Chitral Times

تعلیم اور تربیت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بی بی آمنہ نگار اپر چترال

تعلیم اور تربیت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ بی بی آمنہ نگار اپر چترال

عام طور پر تعلیم وتربیت کا لفظ  باہم مترادف سمجھاجاتاہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ تعلیم اور تربیت دو الگ  الگ معانی رکھنے والے الفاظ ہیں   لیکن  ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم ضرور   ہیں کیونکہ تعلیم، تربیت کے بغیرمکمل  نہیں ہوسکتی ۔ لہذا تربیت کو تعلیم سے  الگ نہیں کیا جا سکتا۔

تربیت کا لفظ عربی زبان سے آیا ہے جس کے معنی بچے کی  پرورش کرنا، پالنا اورمہذب بنانا ہے ۔ تربیت درحقیقت انسان سازی کا فن ہے۔اس فن  کی  بدولت   انسان کے اخلاق وعادات، مہارتیں،اعمال وکردار، اس کی سوچ   اور   اس کےمجموعی رویے اسے  دنیا کی دیگر مخلوقات سے ممتاز کردیتے ہیں۔انسان کی اصل شناخت اس کے کرداری واخلاقی وجود سے ہی ہوتی ہے۔ مشہور ماہر تعلیم عارفہ سیدہ زہرہ  کے مطابق “ہم نے احساس کی سطح ، شعور کی سطح اور فکر کی سطح پر اتنی ترقی نہیں کی جتنی ہم نے ٹیکنالوجی میں کی ہیں اور تعلیم بہت ہے لیکن تعلیم کو علم بننے کے لیے جن دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے  ان کی کمی ہے  پہلی چیز ماحول ہے جو آپ کےشعور اور احساس کی تربیت کرتاہے اور دوسری چیز آپ کا اپنا شعور اور احساس ہے جو تعلیم کو اپنے اندر اتار کے علم بنانے میں مدد دیتا ہے “۔  لہذا اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ  انسان کو اس کی اصل شناخت کے لیے  اس کی تعلیم کو علم بنانے  اور  تربیت  کی بہتری کے لیے کوشیش کرنا  ایک لازمی امر ہے اور اس حوالے سے  والدین اور اساتذہ  کو اپنی زمہ داریوں کا احساس  کرنا بہت ضروری ہے۔   

تربیت کے حوالے سے والدین کی زمہ داری بچے کے پیدائش سے پہلے سے شروع ہوتی ہے یعنی کہ  دورانِ حمل ماں  کاذہنی سکون،  متوازن خوراک ،مناسب ماحول  اور ماں کی  تمام  سرگرمیاں بچے کی جسمانی اور ذہنی   نشوونما پر مثبت  اثر  ات مرتب کرتی ہیں  جو  بچے  کی نشوونما اور شخصیت پر   اثر انداز ہوتے ہیں  ۔ پیدائش کے بعد      گھر کے ماحول کو لیں تو بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود  ہے یعنی کہ سیکھنے کا عمل یہی سے شروع ہو تاہے۔ وہ اپنے ماں باپ اور گھر والوں کی باتوں، حرکات و سکنات ،  ان کے کام اور کردار سے ہی سب کچھ سیکھتے ہیں۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم والدین کی حیثیت سے یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہمارے بچے ہمارے نقش قدم پر چلتے ہیں اور جہاں بھی جاتے ہیں  ہماری عکاسی کرتے ہیں ۔ان کی تربیت میں کمی کو سمجھنے کے لیے والدین کی حیثیت سے ہمیں اپنے آپ کو جانچنا ہو گا۔ مثال کے طور پر  ہمیں  یہ دیکھنا  ہو گا کہ گھر کے اندر ہمارا  رویہ کیسا ہے؟ کس حد تک اپنے بچوں کو سنتے ہیں؟ کتنی دفعہ دوسروں کی معاملات پر تبصرہ کرتے ہیں؟   دوسروں کی برائیاں کس طرح گنواتے ہیں ؟  ہماری سوچ کتنی مثبت ہے اور کتنی منفی ہے؟  یہ سب کچھ کرتے ہوئے ہم کتنی دفعہ  سوچتے ہیں کہ ان کا ہمارے بچوں پر کیا اثر ہو گا؟   یہ سب سوچنے کے بعد   ہی ہم یہ سمجھ سکتے ہی کہ ہم اپنے بچوں کے لیے نمونہ ہیں ہم جو بھی کریں گے  اس کا ہمارے بچوں پر  واضح  اثر ہو گا۔   لیکن ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم بحثیت والدین بچوں کی تعلیم اور  تربیت کے زمہ دار اساتذہ کو ٹھیراتے ہیں ۔ اور  بچوں کو سکول بھیج کر اپنے آپ کو ان کی تربیت سے  دستبردار کر دیتے  ہیں جو کہ  مناسب عمل نہیں ہے کیونکہ جب تک  والدین اور اساتذہ ساتھ ساتھ نہیں ہو ں گے  بچوں کی صحیح تربیت ممکن نہیں ہو گی۔

اسکول اور اساتذہ  کا کردار ہمارے تعلیمی نظام  کے  مر ہونِ  منت ہیں ۔  دونوں کی بہتری کے لیے  حتی الامکان کوشیش  کی جارہی ہے۔ نصاب کو بہتر بنانے اوراساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت پر کام  جاری ہے۔ سکول کے عمارت کو  بہتر بنا کر  بنیادی سہولتیں دی جارہی ہیں ۔  ان سب کے باوجود  بھی  بچوں کی  تعلیم و تربیت میں  توازن نہیں  ہے۔ ان کی اس حساب سے تربیت نہیں  ہوتی جس  کا دور حاضر تقاضا کرتی ہے۔ مثال کے طور پر  بچوں کے اندر عزت  دینے کی کمی، نظم و ضبط  کا فقدان، قوتِ برداشت کا کم یا نہ ہونا، محنت سے جی چرانا ، ہر کام کے لیے مختصر راستہ  ڈھونڈنا، دوسروں کو قبول نہ کرنا  یہ سب چیزیں روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں جس کا کوئی حل نظر نہیں آرہا ہے۔

والدین  کے بعد بچوں کی شخصیت پر اثر انداز ہونے والے ان کے اساتذہ ہوتے ہیں۔   یہ اساتذہ ہی ہیں جو   قوموں کے معمار  ہوتے ہیں جس طرح ایک معمار کہیں سے مٹی لے آتا ہے اس کو چھانتا ہے پھٹکا ہے اور پھر گوندھ کر جو شکل دینا چاہے اس میں ڈھال دیتا ہے بلکل اسی طرح ایک استاد بھی اپنے طلبہ کو جو چاہے اس صورت میں ڈھال سکتا ہے۔ اچھے اساتذہ   نہ صرف بچے کو نصابی کتب کی تعلیم دیتے ہیں بلکہ وہ   بچوں میں زندگی کی بنیادی مہارتیں بھی  پیدا کرتے ہیں ۔ وہ اس کی روحانی، نفسیاتی، اخلاقی، معاشرتی بلکہ ہمہ پہلو تربیت کرنےکے  ذمہ دار  ہیں ۔یہ اساتذہ ہی ہیں جن کی پیروی میں وہ صبروتحمل،  عزت کرنا، دوسروں کا خیال رکھنا اور اپنی زمہ داریوں کو سمجھنا سیکھتے ہیں۔ اگر اساتذہ خود وقت کے پابند ہیں تو یقینا بچے بھی ہوں گے۔ ان کی سوچ اگر  مثبت ہے تو بچے بھی مثبت سوچ کے حامل ہوں گے۔ غرض اساتذہ کی   شخصیت بچے کی پوری شخصیت کو بدل ڈالتی ہے۔ یہ سب تب ممکن ہے جب اساتذہ کے اپنے  کردار اس چیز کا آئینہ دار ہو جس میں یہ تمام خوبیاں پائی جائیں ۔ کردار کے بغیر علم   فضول ہے اور عمل کی خوبیاں پیدا نہ ہوں تو علم کا درخت بے ثمر اور بے فیض ہے۔ لہذا تعلیم کو علم  میں تبدیل کرنے کے لیے  اساتذہ کو طلبہ کے لیے قابلِ تقلید نمونہ ہونا چاہئے۔  تبھی جا کے وہ طلبہ کی زندگی میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔  

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
57525

داد بیداد ۔ مردم شماری رپورٹ ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ مردم شماری رپورٹ ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

مشترکہ مفا دات کی کونسل کے حا لیہ اجلا س میں حکومت نے آنے والے عام انتخا بات سے پہلے مر دم شما ری کرنے کا عندیہ دیا ہے عنقریب مردم شما ری کی تاریخوں کا اعلا ن ہو گا مر دم شما ری کی رپورٹ کیسی ہو گی 1951سے اب تک مر دم شما ری کی جتنی رپورٹیں آئی ہیں ان میں سے کسی بھی رپورٹ کو اقوام متحدہ کے ادارے یو نیسکو (UNESCO) نے تسلیم نہیں کیا، کسی بھی مر دم شما ری رپورٹ کو کسی بین الاقوامی یو نیور سٹی نے حوالے کی دستا ویز کا در جہ نہیں دیا کیونکہ ہماری مر دم شما ری رپور ٹوں میں پا کستان کی زبا نوں، نسلی قو میتوں یا قبیلوں اور اقلیتی مذا ہب کا ذکر نہیں ہے.

جب کسی ثقا فتی اکا ئی کو عا لمی ورثہ قرار دینے کی تجویز اقوام متحدہ میں جا تی ہے تو جنرل اسمبلی کی ثقا فتی و معا شی کمیٹی (ECOSOC) اور ثقا فتی تحفظ کی تنظیم یو نیسکو (UNESCO) مر دم شما ری رپور ٹ کا حوالہ ما نگتے ہیں حوالہ نہ ملنے کی صورت میں تجویز کو مستر د کر دیا جا تا ہے کسی بھی بین الاقوامی یو نیورسٹی کا محقق جب پا کستان کی معاشرتی زند گی اور سما جی حا لا ت پر تحقیق کر تا ہے تو سب سے پہلے مر دم شما ری رپوٹ منگوا تا ہے اور یہ دیکھ کر ما یوس ہو جا تا ہے کہ اس رپورٹ میں پا کستان کی نسلی اقلیتوں کا ذکر نہیں، اقلیتی زبا نوں کا ذکر نہیں، اقلیتی مذا ہب کا ذکر نہیں اقلیتی مذہب کا لا ش کا نا م نہیں گذشتہ مردم شما ری سے پہلے 2017ء میں کا لا ش اقلیت کی طرف سے پشاور ہا ئی کورٹ میں رٹ داخل کی گئی کہ ہماری مذہب کا نا م مر دم شما ری رپورٹ میں شامل کیا جا ئے اس طرح خیبر پختونخوا کی نسلی اقلیت کھو آبا دی کی طرف سے اس نو عیت کی رٹ دائر کی گئی۔

حکومت پا کستان کے مر دم شما ری ڈویژن کے حکام نے عدالت میں اقرار کیا کہ غلطی ہو رہی ہے اگلی مر دم شما ری میں غلطی نہیں ہو گی عدالت نے اس بنا ء پر ان کی معذرت قبول کر کے اگلی مر دم شما ری میں حکم کی تعمیل کا فیصلہ سنا یا 2017کی مر دم شما ری کے لئے جو قا نون بنا تھا اس میں ایک اور نقص تھا جسکی وجہ سے کر اچی سے چترال تک پورے ملک میں احتجا ج ہو ا نقص یہ تھا کہ کنبے میں کوئی فرد اگر پا ک فو ج میں ہے، پو لیس میں ہے ڈیو ٹی پرہے تو وہ شما ر نہیں ہو گا، کنبے کا کوئی فرد اگر تعلیم حا صل کرنے کے مر حلے میں ہے کا لج یا یو نیورسٹی کی سطح پر پڑھنے میں مصروف ہے تو اس کو بھی شمار نہیں کیا جا ئے گا

اگر کنبے کا کوئی فرد ڈاکٹر یا نرس ہے، ٹیچر یا پرو فیسر ہے گھر سے با ہر ڈیو ٹی پر ہے اس کو کنبے میں شمار نہیں کیا جا ئے گا اس قانون کے تحت ہر کنبے، ہر گاوں، ہر قصبے اور ہر شہر کی ایک تہا ئی آبا دی مر دم شما ری سے خا رج ہو گئی قومی اسمبلی اور صو با ئی اسمبلی کی نشستوں میں کمی کی گئی ویلج کونسلوں کی تعداد کم ہوئی لو گوں کی نما ئندگی بھی متاثر ہو ئی مر دم شما ری میں کنبے کے تما م افراد کو شما رکرنا، ان کے مذہب اور ان کی زبا ن کو ریکارڈ پر لا نا اور ان کی نسلی شناخت کو دستا ویز کا حصہ بنا نا انسا نی حقوق میں شا مل ہیں یہ بنیا دی حقوق کا معا ملہ ہے اس پر عدا لتیں از خود نوٹس کے تحت بھی کار وائی کر سکتی ہیں 2022کی مر دم شما ری رپورٹ آنے سے پہلے سابقہ رپورٹوں کے نقا ئص کو دور کر نے پر تو جہ دینا بہت ضروری ہے ور نہ آ نے والی رپورٹ بھی قابل قبول نہیں ہو گی۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57523

خوشنودی – تحریر۔ شہزادہ مبشرالملک

خوشنودی – تحریر۔ شہزادہ مبشرالملک

خوشامد۔۔۔ خوشنودی۔۔۔

مکھن ماری ۔۔۔ دور جدید کے ادب کے مطابق ۔۔۔ چمچہ گری۔۔۔ ہماری ثقافت کا بہت ہی پرانا اور کاریگر ۔۔۔ فرموال رہا ہے ۔۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اجکل کے دور میں یہ گر ۔۔۔ نسخہ کیمیا۔۔۔ کے طور پر اپنایا جاتا ہے۔ اور ہم لوگ۔۔۔ بچے۔۔۔ کی پیدایش سے لے کر بوڑھاپے تک مختلف حیثیت سے اس کی ۔۔۔خوشامد۔۔ میں لگے رہتے ہیں۔۔۔۔ سکول


کے استاد سے لیکر یونیورسٹی کے پروفیسر تک سرکاری جپڑاسی سے لیکر سکیریری تک۔۔ ویلج کونسل کے معمولی ممبر سے لے کر صدر وزیر اعظم تک خوشامدیوں کا ایک جم غفیر ہے جو ۔۔۔ مکھن ماری۔۔۔ چمچہ گری۔۔۔ میں سر گردان نظر اتے ہیں ۔۔۔ ہیاں تک کہ یہ فعل خبیس۔۔۔۔ ہمارے مدرسوں مساجد کے علماء اور ایمہء کرام تک میں
سرایت کر چکا ہے ۔۔ کام نکالنا ہو تو۔۔۔۔ رشوت۔۔ کو ۔۔۔ تحفہ۔۔۔ نذرانہ۔۔۔ ہدیہ۔۔۔ کے نام سے بدل کر کام نکالنے کے راستے بناءے جاتے ہیں ۔کسی بندہ مجبور کے پاس یہ۔۔۔ کارامد ھتیار۔۔۔ دستیاب نہ ہوں تو وہ اپنے ۔۔۔ عمرو عیاری۔۔۔ زنبیل سے۔۔۔۔ خوشامد۔۔۔ مسکہ ماری۔۔۔ جمجہ گری۔۔۔ کے لوازمات باہر نکال دیتا ہے۔۔مسکہ ماری کا پہال شکار


اور انگوٹھے کی نشان نے زرے کو پہاڑ بنادیے ہیں اور اس کھیل نے قومی وقار عزت اور تشخص کو سخت نقصان پہچایا ہے ۔۔۔ دوسروں کی خوشامد میں ہم کب سے ۔۔۔۔ غرقاب۔۔۔ ہیں اس کا اندازہ ایک سیاسی کتب کے مطالعہ کے دوران ہوا کہ ۔۔۔ بھٹو مرحوم جیسے زور اور شخص بھی یہ کارنامہ انجام دے سکتا ہے تو اج کے ۔۔۔۔بالشتیے ہمارے گراٹ گرنٹ پا ۔۔۔ حضرت شیطان۔۔۔ کے ہاتھ ہوکے اس زمین پر جلوہ افروز ہوے تھے ۔تب سے ان کی اوالد میں سے بہت ہی کم لوگ اس۔۔ قبیع فعل ۔۔۔ سے خود کو بجا پاءے ہیں ورنہ یہ اسیی بیماری ہے جو۔۔۔ سر چھڑ۔۔۔ کے بولتا ہے۔۔ سوشل میڈیا اور فیس بک کی دنیا نے تو اس فن کو ۔۔۔۔ چار چاند۔۔۔ ہی لگا دییے ہیں ۔۔۔ ۔۔۔
سیاست دان اور مالزم کیا کیا گل کھال سکتے ہیں۔


نے ۔۔۔۔ امریکن وزیر کے شایانشان استقبال اور ڈنر منیو بنانے میں ایک دوسرے سے بڑھ جڑھ کے مشورے دینے لگے ۔۔ وایٹ ہاوس کے سابق باورچیوں سے وزیر کے پسندیدہ خوراک کی لسٹ منگواییں گءیں ۔۔ کسنجر کے پسندیدہ رسٹورانٹ سے وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے ایک سرکاری دورے پر ۔۔۔۔ مرحوم ذالفیقار علی بھٹو ۔۔۔ امریکہ میں تھے کہ پاکستانی سفارت خانے کی ایک تقریب میں امریکن وزیر خارجہ۔۔۔۔ ہنری کسنجر۔۔۔۔ کو دعوت دی جو اس نے قبول کی۔۔۔ بھٹو صاحب بہت خوش ہوے اور ڈنر کی تقریب سجانے کے احکامات صادد کیے۔۔۔۔ سفارتی اور کابینہ کے اراکین


معلومات اکھٹے کی گییں ۔۔۔۔ سفارت خانوں اور دیگر تقریبات میں کسنجر نے کیا۔۔۔۔ تناول۔۔۔ فرمایا تھا انہیں شاٹ لسٹ کیا گیا ان کے دوستوں سے معلومات لی گییں کہ دوروں کے دوراں اس نے کس ۔۔۔۔ڈش۔۔۔۔ پر واو۔۔۔ وٹ اے ٹست کہا تھا۔۔۔عرب ۔یورپ۔۔۔ افریقہ برصغیر کے کونسے ایسے خوراک ہیں جنہیں ۔۔۔۔ چک۔۔۔۔ کر ۔۔۔ ہنری کسنجر۔ ۔۔۔ واو
کہہ سکتے ہیں غرض سیکڑوں ۔۔۔۔ طعام۔۔۔۔ کا ایک طویل ترین لسٹ مرتب ہوا ۔ گھنٹوں کی مغز خوری کے بعد ۔۔۔۔ منتخب خوراک۔۔۔۔ شاٹ لسٹ کیے گیے۔بھٹو صاحب نے قمیض کے بٹن کھول لیے پشانی سے ٹپکنے والے پسینے صاف کیے اور ساتھیوں کو اس عظیم کارنامے پر ۔۔۔۔ فاتحانہ۔۔۔انداز سے دیکھا اور شاباشی دی۔۔۔۔ ناگہان ایک ۔۔۔۔


مکھن مار۔۔ ۔ نے مسکہ لگایا ۔۔۔۔پی ایم صاحب۔ ۔۔۔
کیوں نہ ۔۔۔۔ کہیں سے ۔۔۔۔ تازہ کالے بٹیر۔۔۔ منگوالیے جاءیں جو ۔۔۔۔۔۔جنتیوں۔۔۔۔ بنی اسرایلیوں ۔۔۔ کی خوراک اور تمام خوراک کی جان ہے۔۔۔۔۔ بھٹو ۔۔۔۔ نے جھومتے ہوے اٹھے اور چیخ کر کہا۔۔۔۔ دیٹ از دے سیجشن۔۔۔۔ اب برف پیگھل سکتا ہے امریکہ اور پاکستان کے بھیج۔۔ اب اگیا اونٹ پہاڑ کے نیچے ۔مشورہ دینے والے کو ۔۔۔ ۔22 گریٹ۔۔۔۔ کی
گالیان سنا دیں کہ کم بخت نے یہ زرین مشورہ اتنی دیر سے کیوں دیا۔۔۔۔ گالی کھانے والے نے سینے پر ہاتھ رکھ کر۔۔۔۔ تسلیمات۔۔۔ بجا الءے کہ بھٹو صاحب نے مجھے۔۔۔۔ گالی کے گلدستے ۔۔۔۔ سے شرف یاب کیا۔۔۔۔ اب دن ہی کتنے رہ گیے تھے۔تمام سفارتی عملہ بھٹو سمیت ۔۔۔۔ کالے بٹیر۔۔۔ کی تالش میں امریکہ بھر میں ناکام پھرے۔ رات دوبارہ۔۔۔۔


زیرک دماغوں۔۔ نےسر جھوڑ لیے کہ کیسے اور کہاں سے کالے بٹیر مل سکتے ہیں۔
ایک سیانے مشیر نے مشورہ دیا۔۔۔۔۔ سر وقت بہت کم رہ گیا ہے بہتر ہے کہ اپ اپنی جہاز پاکستان روانہ کریں کہ کراچی سے جتنا چاہے السکتا ہے ۔۔۔۔ بھٹو صاحب نے ایک ۔۔۔ سونامی ٹایپ۔۔۔۔ گالی کے ساتھ ۔۔۔۔ مشیر کا زوردار بھوسہ لیا اور ۔۔۔۔ سی ون تھرٹی۔۔۔۔ طیارے کو کراچی پہچنے کے احکامات صادر کیے۔۔۔۔ دوسرے دن۔۔۔۔۔ دوہزار۔۔۔۔


اسی شام امریکن صدر کے اعزاز میں ڈنر ہونا تھا۔۔۔سب کے چہرے لٹکے ہوے تھے اچانک ۔۔۔۔ باورچی کی امد کا اعالن ہوا بہت سے جام ٹکرایے گءے اور حالت بے خودی میں۔۔۔۔۔ سجدہ شکر ۔۔۔ بھی بجاالیے گییے۔۔۔ سفارتی عملہ وزرا سمیت باورچی کی مدد میں مگن رہے۔۔۔۔ امریکن صدر کی اسانی کے لیے۔۔۔۔ کالے بٹیر۔۔۔۔ کا شجرہ ۔جنت کالے بٹیر۔۔۔ لیے طیارہ امریکہ لینڈ کیا تو خوشی کے شادیانے سفارت خانے میں بجاییے گیے۔۔۔ لیکن سفارت خانے کے باورچی نے ۔۔۔۔ کالے بٹیر ۔۔۔ بروسٹ کرنے سے یہ کہہ کر معذرت کی کہ اس کا کوءی تجربہ نہیں ہے۔۔۔۔۔ دوسری بار ۔۔۔۔۔ عوامی لہو۔۔۔۔ کے اایندھن سے لیس ہوکر طیارہ کراچی پہچا اور شاہی باورچی کو لے کر امریکہ اترا تو
سے وادی سینا کی صحرا نوردی تک کے قیصے اس میں موجود وٹامنز ۔لحمیات وغیرہ کے۔۔ بریف نوٹ۔۔۔ تیار ہوے۔۔۔
احر وہ مبارک گھڑی اپہنجھی کہ پاکستان ہاوس میں ۔۔۔۔ہنری کسنجر۔۔۔۔ قدم رنجہ فرمایا۔ اور بھٹو کو مخاطب کر کے کہنے لگے” مسٹر پرایم منسٹر میں بہت مصروف ہوں اپ لوگوں کو صرف پندرہ منٹ وقت دے سکتا ہوں۔۔۔ سب نے کھانے کے میز پر نگاہیں گاڑ دیں اور منتحب ۔۔۔۔ مینو۔۔۔۔ صدر کے اگے پیش کیے۔۔۔۔جو اس نے پڑھے بغیر ہی


گالس کے نیچے رکھ دی۔۔۔۔۔ کالے جنتی بٹیروں کے ٹرے ان کے سامنے الءی گءی تو۔۔۔۔ نو تھینگس۔۔۔۔ کہا اور ۔۔۔۔ سالد۔۔۔ کے دو ٹکڑے اٹھاءے اور۔۔۔۔ بھٹو۔۔۔۔ کا حا ل احوال پوچھا ہی تھا کہ ان کے سیکڑہری نے ادں سے دریافت کیا سر ہمارے لیے کیا حکم ہے۔۔۔ کسنجر ۔۔ نے گھڑی گماءی اور بھٹوسے کہا۔


تھینگ یو مسٹر پرایم منسٹر ۔ ۔۔۔ وی ویل میٹ سون۔۔۔۔ یہ کہتے ہوے اٹھے اور ہاتھ ہالتے ہوے رحصت ہوے۔
یہ تھی ۔۔۔۔ خوشامد اورجوشودی کی جمہوری کہانی ۔جو سب کے سب


۔۔۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57507

تحصیل موڑکھو چترال کے مسائل ۔ تحریر: ظہیر الدین منیجر

تحصیل موڑکھو چترال کے مسائل ۔ تحریر: ظہیر الدین منیجر

رب کائنات نے چترال کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ ان نعمتوں میں دریاؤں کی فراوانی،بلند و بالا پہاڑوں کی وسعت، جنگلات، معدنیات، دلکش سیاحتی مقامات، پُر سکون اور پُرامن ماحول اور دیگر نعمتیں شامل ہیں۔یہ سب کچھ موجود ہونے کے باوجود بھی چترال KP کا پشماندہ ترین ضلع ہے۔پسماندگی کے باوجود بھی چترال کے لوگ خوش باش، اپنے وطن سے محبت کرنے والے، پُرامن اور مہذب قوم ہیں۔اہل چترال کی عظمت کے اعتراف میں سابق صدر پاکستان جناب سید پرویز مشرف صاحب کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔ انھوں نے فرمایا تھا کہ دور جدید کے اس منتشر سماج میں پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع چترال میں پھلنے پھولنے والی تہذیب ہی امید کی وہ آخری کرن ہے جو اگر کھل کر سامنے آئے تو پوری دنیا کو امن اور سلامتی کا گہوارہ بنا سکتی ہے۔

کائنات کی آغوش میں یہی ایک خطہ ہے جس کی فضاؤں میں امن اور محبت خوشبو بن کر لہراتی ہے۔ تحصیل موڑکھواپر چترال کا سب سے زیادہ آبادی والا تحصیل ہے۔ جعرافیائی، تاریخی، سیاسی اور سیاحتی لحاظ سے تحصیل موڑکھو کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ موڑکھو تحصیل کا آخری حصہ وادی تیریچ جو کئی چھوٹے بڑے دیہات پر مشتمل کثیر آبادی ہے۔ مذکورہ دیہات کوہ ہندوکُش کے پہاری سلسلے اور تریچ میر کی بلند ترین چوٹی سے جاملتے ہیں۔ وادی تیریچ سے آگے پہاڑوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور انسانی آبادی ختم ہوجاتی ہے۔ لہٰذا تحصیل موڑکھو جعرافیائی اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔
تاریخی لحاظ سے تحصیل موڑکھو قدیم ریاستی حکمرانوں کا مسکن ہے۔ ان کے پرانے قلعے اور دیواریں اب بھی شان ماضی کی یاد تازہ کرتی ہیں۔ شاہی خاندان کے کچھ افراد اب بھی ان قلعوں میں رہائش پذیر ہیں۔


سیاسی لحاظ سے بھی تحصیل موڑکھو کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔برصغیر میں جب تحریک پاکستان کا آغاز ہوا تو چترال میں سب سے پہلے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے والے بھی تحصیل موڑکھو کے غیور عوام تھے۔


سیاحتی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو دنیا کے مشہور پہاڑ کوہ ہندوکش اور بلند ترین چوٹی تیریچ میربھی تحصیل موڑکھو میں واقع ہیں جوکہ ہمیشہ اندرونی اور بیرونی سیاحوں کا مرکز ہے۔ کوہ ہندوکُش کے پہاڑی سلسلے سے نکلنے والا کروڑوں کیوسک پانی جوکہ ایک بڑے دریا کی صورت میں تحصیل موڑکھو کے درمیان سے گزرتا ہے۔ اس طرح ایک بہت بڑا دریا موجود ہونے کے باوجود تحصیل موڑکھو کی 60% آبادی آبپاشی کے پانی کی شدید قلت کا شکار ہے۔ دریائے موڑکھو کو وادی تیریچ کے گاؤں زوندرانگرام سے بذریعہ ٹنل موڑکھو کی طرف لایا جائے تو پورے چترال میں زرعی انقلاب آسکتا ہے اور تحصیل موڑکھو کی کثیر آبادی بشمول قاقلشٹ کے وسیع و عریض لاکھوں جریب بنجر زمین آباد ہوسکتی ہیں۔ ہزاروں میگاواٹ بجلی کی پیداوار متوقع بلکہ یقینی ہے۔ اگر ٹنل کو کشادہ تعمیر کیا جائے تو وادی تیریچ کی کثیر آبادی کے لیے سڑک بھی تعمیر ہوسکتی ہے اور وادی تیریچ کے عوام 80 کلومیٹر دشوارگزار سڑک پر سفر کرنے کی بجائے صرف 5 کلومیٹر سفر کرکے تحصیل ہیڈکوارٹر پہنچ سکتے ہیں اور 75 کلومیٹر کا فاصلہ کم ہوجاتا ہے۔ اس طرح غریب عوام کو سفری سہولیات میسر آسکتی ہیں اور مشکلات سے نجات مل سکتی ہے۔


حال ہی میں ایک محترم وفاقی وزیر صاحب پیراگلائیڈنگ کے سلسلے میں تحصیل موڑکھو تشریف لائے تھے۔ انھوں نے پیراشوٹ میں اپنے پرواز کے دوران تحصیل موڑکھو کے پانی کی قلت کے شکار علاقوں، قاقلشٹ کے وسیع و عریض بنجر زمینات اور ٹنل کی جگہ کا اپنی مبارک آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔وفاقی وزیر صاحب کے پاس پاکستان کے آبی ذخائر کا قلمدان بھی ہے۔ وفاقی وزیر صاحب وطن عزیز کے عظیم ہیرو سابق صدر پاکستان جناب ایو ب خان صاحب کے چسم و چراغ ہیں۔ ہمارے اُس عظیم قائد نے قوم کے لیے بڑے بڑے ڈیمز تعمیر کیے اور ملک کو اسلام آباد جیسا خوبصورت اور انمول دارالخلافہ بنا کر دیا۔تحصیل موڑکھو کے عوام وفاقی وزیر براے آبی ذخائر جناب عمر ایوب صاحب سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں کہ محترم وزیر صاحب اپنے خاندانی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس عظیم منصوبے کی طرف توجہ دینگے اور تحصیل موڑکھو کے اس دیرینہ مسلے کو حل کرینگے۔ اور ہماری آواز وزیر آعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب تک بھی پہنچائیں گے۔


کسی بھی ملک یا علاقے کی ترقی کے لیے کشادہ اور پختہ سڑکیں ناگزیر ہیں۔ تحصیل موڑکھو تا حال پختہ اور ٹرک ایبل سڑکوں کی سہولت سے محروم ہے۔وادی تیریچ تک جانے والی ٹوٹی پھوٹی، کچی اور تنگ سڑک جو کہ 1974 میں (تقریباً 48 سال پہلے) بنی ہوئی ہے، ٹریفک کے لیے سخت خطرناک ہے۔ اس سڑک پر سفر کرنا ہر وقت خطرات سے خالی نہیں ہے۔ خاص کر برف باری یا سردیوں کے موسم میں اس راستے پر سفر کرنا انتہائی مشکل ہوجاتا ہے۔برف زیادہ پڑنے پر گاڑی تو کیا پیدل سفر کرنا بھی دشوار ہوجاتا ہے اور غریب عوام کو اپنی ضروریات کے حصول کے لیے اپنے علاقوں سے باہر جانا یا اپنے مریضوں کو ہسپتال پہنچانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ ان حالات کا اندازہ ارباب اختیار خود لگا سکتے ہیں۔ تحصیل موڑکھو میں سڑکوں کی تعمیر وقت کا اہم تقاضا ہے۔متعلقہ اداروں اور عوامی نمائندوں کو عوام کی محرومیوں کا احساس کرنا اُن کا قومی فریضہ ہے۔


اعلیٰ تعلیم کا حصول ملک کے شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ اعلی تعلیم سے ہی معاشرے میں اتحاد اور عمدہ اخلاق پیدا کئے جا سکتے ہیں۔اعلیٰ تعلیم مسائل کے حل کی کنجی اور معاشرے اور مملکت کی تعمیر میں معاون زریعہ ہے۔ اعلیٰ تعلیم سے ہی ایک معاشرہ اپنی بقا کو قائم رکھنے کے قابل ہوسکتا ہے اور اعلیٰ تعلیم زندگی کو خوشگوار بنانے کا ذریعہ ہے۔ تحصیل موڑکھو کے ایک لاکھ سے زائد آبادی تاحال اعلی تعلیم کی سہولت سے محروم ہے۔ تحصیل موڑکھو میں تاحال لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے کوئی ڈگری کالجز نہیں ہیں اور نہ ہی یونیورسٹی کیمپس موجود ہے۔ یہاں کے طالب علموں کو اعلی تعلیم کے حصول کے لیے لوئرچترال یا پشاور جانا پڑتا ہے۔ اکثر غریب اور قابل طالب علموں کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول محض ایک خواب بن کر رہ جاتی ہے۔ ڈگری کالجز اور یونیورسٹی کیمپس کا قیام ایک لاکھ آبادی کا بنیادی حق ہے اور اس کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اسمبلیوں میں اس اہم مسلے کے حل کے لیے آواز اٹھانا عوامی نمائندوں کی ذمہ داری بلکہ ان کی فرائض منصبی میں شامل ہے۔تحصیل موڑکھو میں ڈگری کالجز اور یونیورسٹی کیمپس کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔


صحت کا مسلہ بھی تحصیل موڑکھو کا ایک سنگین مسلہ ہے۔ تحصیل ہیڈکوارٹر میں RHC تو موجود ہے لیکن اس کے اندر سہولیات کا فقدان ہے اور نہ کوئی لیڈی ڈاکٹر موجود ہے۔ اکثر مریض 90 کلومیٹر طویل سفر کرکے DHQ چترال جاتے ہیں یا پھر پشاور کے ہسپتالوں تک جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔موجودہ RHC کو THQ کا درجہ دینا، میل اور فیمیل ڈاکٹرز کی تعیناتی، ٹسٹوں کا انتظام اور ادویات کی فراہمی ایک لاکھ آبادی کا بنیادی حق ہے۔ متعلقہ اداروں کا اس سلسلے میں کردار ادا کرنا وقت کا تقاضا ہے۔
موجودہ قومی حکومت نوجوانوں کو منفی سرگرمیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے کھیلوں کے انعقاد، پلے گراؤنڈز او ر اسٹیڈیم تعمیر کرنے پر زور دیتی ہے۔ تحصیل موڑکھو کے ہیڈکوارٹر کے نوجوان بھی تاحال پلے گراؤنڈ اور اسٹیڈیم کی سہولت سے محروم ہیں۔ یہ انتہائی دکھ اور مایوسی کی بات ہے کہ تحصیل موڑکھو کے نوجوان پرائیویٹ مقام پر معاوضہ ادا کرکے کھیل کود کرنے پر مجبور ہیں۔تحصیل موڑکھو کے ہیڈ کوارٹر میں ایک اسٹیڈیم کی تعمیر عوام کا بنیادی حق ہے۔اس مسلے کو حل کرنا متعلقہ اداروں اور عوامی نمائندوں کی ذمہ داری ہے۔


نادرا آفس کا قیام بھی تحصیل موڑکھو کے عوام کا ایک دیرینہ اور سنگین مسلہ ہے۔ قومی شناختی کارڈ اور فارم(ب) کے حصول کے لیے تحصیل موڑکھو کے لوگوں کو بونی اور لوئر چترال جانا پڑتا ہے۔ اکثر موقعوں پر غریب لوگوں کو گاڑی بکنگ کرکے دفتر جانا پڑتا ہے اور کئی کئی گھنٹوں تک دفتروں کے سامنے شناختی کارڈ اور فارم(ب) کے حصول کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے جس سے غریب لوگوں کا مالی اور وقت کا نقصان ہوجاتا ہے۔ تحصیل موڑکھو کی ایک لاکھ آبادی میں شناختی کارڈ دفتر کا قیام قانونی تقاضا ہے۔ متعلقہ اداروں، عوامی نمائندوں اور ارباب اختیار کو ان عوامی مسائل پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

chitraltimes mulkhow upper chitral

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57503

نئی مردم شماری کا فیصلہ ۔ محمد شریف شکیب

نئی مردم شماری کا فیصلہ ۔ محمد شریف شکیب

مشترکہ مفادات کونسل نے ملک میں عام انتخابات سے قبل نئی مردم شماری کرانے کی منظوری دے دی۔قیام پاکستان کے بعد ملک میں یہ ساتویں مردم شماری ہوگی۔مشترکہ مفادات کونسل نے مردم شماری کی نگرانی کے لئے مانیٹرنگ کمیٹی کے قیام کی بھی منظوری دی۔ڈپٹی چیئرمین منصوبہ بندی کی سربراہی میں کمیٹی چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز، چیئرمین نادراور دیگر افسروں پر مشتمل ہوگی۔ایڈوائزری کمیٹی کی سفارشات کے مطابق ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے مردم شماری کا فیصلہ کیا گیا ہے اور مردم شماری سے قبل ملک بھر میں خانہ شماری کرائی جائے گی۔ملک میں مردم شماری کا ادارہ قیام پاکستان کے تین سال بعد 1950میں قائم ہوا تھا۔ ہر دس سال بعدمردم شماری کرانا آئینی تقاضا ہے۔

پہلی مردم شماری 1951، دوسری 1961، تیسری 1972اور چوتھی1981میں ہوئی۔ پانچویں مردم شماری1991میں ہونی تھی مگرسات سال تک التواء کاشکار رہنے کے بعد 1998میں کرائی گئی۔ اس کے بعد 19سال طویل کے وقفے کے بعد2017میں چھٹی مردم شماری کرائی گئی۔گذشتہ مردم شماری پر سندھ سمیت مختلف صوبوں کی طرف سے اعتراضات بھی اٹھائے گئے۔مردم شماری میں ملک کی مجموعی آبادی 21کروڑ32لاکھ22ہزار917ظاہر کی گئی ہے۔

خیبر پختونخوا کی آبادی تین کروڑ پانچ لاکھ آٹھ ہزار 920، ضم اضلاع کی 49لاکھ 93ہزار، پنجاب کی سات کروڑ36لاکھ،21ہزار، سندھ تین کروڑ چار لاکھ 39ہزار، بلوچستان 65لاکھ65ہزار،آزاد کشمیر 29لاکھ 72ہزار اور گلگت بلتستان کی آبادی 8لاکھ 84ہزار ظاہر کی گئی ہے۔ ان اعدادوشمار کو اصل تعداد سے بہت کم خیال کیاجاتا ہے۔ مثال کے طور پر صوبے میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں کی آبادی کو ایک کروڑ، آزاد کشمیر کی آبادی کو پچاس لاکھ اور گلگت بلتستان کی آبادی کو بیس لاکھ سے زیادہ بتایاجاتا ہے۔ رقبے کے لحاظ سے ملک کے دوسرے بڑے ضلع چترال کی آبادی کو ساڑھے چارلاکھ ظاہر کیاگیا ہے۔

ساڑھے چودہ ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلی ہوئی وادی چترال کی آبادی سات لاکھ سے زیادہ ہے۔آبادی کے فرق کی وجہ سے چترال کی صوبائی اسمبلی کی ایک نشست ختم کرکے صرف ایک نشست رکھی گئی۔اپر اور لوئر چترال کے دو اضلاع میں انتظامی لحاظ سے تقسیم کے بعد دونوں اضلاع کو صوبائی اسمبلی کی ایک ایک نشست دینا لازمی ہے۔قومی اور صوبائی اسمبلی کے کسی امیدوار کے لئے ارندو سے لے کر بروغل، لاسپور، ریچ، شاہ سلیم تک کے وسیع و عریض علاقے کو کور کرنا انتہائی مشکل ہے۔ضلع کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچنے میں تین دن لگتے ہیں۔ قومی یا صوبائی اسمبلی کے ایک ممبر کو ترقیاتی فنڈ کی مد میں جتنے پیسے ملتے ہیں انہیں پورے ضلع کے ہر گاؤں پر تقسیم کیاجائے تو ہرگاؤں کو چند ہزار روپے ملتے ہیں۔ ملک کی ترقی کے لئے منصوبہ بندی اس کی آبادی کی بنیاد پر ہوتی ہے۔

مردم شماری کے نتائج کی بنیاد پر ہی فیصلے کئے جاسکتے ہیں کہ کسی علاقے میں کتنے سکول، کالج، ڈسپنسری، بی ایچ یوز، آر ایچ سیز اور دیگر طبی مراکز درکار ہیں۔مردم شماری کی بنیاد پر ہی شرح خواندگی، فی کس آمدنی، مردوں، عورتوں اور بچوں کی تعداد، معذور افراد، عمر رسیدہ لوگوں اورمعاشی ترقی کا درست اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔مردم شماری کی بنیاد پر ہی قومی و صوبائی اسمبلی، ضلع، تحصیل، ویلج اور نیبرہڈ کونسلوں کی حلقہ بندیاں ہوتی ہیں۔گذشتہ مردم شماری میں شہری علاقوں میں روزگاراور تعلیم کے سلسلے میں عارضی طور پر منتقل ہونے والی دیہی آبادی کو شمار نہیں کیاگیا۔ ان میں سے اکثریت کو شہری آبادی میں بھی شمار نہیں کیاگیا۔ جس کی وجہ سے بہت سے علاقوں کی حق تلفی ہوئی ہے۔ آئندہ مردم شماری میں گذشتہ غلطیوں اور کوتاہیوں کو درست کرنا ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57492

ادھورے ہیں خواب ادھوری ہے پیاس – تحریر : محمد نفیس دانش

کچھ لوگ خوف میں منزل یا رہنما بدل لیتے ہیں اور کچھ لوگ لالچ میں آکر , لیکن مبارکباد کے مستحق ہیں وہ لوگ جو نہ حالات کے جبر کے سامنے جھکے اور نہ ہی کوئی دنیاوی لالچ ان کے پیروں کی زنجیر بنی , ایسے لوگوں کو ہی نظریاتی کہا جاتا ہے اور ایسے لوگوں پر ہی تاریخ فخر کرتی ہے , ورنہ میں میں اور بس میں والے تو ہر کشتی پر سوار ہوتے ہیں اور ہمہ وقت واہ واہ کروا کر آخرکار تنظیم پر بوجھ بن جاتے ہیں , پاسبان بزمِ قلم کا یہ سال 2021 بھی کچھ ایسا ہی رہا ہے، جس میں دخول اور خروج کی گردانیں دہرائی جاتی رہیں . سال کے آغاز میں مرکزی کابینہ نے حلف برداری کی تقریب میں شاہین کی سوچ اور شیخ چلی کے خواب سجا کر کارکنان پاسبان بزمِ قلم کے سامنے رکھیں. جب کچھ حسین خوابوں پر عملدرآمد ہونے لگا تو بد نظری کی ہوا کا جھونکا ایسا لگا جس نے سب خوابوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا اور سب بڑے سے بڑے خواب دھڑے کے دھڑے رہ گئے لیکن شاعر کے یہ الفاظ دلی سکون کے لیے مرہم پٹی بن جاتے ہیں:

خواب ادھورے سہی
خواب سہارے تو ہیں
خواب تو حرف ہیں
خواب تو نُور ہیں

خواب سُقراط ہیں
خواب منصور ہیں

دو سال کے تجربات کے بعد خلاصہ ہم نے یہ نکالا ہے کہ اس بے اصولی کی دنیا میں اب ہمیں اصول پسند بن کر رہنا پڑے گا اور اب غلطی کی بالکل گنجائش نہیں ہے، جب بھی کوئی غلطی کرتا ہے تو سب سے پہلے اس غلطی کرنے والے کو اس کے بڑوں کی طرف سے جو سزا ملتی ہے وہ پہلی سزا ہوتی ہے اس کی آزادی کا چھیننا یعنی اس کی آزادی چھین لی جاتی ہے , مثال کے طور پر اگر ایک طالب علم غلطی کرتا ہے تو اس کی چھٹی بند کر دی جاتی ہے , گھر میں بچہ ادھر ادھر دوستوں میں بیٹھنا شروع کرتا ہے تو اس کے گھر سے نکلنے پر پابندی لگ جاتی ہے , کوئی موبائل کا غلط استعمال کرے تو اس کے بڑے اس کی موبائل کی آزادی ختم کر دیتے ہیں , بڑا جرم کرے تو پولیس جیل میں بند کر دیتی ہے , جیل میں بند عام قیدیوں کو بھی پہلے ہسپتال میں علاج کی سہولت مل جاتی تھی , قیدیوں نے ہسپتالوں سے بھاگنا شروع کر دیا تو عام قیدیوں کی ہسپتال جانے کی آزادی ختم ہوگئی ,اس طرح کی اور بہت ساری مثالیں مزید بھی ہیں اس لئے غلطیوں سے اجتناب کرنا چاہیئے ,باقی ہماری تنظیم کے سب ساتھی پوری کوشش کریں کہ ان لوگوں سے سوشل میڈیا پر بے نتیجہ بحث مباحثہ کرنے کے بجائے اردو ادب کے فروغ پر توجہ دیں. خوب یاد رکھیں کے کسی بھی چیز کی تعمیر کے لئے انرجی یعنی قوت جمع کرنی پڑتی ہے , لیکن تخریب کے لئے چند لوگ ہی کافی ہوتے ہیں , جماعت سے نکالے ہوئے لوگ تخریب کے راستے پر ہیں , عملی میدان میں ان کی کارکردگی زیرو ہے جبکہ سوشل میڈیا پر وہ دن رات فتنہ پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں , معذرت کے ساتھ تعمیری اور تنظیمی کاموں کے لئے ان کے پاس وقت نہیں جبکہ اپنی شہرت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لیے ہمہ وقت وہ بے چین رہتے ہیں. دوسری طرف ہم تعمیر کے راستے پر ہیں ہمیں اپنی اس پاسبان تنظیم کو بلندیوں پر لے جانا ہے اس لئے ہمیں بہت بڑی قوت جمع کرنی ہے , کارکن بنانے ہیں، ہر صوبے میں یونٹ بنانی ہیں , کوئی بلاوجہ بھی ناراض ہو جائے تو اپنا حق چھوڑ کر اسے منانا ہے , ہمیں بہت کام کرنا ہے کیونکہ وہ اپنی ذات کے لئے کام کرنے والے لوگ ہیں اور ہم اپنی تنظیم کے لیے کام کرنے والے لوگ ہیں , ہم تعمیر کے راستے پر ہیں ہم نے بہت سارے تلخ تجربوں سے یہ سیکھ لیا ہے کہ اب غلطی کی گنجائش نہیں.

