Chitral Times

غذر،نگراورہنزہ میں موبائل ہسپتال کے ذریعےعلاج معالجے کی سہولت فراہم کی جارہی ہے،ترجمان

Posted on

گلگت(چترال ٹائمزرپورٹ) وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کی خصوصی ہدایت پر گلگت، غذر، نگراور ہنزہ کے دور افتادہ علاقوں میں جدید موبائل ہسپتال کے ذریعے عوام کو ان کے دہلیز پر علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ متعلقہ علاقوں کے عوام موبائل ہسپتال کی سہولت سے بھرپور استعفادہ حاصل کریں۔جدید موبائل ہسپتال میں ڈی ایچ کیو ہسپتال کے تمام ٹیسٹ کے سہولیات موجود ہیں۔ موبائل ہسپتال کے ساتھ ماہر ڈاکٹرز اور دیگر عملہ بھی ساتھ ہوگا۔ موبائل ہسپتال میں ایکسرے، لیب ٹیسٹ سمیت دیگر سہولیات بھی میسر ہیں۔
.
موبائل ہسپتال کا گلگت، غذر، نگراورہنزہ کے مختلف علاقوں کے دورے کا شیڈول اس طرح سے ہے۔ضلع گلگت میں بمقام چکرکوٹ بروز منگل 10 دسمبر2019، پڑی بنگلہ بروز بدھ 11دسمبر 2019 اور حراموش بروز جمعرات 12دسمبر2019۔ ضلع غذر میں بمقام گلاپور بروز منگل 17 دسمبر2019، گچ بروز بدھ 18 دسمبر2019 اور عیشی بروز جمعرات 19 دسمبر 2019۔ ضلع نگر میں بمقام چھلت بروز منگل 24 دسمبر2019، نلت بروز بدھ 25 دسمبر2019 اور مناپن بروز جمعرات 26 دسمبر 2019۔ ضلع ہنزہ میں بمقام ناصر آباد بروز منگل 31دسمبر 2019، مرتضی آباد بروز بدھ یکم جنوری 2020 اور ششکٹ بروز جمعرات 02جنوری 2020متعلقہ علاقوں کے عوام متعین کردہ تاریخ کے مطابق اپنے علاقوں میں آنے والے جدید موبائل ہسپتال سے استعفادہ حاصل کریں تاکہ صوبائی حکومت کا ویژن صحت عوام کی دہلیز پر کے ثمرات عوام کو پہنچ سکیں۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
29612

گلگت، صوبائی کابینہ اجلاس میں متعدد فیصلے، آئندہ کااجلاس ڈی چوک میں منعقد کیا جائیگا.وزیراعلیٰ

گلگت(چترال ٹائمزرپورٹ) وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے صوبائی کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اضلاع کو سیاسی مسئلہ بنایا جارہا ہے۔ آرڈر2019کے نفاز میں گلگت بلتستان حکومت نہیں بلکہ وفاقی حکومت تاخیر کا باعث ہے۔ وفاقی حکومت نے سیکورٹی کونسل اجلاس میں کیے گیے فیصلے کے مطابق گلگت بلتستان اسمبلی اور کونسل اجلاس میں آرڈر2019 منظوری کیلئے پیش کرنا تھا متعدد بار رابطے کے باوجود غیر سنجیددگی کا مظاہرہ کیا گیا۔ ہم آج بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ آرڈر2019 کو نیشنل سیکورٹی کونسل میں طے شدہ رفامز کے مطابق گلگت بلتستان اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس میں پیش کی جائے۔ نئے اضلاع کا اختیار صوبائی حکومت کے پاس ہے جسکا جوٹیفیکیشن بھی ہوچکا ہے۔ وفاقی حکومت سے کسی قسم کی محاذ آرائی نہیں چاہیے ہیں آرڈر2018 کے تحت وفاقی حکومت سے مراد دیگر صوبوں کی طرح وفاقی حکومت ہی ہے کشمیر افیرز نہیں۔ گزشتہ آٹھ مہینوں سے آرڈر میں اضلاع کی تعداد میں اضافہ کا مسئلہ حل نہیں کیا جارہا ہے۔ وزیراعظم سے بھی متعدد بار بات کی۔ نئے اضلاع کے قیام کے حوالے سے عمل درآمد کمیٹی بنائی جارہی ہے۔ جو اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے وفاقی حکومت سے رابطہ کریگی۔ اگر حل نہ ہوا تو لائحہ عمل طے کیا جائیگا۔ سی پیک کی وجہ سے سابقہ وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کیلئےPSDP کے حجم میں اضافہ کیا لیکن موجودہ وفاقی حکومت کی وجہ سے منصوبوں میں تاخیر ہورہی ہے۔PSDP منصوبوں میں تیزی، آرڈر میں اضلاع کی تعداد میں ترمیم اور نیشنل سیکورٹی کونسل اجلاس میں طے شدہ ریفامز پر عمل درآمد یقینی بنانے کیلئے وفاقی حکومت نے اقدامات نہیں کیے تو آئندہ صوبائی کابینہ اجلاس ڈی چوک میں منعقد کیا جائیگا۔
.
کابینہ اجلاس میں اعلی عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی بھی وفاقی حکومت کی وجہ سے نہیں ہورہے تھے جس کی وجہ سے گلگت بلتستان کے عوام کی انصاف کے حصول میں تاخیر کا سامنا ہے۔ صوبائی کابینہ وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ سپریم اپیلیٹ اور چیف کورٹ میں جوڈیشل کمیشن کے تحت ججوں کی تعیناتی کو یقینی بنائے۔ صوبائی کابینہ کے سپریم اپیلیٹ کورٹ اور چیف کورٹ میں ججوں کی نئی اسامیوں کی تخلیق کیلئے سفارشات وفاقی حکومت کو کی گئی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے محکمہ تعلیم، صحت اور برقیات میں عوامی مفاد کے منصوبوں کی فعالیت اور سٹاف کی کمی کو دور کرنے کیلئے سپیشل پے سکیل کے تحت منظور شدہ اسامیوں پر بھرتیاں عمل میں نہ لانے پر وزیراعلی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے30دسمبر تک سپیشل پے سکیل کے تحت اسامیوں کو مشتہر کرنے کے احکامات دیے۔ وزیراعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے سرکاری ملازمین کی ہیلتھ انشورنس پالیسی پر عمل درآمد کو آئندہ کابینہ اجلاس سے قبل حتمی شکل دینے کی ہدایت کی ہے۔
.
وزیراعلی نے ہیلتھ انڈومنٹ فنڈ کیلئے ایک ارب کی خطیر رقم مختص کرنے کے باوجود انڈومنٹ پالیسی کو حتمی شکل نہیں دینے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ روایتی طریقہ کار سے ہٹ کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اصلاحات متعارف کرانے میں تاخیر نہ ہو انڈومنٹ پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے نادار مریض مفت علاج کی سہولت سے مستفید نہیں ہورہے ہیں محکمہ صحت فوری طور پر انڈومنٹ پالیسی کو حتمی شکل دے تاکہ نادار مریض انڈومنٹ فنڈز سے مستفید ہو سکیں۔ اجلاس میں تین نئے CTسکین مشینوں کی خریداری کی بھی منظوری دی گئی اور آئندہ مالی سال کے بجٹ میں دو نئےMRI مشینوں کی خریداری کیلئے فنڈز مختص کرنے کی سفارش کی گئی۔
.
وزیراعلی نے سابقہ وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کی جانب سے گلگت بلتستان کیلئے فراہم کردہ ڈائلاسسز مشینوں کی موجودہ پنجاب حکومت کی جانب سے غیر ضروری تاخیر پر چیف سیکریٹری گلگت بلتستان کو پنجاب حکومت سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی۔ صوبائی کابینہ کے اجلاس میں واش پراجیکٹ اور انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے ملازمین کی مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع دی گئی۔سیف سٹی SPUسے الگ کیا جائے اور سیف سٹی کو Budgetedکردیں، نیز وزارت قانون اور ہوم ڈیپارٹمنٹ، سیف سٹی ایکٹ کی تیاری کرے اور آئندہ کابینہ اجلاس میں لایا جائے،حکومت پنجاب کے ماڈل پر ایکٹ لایا جائے۔
.
اجلاس میں جنگلات کو محفوظ بنانے کیلئے کابینہ نے WWF, CMIT,انتظامیہ،فارسٹ ڈیپارٹمنٹ اور کابینہ کی ایک کمیٹی بنائی گئی جو جنگلات کے تحفظ اور کٹی ہوئی لکڑی کی dispose off کرنے کیلئے سفارشات دیگی۔تمام محکموں کے کنٹیجنٹ ملازمین کی مراعات یکساں کردی جائیں۔ملازمین کو انکی دوران ملازمت وفات کی صورت گلگت بلتستان کیلئے وزیر اعلی اسسٹنٹ پیکیج باقاعدہ طور پہ نافذالعمل ہوگا۔ وزیر اعظم اسسٹنٹ پیکیج اب گلگت بلتستان میں عمل درآمد نہیں ہوگا۔ کابینہ نے وزیر اعلی اسسٹنٹس پیکیج میں مزید بہتری اور گلگت بلتستان کے معروضی حالات کے مطابق اپگڑیڈ کیا جاتا رہے گا۔ نیز وزیر اعلی اسسٹنٹس پیکیج کیسسز کو آئندہ سروسز اور جنرل ایڈمنسٹریشن محکمہ ہی دینگے۔ یہ اختیار اب جنرل ایڈمنسٹریشن اور سروسز محکموں کو تفویض کر دیا گیا۔ کابینہ نے محکمہ صحت اور بے نظیر انکم سپورٹ کے درمیان بچوں کی نشونما اور غذائیت کو بہتر بنانے کیلئے معاہدہ کرنے کی منظوری دیتے ہوئے اس بات کا بھی فیصلہ کیا اس معاہدے کے مندرجات تمام گلگت بلتستان کے تمام اضلاع پہ نافذالعمل ہونگے۔ معاہدے کی سہولیات کی فراہمی کا اطلاق گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں یکساں ہوگا۔
.
کابینہ نے بی آئی ایس پی اور آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے درمیان ہونے والے معاہددہ میں دونوں اداروں کو تاکید کی ہے کہ وہ کسی بھی معاہدہ کی سرکاری سطح کی توثیق کیلئے صوبائی حکومت سے باقاعدہ سرکاری رابطہ رکھیں اور صوبائی حکومت کے ڈیٹا سروے کو مدنظر رکھ کر نئے منصوبے شروع کیا کریں کابینہ نے جنرل نرسسز کے سروس سٹرکچر بنانے کی منظوری دی محکمہ صحت اور فنانس ڈیپارٹمنٹ کو ہدایت کی گئی کہ آئندہ دو سو نرسوں کی نئی آسامیوں کو تخلیق کی جائے تاکہ گلگت بلتستان کے تمام ہسپتالوں میں نرسوں کی کمی کو پورا کیا جائے گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں میں ماہر ڈاکٹروں کی تعیناتی کیلئے عمر کی بالائی حد اور دومیسائل میں نرمی دینے کی منظوری بھی دی گئی تاکہ نئے ماہر ڈاکٹر اور لیڈی ڈاکٹر کی تعیناتی عمل میں لا کے گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں میں ماہر ڈاکٹروں کی کمی کو فوری طور پے پورا کیا جائے۔کابینہ نے آئندہ مالی سال کے بجٹ سے تین عدد MRI مشینوں کی خریداری کی منظوری دی۔
.
علاوہ ازیں کابینہ نے ضلع شگر کے بننے کے بعد تحصیل کے ریونیو ریکارڈ کی ضلع سکردو کو منتقل کرنے کی باقاعدہ منظوری دے دی۔ کابینہ نے ضلع ہنزہ میں بجلی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے2.8 میگاواٹ بجلی منصوبہ گنش کیلئے محکمہ پانی و بجلی اورAKDNکے درمیان منصوبہ تعمیر کرنے سے پہلے فریقین کے مابین ایگرمنٹ اورTORSکا باقاعدہ تعین ہونا چاہیے۔ اس کے بعد NOCجاری کیا جائے۔ کابینہ نےPTDC موٹلز کی حکومت گلگت بلتستان کو منتقلی کی شرائط میں وفاقی حکومت کو سفارش کی گئی ہی کہPTDCموٹلز کی ریونیو کا نیٹ50فیصد منافع حکومت گلگت بلتستان کے کنسولیڈیٹ اکاونٹس میں منتقل کیا جائے۔ اس منافع کا استعمال حکومت گلگت بلتستان کا اختیار ہوگا۔18ویں ترمیم اور آرڈر2018کے تحت سیاحت کا سبجکٹ صوبوں کا منتقل ہوچکا ہے۔ اس کی روشنی میں PTDC موٹلز اپنی تمام پراپرٹیز حکومت گلگت بلتستان کو منتقل کیا جائے۔ بصورت دیگر نیٹ50فیصد ریونیو منافع اور ان موٹلز کی لیز وغیرہ میں حکومت گلگت بلتستان کے2نمائندے کمیٹی کا حصہ ہونگے۔
.
کابینہ نے زرعی ترقیاتی بنک کے ساتھ گلگت بلتستان میں زرعی ترقی کیلئے قرضوں کی فراہمی کیلئےTORSکی تیاری کیعبد ایگرمنٹ کرنے کی منظوری دی ہے کابینہ نے کہا کہ حکومت گلگت بلتستان اورZTBL کے مالی شیئرز کا اہتمام جلد کیا جائے تاکہ زرعی اور لائیو سٹاک کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ قرضے گلگت بلتستان کے عوام کو مہیا کیے جاسکے۔ کابینہ نے پلاننگ، فنانس اور متعلقہ محکمے کو ایگرمنٹ کی تیاری اور ایگرمنٹ کرنے کی منظوری دی۔کابینہ نے اپنے اجلاس میں واضع کیا ہے کہ صوبائی حکومت وفاقی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کی محاذ آرائی نہیں کی۔ آرڈر2019 کے نفاذ کے حوالے سے حکومت گلگت بلتستان نے وفاقی حکومت کو آفر دی ہے کہ وفاقی حکومت آرڈر2019کو صوبائی اسمبلی اور گلگت بلتستا ن کونسل کے جوائنٹ سیشن سے منظور کروائیں۔لیکن وفاقی حکومت نے آج تک اس پر سنجیدہ جواب نہیں دیا آج کا یہ کابینہ اجلاس اپنے متفقہ فیصلے سے وفاقی حکومت کو باور کرواتا ہے کہ نیشنل سیکورٹی کونسل کے فیصلے کی روشنی میں گلگت بلتستان میں اصلاحات کے حوالے سے جوائنٹ سیشن بلائیں۔ یہ وزیر اعظم ہاوس میں گلگت بلتستان اسمبلی، کابینہ اور گلگت بلتستان کونسل کے اراکین کو بلا کر اصلاحات کے حوالے سے اعتماد میں لیا جائے اور جوائنٹ سیشن میں پیش کیا جائے۔حکومت گلگت بلتستان وفاقی حکومت سے اب آئینی اصلاحات کا تقاضہ کرتی ہے۔
.
کابینہ نے واضع کیا ہیکہ نئے چار اضلاع داریل،تانگیر، گوپس یاسین اور روندو کی تخلیق ریونیو ایکٹ1967 کے تحت کی ہے گزشتہ چار اضلاع ہنزہ، نگر،شگر اور کھرمنگ کی تخلیق بھی اسی قانون کے تحت ہوئی اور عملدارآمد ہوا ہے۔کابینہ اجلاس وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتاہے کہ گلگت بلتستان کے صوبائی اختیارات کو چیلنج نہ کیا جائے اور محاذ آرائی کے ماحول بنائے بغیر گلگت بلتستان کے عوام کے میعار زندگی کو بہتر بنانے کیلئے نئے اضلاع کے لئے وفاقی حکومت اپنا رسمی ترمیمی فریضہ ادا کرے۔ اضلاع کی تخلیق صو بائی حکومت کا اختیار ہے اور فیڈریشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبائی حکومت اور گلگت بلتستان کے صوبائی اختیارات کو تسلیم کرکے فراخلدلی کا مظاہرہ کیا جائے۔ نئے اضلاع کے معاملے پر اضلاع کے نوٹیفیکیشن پر عملدرآمد کیلئے کابینہ کمیٹی تشکیل دینے کی منظوری دی گئی۔ کمیٹی میں حاجی حیدر خان، اقبال حسن، اورنگزیب ایڈووکیٹ، غلام محمد، سیکریٹری ہوم، سیکریٹری فنانس، سیکریٹری پلاننگ ممبر ہونگے یہ کمیٹی20دسمبر سے پہلے نئے اضلاع پر عمل درآمد کی رپورٹ دینگے۔20سمبر کے بعد صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے رابطہ کرے اور وفاقی حکومت کا تعاون حاصل نہ ہونے کی صورت میں صوبائی حکومت ا پنے لائحہ عمل کا باقاعدہ اعلان کریگی۔ کابینہ نے سپریم اپیلیٹ کورٹ اور چیف کورٹ میں ججوں کی تعیناتی کو وفاقی حکومت بذریعہ جوڈیشل کمیشن کرے۔ نیز ججوں کی اسامیوں کی تخلیق بھی وفاقی حکومت فور۱ کرے۔ کابینہ نے سیپ سکولوں کے اساتذہ کی مستقلی کیلئے محکمہ تعلیم کو ہدایت کہ وہ فورا مستقلی پر عملدآمد کروائیں۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
29540

لیڈر کون ہوتا ہے۔۔۔؟…….. تحریر: مشاہد ظفر(طالب علم)

Posted on

خودی کو جس نے فلک سے بلند تر دیکھا
وہی ہے ملک صبح و شام سے آگاہ
.
تاریخ ہمیں دو قسم کے مشاہیر (نامور لوگوں) سے روشناسی کراتی ہے، ایک وہ جو ابتدا ہی سے کوئی خاص اور واضح نصب العین نہیں رکتے بلکہ حالات انہیں حسب موقع اپنا راستہ متعین کرنے کی جانب مائل کردیتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف اپنی ذات پات تک ہی محدود رہنا ہے۔دوسروں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔چاہے جو بھی ہوجائے ان کا دوسروں سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔
.
دوسری قسم ایسے مشاہیر(نامور لوگوں) کی ہے جو ایسے فطرت اور جبلت لے کر اس خاکدانِ عالم میں آتے ہیں جو ابتدا سے ہی اپنا ایک کردار اور نقطہئ نظر رکھتے ہیں۔حالات ان کے کردار کے جوہر کو اور بھی نکھارتے ہیں اور سنوارتے ہیں۔ان کا شمار ایسے مشاہیروں میں ہوتا ہے جو اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگیوں میں بھی ترقی کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔معاشرے میں ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کمزور طبقے کے لوگوں کی مدد کرنے میں مگن رہتے ہیں اور یہ لوگوں سے رشتہ اور محبت کو مضبوط کرتے ہیں۔
.
سب سے پہلے، ایک بہترین لیڈر میں یہ تین خصوصیات ضرور دیکھنے کو ملتے ہیں۔وہ یہ کہ سیاست خاصہ، سیاست حامہ اور سیاست عامہ سیاست خاصہ سے انسان کے اپنے نفس کی سیاست مراد ہے، سیاست حامہ سے آدمی کے اپنے اہلِ خانہ کی سیاست مراد ہے، اور سیاست عامہ سے مراد شہروں اور ممالک کی سیاست ہے۔لیڈر ہی نہیں بلکہ انسان کے اندر اپنے نفس کی سیاست کے لئے لازم ہے کہ اسے تمام بُرے کام، بُرے اخلاق، حیوانی عادات اور مذموم خواہشات سے روکے، نفس کو باندھ کر اس کی تادیب کرے، اگر برا کام کریں تو مذمت اور ندامت کے ذریعے اسے سزا دے اور اچھا کرے تو تعریف، مسرت اور آئندہ بھی ایسے کام کرنے کی ترغیب کے ذریعے اسے جزا دے۔سیاست حامہ یہ ہے کہ آدمی اپنے گھر والوں اور اہل و عیال کی ان کی اصلاح کی نگہداشت کے ذریعے سیاست کرے، اور انہیں فضائل جمع کرنے اور اچھے اخلاق اپنانے کی ترغیب دے، اور ان میں سے جو برا کام کرے اس کی سرزنش وغیرہ کے ذریعے اسے سزا دے، اور جو اچھا کرے اسے تعریف وغیرہ کے ذریعے حوصلہ افزائی کرکے انعام دے۔سیاست عامہ شہروں اور ممالک کی سیاست ہے، اور شہروں کی سیاست ان کی اصلاح اور زندگی کی حفاظت کے لئے کی جاتی ہے۔نیز انہیں برے اخلاق، ان کی گھٹیا افعال سے روکا جاتا ہے تاکہ ہر شخص کا مرتبہ اور مقام محفوظ رہے۔جس نے برا کام کیا اسے سزا دی جاتی ہے اور جس نے اچھ اکام کیا تعریف اور ستائش کے ذریعے اسے جزا دی جاتی ہے، اور ان کے دین اور معاد کے امور کے اصلاح اور حفاظت کی جاتی ہے، اور لیڈربھی اسی کا نام اور صفت ہے۔یہ ایک سچی مگر کڑوی بات ہے کہ جو شخص اپنے نفس کی سیاست نہیں کرسکتا وہ اپنے اہل و عیال کی سیاست نہیں کرسکتا، اور جو اپنے اہل و عیال کی نہیں کرسکتا وہ کسی صورت میں سیاست عامہ یعنی شہروں اور ممالک میں سیاست کرنے کا کبھی بھی اہل اور قابل نہیں ہوسکتا ہے۔
.
دوسرا نمایاں اور بہترین لیڈر وہ ہوتا ہے جو پڑھا لکھا یعنی تعلیم یافتہ ہو۔کیونکہ تعلیم اور تبدیلی کا باہم گہرا رشتہ ہے کسی بھی معاشرے میں تبدیلی کے لئے تعلیم ایک مؤثر کردار ادا کرسکتی ہے۔تبدیلی کے اس سفر میں معلم کا کردار بہت ضروری اورہر اول دستے کا ہے۔یہ تعلیم یافتہ ہی ہوتے ہیں جو نوجوان ذہنوں کی آبیاری اور نشونما کرسکتے ہیں،جہان تازہ نمود کے لئے افکارِ تازہ کی تشکیل کا کام تعلیم یافتہ لوگوں کی اولین ذمہ داری ہے۔کسی بھی معاشرے میں سوچ کی تشکیل پڑھے لکھوں کی مرہون منت ہوتی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ “Readers are the leaders”جس طرح اللہ تعالیٰ نے پہلی وہی کو سرورِ کائنات آنحضرت محمدؐ پر نازل کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ ترجمہ”پڑھو اپنے رب کے پاک نام سے جس نے پیدا کیا۔آدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا۔پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے کریم ہے۔جس نے قلم سے لکھنا سکھایا۔آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا“۔اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ خداوند جب آپؐ کو دنیا کا سب سے عظیم اور بڑا لیڈر بنانے سے پہلے اُسے پڑھنے کو کہا۔کیوں کہ آپؐ اپنے علم، سچائی، ایمانداری، دیانتداری اور محبت و شفقت سے دنیا والوں میں بس جائے۔اسی طرح آپؐ کی زندگی تمام انسانوں کے لئے مشعلِ راہ بن گئی۔جس کے تعلیمات پر عمل کرکے کوئی بھی شخص دنیا میں نام پیدا کرسکتا ہے۔یاد رکھنا کوئی منشیات فروش لیڈر کسی کا تقدیر نہیں بدل سکتا۔
.
تیسری اہم خصوصیات یہ ہیں کہ لیڈر سچا، صادق و امین ہوتا ہے۔لیڈر کے لئے یہ نہایت ہی لازمی ہے کہ وہ جھوٹ نہ بولے، وعدہ خلافی نہ کرے اور امانت میں خیانت نہ کرے۔کیوں کہ کوئی بندہ جھوٹ بول کر، وعدہ خلافی کرکے اور امانتوں میں خیانت کرکے لیڈر شپ کے حقدار نہیں ہوتا۔کوئی بندہ ان تین شیطانی عادتوں کو اپنا کر لیڈر بن بھی جائے تو بحیثیت مسلمان بارگاہِ خداوندی میں بھی جواب دہ ہونا ہے۔جس دن نہ کوئی غریب، نہ کوئی امیر، نہ کوئی محتاج، نہ کوئی لاچار اور نہ کوئی (اپر، مڈل اور لاور)کلاس بنا کر لوگوں کو تقسیم کی اجائے گا۔بلکہ بارگاہِ خداوندی میں سب کے سب برابر درجے پر ہونگے۔جس میں کسی کو فوقیت حاصل نہیں ہوتا ہے۔بہترین لیڈر وہ ہوتا ہے جو سچ، وعدوں کی پاسداری اور لوگوں کے بھروسوں کو اپنا مقصد بناتا ہے۔
.
چوتھی بڑی خوبی لیڈر میں کسی قسم کا تعصب نہیں ہوتا ہے۔یہ کہ وہ بغیر کسی فرقہ پرستی، نسل پرستی اور علاقائی تعصب کے اپنے لوگوں کی مثائل کو مل بیٹھ کر حل کرتا ہے۔سفارش اور رشوت جیسی گندی بیماری سے دور رہتا ہے۔ایک سرخرو لیڈر اپنے پچھلے حکمرانوں کے غلطیوں سے سیکھتا ہے اور انہیں دوبارہ نہیں دہراتا۔اپنے مخالفین کو ساتھ لے کر ترقی میں مگن رہتا ہے۔ایماندار اور دلیر لیڈر اپنے حقوق کی پامالی کو کسی صورت برداشت نہیں کرتا۔اپنے حقوق کی بھیک نہیں مانگتا ہے بلکہ اپنے حقوق کو چھین کر لاتا ہے۔سچا لیڈر لوگوں کے زندگی کے ہر شعبے کو بہتر بنانے کے لئے ہر کوشش کو اپنا راستہ بناتا ہے جس میں تعلیم، صحت، ثقافت، خوراک، سیاحت اور کھیل سب سے ضروری ہیں۔ان تمام پر کام کرکے اپنے ترقی کی راہ ہموار کردیتا ہے۔وفادار لیڈر ہونے کی ثبوت دیتے ہوئے وہ اپنے ملک کی قانون، آئین، چاردیواری اور عزت و آبرو کا خیال رکھتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ خوشی اور غم میں عوام کے شانہ بشانہ کھڑا رہتا ہے۔مشکل وقت میں عوام کا ساتھ نہیں چھوڑتا بلکہ مشکلوں کو ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لئے لوگوں میں جوش، جذبہ، جنون اور غیرت اجاگر کردیتا ہے۔نمایہ لیڈر ہجوم دیکھا کر راستہ نہیں بدلتا کسی کے ڈر سے تقاضہ نہیں بدلتا، دوسروں کے لئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ ہمیشہ اور بھی اچھے اچھے لیڈر بنانے میں اہم کردار ادا کرتاہے۔نہ کہ اور بھی چمچا بنانے میں اچھا لیڈر کسی کے اشارے پر نہیں چلتا بلکہ دوسروں کو اچھے کام کرنے کی تاکید کرتا ہے۔میں یہ یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ اگر ہمیں اپنے اس گوشہ جنت کو ترقی کی راہوں میں گامزن کرنا ہے تو اللہ تعالیٰ اور حضور پاکﷺ کے تعلیمات پر عمل کرنا ہوگا۔آپؐ کی حیات کو پروردگار نے تمام لوگوں کے لئے بہترین نمونہ قراردیا تاکہ ہم رحمت اللعالمینؐ کو اپنا بہترین لیڈر اور اسے اپنی زندگی میں مشعلِ راہ بنائے رکھیں۔کیوں کہ پوری انسانی تاریخ میں صرف وہی ایک انسان تھے جو دینی اور دنیاوی اعتبار سے دونوں جہاں میں کامیاب و کامران ٹھہرے۔آپؐ ایک ایسا عظیم ہستی تھا جس کی حیاتِ طیبہ آج بھی ہمارے لئے زندہ ہے۔جو سادگی، مکمل انکساری، وعدوں کی پاسداری، اپنے دوستوں اور پیروی کرنے والوں کے لئے شدید محبت اور اللہ پاک اور اپنے مشن پر پختہ یقین رکھتا تھا۔آپ ؐ کی زندگی کو اللہ تعالیٰ نے خود تمام انسانوں کے لئے نمونہ قرار دیا ہے دنیا کے بے شمار مسلم اور غیر مسلم محققین، دانشوروں اور اصحاب لیاقت و فراست نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں آپؐ کی عظیم مرتبت کو تہذیب، دیانت، امانت داری، غریب پروری، بین الاقوامی مساوات، سیاسیات اور انسانی صفات کا مکمل نمونہ مان لیا ہے۔اور آپؐ کی حیات و تعلیمات کو دورِ حاضر کے مسائل کا حل اور انسانی نجات کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
آخر میں اللہ پاک کے حضور دعا ہے کہ، پروردگار عالم! ہمارے سیاسی لیڈروں میں وہ جذبہ، ایمان اور توفیق عطاء فرمائے کہ وہ سیاست کو عبادت سمجھ کر کریں۔۔۔۔(آمین)
.
بقول شاعر مشرق علامہ اقبال
اپنے لئے تو سبھی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا
اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged ,
29537

کیا 26 دسمبر کو پاکستان میں ’مکمل سورج گرہن‘ ہوگا؟

Posted on

کراچی(سی ایم لنکس)سوشل میڈیا سے لے کر درجنوں ویب سائٹس تک، جگہ جگہ یہ تذکرہ دکھائی دے رہا ہے کہ اس سال کا آخری سورج گرہن ”تقریباً مکمل سورج گرہن“ ہوگا اور اس دوران ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ جب دن میں رات جیسی تاریکی چھا جائے گی؛ اور یہ کہ پرندے بھی رات سمجھ کر اپنے اپنے گھونسلوں میں چلے جائیں گے۔ لیکن کیا یہ خبر واقعی درست ہے؟یہ سچ ہے کہ 26 دسمبر کے روز ہونے والا سورج گرہن، پاکستان کے بیشتر علاقوں میں دیکھا جا سکے گا۔ یہ بھی صحیح ہے کہ بیس سال بعد کوئی سورج گرہن پاکستان میں دکھائی دے گا، لیکن یہ بات بہرحال درست نہیں کہ وہ ”تقریباً مکمل سورج گرہن“ ہوگا جس کے دوران دن میں رات جیسا منظر ہوجائے گا۔اگر آپ بھی اسی غلط فہمی کا شکار ہیں تو خود ملاحظہ کرلیجیے۔ نیچے دیا گیا نقشہ ”ٹائم اینڈ ڈیٹ“ نامی ویب سائٹ سے لیا گیا ہے۔ اس میں 26 دسمبر 2019 کے سورج گرہن کا راستہ دکھایا گیا ہے:درمیان میں گہرے رنگ (اورنج کلر) والی پتلی لکیر ان علاقوں کو ظاہر کرتی ہے جہاں مکمل سورج گرہن ہوگا۔ یہ گہری لکیر مشرقِ وسطی میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سے ہوتی ہوئی بحرِ ہند کی طرف بڑھتی ہے جہاں یہ ہندوستان کے انتہائی جنوبی حصے اور سری لنکا سے گزرتے ہوئے، مشرقِ بعید (فار ایسٹ) میں انڈونیشیا، ملائیشیا اور فلپائن سے ہو کر بالاآخر بحرالکاہل میں جاکر ختم ہوجاتی ہے۔ یعنی یہ وہ تمام علاقے ہیں جہاں 26 دسمبر کے روز مکمل سورج گرہن ہوگا۔اس پٹی سے اوپر اور نیچے، قدرے کم گہری رنگت والے حصے میں (جو خشکی پر پیلا اور پانی میں گہرا نیلا ہے) اگرچہ سورج گرہن خاصا نمایاں دکھائی دے گا لیکن پھر بھی وہ جزوی سورج گرہن ہی ہوگا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس حصے میں تقریباً مکمل ایران اور نصف افغانستان کے علاوہ پاکستان کا جنوبی سے لے کر وسطی حصہ تک شامل ہیں۔اس حصے کے اوپر اور نیچے کی طرف بالکل ہلکے پیلے رنگ (آف وائٹ کلر) کا علاقہ ہے جو جنوب میں وسطی افریقہ کے چند ممالک اور نصف آسٹریلیا سے لے کر شمال میں سائبیریا تک چلا گیا ہے۔ اس علاقے میں بہت معمولی سورج گرہن ہوگا جسے ان مقامات پر رہنے والے لوگ بمشکل ہی محسوس کرسکیں گے۔اس سے باہر، زمین کا سارا نقشہ اپنی معمول کی رنگت پر ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ان علاقوں میں سورج گرہن بالکل بھی نہیں دیکھا جاسکے گا۔اس میں کراچی کے حساب سے جمعرات 26 دسمبر 2019 کے روز سورج گرہن کا مکمل، مختصر اور جامع احوال پیش کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ مذکورہ سورج گرہن پاکستان کے جنوبی حصوں میں سب سے زیادہ نمایاں ہوگا، جن میں کراچی کے علاوہ پسنی اور گوادر بھی شامل ہیں۔ ان تینوں علاقوں میں بالترتیب 77 فیصد، 81 فیصد اور 82 فیصد سورج گرہن ہوگا۔ تاہم اسے بھی ”مکمل سورج گرہن“ نہیں کہا جاسکتا۔پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق، 26 دسمبر 2019 کی صبح 7 بج کر 34 منٹ پر سورج کو گرہن لگنا شروع ہوگا، جو صبح 8 بج کر 46 منٹ پر اپنی انتہائی کیفیت پر پہنچ جائے گا۔ اس موقع پر جب سورج کو کراچی سے دیکھا جائے گا تو اس کا 77 فیصد حصہ تاریک ہوچکا ہوگا، لیکن 23 فیصد حصہ پھر بھی روشن ہوگا۔ یہ منظر کچھ یوں لگے گا جیسے گھنے بادل آجانے پر سورج کی روشنی کم ہوجاتی ہے۔ البتہ پھر بھی یہ کم از کم سورج گرہن کی وجہ سے ”دن کے وقت رات کا منظر“ ہر گز نہیں ہوگا۔خیر، 8 بج کر 46 منٹ کے بعد سورج گرہن ختم ہونے لگے گا اور 10 بج کر 10 منٹ پر سورج گرہن مکمل طور پر ختم ہوجائے گا۔اس طرح موجودہ سال کے آخری سورج گرہن کا مکمل دورانیہ 2 گھنٹے 37 منٹ ہوگا۔امید ہے کہ اب یہ بات بخوبی واضح ہوگئی ہوگی کہ 26 دسمبر کے روز پاکستان میں سورج گرہن ضرور ہوگا لیکن، بہرحال، وہ جزوی سورج گرہن ہوگا۔ اس بارے میں فلکیاتی اعداد و شمار کو صرف عوامی توجہ حاصل کرنے کیلیے اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا کہ جیسے یہ برصغیر کی تاریخ کا کوئی انوکھا واقعہ ہو، حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
29518

