Chitral Times

نا عاقبت اندیشی ………… تحریر:اقبال حیات آف برغذی

Posted on

اپنے ایک قریبی رشتہ دار سے ملنے دور ایک گاؤں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں سے واپسی پر میرے رشتہ دار مجھے الوداع کہنے کے لئے سڑک تک میرے ساتھ آئے وہاں گاڑی کے انتظار میں کھڑے تھے کہ اسی دوران قریب ہی ایک وسیع رقبے پر تعمیر شدہ دیدہ زیب عمارت پر نظر پڑی ۔ مذکورہ مکان کے مالک کے بارے میں دریافت کرنے پر میرے میزبان نے بہت ہی اہمیت کے انداز میں اس کا نام بتانے کے بعد گھر کے اندر کا نقشہ پیش کر تے ہوئے کہنے لگا کہ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں۔ فرش سنگ مرمر کے بنے ہیں جن پر صورت نظر آتی ہے۔ اور اندر ایسے ایسے صوفے اور قالین پڑے ہیں کہ ان پر نظر پڑتے ہی آنکھیں تکتی رہ جاتی ہیں۔ اور یہ پوری حویلی پریوں کے دیس سے مماثلت رکھتی ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا یہ شخص عرب میں کہیں کام تو نہیں کررہا ۔ظنیزیہ انداز میں جواب آیا کہ عرب میں کیا رکھا ہے۔ وہ جس محکمے میں کام کر تا ہے۔ وہاں ان کے وارے نیارے ہیں۔ دونوں ہاتھوں سے بٹور رہا ہے۔ اتنا مال جمع کیا ہے کہ سات پشتوں تک کے لئے کافی ہوگا۔ مذکورہ محکمے میں اسکی ملازمت کی نوعیت پوچھنے پر بتا یا کہ یہ وہاں معمولی عہدے پر فائز ہے۔ کوئی بڑا افسر بھی نہیں اور کوئی خاص تعلیم بھی نہیں صرف میٹرک پاس ہے۔ بس خدا جس پر مہر بان ہو جائے تو چھپڑ پھاڑکر دیتا ہے۔ اس گھر میں ذندگی کی تمام سہولتیں دستیاب ہیں۔ اور من چاہے خوراک میسر ہے۔

اس گفتگو کے دوران اچانک میری نظریں جب عمارت کی اونچائی سے نیچے کی طرف آئیں تو مکان کے مرکزی دروازے کے قریب باہر کی طرف ایک دوسرے پر رکھی ہوئی پتھروں کی بڑی بڑی سلیں نظر آ ئیں۔ ان کے بارے میں اپنے رشتہ دار سے دریافت کرنے پر وہ حیرت کا اظہار کر تے ہوئے کہنے لگے کہ بھائی قبر پر ڈالے جانے والے پتھر کبھی نہیں دیکھے ہیں۔ اس دیوار کے عقب میں صاحب مکان کے والد کی قبر ہے۔ جو حال ہی میں وفات پائے ہیں۔ اور اسکو دفنانے کے بعد یہ پتھر باقی بچنے پر انہیں یہاں رکھا گیا ہے۔ خدا جانے یہ کس کے اوپر ڈالے جائینگے ۔ ان زخیم پتھروں کو دیکھ کر میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے ۔ اور ایک عجیب کیفیت کے عالم میں سوچ رہا ۔ اور ذہن پر یہ خیالات آنے لگے کہ یا اللہ ! یہ پتھر ایک نہ ایک دن ہر کسی کے اوپر رکھے جائینگے۔ اور ان پر مزید کتنی اور وزن دار مٹی ہوگی ۔ اور اس تنگ و تاریک مسکن میں انسان کی ابدی زندگی کی طرف سفر کا آغاز ہوگا۔ اور اس سفر کے لئے ذاد راہ حاصل کرنے کی غرض سے دنیا کی زندگی عطا کی گئی ہے۔ اس تاریک اور کیڑے مکوڑوں سے بھر ے مسکن کو منور کرنے اور آنے والی ابدی زندگی کو شاندار اور قابل فخر بنانا دنیا وی زندگی کی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے خوف خدا کی کیفیت سے گزر بسر کرنے سے ممکن ہوسکتا ہے۔ مگر صاحب عقل انسان اس مسافر خانے کی آرائش و ذیبائش میں سرگردان ہے۔ اور اس مقصد کے لئے حلال حرام میں امتیاز کئے بغیر اپنی بساط کے مطابق سمیٹنے میں مگن ہے۔ اور جس کا بس نہیں چلتا اور دستیاب ذرائع سے محروم ہے۔ وہ ایسی دولت کو خدا کے فضل سے تعبیر کر کے رال ٹیکنے کی کیفیت سے دوچار ہے۔ حالانکہ میرے عظیم پیغمبر ﷺ کے ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ اگر موت کی حقیقت کے بارے میں حیوانات کو علم ہوتا تو دنیا میں ایک بھی فربہ حیوان نہ ملتا۔

انہی فکر و خیال کے دوران ٹیکسی گاڑی آکر رکی ۔ میں اپنے رشتہ دار کو خدا حافظ کہتے ہوئے گاڑی کے اندر ایک سیٹ پر بیٹھا میری نظریں ڈرائیور کی سیٹ کے اوپر لکھی ہوئی ان الفاظ سے ٹکرائیں کہ “گاڑی میں بیٹھتے وقت اللہ رب العزت سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگئے ہوسکتا ہے کہ ہمارا یہ سفر زندگی کا آخری سفر ہوگا۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
3823