بقول چیرمین مدثر کلیم سبحانی :

جس طرح خواب مرے ہو گئے ریزہ ریزہ
اس طرح سے نہ کبھی ٹوٹ کے بکھرے کوئی
یہی ہے زندگی کچھ خواب چند امیدیں
انہیں کھلونوں سے تم بھی بہل سکو تو چلو

اس وقت کچھ لوگ اردو ادب کو فروغ دینے والی تنظیم پاسبان بزمِ قلم سے بھی لوگوں کو مایوس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جماعت سے نکالے ہوئے یہ افراد پرامن کارکنان کو اشتعال دلوا رہے ہیں؛ تاکہ کارکنان اشتعال میں آکر کوئی سخت قدم اٹھائیں اور اس نئے سال کام کی رفتار رک جائے , امید نہیںں یقین ہے کہ سرفروش اور جانثار کارکن کسی منفی جھوٹے اور بے بنیاد پروپیگنڈے میں نہیں آئیں گے کیونکہ اب غلطیوں کی گنجائش نہیں ہے , میری تمام تنظیمی دوستوں سے درخواست ہے کہ پوری کوشش کریں کہ ان لوگوں سے سوشل میڈیا پر بے نتیجہ بحث و مباحثہ کرنے کے بجائے تنظیمی کام پر توجہ دیں , انہیں عملی میدان میں کارکنان مسترد کرچکے , وہ بڑی بے شرمی سے تنظیمی کارکنان سے بار بار رابطہ کرتے ہیں لیکن ہم ایک خاص نظریہ سے کام کر رہے ہیں اور ہمارے کارکن انہیں دھتکار دیتے ہیں , مگر ان بے شرموں کو شرم نہیں آتی , خیر ہمیں تنظیمی کام کرنا ہے اور تنظیمی کام میں اس وقت سب سے اہم اور ضروری کام سالانہ ممبر شپ مہم 2022 ہے یکم جنوری سے 10 فروری تک اس کی ہر ممبر اور عہدیدار خوب مہم چلائیں سوشل میڈیا پر دعوتی ویڈیوز بنا کر بھیجیں , اپنے اپنے واٹس ایپ اسٹیٹس اور فیس بک کے ذریعے اس کی تشہیر کریں اور اپنے اپنے علاقوں نوجوانوں کو اس کے اغراض و مقاصد کا تعارف کروا کر ان کو ترغیب دیں الغرض عملی طور پر تنظیم کے ہاتھ مضبوط کریں , خوب یاد رکھیں کے کسی بھی چیز کی تعمیر کے لئے انرجی یعنی قوت جمع کرنی پڑتی ہے , لیکن تخریب کے لئے چند لوگ ہی کافی ہوتے ہیں , جماعت سے نکالے ہوئے لوگ تخریب کے راستے پر ہیں اور ہم الحمد للہ تعمیر کے راستے پر ہیں کیونکہ پاسبان بزمِ قلم نام ہے کچھ کرنے کا اور آگے بڑھنے کا پھر دیر کس بات کی ابھی پاسبان بزمِ قلم کی ممبر شپ مہم کا حصہ بن کر اپنے ادھورے خوابوں کی تکمیل کریں..!

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57490

سٹریٹ کرائم دہشت گردی کی بھیانک شکل- قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

کراچی میں لاقانونیت اور سٹریٹ کرائم کے واقعات پریشان کن حد تک بڑھ چکے۔ مافیائی گروپوں کی کارستانیاں ماضی کی طرح عروج پر تو نہیں لیکن اس کا امکان رد نہیں یا جاسکتا کہ کرمنل عناصر معاشرے کا ناسور بنے ہوئے ہیں، سٹریٹ کرائم کا جن جیسے بے قابو ہوگیا ہو، جس دیدہ دلیری سے ملکی سالمیت، ریاستی رٹ اور حکومتی سیٹ اپ کو چیلنج اور کمزور کرنے کی ہولناک واردتوں میں ملوث ہیں اس سے اہل کراچی کے لئے وجہ تشویش اور لمحہ فکریہ بنا ہوا ہے، آخرسٹریٹ کرائم میں معصوم جانوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ کب تھمے گا۔ کئیبے گناہ شہری  سٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں جہاں قیمتی سامان سے محروم ہوئے تو مزاحمت پرجان بھی گنوا بیٹھے۔ ایسا قریباََ آئے روز ہی ہو رہا ہے ایسے جرم بے گناہی پر ہلاکتوں کے خلاف عوام کس سے فریاد کریں۔ جس شہر کا امن مثالی ہوا کرتا تھا اسے کس کی نظر کھا گئی،

یہ کس قسم کا معاشرہ ہے جس میں قانون شکن عناصر کو نکیل ڈالنے والا کوئی نہیں۔
ماضی میں سیاسی کارکنوں، بے شمار سماجی رہنماؤں، علما ء اکرام، ڈاکٹر اور اساتذہ کے خون سے شہر قائد  خون میں نہاتا رہا اور اب نہتے بے قصور معصوم جانیں اسٹریٹ کرمنلز کا شکار ہیں،  بے امنی کا دور سیکورٹی اداروں کے آپریشن کی وجہ سے وقتی طور پر تھم تو گیا لیکن اس کا دوسرا بھیانک چہرہ اسٹریٹ کریمنل کی صورت میں عود آیا۔کراچی کے مکینوں اور پاکستان کے کونے کونے سے یہاں آکر رچ بس جانے والوں کی دلی اور ذہنی کیفیت نا گفتہ بہ ہے۔ وہ حقیقت میں ذہنی اور نفسیاتی مریض بن چکے۔کچھ عرصہ قبل بھتہ خوروں کی طاقت، رعونت، بربریت اور قتل و غارت کے جنون کے سامنے قانون نافذ کرنے والے حتمی کاروائی نہ کرنے تک مصلحت اور مفاہمت کی سیاست کی وجہ سے بے بس نظر آتے تھے اور قانون کی حکمرانی کو مذاق اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے بنیادی مسائل گھمبیر شکل  اختیار کرچکی تھی، نوشتہ دیوار تھا کہ اگر دہشت کے اس مہیب خطرے اور شہریوں کی جان و مال کی حفاظت نہ کی گئی اور ان کا اعتماد بحال نہ کیا گیا تو اس کے مضر اثرات مستقبل میں اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے کراچی میں سرمایہ کاری کی مکدر فضا، امن ہونے کے باوجود بحال نہیں ہوسکی، تاجر جو شہر سے خوف زدہ ہوکر گئے تھے، دوبارہ واپس آنے کے لئے تیار نہیں کہ انہوں نے بڑا بھیانک وقت دیکھا ہے، وہ دوبارہ لاقانونیت کے سمندر میں غرق ہونا نہیں چاہتے۔ شہری پریشان کہ قاتل دندناتے ہوئے شہریوں پر حملہ آور ہوتے ہیں ان کی جمع پونچی لوٹ لی جاتی ہے، تھوڑی سی مزاحمت پر قیمتی جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں اور جرائم پیشہ عناصر بھرے بازاروں، مصروف ترین تجارتی و رہائشی علاقوں میں واردات کے بعد با آسانی راہ فرار اختیار کرلیتے ہیں اور ذرائع ابلاغ میں سی سی ٹی وی فوٹیج گردش میں رہتی ہے اور دنیا ورطہ حیرت میں کہ کس طرح اطمینان سے سر عام واردات ہوجاتی ہے اور قانون کا کوئی خوف نہیں۔


اہل وطن ان واقعات پر سخت رنجیدہ ہیں، ہر مجرم کو سزا عدالت سے ملنی چاہے، ایسا انصاف جس سے مدعی بھی مطمئن ہو کہ اُسے انصاف ملا، اگر سزا یافتہ با اثر طبقہ سلاخوں کے پیچھے بھی عیش و عشرت کی زندگی بسر کرے تو اس سے معاشرہ میں انارکی پھیلے گی۔پاکستانی معاشرہ میں بڑھتی لاقانونیت میں بے گناہوں کے قتل کے بڑھتے واقعات پر پولیس اور رینجرز کو ملوث عناصر کی گرفتاری اور اسٹریٹ کرائمز کا سلسلہ روکنے کے لئے اپنا آہنی ہاتھ استعمال کرنا ہوگا ورنہ پھر دیر ہوجائے گی۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کراچی میں حکومت کی رٹ قائم کریں، عجیب غفلت مجرمانہ ہے، نجانے یہ شہر اور صوبہ کس کے رحم و کرم پر ہے، ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی حالت زار اس اعتبار سے چشم کشا ہے کہ جرائم پیشہ عناصر نے جیسے ہر علاقے کو بادی ئ النظر یرغمال بنایا ہوا ہو۔کسی مہذب شہر کے کسی بھی حصہ میں جرائم پیشہ اس قدر طاقت ور ہوجائیں کہ وہاں قانون کی رٹ قائم نہ ہوسکے اور کوئی شہری آزادی کے ساتھ اکیلا یا اپنے رشتے دار اور دوستوں کے ساتھ کسی بھی مصروف یا غیر معروف شاہراہ پر دن کی روشنی یا رات کی تاریکی میں بے خوف جا نہیں سکتا، ہر لمحہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کسی کونے کدرے سے اچانک سامنے کوئی آئے گا اور اسلحے کے زور پر جو کچھ ہے اُسے چھین لے گا یہاں تک کہ جان بھی۔


اہل کراچی نے ایسا وقت بھی دیکھ چکے کہ جرائم پیشہ عناصر اتنے طاقت ور تھے کہ سیکورٹی اداروں کی 200ا فراد کی نفری بھی مخدوش علاقوں میں داخل نہیں ہوسکتی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف قانون نافذ کرنے اداروں کی ماضی میں خدمات بھی قابل قدر رہی ہیں، مگر کراچی میں پولیس اور رینجرز کے کریک ڈاؤن سے حاصل شدہ نتائج خاصے مایوس کن رہے اور دیکھتے دیکھتے ایک بار پھر بیشتر علاقے جرائم کا گڑھ بنتے جارہے ہیں، جرائم کی سرکوبی کے لئے جدید خطوط پر موثر حکمت عملی اپناتے ہوئے شہر کراچی کے مکینوں کو اپنے گھروں کے دروازوں پر محفوظ ہونے کی تدبیر کرنی چاہے، ورنہ سماجی انحطاط، سیاسی کشیدگی، لسانی عصبیت کے وتیرے اور اسٹریٹ کرائم کے ظلم و بربریت کے نتیجے میں قانون پر رہا سہا اعتماد بھی ختم ہوسکتا ہے۔
سٹریٹ کرائم بھی دہشت گردی کی ایک بھیانک شکل ہے، یہ حقیقت ذہن نشین کرنی چاہے کہ جرم کوئی بھی ہو اگر مضر اثرات معاشرے کے ہر طبقے پر پڑتے ہوں اور ہر ذی حس متاثر ہوتا ہو تو تحمل، تدبر، مثالی جذبہ سرفروشی، پیشہ وارنہ استعداد و مہارت اور عوام کی جان و مال کے تحفظ اور ریاستی سلامتی سے کمٹمنٹ ضروری ہے، وقت کم ہے جب کہ مجرمانہ کاروائیوں کی سرکشی عروج پر ہے۔ سیاسی جماعتیں تو حکومت بچانے اور گرانے تک ہی جیسے محدود ہوگئی ہیں، اس تشویش ناک دورانئے میں ملکی معاشی شہ رگ کو اسٹریٹ کرائم سے ناقابل تلافی نقصان ہورہا ہے۔ اس کا سدباب قانونی کی حکمرانی قائم کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ یہ سب کچھ جمہوری عمل کی راہ میں بھی سب سے بڑی رکاؤٹ ثابت ہوئی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں جرائم پیشہ ہوں وہاں ان پر قہر بن کر فورسز نازل ہوں تب ہی جرائم کا خاتمہ اور عوام کے جان و مال کا تحفظ ممکن ہوسکے گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57488

دھڑکنوں کی زبان -“ایک مثالی استاد پنشن پہ جارہا ہے” -محمد جاوید حیات

اساتذہ معاشرے کا وہ طبقہ ہے جو انگلیوں کے اشارے پہ ہوتا ہے ایک لحاظ سے محسن، ایک لحاظ سے معصوم، ایک لحاظ سےذمہ دار طبقہ ہے۔اس کا کام یا اس کو عظیم بناتا ہے یا ملزم و مجرم ۔کیونکہ اس کے ہاتھ میں قوم کی منزل ہوتی ہے انسانیت کا تاج محل ہوتا ہے فرد کی تربیت اور انسان کا معیار ہوتا ہے استاد کے پاس دنیا نہیں ہوتی۔ عہدہ نہیں ہوتا پروٹوکول نہیں ہوتا ۔ایک روشنی ہوتی ہے جو اس کی آنکھوں سے شاگردوں کی آنکھوں پہ پڑتی ہے ایک کرن جو اس کے دل سے نکل کر شاگرد کے اندر کی دنیا کو منور کر دیتی ہے ۔ناصر استاد ان اساتذہ میں شمار ہوتے ہیں جو واقعی قوم کا محسن ہے ۔ناصر احمد یکم فروری 1962ء کو تورکھو کے مشہور گاوٴں شاگرام میں پیدا ہوئے ۔

آپ کے ابو حبیب صوبیدار اپنے زمانے کی نامی گرامی شخصیت تھے بہت متمول خاندان تھا گھر میں پولو کے لیے گھوڑا ۔شکار کے لیے کتا ۔باز اور نوکر چاکر ۔۔۔گھرانا بھرا پورا تھا ۔مہمان آتے محفلیں سجتیں ۔گاوں کے ضرورت مند آکر اپنی ضروریات پوری کرتے ۔ناصر احمد ناز ونعم میں پلے۔ سکول گاوٴں سے پڑھا ۔ہائی سکول شاگرام سے میٹرک کیا ۔پھر مذید تعلیم حاصل کرنے پشاور سدھارے ۔پڑھائی مکمل ہوئی تو استاد بنے ۔روایتی نہیں ہمہ جہت استاد ۔۔کھیل کا میدان ہو ۔تربیت کی بھٹی ہو۔ بچوں کی مدد امداد کا موقع ہو۔۔۔ ناصر استاد آگے آگے رہے ۔بچوں کا یہ کاروان ان کے پیچھے پیچھے رہا ۔

ناصر استاد نے چترال کے اچھے خاصے اداروں میں کام کیا جن میں چترال کے مشہورو معروف تعلیمی ادارہ گورنمنٹ سنٹینیل ماڈل ہائی سکول سرفہرست ہے جہان آپ نے کئی سال گزارے اور شاگردوں کا ایسا گھیپ چھوڑا جو آپ کی زندگی کا سرمایہ ہیں ۔ناصر استاد خود ہمہ جہت ہیں ۔پولو سے لے کر ان ڈور گیم کریم تک امتیازی حیثیت سے کھیلتے ہیں اور اپنی ثانی نہیں رکھتے ۔ ناصر استاد نے بڑےپسماندہ دور میں علم کا چراغ جلایا ہے اور قوم کے محسن ٹھرے ہیں ۔ملازمت کے آخری دور اپنے مادر علمی ہایر سیکنڈری شاگرام میں گزارے اور یکم فروری 2022ء کو پنشن پہ جائے گا ۔ناصر استاد سماجی کارکن رہے ہیں ۔

عوام کے دکھ درد میں اور سماجی کاموں میں آگے آگے رہے ہیں ۔ان کو شاگردوں سے والہانہ محبت ہے اس لیے شاگرد اس کے ارد گرد پروانوں کی طرح منڈلاتے ہیں ۔ ناصر یار باش ہیں ۔بڑا دسترخواں رکھتے ہیں مہمان نواز ہیں ۔خوش خوراک اور خوش لباس ہیں ۔ بزلہ سنج اور سوشل ہیں ۔طبیعت میں خاکساری اور ملنساری ہے ۔دریا دل ہیں ۔ اس جیسا استاد پھر اس قوم کو شاید ملے ۔وہ سکول نہیں آئینگے لیکن استاد نہ برا ہوتا ہے نہ پنشن پہ جاتا ہے وہ قوم کے لیے مینارہ نور ہوتا ہے ۔۔۔

مجھے اساتذہ سے محبت ہے اس لیے کہ ان کی خدمات قابل تحسین ہوتی ہیں ان کو بھلایا نہیں جا سکتا ۔۔شاید پھتر کا معاشرہ ہو کہ وہاں پر استاد کا مقام نہ ہو ۔۔ناصر جیسے استاد اپنے الگ مان رکھتے ہیں اور ایڈنٹیٹی بھی ۔۔محکمہ تعلیم ایک نابعہ روزگار سےمحروم ہو رہا ۔۔ اللہ ان کو عمر نوح عطا کرے

nasir ahmad teacher
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
57485

وادی شوغور چترال ۔ مہجور زیست ۔ تحریر: دلشاد پری چترال

شوغور کا خوبصورت گاؤں ضلع چترال لوئر میں واقع ہے۔ یہ اپنے الگ تھلگ جائے وقوع اور قدرتی حسن کی وجہ سے ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔یہ اونچے پہاڑوں اور دریاؤں سے گھیرا ایک ایسا علاقہ ہے جس کو قدرت نے اپنے لازوال نعمتوں ا ور قدرتی وسائل سے مالامال کر دیا ہے۔ایک طرف یہ جنت نظیر وادی قدرتی سبزیوں، پھلوں اور پھولوں سے بھرا پڑا ہے تو دوسری طرف اونچے پہاڑ اور نیلے دریا اس کو اپنی لپیٹ میں لے رکھے ہیں۔جب کوئی انسان بے حد اداس ہو اور ذہنی سکون حاصل کرنا چاہے تو وہ ان دریاؤں کے کنارے بیٹھ کر ان بیکراں بلند بالا پہاڑوں اور قدرتی مناظر سے محو گفتگوہو کر ہر غم سے ازاد ہو سکتے ہیں۔

chitraltimes shoghore chitral lower 1

گاؤں کا منظر عجیب دلفریب ہے ۔ریت ہو پتھریلا چٹان یا پہاڑ اس کے ذرے ذرے سے بنی نوع انسان مستفید ہو سکتا ہے۔دور دراز سے لوگ اسی علاقے میں روزگار کی تلاش میں آتے ہیں اور معدنیات سے مالامال ان پہاڑوں پہ بسیرا کرکے اپنی روٹی کمانے کا ذریعہ ڈھونڈتے ہیں۔اس کے پہاڑوں پہ جنگلی جانور اور پرندے جن کویہ اطمینان ہے کہ یہاں کے لوگ ان کی حفاظت کرنا جانتے ہیں اسلئے بلاخطر اور بلاخوف اچھل کود کرتے اور ٹہلتے رہتے ہیں۔

chitraltimes shoghore chitral lower 4

علاقے کے لوگوں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ آ س پاس جو بھی غریب ہو اس کے گھر کا چولھا جلانے میں سب پیش پیش رہتے ہیں،اگر کوئی یتیم بچہ زیر تعلیم ہو تو اس کے تعلیمی اخراجات سب ملکر پوری کرتے ہیں اور فخر کی بات یہ ہے کہ آج کے اس نمائش کے دور میں بھی لینے والے کو پتہ ہی نہی چلتا کہ میرے یہ تمام اخراجات پورا کر کون رہاہے اور دینے والا بھی اپنا نام صیغۂ راز

میں رکھتا ہے۔اگر کسی بات پہ ان کا اختلاف پیدا ہو آپس میں کوئی مسئلہ پیدا ہو تو گاؤں کے لوگ تھانہ انے کی بجائے گھر کے اندر ہی اس کو مل بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

chitraltimes shoghore chitral lower 6

اگرچہ اس علاقے کے لوگوں کو چیلنچ بھی بہت ہیں۔راستے کی دشواری،تنگی اور ویرانی بھی اس علاقے کے لوگوں کی ہمت اور جذبے کی راہ میں رکاوٹ نہی ڈال سکے یہی وجہ ہے کی یہاں کے لوگ تعلیمی میدان میں بھی بہت اگے نکل چکے ہیں۔ اس علاقے نے ملک کو بہت اہم شخصیات عنایت کئے ہیں۔ اس علاقے کی بیٹیاں بھی کسی سے کم نہیں۔نامور کھلاڑی کرشمہ علی ہو یا ڈاکٹرلاریب صادیقہ۔۔۔جو کہ غریبوں کی مدد کرنے میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں۔اساقال بیگال کے نام سے کون واقف نہیں پولو کے اس نامور شخصیت کا تعلق بھی اسی علاقے سے تھا۔

chitraltimes shoghore chitral lower 2


اہم مذہبی پیر شاہ کوئی والی شاہ کی زیارت بھی حسن آباد شغور میں واقع ہے۔اس علاقے کے لوگ انٹرنیشنل بزنس میں بھی اپنی محنت کے بل بوتے پر نام کما چکے ہیں انور آمان جیسی شخصیت کو کون نہیں جانتا اس کا تعلق بھی بشگرام کریم اباد سے ہے جوکہ شغور کا ایک چھوٹا علاقہ ہے۔۔


سب سے ذیادہ سبزیاں اور پھل اس علاقے سے پاکستان کے دوسرے حصوں کو بیجا جاتا ہے۔ شاہ شاء کا گرم پانی جو ٹاؤن چترال کو مہیا کی گئی ہے وہ بھی شغور کے ایک علاقہ شاشاء کے مقام میں موجود گرم چشمہ کے پانی سے مہیا کی گئی ہے۔ چترالیوں کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ بکھرنے والی مزاحیہ شخصیت گل اکبر کا تعلق بھی اسی علاقے پرسان شغور سے ہے۔


سیاحوں کی توجہ کا مرکز اس علاقے کی سڑکوں کی مرمت اور تعمیر پر توجہ دیا جائے توجہ دیا جائے تو وہ دن دور نہی جب یہ علاقہ پاکستان کا پیرس بن جائے۔

chitraltimes shoghore chitral lower 3
chitraltimes shoghore chitral lower 7
chitraltimes shoghore chitral lower 5
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
57462

طرز زندگی – تحریر شمع باسط

ہم لوگوں نے زندگی کے رہن سہن کو اس قدر مشکل بنا لیا ہے اور بناوٹ کو ضرورت سے کہیں زیادہ اہم کر لیا ہے کہ بس  بات بات پر زہنی مسائل کا شکارہو جاتے ہیں  ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں ہماری کوشش ہوتی کہ بس اب  کوئی سکون آور گولیاں ہوں ہم کھا لیں تا کہ سب جھنجٹوں سے جان چھڑا سکیں اور بے شمار لوگ ان دواوں کا ستعمال کرتے ہیں آپ یقین کیجئے کہ ان دواوں کا ستعمال دن بہ دن بڑھ رہاہے  اور  ہماراموڈ مزاج تو  چشم زدن یوں  خراب ہوتا ہے جیسے موڈ ہم نے چائینہ کالگوایا ہو برداشت بالکل ناپیدہوگئی  ہے ہمارا یہ رویہ ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ کیوں ہے  کیوں ہم کسی بڑے کی پند سننے کو تیار نہیں ہیں اور کسی کی کامیابی وکامرانی سے بھی لوگ حسد کا شکارہو جاتے کیا اللہ کی تقسیم پہ بھی  ہمارا اعتقاد نہیں رہا ہمیں بڑے دل سے اس بات کو قبول کرنا چاہیے کہ رب کی دین ہے وہ جسے چاہے نوازے مگر لوگ بلا وجہ حسد کی آگ میں جلنے لگتے.

دوسرے کی قابلیت اور طاقت سے  پریشانی میں آجاتے ہیں اور جن لوگوں کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ وافرہے انکو بھی چاہیے کہ کسی حساب کتاب سے معاشرے میں چلیں بے جا اسراف سے اور دولت کے دکھاوے سے دوسروں کا جینا مشکل اور حرام نہ کر دیں.جیسا کہ اب پاکستان میں ڈینگی سیزن کے بعد شادیوں کا سیزن ہے تو یہ قوم جو مہنگائی کا رونا روے جا رہی ہے اس قوم کی تقریب شادی  میں جب آپ شریک ہوں تو آپکو با طریق احسن احساس ہو جاے گا کہ اس قوم کو آلو خریدتے ہوے تو مہنگائی بہت ذیادہ لگنے لگتی ہے جبکہ لاکھوں روپے کے بے جا اسراف سے جب شادیوں کی تقریبات پہ اندھا پیسہ خرچ کرتے ہیں تب مہنگائی نہیں ھوتی جب غربا کی بیٹیوں کو کھلے منہ آپ لوگ یہ احساس دلواتے ہیں کہ امیر کیا ھوتا اور غریب کیا.. مڈل کلاس طبقہ بیچارہ تو امرا کے چونچلوں میں پھس گیا ھے اس احساس کمتری نے لوگوں کو ذہنی مریض بنا دیا ھے.

آج کل شریف خاندان کی شادی چرچا میں ھے جسکو دکھا دکھا کر سوشل میڈیا پر ہر انسان کو احساس کمتری کا شکار کیا جا رھا ھے ویسے تو سبکو اس بات کا پتہ ہی ہے کہ چوری کا کپڑا ھو تو گز بھی ڈانگ کا ھوتا…شریف خzاندان کی شادیاں تو ایسے ہی سرانجام پانی سمجھ تو گئے ھونگے..مگر ہمیں تو اس بات کا ووٹ کاسٹ کرتے ھوے قوی امکان تھا کہ اب قانون برابر ھوگا اور ہر طرف یکساں رائج بھی مگر سنا ھے کہ بتیس ڈشیز پکی ہیں.لیٹ نائٹ فنگشن جاری رھے اور کسی نے نہیں پوچھا پکڑا. اب ہم بس یہ دعا کرتے ہیں کہ اب تو چوتھا سال شروع  خان صاحب کی حکومت کو اب تک اللہ کرے کہ انکو یقین آجائے کہ وہ حکومت میں ہیں اور وزیر اعظم بھی. تاکہ کوئی ایک آدھ وعدہ تو پورا کریں جو وزیر اعظم بننے سے قبل کیے تھے.اور خدارا جہیز پہ پابندی لگائی جائے  یہ کینسر اس غریب اور متوسط طبقے کو پاگل کر دے گا  جہیز غریب کی بیٹی کی خوشی کھا گیا ھے متوسط طبقوں سے بیٹی بیاہنے کہ خوف سے مسکراہٹیں چھن گئی ہیں.

جو لڑکی کم جہیز لے کے جاتی ھے اسکا گھر نہیں بستا سسرال والے اسکی جان تک لینے سے گریز نہیں کرتے جہیز جیسی شے پر حکومت کی طرف سے سخت پابندی ھونی چاھییاور خلاف ورزی پر بھاری جرمانے.تاکہ لوگوں کو اس بات کا احساس دلوایا جا سکے کہ لڑکیاں  خود بھی قیمتی ھوتی ھیں صرف قیمتی چیزیں سامان اور سونا چاندی  ساتھ لانے پر ہی انہیں عزت نہ دیں بطور انسان اور گھر کے فرد کی حثیت سے بھی انکی قدر کرنا سیکھیں ایک بیٹی کی اہمیت کا اندازہ صرف اسکے والدین ہی کو ہوتا ہے کہ وہ کتنی قابل ھے  سسرال میں تو بس وہ شائد کام والی کی حثیت سے ہی جاتی ھے اس رویے کو بدلنا ھے اپنی بہو کو بھی ویسی ہی اہمیت دیں جیسی بیٹی کو ھے اور پتہ نہیں ایسا کیوں ھے کہ ہمارے معاشرے میں جس گھر میں لڑکی جہیز نہیں لاتی بعض اوقات ان کو کوئی مسئلہ نہیں ھوتا بلکہ محلے دار اور معاشرے والے منہ جوڑجوڑ کہانیاں گھڑنے لگتے ہیں اور اس طرح بھی گھرٹوٹنے لگتے ہیں اور والدین بیاہنے کہ بعد پھر بیٹی کو بسانے میں لگ جاتے ہیں اور کیا ہی بہتر ھو کہ ہم دوسروں کو دیکھنے کی بجائے  انکی خامیوں پر نظر رکھنے کی بجائے اپنی اصلاح پہ توجہ دیں.اور جو لوگ شادیوں پر بے جا اسراف کرتے ہیں انکو دیکھ کر پریشان یا غمگین ھونے کی بجائے جو آپ کے پاس ھے اسکے مطابق خوش رہنا سیکھیں.

آپ یقین کیجیے ھو سکتا ہے کہ جو آپ کے پاس ھے ان کے پاس نہ ھو. کیونکہ دنیا دکھوں کا گھر ھے کسی کے ظاہری آرام وآسائش سے اس بات کا اندازہ مت لگائیں کہ وہ پر سکون بھی ھیاور خوش بھی ویسے بھی پنجابی کی کہاوت ھے کہ (تسیں کسے اگے بک رووگے تے اگلا بندہ چھج رووے گا)..آپ اپنا احاطہ کریں آپکو کیا چیز خوشی دیتی ھے اسکے مطابق اپنے مزاج کو آرام دہ رکھیں.بیشک لوگ دکھاوا کرنے کو بہت اہمیت دیتے ہیں.جب تعلیم اور تربیت کی کمی ھوگی اور کوئی ہنر کوئی خوبی نہیں ھوگی اور صرف جیب میں پیسہ ھی پیسہ ھوگا تو پھر انسان اسی کا دکھاوا کرے گا مطلب کہ جس کے پاس جو چیز ھوگی وہ اسکا ہی دکھاوا کرے گا لہذا اپنی خوشیوں کو دل سے خوش ھو کہ منائیں ناکہ دوسروں کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیں.دور کیا جانا ھے آج کل کسی شادی میں دیکھ لیں..  شادی کی تقریب بھی دلہا دلہن کے لیے بناوٹ کے سوا کچھ نہیں رھی سب لوگ دلہا دلہن کو اسوقت سلامی دینا پسند کرتے ہیں جب کیمرہ مین مووی بنا رھا ھو.. 

شادی کی تقریب میں دلہا دلہن کو مووی میکر اور کیمرہ مین کے رحم وکرم پہ چھوڑ دیا جاتا ھے وہ کہتا ھے کہ اب سانس لیں تصویر بنانی ھے دلہا اور دلہن سانس لیتے ہیں پھر وہ حکم دیتا فلم بنانی سانس روک لیں..اوہ یار حد ھوگئی کیا ھے یہ سب…کیا ہمارا کلچر یہ ھے ان سب فضولیات سے نکلیں جو آپکا اپنا دل چاھتا وہ کریں.آپ یقین مانیں کہ جو خواتین عام حالات میں گھر گھر جا کر لوگوں کی بہو بیٹیوں کو اسلام کے درس دیتی ہیں پردے کی اہمیت اور نہ محرموں سے مکمل طور پر حجاب کے بارے آگاہی دیتی ہیں اور سمجھانے والے کو کسی نہ کسی طرح یہ باور کرواتی ہیں کہ وہ تقریبا کافر  ہی ہیں وہ خود کیمرے کے آگے آگے رہتی ہیں دوہرے معیار سے خدارا باہر نکلیں اور اپنے اور دوسروں کے لیے مخلص رہیں ان بناوٹی اور دیکھا دیکھی کی چمک دمک میں مت پڑیں اپنی زندگی کو سادہ بنائیں تاکہ آپکی وجہ سے کوئی دوسرا احساس کمتری میں مبتلا نہ ھوجائیآپ کے اس احسن اقدام سے نہ صرف آپ کے لیے آسانیاں پیدا ھونگی بلکہ دوسروں کے لیے بھی آپ مشعل راہ کا کام کریں گے اور بناوٹ جیسے مرض سے ہمیں جس قدر ھو سکے بچنا چاھیئیتاکہ ہم اپنی اصل کو پہچان سکیں حقیقی خوشی باعث سکون قلب ھوتی ہے جھوٹی بیکار اور دکھاوے کی مسرت سواے پریشانی کے کچھ نہیں دیتی ہیں لہذا خود کو پہچانیں اور بطور انسان اپنے حصے کی حقیقی دلی اور دماغی خوشیاں سمیٹیں 

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
57457

بزمِ درویش ۔ پچیس سال بعد ۔ تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

پچیس سال پہلے کا امیر زادہ تیز طرار خوبصورت منچلہ عاشق جسم میں مختلف بیماریوں کی سرنگوں کے ساتھ بڑھاپے کی چادر اوڑھے میرے سامنے بیٹھا تھا میری اُس سے آخری ملاقات پچیس سال پہلے مری میں ہوئی تھی جب یہ طاقت جوانی دولت چالاکی کے ساتھ اپنی محبوبہ کے ساتھ عیاشی کرنے مری آیا تھا میں پچیس سال کے خوفناک فرق کو حیران نظروں سے دیکھ رہا تھا وقت کا غبار اِس کو خوفناک طریقے سے چاٹ گیا قافلہ شب و روز نے اِس کو ٹوٹے پھوٹے کھنڈر میں بد ل کر رکھ دیا تھا میں خود اب زندگی کے اُس دور میں ہوں کہ بیس پچیس سال پہلے کے کردار اب زوال کے بعد جب میرے سامنے آتے ہیں تو گردش ِ ایام کی ہلاکت آفرینی کو دیکھ کر عبرت کے احساسات رگوں میں دوڑنے لگتے ہیں جوانی طاقت دولت اقتدار اور شیطانی ذہانت کے بل بوتے پر جنسی حیوانوں درندوں کو جب میں زوال اور بڑھاپے کی گرد میں لپٹا دیکھتا ہوں تو ایک ہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ زوال صرف خدا کو نہیں ورنہ کرہ ارضی پر نمودار ہونے والی ہر چیز کو زوال اور فنا کا زھر پینا پڑتا ہے.

