دھڑکنوں کی زبان – سفیرہ کائی چترال کی مخلص بیٹی – محمد جاوید حیات
منور شاہ رنگیں سے جڑی یادیں ایک سلسلہ رکھتی ہیں جب منور شاہ رنگین مرحوم عبد الجبار مرحوم کے ساتھ افسردہ چہروں پہ مسکراہٹ پھیلانے میں اپنے جوبن پر ہوتے ۔۔ قہقہے بکھیرتے اور محافل کو زغفران زار بناتے ۔۔یہ ایک عہد تھااختتام پذیر ہوا ۔۔دو مہینے کے وقفے سے یہ دو ہنستے مسکراتے چہرے راہی ملک عدم ہوۓ ۔یہ چترال کے انور مسعود ،عمر شریف ،رنگیلا ،اور معین اختر تھے ۔یہ جوڑی پوشتو کے اسماعیل شاہد اور ان کی جوڑی جیسےتھی البتہ چترال میں ابھی فن کی اتنی پزیرائی نہیں اس لیے یہ بھی اپنی ناقدری کا رونا روتے دنیا سے کوچ کر گئے ۔۔
منور شاہ مرحوم ایک لحاظ سے خوش قسمت ٹہھرے کہ ان کے چاہنے والوں نے ان کو دیار رسول ﷺ تک پہنچایا انہوں نے مسجد حرام اور روضہ رسول ﷺ میں حاضری دے کر اپنی تقصیروں کی معافی مانگی ان کی مرادیں پوری ہوئیں اور پھر چترال کی ایک قابل احترام بیٹی نے ان کے علاج کے لیے مواقع فراہم کیے موت مقرر ہے لیکن چترال کی یہ بیٹی اپنی درد مند بہن، بیٹی ہونے کی لاج رکھی ۔۔
سفیرہ چترال کی قابل فخر بیٹی ہیں جو امریکہ میں مقیم ہیں مگر پسماندہ چترال کا درد اپنے سینےمیں زندہ رکھی ہوٸی ہیں۔۔ان کی زندگی کار أمد ہے ان کی دولت قیمتی ہے اور ان کی شخصیت معتبر ہے ۔۔ معاشرے میں کتنے متمول شخصیات ہیں جن کو اپنے اردگرد کا پتہ نہیں ان کی زندگیاں بے فیض ہیں ان کی ذات سے وفا کی کرنیں نہیں پھوٹتیں انہوں نے اپنی سستی شہرت کو مقام سمجھ لیا ہے ۔۔ اگر کوٸی قومی نمائندہ ہے اور جائیدادیں بنارہا ہے اس کو وہ اپنی ذاتی صلاحیت سمجھ رکھا ہے اگر کوٸی أفیسر ہے جو اپنے أپ کو برتر سمجھ کر ارد گرد کو بھلا بیٹھا ہے اس کو زندگی سمجھ رکھا ہے ایسی بے فیض زندگی سے گمنامی کی موت بہتر ہے ۔
شاباش ہے سفیرہ بی بی کو کہ أپ اپنی زندگی دوسروں کی مدد اور بھلاٸی کے لیے وقف کر رکھی ہے ۔ایسی زندگی چراغ نما ہوتی ہے یہ خود جل کر دوسروں کو روشنی دینے والے کبھی مرتے نہیں ۔ کہتے ہیں سفیرہ بی بی نےمنور شاہ مرحوم کے علاج پہ کثیر رقم خرچ کی۔وفا کی اس پتلی نے چترالیوں کی دعائیں اور محبتیں اپنے نام کر لیں ۔ان کے خلوص سے امیدیں وابستہ ہو گٸیں ۔
وہ دوسروں کے لیے مشعل راہ بن گٸیں ۔ایک ایسا پھول جو گلشن انسانیت کو معطر کرے ایک ایسا چاند جس کی چاندنی سے محفل کون و مکان روشن ہوں ایک ایسا جذبہ جس کا متبادل کوئی نہ ہو ۔ایک ایسی أس جو انکھڑائی لیتی انسانیت کو تروتازہ کرے ۔سفیرہ بی بی کی آنکھوں میں اتری روشنی دوسروں کے افسردہ چہروں کو روشن کرنے کے لیے ہے جو ان کے لیے سکوں اور خوش قسمتی کا باعث ہے ۔
سارا چترال، چترال کی اس بیٹی کے لیے دعاگو ہے اور افرین کر رہا ہے ۔ہم نے سفیرہ بی بی کو مختلف رفاہی اور فلاحی کاموں میں دلچسپی لینے کا سنا تھا مگر منور شاہ کے علاج کی کاوش ثبوت کے طور پر ہے کہ ایک بیٹی دکھی انسانیت کی خاموش مددگار ہے ۔آج کا دور پروپگنڈے اور تشہیر کا دور ہے لوگ اپنی سستی شہرت کے دیوانے ہوتے ہیں حقیقت کا اس سے دور کا تعلق نہیں ہوتا ۔
ہم سفیرہ کو اس سستی شہرت سے مبرا دیکھتے ہیں یہی ان کا مقام ہے۔ منور شاہ رنگین چترالی معاشرے کی ایک شناخت تھے ایک کردار جو صدیوں میں جنم لیتا ہے۔معاشرہ افراد کا ایک بے ربط اجتماع ہے لیکن ان افراد میں بعض اپنی شناخت بناتے ہیں ان کا مقام ان کا ہوتا ہے ان کو یاد کیا جاتا ہے ۔۔جہان منور شاہ رنگین یاد کیے جائیں گے وہاں سفیرہ کائی کے کردار کی خوشبو بھی آۓ گی اس کے پاس ایک باوفا اور دردمند بہن ہونے کی سند ہے جو بھائیوں کے واسطے تڑپتی رہتی ہو ۔
جو لوگ انسانیت کی دکھتی رگ پہ انگلی رکھتے ہیں اصل میں وہ زندہ ہیں ان کو سکوں اور تمانیت کی دولت عطاہوتی ہے ۔۔وہ اندر سے مکمل ہوتے ہیں ان کو زندگی گزار نے میں لطف ملتا ہے وقت ویسے بھی گزرتا ہے جسی کی مجبوری محسوس کرکے اس مجبوری کو دور کرنا اصل انسانیت ہے جو ایک معیار ہے اس تک کم کم لوگ پہنچتے ہیں جو وہاں تک پہنچتے ہیں وہ امر ہو جاتے ہیں ۔