معیار انسانیت………تحریر:اقبال حیاتؔ آف برغذی

Posted on

گاؤں جاتے ہوئے گاڑی میں بیٹھے سواریوں میں ملک کی سیاسی صورت حال پر بحث چھڑی ۔ اس سلسلے میں دی جانے والی دلائل پر پارٹی وابستگی کا عنصر غالب تھا۔ اس دوران اس بحث میں بڑھ چڑھ کر بولنے والے دو افراد کا پارہ چڑھ گیا۔ اور ایک دوسرے پر منفی الفاظ کی بوچھاڑ کرنے لگے۔ بغیر چبائے ایک دوسرے کو نگلنے کے دعوے ہونے لگے۔ اپنے اسلاف کی عظمت کے گن گانے اور اپنی اپنی خاندانی وقار اور بڑھائی کے نشتر چلا ئے گئے۔ “پدرم سلطان بود “کے حوالے سے خود کو صاحب عزت اور دوسرے کو ذلیل و خوار کے القابات سے نوازے گئے ۔ اور ساتھ ساتھ ذبان سے ایسے غلیظ الفاظ نکلنے لگے جنکی بنیاد پر دونوں میں سے کسی ایک میں بھی انسانی عظمت کا رنگ نظر نہیں آرہا تھا۔ بہت کچھ سننے کے بعد ایک سفید ریش شخص نے دنوں کو مخاطب کر تے ہوئے کہا کہ “تو بھی راجا ۔ تو بھی رانی ۔بس کردو یہ حرام کہانی “۔
اس واقعے کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو علاقے میں عزت کی دعویداری کی بنیاد پر فخرو ناز کا رجحان عام طور پر پایا جاتا ہے۔ اور اپنے ذاتی کردار اور حالت زندگی سے قطع نظر اسلاف اور قومیت کو اس دعویداری کی بنیاد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ حالانکہ عزت ایک ایسی کیفیت کا نام ہے ۔ جسکی خواہش ہر انسان میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ اسے انسانی اعزاز کے نام سے موسوم کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ عزت پیشانی پر لکھی ہوئی چیز نہیں ہوتی اور نہ یہ پیسے سے خریدی جاسکتی ہے۔ بلکہ یہ ایک ایسی انمول نعمت ہے ۔جس کا حصول صرف اخلاقیات کے سکے سے ممکن ہو سکتا ہے۔ حضر علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ انسان دوسروں سے عزت کا تقاضا کرتا ہے۔ حالانکہ عزت اسکے اپنے پاس ہی ہوتی ہے۔ اگر وہ دوسروں کا ادب احترام اور تعظیم و تکریم کرے گا تو ان کی طرف سے بھی اس قسم کا معاملہ سامنے آئے گا۔ اسکے بر عکس اگرانسان انانیت کے گھوڑے پر سوار ہو کر آنکھیں زمین کی طرف لانے سے احترا ز کرے گا ۔ اور ھتک آمیز اور حقارت بھر ہی نظروں سے دوسروں کی طرف دیکھے گا تو اسے عزت نام کے لئے ترسنا ہوگا ۔کھوار کہاوت ہے کہ عزت والے کو گندگی کے ڈھیر میں تلاش کرو۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ انسان جو خود کو سب سے زیادہ حقیر ، کم تر اور ادنیٰ تصور کر ے گا وہ قابل عزت و احترا م ہوگا۔ اور ہر کوئی ایسے انسان کو اپنے دل میں جگہ دینے کے لئے تیار ہوگا۔ اس کے بر عکس بدخو ، بد اخلاق اور خودسر انسان کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔
انسانوں کی طرف سے عزت کو خاندانی وقار، جاہ وحشمت ، دولت و ثروت اور اقتدار کے ترازو میں تو لاجاتا ہے ۔ ایسے میں خوف اور لالچ کی بنیاد پر کسی کا احترام کر کے عزت کا مقام دیا جاتا ہے ۔اگر اس معیار کو حقیقی عزت سے تعبیر کیا جائے تو ایسے افراد بھی قابل تکریم ہوتے ہیں جو رب کائنات کی طرف سے معتوب ہوئے ہیں۔ یوں یہ معیار اس اعتبار سے بے وقعت ہوتی ہے۔ اور اسکے برعکس اللہ رب العزت نے انسانوں کی ابتدائے آفزینش کو ایک مرد اور عورت سے قرار دے کر حسب کی بنیاد پر یکسانیت کا تصور دینے کے بعد تقویٰ اور پرہیز گاری کو عزت کا معیار ٹھیراتے ہیں۔ اور عزت لفظ کو ان افراد کے لئے چنا ہے جو احکام خداوندی پر کما حقہ کا ر بند رہ کر زندگی کے شب و روز گزار تے ہوں چاہے وہ مالی لحاظ سے نان جوین کو ترستے ہوں اور سر چھپانے کے لئے چھت بھی میسر نہ ہو۔ اس معیار کے حامل ہونے پر ایک حبشی غلام کو ایسی عزت سے نوازا گیا کہ زمین پر چلتے ہوئے ان کے قدموں کی آہٹ عرش پر سنائی دینے لگی ۔ قیامت تک ان کے اسم گرامی سے موسوم ہونے پر فخر محسوس کیا جائے گا۔ اور اس کے بر عکس فرغون ، قارون ، نمرود او ر ھامان نام سے ہر کوئی نفرت کرے گا۔
عزت پر اگر ایک دفعہ آنچ اور حرف آئے گا تو اس کا ازالہ کرنا مشکل ہوگا۔ کیونکہ یہ ایک ایسا درشہوار ہے۔ جو ٹوٹنے کی صورت میں اپنی حقیقی صفت کھو دیتی ہے۔
بحر حال عزت کی نعمت بھی خدا کی دین ہے۔ جیسے کہ ارشاد ربانی ہے کہ “اللہ رب العزت جس کو چاہے عزت سے نوازتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں ذلیل کر تے ہیں۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , ,
3492