میری جوانی کے ایام میں جن لوگوں کو میں فرعون بنا انسانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح روندتا دیکھتا تھا جو اِس زعم میں گرفتار تھے کہ یہ شہنشا ہٹ جوانی رنگ و روپ ہمیشہ اِن کے پاس رہے گا لیکن سالوں بعد جب ایسے کردار سامنے آتے ہیں اور ان کی جگہ نئے کردار اچھلتے کودتے پھدکتے نظر آتے ہیں تو حیرت سے سوچھتا ہوں کہ آج کے فرعونی درندے شیطان انسان یہ بھولے ہوئے کہ چند عشرے پہلے یہاں آپ جیسے ہی چالاک عیار انسان اپنی عیاشیوں میں غرق تھے لیکن وقت کی دیمک نے انہیں پتہ بھی نہیں چلنے دیا کب وہ جوانی سے بڑھاپے کے ریگستان میں اُتر گئے جب اِن کو شکست خورندہ زوال میں غرق انسان دیکھتا ہے تو خدا کی قدرت اور لاٹھی بے آواز کی حقیقت سامنے آتی ہے کہ وقت کتنی خاموشی سے دولت اقتدار جوانی سر خی چھین کی بد شکل بوڑھا بنا دیتا ہے پھر جب ایسے لوگوں کے جسموں میں مختلف بیماریاں سرنگیں بنا کر بڑھاپے کے عمل کو اور تیز کر تی ہیں تو اِن کو ہوش آتا ہے کہ اب وقت اُن کا نہیں رہا بلکہ اِن کی جگہ اور لوگ آگئے ہیں ایسا ہی کردار میرے سامنے بیٹھا تھا پچیس سال بعد جب میرے سامنے آیا تو میں بلکل بھی پہچان نہ پایا بلکہ یہ بھی دوسرے ملاقاتیوں میں کھڑا انتظار کر رہا تھا سر پر گرم ٹوپی ہاتھوں میں گرم دستانے گلے میں گرم مفلر گرم چادر لپیٹے یہ لڑکھڑا تا ہوا میری طرف بڑھا میں چہرے جسمانی حرکات اور چال سے ہی پہچان گیا تھا کی کسی شدید بیماری میں مبتلا ہے کیونکہ چہرے اور آنکھوں پر زندگی کی بجائے زردی کے تاثرات واضح تھے

چال بھی ایسی جیسے خود کو گھسیٹ رہا ہو۔ اُس کی کمزور چال اُس کی بیماری اور خستہ حالی کا نظارہ پیش کر رہی تھی کسی پراسرار بیماری کی وجہ سے زندگی سے مکمل مایوس ہو چکا تھا میرے قریب آکر بولا جناب میں گردوں کا مریض ہوں بلکہ میرے گردے خراب ہو کر کام چھوڑ چکے ہیں میں نے آپ سے ملنے کے بعد ہسپتال ڈائیلسیز کرانے جانا ہے اگر وقت پر گردوں کو واش نہ کیا گیا تو زہر میرے جسم میں پھیل کر مجھے قبر میں دھکیل دے گا اِس لیے پلیز مُجھ سے پہلے مل لیں میں حالت زار دیکھ کر فوری متوجہ ہوا آئیں آپ پریشان نہ ہوں میں آپ کی بات پہلے سنتا ہوں پھر میں اُس کو لے کر بینچ پر بیٹھ گیا اور درد بھرے میٹھے لہجے میں بولا جناب بتائیں میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں تو وہ بولا جناب میں بلڈ پریشر اور شوگر کا پرانا مریض ہوں اِن دونوں بیماریوں نے میرے گردوں کو کھا لیا ہے اب تو جگر بھی فیل ہو تا جا رہا ہے گردوں نے کام کرنا بند کر دیا ہے جگر کی چربی بھی خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے اِن بیماریوں کی وجہ سے میں اب صرف ابلی سبزیاں ہی مشکل سے کھاتا ہوں

نمک مصالحے گھی والی چیزیں میرے جسم میں زہر بن جاتی ہیں چکنائی کو زائل کرنے کا میرا اندرونی نظام فیل ہو چکا ہے اِس لیے میں دن بدن کمزوری کی غار میں گرتا جا رہا ہوں آپ کوئی دم دوا کر یں کہ میرے اندرونی نظام کام کرنا شروع کر دیں میرے جسم میں زہر بننا بند ہو جائے خوراک ہضم ہو کر جز بدن بننا شروع ہو جائے تاکہ زندگی کی دوڑ کو تھوڑا طویل کیا جاسکے لیکن دنیا جہاں کے علاج کروانے کے بعد بھی میرا جسم مٹھی میں ریت کی طرح گرتا ہی جارہا ہے اب کام کاج بھی بیماریوں کی وجہ سے چند سالوں سے بند پڑا ہے جو جمع پونجی تھی وہ بھی ختم ہو گئی ہے آخری گھر بچا تھا زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے اُس کو بیچ کر کرائے کے گھر میں شفٹ ہو گیا ہوں اگر میں صحت مند نہ ہوا تو علاج پر یہ سرمایہ بھی ختم ہو جائے گا پھر میں کسی لنگرخانے یتیم خانے یا فٹ پاتھ پر آخری سانسیں دے دوں گا سر میری صحت کے لیے خاص دعا کریں اُس کی باتیں اور حالت دیکھ کر میں بھی دکھی ہو گیا میں نے اُسے حوصلہ دیا پڑھنے کو کچھ بتا یاتو وہ تھوڑی دیر بعد جب جانے لگا تو بولا پروفیسر صاحب آپ نے شاید مجھے پہچانا نہیں تو میں بولا جناب آپ کی آواز سے مجھے شک گزرا کہ ہم پہلے مل چکے ہیں لیکن معذرت چاہتا ہوں

آپ کو نہیں پہچان سکا تو میرے گلے لگ گیا بار بار معافی مانگی اور درخواست کی کہ اللہ سے میرے لیے معافی مانگیں پھر روتے ہو ئے بولا سر میں تیمور سلطان پچیس سال پہلے آپ کے پاس مری رہنے آیاتھا تیمور سلطان کے نام کے ساتھ ہی میری یادداشت کی دھند چھٹتی چلی گئی اور پچیس سال پہلے کا جوان عاشق یاد آگیا جو میرے کسی دوست کے کہنے پر اپنی نئی نویلی دلہن کے ساتھ مری آیا تھا رات کو جب دونوں میاں بیوی کی لڑائی ہوئی تو میں نے مداخلت کی تو اِس کی بیوی روتے ہوئے بولی سر یہ ہمارا بچہ ضائع کرا نا چاہتے ہیں آپ اِن کو سمجھائیں۔ میں تیمور کو لے کر اپنے کمرے میں آگیا تو یہ بولا جناب مجھے آپ سے کوئی ایسا تعویز چاہیے کہ جس عورت کے گلے میں ڈال دوں وہ حاملہ نہ ہوسر میں عیاش آدمی ہوں کس کس کے بچے اپنے کھاتے میں ڈالوں ابھی میرا عیاشی کا موڈ ہے چند سال بعد بچوں کے بارے میں سوچوں گا مجھے اِس کی یہ بات بہت بری لگی سمجھایا لیکن اِس نے میری کوئی بات نہ مانی پھر دودن بعد یہ چلا گیا چند دن بعد اِس کی بیوی کا مجھے فون آیا سر تیمور نے میرا بچہ ضائع کر ا کے مجھے طلاق دے دی ہے سر یہ بہت عیاش چالاک ہے مختلف لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنسا کر عیاشی کر تا ہے جو اِس کی بات نہ مانے اُس کے ساتھ شادی کر کے چند ماہ بعد اُس کو چھوڑ دیتا ہے یہ بچوں کے خلاف ہے سر اِس نے بہت ساری لڑکیوں کی زندگی خراب کی ہے سر اِس نے مجھے بر باد کر دیا آج پچیس سال بعد میری اِس سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا تیمور تم نے اصل شادی کی کوئی بچہ ہوا تو زارو قطار روتے ہوئے بولا میں نے چار شادیاں کیں لیکن جب میں نے چاہاپھر ایک بھی بچہ نہ ہوا قدرت نے مجھے سزا دی میں بچوں کو ضائع کراتا رہا پھر قدرت نے مُجھے یہ نعمت نہ دی پھر تیمور چلا گیا اور میں قدرت کے انتقام کے بارے میں سوچھنے لگا کہ کس طرح انسان کو نشان عبرت بنا دیتی ہے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57455

عصری دنیا میں مسئلہ کشمیر کی حیات نو-پروفیسر عبدالشکور شاہ

دہائیوں پر محیط مسئلہ کشمیر علاقائی امن، باہمی تجارت، ہم آہنگی، جمہوریت کی پائیداری، استحکام اور خوشحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔جنوبی ایشیاء میں امن کے بغیر عالمی امن قائم کرنا دنیا کو بند گلی میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔اکیسویں صدی نے شعبہ ہائے زندگی کے ہر میدان میں روائیتی طریقوں کو پس پشت ڈال کر انہیں جدید خطوط پر استوار کیا۔ لہذایہ وقت کی عین ضرورت ہے کہ ہم مسئلہ کشمیر کو بھی عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالتے ہوئے تحریک آزادی کشمیر کی حیات نو کا فریضہ سر انجام دیں۔ محکوم و مظلوم کشمیریوں کی آواز کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق عالمی سطح پر اٹھانے کے لیے ہمیں روائیتی طریقوں کے بجائے غیرروائیتی طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے حصے کا کام سر انجام دینا ہو گا۔ اگر ہم نے اپنی سات دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط روائیتی روش نہ بدلی تو ہم تحریک آزادی کشمیر کو شدید نقصان پہنچانے کے مرتکب ہو ں گے۔

دنیاوی بدلاو کے ساتھ ساتھ نظریات و تفکرات بھی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔اب وقت آن پہنچا ہے کہ ہم مسئلہ کشمیر کے لیے عملی اور ٹھوس اقدامات کرتے ہوئے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی آواز کو عالمی دنیا تک موثر انداز میں پہنچائیں۔یہ وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے کہ ہم ماضی کی کوتاہیوں سے سبق سیکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو عصری تقاضوں کے مطابق جدید سمت کی طرف موڑیں۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہونے کے ساتھ ساتھ تسلیم کرنا پڑے گا کہ کشمیر پر موجود زیادہ تر مواد بھارتی ورژن پر مشتمل ہے۔ ہمیں جذباتیت  بھنور سے نکل کربھارتی پروپگنڈہ کا ہر رسمی اور غیر رسمی پلیٹ فارم پرمنہ توڑ جواب دینا ہو گا۔ بھارت مسئلہ کشمیر کو خراب کرنے کے لیے متعدد ویب سائیٹس اور پورٹلز چلا رہا ہے جہاں سے غیر محسوس انداز میں نسل نو کے اذہان کو خراب کرنے کی مذموم کوشش میں برسرپیکار ہے۔

ہمیں یہ تلخ سچائی تسلیم کرنا ہو گی کہ ہم اس ضمن میں بھارت سے کہیں پیچھے ہیں۔ ہم نے کشمیر کے حوالے سے بھارت کے لیے کھلا میدان چھوڑ دیا ہے۔ کشمیر لبریشن سیل جس کا قیام 1987میں عمل میں لایا گیا اور یہ ملک بھر میں مختلف مراکز کی موجودگی کے باوجود سیاست زدہ ہے۔ اسے مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کے بجائے سیاسی بھرتیوں اور سیاسی رشوت ستانی کے ساتھ ساتھ مل کر عوامی ٹیکسوں کے پیسے سے نوازشات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔کشمیر لبریشن سیل کے تمام مراکز سیاسی نوازشات، اقربہ پروری، من پسند افراد کو نوازنے اور افسران کی چاپلوسی اور خوشامدکے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان مراکز کے قیام سے لیکر اب تک کسی نے اس ادارے کا آڈٹ کرنے کا حکم صادر نہیں کیا۔ یوں شتر بے مہار یہ ادارہ سال میں 22رسمی پروگرامات کے علاوہ عوامی ٹیکسوں کا پیسہ ہڑپ کرنے کا موجب بن چکا ہے۔

پروگرامات کے نام پر پیٹ پوجا اور چند اخباری تراشوں کے علاوہ اس کا کام صفر ہے۔ اگر ہم واقعی تحریک آزادی کشمیر سے مخلص ہیں تو ہمیں کشمیر کے نام پر بننے والے تمام ادارہ جات کو فی الفور غیر سیاسی بنانا ہو گا اور انہیں من پسند اور انفرادی مفادات کے بجائے کشمیری مفادات کے لیے چلانا ہو گا۔ یہ وقت کا عین تقاضہ ہے کہ ہم کشمیر پر بھارتی پروپگنڈہ کا جواب دینے کے لیے خالصتا میرٹ کی بنیاد پر موثر یونٹس قائم کریں نہ کہ اپنے رشتہ داروں اور سیاسی ورکرز کو کشمیریوں کے ٹیکسوں پر نوازیں۔ نئی نسل تاریخ کشمیر اور مسئلہ کشمیر سے مکمل طور پر لا علم ہے۔ کیوں نہ ہو جب کسی قوم کو اس کی تاریخ سے تاریک رکھا جائے گا تو پھر گونگے بہرے کشمیری ہی جنم لیں گے۔ کشمیر کے بہترین مفاد میں تاریخ کشمیر کو نصاب کا لازمی حصہ بنایا جائے اور کشمیر ی زبانوں کی ترویج کے لیے انہیں بطور مضمون شامل کیا جائے۔ ہم ایک نیم معذورشعبہ کشمیریات قائم کر کے اپنے ضمیر کو مطمئن نہیں کر سکتے جہاں آٹے میں نمک کے برابر طلبہ کشمیری جذبے کے بجائے نوکری کے جذبے کے تحت داخلہ لیتے ہیں۔ دنیا تیزی کے ساتھ تحقیق کی طرف منتقل ہو رہی ہے جبکہ اس حوالے سے کشمیر پر ہمارا کام ایک سوالیہ نشان ہے۔

کشمیر پر دستیات آن لائن مواد یا تو بھارتی مصنفن کا ہے یا انہوں نے انگریز مصنفین کو معاوضہ دے کر لکھوایا ہوا ہے۔ یوں ہم نے پبلیکیشن کا میدان بھی بھارت کے لیے کھلا چھوڑ اہوا ہے۔ حکومت اور کشمیر کے نام پر بننے والے اداراوں کو چاہیے کہ وہ کشمیر پر تحقیق کرنے والے محقیقین اور مصنفین کے لیے مراعات اور معاوضہ جات کا اعلان کرے۔ یونیورسٹی کی سطح پر کشمیر پر تحقیقی مقالہ جات لکھنے والوں کو اضافی نمبرات دینے کا اعلان کرے۔ جو محقیقین اور مصنفین کشمیر پر لکھ چکے ہیں ان کی تصنیفات اور مقالہ جات کو جمع کر کے انہیں بین لااقومی جرائد میں شائع کروانے کے لیے سرکاری سطح پر اقدامات کیے جائیں۔ نظریاتی اختلاف سے بلاتر ہو کر کشمیر پر کام کرنے والے ہر فرد کو فوقیت اور اولیت دی جائے۔ یونیورسٹی کی سطح پر مسئلہ کشمیر سے متعلق ایک مضمون شامل کیا جائے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر کشمیر سے متعلق سرکاری سرپرستی میں مختلف مقابلہ جات کے، سیمینار اور پروگرامات کا تسلسل سے اہتمام کیا جائے۔

مسئلہ کشمیر صرف کشمیریوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ساری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے اور مسئلہ کشمیر حل ہونے تک ایشیاء میں امن ممکن نہیں ہے۔ اس لیے امن اور انصاف کا ساتھ دینے والے ہر فرد کو کشمیریوں کی آواز میں آواز ملانا ہو گی۔ پرنٹ اور الیکٹرنک میڈیا تسلسل اور باقاعدگی کے ساتھ ایک صفحہ یا ایک پروگرام مسئلہ کشمیر کے لیے مختص کرے اور روائیتی دنوں کے علاوہ بھی مسئلہ کشمیر کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے۔ حکومت آزادکشمیر و پاکستان کشمیر کی صورتحال پر کم از کم سہہ ماہی رپورٹ شائع کرے جس میں بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے لایا جائے۔ سرکاری سطح پر شہید، زخمی، معذور، اغواء، جنسی درندگی کے ان گنت واقعات، غیر قانونی نظر بندی، اور گم شدہ افراد کی کہانیوں کو حقائق، اعدادوشمار اور مکمل کوائف کے ساتھ شائع کرنے کا اہتمام کیا جائے تاکہ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم کاپردہ فاش کیا جائے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر کاکم از کم سالانہ تقابلی جائزہ شائع کیا جائے تا کہ اقوام عالم کو کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا علم ہو۔ کشمیریوں کو عالمی سطح پر نمائندگی دی جائے، کشمیری سفارت کار تعینات کیے جائیں، تمام کھیلوں کی کشمیری ٹیم بنائی جائیں تاکہ وہ مسئلہ کشمیر کو ہر سطح پر ہر میدان میں اجاگر کریں۔ حکومت پاکستان کشمیری ائیر لائن کا آغاز کرے چاہیے وہ وفاقی کنٹرول میں ہی کیوں نہ ہو اس سے مسئلہ کشمیر کو تقویت ملے گی۔ ششماہی بنیادی پر کشمیر سے متعلق تصاویری کہانیاں شائع کی جائیں اور تمام بڑے سرکاری اداروں میں کشمیر گیلری قائم کی جائے تاکہ غیر ملکی مندوبین مسئلہ کشمیر کی نوعیت سے آگاہ ہوں۔

کشمیر کے تاریخی واقعات اور شخصیات پر ٹکٹ جاری کیے جائیں۔ سب سے اہم نقطہ کشمیری قوم کونظریاتی تصادم سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ اس کا واحد حل مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے یر اتفاق میں مضمر ہے۔ الحاق پاکستان یا خودمختاریت دونوں ثانوی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں ان کا کہیں بھی تذکرہ نہیں ہے۔کشمیریوں کو الحاقیت یا مختاریت کے نظریاتی تصادم سے بچانے کے لیے مسلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اجاگر کیا جائے۔ ہم نے سب سے پہلے متحد ہو کر آزادی کشمیر کے لیے جدوجہد کرنی ہے جب کشمیر آزاد ہو جائے گا تو یہ کشمیریوں کا حق ہے وہ فیصلہ کریں گے وہ الحاق چاہتے یا خودمختاری۔ ہمیں مسئلہ کشمیر پر سنجیدگی دکھانا ہو گی اور مسلم امہ کو ایک پیج پر لاتے ہوئے مسلم ممالک کی حمایت حاصل کرنا ہو گی۔ اگر ہم افغانستان پر او آئی سی کا اجلاس کروا سکتے ہیں تو مسئلہ کشمیر پر کیوں نہیں کرواتے؟ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57437

داد بیداد ۔ بھر تیوں کا عمل ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ بھر تیوں کا عمل ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

50سپا ہیوں کی بھر تی کا اشتہار آیا تھا 6ہزار نو جوا نوں نے نا م لکھوا یا، میٹرک کی تعلیم شرط تھی نا م لکھوا نے والوں میں اکثریت ایف ایس سی، بی ایس سی اور ایم ایس سی والوں کی تھی بھر تی کرنے والوں نے فزیکل فٹنس اور دیگر کوائف کا ٹیسٹ لے کر 50سپا ہی بھر تی کئے 5450کو نا کامی کا منہ دیکھنا پڑا، سکولوں میں ایک ضلع کے اندر 750اساتذہ کی پو سٹوں کا اشتہار آیا 30ہزار درخواستیں مو صول ہوئیں پی ایم ایس کیڈر میں 200آسا میوں کا اشتہار آیا 18000اُمید واروں نے فارم جمع کئے امتحا ن لینے والے سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ امتحا ن کس طرح لیا جائے؟

بے روزگار ی کی وجہ سے ریکروٹمنٹ یا بھر کا عمل بہت مشکل ہو گیا ہے بھر تی کرنے والوں کے لئے بھی مشکل ہے بھر تی ہونے والوں کے لئے بھی مشکل ہے اس مشکل کا کوئی منا سب حل نکا لنے کے لئے سر کاری شعبے میں فو ج کا بہترین انتظام مو جو د ہے سول حکومت کے دفاتر میں پبلک سر وس کمیشن کا ادارہ مو جود ہے ایٹا (ETEA) ایجو کیشنل ٹیسٹنگ اینڈ ایو یلو یش ایجنسی کا ادارہ بھی ہے نجی شعبے میں در جن سے زیا دہ ٹیسٹنگ سروسز کا م کر تی ہیں اس کے باو جود تسلی بخش نتیجہ نہیں آتا کبھی ٹیسٹ منسوخ کردیا جا تا ہے کبھی نتیجہ کا لعدم قرار دیا جا تا ہے اگر ٹیسٹ منسوخ نہ ہو نتیجہ کا لعدم نہ ہو تب بھی اشتہار سے لیکر بھر کے عمل تک دو سال لگ جا تے ہیں جس کی وجہ سے اشتہار دینے والا ادارہ بھی متا ثر ہو تا ہے،

ٹیسٹ دینے والے نو جوا ں اور انکے والدین بھی ذہنی اذیت سے دو چار ہو جا تے ہیں تا زہ خبر یہ ہے اساتذہ کی 30ہزار آسا میوں کے ٹیسٹ منسوخ ہو نے کے بعد پراونشل منیجمنٹ سروس (PMS) کے سکریننگ ٹیسٹ کا نتیجہ بھی منسوخ کیا گیا ہے اور صو بائی حکومت نے پبلک سروس کمیشن کے متعلقہ حکام کو سزا دینے کا حکم جا ری کر کے انکوائیری کا حکم دیا ہے انکوائیری اور سزا کا عمل اپنی جگہ درست ہو گا حکومت اور عوام کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آئیندہ بھر تیاں کس طرح ہو نگی؟ تا کہ وقت کا ضیا ع نہ ہو، جو ہر قا بل کا انتخا ب ہو اور محکموں کا روز مرہ کام بھی متا ثر نہ ہو شفاف اور منصفا نہ بھر تی کے تین اہداف ہو ا کر تے ہیں محکمے کا کام متاثر نہ ہو، سب سے قابل امیدوار کا انتخا ب ہو، اور بھر تی کے عمل میں کم سے کم وقت لگا یا جا ئے فو جی بھرتی میں تینوں اہداف احسن طریقے سے حا صل کئے جا تے ہیں سول حکومت بھی چند سال پہلے تک ایک ہدف حا صل کر تی تھی بہترین امیدوار کا انتخا ب ہو تا تھا لیکن وقت زیا دہ لگتا تھا اور محکموں کا کا م متاثر ہوتا تھا .

بے روز گار ی میں اضا فے کی وجہ سے گذشتہ 10سالوں سے بھرتی کا پورا عمل متا ثر ہوا ہے اس کا حل یہ ہے کہ حکومت بھر تی کرنے والے سر کاری اداروں کی تنظیم نو کر کے بھر تی کے سارے عمل کو وقت کے تقا ضوں سے ہم آہنگ کر ے اس حوالے سے پا ک فو ج بھی حکومت کی مدد کر سکتی ہے فو ج کے تجربے سے استفا دہ کیا جا سکتا ہے دو تجا ویز قا بل عمل ہیں پہلی تجویز یہ ہے کہ حسب سابق سکیل 11سے سکیل 18تک بھر تی کا عمل پبلک سروس کمیشن کے پا س رہے سکیل 5سے سیکل 10تک بھر کا عمل ایٹا (ETEA) کو دیدیا جا ئے اس کے نتیجے میں کا م کا دباؤ کم کر نے کے لئے دونوں اداروں کی تنظیم نو کی جا ئے پبلک سروس کمیشن کے ممبروں کی تعداد دوگنی کر دی جا ئے ممبر کی آسا می پر 60سال سے اوپر ریٹا ئر ڈ بزر گوں کو دوبارہ بھر تی کر نے کے بجا ئے حا ضر سروس افیسروں کو لگا یا جا ئے ایک ممبر کے پینل کو دفتری اوقات کار کے دوران کم از کم 25امید واروں کے انٹر ویو کا پا بند بنا یا جا ئے اس طرح ایٹا (ETEA) میں منظور شدہ آسا میوں کی تعداد میں تگنا اضا فہ کیا جا ئے تا کہ ٹیسٹ کا عمل کسی تا خیر کے بغیر مکمل ہو، نتیجے میں تعطل نہ ہونجی شعبے کی ٹیسٹنگ سروسز کو یکسر بلیک لسٹ کیا جا ئے ان تجا ویز پر عملدرآمد سے چھ مہینے کے اندر بھر تیوں کا عمل شفاف ہو گا کسی کو بھی مسئلہ نہیں ہو گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57415

سوات اور چترال کی سیاحت کے درمیان بنیادی فرق ۔تحریر:اشتیاق چترالی

کسی بھی علاقے کی سیر وسیاحت وسیاحت وہاں کی۔مقامی آبادی اور رہائشیوں کیلئے خاطر خواہ آمدنی اور خوشحالی کا باعث ہوتی ہے ،اس سے ملک کا ایک سافٹ امیج بھی باقی ماندہ دنیا کے سامنے آجاتا ہے اور وہاں کے پر آمن ہونے اور خوبصورتی کو آشکار کرنے میں بھی مددگارثابت ہوتی ہے۔


پچھلے دنوں ایک لیڈر شپ کیمپ میں شرکت کرنے کیلئے سوات کی پرفضا سیاحتی مقام کالام جانے کا موقع ملا اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں اور چترال میں سیروسیاحت کے شعبے میں بنیادی فرق کو منظر عام پر لانے کی ادنیٰ سی کوشش کی ہے تاکہ ہمارے پیارے علاقے چترال میں بھی لوگ مزید جوق درجوق آئیں اور یہاں کے چھپے ہوئے اور پوشیدہ علاقوں میں بھی جہاں ابھی تک رسائی ممکن نہیں ہو سکی ہے کو ممکن بنا کر کثیر تعداد میں سیاحوں کی توجہ اس جانب مبذول کرایا جاسکے جس سے مزید اس شعبے کو ترقی ملے۔


رات گیارہ بجے سوات کے علاقے مینگورہ پہنچے اور وہاں ہوٹل کی تلاش میں چند فاصلے پر ہی ہوٹل نظر آئے کھانے کے فراغت کے بعد حب ہوٹل کی طرف بڑھے تو رات کے تقریباّ بارہ بجے سے بھی اوپر کا ٹائم تھا لیکن ہوٹل اسٹاف مستعد اپنی سیٹ پہ۔براجمان تھے اور مجھ جیسے اور پردیسیوں کے مسائل کم کرنے کے ارادے سے اپنی فرض منصبی ادا کرنے میں مصروف اور منتظر تھے۔ایک ہوٹل میں جانے کے بعد ایک آدمی سے مختصر علیک سلیک کے بعد کمرے کے ریٹس وغیرہ معلوم کئے تو مجھ جیسے مڈل مین کے دائرہ کار کے اندر پا کر موقع کو غنیمت جان کر جلدی جلدی کمرے کا نمبر معلوم۔کرکے چابی لی اور کمرے میں جاکے بیڈ پہ جاکے ہی دن کی تھکاوٹ دور کرنے کیلئے کمر لو سیدھا کرنے کی دیر تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے نیند کی آغوش میں چلے گئے۔


علی الصبح آنکھ کھلی تو ہوٹل اسٹاف کو اسی طرح مستعد اور چوکنا پایا ناشتے کے بعد ہوٹل کا بل ادا کرکے اڈے کی راہ لی اور گاڑیوں کا پتہ لگا کے کالام کی طرف محو سفر ہوئے،چونکہ برفباری اپنے جوبن پہ تھی اور پورے راستے میں برفباری ہوتی رہی بلکہ چترال سے بھی زیادہ برفباری دیکھنے کو ملی اور وہ بھی اتنی شدید کہ دیکھتے ہی دیکھتے ساری زمیں نے جیسے سفید چادر پہن لی ہو،کافی جگہ۔پہسے رہے لیکن وہاں کے لوگ داد کے مستحق ہیں جنھوں نے اپنے گھروں کے دروازے تک سیاحوں کیلئے کھول دئے اور ان کی اتنی خاطر تواضع کی کی لوگ اپنی تکلیف اور تھکن کو جیسے بھول گئے اور اپنا گھر جیسا ان کو معلوم ہونے لگا۔جگہ جگہ ٹک شاپس،چھوٹے چھوٹے ہوٹلز بنے ہوئے تھے جہاں سے با آسانی گرم گرم پکوڑے،چائے اور دیگر ضروریات زندگی کے دیگر سامان با آسانی میسر تھے۔راستے کی بندش کی وجہ سے کافی پھسے رہے لیکن لوگوں کا تعاون دیدنی تھا چاہے ڈرائیور ہو یا اور لوگ سارے ہی ایک دوسرے سے مثالی تعاون پر آمادہ نظر آئے۔سیاحوں کی سہولت کیلئے مختلف جگہ فسٹ آیڈ کی سہولت بھی موجود ہےپھر سیاحوں کیلئے گاڑیوں کا انتظام مناسب ریٹس اور مناسب کرایے پہ دستیاب ہوتے ہیں اور یہ بھی قابل تعریف ہے کہ ان کے ریٹس بھی مناسب تھے،ہر فرد کو ہر علاقے کے بارے میں مکمل معلومات میسر ہوتی ہیں جو وہ بلا جھجک آگے لوگوں میں شیئر کرتے ہیں اور با آسانی بتائے گئے وقت کے اندر اندر مطلوبہ جگہ تک رسائی ممکن ہوجاتی ہے۔کالام چونکہ سوات سے کافی فاصلے پر واقع ہے لیکن سڑکوں کی پختگی،ہوٹلز کی بھرمار،اور سہولیات کا باآسانی میسر ہوجانا،ٹورسٹس کو مکمل تعاون اور مناسب گائیڈ لائن ،اسپاٹس کی مکمل معلومات اور رسائی ہی وہ بنیادی چیزیں ہیں جو سیاحوں کو اپنی طعف کھینچ لاتی ہیں۔


چترال میں چونکہ سڑکوں کی ابتر صورتحال سے مقامی لوگ تو پریشان ہیں ہی سیقح بھی اس صورتحال سے خوش نہیں ہیں اور یہ اس علاقے کی طرف ان کے آنے والے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تصور کیا جاتا ہے۔


چترال میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں تک راستے کی ناپیدگی کی وجہ سے رسائی ممکن نہیں ہو سکی ہے ورنہ وہاں تک با آسانی رسائی سے سیاح مری، سوات اور باقی علاقوں کے بجائے چترال آنے کو ترجیح دیں گے اور پھر یہیں کی سیاحت کو میں اسٹریم میڈیا میں ہائی لائٹ کرکے مزید لوگوں کی توجہ حاصل کی کاجاسکتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کی توجہ اس جابب مبذول کرایا جاسکے پھر سیاحوں کی سہولیات کیلئے یہاں پہ موجود ہوٹلز کو چوبیس گھنٹے اپنی سروسز مہیا کرنے چاہئے چاہے وہ قیام کے حوالے سے ہوں یا طعام کے اور رات تین بجے یہاں ہہ آنے والے سیاح کو بھی اپنی مرضی کا کھانا اور رہائش کی لئے مناسب انتظام میسر آئے اور کھانے پینے کے حوالے سے بھی مختلف ورائٹی کے کھانے میسر آجائیں،پھر مختلف ٹورسٹس سپاٹس میں ٹک شاپس،فسٹ آیڈ کی سہولت چاہے یونٹ ہو یا کیمپ،ٹورسٹس اسپاٹس میں رہائش کے لئے مناسب انتظامات اور گائیڈ لائن اگر اس طرح کے انتظامات ہم چترال میں ہر ملکی و غیر ملکی سیاح کو مہیا کردیں تو وہ دن دور نہیں جب باقی علاقوں کی طرح چترال بھی سیاحت کے شعبے میں بھی ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں سیاحوں کی آمجگاہ بن جائے۔


چترال چونکہ اپنی منفرد ثقافت،سیاحت کے اعتبار سے منفرد حیثیت،تہذیب و تمدن،قدرتی حسن،روایتی مہمان نوازی،وادی کیلاش کی ہزاروں سال پہ محیط ثقافت،فری سٹائل پولو،پر آمن اور محبت سے سرشار لوگ،لہلہاتے کھیت،بلندوبالا پہاڑ،اپنی علاقائی مصنوعات،کیبل کار،نیشنل پارک،گرم چشمے،وادی بروغل اور وہاں کا فیسٹول،زائنی ٹاپ پیراگلائیڈنگ کے مقابلے،جشن قاقلشٹ،علاقہ کہوت کے مقام شاغلشٹ کا حسین و جمیل اور قدرتی حسن سے مالامال جنت نظیر علاقہ اور اس طرح کے ان گنت علاقت اور فیسٹولز کو مزید میڈیا کے اندر کوریج دلوا کے لوگوں کی توجہ دلوائی جاسکتی ہے اور اس طرح کے مزید مناسب انتظامات سے سے ہم اپنے علاقے کی رنگینیوں میں چار چاند لگا سکتے ہیں تاکہ یہاں کے لوگ بھی سیاحت کو بطور انڈسٹری اپناسکیں اور علاقہ اور اس کے باسی ہر حوالے سے خوشحال زندگی گزارسکیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57413

وزیراعلیٰ محمود خان کا دورہ سوات، عوامی فلاح و بہبود کے متعدد منصوبوں کا افتتاح – تحریر : زار ولی ذاہد

اشاعت خصوصی


وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے اضلاع کے دوروں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے جمعہ کے روز اپنے آبائی ضلع سوات کا ایک روزہ دورہ کیا جہاں انہوں نے عوامی فلاح و بہود کے متعدد ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کیا جن میں سیدو میڈیکل کالج میں ہاسٹل، لیکچر تھیٹرز،لیبارٹریز، آڈیٹوریم، سیدو کالج آف ڈینٹسٹری میں ہاسپٹل بلاک، کالج بلاک اور باو ¿نڈری وال کی تعمیر کے علاہ سیدو ٹیچنگ ہسپتال میں کیتھرائزیشن لیب اور ریجنل بلڈ سنٹر کا قیام شامل ہیں۔ سیدو میڈیکل کالج میں ہاسٹل، لیکچر تھیٹرز، لیبارٹریز اور آڈیٹوریم سمیت دیگر تعمیرات کے اس منصوبے پر مجموعی طور پر 1.1 ارب روپے لاگت آئے گی۔ منصوبے کے پہلے مرحلے کے تحت ایناٹومی، پیتھالوجی، فزیالوجی، بائیوکیمسٹری، کمیونٹی میڈیسن اور فارماکالوجی پر مشتمل اکیڈمک بلاک اور مین ایڈمنسٹریشن آفس، سٹوڈنٹس آفیئرز سیکشن، اسٹیبلشمنٹ سیکشن اور اکاونٹ سیکشن پر مشتمل ایڈمنسٹریشن بلاک کی تعمیر مکمل کی گئی ہے جس کا وزیراعلیٰ نے باضابطہ افتتاح کیا۔

chitraltimes cm kpk mahmood khan swat visit 1

منصوبے کے دوسرے مرحلے کے تحت بوائز ہاسٹل، ڈاکٹرز ہاسٹل، پیرامیڈیکس ہاسٹل، آڈیٹوریم، نرسنگ ہاسٹل اور کیفے ٹیریا کی تعمیر کی جائے گی۔ نو قائم شدہ سیدو کالج آف ڈینٹسٹری میں ہاسپٹل بلاک، کالج بلاک، اندرونی سڑکوں کی تعمیر اور باو ¿نڈری وال کی تعمیر کے منصوبے پر 71 کروڑ روپے لاگت آئے گی۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی خصوصی کوششوں سے سیدو میڈیکل کالج کے لئے 1.3 ارب روپے مالیت کے جدید طبی آلات کی خریداری کا عمل مکمل کیا گیا ہے۔ میڈیکل کالج میں اس وقت بارہ مختلف شعبوں میں ایف سی پی ایس اور ایم سی پی ایس ٹریننگ کی سہولت موجود ہے۔ میڈیکل کالج میں افتتاح کئے جانے والے دو لیکچر تھیٹرز، لیبارٹریز اور آڈیٹوریم سے کالج کی نشستیں 100سے بڑھ کر 150 ہو جائےں گی۔ اور میڈیکل کالج کی نئی عمارت میں جلد کلاسوں کا اجرا ءکیا جائے گا۔


سیدو میڈیکل کالج میں اس وقت طلبہ کی تعلیم و تدریس کے لئے 97 فیصد سرٹیفائیڈ اساتذہ دستیاب ہیں ۔ سوات میں جدید سہولیا ت سے آراستہ ڈینٹل کالج اور ہاسپٹل کا قیام بلاشبہ ایک تاریخی اقدام ہے جس کا کریڈٹ موجودہ صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ محمود خان کو جاتا ہے ۔ اس کالج کا قیام علاقے کے عوام کی دیرینہ خواہش اور وقت کی ایک اہم ضرورت تھی جسے موجودہ صوبائی حکومت نے پورا کردیا۔ اس کالج کے قیام سے نہ صرف سوات بلکہ پورے ملاکنڈ ڈویژن کے طلبہ مستفید ہونگے۔ڈینٹل کالج میں اسی سال اکیڈیمک سیشن کا آغاز کیا جائے گا اور پہلے سیشن میں 50 طلبہ کو داخلہ دیا جائے گا۔

chitraltimes cm kpk mahmood khan swat visit 3


وزیراعلیٰ نے سیدو گروپ آف ٹیچنگ ہسپتال میں کیتھ لیب کا بھی افتتاح کیا جس پر 17کروڑ روپے لاگت آئی ہے۔ سیدو گروپ آف ٹیچنگ ہسپتال ملاکنڈ ڈویژن کا واحد تدریسی ہسپتال ہے جو ملاکنڈ ڈویژن کی تقریباًایک کروڑ آبادی کو علاج معالجے کی معیاری سہولیات فراہم کر رہا ہے ۔ ہسپتال میں دل کے مریضوں کو علاج معالجے کی بروقت اور معیاری سہولیات کی فراہمی کے لئے کیتھ لیب کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جارہی تھی جسے موجودہ حکومت نے پورا کر دیا ۔ سیدو گروپ آف ہسپتال میں کیتھ لیب نے سال 2021 کے آخر میں کام شروع کیا تھا اور اب تک یہاں پرا مراض قلب کے351 مریضوں کا مفت علاج کیا جاچکا ہے۔ روزانہ کی بنیادوں پر اس لیب میں چھ مریضوں کی انجیوگرافی، انجیو پلاسٹی اور سٹنٹ کئے جاتے ہیں۔ اس لیب میں انجیوگرافی کے 179، انجیو پلاسٹی کے 139 اور پیس میکر کے چار کیسز کامیابی سے کئے جا چکے ہیں، اور علاج معالجے کی ساری سہولیات صوبائی حکومت کے غریب پرور پروگرام صحت کارڈ اسکیم کے تحت مفت فراہم کی جارہی ہیں۔


اسی طرح وزیراعلیٰ نے سوات میں نو قائم شدہ ریجنل بلڈ ٹرانسفیوژن سنٹر کا بھی باقاعدہ افتتاح کیا۔ ڈویژنل ہیڈ کوارٹر میں اس سنٹر نے سال 2020 سے کام کا آغاز کیا تھا تب سے اب تک اس سنٹر کی کارکردگی انتہائی شاندار رہی ہے۔ اب تک اس سنٹر نے مختلف ہسپتالوں اور تھیلیسمیا فاو ¿نڈیشن کو ساڑھے اڑتالیس ہزار خون کے تھیلے مفت فراہم کئے ہیں۔ ریجنل بلڈ سنٹر نے اب تک سیدو گروپ آف ہسپتالوں کو37,392، وجیہہ تھیلیسمیا فاو نڈیشن کو 3363 ، میاں گل جہانزیب کڈنی ہسپتال کو 669 ڈی ایچ کیو ہسپتال تیمر گرہ کو 303، ڈی ایچ کیو ہسپتال اپر دیر کو 479 ، ٹی ایچ کیو ہسپتال چکدرہ کو 301، ڈی ایچ کیو ہسپتال شانگلہ کو 510، ڈی ایچ کیو ہسپتال بونیر کو 404، الفجر تھیلیسمیا فاو نڈیشن کو 513، مردان میڈیکل کمپلیکس اور نوشہرہ میڈیکل کمپلیکس کو 1,444، ٹی ایچ کیو ہسپتال درگئی کو 542 اور حیات میڈیکل کمپلیکس کو 444 خون کے تھیلے فراہم کئے ہیں۔

chitraltimes cm kpk mahmood khan swat visit 2

اس موقع پر سیدو میڈیکل کالج میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ صحت کا شعبہ شروع دن ہی سے پاکستان تحریک انصاف حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل رہا ہے اور حکومت اس شعبے کو جدید عصری تقاضوں کے مطابق مستحکم اور عوامی توقعات کے مطابق بنانے کے لئے نتیجہ خیز اقدامات اٹھا رہی ہے۔ صحت کارڈ پلس اسکیم کو اپنی حکومت کا ایک غریب پرور اور فلیگ شپ منصوبہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسکیم کے تحت صوبے کی سو فیصد آبادی کو ملک بھر کے منتخب نجی و سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کی مفت سہولیات فراہم کی جارہی ہےں ۔ صوبائی حکومت نے اس اسکیم کو مزید جامع بنانے کے لئے گردوں کے مفت علاج معالجے کو بھی اس میں شامل کردیا ہے۔ جبکہ جگر کی پیوند کاری اور کینسر کے مہنگے علاج کو بھی اس میں شامل کرنے پر کام جاری ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس اسکیم کی افادیت کو سامنے رکھتے ہوئے مفت اوپی ڈی سروسز کو بھی پروگرام میں شامل کیا جائے گا۔


محمود خان نے کہا کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران صوبے کے میڈیکل کالجوں کی نشستوں کو 1300سے بڑھا کر 1750 کردیا گیا ہے جو صوبے کے میڈیکل کے شعبے میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے لئے موجودہ صوبائی حکومت کا ایک اہم کارنامہ ہے۔ سوات میں صحت کے شعبے کی ترقی کے لئے اپنی حکومت کے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے محمود خان کا کہنا تھا کہ 300 بستروں پر مشتمل پیڈز ہسپتال کا قیام ، سیدو گروپ آف ہاسپٹل میں کارڈیالوجی اور گائنی یونٹس کا قیام، ٹراما ، ایکسیڈنٹ اینڈ ایمر جنسی سنٹر کا قیام، سکول آف نرسنگ کا قیام، متعدد تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں ، دیہی مراکز صحت اور بنیادی مراکز کی صحت کی اپگریڈیشن سمیت دیگر منصوبے موجودہ صوبائی حکومت کے اہم اقدامات ہیں جن کی تکمیل سے علاقے کے لوگوں کو علاج معالجے کی معیاری سہولیات مقامی سطح پر میسر ہونگی۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ نے سیدو میڈیکل کالج کے انتظامی ، تدریسی، اور طبی امور کو ڈیجیٹائز کرنے اور کالج میں بجلی کی فراہمی کے لئے کالج کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا اعلان بھی کیا۔


اپنے ایک روزہ دورے کے دوران وزیراعلیٰ نے سوات پریس کلب کا بھی دورہ کیا جہاں انہوں نے سوات پریس کلب اور سوات یونین آف جرنلسٹس کی نومنتخب کابینہ سے حلف بھی لیا۔ وزیراعلیٰ نے اس موقع پر سوات کے صحافیوں کو درپیش مسائل کے حل کے لئے موقع پر موجودہ متعلقہ حکام کو ضروری اقدمات کی ہدایت کی۔

میڈیکل کالجوں
chitraltimes cm kpk mahmood khan swat visit 4


Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57362

قاضی حمیداللہ خان ؒ کا فیض گلگت بلتستان میں -خاطرات: امیرجان حقانی

قاضی حمیداللہ خان ؒ کا فیض گلگت بلتستان میں -خاطرات: امیرجان حقانی


راقم الحروف کی درس نظامی سے فراغت 2010 کی ہے۔ جب درس نظامی کا آغاز ہو ا تھا تو گلگت بلتستان بالخصوص ضلع دیامر و کوہستان کے دورہ حدیث کے طلبہ اور نئے  فضلاء سے ایک نام بڑی کثرت سے سننے کو ملتا  تھا۔اس نام کے ساتھ ہی علم و حکمت اورفن و فلسفہ کی چند کتابوں کے نام بھی سننے کو ملتے تھے۔ یہ کتب بہر حال درس نظامی کے اٹھ سالہ نصاب  کا حصہ نہیں تھیں۔وہ نام نامی شیخ الحدیث مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ کا تھا۔ عموما یہ طلبہ  ”قاضی صاحب، قاضی صاحب” سے اپنے استاد محترم کو یاد کیا کرتے تھے۔ اور جن بڑی خارجی کتب(یعنی درس نظامی کے نصاب سے الگ کتب) کا تذکرہ کرتے ان میں اقیلدس، مطول،صدرا، قاضی، حمداللہ،خلاصہ شرح خیالی قابل ذکر ہیں۔جن طلبہ نے قاضی صاحب مرحوم سے یہ کتابیں پڑھی تھی وہ بڑے فخریہ انداز میں بتایا کرتے تھے۔بعض دفعہ تو ان طلبہ میں ان خارجی کتب کی تحصیل پر کچھ علمی تفاخر بھی آجاتا ۔سچ کہوں تو مجھے بھی فنون کی کچھ کتب قاضی صاحب ؒ سے پڑھنے کا شوق چڑھا  تھامگر پھر شہادۃ العالمیہ سے فراغت کے بعد فوری طورپر پروفیشنل زندگی کا آغاز ہوا، جس کی وجہ سے حضرت قاضی صاحب نوراللہ مرقدہ اور دیگر کباراہل علم سے شرف تلمذ حاصل نہ ہوسکا جس کا قلق ہمیشہ رہے گا۔