اسلام میں صحت افزا غذائیں ……….تحریر: امیرجان حقانی

اسلام دین فطرت ہے۔ دین اسلام ہی ہر انسان کے لیے مکمل ضابطہ حیات فراہم کرتا ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق اسلام میں مکمل اور واضح رہنمائی اور احکامات موجود ہیں۔اسلام نے صرف روحانیت کے اصول نہیں دیے بلکہ مادی زندگی سے متعلق تمام امور میں بہترین گائیڈ لائنزدی ہیں۔اسلام ایک ایسے معاشرے کی بات کرتا ہے جس میں انسان صحت مند ہو، توانا ہو، اعصاب مضبوط ہوں، گندگی سے پاک ہو،بیماریاں نہ ہو، جسمانی اور ذہنی طور پر مکمل و اکمل ہو،غرض ایک جامع انسان کی تعمیر اور اس کی شخصیت کی تکمیل کے لیے اسلامی تعلیمات کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔یہ ایک مشہور مقولہ ہے۔ العلم علمان، علم الادیان و علم الابدان(طب صادق، نصیرالدین تہرانی)کہ علوم دو قسم کے ہیں۔ ایک ادیان کے علوم اور ایک ابدان یعنی جسم کے علوم۔کامیاب زندگی گزارنے کے لیے صحت اور تندرستی کو بہت اہمیت اور مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس کو برقرار رکھنے کے لیے دیگر عوامل کے ساتھ متوازن غذائیں اور صفائی بہت زیادہ ضروری ہے۔

.
اس میں دو رائے نہیں کہ حفظان صحت کے لیے متوازن غذا ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔متوازن غذا سے انسان مناسب طور پر نشو و نما پاتا ہے۔ اس کی صحت برقرار رہتی ہے۔محنت و مشقت کا قابل رہتا ہے۔اللہ تعالی نے اس حوالے سے ایک آفاقی اصول ارشاد فرمایا ہے۔
.
”کھا، پیو اور اس میں حد سے آگے نہ بڑھو“۔ (الاعراف:31)یہ تین اصول ہیں جو کھانے کے حوالے سے وضع ہوچکے ہیں۔طب قدیم اور جدید کے ماہرین ہی ان تین اصولو ں کو بہتر سمجھ سکتے ہیں۔بہرصورت بہت سارے امراض کا سبب ناقص غذا یا غیر متوازن غذا ہی ہے۔بہت دفعہ غذا معیاری ہوتی ہے لیکن اس کا استعمال غیر مناسب ہوتا ہے۔اگر غذا متوازن ہو اور ضرورت کے مطابق ہو اور انسانی مزاج کے مناسب اور ضرورت سے زیادہ نہ ہو تو انسان زیادہ دیر تک بہت سارے امراض سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
قدیم عربوں کے مشہور طبیب حارث بن کلد کا قول ہے:”پرہیز دوا کا سر(بنیاد)ہے اور معدہ بیماری کا گھر ہے، ہر شخص کو وہ چیز کھانی چاہیے جو اس کے بدن کے مطابق ہو، اور کم خوراکی بہ ذاتِ خود ایک علاج ہے۔“
.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے کامل اسوہ حسنہ ہیں۔جس طرح زندگی کے ہر شعبہ میں اللہ، رسول کے احکامات موجود ہیں اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آدابِ طعام اور کھانے پینے،مناسب اور متوازن غذا کے سلسلے میں ہدایات جاری کی ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اس حوالے سے بہت واضح ہے۔آپ کے تمام معمولات محفوظ ہیں۔
آپ ﷺ کے ارشاد کردہ تمام طریقے حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہیں۔اطباء فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کے ارشادات جدید و قدیم طبی فلسفوں اور اصولوں کے عین مطابق ہیں۔ اس سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے ارشادات اور آپؓ کے اسوہ حسنہ کا خلاصہ قارئین سے شیئر کرتے ہیں۔
.
۱۔آپ ﷺ کھانے سے پہلے ہاتھ دھوتے،تاکہ کسی قسم کا جراثیم ہاتھوں کے ذریعے جسم اور معدہ میں داخل نہ ہو۔
کھانا کھانے سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے تاکہ کھانے میں ہر قسم کی برکتیں شامل ہوں اور کھانے کے بعد بھی دعا پڑھتے تاکہ اللہ کا شکر ادا ہو۔ اور کھانے کے بعد بھی باقاعدگی سے ہاتھ دھوتے تاکہ کسی قسم کی گندگی نہ ہو۔۔
۲۔آپ ﷺجب تک کھانے کی اشتہا نہ ہوتی، کبھی نہ کھاتے، اور ابھی اشتہا باقی ہوتی کہ کھانا ختم کر دیتے۔ضرورت سے زیادہ کھا کر معدہ پر بوجھ نہ بناتے۔معدہ پر بوجھ بنانا بھی کثرت امراض کا سبب ہے۔
.
۳۔ نبی کریم ﷺ کی غذائیں انتہائی متوازن ہوا کرتی تھیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہایت سادہ، نرم، ہاضم اورمانوس غذائیں کھاتے تھے۔
۴۔سبزی میں کدو،آپ ﷺ کی پسندیدہ ڈش تھی۔گوشت اور مکھن کا استعمال بھی کرتے تھے۔
۵۔جو اور گندم کی بغیر چھنے آٹے کی روٹی کھاتے تھے جو انتہائی صحت افزا ہے۔ آج کے اہل علم نے اس پر مفصل گفتگو کی ہے۔اسی طرح شہد، سرکہ، نمک، زیتون کا تیل اور کھجورو غیرہ آپ ﷺ کی مرغوب و پسندیدہ غذائیں تھی جن کی افادیت اور صحت بخش ہونے میں ساری دنیا کی قدیم وجدید طب متفق ہے۔یہ غذائیں ہر جگہ اور ہر موسم کے لیے قابل قبول ہیں اور صحت افزا بھی۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ کی غذائیں حیوانی اور نباتی دونوں طرح کی تھی۔
۶۔آپ ﷺ نے زیتون کے پھل کے استعمال کا حکم دیا۔فرمایا”زیتون کا پھل کھا، تیل استعمال کرو، کیونکہ یہ ایک ممبارک اور پاک درخت ہے“۔(ترمذی ابواب الطعام)یہاں اہل علم اور جہاندیدہ لوگ بیٹھے ہیں۔ جنوبی اور شمالی اٹلی میں ہارٹ اٹیک نہ ہونے کے برابر ہے جس کی ایک بڑی وجہ زیتون کے استعمال کی بھی ہے۔
۷۔ اسی طرح شہد کے بارے میں ارشاد باری ہے کہ ”فیہ شفا للناس“ کہ اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے اور پوری دنیا کے ڈاکٹر اس کے شفا اور صحت افزا ہونے پر متفق ہیں۔
۸۔آپ ﷺتین انگلیوں سے کھانا کھاتے تھے۔ منہ سے لقمہ دوبارہ باہر نکال کر کبھی نہ کھاتے اور ایسا کرنے سے سختی سے منع فرماتے۔ آج کی سائنس کہتی ہے کہ منہ سے نکلے ہوئے لقمہ میں سینکڑوں کے حساب سے جراثیم پیدا ہوتے ہیں اور طاقتور بھی ہوکر کھانے کے ساتھ دوبارہ معدہ اور پیٹ میں پہنچ کر امراض کا سبب بنتے ہیں۔مشاہدے میں آیا ہے کہ بچوں کو بھی چمچہ کے ذریعے منہ سے باہر نکالا ہوا خوراک دوبارہ کھلایا جاتا ہو انتہائی غیر مفید اور مضرصحت ہوتا ہے۔اس سے گریز کرنا بہت ضروری ہے۔
۹۔ آپ ﷺ موسم کی کیفیت کے اعتبار سے غذا میں تبدیلی بھی لاتے تھے۔ متضاد کیفیت پیدا کرنے والی غذاں سے پرہیز کرتے۔اسی طرح گرم اور سرد اثر رکھنے والی غذائیں بھی ایک ساتھ استعمال نہیں کرتے۔جن کی وجہ سے صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
۰۱۔ روزانہ ایک قسم کی غذا بھی استعمال نہ کرتے بلکہ ان میں تبدیلی بھی لاتے۔
۱۱۔ آپ ﷺ کھانے میں کبھی بھی جلدی نہ دکھاتے بلکہ خوب چبا کر آہستہ آہستہ تناول فرماتے۔اس سے نظام ہضم ڈسٹرب نہیں ہوتا ہے۔
۲۱۔آپ ﷺ گرم کھانوں سے اجتناب کرتے، کھانے میں پھونک نہیں مارتے،گرم کھانا معدے کے لیے درست نہیں اور پھونک مارنے سے کھانے میں جراثیم شامل ہوجاتے ہیں۔گرم اشیا کھانے کے بعد ٹھنڈا پانی پینے سے دانتوں کی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
۳۱۔آپ ﷺ بدبودار چیزیں کھانے سے مکمل پرہیز کرتے۔ہمیں بھی اس کا معمول بنانا چاہیے۔
زاد المعاد میں علامہ ابن قیم فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ غذا ئیں استعمال فرماتے تھے جن میں مندرجہ ذیل تین صفات بدرجہ اتم پائے جاتی ہیں۔
۱۔ قوائے جسمانی کے لیے مفید ہو۔
۲۔ معدے کے لیے خفیف اور نرم ہو۔
۳۔ جلد ہضم ہونے والی ہو۔
آپ ﷺ کی اشیاء خوردو ونوش سے معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ انتہائی نفیس طبیعت کے مالک تھے۔اور آپ کے حسن انتحاب سے اس بات کا بھی اندازہ خوب ہوجاتا ہے کہ آپ ﷺ کی استعمال کردہ تمام غذائیں جسم انسانی پر دوررس اور مفید اثرات پیدا کرتی ہیں اور صحت و صفائی کے ساتھ ان کا گہرا ربط ہے۔اور ہر لحاظ سے مفید ہیں۔
آپ ﷺ سادہ اورصاف پانی استعمال کرتے تھے۔کبھی اس سادہ پانی میں شہد اور دودھ اور کھجور کے خمیرے ملاکر بھی آپ ﷺ نوش فرماتے۔ یہ چیزیں بہت ہی مفید اور صحت افزا ہیں۔سادہ پانی پیاس بجھاتا ہے جبکہ دودھ، کھجور اور شہد ملا پانی پیاس اور غذا دونوں کا کام دیتا ہے۔اطبا ء کا کہنا ہے کہ شہد ملا مشروب کئی امراض کا علاج ہے۔ بلغم ختم ہوجاتا ہے، معدہ کی صفائی ہوجاتی ہے، جگر کو تقویت ملتی ہے اور جسم سے مضراثرات کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔اور انسان فرحت محسوس کرتاہے۔
امام ترمذی نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے، وہ فرماتی ہیں ”حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ مشروب پسند تھا جو میٹھا اور ٹھنڈا ہو۔“(ترمذی)
میٹھا اور مناسب ٹھنڈا پانی، جس کو ہم نارمل پانی کہتے ہیں روح کو فرحت بخشتے ہیں اور دل کو سرور آجاتا ہے۔قوائے جسمانی کو خوشی اور مسرت محسوس ہوتی ہے۔آپ ﷺ کنووں اور چشموں کا صاف پانی اور مٹکوں اور مٹی کے برتنوں کا پانی بھی استعمال کرتے۔یہ پانی بھی انتہائی ہاضم ہوتا ہے اور جراثیم بھی نہیں ہوتے۔یہ تجربہ اور مشاہدہ کی بات ہے۔
آپ ﷺصفائی کا خاص خیال رکھتے تھے۔ نفاست پسندی آپ ﷺ کی وصف خاص ہے۔گھر،معاشرہ اور ماحول کی صفائی اور مزاج کی نفاست پسندی بھی اہم امر ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرف توجہ دلائی اور ارشاد فرمایا۔”اللہ تعالی پاک و صاف ہے اور پاکی و صفائی سے محبت رکھتا ہے، کریم اور سخی ہے، کرم اور سخاوت کو پسند فرماتا ہے، اس لیے اپنے گھر بار، صحن (اور گلی کوچوں)کو صاف ستھرا رکھو۔“
ہم سب جانتے ہیں کہ آج ہمارے معاشرے اور ملک میں سینکڑوں بیماریاں صفائی کے ناقص نظام کی وجہ سے پھیلتی ہیں۔ کچرا تک ٹھکانے نہیں لگایا جاتا ہے۔آج کی طب اور جدید میڈیکل نے بھی صفائی پر زور دیا ہے۔اس کے لیے بڑے بڑے ادارے بنے ہوئے ہیں۔ صفائی، ماحول کی ستھرائی اور گرد و غبار اور ماحولیاتی آلودگی سے محفوظ رہنے کے لیے آپ ﷺ نے جو ارشادات فرمائے ہیں ان کا خلاصہ آپ کے سامنے پیش کیے دیتے ہیں۔
۱۔ رہائش کے لیے ایسا مکان بنایا جائے جو گرمی، سردی اور موسمی سختیوں سے گھر والوں کو بچا سکے۔
۲۔ جا ئے رہائش ایسی ہو کہ اس میں حشرات الارض اور موذی جانور سے محفوظ ہو اور گرد و غبار اور آندھیاں ڈسٹرب نہ کرے۔
۳۔ جائے رہائش میں ہر لحاظ سے صفائی کا مناسب انتظام ہو، بدبو اور تعفنن نوغیرہ نہ ہو۔
۴۔لٹرین اور غسل خانے گھر کے ایک کونے میں، اور بالکل الگ ہو۔متصل نہ ہو۔
۵۔ گھر معقول حد تک وسیع بھی ہو، تاکہ رہنے والے اس میں تنگی محسوس نہ کریں۔
یہ بات ذہن میں رہے کہ گھر ان اوصاف سے متصف ہونا چاہیے پھر یہ گھر حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق ہوگا۔ اس سے بہتر، مفید اور معتدل مکان جسمانی ارتقا اور صحت کی بقا کے لیے نہیں ہوسکتا۔یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے ان صفات کے سوا گھر میں رہنے والے کئی کئی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹرز ایسے مریضوں کی ہسٹری معلوم کرکے انہیں صفائی کا خاص خیال رکھنے کا حکم دیتے ہیں۔
حفظان صحت کے اسلامی اصول بے شمار ہیں جن کے ذکر کرنے کا یہ موقع بھی نہیں اور قلت وقت کا بھی خیال ہے۔ان کے صرف عنوانات پر اکتفا کرتے ہیں۔
۱۔ورزش کے حوالے سے بھی اسلام مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ حج و عمرہ اور نماز کا پورا عمل، بہترین ورزش کی مثال ہے۔عبادت کے عباد ت اور ورزش کے ورزش۔ان دونوں فرض عبادات کو ورزش کی تربیت گاہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ دونوں میں جسمانی مشقت شامل ہے۔اور اس کے ادائیگی سے صحت میں فٹنس پیدا ہوجاتی ہے۔اور فٹنس کے لیے آج کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ہم سب آگاہ ہیں۔
۲۔آپ ﷺ چہل قدمی کا خاص خیال رکھتے تھے۔حضرت ابوہریرھ رضی عنہ سے روایت ہے کہ”میں نے آپ ﷺ سے تیز چہل قدمی کرتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا”(ترمذی، باب مناقب، حدیث نمبر1582)۔سویرے چہل قدمی اور واک کی افادیت سے ہم میں سے کوئی شخص ناواقف نہیں۔آپ ﷺ مکہ سے طائف تک 110 کلومیٹر پیدل چلے تھے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ ہر اعتبار سے جسمانی طور پر فٹ اور تندورست تھے ورنا اتناطویل پیدل چلنا اور تیز واک کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
خلاصہ کلام کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ اسلام نے ان تمام چیزوں سے رکنے کا حکم دیا ہے جو مضر صحت ہیں۔ اور ان افعال اور اعمال کے کرنے کا حکم دیاہے جو انسانی صحت کے لیے مفید ہوں، بلکہ ضروری قرار دیا ہے۔آپ ﷺ کی سیرت اور احادیث میں ان تمام چیزوں کی صراحت موجود ہے جس کے ذریعے انسان مضبوط اور صحت مند زندگی گزار سکے۔انسان کی ظاہری زندگی کی نفاست اور بہتری کے ساتھ باطنی زندگی کی نفاست کے بھی احکامات موجود ہیں۔اسلام نے ظاہری زندگی کی بہتری کے لیے متوازن غذائیں، صفائی، ورزش اور باطنی زندگی کی تکمیل کے لیے،توحید الہی، اللہ کی عظمت وجلالت کا صدق دل سے اعتراف کرنا اور ہر وقت ذکرالہی لازمی قرار دیا ہے۔اللہ تعالی ہمیں بھی ان اصول و ضوابط پر عمل کرکے اپنی جسمانی اور روحانی زندگی کوکامیاب بنانا چاہیے۔اللہ ہمارا حامی وناصر ہو۔
(یہ مقالہ Scaling up Nutrition Moment Unit GB کی 3 دسمبر2019 میں دربار ہوٹل ہنزہ میں منعقد کردہ سیمنار میں پڑھ کر سنایا گیا۔)

Scaling up Nutrition Moment Unit GB

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
29364

پولیوکیسزمیں بھیانک اضافہ، رواں برس ملک میں مجموعی طورپر94 پولیو کیسز رپورٹ

کراچی(چترال ٹائمزرپورٹ) صوبہ سندھ سے پولیو وائرس کا ایک اور کیس سامنے آگیا،اورصوبہ خیبرپختونخوا میں دو مذید کیسز کے ساتھ رواں برس مجموعی طور پر اب تک 94 پولیو کیسز رپورٹ کیے جاچکے ہیں جو بھیانک شرح ہے۔تفصیلات کے مطابق محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ کی تحصیل ڈوکری میں 9 ماہ کے حسنین میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ اب تک سندھ سے 14 پولیو کیسز سامنے آچکے ہیں۔خیال رہے کہ رواں برس ملک میں پولیو کیسز میں تشویشناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اب تک سامنے آنے والے پولیو کیسز کی تعداد 94 ہوگئی ہے، یہ شرح سنہ 2015 سے بھی زیادہ ہے جب ملک میں 54 پولیو کیسز رپورٹ کیے گئے۔صرف خیبر پختونخوا میں ریکارڈ کیے گئے پولیو کیسز کی تعداد 68 ہوگئی ہے۔ 14 کیسز سندھ میں، 7 بلوچستان اور 5 پولیو کیسز پنجاب میں سامنے آچکے ہیں۔ پولیو کے خاتمے کے لیے نیشنل اسٹریٹجک ایڈوائزری گروپ بنا ہے۔اس سے قبل وزارت صحت نے کہا تھا کہ ملک کے چاروں صوبوں میں پولیو وائرس دوبارہ پھیلنے لگا ہے، وزارت کی جانب سے چاروں صوبائی دارالخلافوں کے سیوریج میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔علاوہ ازیں پولیو کے خلاف حفاظتی مہم کے لیے برطانیہ نے بھی 40 کروڑ پاؤنڈز کی امداد کا اعلان کیا تھا، اس امدادی پیکج کا اعلان پاکستان، افغانستان اور نائیجیریا کے لیے کیا گیا جس سے تینوں ممالک میں پولیو کے خاتمے کو ممکن بنایا جائے گا۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
29358

پرنس کریم آغا خان نے گلگت بلتستان کی تعمیروترقی میں بھرپور کردارادا کیا ہے..وزیر اعلی

Posted on

گلگت(آئی آئی پی) وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے گلگت بلتستان میں کمیونٹی موبلائزیشن اور دور دراز علاقوں کی ترقی میں ہزہائنس پرنس کریم آغاخان کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ ہزہائنس پرنس کریم آغا خان نے ہمیشہ گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی میں رہنمائی کی ہے اور بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ ہزہائنس پرنس کریم آغاخان کے دورہ گلگت کے موقع پر صوبائی حکومت اور آغاخان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے مابین ورکنگ گروپ بنانے کا فیصلہ ہوا تھا تاکہ گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی کے سفر کو مزید آگے بڑھایا جاسکے۔ امید ہے بہت جلد اس حوالے سے پیش رفت ہوگی۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت گلگت بلتستان نے پبلک پرائیویٹ پارنٹر شپ کے تحت منصوبوں کی تعمیر کیلئے ضروری قانون سازی کی ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارنٹرشپ کے تحت منصوبے تعمیر کئے جارہے ہیں جن کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔ پبلک پرائیویٹ پارنٹر شپ کے تحت منصوبوں کی تعمیر کا مقصد تعمیر و ترقی کے سفر میں کمیونٹی کی شمولیت کو یقینی بنانا ہے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ ہزہائنس پرنس کریم آغاخان کی جانب سے ملک بھر خصوصا گلگت بلتستان کے ثقافتی ورثے کے تحفظ کیلئے جو اقدامات کئے ہیں ان کی وجہ سے علاقے کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے اور سیاحوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہاہے۔ گلگت بلتستان حکومت نے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے میگا منصوبے تعمیر کئے ہیں تاکہ عوام کی معیار زندگی کو بہتربنائی جائے۔ ان خیالات کا اظہار وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے اسماعیلی نیشنل کونسل برائے پاکستان کے صدر حافظ شیر علی سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ صوبائی حکومت گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی کو عملی جامعہ پہنانے کیلئے ڈونرز کی بھرپور حوصلہ افزائی کرے گی۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
29324

PIA انتظامیہ مسافردشمن اقدامات کرکے چترال روٹ پرپروازوں‌ کوبندکرناچاہتی ہے.مسافر

Posted on

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) پی آئی اے نے چترال میں مسافروں سے مختلف حیلے بہانوں سے پیسے بٹورنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے جس سے چترال کے عوام کا اس قومی ائرلائن پر اعتماد اٹھ رہا ہے جبکہ فلائٹوں کی تعداد میں کمی آنے کی وجہ سے علاقے میں سیاحت کو ناقابل تلافی نقصان لاحق ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ پی آئی اے سے پشاور اور اسلام آباد سفر کرنے والے مسافروں کا کہنا ہے کہ اضافی سامان کی مد میں منہ مانگے کرائے وصول کئے جارہے ہیں۔انہوں نے یہ حدشہ ظاہر کیاکہ پی آئی اے انتظامیہ اس طرح مسافر دشمن اقدامات سے اس روٹ پر پروازوں کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے بند کرنے کی راہ ہموار کررہی ہے جوکسی بھی طرح سے قابل قبول نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ چترال اور اسلام آباد /پشاور کے درمیاں 7000روپے کرایہ ہے لیکن ائرپورٹ پہ جاکر فلائٹ کی آمد کے موقع پر ٹکٹ لینے پر 13000روپے چارج کیا جاتا ہے جوکہ اپنی جگہ ایک ظلم ہے۔ان کاکہنا تھاکہ چترال کا فضائی روٹ مکمل طور پر موسم پر منحصر ہے اور عام مسافر موسم کی سازگاری اور فلائٹ کے اپریشن کو دیکھ کر ہی ائرپورٹ جاکے ٹکٹ لیتا ہے لیکن اس قدم سے یہ مسافر بھی ہوائی سفر کرنے سے رہ جائیں گے۔ مسافروں نے اضافی سامان کے لئے بھی ہوش ربا کرائے وصول کرنے کی شکایت کی ہے جوکہ ایک پیکٹ کے لئے 5ہزار روپے کا خطیر کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
29301

ٹماٹر سے فرانس تک کا سفر…………تحریر: میرسیما آمان

Posted on

لطیفوں کی تاریخ میں یہ بات بڑی مشہور ہے کہ گدھے کو لطیفہ بہت دیر سے سمجھ آتا ہے اسلیے وہ سب سے آخر میں ہنستا ہے ۔معذرت کے ساتھ لیکن موجودہ حکومت ایسا ہی لطیفہ ہے جو بہت سو ں کو دیر سے ہی سہی مگر سمجھ آ گئی ہے لیکن ” بہت سوں ” کو سمجھ آنا ابھی بھی باقی ہے۔۔بحر حال پچھلے دنوں وزیر اطلاعات خیبر پختو نخواہ شوکت یوسفزئی کے اس بیان یعنی( ٹماٹر نہیں تو دہی کا استعمال کرلیں ) نے فرانس کی اس ملکہ کی یاد دلادی جس نے روٹی کا نعرہ لگانے والی تنگ دست عوام کو ” کیک ” کھانے کا مشورہ دیا تھا،،انقلاب فرانس پر نظر دوڑائیں تو تار یخ کے اوراق یہ بتاتے ہیں کہ کنگ لوئیس کے دور حکومت میں فرانس دو طبقوں میں بٹا ہوا تھا ایک وہ جسکے لیے فرانس جنت کا ایک ٹکڑا تھا۔ جو سونے کے چمچ سے اور چاندی کے پلیٹوں پر کھانا کھاتے تھے ،دو سو ایکڑ کے محلوں میں رہتے تھے عام لوگوں پر ٹیکس لگانے کی انکو آذادی تھی یہاں تک کے دس قتل تک انکو معاف تھے ۔۔۔
.
دوسرا طبقہ وہ جو ضروریات زندگی تک سے محروم تھا،انکو کھانے کے لیے کھانا ، پہننے کے لیے کپڑا اور رہنے کے لیے چھت تک میسر نہ تھا،،امراء کے ظلم کا شکار یہ طبقہ تعلیم ، صحت اور برابری کے حقوق سے بالکل محروم تھا۔آخرکار حالات یہاں تک پہنچے کہ ملک میں قحط پڑ گیا عوام بادشاہ کے محل کے سامنے اکھٹے ہوئے اور ”’ روٹی روٹی روٹی ”’ کا نعرہ لگانے پر مجبور ہوگئے،،بادشاہ کی جوان ملکہ نے بالکونی سے نیچے یہ منظر دیکھا تو انکا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا کہ ” اگر انکو روٹی نہیں ملتی تو یہ لوگ کیک کھا لیں۔۔۔”یہ طبقہ بھوک پیاس سے بلکتا رہا اور اشرافیہ انکا تمسخر اڑاتا رہا،،اسوقت فرانس کی حالت ایسی ہوچکی تھی کہ رشوت قانونی صورت اختیار کرچکی تھی حتیَ کہ مُردوں کو بھی رشوت کے بغیر دفنانا نا ممکن تھا،سرکاری نظام بالکل بیٹھ چکا تھا،ایسے حالات میں عوام کے لیے سانس لینا بھی مُحال ہو چکا تھا،ان حالات میں ۱۴ جولائی ۱۷۸۹ کو لوگوں کا ایک گروہ اٹھا ہاتھوں میں ڈنڈے لیے یہ پیرس کی طرف روانہ ہوئے،حکومت نے جب یہ صورتحال دیکھی تو انکو باغی قرارا دیتے ہوئے فوج کو انھیں کچلنے کا حکم دے دیا،لیکن اس سے پہلے کہ فوج کچھ کر پاتی یہ گروہ خود لاکھوں باغیوں کا فوج بن گیا اس گروہ نے پیرس پہنچ کر ہر اس شخص کی گردناُڑادی جو دن میں ۳ بار کھانا کھاتا تھا جسکے پاس ایک سے ذیادہ جوڑے کپڑے تھے جسکے گھر رات کے وقت روشنی ہوتی تھی اس انقلاب میں فرانس کے محروم طبقے نے بالائی طبقے کے تمام وزیروں مشیروں سفیروں تاجروں حتی کے تما م خوشحال افراد کو ابدی نیند سُلا دیا۔۔
.
اس ہجوم نے بادشاہ کے محل پر حملہ کیا اُسے گھسیٹتے ہوئے سڑکوں پر لاکر سرعام پھانسی دے دی اور اس جوان ملکہ کو ایک انتہائی تنگ مورچے میں قید کردیا،،تاریخ کے اوراق یہ بتاتے ہیں کہ یہ سزا ” ملکہ ”’ پر اسقدر بھاری گزری اس پر اسقدر ہیبت طاری ہوئی کہ محض ایک ماہ کے اندر ملکہ کے سر کے سارے بال سفید ہو چکے تھے،،،یہ انقلاب ۱۷۹۲ تک جاری رہا اور اسکے بعد فرانس میں بادشاہت کا دور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا،،،جو تاریخ میں انقلاب فرانس یا فرینچ ریولیشن کے نام سے رقم ہے۔۔
.
اب واپس اپنی ریاست کی طرف آئیں جسکا نام غلطی سے ریاست مدینہ رکھ دیا گیا تھا لیکن اسکا حالیہ منظر انقلاب فرانس سے پہلے کے حالات سے ذرا بھی مختلف نہیں۔نیا پاکستان جہاں ڈالر کی قیمت ۱۵۵ سے اوپر جا چکا ہے،جہاں گرو تھ ریٹ ۵.۸فیصد سے گر کر ۲.۵٪ ،جہاں شرح سود ۱۳،۵۰٪ ۔جہاں بجلی ۲۰۰٪ اور گیس ۲۵٪ مہنگی ہو چکی ہے جہاں مہنگائی کی شرح ۴٪ سے بڑھ کر ۱۳٪ تک پہنچ گئی ہے اور عالمی بنک کے مطابق مزید اضافہ ہوگا،جہاں معشیت تباہ تعلیم اور ہسپتالوں کی حالت پہلے سے بھی بد تر اور بے روزگاری دوگنی ہو چکی ہے۔۔لیکن ان تمام مسائل کی وجہ صرف یہ ہے کہ پچھلی حکومت چور تھی،،کبھی کبھار مجھے خیال آتا ہے کہ ۱۹۴۷ کو جب پاکستان بنا توسٹاک ایکسچینج کی صورت حال کیا تھی؟ صفر،تعلیمی حالت صفر،گروتھ ریٹ صفر،،وہ بھی کسی مائی کے لال تھے جنھوں نے آزادی کا تصور پیش کیا،، ملک کو ازاد کیا اور صفر پوائنٹ سے اس ملک کا آغاز کیا۔۔۔ اس ملک کو چلایا۔۔اگر ماضی کے خسارے کا رونا ہی روتے رہتے تو آج ہم کہاں ہوتے؟/۔۔اگر ہم پارٹی ازم سے نکل کر ایمانداری سے صرف ایک لمحہ سوچیں تو اسوقت پاکستان کی موجودہ حالت فرانس کے اُس دور سے قطعی مختلف نہیں۔۔
.
ٹیکس کا پورا زور عوام پر لاد کر یہ نام نہاد حکمران اپنا بال بھی بیکا نہیں کر رہے ہیں،، اس پہ مستزاد یہ کہ ہر موقع پر یہ غیر سنجیدہ بیانات دے کر غریبوں کا تمسخر اُڑارہے ہیں ، مسئلہ ٹماٹر کا نہیں عوام پچھلی حکومتوں میں بھی کبھی آٹے کے بحران تو کبھی چینی کی بے چینی تو کبھی بد ترین لوڈ شیڈنگ جیسے مسائل سے نبرد آزما ہوچکی ہے،،،سچ تو یہ ہے کہ غربت بے روزگاری اور مہنگائی اس ملک کا تاریخی ورثہ رہے ہیں۔ مسئلہ اس ڈھٹائی کا ہے جو آئے روذ دیکھنے کو مل رہا ہے،،جاتے جاتے میں اس بیان پر ایک نظر اور ڈالنا چاہتی ہوں جس کے آخری الفاظ کچھ اسطرح تھے کہ ”’ پاکستانی عوام کا مسئلہ یہ ہے کہ جو چیز مہنگی ہو جاتی ہے اسکے پیچھے پڑجاتے ہیں ،،اس سے بہتر ہے اسکا استعمال چھوڑدو اس سے جان چھڑاو “‘ وزیر اعلی صا حب کا یہ بیان جتنا مضحکہ خیز ہے اس سے کہیں ذیادہ تلخ ہے ریاست کے اس خلیفہ سے کوئی جاکر پوچھیں کہ اس وقت مارکیٹ میں سستی چیز کیا ہے؟؟ماچس کی ایک ڈبیہ ،،،جس سے اس نظام کو اگ لگایا جاسکے ہاہ۔۔۔ یا غریبوں کے جذبات یا انکے جانیں کیا چیز سستی ہے؟/ آپ تمام مسائل ایک طرف ڈال دیں صرف مہنگائی کو لے لیں ایک عام ادمی کی قوت ِ خرید جواب دے چکی ہے۔۔
.
ایک رپورٹ کے مطابق اسوقت ملک میں ۸ کڑوڑ عوام مہلک بیماریوں میں مبتلا ہیں جن میں سہر فرست دماغی امراض ہیں جسکی بڑی وجہ ڈپریشن ہے اور ڈپریشن کی بنیادی وجہ کچھ شک نہیں کہ غربت بے روزگاری اور مہنگائی ہے۔۔اور لمحہ فکریہ ہے کہ رواں سال سب سے ذیادہ خود کشیاں رپورٹ ہوئیں،،ریاست کے حالات یہ ہیں اور خلیفاوں کے بیانات دیکھ کر لگتا ہے کہ انکو اٹکھلیاں سوجھی ہیں، موجودہ حالات ہر اُس شخص کے لیے پریشان کن ہیں جو حلال کماتے ہیں جو ان حالات میں بھی پریشان نہیں وہ یا تو حلال نہیں کماتے یا پھر ۔۔۔۔۔۔۔
.
بحر حال یہ تمام حالات ایک طرف ریاست کے ان خلیفاوں کے ان غیر سنجیدہ اور اُوٹ پٹانگ بیانات نے جہاں ملک کے اندر ابہام پیدا کیا ہے وہی ان بیانات نے انکا اپنا خود غرض ،، غیر سنجیدہ اور سفاک چہرہ عالمی سطح پر واضح کردیا ہے جو کہ خود ان کے لیے باعث شرم مقام ہے۔ آنیوالا وقت ملک کو کس دوراہے پہ کھڑا کرتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ایک بات اچھی طرح سمجھ آگئی ہے کہ گھر ہو یا ریاست اسے چلانے کے لیے سربراہ کی صرف قابلیت ہی درکار نہیں ہوتی بلکہ خلوص اور اہلیت ذیادہ اہم ہوتی ہے اور دوسری طرف ان حالات پر دل یہی کہتا ہے کہ ”’ یہ قوم ذیست سے بے ذار ہونے والی ہے ”’

