نوجوانوں کے لیے رول ماڈل – ایک مسلمان، ایک سوشلسٹ، ایک امریکی، زوہران ممدانی کا تعلق بلتستان کے ایک گاؤں سے ہے – تحریر: اقبال عیسیٰ خان
بس جیسے ہی خبر چلی کہ نیویارک کا نیا میئر“ظہران ممدانی”ہے، پورے برِصغیر میں جشن کا سماں بن گیا۔ پاکستان میں کسی نے کہا“ہمارے علاقے کا ہے”، بھارت میں آواز آئی“ہماری مٹی کا بیٹا ہے”، اور گلگت بلتستان و چترال میں سوشل میڈیا پر لوگ ویسے ہی فخر سے سینہ تاننے لگے جیسے خود میئر شپ کا حلف اٹھا لیا ہو۔
کوئی کہہ رہا تھا“ہنزہ سے تعلق ہے”، دوسرا بولا“نہیں جی، نگر کا ہے”، تیسرا کہہ رہا تھا“سسرال دیامر کا ہے”، اور ایک دانشور نے تو کمال ہی کر دیا، فرمایا:“نانی کے رشتہ دار غذر کے ہیں، لہٰذا میئر شپ ہماری اجتماعی جیت ہے!”
یعنی اب کامیابی جینیاتی بنیادوں پر تقسیم ہو رہی ہے، بس، ظہران کے بچوں کے دوست استور کے ہیں، تو استور کو بھی حق پہنچتا ہے کہ وہ خوشی میں بکرے ذبح کرے!
پیارے پاکستانیوں اور بھارتیوں، کبھی غور کیا کہ ہم دونوں قوموں کی نفسیات میں“کریڈٹ چھیننے”کا کتنا جنون ہے؟ کسی اور کی کامیابی دیکھ کر فوراً رشتہ داری، زبان، یا مذہب کا کارڈ نکال لیتے ہیں۔
کوئی کامیاب ہو جائے تو ہم کہتے ہیں“ہمارے علاقے سے ہے”، اور اگر ناکام ہو جائے تو“جی، یہ تو دوسرے صوبے کا تھا!”
گلگت بلتستان اور چترال کے کچھ لوگ اب سوشل میڈیا پر ظہران ممدانی کو اپنے دادا کا دوست یا ماموں کا شاگرد بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ جیسے کہ نیویارک سٹی کے بلدیاتی فیصلوں میں کبھی ان کی رائے بھی شامل تھی۔
خدا را! ایسے“فضول قسم کے جملے”لکھنے سے نہ عزت بڑھتی ہے نہ قد اونچا ہوتا ہے۔
ظہران ممدانی نے کامیابی اس لیے حاصل نہیں کی کہ وہ کسی کی قوم یا زبان سے تعلق رکھتے تھے، بلکہ اس لیے کہ انہوں نے سوچا، پڑھا، محنت کی اور عمل کیا۔
یہی وہ چار لفظ ہیں جن سے ہم سب کو الرجی ہے۔
پڑھائی میں سستی، سوچ میں بند دروازے، عمل میں نالائقی، اور کامیابی میں فخریہ جھوٹ۔
عجیب تماشہ ہے، پاکستان ہو یا بھارت، ہر دوسرا شخص کامیابی دیکھ کر کہتا ہے“یہ تو ہمارا بندہ ہے”، مگر اپنے ملک میں ایسے بندوں کو سیاست میں آنے ہی نہیں دیتے۔
جو“ظہران”یہاں پیدا ہوتا ہے، اسے یا تو“مغرب زدہ”کہا جاتا ہے یا“ایجنٹ”۔
اور جب وہی“ظہران”کسی مغربی ملک میں کامیاب ہو جائے تو فوراً“ہمارا ہیرو”بن جاتا ہے۔
یہی رویہ ہمارے زوال کا آئینہ ہے۔
ہم علم اور شعور سے خوفزدہ قومیں ہیں، بھارت میں“وطن مخالف”، پاکستان میں“دین مخالف”، اور جی بی میں“روایت شکن”کا ٹیگ لگانا ہمارا قومی کھیل بن چکا ہے۔
ظہران ممدانی نے اپنی مسلم شناخت چھپائی نہیں، بلکہ فخر سے پیش کی۔
انہوں نے کہا“People Over Profit” یعنی انسانیت منافع سے بڑی ہے۔
مگر ہم تو“Profit Over Principle”کے قائل ہیں۔
ہم ہر کام میں رشتہ، ذات، زبان، مذہب یا علاقے کا مفاد ڈھونڈ لیتے ہیں، چاہے وہ تعلیم ہو، سیاست یا روزگار۔
اب دیکھئے کتنا دلچسپ تضاد ہے،
پاکستان میں ہم“سوشلسٹ”کو لادین کہتے ہیں،
بھارت میں“مسلمان”کو مشکوک سمجھا جاتا ہے،
اور گلگت بلتستان میں“روشن خیال”کو دشمنِ روایت کہا جاتا ہے۔
مگر جب یہی تینوں صفات ایک شخص میں جمع ہو کر نیویارک کے میئر بن جائیں، تو ہم سب تالیاں بجا کر کہتے ہیں:“یہ ہمارا اپنا ہے!”
کاش کوئی یہ سمجھتا کہ ظہران ممدانی کسی کا“رشتہ دار”نہیں، وہ ایک“سوچ”ہیں۔
ایسی سوچ جس میں رنگ، مذہب، قومیت نہیں بلکہ تعلیم، مساوات، اور کردار کی بنیاد ہے۔
اگر واقعی متاثر ہیں تو ان کی طرح اپنی برادریوں، بستیوں اور گاؤں کے لوگوں کے مسائل حل کریں۔ گاؤں کی نالی صاف کرانے کا حوصلہ تو ہے نہیں، مگر نیویارک کے میئر کے انتخاب میں“فکری حصہ”لینے کا دعویٰ ضرور ہے۔
ظہران ممدانی جیسے لوگ قوموں کے لیے آئینہ ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اس آئینے میں خود کو دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ ہمیں یہ وہم ہے کہ رشتہ داری سے ترقی ملتی ہے، کردار سے نہیں۔
کاش ہم کبھی یہ سوچ سکیں، کہ اگر یوگنڈا میں پیدا ہونے والا جنوبی ایشیائی نوجوان دنیا کے سب سے بڑے شہر کا میئر بن سکتا ہے، تو لاہور، دہلی، گلگت یا چترال کا نوجوان بھی کچھ کر سکتا ہے، بشرطیکہ وہ فیس بک کے فخر سے نکل کر کتاب اور کردار کی دنیا میں قدم رکھے۔
ظہران ممدانی نے تاریخ رقم کی، اور ہم؟
ہم اب بھی کمنٹ سیکشن میں رشتہ داری تلاش کر رہے ہیں۔