 قاضی حمیداللہ خان ؒ  صوبہ  خیبر پختون خواہ کے مشہور گاؤں چاسدہ  میں پیدا ہوئے۔ابتدائی  ابتدائی تعلیم چارسدہ میں حاصل کی۔درس نظامی کی اکثر کتب اٹھ سال میں جامعہ دارالعلو م حقانیہ اکوڑہ خٹک میں کبار اہل علم و فن سے پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔دو سال معقولی علوم کی تحصیل کے لیے سوات گئے اور علوم عقلیہ میں مہارت حاصل کی۔ دورہ حدیث شریف کی تکمیل جامعہ اشرفیہ لاہور سے  کی  جہاں انہیں شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا ادریس کاندھلوی ؒ اور مولانا رسول خان جیسے کبار اہل علم سے استفادہ کا موقع  ملا۔ 1966 میں، مدرسہ اشرف العلوم گوجرانوالہ  میں  درس و تدریس کا آغاز کیا  اور زندگی کی تمام بہاریں گوجرانوالہ میں علوم نبوت کی تدریس میں گزاری۔ مدرسہ انوارالعلوم گوجرانوالہ کے مہتمم بھی رہے ۔ 2002 میں بھاری اکثریت سے قومی اسمبلی کا ممبر بنے۔مخلوط میراتھن  ریس کے حوالے سے پوری دنیا کی میڈیا کا توجہ کا مرکز بنے۔ قاضی مرحوم نے آمر  مشرف کے دور میں اپنی کمال فراست سے  میرا تھن ریس کی مخالفت کی اور آخری حد تک گئے اور لہولہان ہوئے۔امیرالمومنین ملا عمر مجاہدؒ نے بھی قاضی مرحوم سے شرف تلمذ حاصل کیا تھا۔ قاضی صاحبؒ سے پاکستان بھر کے طالبان علوم نبوت  علمی استفادہ کیا تھا۔آپ کے تلامذہ ملک کے چبہ چبہ میں علوم نبوت کی تدریس و ترویج کرنے میں منہمک ہیں۔

 پاکستان کی طرح گلگت بلتستان میں بھی قاضی حمیداللہ خان نوراللہ مرقدہ کا فیض برابر  جاری رہا۔بلاشبہ گلگت بلتستان و کوہستان کے سینکڑوں علماء نے قاضی حمیداللہ خان ؒ سے علوم و فنون کی مدول کتب پڑھی ہیں۔اور پھر انہیں حضرات نے گلگت بلتستان میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔اور بڑے بڑے مدارس و جامعات کا قیام عمل میں لایا ہے۔2009ء  کے گلگت بلتستان کےصوبائی  الیکشن میں قاضی صاحب مرحوم گلگت تشریف لائیے اور جمیعت علماء اسلام گلگت بلتستان کے صوبائی اسمبلی کے لیے نامزد امیداروں  کی بھرپور کمپیئن بھی کی۔ داریل تانگیر، چلاس اور گلگت کے دورے کیے اور بڑے عوامی اجتماعات سے خطاب کیا ۔گلگت بلتستان کے علماء کرام اور مختلف سیاسی لیڈروں نے حضرت قاضی صاحب سے ملاقاتیں بھی کی۔بہت سارے لوگ قاضی صاحب ؒ کے بیانات اور علمی و سیاسی خیالات سے مستفید بھی ہوئے اور ان کی دلیرانہ  اور بے خوفی پر عش عش بھی کرنے لگے۔

گلگت بلتستان  میں حضرت قاضی ؒ کے سینکڑوں تلامذہ موجود ہیں۔ ان میں چند ایک کا مختصر تعارف اور دینی خدمات کے ساتھ قاضی حمیداللہ خانؒ  پر ان کے تاثرات قلمبند کرتے ہیں۔گلگت بلتستان کے سب سے معروف عالم دین ، اہل سنت والجماعت گلگت بلتستان و کوہستان کے امیر، مرکزی جامع مسجد گلگت کے خطیب، سب سے قدیم اور بڑی دینی درسگاہ جامعہ نصرۃ الاسلام گلگت کے رئیس ،فاضل دیوبند حضرت مولانا قاضی عبدالرزاق ؒ کے فرزند ارجمند  اور میرے بزرگ و شفیق دوست  حضرت مولانا قاضی نثاراحمد صاحب حفظہ اللہ نے بھی قاضی حمیداللہ خان ؒ سے کافی عرصہ تعلیم حاصل کیا ہے۔قاضی نثاراحمد صاحب اپنے استاد محترم کے حوالے سے انتہائی نیک جذبات رکھتے ہیں۔وہ قاضی صاحب مرحوم پر اپنے مستقل تاثرات قلم بند کررہے ہیں تاہم میرے استفسار پرانہوں نے اپنے تاثرات نوٹ کرواتے ہوئے کہا   ” حضرت استاد محترم  انتہائی شفیق تھے۔ مجھ ناچیز سے انتہائی محبت سے پیش آتے تھے۔

میں نے قاضی حمیداللہ خان ؒ سے درجہ سادسہ کی کتب کے علاوہ منطق و فلسفہ میں اقیلدس، مطول،صدرا، قاضی، حمداللہ،خلاصہ شرح خیالی اور توضیح تلویح پڑھی ہیں۔ استاد  محترم کی درس اور خطابت میں بہت گرفت تھی۔مشکل اسباق کو انتہائی سہل انداز میں پیش کرتے تھے۔ طلبہ کے ساتھ اولاد و الا معاملہ فرماتے تھے۔ حوصلہ دیتے تھے۔ طلبہ میں تحریکی شعور بیدار کرتے  اور انہیں دینی خدمات پر ابھارتے تھے۔طلبہ کو چھٹیوں میں بھی پڑھاتے تھے۔ میں نے خود حضرت  ؒ   سےکچھ کتابیں سالانہ  تعطیلات میں بھی پڑھا ہے۔تعطیلات میں دن بارہ بجے تک تفسیر میں بیٹھتا تھا، شام کے وقت حضرت سے فنون کی کتابیں پڑھتا ر ہا ہوں۔وہ پڑھانے کے بڑے دلدادہ تھے۔تدریس میں انہیں سکون ملتا تھا اس لیے دن بھر پڑھاتے مگر چہرے پر تھکن محسوس نہیں ہوتی۔عوام اور علماء سب کے لیےان کے دروس یکساں مفید ہوتے تھے۔

مولانا مفتی شیرزمان صاحب مہتمم جامعہ دارالعلوم غذر گاہکوچ بھی حضرت قاضی صاحبؒ کے  جید تلامذہ میں ایک ہیں۔مفتی شیرزمان صاحب کا تعلق ضلع غذر سے ہے۔مفتی صاحب نے 1995 میں جامعہ دارالعلوم سے فراغت  حاصل کی اور 1996  میں دارالافتاء والارشاد  ناظم آباد سے مفتی رشیداحمد صاحب نوراللہ مرقدہ سے تخصص الفقہ مکمل کیا۔1998میں ضلع غذر میں جامعہ دارالعلوم غذر کا سنگ بنیاد رکھاجہاں ابھی بنین و بنات کا بڑی تعداد زیر تدریس ہے۔ سات سو کے قریب رہائشی طلبہ و طالبات علوم نبوت سے مستفید ہورہے ہیں۔مفتی شیرزمان نے 1992 میں قاضی حمیداللہ خانؒ سے منطق میں قاضی حمداللہ، خیالی، صدرا اور بلاغت و معانی میں مختصرالمعانی، مطول، تلخیص پڑھی ہیں۔

مفتی شیرزمان صاحب نے قاضی حمیداللہ خانؒ کے متعلق فرمایا: ”سبق کا مضمون بہت اچھے انداز میں پیش کرتے۔ دریا کو کوزے میں بند کرتے۔ان کو کتابیں از بر تھی۔عام فہم انداز میں پڑھاتے۔والد کی طرح شفیق تھے اور اخلاقی تربیت بھی کرتے تھے۔جب استاد محترم کی والدہ کا انتقال ہوا تو گھر میرے حوالہ کیا تھا۔ صفائی ستھرائی کی ذمہ داری بھی دی تھی۔گھر بہت سادہ تھا گویا کہ دیہاتی لوگوں کی  طرح ان کا رہن سہن تھا۔استاد محترم کو سلام عرض کرنے وقتا فوقتا  گوجرانوالہ حاضر ہوتا رہا ہوں۔ بیماری کے دوران خصوصی عیادت کے لیے گیا تھا۔میرے ساتھ کوہستان کے معروف عالم دین  مولانا دلدار صوبائی ممبراسمبلی کے پی کے، مولانا بشیر پنکھڑ(مدرس)، مولانا ابراہیم پٹن(مدرس) اور مولانا عبدالقدوس پٹن (مدرس) میرے ہم درس تھے۔اس کے علاوہ ضلع دیامر کے کئی علماء نے قاضی حمیداللہ خان سے شرف تلمذ حاصل کیا ہے”۔

 ڈاکٹر محمد نصیر جامعہ دارالعلوم کراچی کے 2001 فاضل ہیں۔ کراچی یونیورسٹی سے اصول دین میں ایم اے اور 2019 میں کراچی یونیوسٹی سے پی ایچ ڈی مکمل کیا اور کراچی میں 14 سال مسلسل مدرسہ نعمانیہ میں تدریس کی۔ گوہرآباد سے ان کا تعلق ہے۔گومل یونیورسٹی شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے پروفیسر ہیں۔انہوں نے 1995 میں قاضی صاحب سے پڑھا ہے۔ڈاکٹر صاحب اور مولانا جانباز گوہرآباد درکل والے نے خصوصیت کے ساتھ قدوری کا کتاب البیوع  قاضی ؒ سے پڑھنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ڈاکٹر محمد نصیر نے حضرت قاضی صاحب ؒ کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا:”مولانا جانباز اور مجھے1995 میں مظاہرالعلوم میں ، درجہ ثالثہ کی کافیہ اور شرح تہذیب پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔میں نے حضرت سے قدوری کی کتاب البیوع الگ سے پڑھنے کی درخواست کی تو استاد فرمایانے فرمایا” آؤ چلاسی ملا، آپ دونوں کو کتاب البیوع  شروع کرواتا ہوں کرکے پڑھایا، حضرت انتہائی شفیق ، ہمدرد اور علم دوست تھے، حضرت چاہتے تھے کہ چھوٹا یا بڑا طالب علم جو ان کے پا س پڑھنے کے لیے آتا وہ پڑھانے میں کبھی بھی تامل نہیں کرتے بلکہ ہر ایک کو پڑھاتے۔”

مولانا عبدالبر کا تعلق چلاس بٹوکوٹ سے ہے۔ دارالعلوم چلاس نزد ڈگر کالج چلاس کے مہتمم ہیں۔مدرسے کا دوسرا کیمپس گیٹی داس میں ہے۔2007ء ک انہوں نے دارالعلوم چلاس کا سنگ بنیاد رکھا۔ عبدالبرصاحب نے مولاناقاضی حمیداللہ جان سے  2003 سے 2006 تک تعلیم حاصل کی ہے۔ 2006 میں قاضی صاحب سے بخاری شریف پڑھ کر درس نظامی سے فراغت حاصل کی ہے۔مولانا عبدالبرصاحب تدریس کے بہت شوقین ہیں۔ منطق کی کتب و رسائل، ہدایہ اولین وآخرین، کافیہ  و ہدایت النحو اور دیگر فنون کی تدریس کرتے ہیں۔مولانا عبدالبر صاحب نے قاضی حمیداللہ خان ؒ کے متعلق کہا:

” میں نے بہت سارے علماء و شیوخ سے تعلیم حاصل کی ہے مگر سچی بات یہ ہے کہ قاضی حمیداللہ خانؒ سے بہتر اور اچھا مدرس پوری زندگی میں کسی کو نہیں پایا۔ وہ صحیح معنوں میں اکابرین دیوبند  اور سلف صالحین کا جانشین تھا،اکابر کی سوانحی علوم میں تدریس کے  حوالے سے جو اوصاف پڑھے ہیں وہ تمام کے تمام قاضی ؒ کی تدریس میں پائے جاتے تھے۔میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں حضرت قاضی صاحبؒ کے تدریسی اور علمی اوصاف بیان کروں۔میں نے قاضی ؒ سے ہدایہ اولین و آخرین، بخاری شریف، قاضی حمداللہ، مسلم الثبوت، خیالی پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔”

قاضی صاحب کے گلگت بلتستان میں سارے تلامذہ  ہیں۔ مولانا امان اللہ ہڈرو دیامر، مولانا محبت شاہ گیس گوہرآباد وغیرہ کی ایک لمبی فہرست ہے.

برادرم شیبر میواتی صاحب کا ممنون و مشکور ہوں کہ انہوں نے ایک صاحب علم انسان پر لکھنے کا داعیہ پیدا کیا۔ مسلسل مجھے یاد دلاتے رہے۔تب گلگت بلتستان میں حضرت والا کے فیضان پر چند حرف جوڑنے کا موقع ملا، جو قاضی صاحب ؒ  کی شخصیت پر پبلش ہونے والے خصوصی نمبر میں شائع ہونگے۔عمومی طور پر ریاست و حکومت کی طرح اہل علم و فن اور ذرائع ابلاغ کے احباب بھی گلگت بلتستان کو نظرانداز کرتے ہیں لیکن میواتی صاحب جیسے  دل والے لوگ گلگت بلتستان کو بھی اپنی علمی و قلمی کاوشوں میں شامل کرتے ہیں۔اس پر اللہ رب العزت انہیں جزائے خیر دے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ قاضی حمیداللہ خانؒ کے درجات بلند فرمائے، ان کے فیوض و برکات سے دنیا بھر کی طرح گلگت بلتستان کو بھی  منور کرے اور میواتی بھائی کی علمی وقلمی کاوش کو قبول فرمائے اور چند حرف جوڑنے پر ہمیں بھی اجر دے۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57360

دادبیداد ۔ سما جی خد مت ۔ ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

دادبیداد ۔ سما جی خد مت ۔ ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

بر ف باری کے مو سم میں چار پہا ڑی اضلا ع سے خبریں آئی ہیں کہ سکولوں اور کا لجوں کے طلباء نے رضا کارانہ طور پر راستے صاف کر کے ٹریفک کو جاری رکھنے میں مدد دی، گلیات اور کو ہستا ن سے چترال تک خیبر پختونخوا کے پہا ڑی اضلا ع سے آنے والی خبریں باعث مسرت بھی ہیں باعث حیرت بھی، ان خبروں پر خوشی اس لئے ہو تی ہے کہ انسا نیت کا جذبہ طلباء میں زندہ ہے حیرت اس بات پر ہو تی ہے کہ محکمہ تعلیم کی طرف سے رضا کارانہ خد مات اور سما جی کا موں کی بھر پور حو صلہ شکنی کے باو جو د طلباء میں یہ جذبہ کیسے پیدا ہوا؟ اور کس طرح پروان چڑھا مقطع میں سخن گسترانہ بات ویسے نہیں آئی ہمارے جن بزرگوں نے 1990سے پہلے کے تعلیمی اداروں کا ما حول دیکھا ہے.

ان کو معلوم ہے کہ 1990سے پہلے تعلیمی اداروں میں بوائے سکا وٹس، گرل گائیڈز اور سوشل ور ک کے ذریعے طلباء اور طا لبات کو سما جی خد مات کی تعلیم اور تر غیب دی جا تی تھی کا لجوں میں ٹیو ٹو ریل گروپس کے ذریعے طلباء اور طا لبات کی مخفی صلا حیتوں کو اجا گر کیا جاتا تھا نیشنل کیڈٹ کور کے ذریعے طلباء اور طا لبات کو لا زمی فو جی تر بیت سے آراستہ کرنے کا مر بوط پرو گرام تھا 30سال پہلے یہ تما م سلسلے ختم کر دیئے گئے آج کا طا لب علم ان نا موں سے واقفیت نہیں رکھتا 30سال بعد کسی سکول اور کا لج کے طا لب علموں نے اگر اپنی طرف سے اپنا شوق اور جذبہ لیکر یا گھر کی تر بیت سے فائدہ اٹھا کر سما جی خد مت انجا م دی ہے تو یہ پورے صو بے کے تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ تعلیمی نظم و نسق کو تباہ کر نے والے حکام کے لئے بھی ایک سبق اور ایک مثال ہے 1960ء کی دہا ئی میں جب ہماری عمر کے لو گ سکو لوں اور کا لجوں میں تھے تو ہمیں سما جی خد مت کی با قاعدہ تعلیم دی جا تی تھی.

بوائے سکا وٹس اور گرل گا ئیڈ ز کے کیمپوں میں بنیا دی طبی امداد قد رتی آفات میں گھرے ہوئے لو گوں کو محفوظ مقا مات پر پہنچا نے اور سڑ کوں سے رکا وٹیں ہٹا کر ٹریفک کو جا ری رکھنے میں مدد دینے کی تر بیت دی جا تی تھی ہم لو گ چادر اور با نس کی مدد سے خود سڑیچر بنا تے تھے، ہم لو گ بیلچہ اور کدال لیکر سڑ کوں اور نہروں کی صفا ئی کر تے تھے یہ ہمارے تعلیمی کیلنڈر کا حصہ تھا فزیکل ایجو کیشن کا استاد فو ج کا ریٹا ئرڈ جے سی او ہو تا تھا وہ ان کا موں کی تر بیت دیتا تھا کا لج کی سطح پر ٹیو ٹو رئیل کے ذریعے طلبا ء اور طا لبات کے رجحا نات اور ان کی مخفی صلا حیتوں کا جا ئزہ لیکر ان صلا حیتوں کو نکھا ر نے پر تو جہ دی جا تی تھی

ٹا ئم ٹیبل میں ٹیو ٹو رئیل کا با قاعدہ پیریڈ ہوتا تھا کا لجوں میں نیشنل کیڈٹ کور کے ذریعے ہر طا لب علم کو دفاعی تر بیت دی جا تی تھی جس میں چا ندماری، سرٹیفیکیٹ اور پاسنگ آوٹ بھی شا مل تھی اس کے 20نمبرتھے کا لجوں میں لا زمی سما جی خد مت کا دورانیہ مقرر تھا یہ ایک ہفتے سے 10دن تک ہو تا تھا اس میں ڈگری کلا سوں کے طا لب علم لا زمی سو شل ورک میں وقت لگا کر سر ٹیفیکیٹ حا صل کر تے تھے اس سر ٹیفیکیٹ کے بغیر امتحا ن کے لئے فارم داخل کرنے کی اجا زت نہیں تھی اس وجہ سے سو شل ورک کی سختی سے پا بندی کی جا تی تھی مر دان اور نو شہرہ کا لج کے طلبہ سوشل ورک کے لئے دیر، سوات اور چترال تک جاتے تھے، عطیہ خون کے کیمپ لگا تے تھے دیگر سما جی خد مات میں حصہ لیتے تھے آج کے دور میں 30سال پرانے سسٹم کو واپس لا نے کی اشد ضرورت ہے اگر سیا سی رہنما اس طرف تو جہ نہ دے سکیں تو پا ک فو ج اور عدلیہ کو ”سو مو ٹو“ لیکر حکومت سے یہ کا م لینا چا ہئیے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57358

سیکرٹری جنرل کا بروقت انتباہ ۔ محمد شریف شکیب

سیکرٹری جنرل کا بروقت انتباہ ۔ محمد شریف شکیب

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے افغانستان کو موت کا دہانہ قرار دیتے ہوئے عالمی برادری کو خبردار کیا ہے کہ فوری امداد فراہم نہ کی گئی تو 90لاکھ افغانیوں کے بھوک کے ہاتھوں مرنے کا اندیشہ ہے۔ انتونیو گروتریس کا کہنا تھا کہ منجمد درجہ حرارت اور منجمد اثاثے افغانستان کے لئے مہلک امتزاج بن چکے ہیں۔ ایسے تمام اصول و ضوابط اور معاشی نظام جو پیسوں کو جان بچانے کے لیے استعمال ہونے سے روکتے ہیں انہیں ہنگامی صورت حال میں معطل کر دینا چاہیے۔طالبان کی طرف سے افغانستان کا سیاسی اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد بین الاقوامی امداد رکنے کے ساتھ ہی امریکہ نے افغانستان نے اپنے اربوں ڈالر کے اثاثے بھی منجمد کر دئیے ہیں ان میں سے سات ارب ڈالر امریکی بینکوں اور دو ارب ڈالر دوسرے مالیاتی اداروں کے پاس ہیں۔

امریکی حکومت کا موقف ہے کہ نائن الیون کے متاثرہ خاندانوں نے امریکی بینکوں میں موجود افغانستان کے اثاثوں پر دعویداری کی ہے یہ معاملہ طے ہونے تک افغانستان کے اثاثے وا گذار نہیں کئے جاسکتے۔ امریکہ نے طالبان کے ساتھ قطر میں طے پانے والے امن معاہدے کے تحت اپنی فوجیں کابل سے نکالی تھیں۔ امریکہ کو بخوبی معلوم تھا کہ فوجی انخلاء کے بعد اس کی کٹھ پتلی حکومت چند دن بھی اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں رہ سکتی۔ اور طالبان ملک کا سیاسی اقتدار اپنے ہاتھ میں لیں گے۔ طالبان نے امریکی اور نیٹو افواج کو افغانستان سے نکلنے کا محفوظ راستہ دیا۔ جونہی افغانستان سے وابستہ امریکہ کے مفادات ختم ہوگئے۔انہوں نے 1979والی اپنی غلطی دہراتے ہوئے بین الاقوامی امداد بند کرادی اور افغانوں کے اپنے اثاثے بھی منجمد کردیئے۔

اگرچہ طالبان نے غیر ملکی امداد کے بغیر ہی اپنا بجٹ بنالیا ہے لیکن بیرونی امداد کے بغیر یہ لینڈ لاکڈ ملک ایک سال بھی اپنے وسائل پر زندہ نہیں رہ سکتا۔مختلف سرکاری اداروں کے ملازمین گذشتہ پانچ مہینوں سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔ اگرچہ افغان وزارت خزانہ نے اعلان کیا ہے کہ رواں ماہ کے آخر سے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی شروع ہوگی۔ جن خواتین کو کام کی جگہ پر آنے سے روکا گیا ہے ان کی تنخواہیں بھی نہیں روکی جائیں گی۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خالی خزانے کے ساتھ تنخواہوں کی ادائیگی کیسے ممکن ہوگی۔خانہ جنگی سے تباہ حال ملک کا سب سے قریبی ہمسایہ ہونے کے ناطے پاکستان نے بارہا عالمی برادری کو افغانستان میں ممکنہ انسانی المیے سے خبردار کیا ہے۔

اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں نے بھی صورتحال بتدریج خراب سے خراب تر ہونے کی تصدیق کی ہے عالمی ادارے نے افغانستان میں قحط کا خطرہ روکنے، امداد اور بحالی کے منصوبے کے تحت عالمی برادری سے پانچ ارب ڈالر فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان نے اسلام آباد میں او آئی سی کا وزارتی اجلاس بلاکر اسلامی ملکوں سے فوری امداد فراہم کرنے کی اپیل کی ہے۔ اب تک سعودی عرب، عرب امارات اور پاکستان کے سوا کسی اسلامی ملک نے افغان عوام کی مدد کے لئے ہاتھ نہیں بڑھایا۔ پاکستان کو یہ تشویش ہے کہ اگر صورتحال بہتر نہ ہوئی تو لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین ایک بار پھر پاکستان کا رخ کریں گے جبکہ یہاں تیس لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ مہاجرین پہلے سے رہائش پذیر ہیں مہاجرین کی نئی لہر سے پاکستان کی معیشت پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

ایران کو بھی یہی تحفظات ہیں۔عالمی برادری کی طرف سے امداد کی بحالی کے لئے طالبان سے انسانی حقوق کے احترام، خواتین کو تعلیم و روزگار کی آزادی دینے، سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ نہ بنانے اور تمام بڑی سیاسی گروپوں کو شامل کرکے قومی حکومت قائم کرنے کے مطالبے کئے جارہے ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بڑے پتے کی بات کی ہے کہ قوانین اور قواعد و ضوابط انسانوں کی بھلائی کے لئے وضع کئے جاتے ہیں جب یہ قواعد و ضوابط انسانی بقاء کے لئے خطرہ بن جائیں تو ان کی تعمیل غیر ضروری ہوجاتی ہے۔ اس لئے اقوام عالم کو اپنے مطالبات کی پوٹلی ایک طرف رکھ کر افغان خواتین، بچوں اور نوجوانوں کو بھوک سے ہلاکت سے بچانے کے لئے اقدامات کرنے ہوں گے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57355

رودادِ بامِ دنیا – چاپلوسی، ہٹ دھرمی اور غذرایکسپر یس وے – تحریر: شمس الحق نوازش غذری

غذر ایکسپریس وے کی زد میں آنے والی اراضیات کو کوڑی کے دام ہتھیانے میں سرکار کی معاونت اور عوام کی ملامت کے واسطے حکومت کے حصہ داروں کا آلہ کار بننے میں جو لوگ پیش پیش ہیں۔ اُن میں اکثریت اُن کی ہے جو نسبت اور تعلق کی بنیاد پر اپنی آراء کا تعین کرتے ہیں۔ زمینی حقائق واضح انداز میں نظروں کے سامنے موجود ہونے کے باؤجود بھی لگاؤ اور میلان کے محور کے طواف کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں۔ اُن کی قوتِ مشاہدہ قابلِ اعتبار ہے اور نہ ہی قوتِ فیصلہ اُن کی مرضی کے تابع۔۔۔۔ایسے لوگ اوروں کی خوشامد کے جنوں میں اپنے سایے سے بھی ضد کرنے لگ جاتے ہیں اور اپنے اندر کے انسان سے بھی دست و گریباں رہتے ہیں۔ حالتِ نشہ میں کسی کے سوال سے واسطہ پڑے تو صحیح جواب ممکن ہے ورنہ اُن کا کردار اور گفتار طمع و حرص کے منبع سے چپکی رہتی ہے۔ حقائق کو مرضی کی عینک سے دیکھ کر اوروں کے مزاج کے مطابق تاویل اور تعبیر تلاش کرنا اس قسم کے لوگوں کی زندگی کا اصل منشاء اور مقصود رہا ہے۔ جن لوگوں کو ضمیر کی ملامت کا احساس نہیں یا جن کی خاکی بدن میں ضمیر کا وجود ہی نہیں۔ ایسے لوگ غیروں کی جائز اور ناجائز خواہشات کی تسکین کے لیے قوموں کی اجتماعی مفادات کو داؤ پر لگانے سے کتراتے ہی نہیں۔ غیروں کی عظمت کے گن گانے کے عوض خوشنودی کے طلب گاروں میں اپنوں کے دکھ درد کو محسوس کرنے کا مادہ کب کا دم توڑ چکا ہوتا ہے۔


ضمیر سے محروم انسانوں کو اجتماعی مفادات اور اجتماعیت کی آہ بکا سے کوئی سروکار ہی نہیں ہوتا۔ یہ اوروں کی خواہشات کے تکمیل کے واسطے اپنوں کو حالات کا رُخ حقیقت کے بالکل برعکس پیش کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ یہ کہیں بھیڑو کے روپ میں بھڑیا کا کردار ادا کرتے ہیں تو کہیں بھیڑیاکے روپ میں بھیڑوکی نقالی میں جگ ہنسائی کا سبب بن جاتے ہیں۔ اُن کی اصل کمین گاہ کہیں اور ہوتی ہے لیکن پیشے سے متعلق فنون کے مظاہرے کے لیے چھتری کہیں اور تلاش کرتے ہیں۔ ظاہر و باطن میں اس ڈھنگ کے متضاد کردار کے چاپلوس خایہ برداروں کے لیے اردو لغت میں لفظ ”منافق“ سے بھی کوئی بڑا لفظ ہونا چاہئے تھا۔
ایسے لوگوں کے کارتوت کی وجہ سے انسانی مسائل زہر آلود بن جاتے ہیں۔ یہی مسائل جب سنسنی خیزی کی جانب رُخ کرتے ہیں تو مسائل کا شکار انسانوں کے جذبے سے کھیلنے والے یہ فتنہ و شر کے پروردہ منظر عام سے ایسے غائب ہوجاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔۔۔۔ انسانوں کے انتہائی بنیادی اور حقیقی مسائل سے روگردانی انسانوں کو انقلاب کی راہ پر دالتا ہے ہر ایکشن کا ری ایکشن فطری بھی ہے اور قانون ِ سائنسی بھی۔۔۔ کسی کو غم میں مبتلا کرنے کے ساتھ غم سے نڈھال انسان کے سامنے ڈرم بجایا جائے تو ردِ عمل ملائم اور لطیف ہوگا یا سنگین اور غضب ناک۔۔۔


انسانوں کی وراثتی جائیداد پر ڈاکہ بھی ہو۔۔۔ اور دفاع کی صورت میں سبق سیکھانے کی دھمکی بھی۔۔۔ماضی میں انسانیت کے ساتھ اس قسم کی ناروا سلوک نے انسانی جذبوں کو بھڑکتی ہوئی آتش کے شعلوں کی طرح بھڑکاتا رہا ہے۔ تاریخ میں چنگاریوں کے ساتھ طفلانہ طرز میں کھیلنے والے ہی گھر بار کو راکھ کا ڈھیر بنانے کا سبب خود بنتے رہے ہیں۔ اکثر اوقات یہ ہوا۔ مسائل اتنے پیچیدہ نہیں، جتنا مسائل سے دوچار انسانوں کے ساتھ چوہے کی جان کندنی (کنی) کے دوران بلی کی طرح تماشابین کا کردار ادا کیا گیا۔ مشکلات و مصائب کے بوجھ تلے دبے انسان متعلقہ اداروں کی طرف سے چشم پوشی اور روگردانی کو بے رُخی ہی نہیں اپنے خلاف بغض اور عداوت بھی سمجھتے ہیں۔ متعلقہ ذمہ دار اداروں کی ڈرامائی تجاہل عارفانہ ہی مسائل کو گھمبیر بنا دیتی ہے۔ جہاں متعلقہ اداروں کو عمومی طور پر ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی عادت نہیں ہوتی وہاں کے انسان مسائل سے قبل کی افادیت کو اہمیت دینے کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد اُن کے ممکنہ حل کے لیے ریاست اور ریاستی اداروں سے مادرانہ شفقت کی اُمید رکھتے ہیں۔


یہاں کے بعض انتظامی ادارے اور انتظامی اداروں کے اہل کار امن و امان کے شیدائیوں کو امن کا کریڈٹ دینے کے بجائے پرامن ماحول کے قیام کو بودا تصور کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ حالانکہ امن امان کو قائم و دائم رکھنا اس دور میں سب سے بڑا چیلنج ہے۔ مہذب اور شائستہ مزاج کے لوگ ہی امن و امان کے بقاء کی ضمانت ہیں۔ لیکن گنوار اور جاہل سوسائٹی کے نزدیگ نرم خوئی اور صلح جوئی بزدلی اور کمزوری کی علامت ہیں۔ ایسی ذہنیت کے لوگوں کو شاعر مشرق نے اپنے ان اشعار کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی ہیں۔
ہو حلقہئ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزِم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن


اس خطے میں امن و امان کی بقاء کو دوام بخشنے والے ازل سے فولادی کردار کے فن سے آراستہ و پیراستہ رہے ہیں۔ لیکن فولادی کردار کا ظہور ایسے انسانوں سے اُس وقت سرزد ہوتا ہے جب رزم گاہ میں معرکہ حق و باطل کے درمیان سجے۔


اگر متوقع غذر ایکسپریس وے کے ساتھ ساتھ قدم قدم میں سبز ہلالی پرچم یہاں کے باسیوں کی دلیری اور جوانمردی کے ثبوتِ استحقاق کے لیے کافی نہیں تو کیا حلقہئ یاراں میں دُشمنی مول لینا اور خونریزی برپا کردینا شجاعت و بہادری کی نشانی ہے۔
غیر مذہب انسانوں کے سماج میں صُلح کُل اور بے تعصب انسانوں کو کمزوری کی نگاہ سے دیکھا جانا کوئی معیوب عمل نہیں۔ کیونکہ غیر مہذب نامی براعظم میں لوگ ہی وہی رہتے ہیں جن کا طرزِ عمل جاہلانہ اور وہشیانہ ہوتا ہے۔ سوال یہ نہیں۔۔۔۔کہ اُس قسم کی سماج میں اس قسم کی سوچ پنپتے کیوں ہیں؟ بلکہ ستم ظریفی یہ ہے۔۔۔۔۔۔اگر ریاست کے بعض انتظامی ادارے بھی اپنے قول و فعل سے حلقہئ یاراں میں بریشم مزاج کے حاملین کو کم ہمت اور ڈرپوک تصور کرنے لگے۔ اگر شریفوں کی شرافت کو ذمہ دار اداروں میں بھی کمزوری کہنے کا مزاج پڑوان چڑھے اور اِن وجوہات کی بناء پر بجائے حقوق دینے کے ملکیتی اور پشتنی جائیدادیں من چاہے خواہش کے مطابق نیلام کرنے کی ٹھان لے۔ تو اس وقت متعلقہ انتظامی اہلکاروں کے در میں وفود کی صورت میں قطاروں میں کھڑے ہوکر ملتجی بننے کی ضرورت ہے۔ یا میدانِ عمل میں جارحانہ انداز میں جارح بننے کی۔۔۔۔؟

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
57335

بڑھتی ہوئی انتظامی خرابیاں ۔ قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

بڑھتی ہوئی انتظامی خرابیاں ۔ قادر خان یوسف زئی کے قلم سے


ملک کی انتظامی مشینری کی بڑھتی خرابیاں باعثِ ہیجان و اضطراب بنتی جارہی ہیں اور ہر شخص کے لبوں پر یہ سوال ابھر رہا ہے کہ حکومت ان خرابیوں کی اصلاح پر توجہ کیوں نہیں دے رہی؟ اس میں شبہ نہیں کہ نظم و نسق میں خرابیوں کی وجوہ متعدد ہیں، لیکن ان میں ایک وجہ ایسی بھی جو بالکل بیّن ہے اور وہ یہ کہ ہمارے اربابِ اختیار کو اس کا علم اور احساس ہی نہیں ہوتا کہ عوام کن مشکلات سے دوچار ہیں اور ان کی زندگی کس طرح اجیرن ہورہی ہے، زندگی کے کسی گوشے کو بھی لیجیے، اس کے متعلق ایسا لگتا ہے کہ انہیں کبھی معلوم ہی نہیں ہونے پاتا کہ عوام کو کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ درحقیقت اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اپنے کام بغیر کسی قسم کی دقت اور دشواری کے سرانجام پاجاتے ہیں، عوام کی حالت سے باخبر رہنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ان حضرات کا عوام کے ساتھ ربط رہے۔ وہ خود کو عوام میں ایک، اور عوام انہیں اپنے میں ایک سمجھیں، لیکن اس قسم کا ربط تو ایک طرف، ان میں اور عوام میں اس قدر بے گانگی ہوتی ہے کہ عوام کی کوئی بات ان کے گوش مبارک تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔


یاد رکھنا چاہیے کہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں عوام کی تقدیریں دی جائیں، جب تک وہ سمیع و بصیر اور خبیر و علیم نہ ہوں، وہ اپنی ذمے داریوں سے کبھی عہدہ برآ نہیں ہوسکتے، وہ ہر شکایت کے جواب میں اتنا کہہ دینا کافی سمجھتے ہیں کہ لوگ نظم و نسق کی خرابیاں بیان کرنے میں خوامخواہ کا مبالغہ کرتے ہیں۔ ایک اور سوال عموماً بارہا دہرایا جاتا ہے کہ پاکستان کے سب سے اہم اور بنیادی مسائل کیا ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب ہر صاحب فکر اپنے اپنے نقطۂ نگاہ سے دے گا، لیکن عوامی مسائل پر پارلیمان کا کیا کردار ہے، اس پر اب کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچ جانا چاہیے کہ کیا پارلیمان حقیقی معنوں میں مملکت کو، جو حالتِ بھنور میں گھری کشتی کی مثل بن چکی، مسائل سے نکالنے کے لئے کوئی قدم کسی سمت بڑھانے میں معاون بن رہے ہیں یا نہیں۔ یہ سوال جتنا آسان ہے، اس کا جواب اُتنا ہی مشکل اور ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ پارلیمان کا کردار آئین میں واضح ہے، لیکن اس پر عمل درآمد کتنا ہورہا ہے، اس کے مظاہر شرمندگی سے سر جھکانے کے لئے کافی ہیں، لیکن اس کی درستی کی ذمے داری بھی خود اراکین پارلیمان پر ہی عائد ہوتی ہے کہ کسی بدانتظامی کا حل انہیں خود ہی نکالنا ہوگا۔ پارلیمان سے باہر سیاسی حل نکالنے کا غیر سیاسی تجربہ ماضی میں کبھی خوش گوار ثابت نہیں ہوا۔


عوام کے مسائل کا حل درحقیقت پارلیمان اور اداروں کے ہاتھ میں ہے اور پارلیمان کا سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ ایک ہی اور وہ ہے قانون سازی۔ انتظامی خرابیوں کو اگر دُور کیا جاسکتا ہے تو وہ پارلیمان میں قانون سازی کے ذریعے، لیکن حالات اس نہج پر پہنچ چکے کہ بدانتظامی سے ہر طبقہ تنگ آکر کہنے لگ جاتا ہے کہ اس مسئلے کا حل اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ چہرے نہیں نظام بدلو، لیکن کون سا نظام، کس کو پسند ہے، یہاں اس قدر اختلافات ہیں کہ اس پر طویل بحث کرنا وقت کا ضیاع ہے، ہر چند کہ جمہوریت اور آمریت کے نام پر رائج تمام نظام آزمائے جاچکے۔ حالات سے دل برداشتہ ہوکر اس نتیجے پر پہنچنا بھی ایک لحاظ سے حق بجانب ہے، لیکن ہماری اس روش کے نتائج کیا نکل سکتے ہیں؟ قانون کی عمل داری نہ ہونے اور انتظامی بدنظمی و خرابیوں سے پورے معاشرے پر مضر اثرات مرتب ہوں گے اور کسی ایسی قدر مشترک پر اتفاق ہونا بھی ناممکن ہوجائے گا، جو مسائل کا حل نکالنے کے لئے سودمند ہوسکتی ہو۔


انتظامی خرابیاں، قریباً ہر ادارے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں اور یہ راقم کا ذاتی تجربہ ہے کہ ایسے ادارے، جن کا کام کسی ادارے کی بدانتظامی کو درست کرنا ہوتا ہے، وہاں بھی انتظامی خرابی کی نئی اشکال ہوتی ہے۔ صاف و شفاف نظم و نسق کا تصور شاید کتابوں میں ہی اچھا لگتا ہے، اس لئے ہر سُو جب عملی طور پر واسطہ پڑتا ہے تو گوناگوں مسائل سے سابقہ پڑتا ہے۔ عدم برداشت کے اس ماحول میں آپ اپنا اظہاریہ بھی کھل کر اس لئے نہیں لکھ سکتے، کیونکہ جن حالات سے واسطہ پڑتا ہے، اس کے مضر اثرات سے بھی بچنا اہم ہوتا ہے۔ انتظامی کارکردگی کے لئے سب سے احسن طریقہ قانون کا نفاذ اس کی درست تشریح کے ساتھ ضروری ہے۔ قاعدے قانون اور ضابطے بنائے ہی اس لئے جاتے ہیں، تاکہ حق کے مطابق کیے جانا ہی کسی کامیابی کی عملی دلیل بن سکے۔ قانون پر عمل درآمد ہونے میں احتساب کا خوف ہی کسی انتظامی خرابی کو دور کرنے میں معاون ہوسکتا ہے۔ خرابی کسی بھی نہج پر ہو، احتساب کا نفاذ اور عمل کا معیاری میزان ہی معاشرتی بگاڑ کو کم کرسکتا ہے۔


حکومت کسی بھی جماعت کی ہو، لیکن اس کی رِٹ کا پہلا زینہ انتظامی معاملات پر ٹھوس گرفت ہونے سے بنتا ہے۔ انتظامی رویے میں مصلحت اور کوتاہ اندیشی سے نقصانات کا اشاریہ بڑھ جاتا اور عوام میں بداعتمادی و مایوسی پھیلنا شروع ہوجاتی ہے، جس کے نتائج ہر حال میں کسی بھی صورت سودمند نہیں ہوتے۔ عوام کو قیام پاکستان کے بعد ہی سے ہر دور میں بدانتظامی کا سامنا کسی نہ کسی صورت رہا، شاید یہی وجہ ہے کہ احتساب کا عمل بھی کمزور اور ناتواں رہا، جس کے نتیجے میں قانون کا خوف اور رٹ متاثر ہوئی، ہر نئے دور میں انتظامی خرابیوں کی نئی قسم متعارف ہوئی اور حالت یہ ہوچکی کہ کسی ایک مرض کا علاج مکمل ہوتا نہیں کہ دوسرے جگہ زخم بگڑنے لگ جاتا ہے۔ محکمے یا ادارے انسانوں سے بنے ہیں، اس لئے غلطیوں اور کوتاہی سے مبّرا نہیں ہوسکتے۔ یہ کسی خودکار نظام کے تحت نہیں چلتے، اس لئے اس میں کسی بھی بے انتظامی کا ہونا خارج ازامکان نہیں، تاہم غلطی کو سمجھ اور مان کر بنیادیں درست کرلینا سب سے اہم نکتہ بن جاتا ہے، کیونکہ معاشرے کی دیوار انہی بنیادوں پر رکھی جانی ہے، اگر اس میں کجی ہوئی تو پوری عمارت کا سیدھا ہونے کا تصور، خود فریبی اور قوم کو دھوکا دینے کے مترادف کہلائے گا۔ 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57333

داد بیداد ۔ نجی شعبے کا اشتراک ۔ ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ نجی شعبے کا اشتراک ۔ ڈاکٹرعنایت اللہ فیضی

خیبر پختونخوا کی حکومت نے غیر فعال ہسپتا لوں کو پوری طرح فعال بنا کر عوام کوا ن کی دہلیز پر سہو لیات دینے کے لئے نجی شعبے کے اشتراک سے ایک تدریجی عمل شروع کرنے کا پہلا معا ہدہ کیا ہے پہلے مر حلے میں 10ہسپتا لوں کو نجی شعبے کے حوالے کر کے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلا یا جا ئے گا اس معا ہدے کی تقریب میں وزیر اعلیٰ محمود خا ن بھی مو جو د تھے .