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
29184

سردیوں کی چھٹیاں 15دسمبرسے کئے جائیں……گلگت بلتستان ٹیچرز ایسو سی ایشن استور

Posted on

گلگت (چترال ٹائمزرپورٹ ) گلگت بلتستان ٹیچرز ایسو سی ایشن ڈسٹرکٹ استور کا ایک اہم اجلاس زیر صدارت صدر ٹیچرز ایسو سی ایشن ڈسٹرکٹ استور منعقد ہوا جس میں گلگت بلتستان کے اساتذہ کو درپیش مسائل کا مناسب حل اور علاقے میں معیاری تعلیم کو بہتربنانے کے لئے اقدامات اور ڈسٹرکٹ بھر میں 6 نومبر سے 27نومبر تک ہونے والی برف باری اور بارشوں کی وجہ سے استور بالا کے اساتذہ اور طلباء کو درپیش مسائل بھی زیر بحث آئے۔

اجلاس کے آخر میں اتفاق رائے سے مندرجہ ذیل قرارداد منظور کی گئی۔
۱۔ گزشتہ پانچ سالوں سے گلگت بلتستان کے گریڈ 16 کے اساتذہ کی ترقیاں مختلف حیلے بہانوں اور خود ساختہ رکاوٹوں کے ذریعے اساتذہ کوان کے قانونی حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔آج کا یہ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ گریڈ 16کے حقدار اساتذہ کو فی الفورپروموشن دیا جائے۔
.
۲۔ ESTاساتذہ جو کہ تعلیمی اداروں کی جان ہیں اور ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ان کی پوسٹوں کو اپ گریڈ کر کے 16کیا جائے۔
.
۳۔ یکم جون 1991کی واضح نوٹیفیکیشن جس میں MT BS-7،TUGT بی9کی پوسٹوں کو اپ گریڈ کیا گیا اس وقت اس پر عمل درآمد بھی ہوا .
لیکن اس کے بعد 1992سے 2003تک اساتذہ کی تقرری BS-7میں کر کے یکسر نا انصافی کی گئی۔ آج کا یہ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ ان ساتذہ کو تاریخ تقرری سے BS-9دیکر نا انصافی کا ازالہ کیا جائے۔
.
۴۔ ایک عرصے سے اساتذہ کی پوسٹوں پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔آج کا یہ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ اساتذہ کی پوسٹوں کا بندرباٹ بند کیا جائے اور پوسٹوں کو دوبارہ محکمہ تعلیم کو شفٹ کیا جائے۔
.
۵۔ سروس ٹریبونل کے فیصلے کے مطابق جی بی کے اساتذہ کو دیگر صوبوں کی طرح تعطیلات کا کنونس الاؤنس کی ادائیگی فوری کی جائے۔
.
۶۔ آج کا اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ جدید تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے اور معیاری تعلیم کو یقینی بنانے کے لئے ورکشاپس کا اہتمام کیا جائے۔
.
۷۔ سینئر پوسٹوں کی تعیناتی میں میرٹ اور اہلیت کا خیال رکھتے ہوئے سینئر اساتذہ کو نظر انداز نہ کیا جائے۔
.
۸۔ ایک عرصے سے اساتذہ کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کی جاری ہے اور معمول کے کام بھی نہیں ہورہے ہیں۔قوم کے معماروں کے ساتھ جو منفی رویہ رواء رکھا جارہا ہے یہ ایک سازش سے کم نہیں جس کے نتائج خطرناک حد تک نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔
.
۹۔ ڈسٹرکٹ استورمیں 6نومبر سے 27نومبر تک ہونے والی برفباری اور شدید بارشوں کی وجہ سے طلباء اور اساتذہ کو سکول آنےجانے میں سخت خطرات اور مشکلات کا سامنا ہے۔ اسلئے آج کا اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ موسم سرما کی تعطیلات 15دسمبر سے کئے جائیں اور موسم گرما کی تعطیلات کو کم کئے جائیں۔
.
آج کا یہ اجلاس اس عہد کی بھرپور تجدید کرتا ہے کہ گلگت بلتستان کے اساتذہ معیاری تعلیم کو یقینی بنانے کے لئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
29178

آغا خان ایجوکیشن سروس گلگت بلتستان کے زیراہتمام جاری ہم نصابی مقابلے اختتام پذیر

Posted on

گلگت ( چترال ٹائمزرپورٹ ) آغا خان ایجوکیشن سروس گلگت- بلتسان، پاکستان کے زیراہتمام مصروف عمل تمام سکولوں کے طلبہ کے مابین (RSDU) ریجنل سکولز ڈیویلپمنٹ یونٹ کی سطح پرہونے والی ہم نصابی سرگرمیوں کے مقابلے پچھلے دنوں اختتام پذیر ہوئے ۔ جن میں تلاوت قران کریم ، نعت خوانی، قومی اور ملی نغمے، سوالاو جواب ، تقاریر، مباحثے، اسٹیج ڈرامے ، مختلف پروجیکٹس کی پرزینٹیشن ، مضمون نویسی ، شعرو شاعریکی کئی ایک نشستوں کے علاوہ کھیلوں میں فٹ بال ، والی بال اور کرکٹکے مقابلے شامل تھے ۔
.
تفصیلات کے مطابق تعلیمی سال برائے 2019-20کے آغاز سے آغا خان ایجوکیشن سروس گلگت بلتسان کی اعلیٰ قیادت نے باہمی افہام و تفہم اور مشاورت سے یہ طے پایا تھا کہ طلبہ کی تعلیمی سرگرمیوں کو اُجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے اندر موجود مخفی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کی بھی ہرممکن کوشش کی جائے تاکہ ادارہ بچوں کی صلاحیتوں کو درست خطوط پر پرکھتے ہوئے اُن کے درخشان مستقبل کےلیے مخصوص پیشہ وارانہ تعلیم کے بہتر زاویوں کا انتخاب کرنے میں کامیابی سے ہم کنار ہو سکے ۔ آغاخان ایجوکیشن سروس کا اولیں مقصد نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں کے ذریعے طلبہ کی پوشیدہ اور مثبت صلاحیتوں کی کھوج بین کرتے ہوئے اُن کی علمی اور ذہنی پرداخت کرنا اور انہیں ملک کا بہترین شہری بنانا ہے تاکہ ادارہ ہذا کی زیر نگرانی علم و ہنرسےمستفید ہونے والی نوجواں نسل عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد اپنے فہم ادراک و دانشمندی اور علمی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ و ارفع اخلاقی اقدار کے حامل افراد کی صف میں استادہ ہو سکے۔ مذکورہ ہم نصابی سرگرمیوں کا انعقاد اسی خیال کو عملی جامہ پہنانے کی پہلی کڑی تھی جس میں آغا خان ایجوکیشن سروس کے تمام سکولوں میں ہم نصابی سرگرمیوں کے مقابلوں کا اہتمام کیا گیا ۔ ان مقابلوں کا طریقہ کار اس انداز سے ترتیب دیا گیا تھا:
1. ہر (RSDU) اپنی زیر نگرانی مصروف عمل سکولوں کے بچوں کا آپس اندرونِ سکول مقابلہ کروائیں گے اور جیتنے والے طلبہ کو اگلے مرحلے میں شرکت کےلئے تیار کریں گے
2. دوسرے مرحلے میں اپنے اپنے سکولوں سے مختلف مقابلے جیتنے والے طلبہ کا مقابلہ (RSDU) کی زیر نگرانی چلنے والے باقی سکولوں سے ہوگا ۔
3. تیسرا مقابلہ ریجنل سطح کا ہوگا اوراُس مقابلے میں جیتنے والے طلبہ فائنل راونڈ کے اہل قرار دیئے جائیں گے
4. چوتھا اور آخری مقابلہ گلگت بلتستان سطح پر ہوگا ۔
اِن دنوں آغا خان ایجوکیشن سروس گلگت کے سکولوں کے مابین ہم نصابی سرگرمیوں کا سلسلہ دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے ۔ سرگرمیوں کے اس دوسرے مرحلے میں پچھلے دنوں (RSDU) گلگت اور (RSDU) اشکومن پنیال کےسکولوں کا آپس میں مقابلہ ہوا ۔ گلگت میں میزبانی کے فرائض لوکل ہائیر سیکنڈری سکول سونی کوٹ نے نبھایا ۔اس پروگرام کی نظامت سکول ہذا کی انگلش ٹیچر رہیلہ آمان، دو ہونہار طالبات طیبہ اور سدرہ نے اُردو اور انگریزی زبان میں انجام دی تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اس کے بعد میزبان سکول کی طالبات نے نبی پاک ﷺ کی شان میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے۔ نعت رسول ﷺ کے بعد سکول ہذا کی طالبات نے ایک قومی نغہ گا کر افواج پاکستان کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرکے خوب داد حاصل کی ۔ اس پروگرام کی صدارت اسماعیلی ریجنل کونسل گلگت کے پریزیڈنٹ جناب نعیم اللہ نے فرمائیجبکہ سنئیر منیجر سکول ڈیویلپمنٹ جناب شاہ اعظم خاص مہمان کے طور پر مدعوتھے ۔ ہم نصابی سرگرمیوں کے مقابلوں کے آغاز سے قبل ہیڈ آف آر- ایس -ڈی – یو گلگت ریجن جناب فضل الرحمان نے ہم نصابی سرگرمیوں کی ضرورت اور اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے سنیئر منیجر جناب شاہ اعظم جیسی شخصیات کی شرکت کو طلبہ کی حوصلہ افزائی کا بہترین طریقہ قرار دیا اور اس خطے میں بچوں کی تعلیم اوراُن کی تربیت پرآغا خان ایجوکیشن سروس گلگت بلتستان اور چترال کے جنرل منیجر ( بریگیڈئیر ریٹائرڈ ) خوش محمد خان کی پُر خلوص کاوشوں کو سراہتے ہوئے اُن کی ولولہ انگیز قیادت کو تعلیم کےمیدان میں گلگت بلتستان کے لئے روشنی کے مینار سے تشبیہ دی ۔ تقریب سے ریجنل ایجوکیشن بورڈ کے چئرمن عبد الرشید اور مہمانوں میں سے محبوب علی خان نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور آغا خان ایجوکیشن کی کوششوں کو سراہا
مہمانوں کی گفتگو کے بعد طلبہ کے درمیاں کانٹے دار مقابلوں کے بعد جیتنے والی ٹیموں میں تعریفی اسنادکی تقسیم کی ایک شاندار تقریب بھی منعقد ہوئی اور مہمانوں نے جیتنے والے طلبہ میں انعامات تقسیم کئے ۔

(RSDU) پنیال اشکومن میں تقریبات :
(RSDU) پنیال اشکومنکی سطح پر ہونے والی ہم نصابی سرگرمیوں کے مقابلے کی تقریبات گورنمنٹ ڈگری کالج گاہکوچ کے ہال میں منعقد ہوئیں ۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول ﷺ سے ہوا ۔ پروگرام کی صدارت اسماعیلی ریجنل کونسل غذر کے پریذیڈنٹ جناب دادو خان صابرنے کی جبکہ آغا خان یونیورسٹی کی ممبر محترمہ ساجدہ مہمان خصوصی تھیں ۔ آغا خان ایجوکیشن کے سنئیر منیجر جناب بلبل خان نے پروگرام کے اغراض و مقاصد بیان کیے اور ہیڈ آف آر- اس – ڈی – یو اشکومن پنیال جانب ضرب علی نے اس تقریب میں شرکت پر مہمانوں کا شکریہ ادا کیا

(RSDU) گلگت کی سطح پر جیتنے والے سکولوں اور طلبا و طالبات کی تفصیل :

مقابلہ—————————————–سکول———————————جیتنے والوں کے نام
نعت خوانی………………………………………..ہائی سکول محمد آباد…………………….سلمہ
ملی نغمہ…………………………………………..ہائی سکول سونی کوٹ………………….عقیلہ
سوال و جواب (معاشرتی علوم )…………………ہائی سکول نومل…………………………تاشفین
سوال و جواب ( سائنس )………………………..ہائی سکول دنیور………………………….سریم
مضمون نویسی ( انگریزی)……………………..ہائی سکول سونی کوٹ……………………ذادی
مضمون نویسی ( اُردو)………………………….ہائی سکول محد آباد……………………….نازیہ
تقریر ی مقابلہ……………………………………ہائی سکول سونی کوٹ……………………سلطانہ
نقشہ کشی………………………………………..مڈل سکول ذولفقار آباد…………………….انوشہ
اسٹیج ڈرامہ……………………………………..مڈل سکول ذولفقار آباد……………………..تمثیلہ اور ساتھی
مباحثہ ( اتفاق)………………………………….ہائی سکول سونی کوٹ……………………..سدرہ
مباحثہ ( اختلاف)……………………………….ہائی سکول دنیور……………………………زرکاش
فٹ بال ( طلبا) ……………………………..ہائی سکول دنیور……………………………مجتبیٰ اور ٹیم
والی بال ( طالبات)……………………………..ہائی سکول سونی کوٹ …………………….مہرین اور ٹیم
کرکٹ ( طلبا)…………………………………..ہائی سکول رحیم آباد………………………..علیاں اور ٹٰم
کرکٹ ( طالبات) …………………………….ہائی سکول سونی کوٹ……………………..فاطمہ کرن اور ٹیم
.
RSDU) پنیال اشکومن کی سطح پر جیتنے والے سکولوں اور طلبا و طالبات کی تفصیل

نعت خوانی………………………………….. ہائی سکول سنگل…………………………….تحسین
ملی نغمہ …………………………………… ہائی سکول سنگل ……………………………رانیہ اور ساتھی
مباحثہ ……………………………………… ہائی سکول مومن آباد………………………….صبا
پروجکٹ پرزنٹیشن………………………….ہائی سکول چٹور کھنڈ ……………………….فریحہ کریم اور ساتھی
ڈرامہ ( اُردو)………………………………..ہائی سکول پھکورہ …………………………..عالیہ اور ساتھی
تقریر ( انگریزی)……………………………ہائی سکول چٹور کھنڈ ………………………..کویتا
مضون نویسی ( اُردو)……………………….ہائی سکول چٹور کھنڈ………………………..شگفتہ
مضمون نویسی ( انگریزی)…………………ہائی سکول پھکورہ…………………………..آسیہ
سوال و جواب ( سائنس )……………………ہائی سکول اشکومن…………………………..علینہ
سوال و جواب ( معاشرتی علوم )…………..ہائی سکول چٹور کھنڈ …………………………باسط علی
نقشہ کشی ……………………………………ہائی سکول چٹور کھنڈ…………………………..نعزش صبا
.
دونوں تقریبات میں جنرل منیجرآغا خان ایجوکیشن گللگت بلتستان اور چترال ( ریٹائرڈ بریگیڈئیر) خوش محمد خان کا والدین ، طلبہ اور اساتذہ کے نام پیغامات سنائے گئے ۔ یاد رہے کہ جنرل منیجر ایک میٹنگ کے سلسلے میں گلگت سے باہر ہیں ۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ آغا خان ایجوکشن سروس جہاں علاقے کی نوجواں نسل کو معیاری تعلیم سے بہرہ ور کروا رہی ہے وہاں اُن کی کردار سازی پر بھی اپنی گہری توجہ مبذول کی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ تعلیم ہماری نظر میں طوطے کی رٹ سے کچھ زیادہ معنی خیز نہیں جوطلبہ میں اخلاقی اقدار کی پاسداری کی لہروں کو جھنجھوڑ کر جگانے میں نا کام ہو ۔ ہم نوجوانوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک ایسی تربیت سے گزارنا چاہتے ہیں کہ ہماری نوجواں نسلایک بہترین افاقی شہری بن کر عملی زندگی میں قدم رکھے ۔ لہذا ہم ان سرگرمیوں کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس بچے کے اندر کونسی ایسی صلاحت موجود ہے کہ جسے پروان چڑھانے سے وہ ایک کامیا ب انسان بن سکتا ہے ۔ انہوں نے ایسے شاندار سرگرمیوں کے انعقاد پر آر-ایس- ڈی -یو سکولوں کے ہیڈز ، اساتذہ اور طلبا و طالبات کی سخت محنت پر اُنہیں خراج تحسیسن پیش کیا ۔
.
تقریب کی خاص مہمان محترمہ ساجدہ اور صدر محفل دادو خان صابر نے اپنی اپنی تقاریر میں علاقے کی نوجواں نسل کو علم کی جدید جہت پر استور کرنے پر آغا خان ایجوکیشن کی کاشوں کو سراہتے ہوئے گلگت بلتستان کی پیشہ وارانہ قیادت کی دوراندیشی کی سنہرے الفاظ میں تعریف کی ۔ اسی طرح یہ پروقار تقریبات چائے کی تواضع کے ساتھ اختتام پذیر ہوئیں
gilgit and ishkoman akesp competition concludes 2

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
29141

گلگت، آغاخان ہائیرسیکنڈری سکول گاہکوچ کی یوم تاسیس کے موقع پر تقریب

Posted on

گاہکوچ (چترال ٹائمز رپورٹ) آ غا خان ہا ئیر سیکنڈری سکو ل گا ہکو چ کا سولہ واں یو م تا سیس ا نتہا ئی جو ش و خرش سے منایاگیا۔تقریب کے مہما ن خصو صی غلام محمد مشیر خوراک جی۔ بی گور نمنٹ اور صدر محفل ڈا کٹر عبدالعزیز د ینا ر سینئراسکا لر ا طرب برا ئے پا کستا ن کے ساتھ حبیب الرحمن اسسٹنٹ کمشنر اشکو من پو نیا ل کے اعلا وہ سرکاری و غیر سرکاری ا ور آ غا خا ن ا یجو کیشن سروس جی۔ بی کے اعلیٰ حکا م اور وا لد ین کی کثیر تعدا د نے شر کت کی۔

تقریب کا با قا عدہ آ غا ز تلا وت کلا م پا ک سے ہوا۔ سکو ل کے پر نسپل محمد جہا نگیر خا ن نے تما م مہما نا ن اور والدین کو خو ش آ مدید کہا اور سکو ل کی سا لا نہ کا ر کردگی سے آ گا ہ کر تے ہو ئے ا طمینا ن کا اظہا ر کیا کہ سکو ل کی کا رکردگی شا ندارہے۔ تعلیمی سا ل 2018ء اور2019ء کے ا متحا نا ت میں 90فیصد طلبا ء AاورA+ گر یڈ میں پا س ہو ئے 4 طلبا ء و طا لبا ت نے AKUEB کے ا متحا نا ت میں Subject Distinctions حا صل کیے۔ 57.53 طلباء فصد A+ 32.43فیصد A 8.8 Bاور0.07 فصدC گر یڈ میں کا میا ب ہو ئے،اس کے علاہ اب تک 7 بچے uwc میں زیر تعلیم ہیں، 16 بچے ملک کے معیا ری درسگا ہو ں میں دا خلہ لینے میں کا میا ب ہو گئے ہیں۔ ا نشا اللہ کا میا بیو ں کا یہ سفر آگے بھی جا ری ر ہے گا،سکول کو جوان عزم محنتی اور دیا نت دار پیشہ ور ا سا تذ ہ کی خد مات، والدین،گو ر نمنٹ انتظا میہ اورAKESPکابھر پو ر تعا ون حا صل ہے ۔

تقر یب کے صدر محفل ڈا کٹر عبدلعز یز د ینا اور اسسٹنٹ کمشنر اشکو من پو نیا ل حبیب الر حمن نے سکو ل کی شا ندا ر کا میا بیو ں پر سکو ل کے پر نسپل اساتذہ بچو ں اور والد ین کو مبا رک با د پیش کی AC اشکو من پو نیا ل نے بچو ں کے ڈرا مے،ملی نغمے اور قوا لی کی شاندار الفاظ میں تعر یف کی اور آ غا خا ن ہا ئیر سکینڈ ری کو پا کستا ن کا بہتر ین سکو ل قرار دیا۔ ڈاکٹر عبد لعز یز د ینا ر نے سکو ل کی کا ر کردگی پرخو شی کا ا ظہا ر کرتے ہو ئے بتا یا کہ آج سر سلطا ن محمد شا ہ کی رو ح مسکرارہی ہو گی اُ نہو ں قیا م پا کستا ن سے قبل اپنی ڈا ئمنڈ جو بلی کے مو قع پر جی۔بی کو ڈی۔جے سکو لو ں کا جو تحفہ دیا تھا آج اُس کا پھل سا منے آرہاہےعصر ی تقا ضو ں کے عین مطا بق علم حا صل کر نا وقت کی اہم ضروت ہے مگر اپنی تہذیب و ثقا فت اور اپنے اقدار کے اندا ر ر ہتے ہو ئے زند گی گزار نا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے ثقا فت مردہ چیز و ں کا نا م نہیں ہے بلکہ ثقا فت ا نسا نی سو چ کی عکا سی کر تی ہے اور ا نسا نی سوچ کھبی منجمد نہیں ہو تی۔انہو ں نے مزید بتا یا کہ ہم ہز ہا ئنس پر نس کر یم آ غا خا ن کے بھی ا نتہا ئی مشکو ر ہیں کہ اُن کی مہر با نی سے آج ہم اس دور افتا دہ علا قے میں رہتے ہو ئے بھی جد ید تعلیم سے مستفید ہو رہے ہیں انہو ں نے پرنسپل،اسا تذہ،بچو ں اور والد ین کومبا رک با د دی اور اس پر وقا ر تقر یب میں مدعو کر نے پر شکریہ ادا کیا۔

تقر یب کے مہما ن خصو صی غلا م محمد نے شر کا سے خطا ب کر تے ہو ئے کہاکہ میں سکو ل کے پر نسپل اسا تذہ اوربچو ں کو ان کی اعلیٰ کا ر کر دگی پر مبا رک با د پیش کر تا ہو ں آ غا خا ن ہا ئیر سکنڈ ری سکو ل ہما رے لیے رول ما ڈل ہے اور اس سکو ل کو رول ما ڈل بنا نے پر میں سکو ل کے پر نسپل کو خصو صی طو ر پر مبا رک با د پیش کر تا ہو ں ہم اے۔ کے۔ای۔ایس سے سیکھتے ہیں اورAKESنے بھی ہمشہ گو ر نمنٹ کی مد د کی ہے۔ ہما ری گور نمنٹ معیا ری تعلیم پر یقین ر کھتی ہے جس کے لیے حکو مت سنجید گی سے کا م کر رہی ہے۔ ہما ری حکو مت نے سب سے پہلے جی۔بی کے گور نمنٹ سکو لو ں میں مفت تعلیم شروع کی ہے اور ہمارا آئین کہتا ہے کہ شہر یو ں کو تعلیم دینا ر یا ست کی ز مہ داری ہے۔انشا اللہ بہت جلد جی۔ بی میں میڈیکل اور انجنیرنگ کا لج کا قیا م بھی عمل میں آئے گا۔

انھوں‌نے مہما ن خا ض کی حیثیت سے مد عو کر نے پر سکول ا نتظا میہ کا شکر یہ ادا کیااور کھیل کے میدان کو بنا نے میں حکو متی تعا ون کی یقین د ہا نی کرائی اور تقر یب میں اعلیٰ کا ر کردگی کا مظا ہرہ کر نے پر اسا تذہ،ایڈ من سٹا ف اور طلباؤ طا لبا ت کی کاشوں کو سراہا
تقر یب کے آ خر میں لیکچررعقیل حیا ت نے سکول کی طرف سے تما م مہما نا ن اور وا لد ین کا شکر یہ ادا کیااور یوں یہ علمی تقر یب ا ختتا م پذ یر ہو ئی۔
akesp gahkoch school program 2

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
29130

نیشنل ابیلٹی سپورٹس فیسٹول 2019میں گلگت بلتستان کی ٹیم نے دوسری پوزیشن حاصل کی

Posted on

پشاور(آئی آئی پی)پشاور میں ہونے والی نیشنل ابیلٹی سپورٹس فیسٹول 2019میں گلگت بلتستان کی ٹیم نے دوسری پوزیشن حاصل کر لی۔واضح رہیں پشاور میں ہونے والے فیسٹول میں گلگت بلتستان کی 14رکنی ٹیم نے پہلی مرتبہ شرکت کی جس میں ملک بھر سے دس سے زائد ٹیموں نے شرکت کی، اس فیسٹول میں گلگت بلتستان کی ٹیم نے سندھ کی ٹیم کو شکست دیکر فائنل میں جگہ بنا لی۔ فائیل میچ میں کے پی کے کی ٹیم کے ساتھ سنسنی خیز مقابلے کے بعد اس فیسٹول میں کے پی کے کی ٹیم نے پہلی پوزیشن حاصل کی اور گلگت بلتستان کی ٹیم نے اس اہم فیسٹول میں دوسری پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی،گلگت بلتستان کی 14رکنی ٹیم کی قیادت وزیر اعلی گلگت بلتستان کے فوکل پرسن امجد ندیم اور وہیل چیئر اسیوسی ایشن گلگت بلتستان کے صدر میر ہاشم میر کر رہے تھے۔واضح رہیں اس فیسٹول میں دوسری پوزیشن لینے والی گلگت بلتستان کی ٹیم کے پاس وسائل کی کمی اور پورے گلگت بلتستان میں ایک بھی کھیل کا میدان موجود نہیں اور گلگت بلتستان کے خصوصی افراد کے لئے کھیلوں کا خصوصی سازو سامان بھی میسر نہیں اس کے باوجود گلگت بلتستان کی ٹیم نے اس سپورٹس فیسٹول میں دوسری پوزیشن حاصل کر کے سب کو حیران کر دیا۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
29126

فیس بک نے کمیونٹی اسٹینڈرڈز انفورسمنٹ رپورٹ نومبر 2019 جاری کردی

کراچی(چترال ٹائمزرپورٹ ) فیس بک نے کمیونٹی اسٹینڈرذ انفورسمنٹ رپورٹ کا چوتھا ایڈیشن شائع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس رپورٹ میں فیس بک سے متعلق دس پالیسیاں اور انسٹاگرام سے متعلق چار پالیسیاں ہیں۔ فیس بک نے آج ایک نیا پیج بھی شروع کیا ہے تاکہ لوگ مثالوں کے ذریعے کمیونٹی اسٹینڈرز کو مختلف اقسام کے مواد پر اطلاق کے ذریعے سمجھ سکیں اور نئے اسٹینڈرڈز سے آگاہ ہوسکیں۔

کراچی سے جاری ایک پریس ریلیز کے مطابق ان پالیسیوں کے موضوعات میں پھیلاؤ (کتنے زیادہ مواد سے ہماری پالیسیوں کی خلاف ورزی دیکھی گئی)، مواد پر لئے گئے ایکشن (کتنے زیادہ مواد پر ہم نے ایکشن لیا کیونکہ ہماری پالیسیوں کی خلاف ورزی ہوئی)، فعال انداز سے کارکردگی کی شرح (ایسے مواد پر ہم نے کارروائی کی، کسی نے ہمیں رپورٹ کرنے سے قبل اسے کس طرح سے پکڑا)، اپیل شدہ مواد (ہمارے ایکشن لینے کے بعد لوگوں نے کتنی زیادہ اس مواد کیلئے اپیل کی)، بحال شدہ مواد (ہمارے ابتدائی ایکشن کے بعد کتنا زیادہ مواد بحال ہوا) شامل ہیں۔

فیس بک پہلی بار یہ ڈیٹا فراہم کررہا ہے کہ وہ کس طرح سے انسٹاگرام پر اپنی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ انسٹاگرام کی اس پہلی رپورٹ میں فیس بک چار پالیسی شعبوں بشمول چائلڈ نیوڈٹی اور بچوں کا جنسی استحصال، ریگولیٹڈ اشیاء بالخصوص غیرقانونی آتشی اسلحہ اور منشیات کی غیرقانونی فروخت، خود کشی اور اپنے آپ کو نقصان پہنچانے،اور دہشت گردی کے پروپیگنڈے سے متعلق معلومات فراہم کر رہا ہے۔ اس رپورٹ میں انسٹاگرام کے لئے میٹرکس کی بحالی اور اپیلیں شامل نہیں ہیں کیونکہ یہ ایپلیں انسٹاگرام پر رواں سال صرف دوسری سہ ماہی میں متعارف ہوئیں لیکن یہ مستقبل کی رپورٹس میں شامل کی جائیں گی۔

فیس بک اور انسٹاگرام دونوں پر نقصان دہ مواد تلاش کرنے اور اسے ہٹانے کے لئے اسی طرح کا فعال انداز سے شناخت کرنے والا نظام استعمال کیا جاتا ہے۔ دونوں سروسز میں میٹرکس مختلف ہوسکتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات میں ایپلی کیشنز کے مختلف فنکشنز اور انکے استعمال میں فرق شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ہماری کمیونٹیز کے مختلف سائز میں فرق ہے جہاں دنیا میں لوگ کئی ایپلی کیشنز کے مقابلے میں ایک ایپلی کیشن استعمال کرتے ہیں اور جہاں ہم اپنی اب تک کی فعال انداز سے شناخت کرنے والی جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ میٹرکس سے موازنہ کرنے کے لئے جب دیکھا جاتا ہے کہ کہاں پیش رفت ہوئی ہے اور کہاں مزید بہتری کی ضرورت ہے تو فیس بک لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ خود دیکھیں کہ ایک ایپلی کیشن میں انفرادی پالیسی کے معاملات کے لئے گزشتہ سہ ماہی کے مقابلے میں میٹرکس کس طرح سے تبدیل ہوتے ہیں۔

چوتھے ایڈیشن کی اس رپورٹ میں خودکشی اور اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کے موضوع کا ڈیٹا شامل ہے۔ فیس بک اب اس بات کا تفصیلی طور پر جائزہ لے رہا ہے کہ وہ خود کشی اور اپنے آپ کو نقصان پہنچانے والے مواد پر کس طرح سے ایکشن لے۔ یہ ایک حساس اور پیچیدہ مسئلہ ہے اور وہ اپنے ماہرین کے ساتھ ہر شخص کی حفاظت یقینی بنانے کے لئے کام کر رہا ہے۔ فیس بک ایسا مواد ہٹاتا ہے جس میں خود کشی اور اپنے آپ کو نقصان پہنچانے والا مواد ظاہر ہو یا اسکی حوصلہ افزائی ہوتی ہو اور جس میں مخصوص خونریز مناظر اور رئیل ٹائم منظرکشی بھی شامل ہو۔ ماہرین نے فیس بک کو آگاہ کیا ہے کہ اس طرح کے رویئے کو دوسرے لوگ بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ فیس بک اس مواد پر ایک حساس اسکرین لگادیتا ہے تاکہ اسکی پالیسیوں کی خلاف ورزی نہ ہو لیکن یہ بعض لوگوں کو متاثر کرسکتا ہے جن میں بھرے ہوئے زخموں کے نشانات یا دیگر عدم خونریزی پر مبنی اپنے آپ کو نقصان پہنچانے والے مناظر شامل ہیں۔ فیس بک نے اپنے آپ کو نقصان پہنچانے سے متعلق اپنی پالیسیوں کو مزید مستحکم بنایا ہے اور مزید خلاف ورزی پر مبنی مواد کو تلاش کرنے اور اسے ہٹانے والی اپنی ٹیکنالوجی میں بہتری لایا ہے۔

فیس بک نے سال 2019 کی دوسری سہ ماہی میں 2 ملین مواد پر ایکشن لیا جس میں 96.1 فیصد مواد کی شناخت فعال انداز سے کی گئی اور تیسری سہ ماہی میں اس وقت مزید بہتری نظر آئی جب فیس بک نے 2.5 ملین مواد کو ہٹایا اور اس میں 97.1 فیصد کی شناخت فعال انداز سے کی گئی۔

اسی طرح فیس بک انسٹاگرام پر بھی اہم پیش رفت لایا ہے، سال 2019 کی دوسری سہ ماہی میں 8لاکھ 35 ہزار مواد کو ہٹایا جس میں 77.8 فیصد مواد کی فعال انداز سے شناخت کی گئی جبکہ سال 2019 کی تیسری سہ ماہی میں 8 لاکھ 45 ہزار مواد کو ہٹایا گیا جس میں 79.1 فیصد مواد کو فعال انداز سے ہٹایا گیا۔

فیس بک دہشت گری سے متعلق پروپیگنڈے کے ڈیٹا میں وسعت لے آیا۔ اسکی ڈینجرس انڈیویڑولز اور آرگنائزیشنز پالیسی (Dangerous Individuals and Organizations policy)اپنی سروسز میں تمام دہشت گرد تنظیموں پر پابندی رکھتی ہے۔ اب تک فیس بک مختلف اقسام کے گروپس کی انکے رویوں کی بنیاد پر دہشت گرد تنظیموں کے طور پر انکی نشاندہی کرچکا ہے۔ پچھلی رپورٹس میں فیس بک کی کاوشوں کا خصوصی طور پر محور القاعدہ، داعش اور انکے اتحادیوں کے خلاف تھا کیونکہ عالمی سطح پر نظر آنے والے نشریاتی خطرے سے متعلق گروپس کے خلاف فیس بک نے اپنی کاوشوں کا جائزہ لینے پر توجہ رکھی۔ اب فیس بک اپنی رپورٹ میں وسعت لیکر آیا ہے جس میں اسکی جانب سے تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کئے گئے ایکشن شامل ہیں۔ فیس بک جس شرح سے القاعدہ، داعش اور ان سے منسلک اتحادیوں کا مواد شناخت کرکے انہیں ہٹاتا ہے وہ بدستور 99 فیصد ہے۔ جس شرح پر فیس بک فعال انداز سے کسی بھی دہشت گرد تنظیم سے منسلک مواد کی فعال انداز سے شناخت کرتا ہے وہ 98.5 فیصد ہے اور انسٹاگرام پر 92.2 فیصد ہے۔ فیس بک دہشت گردانہ مواد سے نمٹنے کے لئے اپنے خودکار انداز سے کام کرنے والے طریقوں میں سرمایہ کاری جاری رکھے گا اور اپنے طریقوں میں بہتری لائے گا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سماج دشمن کردار بھی اپنے طریقے تبدیل کرلیں گے۔

