Chitral Times

داد بیداد……….. ندامت کے دو آنسو……… ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

دو دنوں سے16 دسمبر کا اخبار میرے سامنے ہے چار اخبارات میں 120لیڈروں کے بیانات اور 81 تجزیہ نگاروں کی تحریریں آگئی ہیں ان میں صرف ایک بیان ہے جو سچائی اور حقیقت پر مبنی ہے د و تحریریں ہیں جن میں کچھ حقائق ہیں باقی لفاظی ہے جگالی ہے نقل ماری ہے اور جعل سازی ہے اندازہ یہ ہوتا ہے کہ دو بڑے سانحات پر بھی ہمارا اجتماعی رویہ سنجیدہ نہیں ہم سچ بولنے کی ہمت نہیں رکھتے
محاسبۂ نفس سے گھبراتے ہیں اور’’ ندامت کے دو آنسو ‘‘ بہانے سے گریز کرتے ہیں بابر آیاز نے سچ لکھا ‘ سوریsorry) (کہنے کیلئے بھی
دل گردہ چاہیئے کریکٹر چاہیئے آدمی صاحبِ کردار ہو تو وہ ’’سوری‘‘ کہہ سکتا ہے آرمی پبلک سکول پشاور پر دہشت گردوں کے حملے میں 19افراد کے ہمراہ اپنے 132معصوم ساتھیوں سمیت شہید ہونے والے طالب علم صاحبزادہ عمر کے غمزدہ والد فضل خان ایڈوکیٹ نے تنگ آکر حالات سے مجبور ہوکر سچی بات کہی ہے کہ 3سال گزرنے کے باوجود سانحہ اے۔پی ۔ایس کی تحقیقات نہیں ہوئی کسی مجرم کو سزا نہیں ملی جو دہشت گرد سکول کے اندر مارے گئے وہ آسمان سے نہیں اُترے تھے اِن کو لانے والا بھی کوئی ہے ان کو ھدایات دینے اور تحفظ دینے والا بھی کوئی ہے! فضل خان ایڈوکیٹ ایک غمزدہ باپ ہے اُس نے معصوم بچوں کے 132خاندانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے سب کی طرف سے ایک سوال پوچھا کہ نیشنل ایکشن پلان کدھر گیا؟ فوجی عدالتیں کدھر گئیں؟ انہوں نے بڑے دکھ کے ساتھ یہ بات کہی ہے کہ اگر پشاورہائی کورٹ مداخلت نہ کرتی تو حکومت 16دسمبر2017ء سے دو دن پہلے اے بی ایس حملے کے ماسٹر مائنڈ اور ذمہ داری قبول کرنے والے دہشت گرد کو پورے پروٹوکول کے ساتھ رہاکرنے والی تھی 16دسمبر کے اخبارات میں بڑی خبر مجھے نہیں ملی شاید اُسے بلیک آؤٹ کیا گیا2009ء میں سوات سے بھاگ کر کُنٹر افغانستان میں پناہ لینے والے دہشت گردوں کی طرف سے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کے کام میں مزاحمت ہوئی ہے کنٹر ولایت کی سڑک بھی بھارت نے بنائی ہے اور اس ولایت میں سواتی طالبان کے ہمراہ بھارتی فوج کے کمانڈوز کی بڑی تعداد کو رکھا گیا ہے پاک افغان سرحد پر فینسنگFencing)) میں یہ گروہ زبردست مزاحمت کررہا ہے پاک فوج اور پیرا ملٹری فورس نے مزاحمت کے باوجود فینسنگ کا کام جاری رکھا ہوا ہے اے پی ایس حملے کی طرح کے دہشت گردانہ حملوں کو روکنے کا ایک راستہ یہ بھی ہے کہ سرحد پرباڑ لگا کر دشمن کے راستے بند کئے جائیں کُنٹر کی سرحد کو بند کرنے کیلئے 600کلومیٹر فینسنگ کا کام ہونا ہے اگر یہ خبر آجاتی تو فضل خان کی طرح غمزدہ والدین کے زخموں کو مند مل کرنے میں آسانی ہوتی اے پی ایس حملے کے نتیجے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین سچ کہتے ہیں کہ اُن کے زخموں کو مندمل کرنے کیلئے صرف دہشت گردوں کو عبرتناک سزا دینا ہے اور کچھ نہیں چاہیئے چند سال پہلے ایران کے شہر مشہد کی مسجد پر دہشت گردوں کا حملہ ہوا تو ایرانی حکام نے تین دہشت گردوں کو پکڑا ایک دن مقدمہ چلایا دوسرے دن اپیل کی سماعت کی ، تیسرے دن رحم کی اپیل مسترد کرکے مشہد کی اُسی مسجد کے بڑے دروازے پر پھانسی گھاٹ لگایا اور تینوں دہشت گردوں کو تختہ دار پر لٹکایا یہ احمدی نژاد کے پہلے دورِصدارت کا واقعہ تھا
اس کے بعد ایران میں ایسا واقعہ نہیں ہواپاکستان میں دہشت گردی کے لئے کرنل کلبھوشن یادیو کے ہمراہ پورا پلٹن بھیجنے والے بھارت نے ممبئی حملوں کے دوران ایک دہشت گرد کو زندہ پکڑ لیا پاکستان کے خلاف لمبا چوڑا بیان دلوایا جتنا کام لینا تھا اتنا کام اس لڑکے سے لے لیا اجمل قصاب نام رکھ کر اس پر مقدمہ چلایا اور دو سال بھی پورے نہیں ہوئے تھے مقدمہ کی کاروائی پور ی ہوئی اُس کو سزائے موت دیدی گئی ہمار ی حکومت نے کرنل رینک کے بھارتی دہشت گرد کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا اُس نے تمام جرائم کا اقرار کیا مگر ہمارے سسٹم میں جان نہیں تھی 3دنوں میں اُس کو سزا نہیں ہوئی، 3 مہینوں میں سزا نہیں ہوئی، سال گزر گیا، دوسرا سال ہونے کو ہے کلبھوشن کی جان سلامت ہے اُس کی ماں اور بیوی ملاقات کے لئے آرہی ہیں عالمی عدالت انصاف میں اُس کا مقدمہ چل رہا ہے ہیگ کی عدالت میں بھارتی جج بھی بیٹھا ہوا ہے دشمن اُس کو چھڑا کر لیجانے والا ہے ہم دیکھتے رہ جائیں گے 16دسمبر کا دن 2014 ء کی طرح 1971ء میں بھی آیاتھا ہم نے بھُلادیا۔ مگر دشمن کی کتابوں میںیہ تاریخ محفوظ ہے1971ء میں دشمن کیلئے ایک’’ مکتی باہنی ‘‘ کام کر رہی تھی 2017ء میں دشمن کی 12 مکتی باہنیاں پاکستان کے اندر سرگرمِ عمل ہیں ایک کی جگہ 12دہشت گرد تنظیمیں آگئی ہیں اُن کے پاس دولت ہے اسلحہ ہے تربیت ہے اور سیاسی جماعتوں کی ہمدردیاں ہیں ملکی اداروں کی ہمدردیاں ہیں ہم اتنے بے بس ہیں کہ ندامت کے دو آنسو بھی نہیں بہا سکتے صاحبزادہ عُمر شہید کا باپ سچ کہتا ہے اُن کا زخم مندمل نہیں ہوگا

