ذرا سوچیے – گلگت بلتستان کی سیر۔ ( قسط نمبر2) ۔ تحریر ہما حیات سید
معاشرے کی ترقی میں اگر عورت کی کردار پر بات کی جائے تو دو گروه سامنے ائیں گے ایک وہ جو عورت کو ناقص العقل کہتی ہے اور دوسرا وہ جو عورت کے حقوق اور ازادی کے نام پر “میرا جسم میری مرضی” کا نعرہ بلند کرتی ہے۔ ذاتی طور پر مجھے دونوں سے شدید چڑ ہے۔ میں یہاں اس کی وضاحت کرنا چاہوں گی۔ پہلا گروہ جو عورت کو ناقص العقل کہتی ہے بالکل درست ہے۔ عورت ناقص العقل ہونے کے ساتھ ساتھ ناقص العمل بھی ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ عورت کا حافظہ مرد کے مقابلے میں کمزور ہوتا ہے۔ اس لیے جہاں ایک مرد کی گواہی کافی ہے، وہاں دو عورتوں کا گواہ ہونا ضروری ہے۔ لیکن اس گروہ کے مطابق نہ تو عورت میں سمجھ بوجھ ہے، نہ وہ کسی کے لیے فیصلہ دے سکتی ہے اور نہ ہی وہ ترقی میں حصہ ڈال سکتی ہے۔ انہیں یہ بات تو اچھی طرح یاد ہے کہ عورت ناقص العقل ہے لیکن وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اگر عورت واقعی کم عقل ہوتی تو اس کی گود پہلی درسگاہ نہ ہوتی۔ نیک کام کرنے پر جس جنت کا وعدہ کیا گیا ہے وہ ان کے پاؤں تلے نہ ہوتا۔
خیر، اب اتے ہیں دوسرے گروہ کی جانب جو عورت کی ترقی اور ازادی کے نام پر نعرے لگائے پھرتی ہے۔ عورت کو اس کے حقوق ملنے چاہیے۔ وہ سارے وسائل اور مواقع جو ایک مرد معاشرے کی ترقی کے لیے استعمال کرتا ہے ان پر عورت کا بھی اتنا ہی حق ہونا چاہیے۔ باقی اپ جینز پینٹ پہنتے ہیں یا لان کی شلوار قمیض اس کا ترقی اور ازادی سے کوئی لینا دینا نہیں۔ البتہ اگر یہ اپ کے لیے ارام دہ ہے اور اپ مطمئن ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں کیونکہ یہ واقعی اپ کا جسم اور اپ کی مرضی ہے۔
بہرحال معاشرے کی ترقی میں عورت کا کردار انتہائی ضروری ہے۔ 15۔ 20 منٹ کے سفر کے بعد گاڑی بازار کے بیچ سڑک پر ا کر رکی۔ سڑک کے دونوں اطراف دکانیں تھیں۔ جب ہم گاڑی سے اترے تو ہمیں اشارے سے ایک طرف جانے کا کہا گیا۔ دکان کے برامدے میں ایک خوش اخلاق خاتون نے ہمارا استقبال کیا۔ وہ ہمیں ایک دکان کے اندر لے گئی جہاں دوسری خواتین چادر بنانے والی مشینوں پر کام کر رہی تھی۔ کوئی دهاگہ بنا رہی تھی تو کوئی کچھ بن رہی تھی۔ کچھ خاتون سامنے مشىن پر بیٹھی چادر بنا رہی تھی۔

ہم اس دکان میں کھڑے ان خواتین کو کام کرتے دیکھ رہے تھے جن کے ہاتھوں کی رفتار ان مشینوں سے کم نہ تھی۔ اتنے میں ایک ننھی بچی دوڑ کر میرے پاس ائی اور ہاتھ اگے کیا۔ میں نے مسکرا کر ہاتھ ملایا اور اس کا نام پوچھا۔ اس نے اپنا نام پریشے بتایا۔ جب میں نے پوچھا کہ اپ یہاں کیا کر رہی ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ ان کی امی کی دکان ہے اور وہ فارغ وقت میں ان کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ اس کا چھوٹا ہاتھ اب بھی میرے ہاتھ میں تھا۔ میں نے کہا تم کیا ہی کر سکتی ہو ان ننھی ہاتھوں کے ساتھ؟ تو اس نے بڑے فخریہ انداز میں کہا کہ میں یہاں پر رکھے ہر مشین پر کام کر سکتی ہوں لیکن ایک مسئلہ ہے۔ میں نے پوچھا وہ کیا؟ تو اس نے کہا کہ یہاں پر رکھا کوئی بھی مشین جدید طرز کا نہیں ہے اور انہیں چلانے کے لیے ہمیں کہیں پیروں تو کہیں ہاتھوں کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ ابھی میں چھوٹی ہوں تو میرا پاؤں نہیں پہنچتا اس لیے مجھے بار بار اپنی جگہ سے اٹھ کر پاؤں کا کام بھی ہاتھوں سے کرنا پڑتا ہے لیکن بہت جلد جدید مشینین انے والی ہیں۔ وہاں میں ارام سے کام کر سکتی ہوں۔ اس نے یہ بات اتنے معصومانہ انداز میں کہا کہ میں بے اختیار ہنس پڑی اور اگے بڑھ کر اسے گلے سے لگایا۔