فیس بک خودکشی، اپنے آپ کو نقصان پہنچانے اور ریگولیٹڈ اشیاء کے پھیلاؤ کا تخمینہ لگا رہا ہے۔ اس رپورٹ میں فیس بک پہلی بار خود کشی اور اپنے آپ کو نقصان پہنچانے اور ریگولیٹڈ اشیاء(آتشی ہتھیاروں اور منشیات کی غیرقانونی فروخت) سے متعلق اپنی پالیسیوں میں ایسے مواد کے لئے پھیلے ہوئے میٹرکس میں اضافہ لارہا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ فیس بک سب سے زیادہ اس بات کی فکر کرتا ہے کہ کتنا زیادہ لوگ ایسے مواد کو دیکھتے ہیں جس سے اسکی پالیسیوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اس ضمن میں فیس بک پھیلاؤ کا جائزہ لیتا ہے کہ لوگ اسکی سروسز پر اس مواد کو کتنی بار دیکھتے ہیں۔ فیس بک کی سیفٹی پالیسی میں سب سے شدید تشویش چائلڈ نیوڈٹی اور بچوں کے جنسی استحصال، ریگولیٹڈ اشیاء، خود کشی اور اپنے آپ کو نقصان پہنچانے اور دہشت گردانہ پروپیگنڈے پر مبنی ہے۔ اس بات کا امکان کم ہوتا ہے کہ لوگ ایسا مواد دیکھیں جن سے اسکی پالیسیوں کی خلاف ورزی ہوتی ہو اور فیس بک لوگوں کے دیکھنے سے قبل ہی وہ مواد ہٹا دیتا ہے۔

اسکے نتیجے میں جب فیس بک اپنی ان اہم پالیسی والے موضوعات پر مبنی مواد کے ویوز کے پھیلاؤ کا جائزہ لینے کے لئے سیمپل کا جائزہ لیتا ہے تو بعض اوقات اس سیمپل یا بعض اوقات پائیدار انداز سے میٹرک کے تخمینے سے کسی سیمپل کی خلاف ورزی کو کافی نہیں سمجھتا۔ اس کے بجائے فیس بک بالائی حدود پر تخمینہ لگاسکتا ہے کہ ایسا مواد کسی کی جانب سے کتنی بار دیکھا گیا جس سے اسکی پالیسیوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ سال 2019 کی تیسری سہ ماہی میں بالائی حدود 0.04 فیصد رہی۔ اس کا مطلب ہے کہ سال 2019 کی تیسری سہ ماہی میں فیس بک یا انسٹاگرام پر ہر 10 ہزار ویوز میں ایسی ہر پالیسی کے ساتھ فیس بک تخمینہ نکالتا ہے کہ اس مواد کے چار سے زیادہ ویوز نہ ہوں جن سے اسکی پالیسی کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ پھیلاؤ اس قدر کم رکھا جائے تاکہ فیس بک بالائی حدود فراہم کرسکے۔ یہ حدود رپورٹنگ کی مدت کے درمیان چند پوائنٹس کی شرح سے تبدیل ہوسکتی ہے لیکن ایسی چھوٹی تبدیلی کا مطلب یہ نہیں کہ اس پلیٹ فارم پر اس مواد کے پھیلاؤ میں واقعی کوئی فرق ہے۔

فیس بک نے سب سے خطرناک اقسام کے مواد سے نمٹنے کے لئے اپنی کاوشوں میں مستحکم انداز سے زیادہ شفافیت لانے اور اپنی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ فیس بک کی جانب سے خود کشی اور اپنے آپ کو نقصان پہنچانے جیسے مواد اور دہشت گردانہ پروپیگنڈے کے علاوہ چائلڈ نیوڈٹی اور بچوں جنسی استحصال کے ساتھ ریگولیٹڈ اشیاء کی میٹرکس میں پیش رفت کا اظہار کیا جارہا ہوتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں فیس بک نے پچھلے پانچ سالوں میں سرمایہ کاری کرکے اس طرح کے ٹولز تیار کئے ہیں جو بڑھتی ہوئی پیچیدگی کے ساتھ زبان اور تصور کو سمجھ سکیں اور ان مسائل سے مسلسل نمٹنے کی یہ ایک اہم وجہ ہے۔ درحقیقت، اس ٹیکنالوجی میں حالیہ پیش رفت سے فیس بک کو خلاف ورزی پر مبنی مواد کی شناخت اور اسے ہٹانے کی شرح میں مدد ملی ہے۔

چائلڈ نیوڈٹی اور بچوں کے جنسی استحصال سے نمٹنے کے لئے فیس بک اپنے انٹرنل ڈیٹا بیس سے خلاف ورزیوں میں اضافہ لانے کے لئے اپنے طریقوں میں بہتری لیکر آیا ہے جس کی بدولت فیس بک اور انسٹاگرام بیک وقت ایسے مواد کی شناخت کرکے اسے ہٹانے کے قابل ہوئے ہیں۔

فیس بک پر سال 2019 کی تیسری سہ ماہی کے دوران 11.6 ملین مواد کو ہٹایا گیا جو سال 2019 کی پہلی سہ ماہی میں 5.8 ملین مواد ہٹانے کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ گزشتہ چار سہ ماہیوں میں فیس بک نے خود فعال انداز سے 99 فیصد مواد کی شناخت کی اور پالیسی کی خلاف ورزی پر یہ مواد ہٹایا۔

فیس بک پہلی بار انسٹاگرام سے متعلق ڈیٹا بھی شامل کررہا ہے۔ فیس بک نے گزشتہ دو سہ مایوں میں مواد پر لئے گئے ایکشن اور اس میں فعال رفتار سے پیش رفت کی ہے۔

سال 2019 کی دوسری سہ ماہی میں فیس بک نے 5 لاکھ 12 ہزار مواد ہٹایا جسکے 92.5 فیصد مواد کی خود فعال انداز سے شناخت کی گئی تھی۔

تیسری سہ ماہی میں فیس بک نے نمایاں پیش رفت کرکے 7 لاکھ 54 ہزار مواد ہٹایا جسکے 94.6 فیصد مواد کی خود فعال انداز سے شناخت کی گئی تھی۔

اپنی ریگولیٹڈ پالیسی میں غیرقانونی آتشی اسلحہ اور منشیات کی فروخت پر پابندی جاری رکھنے کے لئے فیس بک نے فعال شناخت کرنے والے اپنے نظام اور اس میں جدت انگیز طریقے اختیار کرنے کے لئے سرمایہ کاری جاری رکھی ہے جس سے فیس بک کو گزشتہ رپورٹ کے مقابلے میں پیش رفت آگے بڑھانے میں مدد ملی۔

فیس بک نے سال 2019 کی تیسری سہ ماہی میں منشیات کی فروخت سے متعلق 4.4 ملین مواد ہٹایا جس میں 97.6 فیصد مواد کی فعال انداز سے شناخت کی گئی۔ یہ سال 2019 کی پہلی سہ ماہی میں منشیات کی فروخت سے متعلق 8 لاکھ 41 ہزار مواد کے مقابلے میں زیادہ ہے جس میں فعال انداز سے 84.4 فیصد مواد کی خود شناخت کی گئی۔

سال 2019 کی تیسری سہ ماہی میں فیس بک نے آتشی اسلحہ کی فروخت سے متعلق 2.3 ملین مواد ہٹایا جس کے 97.3 فیصد مواد کی فعال انداز سے خود شناخت کی گئی۔ یہ سال 2019 کی پہلی سہ ماہی کے مقابلے میں زیادہ ہے جب فیس بک نے آتشی اسلحہ کی فروخت سے متعلق 6 لاکھ 9 ہزار مواد کو ہٹایا اور اسکے 69.9 فیصد مواد کی فعال انداز سے خود شناخت کی گئی۔

انسٹاگرام پر فیس بک نے سال 2019 کی تیسری سہ ماہی میں منشیات کی فروخت سے متعلق 1.5 ملین مواد ہٹایا جسکے 95.6 فیصد مواد کی خود فعال انداز سے شناخت کی گئی۔
سال 2019 کی تیسری سہ ماہی میں فیس بک نے آتشی اسلحہ کی فروخت سے متعلق 58 ہزار 600 مواد کو ہٹایا جسکے 91.3 فیصد مواد کی خود فعال انداز سے شناخت کی گئی۔

فیس بک نے گزشتہ دو سالوں میں نفرت انگیز اظہار کی فعال انداز سے خود شناخت کے لئے سرمایہ کاری کی تاکہ وہ لوگوں کے رپورٹ کرنے سے قبل اور بعض اوقات کسی کے دیکھنے سے قبل نقصان دہ مواد کو خود شناخت کرکے ہٹا دے۔ فیس بک کی جانب سے شناخت کے طریقوں میں مواد اور تصویر کا موازنہ شامل ہے جس کا مطلب ہے کہ فیس بک ان تصاویر اور اس سے مشابہ مواد کو شناخت کررہا ہے جسے پہلے سے ہی نفرت انگیز اظہار کے طور پر ہٹایا جاچکا ہے۔ اس ضمن میں مشین لرننگ سے ایک پوسٹ میں زبان، ری ایکشنز اور کمنٹس کی درجہ بندی کی جاتی ہے کہ یہ پوسٹ کس حد تک عام اظہار، طریقوں اور حملوں سے مطابقت رکھتی ہے۔ اس حوالے سے فیس بک نفرت انگیز اظہار کے خلاف اپنی پالیسیوں کی خلاف ورزی کرنے والے مواد کا جائزہ لے چکا ہے۔

فیس بک ان سسٹمز کو فعال انداز سے کارآمد بنا کر نفرت انگیز اظہار کی خلاف ورزی کی شناخت کرتا ہے اور اسے اپنے مواد کے جائزے والی ٹیم کو بھیجتا ہے کیونکہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں انسان بہتر انداز سے تناظر کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ سال 2019 کی دوسری سہ ماہی کے آغاز میں فیس بک نے اپنے سسٹمز میں پالیسیوں کی خلاف ورزی کے حوالے سے درست انداز سے شناخت کرنے کی صلاحیت میں مسلسل پیش رفت کی ہے۔ فیس بک نے بعض پوسٹس کو خودکار طور پر بھی ہٹانا شروع کیا ہے لیکن یہ اس وقت مخصوص حالات میں ہوتا ہے جب ہماری ریویو ٹیم کی جانب سے پالیسی کی خلاف ورزی پر ہٹائے گئے مواد سے تقریبا ملتا جلتا مواد ہو۔ دیگر تمام حالات میں جب فیس بک کے سسٹمز فعال انداز سے ممکنہ نفرت انگیز اظہار کی شناخت کرتے ہیں تو وہ مواد بدستور ہماری ریویو ٹیم کو جاتا ہے تاکہ وہ حتمی فیصلہ کریں۔ شناخت کرنے کے اپنے سسٹمز میں تبدیلیوں کے ساتھ فیس بک کی فعال انداز سے کارکردگی کی شرح بڑھ کر 80 فیصد تک ہوگئی جو اسکی پچھلی رپورٹ میں 65 فیصد تھی۔ اس ضمن میں فیس بک نے نفرت انگیز اظہار کی پالیسی کی خلاف ورزی پر مبنی مواد تلاش کرکے اسے ہٹانے کی شرح میں اضافہ بھی کیا ہے۔

فیس بک ان سسٹمز میں سرمایہ کاری جاری رکھے گا جس کی بدولت وہ فعال انداز کے ساتھ نفرت انگیز مواد سے نمٹنے کے قابل ہوسکے گا۔ اس کے ساتھ فیس بک ایسا مواد ہٹانے میں درستگی کو یقینی بناتا ہے جس سے اسکی پالیسیوں کی خلاف ورزی ہوتی ہو جبکہ اس کے ساتھ نفرت انگیز مواد کی مذمت یا اس پر اظہار پر گفتگو کرتے ہیں۔ اسی طرح فیس بک کی جانب سے مواد کا جائزہ لینے والی اسکی ٹیم فیصلے کرتی ہے جس میں درستگی کی نگرانی کی جاتی ہے۔ فیس بک کی ٹیمیں اپنے خود کار سسٹمز سے باقاعدگی سے ریویو ہٹا دیتی ہیں تاکہ اپنی پالیسیوں پر درست انداز سے عمل پیرا رہیں۔ جب لوگ اپیل کرتے ہیں تو فیس بک دوبارہ مواد کے جائزے کا عمل جاری رکھتا ہے اور آگاہ کرتا ہے کہ پوسٹ ہٹانے میں غلطی کی گئی۔

اپنی آخری رپورٹ کے ساتھ فیس بک نے جائزہ لینے کے اپنے طریقوں کو بہتر بنایا کہ رواں موسم گرما میں کسی مسئلہ کی نشاندہی کرنے کے بعد کتنے مواد پر ایکشن لیا جاتا ہے۔ اس رپورٹ میں فیس بک اپنے میٹرکس کو اپ ڈیٹ کررہا ہے۔ اس ضمن میں فیس بک سال 2018 کی تیسری سہ ماہی سے لیکر 2019 کی پہلی سہ ماہی کے دوران مواد پر لئے گئے ایکشن، فعال انداز سے کارکردگی کی شرح، اپیل شدہ مواد اور بحال شدہ مواد سے متعلق تفصیلات سامنے لایا ہے۔

ان سہ ماہیوں کے دوران ہمارے اکاؤنٹنگ کے مراحل سے متعلق مسائل پر اثر نہیں پڑا،جیسے اسکی پالیسیوں پر کس طرح سے عمل درآمد ہو یا کیسے لوگوں کو ان ایکشنز سے متعلق آگاہ کیا گیا۔ اس سے صرف اثر یہ ہوا کہ فیس بک اپنے ایکشنز کو کس طرح سے شمار کرتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر فیس بک کو ایسی پوسٹ ملے جس میں ایک تصویر اسکی پالیسیوں کے خلاف ہو تو پھر اپنے میٹرک سسٹم کو فعال بنا کر اس ایک تصویر پر ہی ایکشن لیا جائے جبکہ الگ سے پوسٹ اور باقی تصویر کو ہٹانے کے لئے دو ایکشنز نہیں لئے گئے۔ تاہم جولائی 2019 میں فیس بک کے سامنے یہ بات آئی کہ سسٹمز کی لاگنگ اور کاؤنٹنگ سے صحیح طرح لاگ پر ایکشنز نہیں لئے گئے۔ اس کی بڑی وجہ مختلف ایکشنز کی گنتی کی ضرورت ہے جو محض چند ملی سیکنڈز میں وقوع پذیر ہوتے ہیں اور کسی انفرادی ایکشنز میں گم یا مبالغہ آمیز نہیں ہوتے۔

فیس بک اپنے ان طریقوں میں بہتری لانے کے لئے کام جاری رکھے گا تاکہ اپنے ایکشنز کا جائزہ لینے کے لئے انہیں استعمال کیا جائے اور وہ ایک مستحکم سسٹم تعمیر کرے تاکہ فراہم کردہ میٹرکس کی کارکردگی کو بالکل درستگی کے ساتھ یقینی بنایا جاسکے۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
29094

ریز آف لائٹ (Rays of Light) ……. تحریر: امیرجان حقانی

Posted on

شعاع نور (Rays of Light) میں اپنی آنکھیں چوندھیا گئیں. پورے 45 منٹ کی پریزینٹیشن میں مجھے مسلسل اپنا ماضی یاد آتا رہا.
عالم خیال میں ماضی سے حال تک کا سفر جاری تھا کہ درمیان میں کہیں عظمت رفتہ کی ڈوری ٹوٹ چکی تھی.
ریز آف لائٹ کی روشنی اتنی تیز تھی کی آنکھیں ہی خیرہ ہوگئیں.
.
حال کی کسمپرسی پر شدید افسوس ہوتا رہا. ہر میدان میں اپنی مکمل بے بضاعتی پر انگ انگ کڑھ رہا تھا.
مستقبل کا بھیانک منظر آنکھوں کے سامنے لہرا گیا اور دل دل میں چیخیں نکل گئیں.
.
ریز آف لائٹ کا مشاہدہ اور وزٹ میرے لیے نیا اس لیے بھی نہیں تھا کہ یہ سب کچھ کافی پہلے بیان کرچکا تھا.اتنا ضرور ہوا کہ میرے خیال اور پیش گوئی کی مزید تصدیق ہوئی. یقین غالب ہوگیا. میں ناامید نہیں مگر امید کی لائٹ جلتی نظر بھی نہیں آرہی ہے.
.
گلگت میں پرنس کریم آغاخَان کی حیات اور کارناموں پر ایک کمال پریذینٹیشن دیکھنے کو ملی.. یہ پریذینٹیشن دنیا دنیا چکر لگا کر گلگت پہنچی ہے. کچھ عرصہ بعد اُڑ کر کسی اور ملک جاپہنچے گی. اس سے شاندار اور جدید پریذینٹیشن ممکن بھی نہیں. ان کے کارناموں اور حیات کا کوئی پہلو ایسا نہ تھا کہ جس کا مختصر مگر مدلل احاطہ نہ کیا گیا ہو. نظم و ضبط کمال کا تھا. آغاخَان کا نظریہ ” وقت اور علم کا نذرانہ” کی تفہیم میں مزید تسہیل پیدا ہوئی.
.
کہنے کے لیے بہت کچھ ہے. سب کہہ دوں گا تو رند لم یزل کہلاونگا اس لیے کچھ بچا کر بھی رکھنا ہے.
اب تک جو جو کہا ہے، وقت ہر چیز ثابت کرتا جائے گا اور میں سرخرو بھی ہوتا جاؤنگا.تب مجھے رویا جاؤنگا مگر وقت جاچکا ہوگا.
وقت کی دو دھاری تلوار نے سب کاٹ کر رکھ دیا ہوگا.
.
کیونکہ “الوقت سیف قاطع، ان لم تقطع فیقطعک” تم وقت کو نہیں کاٹوگے تو وقت تمہیں ضرور کاٹے گا. ہر طرف سے کاٹے گا کیونکہ وہ دو دھاری ہے.
.
سب اس لیے بھی نہیں کہا جاسکتا کہ حضرت ناصح بھی خفا ہوگا اور میخانے کا ساقی بھی شاکی ہوگا.کیوں سب سے مفت میں خصم کھاوں؟.
.
پرنس کریم کے مریدوں کو ایک نیا ادارہ مبارک ہو یعنی یہ دیکھنا ہوگا کہ ریز آف لائٹ کی کنٹریبیوشن سے دنیا کس عظیم ادارے سے مستفید ہوتی ہے اور اس کے حدود اربع کیا ہوتے ہیں.کہاں بنیاد رکھا جائے گا اس ادارے کا؟.
ابھی خاموشی سے انتظار کیجے. وقت سب بتادے گا. کیونکہ یہاں زندگی وقت سے دو قدم آگے چلتی ہے.
خدا کرے کوئی کچھ نہ سمجھے. ان باتوں کو دیوانے کی بڑ کے سوا کچھ نہ سمجھا جائے. تو
احباب کیا کہتے ہیں؟

amir jan haqqani rays of light gb 2

amir jan haqqani rays of light gb 1

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
29086

وزیراعلیٰ‌گلگت بلتستان کی پرنس کریم آغاخان کی خدمات کے‌حوالے نمائشی پرمبارکباد

وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کی ہزہائنس پرنس کریم آغا خان کی مختلف شعبوں میں خدمات کے حوالے سے نمائشی پروگرام کے انعقاد پر اسماعیلی کونسلات کو مبارک باد
.
گلگت(آئی آئی پی) ہزہائنس پرنس کریم آغاخان کی انسانیت اور ترقی کے حوالے سے خدمات کی نمائشی تقریب ریز آف لائٹ (Rays of Light)کے دورے کے موقع پر وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا کہ اس پروگرام میں ہزہائنس پرنس کریم آغا خان کی زندگی کے ابتدا سے لے کر آج تک انسانیت کی خدمت، وحدت المسلمین اور وحدت انسانیت کیلئے ان کے خدمات اور ان کا کردار جس طرح ایک نمائشی پروگرام کے ذریعے پیش کیا گیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔اس پروگرام کے ذریعے ہر ایک کو ہز ہائنس پرنس کریم آغا خان کی انسانیت کی فلاح و بہبود اور وحدت المسلمین کیلئے خدمات کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے ہزہائنس پرنس کریم آغا خان کی مختلف شعبوں میں خدمات کے حوالے سے نمائشی پروگرام کے انعقاد پر گلگت بلتستان کے اسماعیلی کونسلات کو مبارک باد پیش کی۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے اس موقع پر کہا کہ گلگت بلتستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں انسانیت کی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی کیلئے ہزہائنس پرنس کریم آغا خان کی خدمات قابل تحسین ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ فلاح انسانیت اور اتحاد بین المسلمین کیلئے ہز ہائنس پرنس کریم آغاخان کی خدمات جاری رہیں گی۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے اس موقع پر ہزہائنس پرنس کریم آغاخان کی درازی عمر کیلئے دعا کی۔وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کو ریز آف لائٹ (Rays of Light) کے دورے کے موقع پر ہزہائنس پرنس کریم آغاخان کی انسانیت کیلئے خدمات کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی۔
cm gb hafiz hafizur rehman visit rays of light gilgit

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
29038

جمعہ کی ہفتہ وار چھٹی بحال کرنے کیلئے مولاناچترالی نے قرارداد قومی اسمبلی میں جمع کرادی

Posted on

اسلام آباد(چترال ٹائمزرپورٹ ) چترال سے ممبرقومی اسمبلی مولانا عبد الاکبرچترالی نے قومی اسمبلی میں تین مختلف قراردیں‌جمع کرادی ہے . پہلی قرارداد میں‌ ناروے میں پولیس کی موجودگی میں‌ قرآن پاک کی بے حرمتی پر ایک مذمتی قرارداد جمع کراتے ہوئے کہا ہے کہ قرآن پاک کی بے حرمتی مسلمانوں‌کیلئے ناقابل برداشت ہے لہذا حکومت پاکستان فوری طور پر ناروے حکومت سے اس سلسلے میں‌شدید احتجاج کرے کہ اظہاررائے کی آڑ میں‌ایک آرب ساٹھ کروڑ مسلمانوں‌کی دل آزاری اورامت مسلمہ کی جذبات کو مجروح‌کیا گیا ہے . لہذا ایسے دلخراش واقعات کی رونما ہونے سے پہلے اس کی روک تھام کیلئے اقدامات اُٹھائے جائیں‌بصورت دیگردنیا کی آمن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے .
.
دوسری قرارداد میں‌ مولانا چترالی نے جمعہ کی ہفتہ وار چھٹی کو بحال کرنے کا مطالبہ کیاہے اسی طرح ایک اورقرارداد میں مطالبہ کیا ہے کہ حکومت تمام مساجد اورمدارس کو بجلی کے بلوں‌میں‌ لئے جانے والے تمام ٹیکسز سے مستثنی قراردیا جائے .

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
29035

انتقال پرملال، بلبل آمان شاہ المعروف لاسپورو استادانتقال کرگئے

Posted on

چترال(نمائندہ چترا ل ٹائمز) وادی لاسپور کے خوبصورت گاون بروک سے تعلق رکھنے والا معروف شخصیت ریٹائرڈ ہیڈماسٹر بلبل آمان شاہ المعروف لاسپرو استاد آج ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال میں‌انتقال کرگئے ، وہ گزشتہ کچھ عرصے سے علیل تھے.
یادرہے کہ بلبل آمان استاد لاسپور ویلی کا پہلا استاد تھا .سوگوارن میں اس نے دو بیٹے اور بیٹیاں چھوڑی ہیں۔سب سے بڑا بیٹا امتیاز عالم مقامی پبلک سکول ہرچین میں بطور پرنسپل کام کر رہا ہے۔وہ چترال شہر کے معروف ڈنٹسٹ ناصر خان کا چچا زاد بھائی تھا۔

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
29022

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سمسٹربہار2019 کے امتحانات پیر سے شروع ہوں گے

اسلام آباد (چترال ٹائمزرپورٹ) علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سمسٹربہار2019 کے امتحانات پیر سے شروع ہوں گے۔ترجمان علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے مطابق بی بی اے،بی ایس)اکاؤنٹنگ اینڈ فنانس(پوسٹ گریجویٹ ڈ پلومہ، ایم اے،ایم ایس سی، ایم بی اے،ایم کام، بی ایڈ /ایم ایڈ اور ایم ایس سی)آنرز(پروگرامز کے فائنل امتحانات ملک بھر میں ایک ساتھ آج شروع ہوں گے جو 10جنوری تک جاری رہیں گے۔یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات کے مطابق شعبہ امتحانات نے طلبا و طالبات کو قریب ترین مقامات پر امتحانات میں شرکت کو یقینی بنانے کے لیے ملک بھر میں 750 امتحانی مراکز قائم کردیے ہیں۔طلبا و طالبات کو رول نمبر سلپس ارسال کردی گئی ہیں تمام امیدواروں کی رول نمبر سلپس یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں۔امتحانات کے نظام کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے امتحانی مراکز میں سخت نگرانی کا نظام نافذکیا جائے گا اس ضمن میں خصوصی ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔انھوں نے کہا کہ ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ شدہ رول نمبر سلپ بھی امتحان میں شرکت کے لئے قابل قبول ہوگی۔کسی بھی پروگرام میں داخل کسی بھی طالب علم کے ایک سمسٹر کے سب پیپرزکے امتحانات اب ایک ہی سنٹر میں ہوں گے۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
28960

ایڈونچرکےشوقین سائکلسٹ جوڑی برفباری کے دوران براستہ شندورگلگت کی طرف روانہ

لاسپور(نمائندہ چترال ٹائمز)اگرایڈوینچر کی شوق اورسیاحت سے دلچسپی ہوتواپ کی راہ میں‌کوئی بھی چیز حائل نہیں‌ہوسکتی یہی وجہ ہے کہ امریکہ سے تعلق رکھنے والےسائکلسٹ برفباری کے دوران شندورپاس کے راستے گلگت کی طرف روانہ ہوگئے ہیں. لاسپورکے معروف شخصیت راجہ ذولفقاریفتالی کے مطابق ٹورسٹ میاں‌بیوی ہیں اوربذریعہ سائیکل لاسپور پہچنے تھے جہاں‌وہ رات گزارنے کے بعد آج گگت بلتستان کی طرف رحت سفر باندھے ہیں. جبکہ علاقے میں‌برفباری کاسلسلہ جاری تھی. اورمقامی انتظامیہ کے اہلکاروں‌نے برف باری کی وجہ سے انھیں‌رورکنے کی بہت کوشش کی مگرانھوں‌نے کسی کی نہ سنی. اوراپنا سفر جاری رکھا . ذوالفقارکے مطابق ایڈونچرکے شوقین سائیکلسٹ جوڑا میاں‌بیوی ہیں. شوہرایک ٹیچر اوربیوی ڈاکٹر ہے .
tourist at laspur

tourist2
tourist
فوٹوزبشکریہ راجہ ذوالفقاریفتالی

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
28951

وزیراعلی صاحب گلگلت بلتستان!پروفیسروں کی بھی سن لیں….تحریر: امیرجان حقانی

Posted on

محکمہ ایجوکیشن گلگت بلتستان کا شعبہ کالجز گوناگوں مسائل کا شکار ہے۔گلگت بلتستان میں ٹوٹل 25کالجز ہیں جن میں ہزاروں طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ گلگت بلتستان لیکچرار اینڈ پروفیسر ایسوسی ایشن ان کالجز اور فیکلٹی کی نمائندہ تنظیم ہے۔ایسوسی ایشن نے ان کے مسائل ہر فورم میں مناسب طریقے سے اٹھایا ہے۔کالجز گلگت بلتستان کا واحد شعبہ ہے جہاں پانچ سو کے قریب گزٹڈ آفیسر ہیں جو انتہائی مشکلات میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔جی بی کے کسی بھی محکمے میں اتنے اعلی اور تعلیم یافتہ آفیسر نہیں ہیں۔
.
آج کی محفل میں وزیر اعلی گلگت بلتستان، وزا کرام، ممبران اسمبلی،چیف سیکریٹری، سیکریٹری صاحبان اور دیگر ارباب حل و عقد کی خدمت میں گلگت بلتستان کے کالجز کے پروفیسروں کی چند گزارشات پیش کرنے کی جسارت کی جارہی ہے۔مجھے امید ہے کہ ان بنیادی مطالبات کو فوری حل کیا جائے گا جو حل طلب ہیں۔
.
جناب وزیر اعلی صاحب! یہ بھی ذہن میں رہے کہ کالجز کے فیکلٹی کی یہ ایسوسی ایشن کوئی مفاداتی گروپ ہے نہ ہی کوئی پریشر گروپ۔ہمیشہ کوالٹی ایجوکیشن اور سسٹم کی بہتری کی بات کی ہے۔جب جب متعلقہ حکام نے کوئی اچھی کارکردگی دکھائی ہے ایسوسی ایشن نے بھرپور ساتھ دیا ہے۔ اچھے کاموں کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ ایسوسی ایشن نے انتہائی مجبوری کے عالم میں بھی محکمہ اور حکومت کو ڈسٹرب نہیں کیا ہے۔یہی پڑھے لکھے اور انٹیلیکچول لوگوں کا رویہ بھی ہونا چاہیے اور اپروچ بھی، جو گلگت بلتستان کے پروفیسروں میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔
جناب وزیر اعلی صاحب! نوٹ کرنے کی بات ہے کہ کالجز کے پی سی فور کے مطابق ٹوٹل اکیڈمک اسٹاف کی تعداد565ہونا ہے جن میں 210پوسٹوں کی کریشن ہی نہیں ہے۔باقی موجودہ SNE (Schedule of New Expenditure) کے مطابق 355پوسٹوں کی کریشن ہے۔جن میں دو پروفیسر، 20ایسوسی ایٹ پروفیسر،ایک ڈائریکٹر،22 اسسٹنٹ پروفیسر، دو ڈپٹی ڈائریکٹر، 82لیکچرارز کی پوسٹیں خالی ہیں۔ ان تمام خالی آسامیوں پر ڈیپارٹمنٹل پروموشن اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن سے عدم تقرری کی وجہ سے تمام پروفیسر اور کالجز سخت مسائل کا شکار ہیں۔
.
جناب وزیراعلی صاحب! دیگر صوبوں بالخصوص کے پی کے اور پنجاب کی طرح گلگت بلتستان میں بھی سروس اسٹرکچر Revised 4_tier یا 5_tier اور Higher Time Scale کا اطلاق ضروری ہے جس کے لیے ہنگامی بنیادوں پر احکامات صادر ہونے چاہیے تاکہ پروفیسروں میں پایا جانے والا اضطراب ختم ہو۔ وفاق سمیت دیگر صوبوں میں اس پر عمل درآمد ہوچکا ہے۔
.
جناب وزیراعلی صاحب! جی بی کالجز میں BS پروگرامات شروع کیے جانے والے ہیں اس کے لیے بھی بہترین پالیسی میکنگ کی ضرورت ہے۔قراقرم یونیورسٹی بھی معاملات سلجھانے کے بجائے الجھائے جارہی ہے۔جو قابل افسوس ہے۔قراقرم یونیورسٹی کی غیر ضروری حرکتوں کی وجہ سے بورڈ فیڈرل منتقل ہوا جس کی وجہ سے گلگت بلتستان کو سالانہ کروڈوں کا نقصان ہوا ہے۔ خود یونیورسٹی دیوالیہ بنتا جارہا ہے۔ اگر گلگت اور دیامر ریجن کی کالجز بھی BS پروگرامات کے لیے کہیں اور کا رخ کرتی ہیں تو یہ بھی علاقہ سمیت کے آئی یو کے لیے المیہ اور نقصان کا سبب ہوگا۔کسی مناسب طریقے سے یونیورسٹی اور صوبائی گورنمنٹ کے درمیان اس پر ایک کنٹرکٹ کی ضرورت ہے۔یہ بھی آپ کی ذمہ داری بنتی ہے۔ورنا بہت سار ے لوگ علاقے کو نقصان دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
.
جناب وزیر اعلی! جتنا تعاون گلگت بلتستان حکومت نے قراقرم یونیورسٹی اور بلتستان یونیورسٹی کیساتھ کیا ہے کسی صوبہ میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ فیڈرل کے ایک ادارے کیساتھ اتنا تعاون کیا گیا ہو۔دونوں یونیورسٹیوں نے محکمہ تعلیم کی کالجز پر یونیورسٹی اور کیمپس شروع کیے ہیں۔ اور موجودہ حکومت نے تو کرڈوں کا گرانٹ بھی دیا ہے۔باوجود اس کے ان کا رویہ اور پالیساں علاقائی مفاد کی بجائے نقصان پر منتج ہیں۔میں نے تحریری طور پر یونیورسٹی کے وی سی اور رجسٹرار و کنٹرولر کو آٹھ صفحات پر لکھ کر بھی دیا تھاکہ کے آئی یو کا رویہ بہتر بنانے کی ضرورت ہے بصورت دیگر بورڈ جائے گا مگر ان کے کانوں میں جوں تک نہ رینگی اور بورڈ سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اپنے سمیت علاقے کو بھی بھاری نقصان سے دو چار کیا۔اب BS پروگرامات کے اجرا میں بھی یہی اٹھکھیلیاں کررہے ہیں۔
.
جناب وزیراعلیٰ صاحب! جی بی کالجز کے درجنوں مسائل ہیں لیکن سر دست وزیراعلی اور دیگر تمام ممبران اسمبلی کی خدمت عالیہ میں گلگت بلتستان پروفیسر ایسوسی ایشن کے صدر اور جنرل سیکرٹری نے کابینہ اور فیکلٹی کی مشاورت سے22نومبر 2019کوایک اپیل کی ہے۔ ایسی ہی ایک اپیل ستمبر 2019 میں بھی آپ کی خدمت میں پیش کی جاچکی ہے۔ چونکہ ابھی چند دونوں میں اسمبلی اجلاس اور کابینہ کی میٹنگ ہونی ہے توآپ کی خدمت میں یہ اپیل دوبارہ اس لیے پیش کی جاتی ہیں کہ آپ حضرات سنجیدگی سے ان مسائل کو اپنے ایجنڈا کا حصہ بنائیں گے اور ممکن حد تک حل فرمائیں گے۔اپیل حسب ذیل ہے جو من و عن درج کی جاتی ہے۔
َ.
ًًٍٍَِ”محترم جناب حافظ حفیظ الرحما ن صاحب، وزیر اعلی گلگت بلتستان
محترم جناب ابراہیم ثنائی صاحب، وزیر تعلیم گلگت بلتستان
جملہ وزرا کرام اور ممبران اسمبلی صاحبان
عنوان: گلگت بلتستان پروفیسر اینڈ لیکچرار ایسوسی ایشن کے حل طلب بنیادی مطالبات
.
گلگت بلتستان پروفیسر اینڈ لیکچرار ایسوسی ایشن گلگت بلتستان کی تمام کالجز(میل و فی میل) کے فیکلٹی ممبران کی نمائندہ تنظیم ہے۔ایسوسی ایشن نے بار بار ارباب اختیار کو اپنے مسائل سے آگاہ کیا مگر شنوائی نہیں ہوئی۔لہذا جناب وزیر اعلی صاحب اور وزیر تعلیم صاحب سے مکرر التماس کرتے ہیں کہ ان جائز اور بنیادی مطالبات پر مشفقانہ غور فرمائیں اور اپنے احکامات صادر کریں۔مطالبات حسب ذیل ہیں:
.
۱۔ ہائر ٹائم سکیل پرومووشن
اس کی فائل 2017 سے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں زیر التوا ہے۔جبکہ فیڈرل اور دیگر صوبوں میں 2012،2013،2014 میں کو لاگو ہوچکا ہے۔
۲۔سروس اسٹرکچر یعنیRevised 4_tier
اس سروس سٹرکچر پر دیگر صوبوں میں 2012میں عملدرآمد ہوچکاہے۔
۳۔ٹیچنگ الاونس (تمام اساتذہ کا تدریسی الاونس کم از کم 20ہزار کیا جائے)
جناب وزیراعلی اور کابینہ کی منظوری سے ہی گلگت بلتستان کے کئی ڈیپارٹمنٹ کو الاونس دیے گئے اور بڑھائے گئے ہیں۔جو خوش آئند ہے۔ موجودہ مبلغ ایک ہزار(1000) تدریسی الاونس سے بڑھا کر بیس ہزار کردیا جائے۔
۴۔تکمیل شدہ سکیم(کالجز) کی آسامیوں کی کریشن
گلگت بلتستان میں پندرہ کالجز کے فیکلٹی اسٹاف سے 25 کالجز چلائے جارہے ہیں جس کی وجہ سیکالجز میں کوالٹی ایجوکیشن میں مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
۵۔محکمہ ایجوکیشن بالخصوص کالجز کی عمارتوں کی حفاظت اور دیگر اداروں سے خالی کرانا
.
جناب وزیر اعلی،وزرا کرام اور ممبران اسمبلی سے گزارش ہے کہ اسکول، کالجز اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی عمارتوں اور اثاثوں کی حفاظت کے لیے خصوصی ایکٹ لایا جائے تاکہ تعلیمی اداروں کی عمارتیں کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہ ہوسکیں۔
پروفیسر ارشاد احمد شاہ(صدر)
پروفیسر محمد رفیع(جنرل سیکریٹری)“۔
.
ہم امید کرتے ہیں کہ آپ ان تمام معاملات کوبہت سنجیدگی سے لیں گے۔ یہ بھی یاد رہے کہ آپ کی پہلی توجہ کالجز اور ان کے فیکلٹی کے مسائل پر ہونی چاہیے۔اگر آپ نے ان کالجز کے مسائل اور فیکلٹی کی محرومیوں اور مسائل کو حل کیا تو یہ پروفیسر حضرات آپ کے ہمیشہ ممنون و مشکور رہیں گے۔وزیر اعلی مہدی شاہ صاحب نے پروفیسروں کچھ مسائل حل کیے تھے، جس کا کریڈیٹ آج بھی برادری میں اس کو دیا جاتا ہے۔تب کے وزیر تعلیم اور سیکرٹری تعلیم پروفیسروں کے وکیل بن گئے تھے وزیراعلی کے سامنے۔کیا آج بھی کوئی ایسا کردار ادا کرسکتا ہے؟۔
جناب وزیراعلی صاحب!آپ ایک وژنری اور فعال انسان ہیں۔آپ کے وزیر تعلیم اور وزیر قانون بھی معاملات اور مسائل کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔سیکریٹری ایجوکیشن بھی ایک فعال، انرجیٹک اور موسٹ سینئر آفیسر ہیں جنہوں نے کئی محکموں میں بہترین کارکردگی دکھائی ہے۔آپ کا پرسنل سیکرٹری حاجی ثنا اللہ صاحب بھی پروفیسروں اور کالجز کے ایک ایک مسئلہ سے مکمل آگاہ ہیں اور ہمدردی بھی رکھتے ہیں۔
.
جناب وزیر اعلی صاحب!کابینہ کے اراکین کو بھی باردگر مطالبات سے آگاہ کیا جاچکا ہے۔ ان تمام ذمہ دار لوگوں کیساتھ آپ ایسوسی ایشن کے جائز اور بنیادی مطالبات پر توجہ دیتے ہیں تو یقین جانیں آپ ہمیشہ کے لیے لیکچراروں اور پروفیسروں کے ہیرو بن جائیں گے۔تب یہ مانا بھی جائے گا کہ آپ واقعی استادوں کا احترام کرتے ہیں، تعلیم دوست ہیں اور علم پرور ہیں۔ ورنا تقاریب میں تقاریر کرکے،استادوں سے اظہار محبت کرکے، ایوارڈ اور ریگارڈ دینے کی بات کرکے،عملی طور پر ان سے ملاقات بھی نہ کرکے اور نہ ہی مسائل پر توجہ دے کر، تاریخ اور پروفیسروں کے دلوں میں امر نہیں ہوسکتے۔آپ نے تمام جی بی کے ملازمین کو سردیوں کی مد میں ملنے والا الاونس دیا جو بڑے آفیسر ہڑپ کر جاتے تھے۔یہ الاونس سب ملازمین کو ملا،مگر مسلسل شکر گزار اساتذہ ہیں۔آپ کے لیے خصوصا سردی کے دنوں میں اساتذہ کی دعائیں نکلتی ہیں۔یہ لو گ تھوڑے پر بھی قناعت کرتے ہیں مگر کوئی مائل بہ کرم تو ہو۔
.
جناب وزیر اعلی صاحب!کتنے المیے کہ بات ہے کہ گزشتہ سترہ اٹھارہ سالوں سے ایک لیکچرار اسی گریڈ یعنی سترہ گریڈ میں کام کررہا ہے۔ کوئی پروموشن نہیں ہوئی۔ جبکہ انہیں استادوں سے تعلیم حاصل کرکے ڈگریاں لینے والے طلبہ دیگر ڈیپارٹمنٹ میں گریڈ سولہ اور سترہ میں بھرتی ہوئے ہیں اور چند سالوں میں پروموشن کے ذریعے گریڈ اٹھارہ،انیس اور بیس تک پہنچے ہیں۔ایسے بہت سارے مسائل اور مشکلات ہیں جن کی وجہ سے سخت قسم کا اضطراب پایا جاتا ہے۔پروفیسر برادری آپ سے یہی امید کرتی ہے کہ جو آپ کے اختیار میں ہیں پہلی فرصت میں حل کیجیے اور وفاقی اختیارمیں جو امور ہیں ان تک بھی آپ ذاتی طور پراپروچ کرکے، کالجز کو اپنا گھر سمجھتے ہوئے لاینحل مسائل، حل کرانے میں ممد ومعاون ثابت ہونگے۔ان شا اللہ آپ انٹیلکچول برادری کے مسائل پر توجہ دے کر اور ان کے ساتھ کوالٹی ایجوکیشن کے لیے کام کرکے بہت طمانیت محسوس کریں گے۔اور عنداللہ وعندالناس ماجور و ممنون ہونگے۔
.
میری چیف سیکرٹری،سیکرٹریز اور بالخصوص سیکرٹری ایجویشن، ایڈیشنل سیکرٹری، ڈپٹی سیکرٹری اور ڈائریکٹر ایجوکیشن اور دیگر عملے سے بھی پرزور درخواست ہوگی کہ آپ بھی ان مسائل کو انتہائی سنجیدگی سے لیں گے۔اور پروفیسروں میں پائی جانے والی مایوسی کو دور کرنے میں ممد و معاون ہونگے۔ اور ایک انٹیلکچول برادری کو محاذ آرائی پر مجبور نہیں کریں گے۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
28945

