چترال، سڑکیں، سیاست اور عبد الطیف کے نام ایک خط – تحریر؛ احتشام الرحمن
حالیہ بونی تورکھو روڈ تنازعے میں کچھ باتیں واضح ہو گئی ہیں۔ اول یہ کہ ہمارے سیاسی نمائندے عوام کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ دوم، عام طور پر عوام میں شعور کی کمی ہے۔ البتہ تورکھو کے عوام میں شعور بیدار ہوا ہے، مگر وہاں قیادت کا فقدان ہے۔ لوگ قائد بننے کی خواہش میں نکلتے ہیں، لیکن چونکہ ان کے سامنے کوئی واضح ہدف نہیں ہوتا، اس لیے جلد ناکام ہو جاتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ احتجاج میں آگے آتے ہیں، ان کی جدوجہد کا اختتام عموماً ایف آئی آر پر ہوتا ہے۔ اس کے بعد، جیسا کہ ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی صاحب نے بجا فرمایا، وہ اصل مسئلے کو بھول کر اپنی ایف آئی آر ختم کرانے کی کوششوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
تاہم، آج کا میرا موضوع نہ عوام ہیں، نہ مسئلہ، اور نہ ہی سیاست دانوں کی کوتاہیاں۔ آج میں ایک ایسی شخصیت پر بات کرنا چاہتا ہوں جس کی سیاست اور طرزِ عمل سے مجھے ہمیشہ اختلاف رہا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ان کی جیت چترال کی ہار تھی۔ آج بھی مجھے یقین ہے کہ چترال کے لیے بہترین انتخاب افتخار الدین صاحب تھے۔ ان کے بعد اگر کسی میں چترال کے لیے کچھ کرنے کی صلاحیت تھی، تو وہ طلحہ محمود تھے۔
تاہم، اس جلسے میں جس بردباری اور تحمل کا مظاہرہ عبد الطیف صاحب نے کیا، وہ قابلِ تحسین بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی۔ تاہم میں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ آئندہ بھی ووٹ دینا ہو تو میں لطیف صاحب کو ووٹ نہیں دوں گا۔
جلسہ جاری تھا، لوگ نعرہ بازی کر رہے تھے۔ لطیف صاحب سخت دباؤ میں تھے۔ پی ٹی آئی کو ووٹ دے کر لوگ نادم تھے۔ پارٹی پر یرغمال بننے کے الزامات لگ رہے تھے۔ جلسے کے دوران لطیف صاحب کو گالیاں بھی سننا پڑیں۔ لیکن انہوں نے نہایت بردباری سے نہ صرف ان باتوں کو سنا بلکہ مہذب انداز میں جواب بھی دیا۔ انہوں نے خیبر پختونخوا کی تیسری بڑی شخصیت اور عہدے کی مالکن کی طرح عوام کو دھمکانے کے بجائے، عوام کی عدالت میں کھڑے ہو کر اپنا مؤقف پیش کیا۔ انہوں نے ایک چترالی بیٹے اور سنجیدہ سیاست دان کی حیثیت سے عوامی مسئلے کو اہمیت دے کر سنجیدگی سے لیا۔
لطیف صاحب میں قائدانہ صلاحیتیں موجود ہیں، مگر بدقسمتی سے وہ خود اس کا ادراک نہیں کر پائے۔ وہ آج بھی خود کو اویر یوسی کے ناظم کے دائرے سے باہر نکالنے میں ناکام ہیں، بالکل اسی طرح جیسے ان کے قائد وزیراعظم بننے کے بعد بھی پارٹی کے سربراہ کے انداز سے باہر نہ نکل سکے تھے۔
اس جلسے میں ان کے رویے سے امید کی ایک کرن ضرور پیدا ہوئی ہے کہ وہ اب چترال کے مسائل پر توجہ دیں گے۔ اس حوالے سے میں ان کی خدمت میں چند گزارشات پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں:
1. چترال کا بنیادی مسئلہ نہ عمران خان کی رہائی ہے، نہ اسلاموفوبیا اور نہ ہی فلسطین کی آزادی۔ چترال کا سب سے بڑا مسئلہ سڑکوں کی خستہ حالی ہے۔
2. عمران خان لطیف صاحب کے قائد ہیں۔ ان سے وفاداری ان کا حق ہے، لیکن یہ وفاداری ان کی واحد ترجیح نہیں ہونی چاہیے۔ عوامی مسائل کو ترجیح دینا ان کی اولین ذمہ داری ہونی چاہئے۔
3. چترال کی ترقی کے لیے لطیف صاحب کو مولانا عبد الاکبر چترالی کے طرزِ سیاست کے بجائے محئی الدین صاحب کے طرزِ عمل کی پیروی کرنی چاہیے، جنہوں نے ہمیشہ چترال کی ترقی کو جماعتی وابستگی سے بالا تر رکھا۔
4. لطیف صاحب کو چاہیے کہ وہ عمران خان کو یہ بات سمجھائیں کہ مجھے حکومت سے بہتر تعلقات رکھنے ہوں گے، تاکہ چترال کو ترقیاتی منصوبوں میں حصہ مل سکے۔ حکومت کے خلاف سخت مؤقف چترال کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس طرزِ عمل کو پارٹی سے غداری نہیں بلکہ چترال کے ساتھ وفاداری سمجھا جائے۔
5. لطیف صاحب اب ایک جماعت کے کارکن نہیں بلکہ عوامی نمائندہ ہیں۔ انہیں زیب نہیں دیتا کہ وہ شہباز شریف کی نقل اتاریں یا رکشے میں بیٹھ کر گانے گائیں۔ ان بچگانہ حرکات میں وقت ضائع کرنے کے بجائے، انہیں چاہیے کہ عوام کی فلاح کے کسی منصوبے کے حصول کے لیے اپنی توانائیاں صرف کریں۔
(چترال ٹائمز)