دھڑکنوں کی زبان – ” زندگی واقع تھکا دیتی ہے”- محمد جاوید حیات
آج ایک شادی پہ جانا تھا۔صبح تڑکے بیگم کی آواز بڑبڑائی کہ گاٶں کے سارے نوکر پیشے تمہارے جیسے بے یارو مدد گار تو نہیں ہر ایک کے گھر کے سامنے معمولی جیمنی،سیرا،سوزوکی تو کھڑی ہے اگر کہیں جانا ہو تو ٹیکسی مانگ کر دربدر نہیں پھرتے۔۔شرم آنی چاہیے۔۔یہ زندگی ہے اس کو زندگی کہتے ہیں یہ عذاب نرا عذاب۔۔میں کانوں میں انگلی دے کے اس تلخ آواز سے چھٹکارا چاہتا ہوں۔۔کل ہی میرے منجھلے کا نتیجہ آیا ہے اس نے اپنے سکول میں پہلی پوزیشن لی ہے۔دوسرے نے ایک ماہ پہلے ہی قران حفظ کرلیا ہے۔۔دو بچیاں سسرال سدھاری ہیں۔گھر میں کھانے پینے کی چیزیں ہیں۔کوئی قرض شرض نہیں۔ہسپتال کا چکر نہیں۔کچہریوں کی تاریخیں نہیں۔گاٶں میں کسی سے مخالفت دشمنی نہیں۔۔
تندرستی ہے کوئی سقم نہیں۔۔یہی بڑبڑاہٹ ہے۔۔اونچی آواز آتی ہے کہ ان سے کہو کہ کسی ٹیکسی سے بات کی ہے کہ نہیں۔۔میں کمرے سے نکل کر باہر جاتا ہوں ناشتے کے لیے بھی نہیں آتا ہوں۔۔دس بجے جانا ہے۔ٹیکسی جیمنی آتی ہے۔بادل ناخواستہ ٹیکسی میں بیٹھتے ہیں رشتہ دار کے گھر پہنچتے ہیں۔۔بڑا گھر ہے۔۔حویلی سے باہر قیمتی گاڑیوں کی قطاریں ہیں۔ہم سہمے ہوۓ پا شکستہ گاڑی سے اترتے ہیں۔۔حویلی میں داخل ہوتے ہیں۔۔زرق برق لباس،ہزار نخرے،لاکھ مصنوعیت۔۔۔میری بیگم سر جھکاۓ آگے آگے ہے۔میں مردانے میں داخل ہوا ہوں۔۔
أفسروں کا جھمگٹھا ہے۔سگریٹ کے دھواں مرغولے،بے ترتیب ہنسی،رعونت،شیخیان۔میں ایک کرسی کھینچ کے بیٹھ جاتا ہوں۔اشرف المخلوقات کی بے بسیاں ابھی ظاہر نہیں ہوئیں۔اندر کی ویران دنیائیں ڈسکس نہیں ہو رہیں۔یکایک قریب ایک صاحب دوسرے سے مخاطب ہوتا ہے۔۔بھابی کی طبیعت کیسی ہے۔۔یار! مزہ نہیں ہم ایک مہینے تک کراچی میں تھے تین چار کیسس اکھٹے ہیں۔۔شوگر،بلڈ پریشر،کولسٹرول۔پرہیزانہ خوراک۔۔قیمتی دوائیں۔۔میں خود مصروف رہتا ہوں اسلام آباد والا پلاٹ عدالت میں ہے۔پشاور والے گھر کو کرایے پہ چھڑارکھا ہے۔دو بیٹے انھوں نے پڑھائیاں ادھوری چھوڑے۔ایک نے ٹھیکہ داری شروع کی مسلسل خسارا خود نشے کی عادی۔۔۔زندگی عذاب میں گزر رہی ہے میں سوچتا ہوں۔ایک پنشن یافتہ آفسر وہی رعونت مگر اپنی بے قدری کا رونا روتا ہے مسلسل اپنے آفسری کے زمانے کی باتیں دھرا رہا ہے۔۔