پریشہ محض اٹھ سال کی ہے لیکن اس کا جوش اور جذبہ دیکھ کر اس کی روشن مستقبل( انشاءاللہ) کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اتنے میں وہ خاتون پھر ہمارے پاس ائی اور ہمیں دوسری دکانوں پر لے گئ۔ وہاں رکھی ہر چیز کے بارے میں ہمیں تفصیل سے بتایا۔ اس کے بعد وہ ہمیں اپنے افس لے گئ اور اپنا مکمل تعارف کرایا۔ وہ ویمن چیمبر اف کامرس اسکردو کی پریزیڈنٹ تھی جو خواتین کی ترقی کے لیے کام کرتی ہیں اور پہلی خاتون بھی جنہوں نے مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اپنے کاروبار کا اغاز کیا۔ انہوں نے اپنے کاروبار کا اغاز بیوٹی پارلر سے کیا تھا۔ پھر AKRSPنے انہیں موقع دیا کہ وہ اپنے کاروبار کو مزید اگے بڑھائیں اور اب وہ گل خاتون کے نام سے اپنا کاروبار چلا رہى ہیں جس میں ان کے ساتھ16 مختلف برینڈز مل کر کام کرتی ہیں۔ ان برینڈز میں سلائی، کڑھائی، بنائی حتی کہ قدرتی پودوں سے بننے والے ادویات اور قدرتی پتھر بھی شامل ہے۔

اس کے علاوہ انہوں نے بتایا کہ وہ ان خواتین کے لیے بھی کام کرتی ہیں جنہیں سلائی، کڑھائی نہیں اتى۔ انہوں نے ان کے لیے کار سروس کا اغاز کیا ہے، جہاں انہوں نے 20 سے زائد خواتین کو ڈرائیونگ سکھائی ہے اور انہیں ڈرائیور لائسنس بھی فراہم کیا ہے۔ اب وہ گاڑیاں چلا کر ایک خود مختار زندگی گزار رہی ہیں۔ اس پر میں نے پوچھا کہ کیا ان کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا کہ وہ سڑک کے بیچ کھڑے ہو کر مسا فروں کا انتظار کریں؟ اس پر انہوں نے مسکرا کر جواب دیا نہیں۔ وہ مسافروں کے لیے گاڑیاں نہیں چلاتے بلکہ وہ پیشہ ور خواتین جنہیں اپنے کام پر جانے کے لیے روز سفر کرنا پڑتا ہے ان کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ ہم جس کام کا بھی اغاز کرتے ہیں اس کے لیے ہم ہر پہلو پر سوچتے ہیں اور ایک ٹھوس منصوبے کے ساتھ ہی اگے بڑھتے ہیں۔ ہم ان کے افس میں تقریبا دو گھنٹے تک بیٹھے رہے۔ انہوں نے یہ کاروبار 20 سال پہلے شروع کیا تھا اور وہ یہ کہانی اس انداز میں ہمیں سنا رہی تھی کہ کبھی ہم مارے تجسس کے انہیں دیکھ رہے تھے تو کبھی ان کے ناکامیوں پر افسوس کا اظہار کر رہے تھے۔ کہیں ان کی مزاحیہ باتیں ہمیں ہنسا رہی تھی تو کبھی ان کاحوصلہ اور ہمت ہمیں تالیاں بجانے پر مجبور کر رہی تھی پر جو بھی ہو یہ کمال کی خاتون تھی، جو وہ ہر ممکن کوشش کر رہی تھی جس سے خواتین اگے بڑھے اور معاشرے میں ایک بہتر زندگی گزار سکیں۔
جب وہ یہ باتیں بتا رہی تھیں تو میں ٹکٹکی باندھے انہیں دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی، ان کے بات کرنے کا انداز اور بلند حوصلہ اس گروہ کے جو عورت کو ناقص العقل کہتے نہیں تھکتی جبکہ ان کا حجاب اور لمبا ابایا اس گروہ کے جو میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگاتی ہے دونوں کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے۔ عورت کے تحفظ کے لیے چادر اور چار دیواری انتہائی ضروری ہے نہیں تو وہ بھیڑیوں کے ہتے چڑھ جائیں گے لیکن اس چادر اور چار دیواری کے نام پر انہیں پنجرے میں قید کرنا بھی کوئی دانائی نہیں۔ اگر ایک خاتون اپ کے گھر کا سارا نظام سنبھال سکتی ہیں تو وہ اپنا کاروبار بھی سنبھال سکتی ہے۔ اگر وہ اپ کے دال چاول کا حساب رکھ سکتی ہے تو اپنے کھاتے کا حساب بھی کر سکتی ہے اور اگر وہ ٹھان لے کسی کام کا تو کوئی بھی طنز، گالی، نعرہ یا ان پر برسنے والے پتھر انہیں نہیں روک سکتے.


