قبیلوں میں ناموں کی مماثلت اور شناختی پیچیدگیاں: ایک تحقیقی زاویہ – تحریر و تحقیق: نجیم شاہ
پاکستان اور افغانستان کی قبائلی دُنیا ایک تہہ دار، پیچیدہ اور متنوع حقیقت ہے جسے سطحی نظر سے سمجھنا ممکن نہیں۔ یہاں کے قبائل نہ صرف نسلی، لسانی اور جغرافیائی اعتبار سے مختلف ہیں بلکہ اُن کے ناموں میں بھی ایسی مماثلتیں پائی جاتی ہیں جو بسا اوقات محققین کو اُلجھن میں ڈال دیتی ہیں۔ ایک ہی نام رکھنے والے مختلف قبائل اپنی شناخت، نسب، رسم و رواج اور تاریخی پس منظر میں ایک دُوسرے سے بالکل مختلف ہو سکتے ہیں۔ یہی مماثلت عام فرد کے لیے تو کنفیوژن کا باعث بنتی ہے، مگر ایک سنجیدہ محقق کیلئے یہ ایک علمی چیلنج بن جاتی ہے۔
اِس مسئلے کی ایک نمایاں مثال ’’یوسفزئی‘‘ قبیلہ ہے۔ یوسفزئی قبیلہ خیبرپختونخواہ میں ایک معروف پختون قبیلہ ہے، جس کی تاریخ، ثقافت اور سماجی ڈھانچہ صدیوں پر محیط ہے۔ یہ قبیلہ بنیادی طور پر پختونوں کے بڑے قبائل میں شمار ہوتا ہے اور اس کی شاخیں مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ مگر بلوچستان میں بھی ’’یوسفزئی‘‘ نام کا ایک قبیلہ پایا جاتا ہے، جو بظاہر اسی نام کا حامل ہے مگر اس کی شناخت، تاریخی پس منظر اور نسبی تعلقات خیبرپختونخواہ کے یوسفزئی قبیلے سے مختلف ہیں۔ بلوچستان کے یوسفزئی براہوی یا بلوچ قبائل کے ساتھ بھی نسبت رکھتے ہیں، اور اُن کی ثقافت میں بھی فرق پایا جاتا ہے۔
’’محمد زئی‘‘ نام بھی ایک دلچسپ مثال ہے۔ محمد زئی قبیلہ درانی پختونوں کی ایک ذیلی شاخ ہے، جو احمد شاہ ابدالی کے دور سے شہرت رکھتا ہے۔ یہ قبیلہ افغانستان اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں پایا جاتا ہے اور درانی قبائل میں اس کا مقام خاص ہے۔ مگر دوسری طرف ’’محمد زئی‘‘ نام غلزئی قبیلے میں بھی پایا جاتا ہے، جو نسبی طور پر درانی محمد زئی سے مختلف ہے۔ غلزئی محمد زئی قبائل کی تاریخ، رسم و رواج اور سماجی شناخت درانی محمد زئی سے الگ ہے۔ اگر کوئی محقق صرف نام کی بنیاد پر ان دونوں کو ایک ہی قبیلہ سمجھ لے تو یہ ایک سنگین علمی غلطی ہوگی۔
’’ترکئی‘‘ قبیلہ بھی شناختی مماثلتوں کی ایک مثال ہے۔ یہ قبیلہ غلزئی پشتونوں کی ایک شاخ ہے، مگر بعض علاقوں میں ’’ترکئی‘‘ نام کے قبائل غیر پشتون شناخت رکھتے ہیں۔ ان کی زبان، ثقافت اور سماجی ڈھانچہ مختلف ہو سکتا ہے، جو تحقیق کے دوران اُلجھن پیدا کر سکتا ہے۔ اِسی طرح بعض دیگر قبائل بھی مختلف علاقوں میں مختلف لسانی یا ثقافتی شناخت کے حامل ہو سکتے ہیں، جن کی اصل پہچان صرف نام سے واضح نہیں ہوتی۔
’’نورزئی‘‘ قبیلہ بھی شناختی تضاد کی ایک اہم مثال ہے۔ افغانستان میں نورزئی قبیلہ درانی پشتونوں کی ایک معروف شاخ ہے، جو احمد شاہ ابدالی کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتا ہے۔ مگر بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں نورزئی نام کے قبائل بھی پائے جاتے ہیں، جن میں سے بعض براہوی یا بلوچ شناخت رکھتے ہیں۔ ان کی زبان، رسم و رواج اور قبائلی نسبت درانی پشتونوں سے مختلف ہو سکتی ہے۔ بعض نورزئی قبائل نے وقت کے ساتھ اپنی شناخت میں تبدیلی کی ہے، جس سے اُن کی اصل نسبت کا تعین مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔
’’ملا خیل‘‘ بھی ایک ایسا نام ہے جو مختلف علاقوں اور قبائل میں پایا جاتا ہے۔ نیازی قبیلے کی ایک شاخ ’’ملا خیل‘‘ جنوبی وزیرستان، ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان میں آباد ہے۔ مہمند ایجنسی میں بائیزئی قوم کے تحت بھی ’’ملا خیل‘‘ جیسی شاخ پائی جاتی ہے۔ اتمان خیل قبیلے میں ’’ملی خیلہ‘‘ نامی شاخ بعض اوقات ملا خیل سے مشابہت رکھتی ہے۔ اورکزئی ایجنسی میں ایک سادات قبیلہ بھی ’’ملا خیل‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، جو اپنی روحانی اور نسلی شناخت میں ممتاز ہے۔ ان تمام مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ ایک ہی نام کئی مختلف شناختوں کا حامل ہو سکتا ہے۔
اسی طرح ’’اخوند خیل‘‘ یا’’”اخونزادہ‘‘ نام کے قبائل بھی شناختی پیچیدگیوں کی ایک اہم مثال ہیں۔ ان میں سے بعض قبائل پشتون شناخت رکھتے ہیں، بعض سادات یا عربی النسل ہیں، جبکہ کچھ دیگر مختلف نسبی تعلقات کے حامل ہیں۔ اخونزادہ نام بعض علاقوں میں مذہبی وقار کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے مختلف نسب رکھنے والے افراد اس نام سے وابستگی اختیار کرتے ہیں۔
تحقیق کے میدان میں ان مماثلتوں کو سلجھانا ایک فن ہے۔ محقق کو چاہیے کہ وہ صرف ناموں پر انحصار نہ کرے بلکہ قبیلے کی جغرافیائی موجودگی، تاریخی تسلسل، زبانی روایات، رسم و رواج، بولی، اور دیگر ثقافتی علامات کو مدنظر رکھے۔ بعض اوقات ایک ہی نام رکھنے والے قبائل مختلف زبانیں بولتے ہیں، مختلف لباس پہنتے ہیں، اور اُن کے سماجی ڈھانچے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ یہی فرق اُن کی اصل شناخت کو واضح کرتا ہے اور تحقیق کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔
قبائلی شناخت میں ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ بعض قبائل وقت کے ساتھ اپنی نسبت بدل لیتے ہیں۔ طاقتور قبائل سے نسبت جوڑنا بعض علاقوں میں عزت و وقار کی علامت سمجھا جاتا ہے، اِس لیے بعض قبائل اپنے اصل نسب کو چھوڑ کر کسی معروف قبیلے سے نسبت جوڑ لیتے ہیں۔ اس طرح ایک ہی نام کئی مختلف شناختوں کے ساتھ سامنے آتا ہے۔ یہ رجحان نہ صرف شناختی پیچیدگیوں کو بڑھاتا ہے بلکہ محقق کے لیے ایک اضافی چیلنج بھی بن جاتا ہے، جسے صرف گہرے مطالعے اور میدان تحقیق کی روشنی میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔
اِن تمام پیچیدگیوں کے باوجود، قبائلی تحقیق ایک دلچسپ اور ضروری میدان ہے۔ یہ نہ صرف تاریخی شعور کو بڑھاتا ہے بلکہ سماجی ہم آہنگی اور شناختی وضاحت میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ایک محقق کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر قبیلے کو اُس کی اصل شناخت کے ساتھ سمجھے اور پیش کرے، تاکہ علمی دُنیا میں کنفیوژن کی گنجائش نہ رہے۔

