تہران منظم آبی بحران کے دہانے پر – قادر خان یوسف زئی کے قلم سے
تہران اب ایک نئے خوف کا استعارہ بن چکا ہے۔ یہ محض ایک شہر کی کہانی نہیں بلکہ ایک پوری قوم کی المناک داستان ہے جو اپنے تاریخ کے بدترین آبی بحران سے دوچار ہے۔ دس ملین سے زائد آبادی والا یہ شہر جو کبھی فارس کی تہذیب کا مرکز تھا، آج اس مقام پر پہنچ گیا ہے کہ صدر مسعود پزشکیان کو یہ انتباہ دینا پڑا کہ اگر دسمبر تک بارش نہ ہوئی تو باشندوں کو شہر خالی کرنا ہوگا۔ایران کے صدر نے نومبر کے پہلے ہفتے میں ایک بیان میں کہا کہ اگر بارش نہیں ہوئی تو حکومت کو تہران میں پانی کی راشننگ کا نظام لاگو کرنا ہوگا اور اگر راشننگ کے باوجود بھی بارش نہ ہوئی تو پھر بالکل پانی نہیں ملے گا اور لوگوں کو تہران چھوڑنا پڑے گا۔ یہ کوئی عام سیاسی بیان نہیں بلکہ ایک سخت حقیقت ہے جس کی بنیاد اعداد و شمار میں پنہاں ہے۔
تہران کے پانچ بڑے ذخائر جو کبھی تقریباً پانچ سو ملین کیوبک میٹر پانی ذخیرہ کرتے تھے، اب صرف ڈھائی سو ملین کیوبک میٹر کے قریب رہ گئے ہیں اور موجودہ استعمال کی رفتار سے یہ دو ہفتوں میں خشک ہوسکتے ہیں۔ امیر کبیر ڈیم، جسے کرج ڈیم بھی کہا جاتا ہے اور جو تہران کے پینے کے پانی کا ایک بڑا ذریعہ ہے، اب صرف چودہ ملین کیوبک میٹر پانی رکھتا ہے جو اس کی گنجائش کا محض آٹھ فیصد ہے اور تہران کے پینے کے پانی کی صرف دو ہفتے کی ضرورت پوری کرسکتا ہے۔ گزشتہ سال اسی وقت یہ ذخیرہ چھیاسی ملین کیوبک میٹر تھا۔ لار ریزروائر جس کی گنجائش نو سو ساٹھ ملین کیوبک میٹر ہے اور جو مشرقی اور شمالی تہران کے حصوں کو پانی فراہم کرتا ہے، اب اپنی گنجائش کے دس فیصد سے نیچے آگیا ہے۔ لاتیان ریزروائر، جو مشرقی تہران کے لیے ایک اور اہم ذریعہ ہے، اپنی پنچانوے ملین کیوبک میٹر گنجائش کے صرف دس فیصد پر کام کررہا ہے۔
تمام بڑے ذخائر کا بیک وقت خالی ہونا اور زیرزمین پانی کے ذخائر کی بے دریغ نکاسی نے تہران کو ایک منظم آبی بحران کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ملک بھر میں انیس بڑے ڈیم، جو ایران کے کل ڈیموں کا تقریباً دس فیصد ہیں، مؤثر طور پر خشک ہوچکے ہیں جبکہ بیس سے زیادہ ڈیموں میں اپنی گنجائش کا پانچ فیصد سے بھی کم پانی ہے۔ ملک گیر سطح پر ذخائر صرف پینتیس فیصد بھرے ہوئے ہیں اور بڑے ڈیموں میں آنے والے پانی کی مقدار گزشتہ سال کے مقابلے میں نصف رہ گئی ہے۔ مشہد، ایران کا دوسرا بڑا شہر جس کی آبادی چالیس لاکھ ہے، میں پانی کے ذخائر تین فیصد سے نیچے گر گئے ہیں۔
