ہیڈکوارٹربونی، ضلع اپر چترال کے مسائل – فریداحمد رضا
رقبے کے لحاظ سے خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا ضلع چترال، اب انتظامی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے: ضلع اپر چترال اور ضلع لوئر چترال۔ ضلع اپر چترال کے ہیڈکوارٹر کے لیے سب ڈویژن مستوج کے صدر مقام بونی کو منتخب کیا گیا ہے۔

گاؤں بونی کا علاقہ ساغت کھاڑینی، چرون سے شروع ہو کر گند پالینی اوی کیقریب تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کا کل رقبہ 66,615 کنال ہے، جس میں شوپیشن اور قاق لشٹ کا خشک رقبہ شامل نہیں۔ بونی کے کل رقبے میں سے 34,418 کنال زمین حکومت کے پاس ہے، جن پر سڑکیں، اسکول، کالج، اور سرکاری دفاتر قائم ہیں۔بونی ایک خوبصورت گاؤں ہے جو پھلوں، باغات، گنجان درختوں، کھیتوں اور کھلیانوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ چترال خاص سے تقریباً 75 کلومیٹر کے فاصلے پر، چترال مستوج روڈ کے دائیں جانب واقع ہے۔ بونی میں تقریباً 1,600 گھرانے اور 9,000 سے زائد افراد رہائش پذیر ہیں۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی 2,082.43 میٹر ہے۔ بونی کی بائیں جانب دریا یارخون بہتا ہے اور اس کے ساتھ قاق لشٹ کا بے آب و گیاہ وسیع میدان واقع ہے۔
اپر چترال ضلع کا قیام
8 اکتوبر 2017 کو اُس وقت کے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے چترال پولو گراؤنڈ میں ایک تقریب کے دوران اپر چترال کو الگ ضلع بنانے کا اعلان کیا۔ اب اس ضلع کو بنے تقریباً آٹھ سال گزر چکے ہیں، لیکن اس عرصے میں ضلع کے لیے کوئی واضح حکمت عملی یا منصوبہ بندی سامنے نہیں آئی۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو بونی میں بے ہنگم اور بدصورت عمارتیں تو ضرور نظر آئیں گی، لیکن یہ گاؤں اپنی اصل خوبصورتی — باغات، کھیتوں اور کھلیانوں — سے محروم ہو جائے گا۔
لہٰذا، مستقبل کو مدِنظر رکھتے ہوئے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ بونی کی دیہی خصوصیات برقرار رہیں اور شہری سہولیات بھی دستیاب ہوں۔
بونی کو درپیش موجودہ اور ممکنہ مسائل
آبادی میں تیز اضافہ
چونکہ بونی اب ضلع کا مرکز ہے، یہاں تعلیمی، کاروباری اور صحت کی سہولتیں نسبتاً بہتر ہیں، جس کے باعث دیگر علاقوں سے لوگ یہاں منتقل ہو رہے ہیں۔ اس نقل مکانی کی وجہ سے آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، جو مستقبل میں مختلف مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔
پینے کے صاف پانی کی قلت
بونی میں پینے کے پانی کی شدید قلت ہے۔ پرانی واٹر لائنیں اب موجودہ آبادی کے لیے ناکافی ہو چکی ہیں، اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ مسئلہ مزید سنگین صورت اختیار کر سکتا ہے۔
ٹریفک کے مسائل
بونی چوک ایک چھوٹا سا جنکشن ہے، جہاں سے تین اطراف کی ٹریفک گزرتی ہے۔ یہ چوک اس قدر تنگ ہے کہ ایک وقت میں دو گاڑیاں گزر نہیں سکتیں۔ ضلع ہیڈکوارٹر بننے کے بعد یہاں روزانہ کی بنیاد پر آنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے ٹریفک کا دباؤ بھی بڑھ چکا ہے۔
تنگ اور سنگل روڈ
بونی پل سے لے کر کروئے جنالی اور موڑگرام تک سڑک سنگل ہے اور بہت تنگ ہے۔ گاڑیوں کے لیے کراسنگ کی مناسب جگہ موجود نہیں، اور لوگ اپنی گاڑیاں دور جا کر سڑک کنارے کھڑی کرتے ہیں، جس سے عام شہریوں کو شدید تکلیف ہوتی ہے
پبلک واش رومز کی کمی
بونی میں پبلک واش رومز کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔ روزانہ سینکڑوں افراد کام کے لیے یہاں آتے ہیں، لیکن انہیں واش رومز کے لیے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پارکنگ کا مسئلہ
بونی میں پارکنگ کی سہولت نہ ہونے کے باعث گاڑیاں سڑکوں کے کنارے کھڑی کی جاتی ہیں، جو ٹریفک کے بہاؤ کو متاثر کرتی ہیں۔
ایمرجنسی رسائی
بونی ایک غیر منصوبہ بند گاؤں ہے جو اب قصبے کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ اگر ایمرجنسی کی صورتِ حال پیش آئے تو فائر بریگیڈ اور ایمبولینس کو متاثرہ مقام تک پہنچنے میں مشکلات درپیش آتی ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ایمرجنسی راستوں کی منصوبہ بندی ضروری ہے۔
سرکاری دفاتر کی کمی
ہیڈکوارٹر ہونے کے باوجود بونی میں بیشتر محکموں کے لیے مناسب دفتر موجود نہیں۔ اگرچہ حکومت کے پاس زمین موجود ہے، لیکن محدود وسائل سے مؤثر عمارتیں تعمیر کی جا سکتی ہیں۔ آج کے دور میں بہت سے کام ایک کمپیوٹر کے ذریعے انجام دیے جا سکتے ہیں، اس لیے ہر دفتر کے لیے وسیع عمارت ضروری نہیں۔
پولیس و لیویز ہیڈکوارٹر
ایک مثبت پیشرفت یہ ہے کہ پولیس ہیڈکوارٹر شہری علاقے سے باہر منتقل کر دیا گیا ہے۔ لیویز کے لیے بھی قریبی علاقے میں جگہ مختص کرنے کی ضرورت ہے تاکہ شہر کے اندر رش کم کیا جا سکے۔
رہائشی کالونیوں کی کمی
بونی میں رہائش کے لیے جگہ کی کمی ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے بونی کے باہر مناسب جگہ پر رہائشی کالونیاں تعمیر کی جا سکتی ہیں تاکہ مرکزی گاؤں پر بوجھ کم ہو۔
سیلاب کا خطرہ
بونی گول میں سیلابی صورتحال بونی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے حفاظتی پشتے بروقت تعمیر کیے جانے کی ضرورت ہے۔
تجویز
میری ذاتی رائے میں، اپر چترال کے ہیڈکوارٹر کے لیے قاق لشٹ زیادہ موزوں مقام ہو سکتا ہے۔ اگر اس پر ابھی سے کام شروع کیا جائے تو یہ منصوبہ آئندہ پچاس سالوں میں قابلِ عمل ہو سکتا ہے۔
بونی کو درپیش مسائل ایسے نہیں ہیں کہ ان کا کوئی حل نہ ہو۔ اگر بونی کی سیاسی قیادت اور سرکاری ادارے باہمی مشاورت سے سنجیدہ اقدامات کریں، تو ان مسائل کا حل نہایت آسانی سے ممکن ہے۔

