شمالی پاکستان میں لڑکیوں کی خودکشی، وجوہات اور حل پر تحقیق – تحریر: ڈاکٹر شاکرہ نندنی
شمالی پاکستان میں لڑکیوں کی خودکشی، وجوہات اور حل پر تحقیق – تحریر: ڈاکٹر شاکرہ نندنی
پرتگال کی یخ بستہ شام میں گرم کافی کے ساتھ ایک میل موصول ہوئی، جس میں چترال ٹائمز کے ایک محترم ایڈیٹر نے ایک حساس مسئلے پر توجہ دلائی۔ پاکستان کے شمالی علاقوں میں 15 سے 30 سال کی لڑکیوں میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان نے ڈاکٹر شاکرہ نندنی یعنی مجھے، اس موضوع پر تحقیق کے لیے مجبور کر دیا۔
چترال اور شمالی پاکستان کے دیگر علاقوں میں لڑکیوں کی خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان نہایت تشویشناک ہے۔ میں، ڈاکٹر شاکرہ نندنی، اس موضوع پر بات کرنا چاہتی ہوں تاکہ اس کے پیچھے چھپی وجوہات کو سمجھا جا سکے اور ان کے حل تلاش کیے جا سکیں۔
وجوہات – میری تحقیق کی روشنی میں
ARY NEWS URDUNEWS TNN URDU گھریلو تشدد اور خاندانی تنازعات
میری تحقیق کے مطابق، گھریلو جھگڑے اور تشدد خواتین کے لیے سب سے بڑی پریشانیوں میں شامل ہیں۔ خاص طور پر کم عمری کی شادی اور حقوق کی پامالی جیسے مسائل ان کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔
URDU NEWS URDU NEWS تعلیمی ناکامیاں
وہ نوجوان لڑکیاں جو تعلیمی میدان میں ناکامی کا سامنا کرتی ہیں، خاص طور پر جہاں والدین یا معاشرے کی توقعات زیادہ ہوتی ہیں، خود کو تنہائی اور مایوسی کا شکار پاتی ہیں۔
ARY NEWS ذہنی صحت کی سہولیات کا فقدان
چترال میں ماہر نفسیات کی غیر موجودگی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ میری تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ ذہنی صحت پر گفتگو کو معیوب سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے خواتین کو مدد نہیں مل پاتی۔
ARY NEWS TNN URDU سماجی دباؤ اور ثقافتی روایات
روایتی رسوم و رواج، جیسے کم عمری میں شادی یا خواتین کو “بوجھ” سمجھنا، ان کی خودمختاری کو محدود کر دیتا ہے اور مایوسی بڑھتی ہے۔
ARY NEWS URDUNEWS موجودہ صورتحال اور اعداد و شمار
میری تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ پچھلے پانچ سالوں میں چترال میں خودکشی کے 63 کیسز میں سے 54 فیصد خواتین کی تھیں۔ زیادہ تر واقعات میں خواتین نے دریا میں چھلانگ لگائی یا خود کو پھانسی دی۔
حل کے لیے میری تجاویز
ذہنی صحت کی سہولیات میں اضافہ
چترال جیسے علاقوں میں ماہر نفسیات کی تعیناتی اور کونسلنگ مراکز قائم کیے جائیں۔
تعلیمی اور روزگار کے مواقع
لڑکیوں کے لیے ہنر سکھانے اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ وہ خودمختار بن سکیں۔
سماجی رویوں میں تبدیلی
والدین اور کمیونٹی کے درمیان آگاہی مہم چلائی جائیں تاکہ خواتین کو درپیش دباؤ کم ہو اور وہ اپنی زندگی کو بہتر طریقے سے گزار سکیں۔
قانونی تحفظ اور خواتین کے لیے خصوصی پناہ گاہیں
دارالامان جیسے مراکز قائم کیے جائیں تاکہ گھریلو جھگڑوں سے متاثرہ خواتین کو محفوظ پناہ فراہم کی جا سکے۔
آخرش میری تحقیق کے مطابق اس میں غیرت کے نام پر قتل کا عنصر بھی شامل ہو سکتا ہے جسے خودکشی کا رنگ دیا جا سکتا ہے اس پر میرا پورا ایک آرٹیکل بھی ہے، یہ ایک پیچیدہ اور حساس اور تحقیقاتی مسئلہ ہے، جس کا حل حکومت، معاشرتی تنظیموں اور کمیونٹی کے تعاون سے ممکن ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانا اور ان کی زندگیوں کو محفوظ بنانا ایک مضبوط اور ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد ہے۔ اس حوالے سے مزید تحقیق اور مداخلتیں اس مسئلے کے حل میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
اعلامیہ
یہ مضمون مکمل طور پر میری ذاتی تحقیق اور خیالات پر مبنی ہے، جسے مختلف میڈیا رپورٹس، تحقیقی مضامین، اور معتبر خبروں کے ذرائع سے اخذ کیا گیا ہے۔ میں نے اس مسئلے پر اپنی فہم و دانش کے مطابق روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے، تاکہ اس کے سماجی، نفسیاتی اور ثقافتی پہلوؤں کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔
یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اس مضمون کا کسی بھی نیوز چینل، میڈیا ادارے، یا خاص طور پر چترال ٹائمز سے کوئی تعلق یا وابستگی نہیں ہے۔ میں نے اس موضوع پر جو بھی لکھا ہے، وہ میری ذاتی رائے ہے اور اس کا مقصد صرف آگاہی اور مثبت مکالمے کو فروغ دینا ہے۔