منصو بے کی تفصیلات بتاتے ہوئے صو با ئی وزیر برائے صحت اور خزا نہ تیمور سلیم جھگڑا نے اخباری نما ئیندوں کو بتا یا کہ ہمارے پا س ہسپتا لوں کا بہترین بنیا دی ڈھا نچہ مو جو د ہے لیکن وسائل کی کمی کی وجہ سے اس انفرا سٹرکچر سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھا یا جا رہا کئی ضلعی ہسپتا لوں کو سی ٹی سکین یا ایم آر آئی کی ضرورت ہے کئی ہسپتا ل ایسے ہیں جہاں ایکسرے اور لیبارٹری کی جدید مشینری در کار ہے کئی ہسپتا لوں میں لیڈی ڈاکٹر اور ڈینٹل کلینک کی سہو لت نہیں کئی ہسپتا ل ایسے ہیں جہا ں دس بیما ریوں میں سے آٹھ بیما ریوں کے سپشلسٹ کی آسا میاں خا لی پڑی ہیں .

حکومت کی اتنی استعداد نہیں کہ اس طرح کی خا میوں پر قا بو پا سکے اس لئے حکومت نے عوامی مفاد میں نجی شعبے کے اشتراک سے ایسے تما م ہسپتا لوں کو پری طرح فعال بنا نے کا پرو گرام وضع کیا ہے اس کے دو بڑے فائدے ہونگے، حکومت کے فراہم کئے ہوئے بنیا دی ڈھا نچے سے کا م لیا جا ئے گا بنیادی ڈھا نچہ کا ضیا ع نہیں ہو گا دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ عوام کو ضلع کے اندر علا ج معا لجہ کی بہترین سہو لتیں ملینگی اور جدید ترین مشینری دستیاب ہو گی، وزیر صحت نے وضا حت کی کہ ما ضی میں نجی شعبے کے اشتراک سے چلنے والے ہسپتا لوں میں لو گ مخصوص فیسوں کی شکا یت کر تے تھے.

اب صو با ئی حکومت نے صحت انصاف کا رڈ کے ذریعے عوام کو مفت سہو لت فراہم کی ہے اس بنا ء پر نجی شعبے کی طرف سے جو فیس مقرر ہو گی اس کا بو جھ غریب عوام پر نہیں پڑے گا حکومت بیمہ کمپنی کو ادا کریگی بیمہ کمپنی ہسپتا ل کے بل جمع کرے گی اگر غور سے دیکھا جا ئے تو صحت کے شعبے میں نجی شعبے کا اشتراک مو جو د ہ زما نے کا انقلا بی اقدام ہے ما ضی میں چھوٹے پیما نے پر اس کا تجربہ کیا جا چکا ہے صحت انصاف کارڈ کی سہو لت سے پہلے عوام پر فیسوں کا بوجھ پڑتا تھا اب یہ بوجھ بیمہ کمپنی برداشت کریگی عوام پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا یہ حقیقت ہے کہ 1972اور 1988کے درمیان سولہ سالوں میں خیبر پختونخوا کے تما م اضلاع کو ہسپتا لوں کی تعمیر کے لئے وسائل فراہم کئے گئے جن کی مدد سے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوار ٹر ہسپتا ل، تحصیل ہیڈ کوار ٹر ہسپتا ل، رورل ہیلتھ سنٹر اور بیسک ہیلتھ یو نٹ قائم کئے گئے.

ایک ایک ضلع میں ایسی 38عما رتیں قائم ہوئیں 1988ء کے بعد سیا سی انتشار کا زما نہ آیا یہ عمارتیں استعمال میں نہ آسکیں 2001ء میں ڈیو لوشن پلا ن کی وجہ سے صحت کی فراہمی کا پورا نظام متاثر ہوا اس کے بعد پھر سیا سی افراتفری کا دور آیا چنا نچہ ہسپتا لوں کی جو عمارتیں قائم ہوئی تھیں ان عمارتوں میں علا ج معا لجہ کی سہو لتیں فراہم کرنے پر تو جہ نہیں دی گئی کئی دفعہ اخبارات میں رپورٹیں آئیں کہ کسی جگہ حا دثہ ہوا دو کلو میٹر فاصلے پر بیسک ہیلتھ یو نٹ کی خا لی عمارت تھی، 15کلو میٹر کے فاصلے پر رورل ہیلتھ سنٹر کی خا لی عمارت تھی زخمیوں کو 30کلو میٹر مزید سفر کر کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال لا یا گیا تو ان میں سے کئی جا نیں ضا ئع ہو چکی تھیں اس ہسپتال میں سی ٹی سکین نہ ہونے کی وجہ سے زخمیوں کو پشاور ریفر کیا گیا توراستے میں ان کی موت واقع ہو گئی نجی شعبے کے اشتراک سے ہسپتال چلا ئے گئے تو ایسے واقعات نہیں ہو نگے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57318

مری حادثہ اور ہماری زمہ داریاں – کریم علی غذری

مری حادثہ اور ہماری زمہ داریاں – کریم علی غذری

گزشتہ ہفتے سیاحوں کی  جنت نظیر وادی ملکہ کوہسار مری میں قدرتی حسن و منظر سے لطف اندوز ہونے والوں کے ساتھ اندوہناک حادثہ پیش ایا۔  اس پر جتنا بھی رنج و غم کا اظہار کیا جائے کم ہوگا۔ ہمدردی کے جتنے اوراق کو پلٹا جائے تو اس المناک حادثے کو بیان کرنے کے الفاظ نہیں ملیں گے۔ موت برحق ہے لوٹنا اسی خالق کائنات کی طرف  اسی کے حکم سے ہے۔ لیکن جب اللہ نے انسان کو اشراف المخلوقات کے عظیم لقب سے نوازا ہے تو اس کے پیچھے چند عوامل بھی ہیں جن کی وجہ سے وہ اشراف المخلوقات کے عظیم منصف پر فائز ہے۔ عقل وہ اوزار ہے جو تمام جانداروں میں انسان کو ممتاز بناتا ہے اور عقل ہی کے مثبت استعمال سے انسان مختلف خطرات اور نقصانات سے محفوظ ہوتا چلا آرہا ہے۔ 


عظیم دھماکے یعنی دی بیگ بینگ سے شروع ہونی والی کائنات میں 13.6 ارب سال اور زمین کے 4.6 ارب سال میں ارتقاء سے عقل نے زندگی کے ہر شعبے میں چونکا دینی والی کامیابیاں سمیٹی ہے۔ عقل اور علم کے وسیع نظریے کو سامنے رکھ کر سائنس و ٹیکنالوجی، طب، فلکیات کے شعبے نے ہر طرح فتوحات سمیٹی ہے۔ ایٹم کے اندر پروٹان کے چارجز سے لیکر گلکسی اور بلیک ہول تک رسائی عقل اور علم کی روشن دلیلیں ہیں۔ لیکن اگر ہم ان نایاب قدرتی نعمتوں سے استفادہ حاصل نیہں کرسکتے ہیں تو خود کو کس طرح اشراف المخوقات کے ترازو میں تول سکتے ہیں۔ جب بھی پاکستان میں کوئی المناک حادثہ رونما ہوتا ہے سارا الزام حکومت، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کندھوں پہ ڈال دیا جاتا ہے۔ پھر تنقید برائے اصلاح کے بجائے تنقید برائے تنقید کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔  کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ بحیثیت شہری ہم پر بھی کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں۔  پاکستان کی ائین کا نفاذ ہم پر ہوتا ہے اور ہم کو اس کے مطابق چلنا ہوتا ہے۔

31 دسمبر کی شب اور پھر 5 جنوری کو محکمہِ موسمیات نے مری میں طوفان کی پیشن گوئی کی تھی اور اس دوران میں این ڈی ایم اے نے پی ڈی ایم اے کو الرٹ جاری کیا تھا کہ موسم میں ہونی والا بدلاو کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ اور ایسا ہی ہوا جس کی وجہ سے ایک المناک واقعہ نے جنم لیا، 22 چراغ ہمیشہ کے لیے بجھ گئے۔ ایڈونچر کے شوقین تو ہم سب ہیں لیکن زندگی کو خطرے میں ڈال کر بیغیر کسی تیاری کے ایڈونچر کرنا کسی طرح بھی عقل سلیم کی دلیل نہیں انسانی زندگی بہت قیمتی شے ہے جس کی قدر ہونی چاہیں۔ اگر کچھ یہ سب لوگ زمہ داری کا مظاہرہ کرکے مجاز اداروں کی باتوں پر عمل کرتے تو یقیناً اس حادثے سے بچا جاسکتا تھا۔  مری میں اس وقت 4000 کے قریب گاڑیوں کے پارکنگ کی گنجائش ہے مگر 3 دن کے دوران 95 ہزار سے زائد گاڑیاں مری کے حدود میں داخل ہوچکی تھیں۔

باوجود اس کے مری میں ہوٹل، ریسٹورنٹ، موٹیلز بھر چکے ہیں سیاح جوق در جوق مری کے راستوں پر رواں دواں تھے۔ کیا ہماری خود کی اتنی ذہنی صلاحیت نہیں ہے کہ سب کچھ عیاں ہونے کے باوجود موت کے کنویں کی طرف لپکے؟ خود کو اور اپنوں کو یوں اذیت ناک موت سے ہمکنار کروائیں؟ قدرتی حسن و منظر سے تو اس وقت لطف ہوسکتے ہیں جب زندگی باقی رہے گی۔ ایڈونچرز کے نام پر خود کو خطرے میں ڈالنا کہاں ذی شعور انسان کی علامت ہے۔ دوسری بات وہاں کی مقامی باشندوں پر تنقید کے تیر چلائے جاتے ہیں اور لوگ ان پر فوقیت حاصل کرنے یا اپنے علاقے کو ان پر ترجیح دینے میں  لگے ہوئے ہیں، سیاحوں کی زبانی سنیے تو مقامی افراد نے بڑھ چڑھ کر سیاحوں کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کی  مگر ان لوگوں نے گاڑی میں رات گزرنے کو ترجیح دی۔ بہرحال اگر احتیاط کے دامن کو مضبوطی سے پکڑا جائے تو آنے والے وقت میں اس طرح کے دردناک حادثات سے بچا جاسکتا ہے۔

chitraltimes Mari incident 22 dies tourists 21
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
57315

جہنم کا راستہ ۔ محمد شریف شکیب

وسطی ایشیاء کی اسلامی ریاست ترکمانستان نے جہنم کا دروازہ بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اس خبر سے عمومی طور پر یہ تاثر لیاجاتا ہے کہ جہنم کا راستہ سابق سوویت یونین سے آزادی حاصل کرنے والی ریاست ترکمانستان سے ہوکر گذرتا ہوگا۔ کچھ لوگوں کی رائے یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے حکمرانوں نے اپنے منفی کرتوتوں سے دنیا کو ہی لوگوں کے لئے جہنم بنادیا ہے۔ کسی دوسرے جہنم کی ضرورت نہیں رہی۔ اس لئے اس کا راستہ بند کرنے کا فیصلہ کیاگیاہوگا۔

عام لوگوں کی سمجھ میں نہ آنے والے تخیلات شاعر لوگوں کے ذہنوں میں آتے ہیں مگر سیاست دان اس لطیف حس سے عام طور پر بے بہرہ ہوتے ہیں۔ مرزا غالب نے کہا تھا کہ ”جاتے ہوئے کہتے ہو، قیامت کو ملیں گے۔ کیاخوب، قیامت کا ہے گویاکوئی دن اور“شاعر نے یہاں محبوب سے جدائی کو اپنے لئے قیامت برپا ہونے سے تعبیر کیا ہے۔اپنے قارئین کو تجسس کے عذاب سے چھٹکارہ دلانے کے لئے جہنم کے راستے کی حقیقی کہانی بتاتے چلیں۔1971میں تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش میں ترکمانستان کے صحرائی علاقے قراگم میں ماہرین نے ایک کنواں کھودا تھا۔ کنوئیں سے دھکتے آگے کے شعلے نکلنے لگے۔ اسے بجھانا اس وقت ممکن نہیں تھا۔ اس وجہ سے ماہرین اسے کھلا چھوڑ کر نو دو گیارہ ہوگئے۔یہ چھوٹا سا گڑھابڑھتے بڑھتے 70میٹر چوڑا اور20 میٹرگہرا ہوگیا اور گذشتہ پچاس سالوں سے اس گڑھے سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں اور یہ شعلے کافی فاصلے سے نہ صرف دکھائی دیتے ہیں بلکہ ان کی تپش بھی دور سے ہی محسوس کی جاسکتی ہے۔ اس گڑھے کو لوگوں نے جہنم کے راستے کا نام دیا۔

گذشتہ دو عشروں سے صحرائے قراگم میں موجود یہ دھکتی آگ کا گڑھا سیاحوں کے لئے ایک پرکشش مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔ حال ہی میں ترکمانستان کے صدر قربان علی محمدوف نے حکم جاری کیاہے کہ 50 برس سے جہنم کے دروازے نامی گڑھے میں دہکتی آگ کو بجھانے کا کوئی راستہ نکالاجائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے ملک میں موجود گیس جیسے قدرتی ذخائر کو خود نقصان پہنچا رہے ہیں قدرتی گیس کے اس وسیع ذخیرے سے ہم منافع کما سکتے ہیں۔ اس منافع سے ہم لوگوں کی زندگیاں بہتر بنا سکتے ہیں۔ صدر کا کہنا ہے کہ انسانوں کے ہاتھوں بننے والے اس گڑھے کی وجہ سے ماحول اور اردگرد رہنے والے لوگوں کی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس لیے ماہرین اس بارے میں کوئی راستہ نکالیں اور آگ کو بجھانے کی کوشش کریں۔وسطی ایشیاء کا یہ خطہ تیل اور گیس کے ذخائر سے مالامال ہے مگر گرم پانی تک پہنچنے کا راستہ نہ ملنے کی وجہ سے یہ قیمتی وسائل ضائع ہورہے ہیں۔ ہمارے ہاں گیس لوڈ شیڈنگ کے ستائے لوگ قدرتی گیس کے اسراف پر کڑھ رہے ہوں گے۔

یہ بات سچ ہے کہ ایک اندھا شخص بینائی کی نعمت کی قدر بہترجان سکتا ہے۔اندھا کیاجانے بسنت کی بہار والی کہاوت محض طنز ہے۔ہم نے دیکھتی آنکھوں والوں کو بھی بصارت کی نعمت سے محروم دیکھا ہے۔علامہ اقبال نے شاید انہی لوگوں کے بارے میں کہا تھا کہ ”دل بینا بھی کرخدا سے طلب۔ آنکھ کا نور دل کا نور نہیں“ جو لوگ بصارت کی نعمت سے استفادہ کر رہے ہیں وہ اس کی قدر و قیمت سے نسبتاً کم آگاہ ہیں۔اسی موضوع سے میل کھانے والی ایک اور مشہور کہاوت ہے کہ ”گھر کی مرغی دال برابر ہے“یعنی جو چیز دستیاب ہے اس کی قدر نہیں کی جاتی۔جو چیز پاس نہیں، اس کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ہمارے ہاں بھی بہت سی نعمتیں ایسی ہیں جن کی قدروقیمت کا ہمیں صحیح اندازہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس چار موسم ہیں، کھلاسمندر ہے، فلک بوس، برف پوش چوٹیاں ہیں، لق و دق صحرا ہیں،ذرخیز زمینیں ہیں۔انواع و اقسام کی جنگلی حیات،گھنے اور سرسبز و شاداب جنگل ہیں۔بیکار چیز سمجھ کر ہم بے دردی سے ان کا صفایاکررہے ہیں۔خدا کرے کہ قربان علی محمدوف کی طرح ہمارے حکمرانوں کو بھی اپنے قدرتی وسائل کی حفاظت اور انہیں قومی ترقی کے لئے بروئے کار لانے کی توفیق نصیب ہو۔آمین

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57283

میلہ ماگھی، سکھ مذہب کامذہبی تہوار – ڈاکٹر ساجد خاکوانی (اسلام آباد،پاکستان)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میلہ ماگھی،سکھ مذہب کامذہبی تہوار – ڈاکٹر ساجد خاکوانی (اسلام آباد،پاکستان)

( 13جنوری، سکھوں کی عید کے موقع پر خصوصی تحریر)

                ”ماگھی“کالفظ بکری تقویم تاریخ کے دوسرے مہینے ”ماگھ“سے لیاگیاہے۔یہ تہوار ماگھ کی پہلی تاریخ کو پورے ہندوستان میں منایاجاتاہے۔سکھوں کے ہاں اس کو ”میلہ ماگھی“کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔جب کہ ہندوستان کے دوسرے علاقوں جیسے نیپال اور بنگلہ دیش میں اس تہوارکانام ”مکرسنکرانتی“ہے۔تامل ناڈومیں اس دن کو”پونگل“کہ کرمنایاجاتاہے اورکیرالہ،کرناٹک اورآندھراپردیش میں اسے طویل نام کی بجائے ”سنکرانتی“کامختصرنام ہی دیاجاتاہے۔اس تہوارکی تاریخ میں ہندوستان کی ستارہ شناسی،علم نجوم اور حساب گردانی کابغورمشاہدہ کیاجاسکتاہے۔یہ تہوار شمسی تقویم کے پہلے مہینے جنوری کے وسط میں کہیں واقع ہوتاہے۔عصری تحقیقات کی مطابق جنوری کی انہیں تواریخ میں سورج کی سالانہ گردش خط قوس سے گزرکرخط جدی میں داخل ہوجاتی ہے۔ہندی میں جدی کو”مکر“ کہتے ہیں اسی لیے اس تہوار کے ساتھ ”مکر“کاسابقہ لگایاجاتاہے۔یہ دن اس لحاظ سے بھی اہمیت کاحامل ہے سورج کاخط تبدیل ہونے سے دن کی روشنی کے دورانیے میں اضافہ شروع ہوجاتاہے اور عرف عام میں کہاجاتاہے کہ دن بڑے ہوناشروع ہوگئے ہیں۔رات کے مختصراوردن کے طویل ہونے کی مسرت لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ کاباعث بن جاتی ہے اور اس سے موسم سرماکی شدت کی روبہ زوال ہوجاتی ہے چنانچہ یہ امور عام عوام کے کام دھندا،فصلوں اور سفرمیں آسوددگی اورراحت کاباعث بنتے ہیں اسی لیے ان کے آغازپر یہ مذہبی تہوار منایاجاتاہے جو ایام سالانہ میں حسین تبدیلی کاآغاز ہوتے ہیں۔جن خلائی حقائق تک آج کی سائنس نے اب رسائی حاصل کی ہے ہندوستان کے ہزاروں سال قبل کے ماہرین ریاضی و حساب و الجبرااور ماہرین علم نجوم و ماہرین ارضیات و افلاکیات ان سے کماحقہ واقف تھے۔اس سے اندازہ ہوتاہے ہندوستان میں وحی کانزول جاری تھا کیونکہ قرآن مجیدنے بتایاہے کہ ”ولکل قوم ھاد(سورۃ رعد)“ کہ ہم نے ہرقوم کی طرف نبی بھیجے ہیں۔

                اسی سے ملتاجلتاایک اورتہوارجسے ”لوہڑی“کہاجاتاہے، یہ بھی مشرقی پنجاب،ہریانہ،دہلی کے نواح،جموں،کشمیر اور راجھستان میں ہرسال منایاجاتاہے۔چونکہ ”لوہڑی“اور ”ماگھی“ایک دن منائے جاتے ہیں اس لیے غالب گمان یہی ہے کہ یہ ایک ہی تہوارہے جودومختلف ناموں سے موسوم ہے۔اس”لوہڑی“تہوار کی وجہ جواز بھی بڑے دنوں کی آمدہے جس کے باعث دن کازیادہ حصہ کارآمدہوجاتاہے اورتاجر،کسان،سوداگر اور بیوپاری حضرات کو اپنی آمدن میں اضافہ کی امیدنظرآنے لگتی ہے اورخواتین کوبھی گھرگرہستی کے لیے وقت کی اضافت میسرآجاتی ہے۔”لوہڑی“کے تہوار پر ایک گیت بھی گایاجاتاہے جو ایک مسلمان”دلابھٹی“سے موسوم ہے۔صدیوں بعد ”دلا“ شایداصل میں ”عبداللہ“ہوگا جو پنجابی ثقافت میں نام کے اسم تصغیرکے طورپر اب ’دلا“سے مشہورہوگیا۔یہ ایک لوک کہاوت ہے کہ وقت کاحکمران ایک خوبصورت لڑکی کواغواکرناچاہتاتھالیکن اس ”دلابھٹی“نے اس لڑکی کی مرضی کے مطابق اس کے چاہنے والے ایک لڑکے سے اس کی شادی کردی۔یہ شادی جنگل میں چھپ کر کی گئی جس میں لڑکا،لڑکی اور ”دلابھٹی“ہی شامل تھے اورچوتھاکوئی فرد نہ تھا۔لڑکالڑکی چونکہ ہندوتھے اور ”دلابھٹی“کوہندووانہ شادی کے منترنہیں آتے تھے اس لیے اس نے آگ کے گرد سات پھیرے لگاکر ایک پنجابی گیت گادیاجس میں وقت کی ستم ظریفی کو حاصل کلام بنایاگیاتھا۔چنانچہ آج تک وہ لوگ گیت ”لوہڑی“کے اس تہوار میں رقص و سرود اورمحفل موسیقی میں آگ کے گرد بیٹھ کربڑی کثرت سے گایاجاتاہے۔

                قدیم زمانوں میں ہمالیہ کے دامن کے جان لیوا برفانی  یخ بستہ ماحول میں بسنے والے لوگ سردیوں کے وسط میں یہ تہوارمناتے تھے جب ربیع کی فصل اترچکتی تھی۔اس زمانے میں ہفتوں کے بعد گھرکے صحن میں آگ کاالاؤ تیارکیاجاتاتھا،اس کے گرد ساراخاندان اکٹھاہوتااورجاڑے کے سخت ترین ایام کے خاتمے اور بڑے دنوں کی آمدکااستقبال کیاجاتااور ناچ،گانااورکھانے کی محفلیں منعقد کی جاتی تھیں۔یہی روایت ہمالیہ سے بہنے والے دریاؤں کے ساتھ ساتھ بہتی ہوئی ہندوستان کے دیگرعلاقوں میں بھی پہنچی اور اس نے باقائدہ مذہبی تہوارکی شکل اختیارکرلی۔پنجاب میں جب سکھوں کاراج تھاتو ”لوہڑی“کے دن راجہ کی طرف سے کپڑے اور قیمتی تحائف عوام میں درجہ بدرجہ تقسیم کیے جاتے تھے اور آنے والی رات کو آگ کابہت بڑاالاؤ روشن کیاجاتااور اس کے گرد راجہ اپنادربارلگاتااور ساری رات اس تہوار کو منانے کاجشن جاری رہتا۔اس کے بعد آج تک یہ تہوار منایاجاتاہے۔اس دن بچے ”دلابھٹی“کانام لے کر گیت گاتے ہیں۔صبح سویرے بچے بچیوں کی ٹولیاں میٹھی کھیرکھاکر اور شوخ رنگ کے کپڑے پہن کرگھروں سے نکل کر گلیوں میں اکٹھی ہوتی ہیں،ایک بچہ اونچی آوازمیں گیت گاتاہے،گیت کامصرع ختم ہونے پر سب بچھے مل کر”ہوئے“کالفظ بولتے ہیں اور گیت کاایک بندختم ہونے پر پہلامصرع سب بچے مل کرگاتے ہیں اوریہ سلسلہ چلتارہتاہے۔یہاں تک بچوں کی یہ ٹولیاں کسی وڈیرے کے گھرجمع ہوکر خواتین کوبھی اپنے ساتھ ملالیتی ہیں اور بعددوپہرتک یہ سلسلہ چلتاہے جس میں بڑوں کے ساتھ شامل ہونے میں آلات موسیقی اور مقالی رقص کی”بھنگڑا“اور”لڈی“مشق بھی شامل ہوجاتے ہیں۔”بھنگڑا“مردوں کا رقص ہوتاہے جوبہت بڑے پیٹ والے ڈھول کی تھاپ پر ناچاجاتاہے اور ”لڈی“کارواج عورتوں میں پایاجاتاہے جوتالیوں اور چٹکیوں کے ساتھ کرتی ہیں اور یہ دونوں رقص دائرے کی شکل میں اجتماعی طورپر گھومتے ہوئے کیے جاتے ہیں۔اس رسم کے اختتام پر میزبان اہل خانہ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مشروبات اور میٹھائی سے شرکاء کی تواضع کریں گے چنانچہ بڑے پیمانے پر اس کااہتمام کیاگیاہوتاہے جس کی تیاری میں کئی دن سے کئی لوگ مصروف عمل ہوتے ہیں۔دوپہرکاکھانااپنے اپنے گھرکھائیں یاایک ہی جگہ کھائیں اس کے مشمولات لازمی طورپر سرسوں کاساگ اور مکئی کی روٹی ہی ہوتی ہے۔جموں اورکشمیرمیں ”چھجاناچ“اور ”ہیرن ناچ“ کے نام کارقص بھی کیاجاتاہے۔یہاں مورکے پروں سے ایک خاص قسم کا دائرہ نما ”چھجا“تیارکیاجاتاہے جسے عام فہم زبان میں ٹوکراسمجھ لیناچاہیے جو دیہاتوں میں خواتین سروں پر اٹھائے ہوتی ہیں۔اس ”چھجا“کو باری باری ہاتھوں میں پکڑکر ایک خاص سرمیں بجنے والے سازینے پر رقص کیاجاتاہے جو”ہیرناچ“کہلاتاہے اوریہ صرف لڑکیاں ہی کرتی ہیں۔یہ ”چھجا“محلے کے سب گھروں میں جاتاہے اورخوشیاں لٹاتاہے۔

                آنے والی رات میں جلائی جانے والی آگ کاانتظار ہفتوں پہلے سے کیاجارہاہوتاہے۔نوجوان لڑکے لڑکیاں محلے اوربرادری کے ہر گھرمیں جاتے ہیں اور اس رات کاسامان اکٹھاکرتے ہیں۔ہر گھروالے ان کاانتظارکرتے ہیں،اگرکسی میں نہ جاسکیں تواس گھروالے ناراضگی کااظہارکرتے ہیں۔ہرگھراپنی بساط کے مطابق اس رات کے لیے اپناحصہ ڈالتاہے۔اگرکوئی گھرانہ اس رات میں براہ راست استعمال ہونے والی اشیاء نہ دے سکے تواہل خانہ ایسی چیزیں ضروردے دیتے ہیں جن کا زرتبادلہ کام آسکے۔اگرسامان پورانہ ہو تو محلے کے لڑکے ایک لڑکے کے منہ پر راکھ لگاکراوراس کی کمرمیں رساباندھکراس کے پیچھے چلتے ہیں اور لوہڑی گیت گاکر اونچے اونچے سے ان چیزوں کوگاتے ہیں جن کی ضرورت ابھی باقی ہوتی ہے،محلے کے گھروں والے لڑکوں کی اس حرکت پرمحظوظ ہوتے ہیں اورمزیدسامان ضرورت کی تکمیل بھی کردیتے ہیں۔رات کی آگ پر ساراگاؤں جمع ہے،مردوخواتین،لڑکے لڑکیاں اوربچے بچیاں ہر کوئی اپنے چہرے پر خوشیاں سجائے اور زرق برق لباسوں کوزیب تن کیے اس تہوارمیں شریک ہیں۔قسم قسم کے کھانے پکے ہوئے بھی ہیں اور پک بھی رہے ہیں اور بیچے خریدے بھی جارہے ہیں اور مفت بھی تقسیم ہورہے ہیں۔مکئی دانوں کے بھوننے کی بھینی بھینی خوشبو ساری میلے میں پھیلی ہوئے ہے،دال کے لڈواور کٹی اور مصالحہ لگی گاجریں اورمولیاں اورشلجم بھی ہیں اور سب سے زیادہ پسندیدہ،لذیزاور خوشبودارپکوان وہ چاول ہیں جن کی رغبت ہرکسی کواپنی طرف کشش کیے ہوئے ہے۔ہرگھرکی خواتین خواہش رکھتی ہیں ان کاپکاہوا کھاناسب لوگ ذائقہ کریں اورپھرتعریف بھی کریں۔رات گئے تک یہ تقریب جاری رہتی ہے۔

                براہواس سیکولربدیسی راج کاجس نے یہاں کے مقامی لوگوں کے چہروں سے مسکراہٹ چھین کربستیوں کوبے رونق کردیا۔انگریزسے پہلے سب مذاہب کے لوگ اکٹھے اورہنسی خوشی رہتے تھے،انگریزکے بعدسے ایک ہی مذہب اورایک ہی برادری اور ایک ہی علاقہ،رنگ و نسل وزبان کے لوگ ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے اورخون کی ندیاں بہنے لگیں۔سیکولرازم نے ہندوستان سمیت پوری دنیاکو پیٹ کی خواہش اورپیٹ سے نیچے کی خواہش کاغلام بناکرمعیارزندگی کی بڑھوتری کے ایک غیراعلانیہ مقابلے کی آگ کاایندھن بنارکھاہے وجہ صرف یورپی مصنوعات کو مجبوری بناکردنیاسے دولت سمیٹنااوربنی نوع انسان کو سودکی بیڑیاں ڈال کرانہیں اپناتہذیبی،تعلیمی،معاشی اوردفاعی غلام بناناہے۔اب شرق و غرب سے ٹھنڈی ہواؤں کی آمدآمدہے بس اب یہ مداری تماشادکھاکر گیاچاہتاہے اورشکست خوردہ سرمایادارانہ نظام مرض الموت میں گرفتارمیں آخری سانسیں لے رہاہے۔دنیاکوبہت جلد انبیاء علیھم السلام کے پیغام کی طرف پلٹناہے،صرف اسی ذریعے سے خوشیاں ملیں گی،باقی سب ذرائع شرمندگی و ندامت اور نقصان وخسارہ پر منتج ہونے والے ہیں سوائے ان کے جوایمان لائے،نیک عمل کیے،حق بات کی تلقین کی اور صبرکی تاکید کرتے رہے۔        

[email protected]

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57280

آغا خان سکول کہوت کا قیام اور اس کا علمی سفر -تحریر : سردار علی سردارؔ

آغا خان سکول کہوت کا قیام اور اس کا علمی سفر -تحریر : سردار علی سردارؔ

کہوت وادی تورکہو کےشمال مشرق میں سطح سمندر سے تقریبا 9930 فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور تورکہو کے  خوبصورت اور دلنشین علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔  کسی علاقے کی خوبصورتی نہ صرف یہاں کی ثقافت، تہذیب و تمدن اور معزز لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے نمایاں ہوتی ہے بلکہ تعلیم،تعلیم یافتہ افراد اور تعلیمی ادارے بھی کسی علاقے کی ثقافتی حسن میں شمار ہوتے ہیں ۔لہذا تعلیم کو فروع دینے میں سرکاری اور پرائوٹ اداروں  کے ساتھ ساتھ  آغا خان ایجوکشن سروسز بھی  اپنی روشن روایات اور زرۤین اصولوں کے مطابق علاقے میں علم کا دیا جلانے میں پیش پیش ہے۔ آغاخان ہائی اسکول کہوت آج جس مقام پر قوم کے نونہالوں کے علم کی آبیاری میں اپنا حصۤہ ڈال رہا ہےوہ جدید دور کے تقاضوں اور گلوبل دنیا کے چیلنجیز کے عین مطابق ہے ۔

آغاخان سکول کہوت کا علمی سفر کب شروع ہوا  اور آج اس کی پوزشن کیا ہے ؟کے بارے میں ایک تحقیقی جائزہ پیش کیا جاتا ہے ۔

یہ 1982 ء کا زمانہ تھا  جب سردار ولی صاحب ( موجودہ بونی دوکاندہ) گورنمنٹ مڈل اسکول کہوت کے انچارچ ٹیچر تھے۔موصوف  ایک با اصول، دیانت دار اور اپنے کام سے مخلص شخصیت کا مالک  ہے ۔ اور  وہ اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق مزکورہ اسکول میں اپنی ذمہ داریاں انجام دینے میں پیش پیش تھے۔آپ کی انہیں خوبیوں اور انتظامی معاملات میں تجربہ ہونے کی وجہ سے آغاخان ایجوکشن سروسز کی طرف سے چیرمین شپ کا اضافی عہدہ  بھی آپ کو دیا گیا تھا جس کی بنا پر  آپ اپنے فارغ اوقات میں  اس اعزازی ذمہ داری کو بھی بہ حسن و خوبی انجام دیتے تھے۔

chitraltimes aga khan school khot torkhow chitral upper 2

اُس زمانے میں تعلیم عام نہیں تھی اورخصوصی طور پر  چترال کے دور افتادہ علاقوں کی بچیوں کے لئے تعلیم تک رسائی ممکن نہیں تھی ۔آغاخان ایجوکشن سروسز نے ایسے علاقوں کی بچیوں اور بعد میں محدود تعداد میں بچوں  کی تعلیم کے لئے پرائمری اسکول کھولنے میں کوشان تھی۔ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے استاد سردار ولی صاحب  نے     اے کے ای ایس کے اعلیٰ عہدہ داروں سے  بات چیت کی اور کہوت میں  آغاخان اسکول کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔جب اسکول کی منظوری دی گئی تو یہ اسکول پہلی دفعہ  لشٹ دور کے مقام پر  محترم دل تھینی کے گھر میں  شروع ہوا جس کو موصوف نے اے کے ای ایس کے لئے عطیہ کیا تھا  ۔یہ اسکول تاریخ کے کئی  دشوار گزار اور کٹھن راستوں سے گزر کر آج ہائی اسکول کی پوزیشن پر  قائم ہے اور  چترال کے بہترین اسکولوں میں شمار ہوتا ہے اور یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہء طالبات مختلف عہدوں میں اعلیٰ مقام حاصل کرتے ہوئے باعزت   زندگی گزار رہے ہیں۔  

آغاخان پرائمری اسکول کہوت میں اُس وقت کم وبیش 30  طلبہ و طالبات  داخلہ لے چکے تھے جن کی درس وتدریس کے لئے میر اعظم خان کو کھوژ سے لایا گیا تھا  جسے کہوت میں  اسکول کے پہلے ٹیچر ہونے کا شرف بھی  حاصل ہے۔ اور وہ  اس نوخیز اسکول کی آبیاری کے لیے دن رات ایک کرکے بچوں کو پڑھایا اور ان کی علمی اور اخلاقی تربیت کی۔اگلے سال میر اعظم خان کو یارخون ٹرانسفر کرکے کہوت ہی سے علی نواز   کو اس کی جگہ نیا ٹیچر مقرر کیا گیا ۔ اور وہ  بھی محنت اور جانفشانی سے بچوں کی تعلیم وتربیت  میں اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر پڑھانے لگے۔

chitraltimes aga khan school khot torkhow chitral upper 4

 1984ء میں یہ اسکول  دل تھینی کے گھر سے نغورانٹیک یعنی ریاستی بلڈنگ میں منتقل کیا گیا جہاں شیر وزیر شاہ  کہوت قوزیاندور  ہی سے جبکہ داود نظر کو یارخون سےاس میں اضافی استاد مقرر کیا گیا۔لیکن بہت جلد داود نظر کو ٹریننگ کے لئے بھیج دیا گیا اور اس کی جگہ مس نواز کو میرٹ  کی بنیاد پر نیا ٹیچر مقرر کیا گیا ۔ نغورانٹیک کا یہ اسکول دو سال تک جاری رہا پھر بچوں کی تعداد زیادہ ہونے  اور مذید جگہ نہ ہونے کی وجہ سے کسی معقول ماحول  کی ضرورت محسوس ہوئی۔اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے میر حکیم بیگ کی مدد لی گئی اور وہ گیسو  زیارت کے قریب لشٹ دور میں پانچ کمروں پر مشتمل ایک نئی  عمارت  اسکول کے نام پر تعمیر کی اور اسے اے کے ای ایس کو کرایئے پر دےدیا ۔ 1986ء میں یہ اسکول نوغورانٹیک سے نئی عمارت میں منتقل ہوا  اور نئے ٹیچرز کی تقرریاں بھی عمل میں آئیں جن میں مرحوم میرزا    ولی صاحب، شیر وزیر، میرافضل المعروف پہلوان، نادر غلام، رحمت خان اور رحمت ولی صاحبان قابل زکر ہیں۔ان تمام قابل اورمحنتی اساتذہ کی اشتراک اور تعاون سے اسکول کا نظام اور تعلیم و تدریس کا عمل درست طریقے سے آگے بڑھا اور بچوں میں سیکھنے اور محنت کرنے کا جزبہ  دن  بدن پروان چڑھتا رہا اور یہ سلسلہ سات سال تک قائم رہا۔ اچانک کہوت جیسے علاقہ کے پرامن اور پرسکون ماحول کو کسی کی نظر بد لگ گئی ! اور کہوت میں سیاسی ، نسلی اور قبائلی اختلافات پیدا ہونے لگے ۔ موقع شناسوں نے بہت جلد اس کا رخ مذہبی اختلافات کی طرف موڑ دیا اور مذہب کو بے رحمی سے اس کا اندھن بنا دیا! جس سے آہستہ آہستہ کہوت کے مہذب اور ایک دوسرے کی عزت اور احترام کرنے والے لوگوں میں مذہبی اختلافات و چپقلش کی بو آنے لگی اور میرحکیم بیگ کو آغاخان اسکول کہوت کو بند کرنے کے لئے دھمکیاں مل  گئیں جس کے نتیجے میں میر حکیم بیگ نے مجبوراََ  لوگوں کے اس مناقشانہ رویئے کو دیکھ کر مزکورہ اسکول کو تالا لگاکر بند کردیا جس کی وجہ سے اسکول کے یہ معصوم بچے کھلے آسمان تلے بیٹھ کر سبق پڑھنے پر مجبور ہوئے اور کئی بچے گھروں میں بیٹھ گئے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ معاشرے کے سارے لوگ  ایک دوسرے کے مخالف تھے  اور وہ  اس قسم کی شرپسندی کو ہوا دے رہے تھے ۔اچھے برے لوگ  ہر معاشرے میں ہوتے ہیں ۔اچھے لوگوں کی وجہ سے ہی معاشرہ امن کا گہوارہ ہوتا ہے ۔تاہم معاشرے کے مہذب اور عزت دار لوگوں نے اس واقعےکی بھرپور  مزمت کی ۔اللہ کا کرم یہ ہوا کہ کہوت ہی کے سنجیدہ و فہمیدہ ، پرامن اور علم دوست افراد  کی کوششوں کے نتیجے میں حالات بہتری کی جانب آنے لگیں اور معاشرے میں  امن دوبارہ  بحال ہوا۔

اور اسکول کو دوبارہ آزاد کرنے اور چلانے کے لیےڈپٹی کمشنر چترال کی طرف سے کچھ خیمے  ڈونیشن دئے گئے  جنہیں مراد دوست  خان لال کی زمین میں نصب کر کے کلاسز  ان خیموں میں دوبارہ شروع کی گئیں ۔خان لال(  خدا  اس کی روح کو دائمی سکون نصیب کرے)  معاشرے میں ایک معزز اور اہم شخصیت کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے نے  اسکول کو دوبارہ دوسری جگہ  تعمیر کرنے کے لئے اپنی زمین  وقف کی جس پر لوگوں نے نِئے جزبے اور شوق کے ساتھ  دن رات ایک کرکے صرف دو مہینوں کے اندر سات کمروں پر مشتمل  نئی عمارت  تعمیر کی۔1992ء کو  خیموں میں جاری رہنے والی کلاسس اس نئی عمارت میں منتقل ہوئیں۔ بچوں  اور والدین میں خوشی کی نئی لہر دوڑ گئی اور وہ شوق اور والہانہ جزبے کے ساتھ اسکول آنے لگے۔ 1993 ء میں اسکول کو مڈل میں ترقی دی گئی اور نئے ٹیچرز مقرر کئے گئے جن میں سردار ولی (چرون والا) اور رحمت نواز کہوت لوگار  وغیرہ شامل ہیں۔ 1994ء میں لوگوں نے باہمی مشاورت اور اتفاق سے اسکول میں  (Community bases School) CBS کے نام سے نویں اور دسویں جماعت کے لئے  مقامی اساتذہ کی مدد اور تعاون سے کوچنگ کلاسس  بھی شروع  کیں یہ اساتذہ ادارے کی طرف سے نہیں بلکہ کمیونٹی کی طرف سے مقرر کئے گئے تھے جنہیں AKES کی طرف سے  وقتاََ فوقتاَ َ پروفیشنل ٹریننگ دے کر درس و تدریس کے اہل بنایا گیا تھا ۔ ان اساتذہ میں شیر عزیز بیگ، میر گلاب،رشیدہ اور پھوک کائے  قابلِ زکر ہیں جنہوں نے اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق بچوں کو پڑھایا اور اُن کو تعلیم دینے میں کوئی کسر باقی  نہیں چھوڑی۔ انہوں نے بچوں میں قابیلیت اور ہنر پیدا کرنے کے لئے بے حد کوشش کی جس کے نتیجے میں اکثر بچے بورڈ کے سالانہ امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہوکر گورنمنت کالج میں ایڈمشن لیکر اپنی تعلیم جاری رکھنے کے قابل ہوئے۔

