استنبول مذاکرات ناکام کیوں ہوئے – قادر خان یوسف زئی
افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی تاریخ میں ایک نیا اور تشویشناک باب اس وقت رقم ہوا جب استنبول میں منعقدہ مذاکرات کسی نتیجے تک پہنچے بغیر فی الوقت ناکامی سے دوچار ہو گئے۔ قطر اور ترکی کی ثالثی میں منعقد ہونے والے ان مذاکرات کو دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کو کم کرنے اور ایک پائیدار امن کے حصول کی آخری امید سمجھا جا رہا تھا، لیکن جو کچھ استنبول میں ہوا وہ نہ صرف مایوس کن ثابت ہوا۔ مذاکراتی کوششیں اس لیے بے نتیجہ رہیں کہ افغان طالبان کا وفد بنیادی مسائل سے گریز کرتا رہا اور جن مقاصد کے لیے یہ مذاکرات شروع کیے گئے تھے ان سے مسلسل دور بھاگتا رہا۔ پاکستان کا موقف بالکل واضح تھا کہ افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکا جائے، خاص طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد کی جائے، اور اس حوالے سے تحریری ضمانتیں فراہم کی جائیں۔ لیکن افغان رجیم نے نہ صرف یہ ضمانتیں دینے سے انکار کیا بلکہ مذاکرات کے دوران ایسے مطالبات اٹھائے جو دراصل اصل ایجنڈے سے دور لے جانے کی کوشش معلوم ہوتے تھے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا مسئلہ پاکستان کے لیے محض ایک سیکیورٹی چیلنج نہیں بلکہ ایک وجودی خطرہ بن چکا ہے۔ اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو 2024 میں پاکستان میں 521 دہشت گردانہ واقعات رونما ہوئے جن میں 852 افراد جان سے گئے اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ ان میں سے 358 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے جن میں فوج، پولیس، فرنٹیئر کانسٹیبلری اور دیگر نیم فوجی دستوں کے جوان شامل تھے۔ جو بات اور بھی تشویشناک ہے وہ یہ کہ یہ اعداد و شمار گزشتہ سال کے مقابلے میں ستر فیصد اضافے کی نشاندہی کرتے ہیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ صورتحال بہتر ہونے کی بجائے مسلسل بگڑتی جا رہی ہے۔
ان دہشت گردانہ واقعات میں سے اکثریت خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں رونما ہوئی، جو دونوں افغانستان سے ملحق صوبے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں 295 دہشت گردانہ حملے ہوئے جن میں پانچ سو سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔ یہ صوبہ جو کبھی سیاحت اور تجارت کا مرکز ہوا کرتا تھا، آج دہشت گردی کی زد میں ہے۔ سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق 2024 میں پاکستان نے ایک ہزار چھ سو سے زائد شہریوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کو کھویا، جو گزشتہ دس برسوں میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان سمجھتا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس نے فیصلہ کن کامیابی حاصل کر لی ہے، لیکن ستمبر 2021 میں افغانستان میں افغان طالبان کی واپسی کے بعد سے صورتحال نے ایک نیا اور خطرناک موڑ لے لیا۔ اقوام متحدہ کی متعدد رپورٹس اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان افغانستان میں سب سے بڑا دہشت گرد گروہ ہے اور اس کے چھ سے ساڑھے چھ ہزار جنگجو افغان سرزمین پر موجود ہیں۔ یہ جنگجو نہ صرف تربیت حاصل کر رہے ہیں بلکہ پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی بھی یہیں سے کرتے ہیں اور پھر سرحد عبور کر کے حملے کرنے کے بعد واپس افغانستان کی پناہ گاہوں میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان نے استنبول مذاکرات میں اس حوالے سے ناقابل تردید شواہد پیش کیے جنہیں قطر اور ترکی کے ثالثوں نے بھی تسلیم کیا، لیکن افغان طالبان نے ان شواہد کو تسلیم کرنے کے باوجود تحریری ضمانتیں دینے سے انکار کر دیا۔
افغان طالبان کے اس رویے کی کئی وجوہ ہیں اور ان میں سے کوئی بھی سادہ نہیں۔ سب سے پہلی اور اہم وجہ یہ ہے کہخوارج اور افغان طالبان کے درمیان نظریاتی، تاریخی اور عملی سطح پر گہرے روابط موجود ہیں۔ یہ دونوں گروہ ایک ہی فکری سوتے سے پانی پیتے ہیں، دونوں شریعت کی اپنی تشریح کی بنیاد پر اسلامی ریاست کے قیام کے خواہاں ہیں، اور دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر جنگیں لڑی ہیں۔ جب 2021 میں افغان طالبان نے کابل پر قبضہ کیا توکالعدم تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو بھی ان کے ساتھ تھے اور انہوں نے اس فتح میں اہم کردار ادا کیا۔ ایسے میں اگر افغان طالبان تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کارروائی کریں تو یہ نہ صرف ان کے اپنے ساتھیوں اور بھائیوں کے خلاف کارروائی ہوگی بلکہ یہ ان کی اپنی نظریاتی بنیادوں کو بھی کمزور کرے گی۔
دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ افغان طالبان کو خوف ہے کہ اگر انہوں نے تحریک طالبان پاکستان یا دیگر عسکریت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کی تو اس سے ان کی اپنی حکومت کے لیے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ افغان طالبان کی حکومت خود اندرونی تضادات اور طاقت کی کشمکش کا شکار ہے۔ قندھار میں بیٹھے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخوند زادہ اور کابل میں موجود حقانی نیٹ ورک کے درمیان طاقت کی کشمکش کوئی راز نہیں۔ اس کے علاوہ خوست اور دیگر علاقوں میں بھی مختلف دھڑے موجود ہیں جن کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ استنبول مذاکرات میں بھی یہ اندرونی تقسیم واضح طور پر نظر آئی جب پاکستانی حکام نے بتایا کہ افغان وفد ایک آواز سے بات نہیں کر رہا تھا بلکہ مختلف دھڑوں سے ہدایات لے رہا تھا۔ جب بات تحریری ضمانتوں تک پہنچی تو قندھار کے دھڑے نے آگے بڑھنے کی رضامندی ظاہر کی لیکن کابل کے دھڑے نے اچانک ایک نیا مطالبہ اٹھا دیا کہ امریکہ کو بھی اس معاہدے کا ضامن ہونا چاہیے، جو دراصل مذاکرات کو ناکام بنانے کی ایک چال تھی۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ افغان طالبان کو خوف ہے کہ اگر انہوں نے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کارروائی کی تو یہ ان کے اپنے جنگجوؤں میں بغاوت کا باعث بن سکتا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے ساڑھے چھ ہزار جنگجو کوئی معمولی تعداد نہیں اور یہ سب جنگ کے تجربہ کار اور نیٹو کے چھوڑے گئے جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ اگر افغان طالبان نے ان کے خلاف کارروائی کی تو یہ جنگجو افغان طالبان کے خلاف بھی اسلحہ اٹھا سکتے ہیں اور داعش خراسان جیسے گروہوں کے ساتھ مل سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اور القاعدہ کی انڈین سب کانٹیننٹ شاخ کے درمیان انضمام خطے کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ افغان طالبان اس طرح کے خطرے کو مول لینے کے لیے تیار نہیں کیونکہ ان کی حکومت ابھی اتنی مضبوط نہیں کہ وہ اندرونی بغاوتوں سے نمٹ سکے۔