محکمہ موسمیات نے جو اعداد و شمار فراہم کیے ہیں وہ ایک خوفناک تصویر پیش کرتے ہیں۔ تین نومبر دو ہزار پچیس کو ایران کی قومی اوسط بارش صرف دو اعشاریہ تین ملی میٹر تھی جو طویل المیعاد اوسط سے اکیاسی فیصد کم ہے۔ تہران میں بارش صرف ایک اعشاریہ ایک ملی میٹر تھی جبکہ تاریخی اوسط بیس اعشاریہ تین ملی میٹر ہے یعنی پچانوے فیصد کی کمی۔ ایران خشک سالی کے اس دور سے گزر رہا ہے جو پچاس سال میں سب سے زیادہ خشک موسم خزاں ہے اور بارش طویل المیعاد اوسط سے تقریباً نواسی فیصد کم ہے۔ گزشتہ سال کی بارش ستاون سال کی اوسط سے چالیس فیصد کم رہی اور صرف ایک سو باون ملی میٹر تھی۔ تہران میں موجودہ آبی سال میں ابھی تک کوئی بارش ریکارڈ نہیں ہوئی اور یہ مسلسل چھٹا سال ہے جب خشک سالی جاری ہے، جس سے گزشتہ سال ایک صدی میں سب سے خشک ترین سال بن گیا۔ ملک کے نصف صوبوں میں مہینوں سے کوئی خاطر خواہ بارش نہیں ہوئی۔
تاہم یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بارش کی کمی محض ایک محرک ہے، اصل بحران کی جڑیں دہائیوں پر محیط بدانتظامی میں پیوست ہیں۔ آبی ماہرین اور نقادوں نے واضح طور پر بتایا ہے کہ ڈیموں کی زیادتی، غیر قانونی کنووں کی کھدائی اور زراعت کے غیر موثر طریقوں نے ملک کے آبی ذخائر کو تباہ کردیا ہے۔ ایران مشرق وسطیٰ میں زیرزمین پانی کا سب سے زیادہ پانی نکالنے والا ملک ہے اور عالمی سطح پر بھارت، چین، امریکہ اور پاکستان کے بعد پانچویں نمبر پر ہے۔ یہ ملک سالانہ تقریباً ستاون ارب کیوبک میٹر پانی نکالتا ہے جو عالمی کل کا تقریباً نو فیصد ہے۔دہائیوں کی زیادتی نے ایران کے چھ سو نو ایکویفرز میں سے تین سو سے زیادہ کو نازک حالت میں پہنچا دیا ہے۔
امریکی اکیڈمی آف سائنسز کے جریدے میں شائع شدہ تحقیق نے دستاویزی شکل میں ثابت کیا کہ ایران’’آبی دیوالیہ پن کی حالت‘‘ کا سامنا کررہا ہے جس میں وسیع پیمانے پر زیرزمین پانی کی کمی اور نمکیات کی بڑھتی ہوئی سطح شامل ہے۔ بارہ ہزار دو سو تیس پیزومیٹرز اور چودہ ہزار آٹھ سو چھپن مشاہداتی کنووں سے حاصل کردہ معلومات استعمال کرتے ہوئے تازہ زیرزمین پانی کی کمی اور بڑھتی ہوئی نمکیات کی سطح کا امتزاج تقریباً تمام ذیلی طاسوں میں دیکھا گیا ہے، جو ملک بھر میں خوفناک اور بگڑتے ہوئے آبی تحفظ کے خطرات کی نشاندہی کررہا ہے۔ تقریباً چار سو بائیس میدانوں میں سے چار سو دو میدان اب پانی کی کمی کی وجہ سے نازک یا ممنوعہ حالت میں ہیں۔
تہران کے ارد گرد زمین کی دھنسائی چند سالوں میں ایک میٹر تک پہنچ سکتی ہے۔ماہرین مسلسل زور دیتے ہیں کہ صرف تکنیکی حل ایران کے آبی بحران کو حل نہیں کرسکتے۔ ایران کو پانی کی کھپت کو زمین کی قدرتی فراہمی سے متوازن کرنا ہوگا اور ماحول کے لیے ایک حصہ محفوظ رکھنا ہوگا،۔قدیم قناتیں، جو کبھی پائیدار پانی کا حل تھیں، اپنے ساتھ نہ صرف قیمتی پانی بلکہ ملک کے ثقافتی ورثے کا ایک حصہ لے جاتے ہوئے اب خطرے میں ہیں۔ ایک وقت میں ایران میں تیس ہزار سے زیادہ ایسے نظام تھے۔ آج ان میں سے صرف ایک تہائی فعال ہیں۔ بہت سے بھر دیے گئے ہیں، تباہ ہوگئے ہیں یا بس بھولا دیے گئے ہیں۔مستقبل میں ایران سے موسمیاتی تبدیلیوں کے اس بحران میں پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان کی جانب انسانی ہجرت کا امکان کا خارج از امکان نہیں ۔