اے کے ای ایس  سکول کہوت کا علمی  یہ سفر آگے بڑھتا رہا  ۔ والدین ، اسکول کے انتظامیہ اور درس و تدریس سے مطمئن ہوکر ہر سال اپنے بچوں کو یہاں داخل کراتے رہے لیکن زمانے کے تیز رفتار حالات  اور جدید تقاضوں کے مطابق  اسکول کی کچی  عمارت اس قابل نہیں تھی کہ ان کی ضروریات کو پورا کرسکے اس لئے انہوں نے اسکول کے لیے پکی عمارت تعمیر کرنے کے لئے اے کے ای ایس کے اعلیٰ حکام سے گفت و شنید کے بعد  خان لال سے  مذید زمین کا تقاضا کیا جس کو موصوف نے خوشی ،  فیاضی اور دریا دلی سے  قبول کیا  اور انہیں اسکول کو اپنی زمین پر از سرِ نو  جدید طریقے سے  تعمیر کرنے کی  اجازت دے دی۔اے کے ای ایس نے اپنے منشور اور پالیسی کے تحت  سکول کو جدید طرز تعمیر کے مطابق از سرِ نو تعمیر کیا ۔ اور  2005ء کو اسکول کے تمام بچوں کو پورانی عمارت سے نئی تعمیر شدہ بلڈنگ میں منتقل کیا گیا  جہاں انہیں ایک نیا خوبصورت علمی ماحول میسر  آیا  اسکول کے اساتذہ اور بچوں میں خوشی کی انتہا نہ رہی  اور وہ پہلے سے  بھی زیادہ  شوق اور لگن سے  محنت کرنے لگے۔دسمبر 2011 ء کو  اسکول کے سینئر ٹیچرز کی اعزازی ریٹارڈمنٹ کا عمل بھی  شروع ہوا جس میں مس نواز ، علی نواز،  مرحوم میرزا ولی، شیر وزیر  اور میر افضل بھی شامل تھے۔ اور یہ اپنے زمانے کے بہت ہی محنتی،اپنے پیشے سے مخلص اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے مالک اساتذہ میں شمار ہوتے تھے جن کی شب وروز کی محنت بچوں میں تعلیم کے لئے دلچسپی اور اپنے خوابیدہ صلاحیتوں کو نکھارنے کا زریعہ بنیں۔

chitraltimes aga khan school khot torkhow chitral upper 3

2016 ء کو  اے کے ای ایس سکول کہوت  کو ہائی اسکول میں ترقی دی گئی  اور اس کے لئےجدید دور کے تقاضوں کے مطابق  بہتر ، قابل اور پیشہ ور اساتذہ کو  ٹیسٹینگ  اور میرٹ کی بنیاد پر مقرر کیا گیا ۔انہوں نے جدید طریقہائے تدریس کے  مطابق  بچوں کو پڑھانے کی کوشش کی جس سے اسکول کی تعلیمی معیار روز بروز بہتر ہوتی گئی اور بچوں کی خوابیدہ صلاحیتیں نکہرگئیں۔علاقے کے تمام لوگ اسکول  کی تعلیم سےمطمئین ہوئے اور اپنے بچوں کو اسکول میں  داخل کرنے کے لئے تگ و دو کرتے رہے۔اے کے ایس اسکول کہوت کی تاریخ  میں ایسا زمانہ بھی تھا کہ لوگ اپنے بچوں کو یہاں داخل کرانے کے لئے راضی  نہیں تھے لیکن آج زمانہ بدل چکا ہے لوگ اے کے ای ایس کی تعلیمی معیار سے زیادہ مطمئین  ہیں اور یہاں کی درس و تدریس کو بہت زیادہ اہمیت دیتے  ہیں۔اس وقت اے کے ای ایس اسکول کہوت میں  18  اساتذہ مختلف مضامین کو پڑھانے کے لئے اسکول میں ہمہ وقت حاضر ہیں جن میں زیادہ تر  تعداد خواتین کی ہے۔ بشیرالدین  اس وقت اس اسکول کے ہیڈ ٹیچر کی حیثیت سے  اپنی بہترین صلاحیت کے مطابق اپنی ذمہ داریاں  انجام دے رہا ہے ۔ موصوف  آغاخان یونیورسٹی سے گریجویٹ ہیں  اور وہ    جدید دور میں اچھا تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک با اخلاق ، دیانت دار، اپنے پیشے سے مخلص اور ایک اچھے انسان بھی ہیں اور وہ معاشرے میں ہر وقت عزت کی نگاہ سے  دیکھے جاتے ہیں۔

اس اسکول کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہاں ECD   (قبلِ مدرسہ تعلیم) تعلیم بھی دی جاتی ہے جنہیں ابتدائی تعلیم دینے کے لئے  ایک تربیت یافتہ  استانی شازیہ بی بی  مقرر ہیں جس کی تین سال کی  ابتدائی تعلیم و تربیت بچوں کو آگے بڑھنے اور مذید تعلیم کے لئے شوق اور دلچسپی کی راہیں ہموار کرنے میں مدد ملتی ہے اور وہ کھیل کھیل میں تعلیم کے بنیادی اصول اور قواعد سے آشنا ہوکر پرائمری ون میں داخل ہونے کے قابل ہوتے ہیں۔ ECDمیں بچوں کی آموزش کو فعال بنانے کے لئے  AKES  کی طرف سے  دو تربیت یافتہ  کورڈینٹرز عنبرین غزالہ اور امرینہ بی بی   بھی مقرر ہیں ۔ وہ ہفتے میں دو دفعہ  ECD  کلاس کو  دیکھتی ہیں اور خود بھی کلاس لیکر بچوں کی درس و تدریس میں  اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

مجھے امید ہے کہ وہ دن دور نہیں کہ یہ سکول بھی  اس قسم کے قابل اساتذہ  کی زیرِ نگرانی میں  ایک دن ہائی سیکنڈری اسکول میں ترقی کرے گا اور وادی کہوت کے طلبہ و طالبات کو اپنے ہی گھر میں بہترین، جدید اور  اعلی بین الاقوامی معیار کی تعلیم میسر ہوگی اور وہ اسی تعلیم کی ہی وجہ سے معاشرے میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ  اور باوقار شخصیت بن کر اپنی ، اپنے خاندان اور ملک و قوم کی خدمت کرنے کو اپنا  فرضِ منصبی سمجھیں گے جس سے  آنے والا معاشرہ خوشحال ہوگا اور ترقی کرے گا۔ ان شاء اللہ

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57274

عوام ضلع اپر چترال، ڈی سی صاحب اور تبدیلی سرکار -عبدالحی چترالی

عوام ضلع اپر چترال، ڈی سی صاحب اور تبدیلی سرکار -عبدالحی چترالی

ہائے! سچ میں کچھ لوگ ماں کی دعاوں کی طرح خالص اور مخلص ہوتے ہیں۔ فرائض کی ادائیگی، بیداری اور احساس ذمہ داری میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہوتا۔ شاید یہ ہماری کم قسمتی ہے کہ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں ایسے لوگوں کی تعداد کچھ زیادہ نہیں، مگر مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے

پاکستان پر اللہ کی رحمتیں نازل ہورہی ہیں۔ شر اور خیر کی روزِ ازل سے ہی آپس میں جنگ جاری ہے اور یہ جنگ تا ابد جاری و ساری رہے گی، ایک طرف طاغوتی اور شیطانی قوتیں اور دوسری طرف فرشتہ صفت، نیک عمل اور جذبہ ہمدردی و ایثار سے بھرپور لوگ، شاید! کارخانہ قدرت کا حسن بھی اسی فلسفلے کے گرد گھومتا ہے۔


جناب ڈی سی اپر چترال محمدعلی صاحب بھی اس قافلہ انسانیت کے راہ رو ہیں،آپ ایک غریب پرور اور ملنسار انسان ہیں۔ اے کاش! میرے وطن کا ہر ایک آفیسر محمد علی کی طرح نیک سیرت، پاک طینت، فرض شناس، ایماندار، خوش اخلاق ہوجائے تو یہ وطن اقوام عالم کے لئے ایک مثال بن جائے۔

chitraltimes dc upper chitral muhammad ali 1


وہ ملاقاتیوں کے ساتھ انتہائی خوش اخلاقی اور خوش اسلوبی کے ساتھ پیش آتے تھے اور ہمیشہ ڈی سی ہاوس غریب اور امیر سب کے لئے یکسان کھلا رکھتے تھے اور انتہائی قلیل مدت میں سائلین اور عوام کے دل جیت لئے تھے جس سے انتظامیہ کا مورال بھی بلند ہوا۔
انتہائی کم عرصے میں موصوف نے ضلع اپر چترال کے اکثرو بیشتر علاقوں میں تمام لائن ڈیپارٹمنٹ کے افسران کو لے کر کھلی کچہری کا انعقاد کیا اور ان کھلی کچہریوں کے ذریعے عوام کی سرکاری افسران تک رسا ئی کو آسان بنایا جس سے بروقت عوامی شکایات و مسائل کو ان کے گھر کی دہلیز پر حل کیا۔


ان کے عوام دوستی اور عوامی مسائل سے دلچسپی کے نتیجے میں استارو اور کوشٹ پل کی بروقت تکمیل سے لوگوں کو ریلیف ملا۔ اس عوام دوست ڈی سی صاحب نے ضلع میں سیاحت کو فروغ دینے کے لئے زانی پاس کے مقام پر بارہ ہزار آٹھ سو فٹ کی بلندی پر ملکی سطح کے ایک تین روزہ پیرا گلائڈنگ مقابلوں کا انعقاد کروایا۔ اس مقابلے میں ملک بھر سے ستر سے زائد پیرا گلائیڈرز نے شرکت کی جس سے علاقے کو بھی فائدہ ہوا۔ اسی طرح بونی میں نیشنل فری اسٹائل پولو چیمپین شپ کے انعقاد سے علاقے میں کھیلوں کو فروغ دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔اس پر مستزاد یہ کہ آپ ہی کی کوششوں سے ضلع اپر چترال میں کورونا ویکسنیشن کے مطلوبہ ہدف کے حصول میں صوبہ بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔


اس صورت حال میں جب کہ ڈی سی اپر چترال سے عوام خوش ہیں اور لوگ اسے عوام دوست کرپشن سے پاک اور مسیحا اپر چترال سمجھتے ہیں ان کا ٹرانسفر کر دینا یقینا ایک غلط فیصلہ ہے جس پر انتظامیہ کو از سر نو غور کرنا چاہیئے۔ جو لوگ کئی دن پہلے ہی ان کے ٹرانسفر کی مبارک باد دے رہے تھے ان کے مقاصد کو تو سب جانتے ہیں کہ موصوف کرپشن سے پاک ہونے کی وجہ سے تبدیلی سرکار کے چیلوں کی راہ میں رکاوٹ تھے۔ وزیر زادہ صاحب اپنے ہی پارٹی کارکنوں کے انکشافات کے نتیجے میں اب کرپشن زادہ ہوچکے ہیں مزید یہ کہ عوام کو اس بے وقت


ٹرانسفر کے پیچھے تبدیلی سرکار کا ہاتھ نظر آرہا ہے۔ لھذا وہ اور ان کے دیگر ساتھی اس اقدام سے عوام کی عدالت میں مزید مشکوک ہوں گے۔ لھذا وزیر زادہ صاحب اور پارٹی کے دیگر عہدہ داروں کو چاہیئے کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے اس ٹرانسفر کو رُ کو ا کر عوامی حلقوں میں پذیرائی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اس نوزائیدہ ضلعے کے باسیوں کے ساتھ سردیوں کے اس موسم میں رحم و کرم کا معاملہ کرے ورنہ بلدیاتی الیکشن کے دوران مخالفین اس اقدام کو پی ٹی آئی کے کھاتے میں ڈال کر رائے عامہ کو اُن کے خلا ف کرنے میں کامیاب ہوجا ئیں گے۔


میں اپنے قارئین کے لئے ایک سوال چھوڑ کر اپنی اس مختصر تحریر کو سمیٹ رہا ہوں کہ ڈی سی صاحب کے ایسے بے وقت تبادلے سے نقصان کس کاہوا؟ ڈی سی محمد علی کا؟ عوام کا؟ یا ریاست کا؟ یہ جواب آ پ اپنے آپ کو خود یجئے۔

chitraltimes dc upper chitral muhammad ali 5
Posted in تازہ ترین, مضامین
57243

جنرل وارڈ کے ایک مریض کی گزارشات – محکم الدین ایونی

چترال کا ڈی ایچ کیو ہسپتال مادر ہسپتال کا درجہ رکھتی ہے ۔ اپر اور لوئر چترال کی 447800آبادی کا زیادہ تر انحصار اس ہسپتال پر ہے ۔ جس کی وجہ سے یہاں پر خدمات انجام دینے والے ڈاکٹروں پر سب سے بڑا بوجھ ہے ۔ کیونکہ سپشلسٹ سمیت دیگر ڈاکٹروں کی دو درجن سے زیادہ آسامیان اب بھی خالی ہیں ۔ ایسے میں جوسپشلسٹس و ڈاکٹرز چترال بھر کا بوجھ برداشت کر کے خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ یقینا لائق تحسین و آفرین ہیں ۔ ہو سکتاہے ۔ بہت سارے قارئین میرے اس بات سے اتفاق نہ کریں ۔ لیکن مجھے سات روز تک ہسپتال میں اپنے داخلے کے دوران نہایت باریک بینی سےجائزہ لینے کا موقع ملا ۔ اس دوران حکومت اور ہسپتال انتظامیہ کی طرف سے کئی اچھے اقدامات کا مشاہدہ اور ناقص کارکردگی سے واسطہ پڑا ۔ جنہیں میں کسی کی بے جاخوشنودی حاصل کرنے یا بلا وجہ کمزوریاں تھوپنے کی غرض سے ضبط تحریر میں نہیں لا رہا ۔ بلکہ میرا بنیادی مقصد اصلاح احوال ہے ۔

ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال میں میرے داخلے کی کہانی 4جنوری سے شروع ہوتی ہے ۔ جب مجھے شدید سانس کی تکلیف بخار اور کمزوری کی شکایت پیدا ہوئی ۔ بدقسمتی سے اس روز فائر ووڈ الاونس کے سلسلے میں ہسپتال کے لوئر سٹاف احتجاج پر تھے ۔ اور او پی ڈی بند تھا ۔تاہم صحت کارڈ کا آفس کھلا تھا ۔ ڈاکٹر نے ایمرجنسی میں چٹ لینے کی رہنمائی کی ۔ اور مختلف ٹسٹ کے ریزلٹ دیکھنے کے بعد فوری داخلہ کا مشورہ دیا ۔ جس کے بعد صحت کارڈ کا مرحلہ طے ہوا ۔ اور جب ادویات متعلقہ سٹور سے لے کر وارڈ میں داخلے کیلئے پہنچا ۔ تو کوئی بیڈ خالی نہیں تھا ۔ داخلہ رجسٹر کو اپڈیٹ کرنے والے ایک اسٹاف نے میرے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے مجھے یہ ادویات لے کر گھر جاکر استعمال کرنے کی ہدایت کی ۔ یہ بات میرے بھی دل کو لگی ۔ کہ جب ہسپتال میں بیڈ خالی نہیں ہے ۔ تو گھر میں علاج کے علاوہ میرے پاس اور کوئی اپشن نہیں ہے ۔ اس لئے مجھے گھر ہی جانا چاہئیے ۔ دل میں اس فیصلے کے بعد مجھے صحت کارڈ اہلکار کے پاس دوبارہ اس غرض سے جانا پڑا۔ تاکہ دو دنوں کیلئے مجھے مزید ادویات مل جائیں ۔ ۔ صحت کارڈ ڈیل کرنے والے نوجوان نے مجھے سمجھاتےہوئے کہا۔ کہ ایک تو ہم صرف داخل مریض کیلئے ڈاکٹر کے لکھے ہوئے ایک دن کی دوائی کے نسخے پر مہر لگاتےہیں ۔ دوسرا صحت کارڈ کے حامل مریض کو ہسپتال کے بیڈ پر موجود ہوئے بغیر علاج کی سہولت نہیں دی جاتی ۔ اس لئےآپ کاہسپتال میں ہونا انتہائی ضروری ہے ۔ ہو سکتاہے ۔ آپ کو مزید چیک کرنے اور ادویات کی ضرورت ہو ۔پھر انہوں نے انکشاف کیا ۔ کہ ہسپتال میں صحت کارڈ پر داخل مریضوں کی فزیکل بیڈ چیکنگ نہیں ہو رہی ۔ جس کی وجہ سے بعض صحت یاب شدہ مریض مختلف طریقوں سے ڈاکٹروں سے رعایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور ضرورت مند مریض بیڈ سے محروم رہتے ہیں ۔

میرے بیڈ کا مسئلہ میرے ایک محترم ڈاکٹر کے تعاون سے حل ہوا ۔ اور میں ڈاکٹروں کے بھر پور توجہ کی بدولت سات دن ان کےزیر علاج رہنے کے بعد 10 جنوری کو ہسپتال سے فارغ ہوا ۔ ہسپتال میں میں نےچند چیزوں کا مشاہدہ کیا ۔ جن کا میں اس تحریر میں بطور خاص ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ اور یہ امید رکھتا ہوں ۔ کہ ایم ایس ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال شہزادہ حیدر الملک ایک دیانتدار اور فرض شناس آفیسر ہیں ۔ جن کا ڈی ایچ کیو ہسپتال کی سیٹ سنبھالے تقریبا چند ہی دن ہوئے ہیں ۔ میری گزارشات پر ضرور توجہہ دیں گے ۔ اور انہیں حل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ تاکہ حکومت مریضوں کو جو سہولت دینا چاہتی ہے ۔ اس کےخاطر خواہ نتائج برآمد ہوں ۔

ہسپتال میں ایک رات میرے کان میں شدید درد اٹھی ۔ مجھ سے رہا نہیں جا سکا ۔ میں اٹھا ۔ نرسز اور پیرامیڈیکس کاونٹر کے اندر جھانکا تو دو بینچوں پر دو افراد سو رہے تھے ۔ میں نے ایک کا اور دوسرے کا چادر کھسکایا اور پوچھا کہ تم سٹاف ہو ۔ دونوں نےکہا ہم اپنے مریضوں کے ساتھ ہیں ۔ میں اس حالت میں کہ میرےکان کے اوپر چھرا گھونپا جا رہا تھا ۔ مسیحا کی تلاش میں وارڈ سے باہر نکلا ۔ اور ڈیوٹی روم پہنچا ۔ تو وہاں پر ایک نوجوان خواب خرگوش میں مصروف تھا ۔ میں نے اسے جگانے کی کوشش کی ۔ اور بمشکل اس میں کامیاب ہوا ۔ میرا خیال تھا۔ کہ یہ میرا مسئلہ حل کر جائے گا۔ لیکن اس نے موبائل اٹھاکر ایک دوسرے بندے کو کال کی۔ وہ آیا تو وہ بھی میرے کام کانہیں تھا ۔ یہ تیسرے شخص کےپیچھے چلا گیا ۔ تو مجھے وہ مشہور ضرب المثل یاد آیا ۔ تریاق از عراق آوردہ شود مرگزیدہ مردہ شود ۔ تقریبا بیس منٹ کے انتظار کے بعد اصل بندہ سامنے آیا ۔ تو چہرہ کافی اترا ہوا تھا ۔ میں نے اپنی روداد سنائی ۔ تو انہوں نے انجکشن لکھ دی ۔ میں نے پیسے دیے اور وہ نوجوان میڈیکل سٹور سے لے آیا ۔ یوں مجھے انجکشن لگنے میں پونے گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگا ۔

اس طویل تجربے کے بعد میری ایم ایس صاحب سے گذارش ہے ۔ کہ وہ رات کے وقت وارڈ کے اندر نرسز کاونٹر کو الرٹ رکھنے کی ہداہت فرمائیں ۔ پیرامیڈیکس اور نرسز کی تعداد کی تو کوئی حد نہیں۔لیکن ایمرجنسی میں وارڈ کے اندر کسی پیرامیڈکس کی تلاش جوئے شیرلانے کے مترادف ہے ۔ ان ا سٹاف کا یونیفارم میں ہونا بھی از بس ضروری ہے ۔ تاکہ اسٹاف اور عام لوگوں میں فرق واضح ہو ۔

ہسپتال کے واش رومزکی حالت انتہائی طور پر مخدوش ہیں ۔ کوئی ٹونٹی پورے واش روم میں موجودنہیں ۔ بالٹی لوٹا کی سہولت موجودہے۔ اور نہ استعمال کیلئے پانی دستیاب ہے ۔ چوبیس گھنٹے میں صرف ایک مرتبہ صفائی کی جاتی ہے ۔ ذہہن پر بڑا بوجھ برداشت کرتے ہوئے مریض یہ واش رومز استعمال کرنے پر مجبورہیں۔ اس کیلئے مکمل انتظام کیا جانا چاہئیے ۔جنرل وارڈ کے علاوہ فیمل وارڈ وغیرہ تمام واش رومز کی حالت ایک جیسی ہے ۔ یہ ایسی چیزیں ہیں۔ جنہیں بار بار ٹھیک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کیلئے مریضوں کو مورد الزام ٹھہرا کر خود کو بری الذمہ قرار دینا کسی صورت درست نہیں۔ ہسپتال میں میرے داخلے کے موقع پر آپ اپنی پہلی وزٹ پر وارڈ میں تو آئے تھے ۔ لیکن اسٹاف نے آپ کو ایسا الجھایا ۔ کہ پھر واش رومز وغیرہ کی چیکنک کا آپ کو موقع ہی نہیں دیا گیا ۔

ہسپتال میں معذور مریضوں کیلئے واش رومز کا کوئی سسٹم موجود نہیں ہے ۔ تاکہ ٹانگوں سے معذور یا سانس کی تکلیف میں مبتلا مریضوں کو واش روم تک سہولت سے پہنچایا جا سکے ۔ جنرل وارڈ میں وہیل چیئر پر مریض کو واش رومز کے احاطے تک تو آسانی سے پہنچایا جاتا ہے ۔ لیکن وہاں سے واش روم میں داخل ہونے کےلئے چھ سیڑھیاں چڑھنے پڑتے ہیں ۔ اس وقت بھاری بھر کم جسامت والے اور سانس کی تکلیف سے دوچار مریضوں اور ان کے اٹنڈنٹ پر جو گزرتی ہے ۔ وہ الگ داستان ہے ۔ اسی لئے بعض مریض اس عذاب سے بچنے کیلئے کھانا پینا تک چھوڑدیتےہیں ۔ ان معذور افراد کیلئے جدید سہولیات کے حامل واش روم کی تعمیر انتہائی ضروری ہے ۔ تاکہ وہیل چیئر پر ہی مریض واش روم میں داخل ہو سکے ۔ اسے کسی بڑے سہارے کی ضرورت نہ پڑے ۔اس قسم کے واش رومز کی تعمیر کیلئے حکومت کے علاوہ مختلف این جی اوز سے بھی مدد حاصل کی جا سکتی ہے ۔

ڈی ایچ کیو ہسپتال کےجنرل وارڈ کی دیواریں انتہائی طور پر خراب ہو چکی ہیں ۔ انہیں دیکھ کر صدیوں پرانی عمارت کی باقیات لگ رہی ہیں ۔ اس لئے ان دیواروں کو پینٹ کرکے یا جدید پلاسٹک شیٹ دیواروں پر لگا کر انہیں خوشنما بنایا جا سکتا ہے ۔ اور دیواروں کو سیم سے بھی بچایا جا سکتا ہے ۔ تاکہ ہسپتال کی شان برقرار رہے ۔

حکومت نے صحت کارڈ کےنام پر مریضوں کو صحت کی سہولتیں مفت فراہم کرنے کیلئے محتحسن نظام متعارف کیا ہے ۔ اور روزانہ کی بنیاد پر 2300 روپے فی مریض پر خرچ کی جاتی ہے۔ لیکن جن مریضوں کی ادویات کی قیمت 2300 سے زیادہ ہوتی ہے ۔ ان سے اضافی قیمت اسی وقت متعلقہ میڈیکل سٹورکیش وصول کرتی ہے۔ جبکہ دوسرے دن اگر ڈاکٹر کے لکھے ادویات کی قیمت سرکار کے متعین کردہ حساب سے کم ہوتی ہے ۔ تو اس دن کی کمی کو گذشتہ روز کی زیادتی سے ایڈجسٹ نہیں کیا جاتا۔ اس سے ایک طرف سرکارکافنڈ خرچ ہوتا ہے ۔ اور دو سری طرف غریب مریض بھی اپنی جیب سے خرچ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ اگر یہ ممکن ہو کہ روزانہ کے فکس سرکاری ادویاتی اخراجات کو مریض کے داخل دنوں کے حساب کے مطابق جمع کئے جائیں ۔ اس کے بعد اگر مریض پر اضافی رقم چڑھے ۔ تو وہ آدا کرے گا ۔ اس سلسلے میں مقامی سطح پر اگر ایڈجسمنٹ کی کوئی صورت ہو سکتی ہے ۔ تو صحت کارڈ کے فوائد سے مریض مکمل طور پر استفادہ حاصل کرسکیں گے ۔

chitraltimes dhq hospital chitral 3
chitraltimes dhq hospital chitral 4
chitraltimes dhq hospital chitral 5
جنرل وارڈ
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57228

سانحہ مری ۔ محمد شریف شکیب

وفاقی دارالحکومت سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر واقع معروف سیاحتی مقام ملکہ کوہسار مری میں شدید برفباری، ٹریفک جام، پناہ کی جگہ نہ ملنے،شدید سردی، ہوٹل مالکان،انتظامیہ اورمقامی لوگوں کی بے حسی کی وجہ سے در درجن قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوگئیں۔محکمہ موسمیات اور پی ڈی ایم اے نے بارشوں کا سلسلہ شروع ہونے سے ایک ہفتہ قبل الرٹ جاری کردیا تھا۔ شدید برفباری کے پیش نظر سیاحوں کو مری، گلیات، کاغان، ناراں، مالم جبہ، کمراٹ اور دیگر سیاحتی مقامات کی طرف نہ جانے کی ہدایت کی گئی تھی۔ پولیس کی طرف سے بھی ہر چیک پوسٹ پر سیاحوں کو موسم کی شدت اور رش کی وجہ سے مری کی طرف نہ جانے کی ہدایت کی گئی تھی مگر برفباری کا لطف اٹھانے کے شوق میں سیاحوں نے خطرات کی پروا کئے بغیر اپنا سفر جاری رکھا۔ بتایاجاتا ہے کہ مری میں بہ یک وقت پچاس ہزار گاڑیوں کی گنجائش ہے تاہم پنجاب حکومت کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ 62ہزار گاڑیاں مری میں داخل ہوئیں۔

پارکنگ کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے یہ گاڑیاں طویل قطاروں میں سڑکوں پر ہی کھڑی رہیں۔ جب برفانی طوفان کی وجہ سے یہ گاڑیاں سڑک پر ہی پھنس گئیں تو کچھ لوگ گاڑیوں سے نکل کر ہوٹلوں میں ٹھہرنے کی کوشش کی۔ سیاحوں کے مطابق ہوٹل مالکان نے ڈبل بیڈ کمرے کا کرایہ بیس ہزار اور چار بیڈ کمرے کا چالیس ہزار طلب کیا۔ لوگ اتنے بھاری کرائے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ہوٹلوں میں بجلی بھی نہیں تھی اس وجہ سے لوگوں نے گاڑیوں کے اندر ہی رات گذارنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے شیشے چڑھاکرہیٹر آن کردیئے۔باہر برفباری اور شیشے بند ہونے کی وجہ سے کاربن مونوآکسائیڈ گیس گاڑی میں ہی بھرنے لگی۔ اس بے ذائقہ گیس نے چند گھنٹوں کے اندر گاڑی میں بیٹھے لوگوں کو بے ہوش کردیا اور اسی مدہوشی کے عالم میں وہ موت کی وادی میں اتر گئے۔ برفانی طوفان کے دوران کچھ لوگوں نے مدد کے لئے اپنے رشتہ داروں اور انتظامیہ کو بھی پکارا مگر پولیس اور انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ جس کی وجہ سے قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوئیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔

کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے پیشگی تیاری کرنا ہمارے قومی مزاج کے خلاف ہے۔ واقعہ رونما ہونے کے بعد ہم رونادھونا اور لکیر پیٹنا شروع کردیتے ہیں سانحہ مری کے بعد بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ہائی وے پولیس، مقامی پولیس، سیکورٹی اہلکار، محکمہ موسمیات والے، این ڈی ایم اے اور دیگر ادارے میڈیا پر تباہی کے مناظر دکھائے جانے کے بعد اپنے وجود کا ثبوت دینے کے لئے متحرک ہوگئے۔ اس مرحلے پر ملک کی سیاسی قیادت کا طرز عمل نہایت مایوس کن اور افسوسناک تھا۔قومی سانحے پر بھی یہ لوگ اپنی سیاسی دکان چمکانے کی کوشش کرتے رہے۔

حزب اختلاف والے حکمرانوں کو کوستے رہے اور حکمران اپنے کارنامے گنتے اور متاثرین کے زخموں پر نمک پاشی کرتے رہے۔ المناک سانحے میں مری کے لوگوں کا مجموعی رویہ انتہائی افسوسناک رہا۔ بتایاجاتا ہے کہ ٹائروں پر چڑھانے کی زنجیریں پانچ پانچ ہزار میں فروخت ہورہی تھیں۔ چھوٹی گاڑی کو دھکا دینے کے تین ہزار اور بڑی گاڑی کے مالک سے پانچ ہزار وصول کئے جاتے تھے۔ ہوٹل میں چائے کی ایک پیالی پانچ سو روپے میں فروخت ہورہی تھی۔ کسی نے خون جمادینے والی سردی سے بچانے کے لئے سیاحوں کو مدد کی پیش کش نہیں کی۔7دسمبر 2016کو حویلیاں فضائی حادثے کے بعد مری کا سانحہ اپنی نوعیت کا دوسرا المیہ تھا جس نے پورے ملک کی فضاء سوگوار کردی۔جو والدین اپنے جگر گوشوں کو کھودینے پر غم و الام کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔

ان کا دکھ ہر پاکستانی محسوس کر رہا ہے اور ہر گھر میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ پنجاب حکومت نے واقعے کی تحقیقات کے لئے کمیشن کے قیام اور غمزدہ خاندانوں کے لئے معاوضے کا اعلان کیاہے۔لیکن جانے والے تو سب کو اشکبار چھوڑ کر ابدی نیند سوگئے۔یہ معاوضے ان کا متبادل نہیں ہوسکتے۔ تاہم سانحے میں جن اداروں اور اہلکاروں کی غفلت اور لاپرواہی ثابت ہوجائے انہیں قرار واقعی سزا ملنی چاہئے تاکہ غم زدگان کے دلوں کو یک گونہ سکون ملے اور آئندہ ایسے سانحات کا تدارک ہوسکے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57226

مری میں انسانی المیہ ذمہ دار کون ۔ کریم علی

مری میں انسانی المیہ ذمہ دار کون ۔ کریم علی

گزشتہ شب سیاحوں کے  جنت نظیر وادی نے قدرتی حسن و منظر سے لطف اندوز ہونے والے کو اپنے اغوش میں لیا- اس پر جتنی رنج و غم کا اظہار کیا جائے نہایت ہی قلیل ہوگا۔ ہمدردی کے جتنے اوراق کو پلٹا جائے تو اس المناک حادثے کو مذمت کرنے کی الفاظ نہیں ملیں گے۔ موت برحق ہے لوٹنا اسی خالق کائنات کی طرف اسی کی حکم سے ہے۔ لیکن جب اللہ نے انسان کو اشراف المخلوقات کے عظیم لقب سے نوازا ہے تو اس کے پیچھے چند عوامل ہے جن کی اشتراک سے وہ اشراف المخلوقات کے عظیم منصف پر فائز ہے۔ عقل وہ اوزار ہے جو تمام جانداروں میں انسان کو ممتاز بناتا ہے اور عقل ہی کے مثبت استمال سے انسان مخطلف خطرات اور نقصانات سے محفوظ ہوتا چلا آرہا ہیں۔ دی بیگ بینگ سے شروع ہونی والی کاہنات میں 13.6 بیلین سال اور انسانی ذندگی کے 4.6 ارتقاء سے عقل نے ذندگی کے ہر شعبے میں چونکا دینی والی کامیبیاں سمیٹی ہے۔ 

عقل اور علم کے وسیع نظریے کو سامنے رکھ کر ساہنس، ٹیکنولوجی، طب، فلکیات کی شعبے نے ہر طرح فتوحات سمیٹی ہے۔ ایٹم کے اندر پروٹان کے چارجس سے لیکر گلیکسیز اور بلیک ہول تک رسائی عقل اور علم کی روشن دلیلیں ہے۔ لیکن اگر ہم اس ان نایاب قدرتی نعمتوں سے استفادہ حاصل نیہں کرسکتے ہے تو خود کو کس طرح اشراف المخوقات کے ترازو میں تول سکتے ہیں۔ جب بھی پاکستان میں کوئی المناک حادثہ رونما ہوتا ہے سارا الزام حکومت، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کندھوں پہ ڈال دیتے ہیں۔ پھر تنقید برائے اصلاح کے بجائے تنقید برائے تنقید کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروغ ہوتا ہے۔ میڈیا، پرائیوٹ، سٹیک ہولڈرز سب اپنے تیر نشانے پر لگاتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ باحثیت شہری ہم پر بھی کچھ فرائض عائد ہوتے ہے۔ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ائین کا نافاس ہم پر بھی ہوتا ہے اور ہم اس کے مطابق چلنا ہوتا ہے.۔

31 دسمبر کی شب اور پھر 5 جنوری کو محکمہِ موسمات نے مری میں طوفان کی پیشن گوئی کی تھی اور اس اسنا میں این۔ڈی۔ایم۔اے،، پی۔ ڈی ۔ایم ۔اے کو الرٹ جاری کیا تھا۔ کہ موسم میں ہونی والی بدلاو کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بن سکتا ہیں جس وجہ سے ایک المناک واقعہ جنم لیا 22 چراغ ہمیشہ کے لیے بجھ گئے۔ ایڈونچر کے شوقین تو ہم سب ہے لیکن سب سے اعلئ درجہ انسانی زندگی کو ملنی چاہیں، اگر کچھ دن اس ریکیرییشن سے باز رہتے تو کتنے بڑے ٹریڈیجے سے بچا جاسکتا تھا۔ مری میں اُس وقت 8000 کے قریب ویہیکل کی استعداد تھی مگر 3 دن کے دوران 95 ہزار سے ذائد گاڈیاں مری کے حدود میں داخل ہوچکے تھے۔ باوجود اس کے مری میں ہوٹل، ریسٹورنٹ، موٹیلز بھر چکے ہے سیاح جوق در جوق مری کے راستوں پر رواں دواں تھے۔

کیا ہماری خود کی اتنی ذہنی صلاحیت نہیں ہے کہ سب کچھ عیاں ہونے کے باوجود موت کے کنوئے کی طرف لپکے، خود کو اور اپنوں کو یوں اذیت ناک موت سے ہمکنار کروائے۔ قدرتی حسن و منظر سے تو اس وقت لطف ہوسکتے ہے جب حیات باقی رہے گی، چھوٹی چھوٹی ایڈونچرز کے خاطر خود کو صفحہ ہستی سے مٹانا کہاں ذی شعور انسان کی علامت ہے۔ دوسری بات وہاں کی مقامی باشندوں پر تنقید کے تیر چلائے جاتے ہے اور ان پر فوقیت حاصل کرنے یا اپنے ایریے کو ہائلایڈ کرنے کے مگن میں لگے ہوئے ہے، مقامی افراد نے بڑچھڑ کر سیاحوں کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کی یہ بات خود ان سیاحوں اپنے انٹویز میں کہے۔ مگر ان لوگوں نے گاڈی میں رات گزرنے کو ترجیج دی۔ اگر احتاط کے دامن کو مضبوطی سے پکڑا جائے تو آنے والے وقت میں اس طرح کے دردناک حادثات سے بچا جاسکتا ہے۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
57168

بلیک مارکیٹنگ کے نگینے – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے

Posted on

مغربی فلسفۂ زندگی نے ’جنگ و محبت میں سب کچھ جائز‘ قرار دے رکھا ہے، اس میں مقصد پیشِ نظر جنگ جیتنا ہوتا ہے، ان ذرائع کے جائز و ناجائز ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جو اس مقصد کے حصول میں استعمال کیے جاتے ہیں، اسی طرح بلیک مارکیٹنگ اور ذخیرہ اندوزی کا مہیب چلن ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح کھاتا جاتا رہا ہے۔ ہمارے معاشرے کا عام نقشہ یہ ہوتا جارہا ہے کہ جنگ و محبت میں سب جائز کو ہی مقصود بنالیا گیا ہے۔ اس نگاہ فریب سے آئین اور اخلاق کی مسلمہ دیواریں ایک ایک کرکے ٹوٹتی جارہی ہیں اور انسانی معاشرہ، ازمنہ مظلمہ کی طرف لوٹ رہا ہے۔ ہمارے معاشرے کی اب یہ حالت کہ ہر جگہ ’بلیک مارکیٹنگ‘ کا دور دورہ ہے۔ کیا تجارت، کیا زراعت،کیا صنعت و حرفت اور کیا سیاست، کیا لین دین اور کیا کاروبار، کیا کارخانے اور کیا دفاتر، کیا گھر اور کیا اس کے باہر، کیا ملت اور کیا اس کے لیڈر، گویا ہر طبقہ دوسرے کی جیب کاٹنے کی فکر میں سرگرداں دکھائی دے گا۔


بلیک مارکیٹنگ کا نتیجہ اب ہمارے سامنے یہ آرہا ہے کہ کسی ایک کو کسی دوسرے پر اعتماد نہیں، فون پر بات کرتے ہوئے ادھر اُدھر تاکنا، تو کسی کی کسی بھی بات کا یقین نہ کرنا، صنعت کار ہو یا کاشت کار، سفید پوش ہو کہ کمزور طبقہ، عمومی طور پر کسی نہ کسی طرح بلیک مارکیٹنگ کا شکار نظر آئے گا، اگر آپ چین کی نیند سوتے ہیں تو اس کو راوی کی جانب سے ’’سکون ہی سکون‘‘ لکھا جائے گا، لیکن بلیک مارکیٹنگ سے کون سا طبقہ یا فرد متاثر نہیں، اس کی تفصیل دینے کی چنداں ضرورت نہیں پڑتی، کیونکہ قریباً ہر فرد کسی نہ کسی حوالے سے بلیک مارکیٹ کا ڈسا ہوا ہے۔ بلیک مارکیٹ ہماری بساطِ زندگی کے ہر گوشے پر چھارہی ہے، محبت، عقیدت، اخلاص، مروت، اخوت، غرض کہ شرف انسانیت کی تمام سوتیں خشک ہوچکی ہیں اور ان کی جگہ خودغرضی اور فریب دہی، مطلب پرستی، بددیانتی، منافقت اور بے ایمانی کے کثیف اور پُرعفونت گندے نالے بہہ رہے ہیں، معاشرے کی حالت وہاں تک پہنچ چکی کہ اگر کچھ عرصہ اور یہی لیل و نہار رہے تو عجب نہیں کہ ہم اس عہدِ تاریکی میں جاپہنچیں، جہاں انسان علم و تہذیب اور آئین و ضوابط کے دور سے پہلے تھا اور ہماری زندگی، انسانی سطح سےنیچے گر کر حیوانیت کی درندگی کی سطح پر۔


کسی کو قشریرہ سے عفونت کا جو دھیان آیاتو آخر سونگھنے کو بول کا شیشہ منگایا ہےبلیک مارکیٹنگ کرنے والے کو ہی نہیں بلکہ آہنی گرفت رکھنے والوں کو بھی احساس نہیں، ایسا لگتا ہے کہ جیسے قانون کی حکمرانی بری طرح بانجھ ہوچکی ہو، ہر طبقہ فکر اور معاشرے کو بچانے کے لئے ان کے سرخیلوں کے خلاف ایسی مضبوط گرفت ہی نہیں کہ وہ اس ریلے کو دھکیل کر پیچھے ہٹنے پر مجبور کرسکیں۔ کبھی کبھار نہ جانے کیوں ایسا بھی لگتا ہے کہ جیسے قوم بھی سنجیدہ فکر سے عاری ہوتی جارہی ہو، ان کے سامنے سب کچھ ہورہا ہے، لیکن عدم یقین کی منزل پر چلنے والوں نے بولنے، سننے اور کہنے پر جیسے فالج گرایا ہو، ملت کے ارباب نظم و نسق نے بھی ایسے نامساعد حالات پیدا کردئیے ہیں کہ ملک بھر میں بلیک مارکیٹ کا راج چل رہا ہے۔ جب ان کا دل چاہتا ہے کسی بھی شے پر کالی لکیر کھینچ کرعوام سے دور کردیتے ہیں، حالیہ دنوں کھاد کی کمی اور غذائی بلیک مارکیٹنگ کا نظارہ دیکھا تو دل دہل گیا کہ سامانِ خورونوش کو اپنی لالچ کا ہما بنانے والوں نے، کتنی دوررس منصوبہ بندی کی ہوئی ہے کہ ان اقدامات سے انہیں کس قدر کالا دھن کتنا اور کیسے کیسے ملے گا۔


قوم کی خاموشی اور بلیک مارکیٹ والوں کو برداشت کرنے والوںکی ہمت پر بھی حیرانی ہوتی ہے کہ ایسی مجبوری کو اگر وہ اپنی عملی زندگی کے ہر شعبے میں بصورت برداشت لے آئیں تو کیا ہی اچھا ہو، عدم برداشت اور تشدد کی جانب قریباً ہر طبقے کی گامزن روش نے تو ان کے ضبط کےبندھن کبھی اس قدر مضبوط نہیں دیکھے، لیکن بلیک مارکیٹنگ پر ان کی برداشت اور سرتسلیم خم کرنے کے وتیرہ نے یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ قوموں کی زندگی نفس شماری سے نہیں، نفس گدازی سے مانی جاتی ہے۔ قوموں کی بربادی و تباہی صرف یہی نہیں کہ ان کی نسل سے صفحۂ ارض پر کوئی متنفس باقی نہ رہے، بلکہ مقصود نظر یہ ہے کہ ان کا تصور حیات ہی نہ رہے۔ تصور ِ حیات اور آئین، زندگی کے تحفظ کے لئے ہوتے ہیں نہ کہ مقصود بالذات ۔ اگر یہ تصور حیات ہی باقی نہیں تو پھر اجسام کی حفاظت ایسی ہی ہے جیسے کسی بنام بے شمشیر کی حفاظت، اصل قیمت گوہر کی ہے نہ کہ صدف کی، حفاظت گلاب کی مقصود ہے نہ کہ بوتل کی۔ بلاتصورِ حیات، زندگی ایک جسد ِ روح ہے، جس کی اگر حفاظت بھی کی جائے تو سوائے اس کے کہ ہم غلام ہیں۔