گلگلت ؛ مخلوط گانوں‌کا کوئی پروگرام نہیں‌ہوا ہےاورنہ اجازت دیجائیگی….وزیراعلیٰ

Posted on

گلگت،سرکاری سطح پر تقریبا چار سالوں میں مخلوط ناچ گانوں کا کوئی پروگرام نہیں ہوا ہے اور نہ ہی اس قسم کی بے ہودہ اور ہمارے اسلامی اقدار کے منافی کسی سرگرمی کی اجازت دی جائے گی،وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن
گلگت(آئی آئی پی) وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کی جانب سے میڈیا کو جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سرکاری سطح پر تقریبا چار سالوں میں مخلوط ناچ گانوں کا کوئی پروگرام نہیں ہوا ہے اور نہ ہی اس قسم کی بے ہودہ اور ہمارے اسلامی اقدار کے منافی کسی سرگرمی کی اجازت دی جائے گی۔ صوبائی سیکریٹری سیاحت کو سختی سے ہدایات دیئے جاچکے ہیں کہ اسلامی اقدار اور اصولوں کے منافی کسی سرگرمی کو برداشت نہیں کی جائے گی۔ عوام سے بھی اپیل ہے کہ غیر اسلامی اور غیر شرعی پروگرام کی حوصلہ شکنی کریں اور اس طرح کے ویڈیوز کو پھیلانے سے اجتناب کریں۔ بحیثیت مسلمان ہم سب کا فریضہ ہے کہ اسلامی اصولوں اور اقدار کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں۔ نجی ٹی وی چینل کی جانب سے مخلوط ڈانس کے پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا جس کا حکومتی سطح پر سختی سے نوٹس لیا گیا اور اس وقت کے سیکریٹری سیاحت کو پروگرام میں شرکت کرنے پر کارروائی کی گئی۔
……………………………
.
گلگت، حکومت نے عوام کے معیار زندگی کوبہتر بنانے کیلئے 200 گھرانوں پر مشتمل تمام آبادیوں کو آر سی سی پل سے لنک کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت اب تک 24 نئے آر سی سی پل صوبے میں تعمیر کئے جاچکے ہیں،وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن
گلگت(چترال ٹائمزرپورٹ) وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان حکومت نے عوام کی معیار زندگی کوبہتر بنانے کیلئے 200 گھرانوں پر مشتمل تمام آبادیوں کو آر سی سی پل سے لنک کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت اب تک 24 نئے آر سی سی پل صوبے میں تعمیر کئے جاچکے ہیں۔ سکردو چھومک پل کے بارے میں لوگ کہہ رہے تھے کہ اس منصوبے پر عمل نہیں ہوگا لیکن ہم نے چھومک پل کی تعمیر کو یقینی بنایا۔ چند لوگ گلگت کی تعمیر و ترقی کو روک کر اپنا سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ ترقیاتی منصوبے ختم کرنے کیخلاف کہیں سے آواز نہیں اٹھائی جاتی۔ ہم نے تقریبا ساڑھے چار سال بلا تفریق گلگت بلتستان کی خدمت کی ہے۔ کارڈک ہسپتال، کینسر ہسپتال، گلگت سکردو روڈ، شہید سیف الرحمن ہسپتال، گلگت نلتر ایکسپریس وے جیسے بڑے منصوبوں پر کام جاری ہے۔ ماضی میں اتنے بڑے میگا منصوبوں کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ گلگت کے سیوریج انتہائی اہم منصوبہ ہے۔ سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ صوبائی حکومت نے اپنے وسائل سے بنایا لیکن موجودہ وفاقی حکومت نے اس منصوبے کو ختم کیا۔ میڈیکل کالج، وومن یونیورسٹی جیسے اہم منصوبے ختم کئے۔ سابق وزیر اعلی پنجاب محمد شہباز شریف کی جانب سے گلگت بلتستان کے ہسپتالوں کیلئے 40 کروڑ کی جدید مشینری فراہم کی گئی۔ 60 کروڑ روپے شہید سیف الرحمن ہسپتال کی تعمیر کیلئے دیئے گئے۔ عوام کی خوشحالی کیلئے بہتری کیلئے سڑکیں اور پل بنارہے ہیں لیکن بدقسمتی سے چند لوگ اس پر بھی سیاست کرتے ہیں۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہا ہے کہ ترقیاتی منصوبے اپنے سہولت کیلئے نہیں بلکہ عوام کی فلاح و بہبود کیلئے بنائے ہیں۔ ہم نے بلاتفریق علاقے کی خدمت کی ہے۔ پسند ناپسند پر نہیں بلکہ میرٹ پر کام کیا ہے۔ حکومتی اقدامات کی وجہ سے آج گلگت بلتستان امن کا گہوارہ بن چکا ہے۔ گلگت بلتستان کا امن سب سے زیادہ ہمیں عزیز ہے۔ ہم نے امن کیلئے قربانیاں دیں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے پہلے بے گناہ لوگوں کی لاشیں گرتی تھیں لیکن کسی کو اس وقت خیال نہیں آیا۔ بگروٹ اورحراموش روڈ کا منصوبہ ہماری حکومت نے دیا ہے تاکہ ان علاقوں میں سیاحت کو فروغ دیا جاسکے۔ ان خیالات کا اظہار وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے انجمن امامیہ کونسل کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے کہاکہ گلگت بلتستان میں لاشوں کی سیاست ختم ہوچکی ہے۔ ہم علمائے کرام کا احترام کرتے ہیں۔ کسی بھی حلقے سے جائز بات کی جائے گی تو ضرور سنی جائے گی لیکن کسی کی ڈکٹیشن قبول نہیں کرینگے۔ پسند ناپسند اور سفارش کلچر کے خاتمے کیلئے 11 سو آسامیوں کو بھرتیوں کیلئے ایف پی ایس سی بھجوادیا گیا۔ ٹیسٹنگ سروسز کے ذریعے صوبے میں ملازمت دی گئی تاکہ کسی حق تلافی نہ ہو۔ ہماری حکومت سے پہلے کرپشن، اقربا پروری عروج پر تھی۔ ہم نے اس کلچر کا خاتمہ کیا اور گڈ گورننس متعارف کروایا۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
28931

سی پیک کے دوسرے مرحلے میں گلگت سے چترال سمیت 1270 کلومیٹر شاہراہیں تعمیرکئے جائینگے

Posted on

چین پاکستان اقتصادی راہداری کے دوسرے مرحلے میں 1270 کلومیٹر طویل شاہراہیں تعمیر کی جائیں گی،سی پیک اتھارٹی حکام
اسلام آباد (آئی آئی پی) چین پاکستان اقتصادی راہداری کے دوسرے مرحلے میں 1270 کلومیٹر طویل شاہراہیں تعمیر کی جائیں گی۔ سی پیک اتھارٹی حکام کے مطابق دوسرے مرحلے میں مغربی روٹ پر کام تیزکرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ شاہراہوں کا یہ ڈھانچہ گلگت سے چترال اور ڈیرہ اسماعیل خان سے ژوب تک تعمیر کیاجائے گا۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے جبکہ بنیادی ڈھانچے اور معیشت کو فروغ ملے گا۔ چین اقتصادی ترقی اور غربت کے خاتمے کے حوالے سے ایک عملی نمونہ ہے۔
………………………..
موجودہ حکومت کاروباری سرگرمیوں کے فروغ کے لئے سازگارپالیسیوں کے ذریعے سرمایہ کاروں کو تمام ممکنہ سہولیات فراہم کررہی ہے، ایک خطہ ایک شاہراہ منصوبہ موجودہ صدی کی تقدیر بدل دے گا،حکام سی پیک اتھارٹی
اسلام آباد (چترال ٹائمزرپورٹ) موجودہ حکومت کاروباری سرگرمیوں کے فروغ کے لئے سازگارپالیسیوں کے ذریعے سرمایہ کاروں کو تمام ممکنہ سہولیات فراہم کررہی ہے، ایک خطہ ایک شاہراہ منصوبہ موجودہ صدی کی تقدیر بدل دے گا جس میں چین پاکستان اقتصادی راہداری ایک اہم منصوبہ ہے۔ سی پیک اتھارٹی کے حکام کے مطابق چین پاکستان اقتصادی راہداری سے ملک میں توانائی کے شدید بحران پرقابو پانے میں مددملی ہے اور پاکستان میں سرمایہ کاری کو یقینی بنانے کے لئے بجلی کی بلاتعطل فراہمی ضروری ہے۔ رشکئی خصوصی اقصادی زون سی پیک کے تحت قائم کیاجانے والا اقتصادی زون ہوگا جس کاآئندہ چھ ہفتوں میں سنگ بنیاد رکھاجائے گا۔
….
سی پیک پاکستان اور چین کی اولین ترجیح ہے، حقیقت پر مبنی معلومات سے منفی پراپیگنڈے کا ازالہ کرنا ہے،سی پیک کا اگلا مرحلہ صنعتی تعاون کو فروغ دے گا،پاکستان میں چین کے سفیر یا جنگ
اسلام آباد (چترال ٹائمزرپورٹ) پاکستان میں چین کے سفیر یا جنگ نے کہا ہے کہ سی پیک پاکستان اور چین کی اولین ترجیح ہے، حقیقت پر مبنی معلومات سے منفی پراپیگنڈے کا ازالہ کرنا ہے،سی پیک کا اگلا مرحلہ صنعتی تعاون کو فروغ دے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کوپاک چائنا انسٹیٹیوٹ کے 5 ویں میڈیا فورم سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں صنعتی زونز کے قیام، تعلیم اور زراعت سمیت دیگر شعبوں پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ چینی سفیر نے کہا کہ پہلے مرحلے میں میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی اورتوانائی سمیت شاہراہوں کی تعمیر پر توجہ دی گئی۔ چینی سفیر نے کہاکہ دونوں ممالک کے تعاون سے یہ منصوبہ کامیابی کے راستے پر گامزن ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت چینی اور پاکستانی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ دونوں ممالک خصوصی طور پر اقتصادی تعاون کو فروغ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک پر پیشرفت کے بارے میں دونوں ملکوں میں مکمل اتفاق رائے ہے۔ سی پیک کا مقصد پاکستان کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنا ہے۔ سی پیک کا اگلا مرحلہ صنعتی تعاون کو فروغ دے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایمیسیڈر ایلس ویلز کے بجلی ٹیرف کے زیادہ ہونے کے بیان کو سن کر حیرت ہوئی، سی پیک کے بارے میں کرپشن کی بات کرنا آسان ہے جب آپ کے پاس درست معلومات نہ ہوں، سی پیک کے منصوبوں کے حوالے سے نیب سمیت تمام نے چیک کیا ہے، کوئی کرپشن سامنے نہیں آئی۔ انہوں نے کہاکہ تمام منصوبوں میں مکمل شفافیت پائی گئی۔ ایلس ویلز نے ایم ایل ون پر بھی بات کی،ایم ایل ون ریلوے منصوبہ کی لاگت 9 ارب ڈالر ہے، یہ صرف ایک تخمینہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی محکمہ خارجہ کے اعلی حکام کو ایم ایل ون کے تخمینے پر بات نہیں کرنی چاہئے تھی، یہ ان کے دفتر کے آداب کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک نے پاکستان میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کئے ہیں، جاری 20 منصوبوں میں 75ہزار سے زائد پاکستانیوں کو روزگار فراہم کیا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ اور سی پیک مشترکہ فائدے کا منصوبہ ہے، 170 ممالک اس کا حصہ ہیں۔ انہو ں نے کہا کہ یقین دہانی کراتا ہوں کہ سی پیک چین کی حکومت کی اولین ترجیح ہے، میڈیا حقیقت دیکھے، اس کے فوائد دیکھے اور منفی پراپیگنڈے کو نظر انداز کرے۔
دریں اثنا چینی سفیر نے وفاقی وزیر اسد عمر سے ملاقات کی اورسی پیک کے تمام منصوبوں‌کو بروقت مکمل کرنے کی عزم کا اظہارکیا.

chinese ambasider
Federal Minister for Planning, Development & Reform Asad Umar talking to Ambassador of China to Pakistan, Yao Ying, who called on him in Islamabad on November 22, 2019.

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
28913

سیاچین گلیشئر متنازعہ علاقہ ہے، بھارت اسے سیاحت کیلئے نہیں کھول سکتا….ترجمان

Posted on

، بانی ایم کیو ایم کی جانب سے سیاسی پناہ کیلئے بھارت سے درخواست سنجیدہ معاملہ ہے، اس سلسلے میں جامع ردعمل جلد جاری کر دیا جائیگا،ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل
.
اسلام آباد(آئی آئی پی) ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کہا ہے کہ سیاچین گلیشئر متنازعہ علاقہ ہے، بھارت اسے سیاحت کیلئے نہیں کھول سکتا، بانی ایم کیو ایم کی جانب سے سیاسی پناہ کیلئے بھارت سے درخواست سنجیدہ معاملہ ہے، اس سلسلے میں جامع ردعمل جلد جاری کر دیا جائیگا۔ جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ میں ترجمان نے کہا کہ بھارت نے سیاچین کے علاقہ پر قبضہ کی کوششیں کی ہیں جبکہ متنازعہ علاقے کو سیاحت کیلئے نہیں کھولا جا سکتا تاہم ترجمان نے کہا کہ بھارت نے سیاچین سے متعلق فیصلے کے بارے میں پاکستان کو آگاہ نہیں کیا ہے۔ ترجمان نے نیپال میں لاپتہ پاک آرمی کے ریٹائرڈ آفیسر کرنل حبیب طاہر کی ٹارچر سیل میں قتل کے حوالے سے رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے جعلی قرار دیا اور کہا کہ ڈیتھ سرٹیفکیٹ میری نظر سے بھی گزرا ہے جو جعلی ہے، یقینا یہ دشمن ایجنسیوں کی پاکستان اور پاکستانی شہریوں کیخلاف سنسنی خیزی مہم کا حصہ ہے۔ بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کی بھارت میں سیاسی پناہ کی خواہش کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ یہ انتہائی تشویشناک معاملہ ہے اور اس سلسلے میں جلد جامع رد عمل جاری کیا جائیگا۔آزاد کشمیر میں ہندوں کے مقدس مقامات کھولنے پر غور سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے ترجمان نے کہا کہ پاکستان عوام کے مابین رابطے بڑھانے کیلئے تیار ہے تاہم بھارت کی جانب سے باہمی امور پر مذاکرات سے انکار بنیادی رکاوٹ ہے۔ترجمان نے کہا کہ بھارت نے پانچ اگست کے فیصلے بعد دو طرفہ معاملات پر کام کو مشکل اور تقریبا ناممکن بنا دیا ہے جبکہ پاکستان نیک نیتی کے باوجود اس طرح کے منصوبوں کو یکطرفہ عملی جامہ نہیں پہنا سکتا۔ ترجمان نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اس تاثر کو مسترد کیا کہ پاکستان گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کیلئے کوشاں ہے، تاہم ترجمان نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ لوگوں کو بنیادی حقوق دینے پر زور دیا ہے۔ترجمان نے کہا کہ گلگت بلتستان میں انسانی ترقی کو اس وجہ سے نہیں روکا جاسکتا کہ بھارت کشمیر کا معاملہ حل نہیں کرنا چاہتا۔ ترجمان نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے قراردادوں کے مطابق استصواب رائے مسئلہ کشمیر کا واحد حل ہے۔ترجمان نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام ہمارے دلوں کے انتہائی قریب ہیں اور ہم انہیں بااختیار بنانے کیلئے ہر ممکن کوششیں جاری رکھیں گے۔ترجمان نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں خوراک، ادویات کی قلت کے باعث انسانی بحران بد تر ہوتا جارہا ہے۔ ترجمان نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ وادی میں سنگین صورتحال کا نوٹس لیں۔ ترجمان نے کہا کہ نیدر لینڈ کی ملکہ میکسیما انکلوژو فنانسو ترقی سے متعلق یو این سیکرٹری جنرل کی سپیشل ایڈوو کیٹ کی حیثیت سے 25سے 27نومبر تک پاکستان کا دورہ کریں گی۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, گلگت بلتستانTagged
28897

اپیل برائے علاج ومالی تعاون ذہنی مریضہ

چترال (نمائندہ چترال ٹائمز) چترال شہر کے گاؤں موڑدہ سے تعلق رکھنے والی ایک غریب اور ذہنی طور مکمل معذور بچی مخیر حضرات کی تعاون کیلے منتظر ہے۔وسایل کی عدم دستیابی اور بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے اس بچی کی ذہنی حالت روز بہ روز بگڑتی جارہی ہے اور اس کو سنبھالنا اب بے چارہ اور غریب والدین کیلیے نا ممکن ہو گیا ہے۔ بچی کی عمرتقریبا پندرہ سال ہے.ڈاکٹروں‌کے مطابق بچی کی علاج بڑے شہروں‌سے ممکن ہے.

لوگوں میں بہترین وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچایے(حدیث)۔

اس بچی کی علاج کی زمہ داری ہم سب پہ عاید ہوتی ہے آئیے اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالیں اور اس غریب بچی کو اور اس کے خاندان کا سہارا بنیے۔اوربچی کی علاج اسلام آباد یا دوسرے بڑے شہروں‌ کے نجی ہسپتالوں‌سے کرایاجائیگا لہذا اس کارخیرمیں حصہ داربنئے..
.

فقط
واجیہ الدین موڑدہ چترال موبائل نمبرِ:03018894407
عمادالدین دنین چترال موبائل نمبر: 03469836815

ان کے علاوہ چترال ٹائمزڈاٹ کام کے ایڈیٹرکی وساطت سے بھی بچی کی علاج کیلئے رابطہ کرسکتے ہیں.

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
28883

چنے کی دال……..(ایک ہاسٹل زدہ کی روداد) ……تحریر: عاتکہ آفتاب

جب میں اپنے کمرے میں داخل ہوا تو مجھے ایک غیر معمولی تماشہ دیکھنے کوملا میرا ادنیٰ جبڑا اعلیٰ سے جدا ہوا اور آنکھیں باہر آگئیں کمرے میں ایک حشر برپا تھا کوئی رو رہا تھا توکوئی دھو رہا تھا کمرے میں صوتی الودگی کا دور اپنے عروج پر تھا۔ ہر طرف سنسان اور ویران چہرے نظر آرہے تھے ہمارے ہنستے بستے کمرے کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی تھی۔ جہاں کبھی کوئل کوکتی تھی وہاں کوّے کائیں کائیں کررہے تھے۔

حالات ایسے تھے کہ جیسے زندگی کی ہریالی پر ٹڈی دل کا حملہ ہوا تھا یا اس مہنگائی کے دور میں کسی نے کھیتوں سے ہمارے قیمتی ٹماٹر چرائے تھے۔ کمرے کی فضا نہایت ہی سوگوار تھی اور اس خلوت خانے کے باشندگان ِ غم انگیز نے اپنے گریہ و زاری سے اس ماحول کو اور وحشت بخشی تھی کوئی نوحہ گری میں مصروف تھی کوِئی غناِ غم کا ریہاس کررہا تھا کوئی اجڑی ہوئی ریاست کی لُٹی ہوئی سلطانہ بنی بیٹھی تھی تو کوئی دنیا و مافیھا سے بے خبر دیوانوں سا حال بنائے بیٹھی تھی۔ کوئی غم کے مارے جگر کو پیٹ رہی تھی تو کوئی خاموشی اور برداشت کو ان سب پر ترجیح دئے دنیا داری کی طرف لوٹ گئی تھی حیرت کا مرکز وہ تھی جس نے ان حالات سے ماوراء ہوکر اپنے جسدِخاکی کو پلنگ پر دراز کررکھی تھی مجھے شدت سے یہ احساس ہوا کہ معاملہ بہت گھمبیر ہے کیونکہ کہاں قہقہے اور ہنسی کی گونگ کبھی مدہم نہیں ہوتی تھی وہاں آج چیخ پکار کی پُر سوز صدا بلند تھی۔
.
سب سے پہلے جس پر میری نظر پڑی وہ مہروز تھی۔ بکھرے ہوئے بال، آنسوؤں سے نجس چہرہ اور بار بار اپنے زلفِ پریشاں کو اور بھی پریشاں کرتی چیل جیسے پنجے ،وہ اپنے چہرے کو ایسے نوچ رہی تھی جیسے اس کی چھے میں سے چار مرغیاں لومڑی نے اڑائی ہو، ایک بسترِ مرگ پر پڑی اپنی آخری سانسیں گن رہی ہو اور ایک نے بھاگ کر کسی اوارہ مرغ کے ساتھ بیاہ رچائی ہو۔ بہر حال وہ اپنا حلیہ بگاڑنے میں مصروف تھی کہ میں نے نظر دوڑانا شروع کی جو تحسین پہ جا کے اٹک گئیں وہ نہایت بے بس پِٹے ہوئے بچے کی طرح سسک رہی تھی جس کو ماں نے جوتی سے خاصی خاطر مدارت کی ہو۔ ایک مخصوص وقفے کے بعد اس کے خستہ وبے حال جسم سے سسکیوں کا تعاقب کرتی ہوئی ایک انتہائی سرد آہ نکلتی تھی جو جگر کے پار ہوکر پھر آر ہوجاتی تھی اس کے دردِ ناسور نے اپنا راستہ اس کی نا اُمید آنکھوں سے بنایا ہوا تھا اس نے اپنی ساحرآنکھیں اٹھائی اور پھر جھکالی۔ ایک لمحے بعد وہ کسی طوفانی گردباد کی طرح اپنے مقام پر گھومنا شروع کیا اور بیٹھ کر ہنسنے لگی اور یک لخت رونا شروع کیا اس کی اس ذہنی کیفیت پر مجھے بہت رنج ہوا یقینا ًاسے بھی کسی شدید غم نے آلیا تھا۔ دوسری طرف کائنات کسی دہقان کی بیوہ کی طرح اپنے سر اور چھاتی کو پیٹ رہی تھی گویا اس کا مجازی خدا جس کے بعد اس کا پیٹ پالنے والا کوئی نہیں تھا اچانک انھیں چھوڑ کر چل بسا تھا ایک لمحے لئے مجھے وہ بنجارن لگی تھی جو راہگیروں سے کچھ پیسے بٹورنے کے لئے اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی جھنجھوڑتی اور مارتی ہے تاکہ ان بے جان اجسام کو دیکھ کسی کا دل پگھل جائے۔ فی الحال میں اس کے دردِ پنہاں کو سمجھنے سے قاصر تھی لیکن ابھی تو اس غارِشورش کو بند کرنے کی خواہاں تھی۔
.
ایک طرف شمائلہ دیوار سے ٹیک لگائے جہاں سے بے خبر مسکراتی تھی اور پھر منہ بناتی تھی ناکام عاشق کی طرح اس کی آنکھوں میں عجب سا سرورِ غم تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے نامراد مسافر کی طرح خفیف سی مسکراہٹ چہرے پر چسپاں کردی کہ جو منزل پر پہنچ کر بھی منزل سے محروم ہو ۔ اس کے چشمِ نا اُمید اور حالتِ زار پر مجھے غالب کا شعر شدت سے یاد آرہا تھا۔

اپنے پلنگ پر بیٹھی مبشرہ کسی ادھی ادھوری خواہشات کے سکتے میں آئی ہوئی مالکہ شہزادی لگ رہی تھی کہ جس کی خاموشی اس کا درد چیخ چیخ کر بیاں کر رہی تھی۔ وہ مجھے زلیخا باجی کی طرح لگ رہی تھی جنھیں کبھی ان کا محبوب چھوڑ گیس تھا لیکن وہ آج تک اس صدمے سے باہر نہ آسکیں اور ہر روز بن ٹھن کر برقعہ ہاتھ میں تھامے دروازے پر اس کا انتظار کرتی تھی کہ کب وہ آئے اور وہ دونوں اس ظالم سماج سے بھاگ جائیں۔
.
جمیلہ ہمیشہ کی طرح ہُو کے عالم میں کتاب نکالے بیٹھی تھی اسے نہ تو میں نے چیختے چلاتے دیکھا اور نہ ہی اظہارِتجسس کرتے۔ وہ پانی ڈالے ریت کی طرح ایک دم ساکت اور ویران بیٹھی تھی ۔ مجھے ہنسی بھی آئی کہ وہ اس حالت میں بھی توجہ کا مرکز کتابوں کو بنائی تھی۔
.
اچانک میری نظریں اس کے دائیں جانب گئیں دیکھا کہ کوئی لمبی سی چیز شگفتہ کی چارپائی پر ایک دم بے سُدھ پڑی ہوئی ہے۔ ایک لمحے کے لئے مجھے اس پر لاش کا شبہ ہوا اور اب کمرے کی اس حالتِ زار سمجھ گئی تھی اس خیال سے کسی سے نہ پوچھا کہ خدا ناخواستہ میرا شک درست نہ ہو۔ میں خود تسلی کرنے کےلئے کپکپاتی، لرزتی اور سہمی ہوئی آگے بڑھی، دو چار قدم رہ گئے تھے کہ میت نے کسمساتے ہوئے کروٹ بدلی اسی کے ساتھ میرے طوطے، کوّے، چیل اور گدھ سب اُڑ گئے اس لمحہ میں برق رفتاری سے پیچھے کی طرف چھلانگ لگائی اسی وقت اگر الماری بیچ میں نہ آتی تو شائد میں بغیر سواری کے اپنے گھر پہنچ جاتی الماری کے دروازے سے ٹکرانے کے بعد میرے ہوش وحواس بحال ہوگئے دیکھا کہ وہ کوئی لاش نہیں بلکہ اپنی شگفتہ ہی تھی جو ان سب سے بے نیاز خوابِ خرگوش میں مبتلا تھی میرے شور شرابے سے آنکھیں ملتے ہوئے لمبی لمبی جمائیاں لیتی ہوئی کھڑی ہوئی۔ اس کے ساتھ میری حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہونے کے باوجود یہ ماتم کیوں ہے پوچھنے پر شگفتہ ٹھنڈی آہ بھری اس کے ساتھ باقی بھی کراہنے کے انداز میں آہ بھرنے لگیں شگفتہ پُرنم آنکھوں میں نااُمیدی کے ڈورے دوڑاتے ہوئے کہا کہ ” آج دوپہر کے کھانے میں چنے کی دال ہے” یہ سننا تھا کہ دنیا پر سے میرا اعتبار اُٹھ گیا، ہر چیز بے معنی نظر آنے لگی، میں خود کو اس دنیا میں تنہا، بے بس اور بد قسمت تصور کرنے لگی، پوری فضا ماتم کرنے لگی ، ہر طرف دُکھ، مایوسی اور نا اُمیدی کے بادل چھاگئے قصہ مختصر کہ میں اس سے بری خبر زندگی میں نہیں سنی تھی۔ میں یہ صرف سنا باقی کی باتیں سنائی نہیں دیں صرف شگفتہ کا منہ ہلتا ہوا دکھائی دیا۔ میں آہستہ آہستہ دیوار کے ساتھ گھِستا ہوا الماری سے ٹیک لگائے نیم دراز ہوئی۔ اب کمرے میں سب سے زیادہ وحشت ناک میں لگ رہی تھی۔
پھر کبھی کھانے میں دال کا ذکر مت کرنا
میں ڈر گئی تھی میں مر بھی سکتی تھی