لہجے میں مایوسی اور حسرت ہے۔زنانے میں خواتین بیھٹی ہیں کسی کو سانس کی تکلیف ہے کوئی بلڈ پریشر کا مریض ہے کوئی شوگر سے تنگ ہے ٹیک لگاۓ بیٹھی ہیں۔۔قیمتی لباس،زیورات،میک اپ۔۔۔میری بیگم ایک کونے دبک کے بیٹھی ہے ان کو زندگی کی نارسائی پہ غصہ ہے نہ ڈھنک کے لباس،نہ زیورات،نہ اپنی گاڑی نہ کوئی حویلی جائیداد۔۔۔اتنے میں ایک فربہ بدن خاتون ان سے مخاطب ہوتی ہے۔۔بہن آپ ذرا اپنا سنائیے خاموش ہیں انھوں نے دل میں سوچا غربت نے خاموش کردیا ہے۔صحت آپ کی کیسی ہے۔۔اللہ کا شکر ہے کبھی ہسپتال نہیں گئی۔۔۔شوہر کیا کام کرتا ہے۔۔سکول ٹیچر ہے۔۔۔بچے ہیں جی تین بیٹے دو بیٹیاں۔۔۔پڑھتے ہیں جی ایک بیٹا میڈیکل کالج میں ہے ایک حافظ قران ابھی ایس ایس پوسٹ لی ہے ایک پڑھ رہا ہے۔۔دو بیٹیاں پڑھ رہی ہیں۔۔گھر۔واجبی سا گھر ہے۔۔ہم غریبوں کا کیا گھر ہوتا ہے۔۔گاڑی۔ہم ٹیکسی پہ آۓ۔۔۔فربہ بدن خاتوں بڑے انہماک سے سوال کر رہی تھی اور توجہ سے جواب سن رہی تھی۔نہایت جذباتی ہوکر کہا آپ کیگھر میں کبھی لڑائی جھگڑا ہوتا ہے۔۔ہاں کبھی توتکار ہوتی ہے۔شوہر ہر بات پہ کہتا ہے کہ شکر کرو۔۔۔میں کہتی ہوں کہ آج کا دور کوئی اور تقاضا کر رہا یے۔زندگی کا سٹائل بدلا ہے۔۔آج ہی ہم لڑ بڑ رہے تھے۔پوچھا۔۔
آخر کیوں؟۔۔۔میری ضد تھی کہ اپنی گاڑی نہیں ہے۔۔ارد گرد دولت کی ریل پیل ہے لوگ اپنی گاڑیوں میں ادھر ادھر آتے جاتے ہیں خوبصورت گھر ہیں زرق برق لباس ہیں۔جیب میں پیسے ہیں۔اچھا اس نے کیا کہا۔۔۔سر جھکا کے خاموش رہا۔۔۔بہن جی اگر یہ آپ سے سوال کرتا کہ اگر میرے پاس گاڑی نہیں ہے تو کیا ہوا میرے پاس تمہارے لیے محبت اور احترام ہے۔میرے پیارے پیارے بچے ہیں۔ اگر میرا گھر محل نما نہیں ہے تو کیا ہوا میرے اس مٹی کے گھر میں سکون ہے۔اگر أپ کی جیب میں پیسے نہیں ہیں تو تمہاری صحت قابل رشک ہے تم مال کے دھندوں سے محفوظ ہو۔حلال کی کمائی ہے معاشرے میں احترام ہے بچے باکردار ہیں۔بہن یہ ساری تمہیں یاد نہیں اتیں۔تمہارے نزدیک ان سب کی کوئی أہمیت نہیں۔
اس کمرے میں موجود سارے لوگ تمہارے علاوہ بے چین ہیں۔۔کسی نہ کسی عذأب میں مبتلا ہیں۔۔بہن جی ہمیں چاہیے ک ہم اللہ کی نعمتوں کو گنیں ان کا شکر ادا کریں میں تجھے دنیا کی خوش قسمت عورت سمجھتی ہوں۔اتنے میں انواع و اقسام کے کھانے آتے ہیں کمرے میں أس کے علاوہ سارے پرہیز پہ تھے انھوں نے جم کے کھانا کھایا۔رخصت ہو کے باہر آرہی تھی تو اس کا بدن لرز رہا تھا وہ سراپا شکر تھی۔اس کاسکول ٹیچر شوہر باہر ٹیکسی کے پاس اس کا انتظأر کررہا تھا۔۔اس نے آتے ہی اس کے ہاتھ پر بوسہ دیا۔۔شوہر نے مسکرا کر کہا کیا ہوا۔۔۔اس نے کہا۔۔میں نے زندگی کو تھکی ماندھی دیکھی ہے۔شکر کی دولت مجھے مل گئی ہے۔۔جلدی کرو اپنے گھر پہنچتے ہیں۔۔ہمیں محل نما گھر اورقیمتی گاڑی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔ہم دنیا کے خوش قسمت تریں لوگ ہیں۔۔آج مجھے یقین ہوگیا ہے کہ زندگی واقع تھکا دیتی ہے