درحقیقت محکومی اور آزادی میں فرق یہی ہوتا ہے کہ آزادی میں ہم ہر فیصلے خود کرسکتے ہیں جب کہ محکومی میں ہم اپنی آنے والی نسلوں کی تربیت و فیصلے اپنے تصورات کے مطابق نہیں کرتے۔ بلیک مارکیٹ والے اپنی اپنی دکان کھولے بیٹھے ہیں، جس کو جو جی چاہے وہ مانگتا نہیں بلکہ چھین لیتا ہے، اس سے زیادہ اور کیا کہا جائے کہ بلیک مارکیٹ کو روکنا حکومت کا کام ہے، اشیاء خورونوش سے لے کر ہر اَمر کی ذمے داری حکومت ہی کے سر عائد ہوتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس باب میں اولین فریضہ حکومت کا ہی ہے، لیکن اربابِ اختیار کی طرف سے کچھ انتظام نہیں ہوگا تو یہ کہنے سے آپ چھوٹ نہیں سکتے کہ بلیک مارکیٹنگ کے خاتمے کی ذمے داری حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے، کیا قوم کے اربابِ ثروت پر اس کی کوئی ذمے داری عائد نہیں ہوتی؟ قوم میں ایسے درد مند لوگ کہاں غائب ہوگئے، جو وقت کی اہم ضرورت کا احساس کریں اور اس کو پورا کرنے کے لئے مُردہ ضمیروں اور مجبور عوام کے جسد میں احساس کی روح پھونکیں۔ یاد رکھیں کہ بلیک مارکیٹ والے اب صرف اپنے خزانے نہیں بھررہے، بلکہ نسل کو زندہ درگور و بے کفن دفن بھی نہیں کرنا چاہتے۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57165

نوائے سُرود – استاد جی – شہزادی کوثر

نوائے سُرود – استاد جی – شہزادی کوثر

شمع زندگی کی روشن کوصحیح سمت دے کر زمانے کی چیرہ دستیوں سے مقابلہ کرنے کا ہنر اسے سکھانے ، نا پختہ ذہن کو مظاہر فطرت کے صحیح مفہوم سے باخبر کرنے ، ٹھیکری کو موتی میں بدلنے اور آدم زاد کو انسان بنانے والی عظیم ہستی کا نام استاد ہے۔ اس انمول ہستی کی عظمت کو تولنے کا کوئی پیمانہ نہیں ہے جو گونگے خیالات کو زبان بخشنے کی صلاحیت رکھتا ہے ،انگلی پکڑ کر ان راستوں سے شناسائی عطا کرتا ہے جس پر چل کر انسان ان دیکھی دنیاوں کو اپنے سامنے حقیقت کی قبا میں ملبوس دیکھتا ہے ، جو اپنی عصا کلیمی سے ہمارے تصورات کو ہانکتے ہوئے حرف ولفظ کے مرغزاروں میں اتارتا ہے جس سے ہماری گویائی شباب کی سرمستیوں میں لہکنے لگتی ہے ،اس ہستی کے بارےمیں لکھنے والا  اخلاص کی روشنائی سے  اپنی محبتوں کی کہانی رقم کرتا ہے۔جاوید حیات صاحب بھی انہی خوش نصیب شاگردوں میں سے ایک ہے جن کی اپنے استاد سے عقیدت کی کہانی ” استاد جی ” کے نام سے میرے سامنے موجود ہے یقینا محبت وعقیدت کی یہ کہانی کبھی ختم نہیں ہو گی لیکن مصنف نے ان صفحات پہ اپنی چاہت کے رنگ بکھیر کر شاگردی کا حق ادا کرنے کی عمدہ کوشش کی ہے۔ کتاب کے ہر پیراگراف سے عقیدت کی خوشبو محسوس ہو تی ہے ۔کسی طالب علم کی اپنے استاد سے جتنی محبت ہوتی ہے اس کتاب میں اس سے بڑھ کر ملا۔ مصنف جب کہتے ہیں ۔۔

” دل چاہتا ہے کہ زندگی ایک بار پھر پلٹ کر وہاں پہنچ جائے جہاں سے              

ہم نے اس کی ابتدا کی تھی ۔۔۔۔ کوئی پو چھے ۔۔۔۔۔ تمھارا نام کیا ہے؟ اور             

میں جواب ہوں ۔۔۔۔۔۔ سر میرا نا م محمد جا وید ہے۔۔۔۔”                       

تو لگتا ہے ان کی زندگی کی ابتدا عالم وجود میں آنے سے شروع نہیں ہوتی بلکی جب وہ استاد جی سے ملاقات کا شرف حاصل کرتے ہیں تو گویا وہ عدم کی آخری سیڑھی سے  وجود کے پہلے زینے پر قدم رکھتے ہیں ۔ان کی دھڑکنوں کو زبان تب ملتی ہے جب استاد جی کے شفقت بھرے چہرے پر ان کی نظر پڑتی ہے اور وہ ان کی قدآور  شخصیت کے سحر میں گرفتار ہو جاتے ہیں ۔ اس ملاقات کا لمحہ میرے تخیل میں حقیقت کی طرح انگڑائی لے کر کھڑا ہو گیا گویا کہ مصنف کی زندگی کے گلشن میں نمو پانے والے گلاب کی کلیوں پہ شباب کا نزول ہوا ہو اور وہ اپنی مہک سے ان کی زندگی کو معطر کر رہے ہوں ۔ اس جملے نے مجھے بہت متاثر کیا شاید شاگرد کے دل میں محبت سے بڑھ کرایسا کچھ ہے  جو عشق کی حدود  کو چھونے لگا ہے                          

قسم خدا کی محبت نہیں عقیدت ہے                                          

دیار دل میں بڑا احترام ہے تیرا                                               

یہ صرف استاد اور شاگرد کا رشتہ نہیں بلکہ استاد ،باپ، مربی ،محسن،دوست اور پتہ نہیں کتنے خوب صورت رشتے اس میں موجود ہیں جنھیں کوئی ایک خاص نام دینا میری استطاعت سے باہر ہے۔

سبھی رشتوں کی ساری خوشبویں اس میں بسی تھیں                     

وہ اک رشتہ کہ جس کا نا م تک کوئی نہیں تھا                            

لیکن اس رشتے پہ استاد سے بڑھ کر کوئی نام نہیں جچتا یہ وہ مقدس پیشہ ہے جس کی ابتدا خود خالق ارض وسما سے ہوئی اس کے بعد انبیاؑ اس سے عہدہ برآ ہوتے رہے اور تعلیم وتربیت کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جو زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہے ۔اس کتاب نے استاد جی کی شخصیت کے ان حوالوں کو عمدگی سے پیش کیا ہے جن سے شاید ہر کوئی واقف نہیں تھا کس طرح طالب علموں  کو شفقت و محبت کے ساتھ پڑھانے کے ساتھ ان کی ہر طرح سے مدد کرنے کے لئے بھی ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ان طالب علموں کی بھی خوش قسمتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی کلاس میں بیٹھنے کا شرف انہیں حاصل ہوا، ڈاکٹر بھی ایسے جو شاگردوں کو ذہنی بالیدگی بخشنے کے ساتھ ساتھ ان کی روحانی تشنگی دور کرنے کا بھی سامان فراہم کرتے ہیں معاشی اور معاشرتی طور پر حالات کا مقابلہ کرنے کا ہنر بھی سکھاتے ہیں۔

اپنی بے پناہ قابلیت ،ذہانت ،حاضر جوابی،انکساری اور انسان دوستی سے ہر دل میں گھر کرنا جانتے ہیں۔ایک کالم نگار اور ادیب کی حیثیت سے ان کا کام کسی سے پوشیدہ نہں ۔کھوار زبان وادب کے لئے شب وروز جدو جہد کے عمل سے گزرے ، انجمن ترقی کھوار کے زیر انتظام علاقئی طور پرکانفرنس ۔مجالس اور محافل سجانے کے ساتھ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کئی اہم کانفرنسوں میں شرکت کی اور دنیا کی توجہ اپنی مادری زبان کی طرف مبذول کی ۔نثر میں ان کی کئی کتابیں اور کتابچے شائع ہو چکے ہیں ،شاعری کے زریعے بھی کھوار کے سرمائے میں بے پناہ اضافہ کیا ۔ بحیثیت شاعر، قلم کار ،ادیب اور بہترین استاد کے ان سے پوری دنیا واقف ہے لیکن ان کی ذات میں چھپی ہوئی  خوبیاں جو انسان کو چمکتے ہوئے چاند کی مانند ضیا پاشی کرنا سکھاتی ہیں وہ اس کتاب کے زریعے آشکار ہوئی ہیں ۔تعلیم تربیت کے اس عمل میں طالب علموں  کے سامنے اگر استاد کی زندگی کا عملی نمونہ موجود ہو توطالب علم خیالات کو عمل میں ڈھالتے ہوئے اپنی منزل کی طرف روا ں ہوتے ہیں  ۔

استاد جی اپنے شاگردوں کے لئے ایک مثالی نمونہ ہے ، زبان وادب کا حوالہ ہو یا درس وتدریس کا ،انجمن سازی ہو یا مختلف تنظیموں کی تشکیل استاد جی ہر کام خندہ پیشانی اور جانفشانی سے کرتے ہیں اور کسی کام  کا کریڈٹ کبھی نہیں لیتے ،آپ کھوار زبان وادب کے لیے کام کرنے والوں کے ہراول دستے کے سالار کے طور پر نمایاں ہیں ۔ مصنف نے استاد جی کی خدمات اور خوبیوں کو بیان کرنے میں بخل سے کام نہیں لیا ۔کتاب پڑھتے ہوئے میرے دل میں طرح طرح کی خواہشات انگڑائیاں لینے لگیں کہ کاش مجھ میں بھی اتنی قابلیت کے ساتھ ساتھ وہ تمام خوبیاں پیدا ہو جائیں جو استاد جی کی شخصیت میں موجود ہیں لیکن دل کو سمجھانا پڑا کہ خبردار۔۔ ایسی خواہش کرنے کی ہماری اوقات نہیں۔۔۔ ان کی علمی ادبی اور پیشہ ورانہ خدمات کے پیش نظر ہم ان کے نقش قدم کو بھی نہیں پا سکتے۔۔ اس کے لئے ہم جیسوں کو کئی بار جنم لینا ہو گا۔۔۔ میں نے اس کتاب کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ محسوس کیا ہے یہاں لفظ لکھے نہیں بولے گئے ہیں اور ہر لفظ اپنی خاموش آواز سے کا نوں میں شہد گھولتا ہے ۔مجھے یہ بھی لگا کہ مصنف استاد جی کے لئے جو جذبہ اپنے دل میں رکھتے ہیں وہ محبت کی سرحدوں سے نکل کر عقیدت کے سبزہ زاروں سے  ہوتا ہوا کسی اور دنیا میں پہنچ جاتا یے اسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے کیونکہ الفاظ اس کے اظہار کی قدرت نہیں رکھتے۔۔                                                  

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
57153

داد بیداد ۔ علم و دانش کی تلا ش ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

داد بیداد ۔ علم و دانش کی تلا ش ۔ ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی

وزیر اعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلا عات بیرسٹر محمد علی سیف نے پشاور یو نیورسٹی کے شعبہ ابلا غیات کے دورے میں اہم بات کہی ہے انہوں نے صو با ئی حکو مت کی اس خواہش کا اظہار کیاکہ سر کا ری پا لیسی اور عملی اقدامات میں توازن پیدا کرنے کے لئے علم و دانش کی تلا ش کر کے علم و فضل والے لو گوں کو حکومت کی پا لیسیوں سے آگاہ کیا جا ئے اور جا معات میں زیر تعلیم طلبا ء اور طا لبات کو مختلف سر گر میوں میں تر بیت کے موا قع فراہم کر کے افرادی قوت سے بہتر انداز میں کا م لیا جا ئے .

حکومت کی یہ خواہش جا معات کے اندر تدریس اور تحقیق سے وابستہ اعلیٰ تعلیم یا فتہ شہریوں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت کے اعلیٰ عہدے پر فائز شخصیت نے اکیڈ یمیا یعنی علم و فضل اور دانش رکھنے والے شہریوں کو توجہ کے لا ئق گردا نا اور ان کی رائے لینے پر تو جہ دی شعبہ ابلا غیات یعنی جنرنلز م ڈیپارٹمنٹ کے چیر مین پرو فیسر ڈاکٹر فیض اللہ جا ن نے شعبے کی سر گرمیوں میں تحقیق و تدریس کے معیار سے معاون خصوصی کو آگاہ کیا بیرسٹر محمد علی سیف نے حکومت کی طرف سے یو نیورسٹی کے طلبہ کے لئے کاروبار کے مواقع اور سر کاری، نیم سرکاری اداروں میں تجربے کے مواقع دینے کی پا لیسی پر روشنی ڈالی اور طلبہ کو اس پا لیسی سے فائدہ اٹھا کر انٹر پرینیورشپ اور انٹرن شپ میں حصہ لینے کی دعوت دی .

پشاور یو نیورسٹی کے شعبہ ابلا غیات کے ساتھ ہمارا تعلق چار دہا ئیوں پر محیط ہے یا دش بخیر ڈاکٹرشاہ جہان سید جن دنوں چیئر مین تھے اس دور سے ہمارا رابطہ رہا ہے شعبہ ابلا غیات نے کمیو نیٹی ریڈیو کے ذریعے بڑی خد مت انجا م دی ہے مختلف اداروں کے تعاون سے شعبہ ابلا غیات میں ضلعی نا مہ نگاروں کے لئے ورکشاپ، سمینار اور آگا ہی و تر بیت کے دیگر پرو گرام بھی منعقد ہوتے آرہے ہیں وزیر اعلیٰ کے معا ون خصو صی نے یو نیورسٹی کے ایک اہم شعبے کا دورہ کر کے روایت سے ہٹ کر خیر سگا لی دکھا ئی ہے اس پر مو صوف کو بھر پور داد ملنی چا ہئیے ورنہ ہمارے ہاں وزراروایت سے ہٹ کر کوئی بات نہیں کرتے.

ایک زما نے میں مو لا نا کوثر نیا زی وفاق میں وزیر اطلا عات تھے اپنے ذا تی علم و فضل اورا پنی بے پنا ہ خطیبا نہ صلا حیتوں کے باوجود مو صوف نے حکومت اور حکمرا ن کی شان میں ایک تقریر تیار کی تھی جسے ہر شہر کی تقریب میں دہرا تے تھے ایک دن ایسا لطیفہ ہوا کہ مو لا نا نے صبح کے وقت راولپنڈی میں تقریر کی شام کو ایبٹ اباد میں تقریب سے خطاب کیا ایبٹ اباد کے نا مہ نگارنے جو خبر قو می اخبار کو بھیجی اس میں شہرکا نا م،تقریب، میز بان تنظیم کا نام لکھ کر خبر کا ابتدائیہ تحریر کیا اس کے بعد لکھا ”باقی وزیر صاحب کی پنڈی والی تقریر لگا دیجئیے“ اگلے روز اخبار میں خبر کا ابتدائیہ ہو بہو اسی طرح شائع ہوا ڈیسک انچارچ ”باقی وزیر صاحب“ والا جملہ حذف کرنا بھول گیا تھا صحا فت کو ریا ست کا چو تھا ستون کہا جا تا ہے اس لئے مقننہ، انتظا میہ اور عدلیہ کے برابر صحا فت کو اہمیت حا صل ہے معاون خصو صی برائے اطلا عات کی طرف سے جا معہ پشاور کے شعبہ ابلا غیا ت کا دورہ بارش کا پہلا قطرہ ہے خدا کرے باران رحمت کی طرح یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
57115

پاکستان بارڈر منجمنٹ سسٹم پائدار اور مستحکم امن کی مضبوط باڑ-قادر خان یوسف زئی


 کسی بھی ملک کا اپنی سرزمین کو در اندازی، دہشت گردی، انسانی اسمگلنگ اور منشیات کی روک تھام کے لئے باڑ، دیوار، خندقیں وغیرہ جیسے اقدامات  نئی بات نہیں۔دنیا کے 70سے زائد عالمی سرحدوں پر باڑ نصب ہیں۔ سرحدوں پر باڑ،دیوار،رکاوٹ، یا بارودی سرنگیں بچھانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔پاکستان نے2017 سے  بارڈر منجمنٹ سسٹم کے تحت حفاظتی اقدامات کئے، اس ضمن میں پاک۔ افغان اور ایران سرحدوں کو خار دار تاریں اور سیکورٹی چیک پوسٹ بنانے کے منصوبہ بندی کا  95 فیصد اور ایران کے ساتھ 71 فیصد سے زائد کام مکمل ہوچکا ہے۔ سابق کابل انتظامیہ کی جانب سے سرحدوں کو محفوظ بنانے کے عمل کو روکنے کے لئے اشتعال انگیز کاروائیاں کی جاتی رہیں، جس کا موثر جواب بھی دیا جاتا  تاہم اگست2021 میں افغان طالبان کے افغانستان پر دوبارہ قابض ہونے کے بعد سرحدی علاقوں میں بعض ایسے واقعات رونما ہوئے جس میں سرحد پر تنصیب کی جانے والی  خار دار تاروں کو کئی جگہ سے ہٹانے والے افغان طالبان کے مقامی سطح پر سیکورٹی پر معمور اہلکاروں نے اپنے تئیں اقدامات کئے،

اس کا اعتراف افغان طالبان کے اقوام متحدہ میں نامزدہ کردہ مستقل مندوب سہیل شاہین نے اپنے بیان میں بھی کیا کہ یہ واقعات مقا می سطح پر ہوئے ہیں، جس کے حل کے لئے کوشش کی جا رہی ہے، پاکستان سیکورٹی فورسز نے افغان طالبان کی موجودہ صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی قسم کی کشیدگی کو بڑھانے کے بجائے، تحمل کا مظاہرہ کیا کیونکہ اس وقت افغان عوام جن حالات سے گذر رہے ہیں اس کا اثر افغان طالبان کی انتظامیہ پر حاوی ہے،لہذا ان حالات میں سرحدی کشیدگی بڑھنے سے افغانستان میں انسانی بحران کے خاتمے کے لئے کی جانے والی کوششوں کو،نقصان سے بچانے کے لئے سفارتی سطح پر برداشت اور برد باری کی پالیسی اپنائی۔  پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ پاکستان، افغانستان سرحد پر باڑ کو لگانے میں پاکستانی شہدا کا خون شامل ہے، یہ ناصرف مکمل ہو گی بلکہ قائم بھی رہے گی۔’اس (باڑ) کا مقصد لوگوں کو تقسیم کرنا نہیں، انھیں محفوظ بنانا ہے۔ یہ امن کی باڑ ہے، یہ مکمل ہو گی، اور انشااللہ قائم رہے گی۔‘


افغان طالبان کی عبوری انتظامیہ کو عالمی برداری کی جانب سے تسلیم نہیں کیا گیا، ان کی امارات کو افغانستان میں قبضہ قرار دیئے جانے کی وجہ سے پڑوس ممالک پر متنوع مسائل کے لئے دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ بالخصوص مہاجرین کی آمد اور افغانستان میں خوراک کی قلت اور قحط کی تشویش ناک صورت حال ہے۔ افغان عوام کی بیشتر تعداد پڑوس ممالک، بالخصوص پاکستان میں آزادنہ نقل و حرکت کے لئے شمال مغربی سرحدوں پر پاک افغان بارڈر منجمنٹ حائل ہے، جس کے خاتمے کے لئے تاریخی حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرنے سے پاک۔ افغان کے سرحدی علاقوں میں رہنے والے باشندوں کو ریاست کے خلاف اشتعال پیدا کرنے کی سازش کی کوشش پہلے بھی کی جاتی رہی ہے اور کابل میں انتظامیہ کی تبدیلی کے باوجود شر پسند عناصر امن و امان کی صورت حال کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان  2017 سے بارڈر منجمنٹ سسٹم کے تحت بین الاقوامی تسلیم شدہ سرحد وں پر باڑ لگانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس دوران سب سے بڑی مخالفت سابق کابل انتظامیہ کی جانب سے ہوئی  اور کئی مرتبہ سرحد پار سے پاکستانی فورسز پر حملے کئے گئے۔ حالانکہ موجودہ دور میں بارڈر منیجمنٹ کا تصور سرحدوں کی حفاظت کی انتہائی ضروری سمجھا جاتا ہے۔میجر جنرل بابر افتحار کا کہنا تھا کہ ان واقعات کو بار بار اُچھال کر غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حالاں کہ پاکستان اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کے درمیان تعلقات بہت اچھے ہیں۔ترجمان پاکستانی فوج نے واضح کیا کہ پاکستان، پاک، افغان سرحد کو ڈیورنڈ لائن نہیں مانتا، یہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ بین الاقوامی سرحد ہے اور اپنی سرحد کے اندر پاکستان اپنی مرضی سے اقدامات کر سکتا ہے۔


 پاک۔ افغان سرحد قریباََ 2679 کلو میٹر پر محیط ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں پاک افغان بارڈر کی کل لمبائی 1229 کلومیٹر ہے۔ جس میں سے 792 کلومیٹر  بارڈر پر باڑ کاکام مکمل ہوچکا جبکہ باڑ کاکل کام 823 کلومیٹر ہے۔جبکہ صوبہ بلوچستان میں کل بارڈر 1450 کلومیٹر جس میں سے 1400 کلومیٹر پر باڑ لگانے کے منصوبے میں اب تک 1250 کلومیٹر باڑ لگانے کا کام مکمل  کرلیا گیا۔ اسی طرح پاک ایران کل1100 کلو میٹر بارڈر میں سے909 کلومیٹر پر باڑ لگانے کا منصوبے میں 580 کلومیٹر پر باڑ لگانے کا کام مکمل ہوگیا ہے۔  پاک افغان سرحد کی لمبائی دیر پائیں میں 39 کلو میٹر، باجوڑ میں 50، مہمند میں 69  خیبر میں 111، کرم میں 191، شمالی وزیرستان میں 183 اور جنوبی وزیر ستان کے ساتھ 94 کلو میٹر ہے۔ چترال کے ساتھ افغان سرحد کی لمبائی 493 کلومیٹر ہے لیکن اس میں سے 471 کلومیٹر سرحد انتہائی بلندی پر واقع اور گلیشیئروں پر مبنی علاقوں سے گزرتی ہے۔  آئی ایس پی آر کے مطابق پاک۔افغان سرحد پر پوسٹس کی تعداد 1250 جب کہ افغانستان میں صرف377 پوسٹس ہیں۔ پاکستان میں کچھ 12 ہزار فٹ کی بلندی پر پہاڑوں کی چوٹیوں پر تعمیر کیے گئے ہیں۔افغانستان کے لیے تجارتی مقصد کے لیے چھ باضابطہ سرحدی راستے فعال ہیں جن میں خیبرپختونخوا میں طورخم (خیبر)، انگور اڈہ (جنوبی وزیرستان)، غلام خان (شمالی وزیرستان) اور خرلاچی (کرم)۔ اسی طرح بلوچستان میں چمن (قلعہ عبداللہ) اور بادینی (قلعہ سیف اللہ) شامل ہے۔ صرف باجوڑ میں افغانستان کے ساتھ چھوٹے بڑے 26 راستے تھے جہاں سے سرحد پار آباد قبائل آزادانہ تجارت اور آمد و رفت کرتے تھے۔ صرف طورخم  بارڈرسے سالانہ12سو ٹرک آتے جاتے جب کہ افراد کی تعداد10 ہزار سے زائد ہے۔یہ صرف ایک سرحدسے نقل و حرکت کے اعداد و شمار ہیں، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ235راستوں سے آنے والوں کی تعداد کتنی ہوتی ہوگی۔ جب کہ پاکستان کی پوسٹ کا ایک دوسرے سے فاصلہ سات سے آٹھ کلو میٹر پڑتا ہے ذرائع کے مطابق اس منصوبے پر 2019یک کے تخمینے کے مطابق 70ارب روپے کے اخراجات کئے جانے تھے جو اب تک پاکستان نے کسی بیرونی امداد کے بغیرکم وبیش 50 کروڑ ڈالر خرچ کرکے دونوں ممالک کی بہتری کے لئے کام کیا۔


 پاک۔ افغان سرحد کو ڈیورنڈ لائن کے نام پر بعض عناصر دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کرتے ہیں،  ڈیورنڈ لائن واحد سرحدی لکیر ہے جسے افغان بادشاہ کی مرضی سے طے کیا گیا اور یکے بعد دیگرے تین بادشاہوں نے 37 برس کے عرصے میں اس بابت پانچ معاہدوں کو تسلیم کیا۔ قیام پاکستان کی اطلاعات پر1946  میں کابل نے ڈیورنڈ لائن پر نئے معاہدے کے لئے برطانیہ کو خط لکھا جس پر برطانوی حکومت نے  صاف جواب دے دیااور پھر افغانستان خاموش ہوگیا۔  خیال رہے کہ ہندوستان کے وزیر امور خارجہ ما ٹیمر ڈیورنڈ ستمبر 1893ء میں کابل گئے اور تین مہینے رہنے کے بعد امیر عبدالرحمن سے نومبر 1893 میں دونوں حکومتوں کے مابین مستقل معاہدہ ہوا۔ تاریخی حقائق کے مطابق 1823میں کئی افغان علاقوں پر مہاراجہ رنجیت نے قبضہ کرلیا تھا۔ 1846میں یہ علاقے پنجاب کا حصہ تھے جو انگریزوں نے چھینے، افغان اور پنجابی سکھوں کے درمیان کئی جنگیں بھی ہوچکی تھی۔ افغان حملہ آوروں سے تنگ آنے کی وجہ سے افغان حکمران امیر عبدالرحمن کے ساتھ انگریزوں نے  1893 میں ڈیورنڈلائن کہلائے جانے والا معاہدہ کرلیا، جس کی تجدید متعدد بار کی جاچکی ہے۔ پاکستان میں شامل علاقے جو پہلے ہی برصغیر پاک و ہند کا حصہ تھے، اورقیام پاکستان کے بعداگلے54 برس تک بھی کسی افغان حکومت نے ڈیورنڈ لائن کا معاملہ نہیں اٹھایا۔

 2013 میں ہونے والے اجلاس، جس میں پاکستانی سابق صدر آصف زرداری، افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی اور برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون شامل تھے اور اس اجلاس میں پہلی مرتبہ افغانستان نے  پاک۔ افغان سرحد پر تعاون کیلئے اتفاق رائے کیا تھا، لیکن آج تک کوئی عملی اقدامات نہیں کئے۔ پاک۔ افغان سرحدکے تنازع پر مارچ 2017 کوبرطانیہ کی میزبانی میں پاک، افغان اور برطانیہ سہ فریقی اجلاس دوبارہ ہوا تھا۔ اجلاس کا مقصد پاکستان، افغانستان کے درمیان پیدا کشیدگی اورسیاسی تناؤ کم کرنے کی ایک کوشش تھی، لیکن افغانستان کی جانب سے پاکستان کو اطمینان بخش جواب نہ ملنے کے سبب اجلاس کا متفقہ مشترکہ اعلامیہ بھی جاری نہیں ہوسکا۔ اس معاملے کو امریکہ کی حاشیہ بردار کابل انتظامیہ نے دی جو بھارت کی ایما پر پاکستان مخالف سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ ڈیورنڈ لائن معاملے کو اٹھانے کا واحد مقصد پڑوسی ممالک میں کشیدگی پیدا کرنا ہے جس سے اعتماد کی فضا متاثر ہو۔   موجودہ صورت حال میں پاکستان نے افغانستان کے ساتھ مغرب میں پاک۔ افغان سرحد کے لئے کڑے سکیورٹی کے انتظامات کر رکھے ہیں لیکن پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے کے بجائے پاکستانی فورسز اور آبادیوں پر حملے کئے جاتے ہیں اور بارڈر منجمنٹ سسٹم میں جابجا رکاوٹیں کھڑی کیں جا رہی ہیں۔

گزشتہ دور میں دونوں ممالک کے سرحدی فورسز کے درمیان ٹانڈہ درہ کے علاقے میں پاکستان کی جانب سے باڑ لگانے کے باعث کشیدگی پیدا ہوگئی تھی اور جھڑپ میں افغان فورسز کی فائرنگ سے ایک درجن سے زائد پاکستانی شہری ہلاک اور چالیس کے قریب زخمی ہوئے تھے۔ پاکستانی فوج کو باڑ لگانے میں ’سب سے زیادہ جنوبی وزیرستان کے علاقے شوال علاقہ میں مزاحمت کا سامنا رہا اور سب سے زیادہ اس علاقہ میں باڑ لگاتے ہوئے جوانوں کی جانیں قربان ہوئیں۔‘ذرائع نے مزید بتایا شدت پسندوں نے ’شوال میں منگڑیتی کے سامنے تین چار کلومیٹر افغانستان کے اندر بھاری مشین گنیں لگا رکھی تھیں جن کو خاموش کرانے میں مہینوں لگے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی وزیرستان میں ایک ہی رات میں 35 چوکیوں پہ حملہ کیا گیا اور دو دن جھڑپ جاری رہی۔ اس علاقے میں اتنی مزاحمت کا سامنا رہا کہ دو سال باڑ پہ کام رکا رہا یہی وجہ ہے کہ باڑ دسمبر 2019 میں مکمل نہیں ہو سکی۔‘ذرائع کے مطابق  بلوچستان کے ضلع ژوب، ضلع قلع سیف اللہ اور چمن کی سرحدی چوکیوں پہ بھی سنائپر اور بھاری گنوں سے حملوں میں کئی فوجی جان سے گئے ہیں۔ ۔ خاردار باڑ کے لگانے اور چوکیوں کی تعمیر سے دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان عسکریت پسندوں کی آمدورفت مکمل طو ر پر ختم ہونے کے امکانات قریب تر ہیں۔


  فروری 2016 سے تاحال پاکستان نے شدت پسندی کی تازہ لہر کے بعد کی جانب سے عدم تعاون پر سرحد بندش کی منصوبہ بندی کی کیونکہ بلوچستان میں بھارتی اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نیٹ ورک پکڑے جا چکے تھے، اس لئے پاکستان سے فرار ہوکر انھوں نے بھی کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر کالعدم تنظیموں کی طرح افغانستان میں ٹھکانے بنا لے، جس کی وجہ سے پاکستانی سیکورٹی اداروں کو انھیں پکڑنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، پھر اصل ٹارگٹ سی پیک کو بھی ان سازش کاروں سے بچانا تھا کیونکہ افغانستان میں عالمی قوتیں داعش کی موجودگی کو یقینی بنانے کیلئے سرگرم ہیں تاکہ اس بہانے افغانستان میں موجودگی کا جواز پیدا کرکے سی پیک منصوبے کو محدود کردیا جائے اور عالمی منڈیوں تک پاکستانی اور چینی مصنوعات کو روکا جا سکے۔ لشکر جھنگوی العالمی،جماعت الاحرار،کالعدم ٹی ٹی پی، سواتی گروپ، باجوڑی گروپ سمیت کئی کالعدم تنظیموں نے افغانستان کی سرزمین میں مستقل ٹھکانے موجود ہیں، موجودہ افغان طالبان کی عبوری انتظامیہ پاکستان مخالف کالعدم تنظیموں کے خلاف موثر کاروائی نہیں کرسکی اور اسے پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہیں، تاہم اس امر کی یقین دہانی بھی کراتے ہیں کہ افغان سرزمین، کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ عملی طور پر وہ افغان طالبان اپنے دعوؤں پر عمل درآمد کرانے میں کامیاب نظر نہیں آرہے کیونکہ کابل پر قبضے کے بعد کالعدم تنظیموں نے پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں اضافہ کیا اور اس میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ بظاہر افغان طالبان کی ثالثی میں جنگ بندی کا اعلان بھی کیا گیا، لیکن اس کے اثرات پاکستان میں نمایاں نہیں تھے، 2020 کی نسبت2021 میں بالخصوص کابل پر قبضے کے بعد پاکستان میں پر تشدد واقعات میں اضافہ ہواہے۔ گو کہ دہشت گردی کے بڑے واقعات کم ہوئے لیکن پر تشدد واقعات میں اضافہ ماہ ستمبر سے شروع ہوا جو پچھلے سال کے مقابلے میں زیادہ رہا۔ دہشت گردوں کا واحد مقصد پاکستان میں سافٹ ٹارگٹس کو نشانہ بنانا ہے۔  پر تشدد واقعات میں اضافہ ظاہر کر رہا ہے کہ یہ صرف دہشت گردی نہیں بلکہ اس کے پیچھے بیرون عناصر بھی ملوث ہیں اور کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جب کسی پاکستانی افسر وجوان کی شہادت کی خبر نہ آتی ہو۔


 پاک۔ افغان سرحد کیلئے افغانستان کو موقع دیتا آرہاکہ وہ اپنے طرز عمل میں تبدیلی پیدا کرکے پاک، افغان عوام دونوں ممالک کے لئے مشکلات پیدا کرنے سے گریز کرے۔ افغانستان کو پاکستان کیساتھ مل کر بارڈر منیجمنٹ پر کام کرنا چاہئے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال میں یہ عنصر نمایاں نظر آرہا ہے کہ پاکستان مخالفت لئے  افغان طالبان کے بیشتر اہلکار اپنی حدود سے تجاوز کرجاتے ہیں۔ خار دار تاروں بعض جگہوں کو ہٹانے کے عمل اور امدادی سامان کے ٹرکوں پر پاکستانی پرچم کی بے حرمتی جیسے واقعات اور ان پر عبوری انتظامیہ کا اپنے ہی اہلکاروں کے خلاف کاروائی کرنا، ظاہر کرتا ہے کہ بالائی سطح پر ایسے کوئی احکامات نہیں دیئے جارہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پھیلے۔ خیال رہے کہ افغان طالبان اور ایران کی سیکورٹی فورسز کے درمیان بھی ایک جھڑپ ہوچکی ہے، جسے دونوں ممالک نے غلط فہمی کا نتیجہ قرار دے کر رفع دفع کردیا۔ تاہم سرحدی اہلکاروں کی انفرادی اقدامات کی وجہ سے قیام امن کی کوششوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ پاکستان، افغانستان میں قیام امن کا حامی ہے اور پاکستان یہ بھی چاہتا ہے کہ افغان عوام کو درپیش مسائل جلد ازجلد حل ہوں۔ پاکستان متعدد بار واضح طور اپنا موقف دے چکا کہ جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہوگا خطے میں مستحکم و پائدار امن قائم نہیں ہوسکتا۔ افغانستان میں عبوری انتطامیہ کو تسلیم کرنا عالمی برداری کی جاب سے افغان طالبان کے ویئے سے جڑا ہوا ہے۔ ان کی جانب سے اب متعدد ایسے اقدامات سامنے آرہے ہیں جو ان کے پہلے دور اقتدار میں کئے جاتے رہے تھے، اس سے عالمی برداری میں تحفظات مزید بڑھ چکے ہیں اور اس سے افغان طالبان کا سافٹ امیج ظاہر کرنے کا عمل متاثر ہورہا ہے۔


افغانستان  کی سابق خفیہ ایجنسی پاکستان دشمن عناصر کو سہولت دینے اور پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرتی رہی ہے۔ خصوصی ڈیتھ اسکوڈ پاک۔ افغان بارڈر منجمنٹ سیکورٹی سسٹم کو ناکام بنانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں نہتے اور عالم شہریوں سمیت پاکستانی سیکورٹی فورسز کی شہادتوں میں بھی ملوث رہا ہے۔ نام نہاد علیحدگی پسند قوم پرست جماعتوں کی تربیت اور دہشت گردی کروانے کے لئے این ڈی ایس کے نظریات اور اقدامات نے ہمیشہ پاک۔افغان تعلقات میں رخنہ ڈالا۔ اور پاکستان کی پر امن کوششوں کو سبوتاژ کیا۔ اس کے باوجود پاکستان نے دونوں حکومتوں کے درمیان تمام معاملات کو مذاکرات کی میز پر باہمی طور پر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ہاٹ لائن بھی قائم کی۔ فلیگ میٹنگ بھی ہوئی۔ پاک فوج کے سربراہ سمیت حساس اداروں کے سربراہوں نے بھی افغانستان کے دورے میں سابق کابل حکومت کو مکمل تعاون کا یقین دلایا اور ایک مربوط میکنزم قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔  پاکستان، افغانستان میں پائدار امن کا خواہاں ہے اور افغانستان کے اسٹیک ہولڈر کو پر امن مذاکرات کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ پاکستان افغانستان کی جنگ سے شدید متاثر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان بارڈر منجمنٹ سسٹم سے دہشت گردی کی کاروائیوں کے روک تھام میں زبردست مدد ملنے کا امکان ہے۔ لیکن اب بھی کئی افسران اور جنگجو ملیشیائیں  ایسی ہیں جو پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں چاہتے۔ پاک۔ افغان بارڈر منجمنٹ سسٹم دونوں ممالک کے درمیان پائدار اور مستحکم امن کے لئے مضبوط باڑ ہے۔اسے متاثر کرنے سے دونوں ممالک ہی نہیں بلکہ خطے میں قیام امن کی تمام کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57113

علماء کو اپنے حالات خود بہتر کرنا ہوگا – خاطرات : امیرجان حقانی


یہ بہت کمزور دلیل ہے کہ اگر دینی مدارس کے مدرسین، قراء، مساجد کے آئمہ و خطباء، کاروبار، کوئی کام یا پارٹ ٹائم نوکری کریں گے تو دینی کاموں میں حرج ہوجائے گا. یہ بات ایک ڈھکوسلہ سے کم نہیں.میں بہت سارے مدرسین، قراء، خطباء اور آئمہ مساجد کو جانتا ہوں جو پارٹ ٹائم جاب کرتے ہیں، دکان لگایا ہوا ہے، پراپرٹی کا کام کرتے ہیں، کوئی کاروبار کرتے ہیں.کمپوزنگ کرتے ہیں، ڈیزائننگ کرتے ہیں، پروف ریڈنگ کرتے پیں. اخبار میں سب ایڈیٹری کرتے ہیں، تصنیف و تالیف کا کام کرتے ہیں، ترجمے کرتے ہیں ، آن لائن کام کرتے ہیں، شہد بیچتے ہیں، کتابوں کی جلدیں بناتے ہیں،کتب خانے کھولے ہوئے ہیں.مسواک اور ٹوپیاں فروخت کرتے ہیں. اس طرح بہت سارے کام کرتے ہیں اور اچھا خاصا کماتے ہیں اور ساتھ ہی درس و تدریس کا کام بھی کرتے ہیں اور مساجد و مکاتب کو بھی سنھبالا ہوا ہے اور خوشحال ہیں. زندگی انجوائی کررہے ہیں، کسی کے رحم وکرم پر نہیں ہیں. اپنی فیملی کو بھی اچھے انداز میں رکھا ہوا ہے.
میں خود گزشتہ 11 سال(2011) سے مسلسل یہی کررہا ہوں. میری کفالت میں 15 کے قریب افراد ہیں جن کے جملہ اخراجات میرے ذمے ہیں. سرکاری نوکری کیساتھ کوئی نہ کوئی اور کام بھی کرتا ہوں جس سے چار پیسے مل جائے اور ساتھ ہی درس وتدریس، خطابت اور مطالعہ، قلم کاری اور کئی ایک مدارس کے لیے جزوی خدمات انجام دیتا ہوں، یہ سب کام فی سبیل اللہ کرتا، بلکہ سچ کہوں تو اپنا پیسہ خرچ کرکے یہ دینی اور قلمی امور انجام دیتا.اور ان سے خوب عزت بھی پا رہا ہوں.اور دعوتیں بھی اڑا رہا ہوں.


جو لوگ مدارس، مساجد، مکاتب اور دینی اداروں سے منسلک ہیں وہ مہتممین، مسجد کمیٹی اور محلہ کمیٹی پر انحصار کرکے ہمیشہ کڑھتے رہنے سے بہتر ہے کوئی کام کریں. اپنے معاشی حالات خود بہتر کریں اور اگر مشکل پیش آرہی ہیں تو درس وتدریس کا کام جزوقتی کریں.10 ہزار سے چھوٹا سا کاروبار ہی شروع کریں.تھوڑا سا فہم ہو تو ایک روپیہ انویسٹ کیے بغیر لاکھوں کا کاروبار کیا جاسکتا ہے. میں خود ایک روپیہ لگائے بغیر سیزن میں لاکھوں کا ڈرائی فروٹس بیچتا اور بلاشبہ لاکھوں کماتا. بس تھوڑی سی ایمانداری اور بہتر سروسز دیتا. کسٹومر کو کسی صورت ناراض نہیں کرتا، مکمل توقیر سے ان کا کام کرتا اور ڈیمانڈ پوری کرتا. لوگوں کو بھی اسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے. 


آج کے دور میں بیسویں ایسی ہنر/سکلز ہیں جن سے خوب کمایا جاسکتا لیکن اس کے لیے محنت و مشقت کی ضرورت ہوتی ہے، ایمانداری سے کام کرنا ہوتا ہے. مزید کچھ سیکھنا ہوتا ہے. کچھ وقت دینا ہوتا ہے. ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھنا ہوتا ہے. اپنی مشکلات کا رونا رونے کی بجائے خود کو اس اہل بنایا جانا ہوتا ہے کہ کسی کے سامنے عاجزی کے ہاتھ نہ پھیلائیں، بہر حال دینے والا ہاتھ لینے والا ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے. علماء کو دینے والا ہاتھ بننا چاہیے، اسی میں ان کی توقیر ہے. ورنا آج کا سماج جوکہتا ہے کہ مولوی لوگ دوسروں کا کھاتے ہیں اور ہر وقت چندہ، خیرات، صدقات و زکواۃ کی فکر میں رہتے ہیں، سچ ثابت ہوگا.علماء کو اپنے کردار سے یہ غلط ثابت کرنا ہوگا کہ کم از کم اپنے گھر کے اخراجات کے لیے کسی سے نہ مانگا جائے. اور بالخصوص نوجوان فضلاء کو اس کیفیت سے نکلنے کی ضرورت ہے. میرا ایک نوجوان  دوست ہے جو مدرسے میں بہترین مدرس ہے مگر پارٹ ٹائم  دیواروں پر خطاطی کرتا ہے، سائن بورڈ بناتا ہے اور خوب کماتا ہے. ایک دوست مسجد میں امام و خطیب ہیں اور مدرس بھی مگر موبائل رپیرنگ کرکے اچھا خاصا کماتا ہے. ایسے دوست بہت سارے ہیں اور ان دوستوں کی بھی کمی نہیں، جو پانچ دس ہزار کے مدرس، خطیب، امام اور قاری ہیں. پارٹ ٹائم کچھ کرنے کی بجائے، مہتممین، مسجد کمیٹی، محلہ کمیٹی اور مخیر حضرات کو کوستے رہتے ہیں مگر کوئی کام کرنے کے لیے تیار نہیں. جو انتہائی افسوسناک ہے.


ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب لکھتے ہیں :
“حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہر شخص کو خود کفیل بننے کا حکم دیا تھا,خاص کر مذہبی رہنماؤں کو دوسروں پر ” بوجھ ” بننے سے منع کیا ہے
چنانچہ فرمایا
یا معشر القراء ارفعوا رؤوسکم فقد وضح الطریق واستبقوا الخیرات ولا تکونوا عیالا علی المسلمینترجمہاے قراء ( علماء)کی جماعت : اپنے سروں کو اونچا رکھو,راستہ کھلا ہے ( مال کمانے میں) ایک دوسرے سے سبقت لے جاؤ,اور مسلمانوں پر بوجھ نہ بنو. تاریخ عمر رضی اللہ عنہ لإبن جوزی ص 191″.


یہ رونا رونا بالکل فضول ہے کہ کام نہیں ملتا، مارکیٹ میں اتنا کام ہے جس کی کوئی حد نہیں. آپ کام کریں، عزت سے چار پیسے کمائیں، رج کر کھائیں اور ڈٹ کر دینی خدمات انجام دیں اگرچہ جز وقتی ہی کیوں نہ ہو. تب مہتممین، مسجد و محلہ کمیٹی اور مخیر حضرات کے سامنے آپ کی توقیر بھی ہوگی اور آپ سچ بات ڈٹ کر کہنے کی جرآت بھی کریں گے اور کوئی آپ کو آنکھیں بھی نہ دکھا سکے.اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو. 

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
57111

کروڑ پتی ٹیکس نادہندگان ۔ محمد شریف شکیب

غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی اور ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے حکومت نے فنانس ترمیمی بل کے ذریعے عوام پر ٹیکسوں کا نیابھاری بھر کم بوجھ لادنے کی تیاری کرلی ہے۔ ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے نام پر عوام کو ٹیکسوں اور مہنگائی کی زنجیروں میں جکڑنے والے اراکین پارلیمنٹ خود کتنے ٹیکس دیتے ہیں اس حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے فہرست جاری کی ہے۔ ایف بی آر کی رپورٹ کے مطابق سال 2019میں پی ٹی آئی کے ایم این اے محمد نجیب ہارون سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے رکن پارلیمنٹ بن گئے ہیں۔ انہوں نے 14 کروڑ 7 لاکھ 50ہزارروپے ٹیکس ادا کیا۔ اپنے ٹیکس گوشواروں میں محمد نجیب نے اپنی آمدن 1 ارب 87 کروڑ 66 لاکھ روپے ظاہر کی ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی آمدنی 4 کروڑ 35 لاکھ روپے رہی اور انہوں نے 98 لاکھ 54 ہزار 959 روپے ٹیکس دیا۔ شہباز شریف کی آمدنی 5 کروڑ 63 لاکھ روپے تھی انہوں نے 82 لاکھ 42 ہزار روپے ٹیکس دیا۔ آصف علی زرداری کی آمدنی 28 کروڑ 26 لاکھ روپے تھی انہوں نے ٹیکس کی مد میں 22 لاکھ 18 ہزار روپے دیے۔بلاول بھٹو نے 3 کروڑ 81 لاکھ روپے کمائے اور5 لاکھ 35 ہزار روپے ٹیکس دیا۔ وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کی آمدنی صرف 9 لاکھ 38 ہزار روپے تھی اور انہوں نے 2019 میں 2 ہزار روپے ٹیکس دیا۔وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کی آمدنی 5 کروڑ 70 لاکھ روپے تھی10 لاکھ 99 ہزارروپے ٹیکس ادا کیا۔وزیراعلی خیبرپختو نخوا محمود خان کی آمدنی 25 لاکھ 80 ہزار روپے تھی اور انہوں نے 66 ہزار 258 روپے ٹیکس ادا کیا۔شاہانہ طرززندگی رکھنے والے بعض ارکان پارلیمنٹ نے کوئی ٹیکس نہیں دیا۔

ایسے 19ممبران قومی اسمبلی وسینیٹرزکی فہرست سامنے آگئی جن کا ٹیکس زیرو ہے جن میں پی ٹی آئی کے پانچ ، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اورمسلم لیگ(ق) کاایک ایک جبکہ جے یوآئی (ف) کے دو ممبران قومی اسمبلی شامل ہیں۔سینیٹرز میں پیپلزپارٹی کے تین، پی ٹی آئی کے دو، مسلم لیگ (ن)، اے این پی اوربلوچستان عوامی پارٹی کا ایک سینیٹر بھی شامل ہے۔ارب پتی ٹیکس نادہندگان میں منصور حیات، نیازاحمد جھکڑ، سیف الرحمان، سلیم الرحمان، سردار محمد،مولاناعبدالشکور،مولاناکمال الدین،شکیلہ خالد،فرخ خان،پیر عامر شاہ گیلانی، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، سینیٹر پلوشہ محمد زئی،قرۃالعین مری، سینیٹر فیصل سلیم، سینیٹر سیف اللہ ابڑو، سینیٹر ہدایت اللہ خان، پرنس احمد عمرزئی اورسینیٹر نسیمہ احسان شامل ہیں۔

ٹیکس نہ دینے والے اراکین پارلیمنٹ میں صنعت کار، کارخانے دار، جاگیر دار، خانقاہوں کے مالکان، برآمد کنندگان، بڑے ٹھیکیدار اور تاجر بھی شامل ہیں۔ اور ان کی ماہانہ آمدنی کروڑوں میں ہے۔ سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے جن اراکین سینٹ، قومی و صوبائی اسمبلی کے نام ٹیکس نادہندگان کی فہرست آئے ہیں۔سیاسی جماعتوں کی قیادت پر فرض ہے کہ انہیں پارٹی عہدوں سے ہٹانے کے ساتھ کسی بھی عوامی عہدے کے لئے انہیں نااہل قرار دیں۔ قوم کا بال بال بیرونی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی اور امور حکومت چلانے کے لئے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے ناقابل قبول شرائط پر قرضے لئے جارہے ہیں ان قرضوں کی ادائیگی کے لئے مہنگائی کے مارے عوام کا ٹیکسوں کی صورت میں خون نچوڑا جارہا ہے۔

اس معاشی ناانصافی نے عوام کو نظام حکومت اور جمہوریت سے متنفر کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچاس فیصد رائے دہندگان بھی عام انتخابات میں ووٹ پول کرنے گھروں سے باہر نہیں نکلتے۔ان کا موقف یہ ہے کہ ان کے ووٹ سے کونسی تبدیلی آنی ہے۔ گذشتہ 75سالوں سے انہوں نے ہر سیاسی جماعت کو آزمایا کسی نے اس ملک کے عام آدمی کو استحصال سے نجات دلانے کی کوشش نہیں کی۔ عام آدمی کے اس موقف کو یکسر نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57092

گیس ہیٹر یا کوئلہ لوگوں کی جان کیسے لیتی ہے۔ از: ذوالفقارعلی‎‎

سردیوں کے موسم میں آئے روز یہ خبر سننے کو ملتی رہتی ہے کہ دم گھٹنے یا گیس ہیٹر کی وجہ سے فلان کی موت واقع ہو گئ ۔ گزشتہ دن چترال اور آج مری مین سیاحوں کی سردی کی وجہ سے موت خبروں کی سرخیوں میں ہیں ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ انسان کی موت سردی سے کب تک ہو سکتی ہے اور سردیوں میں گیس ہیٹر یا کوئلے سے موت کس طرح واقع ہوتی ہے ۔ انسانی بدن میں ٹمپریچر کو کنٹرول کرنے کا ایک جامع نظام موجود ہوتا ہے جو کہ انسانی بدن کے درجہ حرارت کو 37 ڈگری سنٹی گریڈ پہ قاہم رکھتا ہے ۔ گرمی کی صورت میں پسینہ ، خون کے شریانوں کا پھیلاؤ اور اندرونی میٹابولسم کو سست کرکے جسم اپ کے درجہ حرارت کو نیچے رکھتا ہے تو سردی کی صورت مین خون کے نالیوں کے سکڑاؤ میٹابولزم کی تیزی اور کپکپاہٹ ہمین گرم رکھتا ہے ۔

مری میں جس درجہ حرارت پہ سیاحوں کی موت ہوئی ہے اسکی وجہ سردی نہیں بلکہ کاربن مونو آکسائیڈ ہے ۔ جسم مین آمد و رفت کا زریعہ خون ہے ۔  خون خوراک کو اپنے اندر حل کرکے سر سے لیکر پاؤں تک سارے خلیوں مین پہنچاتا ہے ۔ اس خوراک کو توڑ کر اس سے حرارت اور توانائی مین تبدیل کرنے کے لیے  آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے جسے ہم سانس کے ذریعے ماحول سے لے لیتے ہیں ۔ اس آکسیجن کو بھی پھیپڑوں سے اٹھا کر ہر خلیے تک پہنچانا خون ہی کے ذمے ہے ۔

خون کے اندر ایک مخصوص پروٹین ہوتا ہے جسے ہیموگلوبین کہتے ہین آپ اس کو کنڈی کے ساتھ تشبیح دے سکتے ہین کیونکہ یہ خون میں ہیموگلوبین ہی ہوتی ہے جو پھیپڑوں سے آکسیجن کو اٹھا لیتی ہے ۔ ہیموگلوبین کی ایک خاص مقدار صحت مند رہنے کے لیے ضروری ہے اکثر ڈاکٹر خون میں اس کی مقدار چیک کرتے ہین اور اس کی مقدار کم ہو تو اکثر لوگ اسے خون کی کمی کہتے ہین دراصل وہ خون کی نہین اس مین موجود ہیموگلوبین کی کمی ہوتی ہے ۔ عام حالات مین  جلنے  والے ہر شے سے کاربن ڈائی آکسائڈ خارج ہوتی ہے ۔ مگر ایسے ماحول جہان آکسیجن کی کمی ہو تو وہان جلنے والی ہر چیز سے کاربن ڈائی آکسائڈ کی جگہ کاربن مونو آکسائیڈ خارج ہوگی ۔ خون مین موجود ہیموگلوبین جو آکسیجن کو خون مین شامل کرتا ہے وہ کاربن مونو آکسائیڈ کو 300 گنا زیادہ تیزی سے خون مین شامل کرتا ہے آکسیجن کے مقابلے میں ۔

اگر اپ نے کمرے کو بند کیا ہوا اور گیس کی ہیٹر بھی جل رہی ہو تو باہر سے بہت کم آکسیجن کمرے مین داخل ہو رہی ہے اور کمرے مین موجود آکسیجن وہان موجود لوگ اور جلنے والی آگ استعمال کر رہی ہوتی ہے ایسے حالت مین کمرے مین آکسیجن کی مقدار کم ہو جاتی ۔ کم آکسیجن کی وجہ سے کمرے مین جلنے والی آگ سے کاربن ڈائی آکسائڈ کی جگہ کاربن مونو آکسائیڈ خارج ہونا شروع ہوتی ہے ۔ خون مین موجود ہیموگلوبین کاربن مونو آکسائیڈ کو آکسیجن کے مقابلے مین 300 گنا زیادہ تیزی سے کھینچتا ہے جس کی بدولت خون مین موجود سارے ہیموگلوبین مالیکیولز پر کاربن مونو آکسائیڈ کا قبضہ ہوتا ہے جس سے آکسیجن کو جڑنے کی جگہ نہیں ملتی ۔

جب یہ زہریلی گیس ہمارے خون مین شامل ہوتا ہے تو اپ کو  سکون نیند اتی ہے جس کے بعد موت واقع ہوتی ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اگر ایسے کمرے مین موجود ہوں   اور دروازے کے ساتھ ہی بیٹھے ہوں کمرہ بھی  بند نہ ہو تب اپ کو پتہ لگنے کے باوجود اپ دروازہ نہیں کھول پاہیں گے ۔ آپ ہوش میں تو ہونگے مگر پلکیں بھی جھپکنے کے قابل نہیں ہونگے ۔ مری کے سیاح اگر گاڑیوں کے شیشے کھولتے تو بہت ممکن تھا کہ  وہ موت سے بچتے کیونکے انسان کافی حد تک سردی برداشت کر سکتا ہے مگر کاربن مونو آکسائیڈ کو نہیں ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57089

سانحہ مری ۔ ذمہ داری فکس کریں – آز: ظہیرالدین

سانحہ مری ۔ ذمہ داری فکس کریں – آز: ظہیرالدین

chitraltimes Mari incident 22 dies tourists pakistan


ارم نامی ڈھائی سالہ کلی شدید سردی کی تاب نہ لاکر ماں کی گود میں آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند کرتی ہے، پانچ سالہ ہادیہ اپنے باپ کی گود میں چند منٹوں بعد ہی آخری سانس لیتی ہے تو ماں باپ پر عشی طاری ہوتی ہے اور 15سال  تک کی عمرکے باقی دو بہنوں اور دو بھائیوں پر گزرے ہوئے لمحات کا تصور کرکے روح کانپ اٹھتی ہے اور جسم پر لرزاہٹ طاری ہوتی ہے۔ یہ روح فرسا واقعہ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب ملکہ کوہسارمری میں ایک چھوٹی سی موٹر کار کے اندر پیش آئی جو وہاں بلاک ہونے والی ایک ہزار موٹر گاڑیوں میں شامل تھی جبکہ برفباری کی وجہ سے درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے گرگئی تھی اور گاڑی کو اسٹارٹ رکھ کر ہیٹر مسلسل چلانے کی وجہ سے گاڑی میں ایندھن بھی ختم ہوگئی تھی۔ ملکہ کوہسار کی بے رحم سردی نے ماں باپ اور چھ بچوں پر مشتمل اسلام آباد کی ایک خاندان کا صفایا کردیا جبکہ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی پانچ افرا د پر مشتمل ایک اور خاندان بھی یخ بستہ ہواؤں کی نذر ہوگئی اور خیبر پختونخوا کے ضلع مردان سے تین دوست بھی مری میں اپنی سفر آخرت کا آغاز اپنی الٹوکار سے کردی جو وہاں snowfallدیکھنے گئے تھے۔ موت برحق اور اٹل حقیقت ہے لیکن ان کو جس حالت میں موت آئی، وہ افسوسناک او ر قومی ضمیر پر ایک بوجھ ہے کیونکہ ریاستی انتظامی اداروں کی غفلت،لاپروائی اور inefficiencyسے یہ پیش آیا۔ اس کے برابر افسوسناک بات یہ ہے کہ ماضی کی اس طرح دل خراش سانحات کی طرح یہ سانحہ بھی کچھ دنوں میں میڈیا میں ڈسکس ہونے کے بعد قومی میموری سے ہمیشہ کے لئے ڈیلیٹ ہوگی اور پسماندگان کے لئے زندگی بھر کا روگ بن جائے گی۔

chitraltimes Mari incident 22 dies tourists 6


مملکت خداداد پاکستان میں انسانی غفلت کے نتیجے میں حادثات و سانحات کی ذمہ داری کسی پر ‘فکس ‘کرنے کی روایت نہ ہونے اور فی زمانہ اخلاقی قوت سے عاری حکمرانوں کی وجہ سے سانحہ مری جیسے واقعات کا رونما ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ شیخ رشید احمد سمیت چند وفاقی وزراء نے انتہائی آسانی سے اس بات کو اپنے ٹویٹ میں ٹال دیا  اور ذمہ داری سیاحوں پر ہی تھوپ دی جوکہ کثیر تعدادمیں اور گنجائش سے ذیادہ تعداد میں مری امڈ آئے تھے۔ وطن عزیز کی 75سالہ تاریخ کی کسی ایک صفحے پر بھی آپ کو یہ لکھا نہیں ملے گا کہ کسی سانحے میں متعلقہ محکمے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کسی وزیر نے استعفیٰ دیا ہو۔ یہاں تو حکومتی حلقے ایسے سانحات کی الٹی سیدھی تاویلیں پیش کرتے ہوئے حکومت کو بری الذمہ قرار دے ڈالتے ہیں جوکہ حادثے میں لقمہ اجل بننے والے بے گناہوں کے پسماندگان کی زخموں پر نمک پاشی سے کم نہیں ہوتی۔ خود ہماری پڑوسی ملک میں ریلوے حادثات میں غفلت قبول کرتے ہوئے لال بہادر شاستری سمیت وزراء کو استعفیٰ دیتے ہوئے ہم دیکھ چکے ہیں۔

chitraltimes Mari incident 22 dies tourists 4

وطن عزیز کی مخصوص سیاسی ماحول اورغیر تابناک روایات کو سامنے رکھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان سے یہ توقع کرنا ہی عبث ہے کہ وہ اس المناک حادثے کی ذمہ داری سیاحوں پر ڈالنے کی بجائے ریاستی اداروں کو ذمہ دار گردانتے ہوئے چیف منسٹر بزدار سے استعفیٰ لے اور چیف سیکرٹری اور آئی جی پی سے لے کر اسسٹنٹ کمشنر مری تک افسران کو فی الفور معطل کرکے ان کے خلاف غفلت، لاپروائی اور inefficiencyکے چارجز لگواکر ان کے خلاف انکوائری کا دیتا۔ امریکہ سمیت کسی ترقی یافتہ   میں اگر اکیس افراد اس طرح المناک موت مرجاتے تو وہاں طوفان برپا ہوتا، حکومتیں گرجاتے اور چند گھنٹوں کے اندر بڑے بڑے شخصیات سلاخوں کے پیچھے نظر آتے (یہ بات الگ ہے کہ ان ممالک میں احساس ذمہ داری سے سرشار انتظامیہ ایسے واقعات کو رونما ہونے سے پہلے ہی روک دیتے ہیں)۔ ایک ریاست مدینہ وہ تھا جس میں خلیفہ وقت دریائے دجلہ کے کنارے خارش زدہ کتے کی بے وقت موت کی زمہ داری پیشگی طور پر اپنے اوپر فکس کرتا ہے اور ایک صوبائی گورنر کا بیٹا جب گھوڑ دوڑ کے دوران ایک شہری کو چابک مارتا ہے تو خلیفہ وقت اس کی زمہ داری گورنر پر فکس کرتا ہے اور شہری کے ہاتھ میں چابک دے کر کہتا ہے کہ پہلے اس گورنر کو مارو۔ ریاستی امور کی زمہ داری اپنے اوپر فکس کرنے کی روش نے ریاست کے ایک ایک کارندے کو ایسا ذمہ دار بنادیا کہ کسی بھی گوشے میں غلطی اور غفلت کی گنجائش نہیں رہی جو اس طرح کے افسوسناک سانحات پر منتج ہوں۔ اس ریاست مدینہ کے علمبردار سربراہ حکومت نے اپنی شہ رگ کے قریب واقع مری میں اس المناک سانحے پر بیان جاری کروانے اور غمزدہ خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی سے آگے کچھ نہ کرسکے کیونکہ وطن عزیز میں اس کی کوئی روایت موجود نہیں جس میں حکمرانوں نے سانحات کی زمہ داری قبول کی ہو یا ان پر زمہ داری فکس کی ہو جن کی غفلت سے یہ سب کچھ رونما ہوا۔

chitraltimes Mari incident 22 dies tourists 21


سانحہ مری کے زمہ داروں کا تعین نہایت آسان ہے جن سے ارتکاب غفلت سرزد ہوئی۔ میڈیا کے مطابق 99فیصد گاڑیاں راولپنڈی اسلام آباد کی جڑواں شہر سے گزر کر مری پہنچتے ہیں جن کی تعداد کو بارہ کہو کے ٹول پلازہ پر آسانی سے گنا جاسکتا تھا اور انتظامیہ میں “حس زمہ داری”ہوتی تو ویک انڈ میں مری میں برفباری کو پیش نظر رکھ کر سیاحوں کی تعداد پر نظر رکھا جاتا۔  مری ضلع راولپنڈی کی ایک تحصیل ہے جس کے انتظامیہ کو سوفیصد اندازہ ہونا چاہئے کہ مری میں بیک وقت کس تعداد میں اور کتنی گاڑیوں میں جاسکتے ہیں جس میں موٹر گاڑیوں کی ٹریفک بھی رواں دواں رہے۔ دوسری طرف کے پی کے گلیات کی باونڈری پر گاڑیوں پر نگاہ رکھا جاتا تو ویک انڈ پر سنو فال کا دلفریب منظر دیکھنے کے متمنی سردی سے ٹھٹہر ٹھٹہر اپنی قیمتی جانیں یوں فرشتہ اجل کے حوالے نہ کرتے۔ ایک ہزار سے بھی زیادہ گاڑیوں کا بلا روک ٹوک مری میں داخل ہونا اور مکمل پہیہ جام کی صورت حال کا پیدا ہونا اور ان  گاڑیوں میں پھنسے ہوئے بچوں اور خواتین کو ان کے حال پر چھوڑنا شدید بد انتظامی اور مجرمانہ غفلت ہی کا شاخسانہ ہے جو ناقابل معافی ہے اور یہ قومی المیہ سے کسی طور پر کم نہیں۔

chitraltimes Mari incident 22 dies tourists 7

وطن عزیز میں بدانتظامی کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ جب تک کوئی حادثہ رونما نہ ہو اور حالات نارمل ہوں تو اعلیٰ حکام ڈیلی سیچویشن رپورٹ بھی پورا پڑھنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے اور یہ ‘شان افسرانہ’ ہماری تباہی کا اصل محرک ہے۔ اگر لاہور میں بیٹھا چیف سیکرٹری راولپنڈی میں کمشنر سے اور وہ چند قدم فاصلے پر ڈی سی سے مری کی صورت حال کا ایسے ہی پوچھ لیتا تو آج اکیس جانیں یوں مٹی کے نیچے نہ جاچکے ہوتے جن کا قصور نظارہ فطرت کے لئے نکلنا تھا۔ جب تک منتخب قیادت ایسے سانحات میں ایک بولڈ اور انقلابی قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کرتی اور ان داروں کو سامنے لاکر سامان عبرت نہ بنائے جاتے، خاندان کے خاندان اپنی ناکردہ سزا پاکر معدومیت کی سمندر میں گرتے رہیں گے۔

chitraltimes Mari incident 22 dies tourists 5
chitraltimes Mari incident 22 dies tourists 1

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57069

مقروض کبھی سرنہیں اٹھا سکتا ۔ محمد شریف شکیب

وزیر خزانہ شوکت ترین نے انکشاف کیا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کی مدد سے ٹیکس نہ دینے والوں تک پہنچ چکے ہیں بس بٹن دبانے کی دیر ہے۔ ڈیٹا کی بنیاد پر لوگوں کو بتائیں گے کہ ان کی آمدن کتنی ہے، اب ہم سب کو سیلز اور انکم ٹیکس دونوں دینا پڑے گا، ملک کو اس وقت ٹیکس کی ضرورت ہے ادھارلیکرملک کب تک چلایا جائے گا۔ اب اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرنی ہوگی۔ بڑی بڑی گاڑیوں والے ٹیکس نہیں دیتے،ملک میں صرف بیس لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں جبکہ ٹیکس دینے کے قابل لوگوں کی تعداد دو کروڑ سے زیادہ ہے۔ ٹیکسوں کا نظام خودکارہونے سے محصولات بڑھیں گے، جب لوگوں کوسہولت ہوگی تو زیادہ ٹیکس بھی دیں گے،

شوکت ترین نے بتایا کہ جرمنی اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں جو شخص ٹیکس ادا نہیں کرتا وہ ووٹ نہیں ڈال سکتا،وقت آگیا ہے کہ سب لوگ اپنا ٹیکس دینا شروع کردیں، وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ لوگ ایک وقت میں کھانے کا 30سے 40ہزار بل دیتے ہیں مگر ٹیکس نہیں دیتے۔یہ حقیقت ہے کہ جب تک لوگ ٹیکس ایمانداری سے ادا نہیں کریں گے ملک مقروض ہی رہے گا اور ہم مالیاتی اداروں کے آگے کشکول پھیلاتے رہیں گے اور جو لوگ ہمیں قرضہ دیتے ہیں وہ اپنی شرائط منواتے رہیں گے۔ ٹیکس نیٹ نہ بڑھنے کی بنیادی وجہ ٹیکسوں کے نظام میں نقائص ہیں۔ لوگوں کو یہ اعتماد دلانے کی ضرورت ہے کہ ان سے وصول کی جانے والی رقم کی پائی پائی قومی خزانے میں جمع ہوگی اور ٹیکسوں کی رقم ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے خرچ کی جائے گی۔

اب بھی لوگ جتنا ٹیکس دیتے ہیں اس کا دو تہائی حصہ قومی خزانے کے بجائے چند لوگوں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔حکومتوں نے نظام کو شفاف بنانے کے بجائے نام بدلنے پر اکتفا کیا۔ سینٹرل بورڈ آف ریونیو کا نام فیڈرل بورڈ آف ریونیو رکھنے سے ٹیکس نیٹ نہیں بڑھ سکتا۔ وطن عزیز میں جو شخص جتنا بااثر ہوگا وہ اتنا بڑا ٹیکس چور ہوگا۔ آج تک کسی حکومت کو زرعی ٹیکس نافذ کرنے کی جرات اس لئے نہیں ہوئی کیونکہ اسمبلیوں اور اعلیٰ سرکاری عہدوں پر براجماں تمام لوگ بڑے بڑے جاگیر دار، سرمایہ دار اور صنعت کار ہیں۔ وہ فصلوں اور باغات کی پیداوار سے سالانہ اربوں روپے کماتے ہیں مگر ان کی کمائی کا کوئی ریکارڈ سرکار کے پاس نہیں ہوتا۔

اسی طرح خدمات کے عوض جو لوگ سالانہ کروڑوں روپے کماتے ہیں ان کا بھی سرکار کے پاس کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ چند لوگوں کی مٹھی گرم کرکے لاکھوں کروڑوں کے ٹیکس بچائے جاتے ہیں۔ وزیرخزانہ کی طرف سے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ٹیکس نادہندگان تک پہنچنے کی بات اگر درست ہے تو یہ حوصلہ افزاء ہے۔ ایف بی آر کا تمام ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے کے ساتھ جو سرکاری اہلکار ٹیکس چوری کے سہولت کار رہے ہیں ان پر بھی ہاتھ ڈالنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی قومی امانت میں سنگین خیانت ہے اور ان سے لوٹی گئی قومی دولت واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کرکے ہی ٹیکس دہندگان کا اعتماد بحال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹیکس نادہندگان اور ٹیکس چوری کرنے والوں کے خلاف سخت قوانین بھی بنانے کی ضرورت ہے جو شخص اس قومی جرم میں ملوث پایاگیا اسے تاحیات کسی بھی سرکاری ملازمت اور عوامی عہدے کے لئے نااہل قرار دیا جائے۔ اگر ایسا قانون بن گیا تو قومی ایوانوں میں بیٹھے آدھے سے زیادہ لوگ عوامی نمائندگی کے لئے نااہل ہوجائیں گے۔خود انحصاری کی منزل تک پہنچنے کے لئے سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔ اور کچھ پیشہ ور چوروں کو سولی پر چڑھانا ہوگا۔ اگر ہم باوقار قوم بننا چاہتے ہیں تو اپنے وسائل پر انحصار اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ کیونکہ مقروض کبھی سراٹھاکر نہیں جی سکتا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57059

تلخی ء دوران ۔ تحریر ۔صوفی محمد اسلم

کہتے ہیں کہ ماں  کے پاوں کے نیچے اولاد کی جنت ہوتی ہے۔ جنت ہو یا نہ ہو یہ الگ بحث ہے۔ اج کل لوگ خاص کرکے لیبر  نوجوان مذہبی دلائل سے زیادہ  ایسے دلائل چاہتے ہیں جو سائنسی مشاہدات و تجربات سے ثابت ہو سکے۔  ان میں میرے چند فیس بک فرینڈز اور گروپ ممبرز بھی شامل ہیں۔ اب انہیں اسلام،قرآن اورجنت کا حوالہ دے کر سمجھانے کی کوشش کرنا اس مقدسات کی توہین کے مترادف ہیں ۔


 سائینس وٹیکنالوجی انسان کو جو جدید دور بخشا ہے وہ ناقابل تسخیر بن چکا ہے۔ہم اسی جدید تریں دور سے گزر رہے ہیں ۔ انسان کو ہر قسم کے سہولیات و آسائش میسر ہیں ۔دنیا سمٹ کر ایک گلوبل ولج بن چکا۔ نظام مواصلات اتنی تیز ہے کہ لاکھوں کلومیٹر کے مسافت سیکنڈ میں طے کی جاتی ہے ۔ دنیا، سیارے اور ستاروں کے سارے معلومات انگلیوں کے پور میں سما گئے ۔ انسان برق رفتار سے سفر کرتا ہے ۔ کمپیوٹر،  لائبیری اور گلوبل میپ  ہر شخض اپنے ساتھ لیکر گھومتا ہے۔ کہوار زبان میں ایک مثل مشہور ہے کہ “دنیا ٹونجو غیری شیر” دنیا پیالی میں سما چکی ہے۔ ہر طرف دوڑ دھوپ ہورہی ہے۔ سب کچھ کی کوشش  میں انسان کچھ بھی کرنے کیلئے  تیار رہتا ہے ۔


 ایک طرف دنیا غروج کی طرف گامزن ہے تو دوسری طرف انسانی خصلت اور فطری اوصاف میں بھی آئے روز  تبدیلیاں ہورہی ہیں ۔ جتنا انسان مصنوعی خوبصورتی کی طرف جارہی ہے اتنا ہی قدرتی حسن سے دور ہوتا جارہا ہے۔ قدرتی مناظر اور فطری حسن کی فقدان بڑھتی جارہی ہیں ۔ رشتے ناطے،رحم کرم، جزبات و حساسات مدہم ہوتے جارہے ہیں ۔ نیکی اور گناہ میں فرق ختم ہوتی جارہی ہے۔ جائز ناجائز  میزان پر یکساں قامد کے ساتھ  کھڑے ہوتے ہیں۔ شرم وحیا مٹکر زینت میں منتقل ہو چکی ہیں۔ادب و احترام اور شرافت انسانی کمزوری تصور کیجاتی۔ ہر طرف افراتفری کی عالم ہے۔


ایک روز ایک معزز دوست سے ماں باپ کے اولاد پر  احسانات کے موضوع پر بات ہوئی تو صاحب موصوف نے کہا ترقی پسند اور کشادہ خیالات والے ایسے نہیں سوچتے ۔ ماں باپ انسان ہیں اور اولاد بھی انسان ہیں ۔ انسان ہونے کے ناطے انکے برابر کے حقوق ہیں کسی کو کسی  پر تقویت  نہیں دی جاسکتی  اور نہ ایک دوسرے پر کسی صورت  بوجھ بننا چاہیے۔ یہ قانون فطرت ہے کہ اولاد ماں باپ سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اولاد کو دنیا میں لانے کے ماں باپ اسباب ہیں اور اس میں بھی انکے اپس کی محبت،حوس اور مجبوری شامل ہیں ۔ وہ اولاد پر کوئی احساس نہیں کرتے اور نہ کوئی حق  بنتا ہے کہ وہ اولاد پر اسلئے بوجھ بنے رہے کہ انہوں نے اولاد کو جنم دیے ہیں ۔والدین ایک ذریعہ ہیں  انسانوں  کے تسلسل برقرار رکھنے کا اور  وہ اپنے حصے کا کردار ادا کرتے ہیں،  بس اور کچھ نہیں۔ البتہ ان کا حق سرکار پر ہے کہ وہ ریاست کو  ٹیکس دیتے ہیں اور ملک کی ترقی میں انکے کردار ہیں ۔تکلیف اور بڑھاپے میں انکاخیال رکھنا سرکار کا کام ہے۔ اسلئے ترقی یافتہ ممالک میں سرکار انکے لئے اولڈ ایج ہوم بناتے ہیں اور وہاں انکے ہر ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ اسی طرح حسب روایت اولاد اپنے حصے کا کردار ادا کرتے ہیں، ملک کے ترقی کیلئے کام کرتے ہیں اور انکے پاس وقت نہیں ہے کہ وہ انہیں سنبھالنے میں صرف کرے ۔ یہ تھے میرے دوست کے الفاظ ۔


یہ سب باتیں سن کر ایک کہانی یاد اگیا۔ اس کہانی میں  جب لوگ ضعیف العمر ہو جاتے تھے انکے اولاد  انہیں پہاڑ سے گرا کر  مار دیتے تھے۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ اب انکے یہاں  ضرورت نہیں اور وہ اپنے حصے کے وقت گزار چکے ہیں۔ جدید دور میں والدین کے بارے میں خیالات تقریبا وہی ہے البتہ جدید دور میں ہر کام تہذیب کے ساتھ کیا جاتا ہے کسی کو مارنے کیلئے گلے کاٹنے کی ضرورت ہی نہیں بلکہ انجیکشن دیا جاتا ہے اور خاموشی کے ساتھ گزر جاتے ہیں ۔ خود سے دور کرنے کیلئے مارنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی بلکہ اولڈ ایج ہوم بھیج دیا جاتا ہے تاکہ وہ وہاں کھوٹ کھوٹ کر اپنے اولاد کیلئے تڑپتے مرجائے۔ اولاد کی  ترقی پسند مزاج میں کوئی  تبدیل نہ ہو  اور نہ تیمارداری کرتے ہوئے وقت ضائع ہو۔ اسلئے انہیں ادارہ و ٹرسٹ کے رحم وکرم پر چھوڑتے ہیں اور جب وہ مرجائے تو تدفین کرکے  قبر مبارک کو سنگمرمر سے سجاکر منسلک تختی پر سنہری حروف میں نام اور کارنامے درج کرکے واپس ہوجاتے ہیں۔ 


بقول میرے عزیز دوست والدین تو صرف اپنے کردار ادا کررہے تھے۔ تو پھر اولاد کو تکلیف میں دیکھ کر انسو بہاکر رونے کی کیا ضرورت تھی۔ جو آنسو ہمارے آنکھوں میں  کھبی ایک دفعہ نہیں ٹپکتے وہ آنسو  ماں باپ کے آنکھوں میں کہاں سے آتے ہیں ۔ کھانا پکانا تو انکے ڈیوٹی میں شامل تھے تو نوالا بنا بنا کر کھلانے کے پیچھے کیا مجبوریاں تھیں ۔سفر سے واپسی اور  رحصت کرتے ہوئے آنکھیں چوم کر اشک بہانا کونسا انکے ذمہ داری اور ڈیوٹی میں شامل تھی۔  اولاد لوریاں سونے کی عادی کیوں بناتے ہیں ۔ سکول سے واپسی پر بار بار پوچھنے کے پیچھے کیا لوجک کہ کہ بیٹا  سکول میں بھوک تو نہیں لگتا ہے۔جب اولاد  سفر پر نکلتے ہو تو ماں باپ آنکھوں میں  انسو بہا کر دعائیں دینا کیوں ضروری سمجھتے  ہیں ۔ 


 دنیا میں جنم لینا اولاد کیوں معمولی سمجھتے ہیں۔ جنم لینا کوئ معمولی اعزاز کی بات نہیں بلکہ اولاد کیلئے اللہ تعالی اور پھر والدین کی طرف سے عزیم تخفہ  ہے۔ ہر کسی کو اشرالمخلوقات کے صف میں کھڑا ہونے کی شرف حاصل نہیں ہوتی ہے۔ جس کو  زندگی جیسی نعمت کی اہمیت کا اندازہ نہیں انکے زبان سے ایسے الفاظ گونجتی ہے۔ جو محبت کو والدین کی مجبوری سمجھتے ہیں شاید انہیں معلوم نہیں کہ محبت کے ایسے ہزاروں لاکھوں  نشانیاں دور جدید میں  گندے نالوں میں اور کہاں کہاں بہ کر مٹ جاتے ہیں۔  ان کی محبت ہی تو ہے جو آج ہم انسان کی صورت میں ہوا،مٹی اور سمندر پر راج کررہے ہیں۔ ایسے شاید احساس کی حس سے محروم ہیں تب وہ ماں کے آنکھوں سے چمکتے شفقت نہیں دیکھتے۔ اولاد کے خاطر تڑپتے دل کی آواز سنائ نہیں دیتی ہے۔ 


اسلام نے والدین کو بہت اونچا مقام دیا ہے۔ اولاد کی جنت والدین کے قدموں میں رکھا ہے۔ ضعیف العمری میں انکے سامنے اف تک نہ کہنے کا حکم دیا۔ یہ مقام اسلام احساسات کی روشنی میں مرتب کی ہے ۔یہ اسلام کی خوبصورتی ہے کہ ہر کسی کا مقام و حقوق واضح ہیں۔ جس طرح اولاد بچپن میں والدین پر بوجھ نہیں  ہوتے اسی طرح والدین بھی اولاد پر کوئی بوجھ نہیں ۔ انکے احترام اور خدمات سے اولاد کی نجات ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے سب کو اپنے والدین کی خدمت کرنے اور دعائیں سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57052

ناروے کی ٹیلی نار 4G سے مٹہ سوات کے ٹیلی نار نسوار تک ۔ فکرو خیال ۔ فرہاد خان

ناروے کی ٹیلی نار 4G سے مٹہ سوات کے ٹیلی نار نسوار تک ۔ فکرو خیال ۔ فرہاد خان

پچھلے ہفتے کسی اخبار میں ٹیلی نار کمپنی کی بابت ایک خبر زیر گردش تھی جس کے مطابق ناروے سے تعلق رکھنے والی ٹیلی کمیونکیشن کمپنی ٹیلی نار اپنے بوریا بستر سمیٹ کر پاکستان سے واپسی کا سوچ رہا ہے ۔اس کے ایک ہفتے بعد چترال کے مختلف علاقون میں ٹیلی نار سروس معطل ہونے کی خبرین انے لگیں ۔چترال کے کچھ علاقون میں اس معاملے پر احتجاجی جلسے جلوس بھی ہوئے۔معاملے کو پرنٹ و سوشل میڈیا پر بھی اٌٹھایا گیا اور کمپنی سے اس معاملے پر عوام الناس کو باخبر کرنے اور سگنلز کی جلد بحالی کے مطالبات بھی ہوئے لیکن کمپنی نے تاحال اس بارے صارفین کو اگاہ نہیں کیا ۔

ہم میں سے اکثر یہ سمجھ بیٹھے کہ شاید ٹیلی نار سروس بند ہوگی مگر چند علاقوں میں یہ سروس سٹیلایٹ سے منسلک ہونے کی وجہ سے بلاتعطل دسیتاب ہیں۔ سگنلز کی معطلی بارے سنی سنائی باتوں کے مطابق کہیں جنریٹر خراب ہونے کی باتیں ہوئیں تو کہیں تیل کی عدم دستیابی کو وجہ بتایا گیا لیکن گزشتہ ایک ہفتے سے سگنلز معطل ہونے کی اصل وجہ سامنے نہ آسکا۔

باخبر زرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ ملک میں ٹیلی نار کمپنی کی جڑین اتنی مظبوط ہیں کہ الیکٹرانک میڈیا میں آپ اس بارے شکایت درج بھی کرائیں تو اسے نشر کرنے سے روک دیا جاتا ہے یہی نہیں بلکہ ٹیلی نار کی ناقص سروس بارے چترال ٹائمز کے ایڈیٹر جناب سیف الرحمان عزیز صاحب نے آواز اُٹھائی تو ان کے خلاف متعلقہ کمپنی نے دارلالقضا سوات میں کیس کیا ہوا ہے اور یہ کیس اب تک عدالت میں زیر سماعت ہے۔

اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ چترال کے دورافتادہ علاقون میں ٹیلی کمیونکیشن متعارف کرانے میں ٹیلی نار نے اہم کردار ادا کیا ہے جس سے دوافتادہ علاقے کے لوگون کی کمیونکیشن کے مسائل کافی حد تک حل ہوگئے ہیں ۔یہی نہیں ٹیلی نار 2G 4G میں اپ گریڈ بھی ہوچکا ہے مگر فور جی متعارف ہونے کے بعد موبائل سگنلز پہلے سے کمزور ہونے کی بھی اطلاعات ہیں ۔

ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ کمپنی جدید وقت کی ضروریات کے پیش نظر اپنے اپ کو اپڈیت کرتا رہے اور اپنے مواصلاتی نظام کو بہتر سے بہتر کرتا رہے اور ہوسکے تو موجودہ سسٹم کو سٹیلائٹ سے منسلک کرے مگر حالیہ دنوں کی انتہائی خراب سروس اور سگنلز کی عدم دستیابی سے ظاہر ہے کہ کمپنی اپنے صارفین کو وقت کی جدید ضروریات کے مطابق سروس فراہم کرنے سے قاصر ہے اور اس کا ثبوت گذشتہ ایک ہفتے کی کارکرگی ہے ۔

کل کسی دوست کے واٹس اپ سٹیٹس پر ٹیلی نار نسوار کے نام سے اشتھار نظر سے گزرا .مٹہ سوات میں ٹیلی نار نسوار کے نام سے نسوار متعارف کرایا گیا ہے ٹیلی نار کو چاہئیے کہ یا تو ٹریڈ مارک کی خلاف ورزی پر اس نسوار والوں کے خلاف بھی عدالت جائے،اپنا سسٹم درست کرلے یا اگر اسی طرح کا سروس دینا ہے تو اس سے بہتر ہے کہ اپنا بوریا بستر سمیٹ لے اپنے ٹاورز اکھاڑ کر کباڑے کو بیچ دے اور ٹیلی کمیونکیشن کا کاروبار بند کرکے نسوار کا کاروبار ہی شروغ کرے۔

چونکہ نسوار کی قیمت میں سو گنا اضافہ ہوچکا ہے اور پاکستان میں نسوار کی صنعت کا مستقبل روشن ہے اس لئے کمپنی کو اس صنعت میں قدم رکھنے،نسوار کے مختلف پکیجز کے زریعے زیادہ سے زیادہ کسٹمرز بنانے اور اس صنعت میں اجارہ داری حاصل کرنے کا بہترین موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہئیے تاکہ موبائل صارفین حکومت وقت سے درخواست کرکے یو فون یا کسی دوسرے موبائل نیٹ ورک کا انتظام کرین ۔ اور اس انتہائی ناقص سروس سے جان چھڑائیں ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
57012