…..
تحریر: عاتکہ آفتاب (آغا خان ہائر سیکنڈری سکول کوراغ)

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, گلگت بلتستانTagged
28847

گلیشئرز ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں،5ہزار گلیشئرزمیں پگھلنے کا عمل باعث تشویش ہے..ملک امین

Posted on

اسلام آباد(چترال ٹائمزرپورٹ) وزیر اعظم کے مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم نے کہا ہے کہ گلیشئرز ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں ان کے تحفظ کے لئے ہمیں جدید تحقیق کی ضرورت ہے،7ہزار میں سے 5ہزار گلیشئرز میں پگھلنے کا عمل شروع ہوچکا ہے جوباعث تشویش ہے، موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پاکستان کی طرف سے کئے جانے والے اقدامات کو دنیا سراہا رہی ہے۔پاکستان گلوبل کلائمیٹ فنڈ کا نائب صدر بن گیا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو گلوبل چینج ایمپیکٹ سٹڈیز سینٹر (جی سی آئی ایس سی)کے زیر اہتمام گلیشئرز کو موثر نگرانیکے موضوع پر منعقدہ پانچ روزہ تربیتی ورکشاپ کے اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ملک امین اسلم نے کہا کہ یہ قابل فخر بات ہے کہ اس ورکشاپ میں 50فیصد سے زائد طالب علموں کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے اور40 فیصد طالبات نے شرکت کی جو گلیشئرز پر تحقیق کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں دیگر گلیشئرز کی طرح قراقرم گلیشئرز کی بھی حفاظت کرنی چاہئے کیونکہ ان کا 100فیصد حصہ پاکستان میں ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ یہ گلیشئرز 5 ہزار میٹر بلند ہونے کی وجہ سے پگھل نہیں رہے۔انہوں کہا کہ اس وقت 7ہزار میں سے 5 ہزارگلیشئرز میں پگھلنے کا عمل شروع ہوچکا ہے جوباعث تشویش ہے اور یہ سب کچھ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہورہا ہے،ہمارے ہاں موسم گرما کا دورانیہ طویل ہوتا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے طالب علموں کو دیگر شبعوں کی طرح گلیشئرز بھی توجہ دینی چاہیئے اور ان کے لئے نادر موقع ہے وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا اس شعبہ میں آزمائیں کیونکہ گلیشئرز ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں ان کے تحفظ کے لئے ہمیں جدید تحقیق کی ضرورت ہے۔بعد ازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ملک امین اسلم نے کہا کہ شمالی علاقہ جات میں قبل از وقت برفباری خوش آئند ہے اس سے گلیشئرز کو فائدہ ہوگا اور دریاؤں ندی نالوں میں پانی سطح بلند ہوگی۔انہوں کہا کہ ہمیں شمالی علاقہ جات پر خصوصی توجہ دینی ہوگی کیونکہ اس علاقے میں خاص طور پر موسمیاتی تبدیلی کا اثر پورے ملک پر پڑتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کلین اینڈ گرین منصوبہ کامیابی سے جاری ہے۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے گلوبل چینج ایمپیکٹ سٹڈیز سینٹر کے شعبہ زرعی تحقیقات کے سربراہ عارف گوہر نے کہا کہ آج کامیابی سے 5روزہ تربیتی ورکشاپ اختتام پزیر ہورہی ہے امید اس طرح کا سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہماری مختلف زرعی اجناس متاثر ہورہی ہیں جس پر جدید ریسرچ کی ضرورت ہے۔اس موقع پر دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
28836

چلتے چلتے ……..مخلوط ڈانس اور ہمارا معاشرہ ……..تحریر: محبت علی قیصرگلگت

آج کل اخبارات ہوں یا سوشل میڈیا ، گلی کوچے ہوں یا بازار کوئی محفل ہو یا بیٹھک سکول ہو یا کالج مدرسہ ہو یا کوئی اور ادارہ مسجد ہو یا میخانہ عدالت ہو یا یاروں کی محفل جھگڑاہویا ہنسی مذاق ہر جگہ ہر وقت یہی بحث ہورہی ہے کہ ناچ گانے اور مخلوط ڈانس یہ کیا ہے؟کیوں ہے؟ کیسے ہوا؟کوئی کہتا ہے کہ جدید زمانہ ہے ایسا ہوتا ہے واویلا کرنے کی ضرورت نہیں کوئی کہتا ہے کہ ہمارا معاشرہ ایسانہیں ہے یہ ایک اسلامی اور مہذب معاشرہ ہے یہاں ایسی چیزوں کی قتعاً اجازت نہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اگر اپنے بچوں کو آزاد چھوڑ دیں گے تو یہی تو ہوگا ان کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ بھئی اگر گھر سے دور بچوں کو تعلیم کے بہانے غیروں کے حوالے کریں گے تو اس کا نتیجہ تو یہی ہونا ہے۔ الغرض جتنے منہ اتنی باتیں،

مگر ہم یہاں چند حقائق واضع کرنا چاہتے ہیں کہ جس کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں۔ اور معاشرہ تذلذلی کی طرف جاتا ہے۔
.
گلگت بلتستان کا معاشرہ بیشک ایک اسلامی اور مہذب معاشرہ تھا اب ہے نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ۔ ایک زمانہ ایسا تھا کہ کہیں بھی کسی پرائیویٹ تعلیمی ادارے کا گمان بھی نہیں تھا ہر گاؤن اور شہر میں سرکاری تعلیمی ادارے ہوا کرتے تھے۔ جہاں بچے اور بچیاں الگ الگ تعلیم حاصل کرتے تھے اور اتنا خیال رکھا جاتا تھا کہ بچوں اور بچیوں کی سکول کی عمارت کافی فاصلے پر ہو تاکہ ان پر برے اثرات نہ پڑیں۔ سب کی ایک ہی وردی ہوتی تھی تاکہ امیر اور غریب کا فرق نہ ہو۔ ایک ہی نصاب پڑھایا جاتا تھا تا کہ تعلیم کی خوبیوں سے سب ایک ہی طرح واقف ہوں کوئی استاد باپ کو ڈیڈی نہیں پڑھاتا تھا۔ باجی کو سسٹر کہنا ہے کہہ کر نہیں سکھاتا تھا۔ اس زمانے میں استاد بڑوں کا احترام خواتین کا احترام سکھاتا تھا۔ اور نماز اور روزے کی پابندی کی تاکید کی جاتی تھی۔

اُس زمانے میں بچے سرکاری سکول سے واپسی آکر کہیں ٹیوشن پڑھنے نہیں جاتے تھے بلکہ گھر آکر کھانا کھایا نماز پڑھا اور سکول کا ہوم ورک کرنے کے بعد سیدے مدرسے جاتے تھے اور وہاں اسلامی تعلیم دی جاتی تھی۔
.
اس زمانے میں ناچ گانے بھی ہوتے تھے مگر آج کل کی طرح نہیں کہ سب مل کر کنجروں کی طرح ناچیں۔ خواتین بھی کسی خوشی کے موقع پر خوشی کا اظہار کرتی تھیں اور کسی پردے کی جگہ پر جہاں کسی مرد کا سایہ بھی گزرتانہیں تھا، اگر کسی شادی میں کوئی حریپ وغیرہ ہو تو مرد میدان میں اکھٹے ہوتے اور خواتین دور کسی چھت یا کسی ایسی جگہ جہاں مرد کی نظر نہ پڑھے وہاں بیٹھ کر تماشہ دیکھتی تھی۔
.
آج کل کی طرح خواتین غیر مردوں کے ساتھ بازار میں شاپنگ نہیں کرتی تھی بلکہ مرد جو بازار سے لے آتا اسی پر اکتفا کرتی۔ اب کی طرح سوشل میڈیا کا نام دیکر غیر لڑکوں کے ساتھ فرینڈ شپ نہیں کی جاتی تھی اس زمانے میں کسی بھی غیر لڑکی سے بات کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا، ان کی محبت نکاح کے بعد ہی ہوتی تھی۔
.
کہیں اگر مرد اکھٹے بیٹھے ہیں تو وہاں سے خواتین کا گزر نہیں ہوتا تھا اور وہ دوسرا راستہ اختیار کرتی تھی۔ کوئی خوشی ہو یا موت کا گھر وہاں باقاعدہ خواتین اور مردوں کے لئے الگ الگ جگہ کا بندوبست کیا جاتا تھا۔ زمانہ کچھ بدل گیا جب کوئی خاتون شہر کی طرف آئے تو اسے گاڑی کی خصوصی سیٹ پر بٹھا کر لایا جاتا اس کے ساتھ کوئی غیر مرد نہیں بیٹھ سکتا تھا۔
.
اس زمانے میں اسلامی تہوار ہو یا کوئی مذہبی کسی بھی ادارے میں یا کسی بھی جگہ منعقد کیا جاتا تھا اور وہاں کوئی روکنے والا نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے اسلامہ اقدار بڑتے تھے اور ان شیطانی اعمال کا وہاں گزر نہیں ہوتا تھا۔
.
لوگوں نے جو اپنے اندر کوئی غیرت نام کی چیز نہیں رکھتے ہیں انہوں نے یہاں تک کہا کہ عورت کی بھی زندگی ہے ایسی چیزیں کرے تو ان کو منع نہیں کرنا چاہئے کیوں کہ زمانہ جدید ہے یہاں ہر ایک کو آزادی ہونی چاہے۔
.
مخلوط ڈانس اور بیراہ روی یہ کیوں ہوا اس کی بس یہی وجہ ہے کہ بچوں کو بچپن سے ہی یہی تربیت دی جانے لگی ہے۔ کیوں کہ ہر گلی کوچے میں پرائیویٹ سکول کھل گئے جہاں نرسری سے لیکر ماسٹر تک بچوں کو مخلوط تعلیم(دی نہیں جاتی) فروخت کی جاتی ہے۔ وہاں کبھی یوم والدین کے نام پر(حالانکہ وہاں والدین کا نام و نشان نہیں ہوتا ہے) کبھی یوم آزادی کے نام پر (حالانکہ بچوں کو آزادی کے مفہوم کا بھی معلوم نہیں) کبھی رزلٹ کے نام پر ایسے فنکشن کروائے جاتے ہیں جہاں چھوٹے چھوٹے بچے اکھٹے ٹیبلو کے نام پر ڈانس پیش کرتے ہیں کوئی اعتراض کرے تو کہا جاتا ہے کہ چھوڑو بچے چھوٹے ہیں کیا ہوتا ہے۔وہی سے ہی تربیت دی جاتی ہے کہاں گئے وہ تعلیمی ادارے اور مدرسے، اب حالت ایسی ہے کہ مدرسے میں پڑھانے کے لئے مولوی صاحب گلی گلی اور در در پھر کر بچوں کو اکھٹا کرتا ہے اور اتنی محنت کے بعد بھی دس سے بارہ بچے جمع ہوتے ہیں اوروہ بھی بیزار بیزار۔ وہ مولوئی کوئی اجرت بھی نہیں مانگتا کل سو روپے مانگے تو ہمارا جیب اس کی اجازت نہیں دیتا ہے اور بھاری فیسیں دیکر ان تعلیمی اداروں میں بچوں کو بھجتے ہیں جہاں مخلوط ڈانس کی تربیت دی جاتی ہے جہاں اسلامی نہیں انگریزی تعلیم دی جاتی ہے جس سے رشتوں کی تمیز مٹ جاتی ہے وہاں ابا نہیں ڈیڈ اور باجی نہیں سسٹر کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اگر فیس میں کچھ دیر ہوجائے تو بچوں کو سکول سے نکالنے کی دھمکی دی جاتی ہے اور والدین جاکر ٹیچر کے پاؤں پڑتے ہیں کہ فیس جلدی ادا کی جائے گی اور بچے کو نہ نکالنا اس کا سال ضائع ہوگا۔ ادھر مولوئی کوکبھی یہ کہنے کی جراعت نہیں ہوئی کہ اسے مدرسے سے نہ نکالو اس کی آخرت ضائع ہو جائے گی۔ کسی بھی تعلیمی ادارے میں محمد و آل محمد کے ذکر پر پابندی لگے اور وہاں ناچ گانے کو ترجیح دی جائے گی تو معاشرے کی یہی تو حالت ہو گی اور بچے آزادانہ میل ملاپ رکھیں گے تو ایسا ہی ہو گا۔ ناچ گانے کے لئے ہال کے ہال سجائے جائیں اور ذکر آل محمدؐ اور محفل میلاد کے لئے باہر بھی جگہ نہ ہوں تو ایسا ہی ہوگا کیا ہمارا معاشرہ ایسا ہے۔
.
میاں گاڑی کے اندر بچے کو سنبھالے بیٹھا ہے اور بیوی باہر نکل کر دکاندار کے پاس جاتی ہے وہ اس کا کسی بھی طریقے سے کچھ بھی نہیں لگتا ہے اس سے گپ شپ کرتی ہے اور سودا طے کرکے کپڑا لے کر باہر آتی ہے اور میاں کو دکھاتی ہے کہ تمہارے لئے میں نے ایسا کپڑا پسند کیا ہے لے آؤں؟ گھر میں عورت گندے کپڑے پہن کر چڑیل کی طرح رہتی ہے اور جوں ہی مارکیٹ جانے کا وقت آتا ہے تو وہ بن سنور کر نکلتی ہے اور کہتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے ارے بھئی تم لوگوں کے لئے سنورتی ہو جس سے تم آگ کا سامان بنا لیتی ہو اور گھر میں گندگی کا ڈھیر بن کر رہتی ہو سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ مرد غیر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ وہاں عورت کو یہ سوچنے کا موقع ہی نہیں کہ لوگ کیا کہیں گے؟
.
بازار ہو یا مارکیٹ ہر جگہ خواتین ٹولیوں کی شکل میں گھوم پھرتی ہیں اور ہاتھوں میں شاپر لئے اور مرد یا تو گھر سنبھال کے بیٹھے ہیں یا ان کے پیچھے بچوں کو اٹھائے لٹو کی طرح گھومتے پھرتے ہیں۔ تو پھر مخلوط ڈانس نہیں تو اور کیا ہوگا ہمارا معاشرہ کیسا تھا اور اب ہم نے اسے کہاں لا کھڑا کیا ہے۔ ایک راحت حسین الحسینی نے اس غیرت کے اہم مسئلے پر آواز اٹھائی تو ہر جگہ سے اس کے خلاف بکواس ہونے لگی اور کیا اس معاشرے میں ایک راحت حسین الحسینی ہے؟کیا کوئی اور نہیں ہے؟ کسی اور کی بھی زمہ داری نہیں بنتی ہے؟ کیا سب کی زبان سلی ہوئی ہے اورتالہ لگا ہوا ہے۔ کوئی اور آواز کیاں نہیں اٹھاتا ہے۔ کیوں کوئی راحت حسین الحسینی کے ساتھ نہیں دیتا ہے کیوں اس کی آواز میں آواز ملانے والا کوئی نہیں ہے کیا سب مردوں کی غیرت مٹ گئی ہے کیا اپنے آباو اجداد کو بھول گئے ہیں؟ کیا خود کو زندہ درگور کیا گیا ہے؟
.
خدا را اب بھی وقت ہے اٹھو اپنے اس معاشرے کی اصلاح کرو اور وہ مہذب پرخلوس اور محبت بھرا معاشرہ واپس لانے کی کوشش کرو اور جدید زمانے کو چھوڑ کر اپنی غیرت اپنی اسلامی اقدار اور روایات کو زندہ کرنے کے لئے قدم اٹھا لو ایسا نہ ہو کہ یہ معاشرہ معاشرہ کہتے ہوئے ہم مٹ جائیں اور داستان تک نہ ہو داستانوں میں۔ ہر کوئی اپنی روایات ثقافت اور تہذیب سے ہی پہچانا جاتا ہے۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
28819

آغا خان ہائر سیکنڈری سکول کوراغ میں سیکریٹ ٹو سکسیسفول پرینٹنگ کےمو ضوع پرسیمینار

Posted on

کوراغ (چترال ٹائمزرپورٹ )‌آغا خان ہائر سیکنڈری سکول کوراغ میں” Secrets To Successful Parenting” کے موضوع پر ایک روزہ سیمینار منعقد کیا گیا۔ جس میں کافی تعداد میں گورنمنٹ اساتذہ، والدین اورعلاقے کے معززین نے شرکت کی۔ سیمینار میں خصوصی خطاب کے لیےHead of Adult RE and Academic lead for Chitral regions ITREB معروف سکالر علی اکبر قاضی کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔

سیمینار کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا ابتدائی کلمات پرنسپل آغاخان ہائر سیکنڈری سکول کوراغ میڈم سلطانہ برہان الدین نے پیش کرتے ہوئے شرکاء کو خوش آمدید کہا اور سخت موسم کے باوجود تشریف لانے پر مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اورمختصرا اولاد کی تربیت میں والدین کے کردار پر روشنی ڈالی۔ سٹوڈنٹس کاؤنسلر ثمینہ محمود نے سیمینار کے اعراض و مقاصد سے شرکاء کو اگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ ملٹی میڈیا کے زریعے مفصل پریزنٹیشن دی جس میں کاؤنسلنگ کے تعارف کے ساتھ ساتھ گزشتہ کئی سالوں پر محیط خدمات کا احاطہ کیا گیا۔

پروگرام کا ایک مرحلہ “پینل ٹاک”تھا جس کی میزبانی لیکچرر اسلامیات آغاخان ہائر سیکنڈری سکول فدا محمد کر رہے تھے اور اس پینل میں کمیونٹی ممبر کے طور پر منیجر اکیڈمک ITREBمحمد نواز اور گورنمنٹ پرسپلز کی نمائیندگی پرنسپل گورنمنٹ ہائی سکول بونی صاحب الرحمن، ہیڈمسٹریس گورنمنٹ گرلز ہائی سکول بونی میڈم مہرون النساء اور پرنسپل گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج بونی سیدہ نگہت پروین کر رہی تھی۔ اس پینل کا موضوع طلبہ کے وہ مسائل تھے جو یکسان طور پر سب کو سامنا کرنا پڑتا ہے پینل کے میزبان کی طرف سے مختلف نوعیت کے سوالات پوچھے گئے اور شرکاء نے جوابات دئیے۔اور اپنے عملی اور تعلیمی تجربات سے ان مسائل کا حل بتانے کی کوشش کی۔ سیمینار سے مہمان مقرر علی اکبر قاضی نے اولاد کی تربیت میں والدین اور اساتذہ کے کردار پر معز خطاب کیا۔ مہمانوں کو اولاد کی تربیت کے موضوع پر ویڈیوز بھی دکھائی گئی۔
.
اس سیمینار میں بین الاقوامی تنظیم KSF-Pakistan کی طرف سےپرنسپل کوTHOMAS EDISON GOLD MEDAL Excellence in the field of Education in Pakistan اور سٹوڈنٹس کاؤنسلر سمینہ محمود کو دئے گئے سلور میڈل کی رونمائی بھی کی گئی۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سئنیر فیکلٹی ممبر نور محمد نے افسوس کا اظہار کیا کہ والدین کی طرف سے ایسے سیمینار میں دلچسپی نہ لینا باعث تشویش ہے۔ پرنسپل آغاخان ہائر سیکنڈری سکول کوراغ میڈم سلطانہ برہان الدین نے مہمان مقرر کو ادارے کی طرف سے یادگاری شیلڈ جبکہ پینل کے شرکاء کو سونئیر پیش کی۔ شرکاء کی طرف سے سیمینار کو سراہا گیا۔ اسی طرح یہ موثر اور بامقصد سیمینار اپنے اختتام کو پہنچا۔

DSCN0152

DSCN0206

DSCN0208

DSCN0202

DSCN0158

 

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
28777

گلگت، طبی آلات اور ادویات کی خریداری اضلاع کی سطح پر منتقل کرنے کے احکامات جاری

Posted on

گلگت(آئی آئی پی) گلگت بلتستان میں طبی آلات اور ادویات کی خریداری میں تاخیر کے حوالے سے مشکلات کو حل کرنے کیلئے وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے طبی آلات اور ادویات کی خریداری کے عمل کو اضلاع کی سطح پر منتقل کرنے کے احکامات جاری کردیئے۔ ماضی میں ضروری ادویات اور آلات کی خریداری مرکزی سطح پر ہورہی تھی جس کی وجہ سے اضلاع میں ادویات اور طبی آلات کی خریداری کی بروقت دستیابی کی شکایات موصول ہورہی تھیں۔ تمام اضلاع میں بروقت ادویات اور طبی آلات کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے ادویات اور طبی آلات کی خریداری کے عمل کو ضلعی سطح پر منتقل کیا گیا ہے۔ تمام ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز اپنے متعلقہ اضلاع کے ہسپتالوں کیلئے ضروری ادویات اور طبی آلات کی خریداری کرسکیں گے۔
……………….
.

گلگت، جنرل نرسوں کی خالی آسامیوں پر ایف پی ایس سی کے ذریعے تعیناتی عمل میں لانے تک ہسپتالوں میں ہنگامی بنیادوں پر خالی آسامیوں پر کنٹریکٹ کے تحت تعیناتی عمل میں لائی جائے،وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کی ہدایت
گلگت(چترال ٹائمزرپورٹ) وزیر اعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے سیکریٹری صحت و دیگر متعلقہ آفیسران کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلگت بلتستان جنرل نرسوں کی کمی کو دورکرنے کیلئے جنرل نرسوں کی خالی آسامیوں پر ایف پی ایس سی کے ذریعے تعیناتی عمل میں لانے تک جنرل نرسوں کی ہسپتالوں میں کمی کو پورا کرنے کیلئے ان کی ہنگامی بنیادوں پر خالی آسامیوں پر کنٹریکٹ کے تحت تعیناتی عمل میں لائی جائے۔ صوبے میں حکومتی اصلاحات اوراقدامات کی وجہ سے ڈاکٹروں کی کمی کا مسئلہ حل ہوا ہے۔ پانچ سو سے زائد ڈاکٹر صوبے میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ پیرا میڈیکل سٹاف کی کمی دور کرنے کیلئے بھی میرٹ پر پیرا میڈیکل سٹاف کی تعیناتی عمل میں لائی جاچکی ہے۔ ہسپتالوں کو جنرل نرسوں کی کمی کا سامنا ہے جس کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ جنرل نرسوں کی تعیناتی ہنگامی بنیادوں پر کنٹریکٹ کے تحت میرٹ پر عمل میں لائی جائے گی۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
28727

چترال ٹو گلگت روٹ معاشی انقلاب کیلئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے..وزیراعلیٰ‌

پشاور(چترال ٹائمزرپورٹ ) وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے کہا ہے کہ موجودہ صو بائی حکومت صوبے میں سیاحت کو بطور صنعت ترقی دینے کیلئے کوشا ں ہے ، صوبے کے مختلف ریجنز میں صحت افزاءاور سیاحتی استعداد کے حامل علاقوں تک عوام کی آسان رسائی یقینی بنانا اور سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ترجیح ہے، اس سلسلے میں ہزارہ موٹر وے کاکردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے ، اس منصوبے کے حویلیاں سے مانسہرہ سیکشن کا باضابطہ افتتاح کرنے جارہے ہیں جس سے نہ صرف عوام کو بہترین سفری سہولت میسر آئیگی بلکہ سیاحت اور صنعت و تجارت کے فروغ کیلئے حکومتی اہداف کا حصول یقینی بنانے میں بھی خاطر خواہ مدد ملے گی۔
.
وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ پشاور میں اراکین صوبائی اسمبلی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ سوات موٹروے کی توسیع، پشاور سے ڈی آءخان موٹروے، چترال ٹو گلگت روٹ صوبے میں معاشی انقلاب کے ساتھ ساتھ پورے خطے میں تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہزارہ موٹر وے کو مانسہرہ تک ٹریفک کے لئے کھولنے کیوجہ سے ہزارہ کے سیاحتی مقامات تک سیاحوں کی آسان رسائی یقینی ہوگی اور عوام کو سفر کی بہترین سہولت میسر آئیگی۔ انہوں نے کہا کہ قدرت نے خیبرپختونخوا کو خوبصورت وادیوں ، بلند و بالا پہاڑوں اور دلفریب مناظر سے نوازا ہے ، حکومت ان قدرتی وسائل سے بھرپور استفادہ کرنے کی قابل عمل منصوبہ بندی کرچکی ہے۔ ملکی اور غیر ملکی سیاحوںکو سہولیات فراہم کرنے کے لئے انفراسٹرکچر کی ترقی سمیت دیگر منصوبوں پر تیز رفتاری سے کام جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اپنے وسائل سے سوات موٹر وے بنا رہی ہے جو اپنی نوعیت کا پہلا اور منفرد منصوبہ ہے۔ سوات موٹر وے کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک طرف ایم ون کے ذریعے اسلام آباد او ر ہزارہ سے منسلک ہے اور دوسری طرف ملاکنڈ اور دیگر ملحقہ علاقوں تک رسائی کا آسان اور پر سہولت ذریعہ ہے۔ اس طرح پشاور سے ڈی آئی خان ایکسپریس وے کا منصوبہ جنوبی اضلاع کو صنعت و تجارت کے لئے کھول دیگا۔ یہ تمام تر منصوبے خیبرپختونخوا کی مجموعی معاشی ترقی میں بہترین کردار ادا کریں گے۔ نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ پورا ملک معاشی طور پر مستحکم ہو گا، سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا اور بیروزگاری کے خاتمے میں مدد ملے گی۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
28699

گلگت کا تاج ظفر وقار تاجؔ…….. تحریر: حسنات احمد کھوکھر

Posted on

گلگت بلتستان کی آن، شان مشہور و معروف شینا اور اردو کے شاعر عبدالخالق تاج جو کسی تعارف کے محتاج نہیں، جنہوں نے گلگت بلتستان کے روایتی کلچر کے فروغ کے لئے انتھک کوششیں کیں۔ایسے ہی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یا یوں سمجھ لیں کہ ان کے مشن کو جو انہوں نے گلگت بلتستان کے کلچر کو فروغ دینا، دنیا کو دکھانا ایک ایسا کلچر جو اپنی مثال آپ ہے کو ایک مشن بنایا اور اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے عبدالخالق تاج صاحب کے صاحبزادے ظفر وقار تاج جو موجودہ وقت میں سیکریٹری فنانس کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس کے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے گلگت بلتستان کے کلچر کو فروغ دیتے ہوئے گلگت بلتستان کے کلچر اور شاعری کو ایک نیا رخ دے دیا اور پروان چڑھایا۔ان کی تعریف بیان کرنے کے لئے شاید ہی الفاظ کم پڑ جائے۔
.
شاعری میں صرف بندش و الفاظ ہی نہیں کافی
جگر کا کچھ جنون بھی چاہئے اثر کے لئے
.
ظفر وقار تاج صاحب ایک اجتماعی شاعر کی حیثیت رکھتے ہیں، اجتماعی شاعر سے مراد ان کی شاعری جو بھی سنتا ہے وہ سمجھ لیتا ہے کہ شاید یہ شاعری صرف میرے لئے ہی لکھی گئی ہو ان کی شاعری حالات و واقعات کی ترجمانی کرتی ہیں اور اس معاشرے اور ماحول کی عکاسی کرتی ہیں۔تاج صاحب کے اندر ایسے جذبات مجھے دیکھنے کو ملے جو ان کو شاعری کرنے پر مجبور کررہے ہوں، صرف فن شاعری ہی شاعری کا موجد نہیں بلکہ وہ احساسات جو شاعر کو شعر کہنے پر مجبور کریں شاعری ہے۔
.
موجودہ دور میں تو گلگت بلتستان میں شاعروں کی تعداد میں بے حد اضافہ ہوگیا ہے۔ایسے ایسے لوگ بھی شاعری کرتے ہیں جنہیں شاعری کے بارے میں ا، ب، پ تک کا علم نہیں۔شاعری کیا ہے؟ کیسے کی جاتی ہے؟ روموز کی پیروی اور اسے کیسے سجایا جائے کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا اور طبع آزمائی کرتے نظر آتے ہیں جس کے باعث شینا کلچر کا ستیاناس لگتا جارہا ہے لیکن ایسے میں ظفر وقار تاج صاحب نے اپنی خداداد صلاحیت کی بنا پر گلگت بلتستان کی نمائندگی کرتے ہوئے خالص گلگت بلتستان کا کلچر دنیا کو دکھایا اور جدید اصطلاح میں اپنے کلام اور گلگت بلتستان کے خصوصی طور پر نوجوانوں کے لئے جون ایلیاء بن گئے۔نوجوان نسل کی پسندیدہ شخصیت بن گئے اور اپنی شاعری کے ذریعے ان کے دلوں کو فتح کرکے رکھ دیا جیسے میرؔ کا کلام ”آہ“ ہے مرزا کا کلام ”واہ“ ہے ویسے ہی ظفر کا کلام گلگت بلتستان میں ”جووو“ کی حیثیت رکھتا ہے۔جو بھی ان کا کلام سنتا ہے ان کے منہ سے خود بخود جووو نکلا کرتا ہے۔
.
شینا ایک بہت بڑی زبان ہے اور اس کا دامن بہت وسیع ہے اور اس کے اندر بہت سی زبانیں سمو جاتی ہیں۔ اور اس بات کا خطرہ بھی ہے کہ کہیں یہ اپنے اصل وجود کو کھو نہ دے جس کا اثر ہماری ثقافت، رسم و رواج اور رہن سہن کو طور طریقوں پر پڑھ رہا ہے۔ایسے میں ہمیں بھی ظفر وقار تاج صاحب کی طرح اس طوفان میں بند باندھنے کی ضرورت ہے اوریہ ذمہ داری ہم سب پر عائد ہے اور اس کام کو ظفر وقار تاج صاحب بخوبی نبھا رہے ہیں اور ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے ارد گرد موجود ایسے روشن ستاروں کی قدر کرے کیونکہ ایسے لوگ کبھی کبھی پیدا ہوا کرتے ہیں۔
.
تعریف کریں کیا آپ کی الفاظ نہیں ملتے
آپ جیسے چمن کے پھول بار بار نہیں ملتے

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
28688

گلگت: پروفیسراینڈ لیکچررایسوسی ایشن کی25 نومبرسے کلاسوں‌کا مکمل بائیکاٹ کا فیصلہ

Posted on

گلگلت (چترال ٹائمزرپورٹ )‌گلگت بلتستان پروفیسر اینڈ لیکچرار ایسوسی ایشن کے صدر اور کابینہ نے گلگت بلتستان کی تمام کالجز(میل و فی میل) کے فیکلٹی ممبران کیساتھ طویل مشاورت کے بعد یہ طے کیا کہ حکومت گلگت بلتستان اور متعلقہ تمام ادارے ، جی بی کالجز کے تمام فیکلٹی ممبران کے جائز اور بنیادی مطالبات جو طویل عرصے سے تعطل کا شکار ہیں فوری طور پر منظور کرے جو حسب ذیل ہیں۔
.
١۔ ٹائم سکیل پرومووشن
٢۔ سروس اسٹرکچر یعنی 5Tier Farmula
٣۔ ٹیچنگ الاونس (تمام اساتذہ کا تدریسی الاونس کم از کم 20ہزار کیا جائے)
٤۔ تکمیل شدہ سکیم (کالجز) کی خالی آسامیوں کی کریشن
٥۔کالجز کی عمارتیں قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی سے خالی کرانا
.
ایک پریس ریلیز کے مطابق GBPLA جی بی کالجز کے تمام فیکلٹی ممبران کی نمائندہ تنظیم ہے کا پروز مطالبہ ہے کہ ان بنیادی مطالبات کو فوری حل کیا جاوے بصورت دیگر تمام کالجز میں فیکلٹی ممبران سخت ترین احتجاج کرے گی۔مرحلہ وار احتجاج کا شیڈول یہ ہے۔
١۔ ٹوکن اسٹرائیک (کالی پٹیاں) بروز پیر 18نومبر2019 سے بروز اتور 24 نومبرتک جبکہ کلاسوں کا مکمل بائیکاٹ بروز پیر 25نومبر 2019سے سے شروع ہوگا جو مطالبات کی منظوری تک جاری رہیگا.

