق اور مطالبات جو دیگر صوبوں اور وفاق میں مل چکے ہیں کا نوٹیفیکیشن نکال لیں۔بیوروکریسی کے یہ تاخیری حربے کسی صورت قبول نہیں اور صوبے کے منتظم اعلی کو بے بس بنانے اور احکامات نہ ماننے سے معاشرے میں انارکی پھیلنے کا امکان ہے جو بہر حال قابل مذمت اور افسوسناک ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ وزیراعلیٰ ہنگامی طور پر ایکشن لے کربیوروکریسی کو فوری طور پر ہائرٹائم سکیل پروموشن کا نوٹیفیکیشن نکالنے پر مجبور کریں گے۔
.
پروفیسر ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری پروفیسر محمد رفیع نے وزیراعلی ہاوس کے سامنے احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایجوکیشن سیکریٹریٹ اور ڈائریکٹریٹ کی نااہلی کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہوگا کہ ایک آفیشل لیٹر کو ویریفائی کرانے کے لیے تین ماہ لگادیا، تین ماہ بعد معلوم ہوا کہ انہوں نے لیٹر ہی غلط ایڈرس پر ارسال کیا ہے۔یہ لیٹر ہم بیوروکریسی اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ذمہ داروں کو پہلے سے دے چکے ہیں۔پروفیسراحتجاج کرنا نہیں چاہتے مگر بیوروکریسی مجبور کرتی ہے تو مرد اور خواتین مل کر روڈ پر احتجاجی ریلی نکالنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔اگر بیورکریسی نے مزید ڈسٹرب کیا تو احتجاج کو انتہائی سخت بنالیا جائے گا ۔جس سے ہزاروں طلبہ و طالبات کا تعلیمی نقصان ہوگا۔اور تمام تر ذمہ داری انتظامیہ کی ہوگی۔
.
احتجاجی ریلی میں خواتین پروفیسراور لیکچرار ز نے بھی بھرپور شرکت کی۔پروفیسر حسن بانو نے وزیراعلی ہاوس کے سامنے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم وزیراعلیٰ اور بیوروکریسی سے درخواست کرتے ہیں کہ یہ دونوں بنیادی مطالبات منظور کرکے نوٹیفیکیشن جاری کریں تاکہ پروفیسروں میں پایا جانے والا اضطراب ختم ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ مردہ معاشروں اور ناکام نظام حکومتوں میں استادوں کے لیے ایسی رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں۔ زندہ معاشرے اور قومیں ، اپنے معمارانِ قوم کے ساتھ ایسا نہیں کرتیں۔ انتہائی مجبوری کے عالم میں میل پروفیسروں کے ساتھ فی میل پروفیسرز بھی روڈ پر نکل رہی ہیں ۔اگر کوئی بیوروکریسی سے تعلق رکھنے اور نوٹیفیکیشن کی راہ میں روڑے اٹکانے والے آفیسریہ سن رہے ہیں تو انہیں احساس ہونا چاہیے کہ مائیں بہنیں اپنے جائز حق کے لیے ریلی میں شامل ہیں۔ باضمیر نمائندوں اور آفیسرز کو اس سے زیادہ کیا کہا جائے کہ وہ استاد جیسے عظیم پیشے سے تعلق رکھنے والے میل اور فی میل کو احتجاجی ریلی نکالنے پر مجبور کررہے ہیں۔پروفیسر لال بانو نے کہا کہ کئی سالوں سے ہم جدوجہد کررہے ہیں ، ہر ایک سے تحریری درخواست کررہے ہیں مگر کوئی بھی ایک دو بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے بھی تیار نہیں جو قابل مذمت بھی ہے اور افسوسناک بھی ہیں۔ہم تمام خواتین پروفیسرز کی طرف سے وزیراعلیٰ ، چیف سیکریٹری اور سیکریٹری صاحبان سے گزارش کرتے ہیں کہ فوری طور پر ہائرٹائم سیکیل پروموشن کا نوٹیفیکیشن نکال کر اس کشیدگی کا خاتمہ کریں تاکہ ہم یکسوئی سے تعلیم و تربیت کا پروسیجر مکمل کرسکیں اور طلبہ و طالبات کا فائدہ ہو۔احتجاجی ریلی کے آخر میں صدر ارشاد احمد نے مزید کہا کہ پروفیسرایسوسی ایشن اپنے مطالبات کے حوالے سے سول سوسائٹی، صحافی براداری اور سوشل ایکٹوسٹ باخبر کرکے انہیں بھی ایکٹیو کرے گی اور اپنی محروموں کے ازالے کے لیے معاونت کی درخواست کرے گی۔صحافی براداری اور تمام اخبارات نے ہمیشہ سے پروفیسروں کے مطالبات اور مسائل کو اعلی حکام تک پہنچایا ہے جس پر پوری برادری ان کا ممنون و مشکور ہے۔وزیراعلی ، وزیرتعلیم اور بیوروکریسی نے کالجز اور ان کے اساتذہ کو مسلسل محروم اور نظرانداز کیا ہوا ہے۔اس کی کیا وجوہات ہیں سمجھ سے بالا تر ہیں لیکن یہ طرز عمل انتہائی مایوس کن، غیرذمہ دارانہ اور سوتیلی ماں والا ہے جو بہرحال قابل مذمت ہے۔گورنر، چیف جسٹس ، فورس کمانڈر اورچیف سیکریٹری کوبھی ایکشن لینا چاہیے۔
.
پروفیسرایسوسی ایشن اور فیکلٹی ممبران نے متفقہ اعلامیہ بھی جاری کیا جس کے مندرجات حسب ذیل ہیں۔
.
ہائرٹائم سیکیل پروموشن اور ریوائزڈ فور ٹائر کا فوری طور پر نوٹیفکیشن
29فروری تک وزیراعلیٰ ہاوس اور پریس کلب تک ریلی
2 مارچ سے پورے گلگت بلتستان کے کالجز میں کلاسوں کا بائیکاٹ
2 مارچ کے بعد ہر ضلع کے مرکزی شاہرہ پر دھرنا اور پریس کلب میں پریس کانفرنس
جب تک مطالبات کی منظوری کا نوٹیفیکشن نہیں نکلتا احتجاجی ریلی اور دھرنا جاری رکھنا اور احتجاج کو مزید موثر بنانا
بیوروکریسی کے ناروا سلوک اور تاخیری حربوں کی مذمت اور بائیکاٹ اور اپنا رویہ درست کرنے کی تنبیہ
ایجوکیشن سیکریٹریٹ اور ڈائریکٹریٹ کی سستی اورنااہلی اور تاخیری حربوں پر شدید غم و غصے کا اظہار
29 فروری کے بعداحتجاج کو موثرترین بنانے اور پورے جی بی میں پھیلانے کی نئی حکمت عملی بنانے کا اعلان
پروفیسرایسوسی ایشن اپنے مطالبات کے حوالے سے سول سوسائٹی، صحافی براداری اورسماجی کارکنان کو ایکٹیو کرنا
پروفیسروں کیساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر گورنر، چیف جسٹس ، فورس کمانڈر اور چیف سیکریٹری سے ایکشن لینے کی استدعا..

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
32568