صحت کارڈ عوامی فلاح کا بہترین منصوبہ ہے، اس میں کلینیکل آڈٹ شامل کرکے اس کے علاج کے معیار کو مزید بہتر بنارہے ہیں-مشیرصحت ڈاکٹر عابد جمیل
صحت کارڈ عوامی فلاح کا بہترین منصوبہ ہے، اس میں کلینیکل آڈٹ شامل کرکے اس کے علاج کے معیار کو مزید بہتر بنارہے ہیں-مشیرصحت ڈاکٹر عابد جمیل
پشاور (چترال ٹائمز رپورٹ) نگران وزیر اعلیٰ کے مشیر صحت ڈاکٹر عابد جمیل نے کہا ہے کہ صحت کارڈ عوامی فلاح کا بہترین منصوبہ ہے، اس میں کلینیکل آڈٹ شامل کرکے اس کے علاج کے معیار کو مزید بہتر بنارہے ہیں، نجی ٹی وی چینل نے صحت کارڈ انکوائری سے متعلق خبر سیاق و سباق کے بغیر پیش کی، میرٹ کے بغیر اور غیر معیاری علاج فراہم کرکے معیاری علاج کے پیسے وصول کرنے والے ہسپتالوں کیخلاف انکوائری ضرور کرینگے، ایم ٹی آئیز میں رواں مسائل کو فوری حل کرنا ہماری ترجیح ہے،ایم ٹی آئیز کو ختم کرنا ہمارا مینڈیٹ نہیں، ناگزیر ہوا ہوا تو بورڈز تحلیل کردینگے، ایم ٹی آئیز قانوناً سیکرٹری ہیلتھ کے تابع ہونے چاہئیں، ماں اور بچے کی صحت کی بہتری اور ان کو صحت کی بہترین سہولیات کی فراہمی کیلئے کوشاں ہیں۔یہ باتیں مشیر صحت نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹر ویو کے دوران کہیں۔ اپنے انٹرویو میں مشیر صحت نے بتایا کہ صحت کارڈ عوامی فلاح کا بہتر منصوبہ ہے اس میں موجود مسائل کو حل کرکے اسے عوام کیلئے مزید مفید اور کارآمد بنائینگے، نجی ٹی پر چلنے والی خبر سے متعلق انہوں نے موقف اپنایا کہ صحت کارڈ سے متعلق ان کا موقف سیاق و سباق کے بغیر پیش کیا گیا۔ صحت کارڈ میں کلینیکل آڈٹ شامل کررہے ہیں تاکہ مستند ڈاکٹرز کے ذریعے معیاری علاج کو یقینی بنایا جاسکے، صحت کارڈ کے تحت غیر معیاری ادویات کے استعمال اور میرٹ پر پورا نہ اُترنے والے ہسپتالوں کے خلاف بھی گھیرا تنگ کررہے ہیں،
میں خود بھی اچانک دورے کرتا ہوں، غیرمعیاری ادویات دی جاتی ہیں جبکہ اعلیٰ معیار کی ادوایت پر بل بنائے جاتے ہیں، سرجیکل آئٹمز کے غیر معیاری ہونے کی بھی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔علاج اکثر جونئیر ڈاکٹرز سے کرایا جاتا ہے اور بل بڑے بڑے بنائے جاتے ہیں،مستقبل میں صحت کارڈ کے تحت ہسپتالوں کے اندراج کے وقت ہیلتھ کئیر کمیشن کی ٹیم ہمراہ ہوگی تاکہ ہسپتال کے جائزی میں کلینیکل آڈٹ و معیار کا عنصر بھی ملحوظ خاطر رکھا جاسکے، ابھی محدود ہسپتالوں کیخلاف انکوائری کررہے ہیں مستقبل میں پورے صوبے کے ہسپتالوں کیخلاف انکوائری کرینگے چونکہ صوبے اور وفاقی سرکاری ملازمین اپنی تنخواہوں میں ہیلتھ الاؤنس لے رہے ہیں اس لئے صحت کارڈ میں سے سرکاری ملازمین اور ان کی فیملیز کو نکالنے پر غور کررہے ہیں جس سے 9 ارب روپے کی بچت ہوگی۔پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلنے والے ہسپتالوں کو ایوارڈ ہونے والے کنٹریکٹ کی تحقیقات ہورہی ہیں، ہم اسے پرفارمنس سے مشروط کرینگے، کارکردگی کیلئے اکائیوں کا تعین کررہے ہیں،ایک ایم ٹی آئی کیخلاف شکایات بہت زیادہ آرہی ہے، خودمختاری کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود کمائے اور خود لگائے، کوشش کررہے ہیں کہ ایم ٹی آئیز کو سیکرٹری ہیلتھ کے تابع بنائیں،ایم ٹی آئیز کو ختم کرنے کی کوئی سمری یا آرڈیننس زیر غور نہیں ہے وہ اسمبلی کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے جو کہ ہمارا مینڈیٹ ہی نہیں البتہ ایم ٹی آئیز میں خامیاں ہیں ناگزیر ہوا تو بورڈز تحلیل ہوسکتے ہیں۔