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستانTagged
28670

یہ ہیں میرے سرکار، درود ان پر کروڑ ہا بار……… تحریر: حسن آراگلگت

Posted on

طلوع آفتاب بس ہونے ہی والا تھا۔ آفتاب کی کرنوں میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ آفتاب آج خود بھی زیادہ بیتاب اور کرنوں کو زیادہ روشن اور جگمگانے میں مگن تھا۔ ہر کرن کی یہ خواہش تھی کہ وہ سب سے پہلے روئے زمین کو چھوئےاور اسے ایک ایسی روشنی کی نوید سنائے جو زمین پر تاریکیوں کے مدتوں سے چھائے نحوست ظلم و جبر نا انصافی عدم مساوات اور جنگ وجدل کے کالے سیاہ بادلوں کو رحمتوں برکتوں انصاف مساوات امن و سلامتی صلہ رحمی اور بھائی چارگی کے خوبصورت گلدستوں میں بدلنےوالی ہے۔آخر وہ نیک گڑھی آن پہنچی۔ جب محسن انسانیت سرکار دو عالم سرور کونین رحمت ا للعالمین کو اللہ پاک نے انسانیت کے لئے ھادی اور رحمت بنا کر اس روئے زمین پر بھیجا۔ جونکہ یہ بابرکت اور سلامتی والی گھڑی ربیع الاول کے بابر کت مہینے میں ساری عالم انسانیت کے لئے امید امن اور سلامتی کا ضامن بن کر نازل ہوئی اس لئے یہ مہینہ فیوض وبرکات کے اعتبار سے تمام اسلامی مہینوں سے افضل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی مبارک گھڑی رب کانئات کے لئے اتنی قابل احترام اور مقدم ہے کہ ابو لہب جس کی سفاکیت اور ظلم وجبر کی مذمت میں رب کریم نے سورہ لہب نازل کی۔اس پر بھی خاص کرم رہا۔ روایات میں ہے کہ جب آپ صلم کی ولادت باسعادت ہوئی تو ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ نے ابو لہب کو خوشخبری سنائی اور اس نے اس خوشی میں اسے اپنی انگلی کے اشارے سے آذاد کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ ابو لہب کے موت کے بعد کسی نے اسے خواب میں دیکھا اور اس سے حال دریافت کیا تو ابو لہب نے کہا کہ ظلم و جبر اور کفر کی وجہ سے سخت عذاب میں گرا ہوا ہوں البتہ ہر پیر کو عذاب میں کمی ہوتی ہے اور جس انگلی کے اشارے سے حضرت محمد کی ولادت کی خوشی میں اپنی لونڈی کو آذاد کیا تھا اس انگلی کو چوسنے سے پانی ملتا رہتا ہے۔ اس سے کوئی بھی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ ابو لہب جسے رب نے ناپسند فرماکر سورہ لہب اتاری اسپر جب اتنی مہربانی ہوسکتی ہے تو عاشقان رسول اور خاص طور پر وہ صحابہ جنہوں نے آپ صلم سے محبت اور عقیدت میں ازیتیں اور تکلیفیں سہیں اور جانوں کا نظرانہ پیش کیا ان پر رب کے کرم اور فضیلت کا تو شائد کوئہ احاطہ ہی نہ کر پائے۔
.
یوں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وصلم کی زندگی سراپا رحمت برکت اور پوری عالم انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے۔ آپ صلم نے قرآن پاک کا صرف درس نہیں دیا بلکہ اس کے ایک ایک ارشاد کو اپنے کردار میں ڈھال کر عملی طور پر نمونہ پیش کیا۔ معاشرتی زندگی کےہر پہلو پر ھدایت اور رہنمائی فراہم کی۔ اگر ہم ان تمام پہلووں کا احاطہ کرنے بیٹھے تو ساری دنیا کی قلم کاغذ اور سیاہی ختم ہوجائے گی لیکن تشنگی پھر بھی باقی رہے گی۔ گرچہ آپکی سیرت طیبہ کا ہر پہلو انتہائی قابل صد احترام اور اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن مجھ جیسے کم علم کے لئے انہیں دلچسپ اور پراثر انداز میں پیش کرنا قدرے مشکل ہے البتہ اپکی سیرت کا ایک خاص پہلو جس کے بارے میں ہم سب بچپن سے پڑھتے آئے ہیں لیکن بدقسمتی سے آج پوری مسلم امہ آپ صلم کی سیرت کے اس خاص پہلو سے پہلوتہی برت رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر مسلم ممالک نہ صرف اندرونی انتشار اور بدامنی کا شکار ہے بلکہ خارجی سطح پر بھی آپسی چپقلش کا شکار ہے۔ آپ صلم کی سیرت طیبہ کا یہ وہ پہلو ہے جس نے بدترین دشمن کو بھی گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ اور دین اسلام امن و سلامتی کا دین بن کر چہار سو پھیل گیا۔ یہ پہلو آپ صلم کا عفو ودرگزر، صبر وتحمل رحم وکرم شفقت ومحبت اور نرم دلی کا پہلو ہے جس کی آپ صلم نے نہ صرف درس دیا بلکہ کردار اور عمل سے بھی ثابت کیا۔
.
آپ صلم کی زندگی کا وہ واقعہ آج بھی میرے زہن میں نقش ہے جسے میں نے بچپن میں اسلامیات کی کتاب میں پڑھا تھا جس میں ایک بوڑھی مشرک عورت روز اپنے گھر کی صفائی کرنے کے بعد سارا کوڑا ایک ٹوکرے میں جمع کرکے آپ صلم کی تاک میں بیٹھی رہتی تھی۔ آپ صلم جیسے ہی وہاں سے گزرتے سارا کچرا آپ کے اوپر پھینکتی۔ آپ صلم اس کی طرف دیکھ کر مسکراتے اپنے کپڑے جھاڑتے اور وہاں سے گزرتے۔ یہ کوئی ایک دن کا نہیں بلکہ روزانہ کا معمول تھا۔ لیکن ایک دن جب آپ وہاں سے گزرے تو حسب معمول وہاں موجود نہیں تھی آپ صلم کو شک پڑ گیا کہ اماں آج کہیں بیمار تو نہیں پڑ گئی۔ آس پاس کے لوگوں سے پتہ چلا کہ بڑھیا شدید بیمار ہے۔ آ پ صلم خیریت دریافت کرنے کے لئے اس بڑھیا کے گھر پہنچے۔آپ صلم کو دیکھ بوڑھی عورت خوف زدہ ہوگئی اور سوچنے لگی کہ آج محمد اپنا بدلہ نکال کر رہے گا۔ لیکن آپ صلم نے بہت ہی شفقت اور محبت سے اس کا حال پوچھا۔ اسے پانی پلایا۔ آپ صلم کا حسن اخلاق دیکھ کر بوڑھی عورت بہت روئی آپ صلم سےمعافی مانگی اور مشرف بہ اسلام ہوئی۔ یہ تھا آپ صلم کا عفو ودرگزر اور حسن سلوک جس نے آپ صلم کے لئے نفرت سے بھرے دل کو محبت کے پھولوں کا گلزار بنادیا۔
طائف کا وہ واقعہ ہم کیسے بھول سکتے ہیں جس میں آپ صلم نے صبروتحمل کی ایسی عظیم مثال قائم کی جسے رہتی دنیا تک
عالم انسانیت یاد رکھے گی جب آپ صلم دین حق کی دعوت دینے طائف تشریف لے گئے اور سرداران طائف کو جب دین حق کی دعوت دی تو ان ظاموں نے نہ صرف آپکو نعوذباللہ جھوٹا قرار دیا بلکہ طائف کے اوباش اور شرارتی لڑکوں کو آپکے پیچھے لگادیا۔ ان نامرادوں نے آپ صلم کو اتنے پتھر مارے کہ جوتی مبارک خون سے بھر گئی۔ اسی دوران جبرائیل علیہ سلام تشریف لائے اور انتہائی غیض و غضب سے کہا کہ اگر آپ صلم حکم دیں تو یہ دونوں پہاڑ ان طائف والوں کے اوپر گرادوں اور انہیں نیست ونابود کردوں۔ آپ نے منع فرمادیا اور کہا کہ میں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ان کے لئے ہدایت کی دعا کی اور اور ارشاد فرمایا کہ آج اگر یہ نہیں تو ان کی آنے والی نسلیں دین اسلام کی پیروی کرینگی۔ تاریخ گواہ ہے کہ کچھ عرصہ بعد ہی طائف کا چپہ چپہ آپ صلم کے عاشقان کی آماجگاہ بن گیا۔
.
آپ صلم کا سراپا صبر وتحمل اور عفو ودرگزر کا پیکر تھا۔ آسلام کی دعوت کے آغاز سے لیکر فتح مکہ تک صبر وتحمل اور عفوودرگزر کی ایسے بے مثال روایات قائم کیں جن کی نظیر قیامت تک کوئی قائم نہیں کرسکتا۔
فتح مکہ کے موقعہ پر ان تمام دشمنوں کو معاف کردیا جنہوں نے مسلسل 13 سالوں تک آپ صلم اور تمام اہل ایمان پر عرصیہ حیات اسقدر تنگ کر دیا کہ مجبورا بحکم خدا آپ صلم کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا۔ ان لوگوں میں حرب کا بیٹا ابو سفیان اور اسکی بیوی ہندہ بھی شامل تھے جنہوں نے آپ صلم اور اسلام قبول کرنے والوں ہر طرح کی اذیت اور تکلیف پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔ ابو سفیان کی بیوی ہندہ نے آپ صلم کے پیارے چچاجان حصرت حمزہ کی نعش مبارک کو جنگ احد میں چیر پھاڑ ڈالا اور کلیجہ نکال کر انتقامی جذبے سے چبا ڈالا تھا کیونکہ حضرت حمزہ نے جبگ بدر میں ہندہ کے باپ عتبہ کو جہنم واصل کیا تھا آپ صلم نے نہ صرف اس سفاک عورت کو معاف فرمادیا بلکہ اعلان کیا کہ جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوگا اسے امن و سلامتی دی جائے گی۔ آپکے اس حسن سلوک نے آخر کار مشرکین کو آپ کا گرویدہ بنا دیا اور سب نے بے چون وچرا دین حق کو قبول کیا۔ ان روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دین اسلام کا پھیلاو کسی جبر وتسلط کا پیش خیمہ نہیں بلکہ آپ صلم کا حسن اخلاق، عفو ودرگزر اور صبروتحمل کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
.
حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلم نے ارشاد فرمایا کہ “جسے یہ پسند ہو کہ جنت میں اس کے لئے محل بنائے جائیں اور اس کے درجات بلند کئے جائیں تو اسے چاہئے کہ جو اس پر ظلم کرے اسے معاف کردے جو اسے محروم کردے اسے عطا کرے اور جو اس سے قطع تعلق کرے یہ اس سے تعلق جوڑے”۔
آپ صلم نے پوری زندگی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا اور نہ ہی کسی کو برا بھلا کہا۔
.
یہ ہے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عفوو درگزر صبر وتحمل ، رحم وکرم ، شفقت و محبت اور نرم دلی کی مختصر سی وضاحت۔
لیکن افسوس صد افسوس کہ آج ہم نے آپ صلم کے قائم کئے ان سنہری اقدار اور روایات کو یکسر فراموش کر دیا ہے۔ غصہ نفرت حسد اور انتقام کی بے مثال روایات قائم کرکے نہ صرف اپنی دین ودنیا کو تباہ وبرباد کررہے ہیں بلکہ بحیثیت مسلم امہ کے دین اسلام کے اصل تشخص کو بھی پامال کررہے ہیں۔ ہماری بقا سلامتی اور ترقی کا راز صرف اور صرف سیرت طیبہ کی پیروی میں ہے مضمر ہے۔ مدینے کی جس فلاحی ریاست کی ساخت اور بنیاد بھی انہی اصولوں پر قائم تھی انہیں بھلائے مسلمانوں کو عرصئہ دراز ہوگیا۔ آج بیشتر ممالک میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہے لیکن مدینے کی فلاحی ریاست کے خدوخال کہیں بھی نظر نہیں آتے۔ مدینے کی اس فلاحی ریاست کے خدوخال کو مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلموں نے اختیار کیا ہوا ہے۔ جہاں پر قانون کا بول بالاہے۔ ان کا علم سر چڑھ کر بولتا ہے۔ میعاری علم اور ٹیکنالوجی کے لئے ہم ان کے دست نگر ہے۔ اسی لئے علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا کہ جب میں مغرب گیا تو اسلام دیکھا لیکن مسلمان نظر نہیں آئے۔ اور جب مشرق آیا تو یہاں مسلمان دیکھے لیکن اسلام نظر نہیں ایا۔

اللہ پاک ہم سب کو صرات المستقیم پر کار بند رکھ کر سیرت نبوی پر عمل کرنے کی پوری توفیق عطا فرمائے

                                                        آمین
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, گلگت بلتستان, مضامینTagged
28623

کراچی ؛ آغا خان یونیورسٹی ایگزامینیشن بورڈ کے ہائی اچیورزکو ایوارڈزسے نوازاگیا

آغا خان یونیورسٹی ایگزامینیشن بورڈ (اے کے یو-ای بی) : اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلبا کے اعزاز میں تقریب کا انقعاد۔
گلگت بلتستان اور چترال سمیت پاکستان بھر سے طلبا نے شرکت کی۔ پوزیشن ہولڈرطلبا میں‌چترال اورگلگت کے اسٹوڈنٹس بھی شامل.
.AKU EB Higher achievers 2019
کراچی (چترال ٹائمزرپورٹ) قومی سطح پر اے کے یو-ای بی کے طلبا کی کامیابیوں کوسرا ہنے کے لیے سالانہ ہائی اچیورز ایوارڈز 2019 کی تقریب کراچی میں منعقد کی گئی۔ تقریب میں اے کے یو-ای بی کے تحت سیکنڈری اسکول سرٹیفیکیٹ(ایس ایس سی)اور ہائر سیکنڈری اسکول سرٹیفیکیٹ(ایچ ایس ایس سی)امتحانات میں ا علیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلبا نے شرکت کی۔ پاکستان بھر سے تعلق رکھنے والے 142 طلبہ و طالبات میں اعزازات تقسیم کیے جن میں سے 65 فیصد طالبات اور 35 فیصد طلبہ شامل تھے۔ طلبا کا تعلق کراچی، حیدرآباد، خیرپور، نوشہروفیروز، ابارو، ڈہرکی، ٹنڈو اللہ یار، جیکب آباد، چناب نگر، غذر، گلگت، ہنزہ اور چترال سے ہے۔
.
اس سال ایس ایس سی امتحانات میں کامیابی کی مجموعی شرح 95.5 فیصد رہی جن میں 45.8 فیصد طلبا نے ‘اے’ گریڈ یا اس سے زیادہ حاصل کیا۔ اسی طرح ایچ ایس ایس سی امتحانات میں کامیابی کی مجموعی شرح 96.9 فیصد رہی جن میں 51.4 فیصد طلبا نے ‘اے’ گریڈ یا اس سے زیادہ حاصل کیا۔آغا خان یونیورسٹی کے صدر فیروز رسول نے اس موقعے پر طلبا کو سراہتے ہوئے کہا، ”اے کے یو-ای بی کا مشن اعلی ترین معیار کی جانچ اور امتحانی سہولت کی فراہمی ہے تاکہ ہمارے نوجوان معاشرے کو درپیش مسائل کا حل تلاش کر سکیں اور کارآمد شہری بن سکیں۔”
.
ایس ایس سی میں پی ای سی ایچ ایس گرلز اسکول، کراچی کی دعا فاطمہ اول نے مجموعی طور پر اول پوزیشن حاصل کی۔ دوسری پوزیشن بائی ویربیجی سوپاری والا پارسی ہائی اسکول، کراچی کے مصعب نیازی جبکہ آغا خان اسکول، کھارادر، کراچی کی مصباح شیخ نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ایچ ایس ایس سی میں مجموعی طور پر آغا خان ہائر سیکنڈری اسکول، کریم آباد کی فضہ رباب نے اول پوزیشن حاصل کی۔ حبیب گرلز اسکول کی سیدہ حوریہ عباس نے دوسری جبکہ آغا خان ہائر سیکنڈری اسکول، چترال کے حنیف علی نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔
.
این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”اے کے یو-ای بی کا نظام طلبا کی تعلیمی نشوونما کا ایک ایسا جامع طریقہ کار فراہم کرتا ہے جس میں تمام متعلقہ افراد اور گروہوں کی شمولیت ہو۔ اے کے یو-ای بی سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا مختلف میدانوں میں ترقی کرتے ہیں اور مختلف قومی اور بین الاقوامی جامعات میں داخلے کے اہل قرار پاتے ہیں۔” اس تقریب میں اے کے یو-ای بی برج اسکالر شپ حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کے ناموں کا بھی اعلان کیا گیا۔ برج اسکالرشپ حاصل کرنے والے 60 فیصد طلبا نے اے کے یو-ای بی سے ایچ ایس ایس سی امتحان پاس کیا اور اب مختلف قومی یورنیوسٹیز میں اعلی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
.
اے کے یو-ای بی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شہزاد جیوا نے مہمانان گرامی کا شکریہ ادا کیا اور کہا، ”ہمیں بے حد مسرت ہے کہ نئے اسکولوں کے طلبہ و طالبات نے اس سال بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ ایک خوش آئند تبدیلی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے دیہی اور دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبا نے بھی غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ہمیں فخر ہے کہ ہم جانچ اور امتحانات کے معیاری نظام کو یقینی بناتے ہیں جس کی وجہ سے تمام طلبا کو یکساں مواقع میسر آتے ہیں۔” تقریب میں بورڈ ممبرز اور لیڈرشپ کے علاوہ آغا خان یونیورسٹی اور اے کے یو-ای بی کے اعلی عہدیداران، متعدد اسکولوں کے صدرو، طلبہ و طالبات اور شعبہ تعلیم سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔
۔۔۔۔۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریں, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged ,
28574

آغا خان ہائر سیکنڈری سکول کوراغ میں عیدمیلاد نبیؐ کے حوالے ضلعی سطح کی نعتیہ محفل

کوراغ (چترال ٹائمزرپورٹ‌) 12 ربیع الاول کو پوری دنیا کی مسلم امہ عید میلاد النبی کے طور پر مناتی ہے اس دن رسول کریم ﷺ سے منسوب نعتیہ محافل، کوئز مقابے تقریری مقابلے شامل ہیں۔ اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے گذشتہ روز آغا خان ہائر سیکنڈری سکول کوراغ میں ضلعی سطح کی سالانہ نعتیہ محفل سجائی گئی.
.
محفل میں آغا خان ہائر سیکنڈری کوراغ سمیت ضلع اپر چترال کے پانچ سکولوں کی طالبات نے سرور کائنات کے حضور گلہائے عقیدت نچھاور کئے۔ محفل کی صدارت ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر شیرمراد خان جبکہ مہمان خصوصی کی نشست سئنیر سکول ٹیچر گورنمنٹ گرلز ہائی سکول ریشن میڈم راضیہ سلطانہ نے سنبھالی، تقریب کی نظامت سکول کے اساتذہ شیر بہادر اور عبداللہ شہاب نے انجام دی .
.
تقریب میں اپر چترال سے معززین کو مدعو کیا گیا تھا۔ پروگرام کے آغاز سے پہلے سکول ہذا کے لیکچرر اسلامیات فدا محمد نے اعراض و مقاصد بیان کیا اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ضلع اپر چترال کے کل 25 سرکاری و غیر سرکاری اسکولوں کو مدعو کیا تھا لیکن صرف 3سکولوں کے علاوہ کسی نے شرکت نہیں کی ہمارے سکولوں میں ہم نصابی سرگرمیوں میں یوں عدم دلچسپی تشویس کا باعث ہے۔
.
تقریب میں گورنمنٹ گرلز ہائی سکول بونی، گورنمنٹ ہائی سکول چرون اور اکسفورڈ سکول اینڈ کالج بونی کی طالبات نے شرکت کی۔ معروف مذہبی سکالر عبادالرحمن نے تقریب سے ” سیرت طیبہ اور ہماری زندگی” کے موضوع پر پر معز خطاب کیا ۔ اس کے علاوہ صدر محفل نے اپنے خطاب میں آغا خان ہائر سیکنڈری سکول کی کاوشوں کو سراہا۔
.
تقریب سے سئنیر منیجر سکول ڈویلپمنٹ آغا خان ایجوکیشن سروس چترال ذولفقارعلی نے طالبات کی تعریف کی اور حالیہ طالبات کی کامیابیوں سے حاضرین کو اگاہ کیا۔پرنسپل آغا خان ہائر سیکنڈری سکول کوراغ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رسول کریم کی زندگی کے طریقوں کو اپنانا ہی کامیابی ہے۔ انہوں نے اپنی طرف سے اور پورے سکول کی طرف سے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ تقریب میں مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے شریک تھے جنہوں نے تقریب کی خوب تعریف کی آخر میں سکول کی طرف سے مہمان خصوصی اور صدر کو سوئنیر جبکہ خصوصی مقرر کو یادگاری شلیڈ سے نوازا گیا۔
akhss kuragh naatia mahfil chitral 2
akhss kuragh naatia mahfil chitral 4

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
28439

شہزادہ ابراہیم ولی کامل ایک تاریخی شخصیت، چترال ٹاون میں سپردخاک

رپورٹ: عزیز
چترال کے معروف شخصیت شہزادہ ابراہیم ولی کامل کو چترال ٹاون کے موڑدہ میں سپردخاک کردیا گیا، نمازجنازہ چترال پولوگراونڈ میں‌اداکی گئی جس میں‌ مختلف مکاتب فکرکےسینکڑوں‌افراد نے شرکت کی، شہزادہ ابراہیم ولی گزشتہ دن پشاورکے ایک ہسپتال میں‌انتقال کرگئے تھے. دل کی شریان بند ہونے کی وجہ سے انھیں پشاورکے ایک ہسپتال میں‌ سرجری کی گئی تھی اورکامیابی سے دل کے چار وال کھول دئیے گئے تھے تاہم اپریشن کے آڑتالیس گھنٹے بعد گردہ فیل ہونے کی وجہ سے انتقال کرگئے .
.
شہزادہ ابراہیم کے لواحقین میں‌ بیوہ ،دو بیٹے اورچاربیٹیاں ہیں‌. جبکہ چھوٹا بھائی پروفیسرڈاکٹراسماعیل ولی آئی ایم سائنسزپشاورمیں انگلش ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ہیں‌.
.
مرحوم شہزادہ ابراہیم ولی ایک خوش اخلاق ، نیک سیرت اورخوش باش،ملنسار شخصیت کے مالک تھے. پڑوسی ان کو ایک مثالی ہمسایہ قراردے رہے ہیں‌. وہ اپنے کام سے کام رکھنے والا ایک خوش گو، نرم مزاج اورانتہائی شریف النفس انسان تھے.
.
شہزادہ ابراہیم ولی 1951 میں مستوج خاص میں پیداہوئے ، ابتدائی تعلیم دروش سے حاصل کی جہاں‌ انکے والد محترم شہزادہ افضل ولی چترال سکاوٹس کے ایجوکیشن صوبیدار تھے. اس کے بعد مڈل کا امتحان مستوج سے پاس کیا. 1968 میں‌ میٹرک ہائی سکول بونی سے کیا. جس کے بعد جہانزیب کالج سوات میں داخلہ لیا تاہم اس دوران چترال میں‌ انٹرکالج قائم ہونے پرواپس چترال آئے جہاں‌سے 1971میں‌ایف اے پاس کیا.
.
1981ء میں مہترچترال ہزہائی نس سیف الملک کے ساتھ بحثیت سیکریٹری کام شروع کیا اور1987تک اس منصب پرفائز رہے .
اور بعد میں‌1993سے 2001 تک اس عہدے پر دوبارہ بھی فائز رہے . اس دوران وہ آدب سے بھی منسلک رہے، اورادبی پروگرامات میں‌بھی حصہ لیتا رہا ، کتاب بینی سے انتہائی لگاو تھا، اخبارات کے ریگولر قاری تھے.
.
شہزادہ ابراہیم ولی کامل کے والد محترم میرافضل ولی 2004ء مستوج میں انتقال کرگئے وہ بشقار سے یہاں آیا تھا. آپ 1963ء میں چترال سکاوٹس سے بحثیت ایجوکیشن صوبیدارسبکدوش ہوئے ، ملازمت کے بعد وہ جماعت اسلامی سے منسلک رہے ان کاشمارجماعت اسلامی کے بانی آرکان میں‌سے ہوتا ہے . آپ مہترامیرالملک کے داماد تھے.
.
مرحوم شہزادہ ابراہیم ولی کے دادا محمد ولی بھی ایک نامورشخصیت تھے .1895کے جنگ میں بھرپورحصہ لیا، یاسین سے جنگ لڑتا ہوا مستوج پہنچا جہاں‌شیرافضل اورمحمد عیسیٰ سے ملا، شیر افضل کا ساتھ دینے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ شیرافضل اورمحمد ولی ہم زُلف تھے. اورنواب آف دیرکے داماد تھے.
.
شہزادہ ابراہیم ولی مستوج اوربونی کا گھرچھوڑکر تقریبا تین دہائیوں‌سے چترال موڑدہ میں‌ رہائش پذیرتھا. مہترچترال کی سیکریٹری کا عہدہ چھوڑنے کے بعد جنگلی حیات کے مختلف پراجیکٹس کے ساتھ منسلک رہے جن میں ڈبلیو ڈبلیوایف، چترال گول پراجیکٹ ودیگرشامل تھے. تاہم گزشتہ کچھ عرصے سے ملازمتوں سے گوشہ نشین تھے.

چند دن پہلے چھاتی میں‌ درد محسوس ہونے پر پشاورلے جایا گیا جہاں‌ بیماری کی تشخیص دل کے شریانوں‌کے بند ہونا بتایاگیااوراپریشن کرکے شریانیں توکھول دی گئیں‌مگرگردوں‌نے کام کرنا چھوڑ دئے یوں‌وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے . انھیں‌ انکی وصیت کے مطابق گھرکے عقب میں‌ہی دفن کردیا گیا. اللہ انھیں‌جنت الفردوس میں جگہ دیں اورلواحقین کو صبرجمیل عطافرمائے..آمین !

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
28295

گلگت کی بارشیں، پُرانی فائلیں اور پروفیسر کمال الہامی کی محبتیں….کریمی

عرصے بعد گلگت میں بارشوں نے نہال کر دیا۔ ہم جیسے لوگ تو بارشوں کو کچھ زیادہ ہی انجوائے کرتے ہیں کہ کسی دل جلے نے خوب ہی کہا تھا کہ مجھے بارشیں اس لیے بھی پسند کہ یہ میرا غم چھپاتی ہیں۔ بارش کے قطروں میں آنسو کے قطرے جب جذب ہوتے ہیں تو یہ بہانہ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ آنکھوں میں درد ہے۔ اب آنکھوں میں درد ہے یا یادِ ماضی۔۔۔۔۔۔ اظہار تو آنکھوں سے ہی ہوتا ہے ناں۔ خیر رم جھم میں یادِ ماضی کچھ زیادہ ہی ستاتی ہے۔

آج ہمیں بارشوں پر بات نہیں کرنی۔ بس کچھ دیر بارش میں بھیگنے کے بعد پرانی فائلوں میں کھو گیا تھا۔ آفس بوائے نے چائے کا مک تھما کے لطف دوبالا کر دیا۔ اسی اثنا ہمیں ایک فائل سے ایک ’’ولادت نامہ‘‘ ملا۔ یہ ہمارے بیٹے کی پیدائش پر دوستِ محترم پروفیسر کمال الہامی نے لکھا تھا۔ یہ شاہکار نظم پڑھ کر دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ پروفیسر صاحب کی محبتیں آپ کے ساتھ بھی بانٹوں۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ رم جھم بارش ہو، پڑھنے کو کمال الہامی کی شاعری ہو اور ہاتھ میں گرم گرم چائے کا مک ہو تو بندے کو اس سے بڑھ کر اور کیا چاہییے۔ برخوردار سمیر کے نام لکھا گیا ولادت نامہ آپ کی بینائیوں پر ٹانکتا ہوں۔ آپ پڑھیے اور ممکن ہو تو چائے کا پیالہ بھی سامنے رکھیے۔ یہ خوبصورت شاعری، بارش اور چائے کا ساتھ آپ کے لطف کو دوبالا کر دے گا۔

ولادت نامہ

برخوردار سمیر آذین کریمی، فرزندِ ارجمند، عبدالکریم کریمی و سوسن پری کریمی، برادرِ کوچک آشا سوزین کریمی بہ تاریخ چھبیس جنوری دوہزار سولہ بروز منگل بہ وقت پانچ بجے صبح۔

تخلیق کار و اِہدا:
منجانب: پروفیسر حشمت علی کمال الہامی

کریمی کو ملی نعمت، سمیر آذین آئے ہیں
خدا کی، ہے بڑی رحمت، سمیر آذین آئے ہیں

کریمی کے چمن میں ہے کِھلا، سوسن پری کا پھول
بنا گھر، خانۂ جنت، سمیر آذین آئے ہیں

مبارک ہو! مبارک ہو! مبارک، صد مبارک ہو!
ملی اس گھر کو اب زینت، سمیر آذین آئے ہیں

اِسے نورِ نظر، یا قلبِ مضطر کا سکوں کہیے!
بڑھی، ماں باپ کی عزّت، سمیر آذین آئے ہیں

مہینہ جنوری، چھبیس، سن تھا، بیس سو سولہ
بڑھی تاریخ کی شُہرت، سمیر آذین آئے ہیں

تھا دن منگل، بجے تھے پانچ، وقتِ صبحِ صادق تھا
کہ، چمکا، کوکبِ قسمت، سمیر آذین آئے ہیں

بہن آشا، بہت خوش ہے، کہ بھائی مل گیا اُس کو
کہ پائی اُس نے اب قوّت، سمیر آذین آئے ہیں

دُعا یہ ہے، کریمی کا یہ بیٹا، خوش رہے ہر دَم
یہی ہے مژدۂ حشمت، سمیر آذین آئے ہیں

چہکتے ہیں سحر دَم، گُلشنوں میں خوش نوا بُلبُل
حَسیں تر ہوگئی فطرت، سمیر آذین آئے ہیں

خوشی کے طائرانِ نو بہاری کا، بسیرا ہے
غموں کی ہوگئی ہجرت، سمیر آذین آئے ہیں

کریمی کو ملی ہے، ایسی دولت، مخزنِ رب سے
جو ہے دارین کی ثروت، سمیر آذین آئے ہیں

مہِ ہنزہ، غذر کے آفتابِ وقت کے مابین
ہوئی گلگت میں جب قربت، سمیر آذین آئے ہیں

کریمی بھی حلیم الطبع، سوسن میں لطافت ہے
لیے نرمی کی اِک خصلت، سمیر آذین آئے ہیں

کمالِ مرتبہ یہ ہے، علیؑ کا سر پہ سایہ ہے
رہے گی ہمقدم عظمت، سمیر آذین آئے ہیں
Karimi Sameer

