Chitral Times

Dec 4, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

انتخابات کی گہما گہمی………………محمد شریف شکیب

Posted on
شیئر کریں:

الیکشن کمیشن نے 25یا26جولائی کو ملک میں عام انتخابات کرانے کی سمری تیار کرلی۔ حتمی شیڈول کا اعلان موجودہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد متوقع ہے۔ سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہم پہلے سے شروع کردی ہے۔ تحریک انصاف نے آئندہ انتخابات کے لئے اپنے گیارہ نکاتی انتخابی منشور کا اعلان کردیا ہے۔پورے ملک میں تعلیم اور صحت کا ایک ہی نظام، کرپشن کا خاتمہ، سیاحت کا فروغ، ٹیکس سسٹم میں بہتری، کم آمدنی والے لوگوں کے لئے پچاس لاکھ سستے مکانات کی تعمیر،زرعی ایمرجنسی کا نفاذ، جنوبی پنجاب کو صوبہ کا درجہ دینا ، فاٹا کا خیبر پختونخوا میں انضمام اورسرمایہ کاری کا فروغ پی ٹی آئی کے انتخابی منشور میں شامل ہیں۔ جلسے ، جلوس ، ریلیاں، شمولیتی تقریبات اورطوفانی دوروں کا سلسلہ جاری ہے۔ لیکن حیران کن طور پر پی ٹی آئی کے سوا کسی بھی جماعت نے اپنا انتخابی منشور اب تک عوام کے سامنے نہیں رکھا۔ تمام جماعتوں کے لیڈر جلسوں سے خطاب میں اپنی کامیابی کو ہی یقینی قرار دیتے ہوئے دوسری جماعتوں کو تگنی کا ناچ نچانے کے دعوے کر رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر نے فلاحی اسلامی ریاست کے قیام کو اپنا منشور قرار دیا ہے لیکن دینی جماعتوں کے انتخابی اتحاد یعنی متحدہ مجلس عمل کی طرف سے اب تک کسی مشترکہ منشور کا اعلان نہیں کیا گیا۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن ، اے این پی ، کیو ڈبلیو پی اور دیگر جماعتیں اپنا منشور پیش کرنے کے بجائے دوسری جماعتوں کو برا بھلا کہنے پر ہی اکتفا کر رہی ہیں۔جنوبی پنجاب کے ناراض مسلم لیگی رہنماوں کی شمولیت سے ملک کے بڑے صوبے میں تحریک انصاف کی پوزیشن دیگر جماعتوں کے مقابلے میں کافی مضبوط ہوئی ہے تاہم خیبر پختونخوا میں اب تک فیورٹ قرار دی جانے والی تحریک انصاف کو بی آر ٹی کی تکمیل میں تاخیر سے اور عوام سے کئے گئے بعض وعدے پورے نہ کرنے پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ حکومت نے دیرینہ عوامی مطالبے پر اپرچترال کی ضلعی حیثیت بحال کرنے کا اعلان تو گذشتہ سال کیا تھا۔ وزیراعلیٰ نے پولو گراونڈ میں بڑے جلسہ عام سے خطاب میں دعویٰ کیا تھا کہ چند دنوں کے اندر ضلع اپرچترال کا نوٹی فیکیشن بھی ناقدین کے منہ پر مار دیا جائے گا۔ لیکن کئی مہینے گذرنے کے باوجود نئے ضلع کا اعلامیہ جاری نہ ہوسکا۔ جس کا نقصان عوام کو یہ ہوا کہ چترال کی ایک صوبائی نشست ختم کردی گئی۔ اگر حلقہ بندیوں کے اعلان سے چند دن پہلے بھی اعلامیہ جاری کیا جاتا تو اپر چترال کی صوبائی نشست بچ سکتی تھی۔اب شنید ہے کہ آئندہ چند روز میں نئے ضلع کا نوٹی فیکیشن جاری کیا جائے گا تاکہ انتخابی مہم کے دوران لوگوں کی تسلی کے لئے انہیں دکھایاجاسکے۔لیکن یہ نسخہ کارگر ہوتا نظر نہیں آرہا۔ کیونکہ اپرچترال کے لوگ ضلع کا اعلامیہ جاری کرنے میں تاخیر اور ایک صوبائی نشست کے خاتمے پر نالاں ہیں۔ انہیں قائل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر صوبائی نشست بحال نہ ہونے کی صورت میں انتخابات کے بائی کاٹ کا اعلان کیا تھا۔ مگرکوئی بھی دوسروں کے لئے میدان خالی چھوڑنے پر تیار نہیں۔ عین ممکن ہے کہ لوگ خود پولنگ اسٹیشنوں کا بائی کاٹ کریں۔2008کے بعد ملک میں جمہوری عمل بلاتعطل جاری ہے۔ اس دوران دو منتخب حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کرچکی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جمہوری عمل جاری رہنے سے سیاسی جماعتوں اور عوام کی جمہوری تربیت ہوتی ہے۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی بدولت ان میں سیاسی شعور آچکا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں اور لیڈروں میں سیاسی شعور اب
تک بیدار نہیں ہوا۔ وہ آج بھی پچاس سال پرانے طرز کی سیاست کر رہے ہیں۔ گالم گلوچ، طعنہ زنی، دشنام طرازی اور الزامات کی سیاست کے باعث لوگوں کا اعتماد جمہوری عمل سے اٹھتا جارہا ہے۔ لوگوں کو گھروں سے نکال کر پولنگ اسٹیشن لانے کا کوئی منشور سیاسی جماعتوں کے پاس نہیں ہے۔ اس لئے آئندہ عام انتخابات میں بھی پولنگ کا ٹرن آوٹ مایوس کن رہنے کا اندیشہ ہے۔ جس کے ذمہ دار سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین ہیں۔سیاسی نظام سے لوگوں کا دل اچاٹ ہونے کی ایک بڑی وجہ موروثی سیاست بھی ہے۔ سیاسی خاندان دوسروں کے لئے جگہ چھوڑنے کو کسی قیمت پر تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان، تعلیم یافتہ اور متوسط طبقے کے قابل لوگوں کے لئے ہماری سیاست میں اب بھی کوئی گنجائش نہیں۔ جو سیاسی انخطاط کا بنیادی سبب ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , , , , , , ,
9791