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
28275

*تعلیمی جرگہ دیامر: ایک مثبت قدم………تحریر: امیرجان حقانی

?میجرجنرل ڈاکٹر احسان محمود کی تعلیمی حوصلہ افزائیوں پر سرگرمیاں?
.
یہ بدیہی حقیقت ہے کہ تعلیم ایک معاشرتی عمل ہے۔ تعلیم ہی ہے جو فطرت خدا وندی اور انسانی علمی ورثے کے ذریعے سے ہی شخص کی صلاحیتیوں کو جِلابخشتی ہے اور فرد کو معاشرے میں معتدل و متوازن حیات گزارنے کے قابل بنادیتی ہے۔تعلیم کی کی وجہ سے اجتماعی شعور بہتر ہوتا ہے۔تعلیم ہی تبدیلی کا سب سے موثر اور اہم ٹول ہے۔تعلیم ہی ایک ایسی سیاسی و سماجی اور معاشرتی شعوری سرگرمی ہے جس کی بدولت انسانی معاشرہ اپنی سماجی،ثقافتی، دینی، اخلاقی اور معاشی و عسکری روایات ، آئندہ نسلوں کو بہتر انداز میں منتقل کرسکتا ہے۔تعلیم ہی ہے جس کے ذریعے فرد کائنات اور خالقِ کائنات کی حقیقت جان لیتا ہے اور پھر مکمل ایقان و ایمان کیساتھ ایک کامیاب معاشرے کی تشکیل میں بہترین کردار ادا کرتاہے۔
.
ہم میں سے ہر فرد یہ جانتا ہے کہ فرد اور معاشرہ دونوں اپنی بقاء اور ترقی کے لیے تعلیم کا محتاج اور مرہون منت ہے۔تعلیم ہی وہ واحد راہ ہے جس پر چل کرقومیں اپنی منزلیں پا لیتی ہیں۔تعلیم ہی ہے جو قوموں اور ملکوں کو سخت ترین بحرانوں اور مشکلات سے بچا لیتی ہے۔انسانی زندگی کا ہر پہلو تعلیم سے بھرپور اثر قبول کرلیتا ہے۔ تعلیم ہی کے ذریعے قومی تشخص قائم ہوجاتا ہے۔ جاہل قومیں خاک قومی تشخص پیدا کرلیں گی۔
.
یہ مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ دنیا کی تمام قومیں اپنے مزاج، اقتضاء و ضروریات کے عین مطابق نظام تعلیم منضبط کرتی ہیں۔ہمارے ہاں یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے کہ کیاہمارا نظام تعلیم ہماری قومی ضروریات ، احتیاج اور مزاج کے مطابق ہے؟۔سردست یہ ہمارا موضوع نہیں لیکن ہر قوم اور اس کے تعلیمی مفکرین و ماہرین ، حکومتوں اور پالیسی ساز اداروں پر یہ پابندی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی قومی ضروریات،دینی وسماجی مزاج، اقتضائے حال اور مستقبل کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نظام و نصاب تعلیم تشکیل دیں۔
آج کی گلوبل ولیج میں جو قومیں اور ریاستیں ایک باکمال قومی تشخص کے حامل ہیں وہ بہر صورت میدان تعلیم میں سب سے آگے ہیں۔ان کی ترقی و تعمیر اور استحکام کی سب سے بڑی اور اساسی وجہ تعلیم ہی ہے۔ تعلیم ہی کی وجہ سے کسی بھی قوم کو آج کی عالمی دنیا میں قیادت میسر آتی ہے۔کون نہیں جانتا کہ عالمی قیادت کس کے ہاتھ میں ہے اور کیوں ہے۔ اور ہاں تعلیم میں پسماندگی کا شکار قومیں اور سلطنتیں خاک قومی تشخص قائم کریں گی یاقیادت کریں گی۔ان کا حال ہمارے سامنے ہے۔
میں ہمیشہ اپنے طلبہ، والدین، سامعین و قارئین سے یہی گزارش کرتا ہوں کہ سب سے زیادہ وقت تعلیم کو دیا جائے ، اور سب سے زیادہ انویسمنٹ بھی تعلیم پر ہی کی جائے۔ ایسے افراد، فیملیز،معاشرے اور ملک قیادت کے اہل قرار پاتے ہیں۔
تعلیم ،فلسفہ تعلیم، مقاصد تعلیم، اسالیب تعلیم،اصول تعلیم،ماخذ تعلیم،نظریات تعلیم اور نصاب تعلیم پر بہت ہی مفصل گفتگو کی گنجائش ہے لیکن سردست ہمارا موضوع فورس کمانڈر گلگت بلتستان ڈاکٹر احسان محمود صاحب کا ضلع دیامر میں شروع کردہ ”تعلیمی جرگہ ضلع دیامر” ہے۔
.
ہم کافی سالوں سے سنتے آرہے ہیں کہ دیامر میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی جارہی ہے۔ احکامات صادر ہوچکے ہیں۔ انصاف سے بتایا جائے کہ تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کے احکامات جاری کرنے والے ارباب اختیار، بالخصوص وزیر تعلیم، سیکریٹری تعلیم اور ایجوکیشن ڈائریکٹر کے اعلی آفیسران نے اس پورے عرصے میں دیامر میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کے لیے بنفس نفیس کتنے دورے کیے۔کون کون سے گاؤں کا چکر لگایا، کس کس اسکول کے مسائل سنے ہیں؟، کتنے طلبہ و طالبات سے مل کر ان کی حوصلہ افزائی کی۔مجھے سو فیصد یقین ہے کہ تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے والوں کو دیامر کے حدود اربع کا بھی علم نہیں۔وہ خاک تعلیمی ایمرجنسی نافذ کریں گے۔کاغذات کی حد تک، محکمہ ایجوکیشن دیامر کو ایک آفیشل لیٹر جاری کرنے اور اخباری بیانات جاری کرنے سے تعلیمی ایمرجنسی نافذ نہیں ہوتی۔
.
تعلیمی ایمرجنسی اور تعلیمی جرگے کاغذوں کے بجائے عملی اقدام سے منعقد ہوتے ہیں۔جو کام ایجوکیشن منسٹری اور تعلیمی ماہرین کو کرنے کا تھا وہی کام ایک خالص پروفیشنل فوجی کرتا ہے تو دل سے دعائیں نکل جاتی ہیں۔ فورس کمانڈر میجرجنرل ڈاکٹر احسان محمود کا تعلق اگرچہ گلگت بلتستان سے بھی نہیں اور نہ ہی ضلع دیامر سے ہے مگر یہ آدمی اتنا ایکٹیوو ہے کہ ہر مصیبت کی گھڑی پر عوام کے درمیان پایا جاتا ہے۔کاش کہ عوامی نمائندوں کو یہ توفیق ہوتی! گلہ کیا جاتا ہے کہ فوج معاملات میں دخل اندازی کررہی ہے مگر عوامی نمائندے اپنے لازمی فرائض بھی بجا نہ لائیں تو پھر فوجیوں کو ایکٹیوو ہونا پڑتا ہے۔سیاسی امور سے ہٹ کر ”خالص تعلیمی سرگرمیوں” میں فوجیوں کا ایکٹیوو ہونا مفید تر ہے۔
.
اب تک ضلع دیامر میں امن جرگے اور فساد جرگے ہوا کرتے تھے، ان جرگوں کے قیام اور پرموٹ کرنے کے لیے لاکھوں کروڈوں کا خفیہ انتظامی بجٹ ہوا کرتا ہے۔اس بجٹ کا کوئی ایڈٹ بھی نہیں ہوتا۔انتظامی آفیسران اللے تللوں میں اڑاد دیتے ہیں اور شاید کچھ نوٹ ایبل مضر اشخاص کا جیب بھی گرم ہوتا ہوگا جو ہر وقت فساد اور امن کے لیے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ان خود ساختہ خدائی فوجداروں اور انتظامی بھجنگوں سے اللہ سب کو محفوظ رکھے۔آمین
.
ایسے حالات میں خدا بھلا کرے میجر جنرل ڈاکٹر احسان محمود کا جس نے دیامر میں تعلیمی استحکام اور ارتقاء کے لیے خود اور اپنی پوری ٹیم کیساتھ کمرکس لی۔میدان میں اُتر آئیے۔جب گلگت میں انہوں نے پہلا تعلیمی جرگہ کیا تو مجھے خوش گوار حیرت بھی ہوئی لیکن ساتھ ہی یہ خیال بھی پیدا ہوا کہ اس تعلیمی جرگے کا حشر بھی ارباب اختیار کی طرف سے شروع کردہ ”تعلیمی ایمرجنسی ” جیسا ہوگا لیکن مجھے انتہائی حیرت ہوئی کہ محبتوں کی زمین وادی گوہرآباد کے ہائی اسکول کے اساتذہ اور ہیڈماسٹر افتخار صاحب نے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے گوہرآباد کی طرف سے تعلیمی جرگے میں سپاس نامہ پیش کرنے کی آفر کی گئی۔ہائی اسکول کے استاد برادرم عبدالقدوس نے کہا کہ ہم نے اجتماعی فیصلہ کیا ہے کہ ” آپ گوہرآباد کے فرزند ہیں، اس اسکول کے طالب علم رہے ہیں لہذا اس تاریخی پروگرام میں آپ سپاس نامہ نہ صرف پیش کریں گے بلکہ لکھ بھی لیں گے”۔ پھر محکمہ ایجوکیشن دیامر کیساتھ رابطہ کروایا گیا۔ دیامر انتظامیہ نے مجھے تعلیمی جرگے کے اغراض و مقاصد اور شیڈول سے آگاہ کردیا۔تب ایک سپاس نامہ لکھ کر ان کی خدمت میں پیش کیا گیا جو بہت سراہا گیا۔ڈپٹی کمشنر دیامر اور متعلقہ اداروں نے ایک لفظ میں بھی ترمیم کیے بغیر من و عن منظوری دی اور احقر کے لکھے سپاس نامے کو انتہائی وقعت دی گئی۔پھر فیصلہ ہوا کہ اسٹیج سیکریٹری کے فرائض بھی میں انجام دوں جس کے لیے مجھے خصوصی گوہرآباد جانا پڑا۔
.
بہت ہی کم وقت میں فورس کمانڈر اور ان کی ٹیم نے محکمہ ایجوکیشن کی معیت میں ضلع دیامر کے دور دراز علاقوں میں درجن بھر تعلیمی جرگوں کا انعقاد کیا۔بالخصوص دور دراز اور پسماندہ علاقے، گوہرآباد،گونرفارم، تھک نیاٹ، بٹوگاہ، گینے، کھنر،تھور، ہوڈر، داریل تانگیر، کھنبری اور ڈوڈویشال کے علاقے شامل ہیں جہاں فورس کمانڈر اپنی ٹیم کیساتھ تشریف لے گئے۔ ان علاقوں کے عوام ، عمائدین، ماہرین تعلیم اور اساتذہ و طلبہ کے ساتھ گھل مل گئے۔ان محب وطن غریب پاکستانیوں نے اپنے فوجی بھائیوں کا جس انداز میں استقبال کیا وہ بھی از خود ایک تاریخی واقعہ ہے۔ فورس کمانڈر نے اساتذہ اور طلبہ کو اپنے گلے سے لگایا، انہیں ایوارڈ، سوینئر اور بیگ اور کاپیاں گفٹ کی۔ضرورت مند اسکولوں کو نقد رقم دی اور انہیں مشکلات میں مزید مدد کرنے اور ہر قسم کا انتظامی تعاون دلانے کی یقین دھانی بھی کروائی۔
.
دیامر کی تاریخ میں اساتذہ کی اتنی عزت افزائی کبھی نہیں ہوئی۔ان پروگراموں میں سینکڑوں اساتذہ اور ماہرین تعلیم کو ایوارڈ دیا گیا اور ان کی خدمات کو علی الاعلان سراہا گیا۔ کاش ایسی ایکٹویٹیز محکمہ تعلیم کے احباب کرتے ۔ لیکن خیر
میجر جنرل ڈاکٹر احسان محمود صرف ایک فوجی نہیں بلکہ ایک بہترین ماہر تعلیم، ریسرچر اور استاد بھی ہیں۔اس پر مستزاد ایک انسانیت نواز شخص ہیں۔ ہیومن سیکورٹی پر پی ایچ ڈی کی ہے اور ڈیفنس یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض بھی سرانجام دیے ہیں۔ہیومن سیکورٹی پر مشتمل ان کا تحقیقی مقالہ تین سو صفحات پر مشتمل ہے ۔انسانی حفاظت کا ہر پہلو زیر بحث آیا ہے۔یقینا پڑھنے کے لائق کتاب ہے ۔اس کتاب کے مطالعے سے انسان کی حفاظت و عظمت پر مزید یقین پختہ ہوجاتا ہے اور علم میں بھرپور اضافہ بھی۔
گوہرآباد کے تعلیمی جرگے کے لیے سپاس نامہ اور اسٹیج سیکریٹری کے فرائض کی ذمہ داری مجھے دی گئی تھی۔ مجھے ان کا صدارتی خطبہ سن کر بہت ہی خوشی ہوئی اور حوصلہ بھی بڑھا۔گوہرآباد کو گلگت بلتستان کا اسلام آباد قرار دیا۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ گوہرآباد کے لوگ تعلیمی جرگے کے محتاج نہیں تھے اور نہ ہی ان کی ضرورت تھی لیکن میں ان کی محبتوں کو نظر انداز نہیں کرسکتا تھا اس لیے باقاعدہ آغاز بھی گوہرآباد سے ہی کیا۔آج تک دیامر میں امن کے جرگے ہوتے رہے لیکن ہم نے سوچا کہ تعلیم کا جرگہ بھی منعقد کیا جاوے۔ اس لیے آپ کے پاس حاضر ہوئے ہیں۔ تعلیم فرض ہے لہذا فرض جتنا اہمیت دیجیے۔ تعلیم حاصل کرنا واجب، سنت یا نفل ومستحب نہیں اس لیے اس میں کمی کوتاہی اور کنجوسی کی گنجائش بھی نہیں۔ فرض سے کسی طور چھٹکارا نہیں تو تعلیم سے بھی فرار اور کمزوری بھی کسی طرح جائز نہیں اور نہ ہی قابل برداشت ہے۔”
.
کمانڈر صاحب کا یہ بھی ماننا ہے کہ ”گوہرآباد اور دیامر کے لوگ بالخصوص محب وطن ہیں۔ان کی ملک و ملت کے لیے خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں۔مجھے ہر ہر گاوں میں ان کی پاکستانیت کا احساس ہوا ہے۔غریب سے غریب آدمی اور بچوں تک پاکستان کے لیے قربانی دینا فخر سمجھتا ہے۔پاکستان آرمی کو اپنی سرحدوں کا واحد محافظ سمجھتا ہے۔دیامر والوں کی پاکستان سے محبت بے لوث ہے جس میں کسی لالچ اور طمع کا شک تک نہیں گزرتا۔لاریب ایسے لوگ ملک کے اثاثے ہوتے ہیں۔پورا دیامر ہر اعتبار سے پاکستان کا اثاثہ ہے جس پر پاکستان اور پاکستان آرمی کو فخر ہے”۔
.
فورس کمانڈر کے احساسات، خیالات اور اقدامات کو دیکھ کر حیرت ہورہی تھی کہ ایک خالص فوجی انسان تعلیمی گہرائیوں میں کتنا ڈوبا ہوا ہے ۔ساتھ ہی یہ خیال بھی دُر آیا کہ جو لوگ کسی ٹریجڈی یا نوکری کے لیے تعلیم یا محکمہ تعلیم میں وارد ہوئے ہیں وہ کیونکہ کر تعلیم اور مقاصد تعلیم پر اپنا وقت ضائع کریں یا انرجی صَرف کریں۔ وہ تو بس تنخواہ کی حد تک تعلیم جیسے مقدس شعبے سے منسلک ہیں ، ورنا انہیں اگر کوئی چھوٹی سی انتظامی پوسٹ بھی دی جائے تو وہ فورا تعلیم و تربیت اور تدریس جیسے مقدس پیشے اور محکمے کو خیرباد کہہ دیں۔ہمارے ہاں تو تدریس کے مقابلے میں عارضی انتظامی پوسٹ میں اٹیچمنٹ پر کام کرنے کے لیے بھی باقاعدہ دھینگامشتی ہوتی ہے جو قابل مذمت ہے۔
.
ضلع دیامر میں شرح خواندگی ہوشربا حد تک افسوس ناک ہے۔خواتین ایجوکیشن کی شرح پانچ فیصد سے بھی کم ہے جبکہ مردوں کی شرح بھی انتہائی کم ہے۔ مردوں میں پندرہ اور بیس فیصد کے درمیان پائی جانے والی شرح خواندگی سے جدید دور کے تقاضے پورے نہیں کیے جاسکتے اور نہ ہی جدید چیلنجز سے نمٹاجاسکتا ہے۔ملک بھر میں ضلع دیامر شرح خواندگی کے اعتبار سے انتہائی کم درجے پر کھڑا ہے۔شاید 113 ویں نمبر پر دیامر کا نام آتا ہے جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ دیامر میں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کے نام پر قوم کو بے قوف بنایا گیا اور شاید بہت سارا فنڈ بھی ہڑپ کیا گیا۔
.
یہ ماننے میں کوئی حرج نہیں کہ غذا کے بغیر جسم مرجائے گا مگر تعلیم کے بغیر روح اور پورا سماج مرجائے گا۔میں علم کا دلدادہ ہوں اور معرفت کا متلاشی۔ یہی میری تاریخ بھی تھی مگر میں اب علم و معرفت دونوں سے کوسوں دور ہوں۔ آہ! علم، ادب اور معرفت، آپ کی تلاش میں صدیاں گزرگئی ہیں۔تجھے اب میں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں۔گذشتہ پانچ صدیوں سے ”تو” لاپتہ ہے۔اس سے قبل پوری مغربی دنیا علم و معرفت کے لیے تیرے در پر حاضری دیتی تھی۔ مگر اب اسلامی دنیا تجھے ڈھونڈتے ڈھونڈتے پھر رہی ہے۔
اے علم! اے میرے محبوب! شاید میرے تیرے درمیان حالات ٹھہر گئے ہیں۔میرا ہر لمحہ تیری جدائی اور فراق و ہجر میں گزررہا ہے۔ مگر یہ کیسا ہجر ہے، یہ کیسی جدائی ہے، یہ کیسا فراق ہے کہ اس میں ہجر و فراق اور جدائی کا کوئی غم نہیں اور نہی ہی تڑپ ہے۔یہ فصل بھی کیا فصل جس میں کرب ہی نہیں۔
.
میں اس دکھ اور غم کو اچھی طرح محسوس کرسکتا ہوں۔”کاش! میرے پاس یہ طاقت ہوتی کہ میں جو کہتا، جو سوچتا اور جو سمجھتا وہی ہو بھی جاتا، اے کاش! پھر تو میں تیرے غم اور جدائی و ہجر کو اپنے وجود سے بہت دور پھینکتا ، اتنا دور کہ اس جدائی کو کہیں دھکیل ہی دیتا۔”
.
محبتوں کی زمین وادی گوہرآباد میں فورس کمانڈر میجر جنرل ڈاکٹر احسان محمود اور دیگر معزز مہمانوں کے اعزاز میں جو سپاس نامہ تحریر کیا تھا وہ پڑھ کر سنایا گیا ،قارئین کے استفادے کے لیے یہاں پیش کیا جاتا ہے ،ملاحظہ ہو۔
جناب فورس کمانڈر میجر جنرل ڈاکٹر احسان محمود صاحب
اور دیگر تمام معزز مہمانان گرامیبالخصوص عمائدین گوہرآباد،
میرے اساتذہ کرام اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے صاحبان علم
میرے عزیز طلبہ ساتھیو!
دل کی اتھاہ گہرائیوں سے سلام عقیدت و محبت قبول کیجیے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
.
جناب عالی!
یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی قوم ،ملک، علاقہ یا وادی کی زندگی میں کچھ دن یادگار ہوتے ہیں۔
ایسا ہی ایک منفرد اور ممتاز دن محبتوں کی سرزمین وادی گوہرآباد کو آج (14 اکتوبر 2019) میسر آیا ہے جہاں گوہرآباد کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک علمی شخصیت جو کہ پورے گلگت بلتستان کا سپہ سالار ہیں ، اپنے رفقاء کیساتھ تشریف فرما ہیں۔
جناب والا: آپ کی موجودگی ہمارے لیے باعث صدافتخار ہے۔
.
جناب کمانڈر صاحب
ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے اور میری ذاتی دلچسپی ہے اور معلومات بھی کہ
آپ ایک خدا ترس شخصیت ہیں۔
قرآن اور اہل قرآن سے محبت آپ کی زندگی کا جزلاینفک ہے
علم پرور ہیں
انسان دوست ہیں۔
مریضوں اور زخمیوں کا معاون ہیں۔
معذروں کا سہارا ہیں۔
مقہوروں کا حامی ہیں۔
قلم کاروں کا قددردان ہیں۔
استادوں کا رفیق ہیں
غریبوں کا ہمجولی ہیں
ملک و ملت کا محافظ ہیں
نگہ بلند
تخیل نرالا
بس آپ کے اعزاز میں صرف یہی کہونگا

نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میرکارواں کے لیے
.
جناب فورس کمانڈر صاحب
آپ ہمارے معزز مہمان ہیں۔ اپنی ٹیم کیساتھ تشریف لائیے ہیں۔آپ کا دل اپنے بھائیوں کی لیے ہر وقت دھڑک رہا ہوتا ہے۔ آپ بس صرف محبتوں کے قائل ہیں۔ ہم اس محبت بھری محفل میں اپنی محرومیاں، مسائل اور پریشانیوں کا ذکر کرنا نہیں چاہتے ۔
تاہم جناب ڈاکٹر صاحب
آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ
رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی اور دستور بھی

.ہم آپ کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چند اہم باتیں /گزارشات اس نیت سے آپ سے اور آپ کی توسط سے دیگر ارباب اقتدار اور صاحبان بست وکشاد سے شیئر کرنا چاہتے ہیں۔
یہ میرے لیے بھی ذاتی طور پر اعزاز کی بات ہے کہ میں اس گوہرآباد ہائی اسکول کا خوشہ چیں یعنی طالب علم رہا ہوں اور آج میرے اساتذہ اور اسکول انتظامیہ نے مجھے یہ اعزاز بخشا کہ آپ صاحبان علم و دانش اور بست و کشاد کی خدمت میں ایک مختصر سپاس نامہ پیش کروں۔
.
جناب صدر ذی وقار
یہ بات آپ کی علم میں لاتے ہوئے بے حد خوشی محسوس کررہا ہوں کہ
28 ہزار مربع میل پر پھیلے اس پورے گلگت بلتستان میں گوہرآباد ایک چھوٹا سا علاقہ ہے۔ گاوں کی سطح پر پورے گلگت بلتستان میں سب سے زیادہ
حفاظ قران کریم
سب سے زیادہ مستند اداروں سے فارغ التحصیل علماء کرام اور دینی مدارس کی فاضلات
اور سب سے زیادہ ججز صاحبان، وکلاء، پروفیسرز،انجیئنرز، ڈاکٹرز،اسکول کے اساتذہ اور انتظامی آفیسرز گوہرآباد سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔یہی ہماری علم دوستی کا بین ثبوت ہے.
جناب کمانڈر صاحب
.
ہمارے لیے انتہائی اعزاز کی بات ہے کہ ہمارے بہت سارے سپوتوں نے پاکستان آرمی کے شانہ بشانہ
ملک و ملت کی حفاظت کے لیے مختلف محاذوں پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے اور شہادت کے عظیم رتبے سے سرفراز ہوئے ہیں۔
یہ میرے نوجوانوں کا اعزاز ہے۔ ان کے لیے بس اتنا کہونگا

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

لیکن عالیجاہ

انتہائی دکھ کیساتھ آپ سے شیئر کیے بغیر رہ نہیں پاتا کہ
علم و عمل کی وادی گوہرآباد سے پاکستان آرمی میں نان کمشنڈ آفیسرز اور سپاہی کی بڑی تعداد ہے اور بہتوں نے جان کا عطیہ بھی پیش کیا
باوجودیکہ پاکستان آرمی میں آبادی اور تعلیم کے اعتبار سے گوہرآباد کے کمیشنڈ آفیسرز یعنی میجر، کرنل، برگیڈیر،میجر جنرل اور لیفٹننٹ جنرل کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ ہمارے لیے دکھ اور پریشانی کا مقام ہے۔
آخر کیوں۔۔طویل سوچ و بچار کے بعد میرے دل نے گواہی دی کہ اس طویل عرصہ پاکستان آرمی اور گوہرآباد کا تعلق بہت کمزور رہا،یعنی گوہرآباد پاک آرمی کے توجہ سے محروم رہا۔ ہاں مگر اس محرومی کو ختم کرنے کی ایک بہترین صورت کیڈیٹ کالج ڈرنگ کی شکل میں نکالی جاچکی ہے،جس کے لیے گوہرآباد کی عوام نے دل کھول کر ہزار کنال مہنگی ترین اراضی گفٹ کی ہے۔کیڈٹ کالج کے قیام پر ہم بالخصوص صوبائی حکومت اور پاک آرمی کے ممنون و مشکور ہیں۔کیڈیٹ کالج ڈرنگ کا کافی کام ہوچکا ہے لیکن تعمیرات کی تکمیل کے لیے فنڈ کی کمی کی وجہ سے کام تعطل کا شکار ہے۔فوری فنڈ کی منظوری دے کر تعمیرات مکمل کرکے ایک سال کے اندر کیڈیت کالج کے پورے سسٹم کو چلا س سے ڈرنگ شفٹ کیا جاوے۔

جناب صدر محفل

گوہرآباد کے منجملہ عوام، عمائدین، والدین اور طلبہ کی طرف سے ایک انتہائی اہم گزارش آپ کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے کہ:
ہائی سکول گوہرآباد کی کئی کنال اراضی ہے اس میں پاکستان آرمی کی طرف سے ایک آرمی پبلک اسکول،ہاسٹل اور بہترین لائیبریری کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں گوہرآباد کے غریب عوام کے بچے علم و ہنر کی دولت سے مالا مال ہوکر پاکستان آرمی جوائن کریں اوراپنا ٹیلنٹ ، اپنی صلاحتیں اور محبتیں پاکستان اور پاکستان آرمی پر نچھاور کرسکیں۔
جناب عالیجاہ
فیڈرل بورڈ کا سنٹر ہائی سکول گوہرآباد میں ہونا از حد ضروری ہے تاکہ گوہرآباد کے طلبہ و طالبات میٹرک کے ایگزام کے لیے دور دراز علاقوں میں دربدر نہ ہوں۔
گوہرآباد پل انتہائی خستہ حالی کا شکار ہے ، آرسی سی پل گوہرآباد کی بنیادی ضرورت بن گئی ہے۔
گوہرآباد ہسپتال کی عمارت تقریبا مکمل ہے۔ ڈاکٹرز،دیگر عملہ اور ضروریات کیساتھ فوری اجراء از بس ضروری ہے۔
لڑکیوں کی تعلیم کے لیے بہتر نظام،سردست انٹرکالج کا قیام بہت ضروری ہے
طلبہ و طالبات کی سہولت کے لیے کسی شیڈول بینک کی برانچ
فوری طور پر فور جی کا اجراء، تاکہ کمیونکیشن میں خلا نہ رہے۔
KKHتھلیچی سے گوہرآباد سینٹر تک لنک روڈ منظور کیا جائے جس کی مسافت ٢٠ منٹ بنتی ہے۔اس روڈ کی وجہ سے گلگت سے گوہرآباد آنے والے مسافروں کا ڈیڑھ گھنٹہ بچ سکتا ہے ہے۔اس کے لیے ایفاد کو بھی متحرک کیا جاسکتا ہے۔
جناب عالی
یہی چند گزارشات تھی۔جو آپ اور تمام معزز مہمانوں کی خدمت میں پیش کی گئی ہیں۔امید ہے کہ امیدیں بھرآئیں گی۔

دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

گوہرآباد کے طلبہ وطالبات، اساتذہ کرام، نمبردارن، اور جملہ عمائدین اور ماوں بہنوں کی طرف سے آنجناب کی خدمت میں یہی دو اشعار پیش کرنا چاہونگا:

ممکن نہیں کہ عشق ہو اور دل حزیں نہ ہو
میرا ہی حال دیکھ لیں جسے یقین نہ ہو

دل کے ٹکڑے ، خاک پروانوں کی، آنسو شمع کے
کچھ نہ کچھ لے کر اٹھیں گے آپ کی محفل سے ہم

اور اسی شعر کے ساتھ اجازت چاہونگا:

انداز بیاں گرچہ میرا شوخ نہیں ہے
شاید کے تیرے دل میں اترجائے میری بات

پاکستان تابندہ باد، پاک فوج زندہ باد، گوہرآباد زندہ باد، وماعلینا الاالبلاغ

میری فورس کمانڈر اور ان کی ٹیم بالخصوص کرنل اسٹاف جناب حبیب اللہ صاحب سے گزارش ہے کہ تعلیمی جرگے کو باقاعدہ ایک پروجیکٹ کا شکل دیں اور منسٹری آف ایجوکیشن گلگت بلتستان کیساتھ مل کر اس پروجیکٹ کو پورے گلگت بلتستان میں لاونچ کریں۔اس پروجیکٹ کا دورانیہ کم از کم پانچ سال ہو۔اہداف و مقاصد طے ہوں۔فنڈ رائزنگ کی پوری ڈیٹیل موجود ہوں۔اگر خلوص دل اور مکمل ایمانداری کے ساتھ اس پروجیکٹ کو لانچ کیا گیا اور ایک ٹرانسپیرنٹ سسٹم متعارف کروا کر، آرمی اس پروجیکٹ کی خود نگرانی کریں تو بعید نہیں کہ مخیر حضرات اور این جی اوز اس پروجیکٹ کی کامیابی کے لیے ہر ممکن کوشش نہ کریں۔میں جانتا ہوں کہ آج بھی مغربی دنیا کے مخیر حضرات پاکستان کی سول انتظامیہ سے مکمل شاکی ہے۔تعلیم اور دیگر تعمیراتی پروجیکٹس کی مد میں کروڈوں ڈالر دیے جاتے ہیں مگر یہ رقم اصل حقدار تک نہیں پہنچ پاتی۔ہمارا تو المیہ ہی یہی ہے کہ ہم یتیموں کا مال تک ہڑپ کر جاتے ہیں اور ڈکار بھی نہیں لیتے۔

..
یہ کون نہیں جانتا کہ جس طرح دیامر کے دور دراز علاقوں کے غریب طلبہ و طالبات پاک آرمی کی توجہ کے مستحق ہیں اسی طرح پورے گلگت بلتستان کے پہاڑی علاقوں کے وہ ہزاروں بچے بھی محکمہ تعلیم اور پاک آرمی کے سپورٹ اور ہمدردی کے مستحق ہیں۔ہمارے ہاں منسٹری آف ایجوکیشن اور ایجوکیشن سیکریٹریٹ اور ڈائریکٹریٹ کے لوگ ان مقہور و مجبور طلبہ و طالبات اور پرائمری سطح کے اسکولوں کو قابل اعتناء ہی نہیں سمجھتے۔وہ تو بڑی ڈگری کالجز کا وزٹ تک کرنے کو معیوب سمجھتے ۔جب کبھی یہ حضرات وزٹ بھی کریں تو طلبہ و طالبات اور اساتذہ کے مسائل سننے، حل کرنے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے انہیں دھمکانے اور دور دراز ٹرانسفر کرنے کا مژدہ سنا کر چلے جاتے ہیں۔یہ حضرات بس اپنی دفتروں میں دبکے رہنے کو گوشہ عافیت سمجھتے۔ایسے میں ایک خالص عسکری شخص کا ہرہر گاوں پہنچنا، ماہرین تعلیم، اساتذہ کرام اور طلبہ و طالبات سے گھل مل جانا، انہیں شیلڈ اور ایوارڈ سے نوازنا، کاپیاں اور کتابیں دینا، مستحق اسکولوں کو اپنا پیٹ کاٹ کر فنڈ کا اعلان کرنا یقینا تعلیمی انقلاب کا باعث بنے گا۔
اب کوئی صاحب مجھ پر الزام نہ لگائے گا کہ میں کسی شخص یا آرمی کا مداح بن گیا ہوں۔میں تو ہر اس انسان کا مداح بننے کے لیے تیار ہوں جو میرے دیامر میں تعلیمی ریفامز کے لیے کچھ بھی عملی اقدام کرتا ہے۔سچ کہوں تو تعلیم ومعرفت میرا عشق ہے۔ محبت ہے اور جنون بھی۔کون نہیں جانتا کہ محبت اور عشق میں انسان کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔پاکستان آرمی تو پھر بھی میرا اپنا ادارہ ہے اور میری پہچان بھی۔بلاشبہ پورے پاکستان کو اس ادارے پر فخر ہے۔
.
اے تعلیم! تیرے نازک ہاتھوں اور خوبصورت رخساروں کی قسم! میں تیری روح سے، تیری کُل سے، تیری جز جز سے محبت کرتا ہوں۔میری محبت میں مکمل انفرادیت ہے۔میرے خلوص میں کامل عجز ہے۔خلوص و محبت کو بیان کرنے کے لیے الفاظ اور جملوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔تعلیم و معرفت سے میری محبت سدا بہار بھی ہے جواں سال و اور جواں دم بھی۔میں اس پر کسی صورت کمپرومائز کرنے کے لیے تیار نہیں۔
.
میں نے تو ان لوگوں کی بھی تحسین اور تعریف کی ہے جنہوں نے دیامر میں تعلیم کے لیے تھوڑے کچھ اقدامات کیے ہیں اگر چہ ذاتی طور پر انہوں نے مجھے سخت تکلیف پہنچائی تھی۔میں نے ان لوگوں کو بھی دیامر میں تعلیم و ہنر کے لیے بار بار پکارا ہے۔ تحریر کے ذریعے پکارا، تقریر کے ذریعے پکارا اور ذاتی ملاقاتیں کرکے پکارا ، جو میرے ہم مسلک و مشرب اور علاقہ بھی نہیں۔تو میں پاک آرمی کو کیوں نہ ویلکم کہوں جو میرے دکھ درد بانٹنے کے لیے میرے گھرتشریف لاتی ہے۔
میں پولٹیکل سائنس کا طالب علم ہوں۔میں سمجھتا ہوں کہ جنرل صاحب پروایکٹیوو ہیں۔اگر سیاسی زعماء تعلیم کے لیے اتنی سرگرمیاں دکھاتے تو شاید جنرل صاحب کو گھر گھر پہنچنے کی ضرورت ہی نہ ہوتی۔انہوں نے ضلع دیامر کو مسلسل نظرانداز کیا مگر جنرل صاحب نےلوگوں کی محرومیوں کا بروقت اندازہ لگایا اور حوصلہ افزائی اور ہمدردی کے لیے بنفس نفیس پہنچ گئے۔اور حتی المقدور مدد بھی کی اور دیامر کے عمائدین ، انتظامیہ اور ایجوکیشن ڈائریکٹریٹ کو ایکٹوو بھی کیا ۔یقینا یہ سب ان لوگوں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے جو علاقے کے سیاسی نمائندے ہیں اور جی بی کے منتظمین بھی ۔جنرل احسان محمود اوراس کے رفقاء تو کچھ عرصے میں ٹرانسفر ہوکر چلے جائیں گے مگر یہ طے ہے کہ انہوں نے دیامر اور پورے گلگت بلتستان میں پیار و محبت اور تعلیم کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جو بہت دیر تک یاد کیے جائیں گے۔دیامر کے موجودہ ڈپٹی ڈائریکٹر فقیر اللہ اور ان کی ٹیم بھی کافی ایکٹیوو ہے۔ان کی سرگرمیاں کسی اور نشست کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔خدا ہم میں سے ہر ایک کو تعلیم و تعلم اور پیار و محبت کے لیے پروایکٹیوو ہونے کی توفیق عطا کرے۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو.
education seminar Diamar GB 1
education seminar Diamar GB 2

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
28270

آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول شیر قلعہ میں سالانہ ہفتۂ طلباء کی اختتامی تقریب

Posted on

غذر(چترال ٹائمزرپورٹ ) آغاخان ہائیر سکینڈری اسکول، شیر قلعہ میں سالانہ ہفتۂ طلبہ ٔ(Annual Students Week) کی اختتامی تقریبات منعقد ہوئے جس میں آغا خان ایجوکیشن سروس گلگت بلتسان ، پاکستان کے اعلی ٰ حکام نے شرکت کی۔
.
تفصیلات کے مطابق ہر سال کی طرح اس سال بھی آغاخان ہائیر سکینڈری اسکول، شیر قلعہ میں ہفتہ ٔ طلبہ منایا گیا (Annual Students Week) اس ہفتے کے دوران طلبہ نے ہم نصابی سرگرمیوں میں بڑ ھ چڑھہ کر حصہ لیتے ہوئے اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کا خوب مظاہرہ کیا ۔ ان سرگرمیوں میں ڈرامے ، بحث و مباحثے ،مضمون نویسی اور تقریری مقابلوں کے علاوہ مختلف کھیلوں کا انعقاد بھی شامل تھا ۔ ہفتۂ طلبہ کے اختتام پر ایک پُر وقار تقریب منعقد ہوئی جس میں ہفتۂ طلبہ کے دوران مذکورہ سرگرمیوں میں اعلیٰ کارکردگی اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی انعامات اور تعریفی اسناد کے ذریعے کی گئی۔
.
اس تقریب کے مہمان خصوصی ہیڈ آف آغا خان ایجوکیشن سروس پاکستان عین شاہ اور صدارت کے فرائض جنرل منیجر آغا خان ایجوکیشن سروس گلگت بلتستان و چترال بریگیڈیئر ( ریٹائرڈ) خوش محمد خان نے انجام دیے ۔
.
تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت ِ کلام ِ پاک سے ہوا ۔ بعد ازآں اسکول کے پرنسپل عمران شاہ نے مہمانوں کو رسمی طور پر خوش آمدید کہتے ہوئے اِس تقریب کے انعقاد کے اغراض و مقاصد سے شرکائے تقریب کو آگاہ کیا اور اس پروگرام کے کامیاب انعقاد پر اسکول انتظامیہ ، ایس ۔آر۔سی کابینہ ، فنکشن انچارج ، دیگر معاونت فراہم کرنے والے اساتذہ اور طلباء و طالبات کا شکریہ بھی ادا کیا ۔ طالب علموں کی زندگی میں ہم نصابی سرگرمیوں کی اہمیت و افادیت پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اسکول کے پرنسل عمران شاہ نے کہا کہ طلبہ و طالبات جہاں نصابی سرگرمیوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہاں ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لیے بھر پور حصہ لیں اور اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو جِلا بخشنے کے اس موقعے سے پورا پورا فائدہ اُٹھائیں تاکہ آنے والے وقتوں میں پُر اسائش اور متوازن زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں .

اسکول کے فنکشن انچارج ارشاد خان لیکچرر پاکستان اسٹیڈیز نے ہفتۂ طلباء پر تجزیاتی رائے دیتے ہوئے کہا کہ دوران ِ ہفتۂ طلباء بچوں کی شرح ِشرکت تقریباً 96 فی صد رہی جو کہ قابل ِ ستائش ہے تاہم اگلے سال کے لیے مزید بہتر حکمت ِ عملی اپنا کر اس شرح کو سو فیصد کرنے کا عزم بھی کیا۔

پروگرام کے شرکاء سے خطاب کرتےہوئے مہمان ِ خصوصی عین شاہ نے طالب علموں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انھیں اکیسویں صدی کی مہارتوں کا ادراک ہونا چاہیے جو کہ آج کے سائنسی دور سے طلبہ و طالبات کو ہم آہنگ کرنے کے لیے نہایت ضروری ہے ۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ وقت کا بہتر انتظام و انصرام ، اکیسویں صدی کی مہارتوں کا حصول اور سب سے بڑھ کر اسلام کے اخلاقی اقدار وآفاقی نظام کی پیروی ہی کامیاب انسان بنانے میں مددگار ہوسکتے ہیں۔ صدرمخفل نے طلبہ کی مہارتوں کو سراہا اورنصابی سرگرمیوں‌کے ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی نمایاں‌کارکردگی دکھانے پر انھیں شاباش دی .

akesp sher qilla function gilgit1
news repeor sher qilla 2

 

Posted in تازہ ترین, چترال خبریں, گلگت بلتستانTagged
28253