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
3303

داد بیداد ……….. پتھر کی لکیر ……… ڈاکٹر عنایت اللہ فیضیؔ

Posted on

فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کر کے فرنٹیر کرائمز ریگولیشن کی جگہ پاکستان کا قانون فاٹا میں نافذ کرنے ،پولیس کا نظام اور عدلیہ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھانے کیلئے ایک بل گذشتہ دو سالوں سے زیر غور ہے بل کی تیاری کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا مرحلہ آیا تو پیر 11 دسمبر کو قومی اسمبلی کے ایجنڈے میں فاٹا بل لکھا گیا تھا یہ ایسا بل تھا جس پر ایم کیو ایم ،پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف سمیت پوری

اپو زیشن حکومت کے ساتھ متفق تھی پارلیمانی تاریخ میں ایسا بہت کم ہوتا ہے یہ نادر مو قع فاٹا بل کے سلسلے میں آیا تھا مگر آخری وقت پر حکومت نے بل کو ایجنڈے سے نکال دیا اپوزیشن نے بائیکاٹ کیا ہے اور احتجاج کر رہی ہے تعطل کی سی صورت حال ہے سید خورشید شاہ ،
اسد عمر ،شاہ محمود قریشی اور ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ بل اسمبلی میں نہ لایا گیا تو اجلاس کا بائیکاٹ جاری رہے گا ایسے مواقع پر لوگ نا دیدہ ہاتھ کا ذکر بھی کرتے ہیں سازش کا ذکر بھی کرتے ہیں مگر یہاں نظریہ سازش سے زیادہ ’’نظریہ ضرورت ‘‘کی کار فرمائی نظر آتی ہے فاٹا کے سلسلے میں ایک شراکت داری بھی چل رہی ہے اس کے حصہ دار یا سٹیک ہولڈر اپنی ضرورت کے مطابق حصہ ڈالتے ہیں ملک کے اندر کرپشن اور بد عنوانی سے مال بنانے والا طبقہ ایف سی آر کے قانون کا محافظ اور فاٹا کے موجودہ سسٹم کا شراکت دار ہے اسی طرح ملک سے باہر

دہشت گردی پھیلانے اور دہشت گردوں کی سرپرستی کرنے والے ممالک فاٹا کے موجودہ سسٹم سے مزید فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ بھی باقاعدہ شراکت دار ہیں اگر چہ بیرونی طاقتیں صاف نظرآتی ہیں پھر بھی ان کو نادیدہ ہاتھ کہا جاتا ہے وہ اپنے مقاصد کیلئے ڈالروں کے
جو انبارتقسیم کرتے ہیں وہ دستاویز میں نہیں آتی منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتی ہے بقول نظیر اکبر آبادی ’’یاں سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے ‘‘فاٹا جس طرح پاکستان کیلئے اہم ہے اسی طرح اُن کی بھی ضرورت ہے اگر فاٹا نہ ہوتا تو 1978 ء کے آغاز جہاد سے لیکر 2016 کے ردّ لفساد تک امریکہ ،بھارت ،افغانستان ،عرب ازبکستان اور چیچنیا سے آنے والے لوگ کہاں اپنے کیمپ قائم کرتے ؟ اس سوال پر تھوڑاسا غور کریں اور اس کو حیات آباد کی دیواروں کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے حیات اباد سے تھوڑے فاصلے پر فاٹا کی سرحد شروع ہوتی ہے حیات اباد میں جرم کی بڑی واردات کرنے والا مجرم فاٹا کی حدود میں داخل ہوجائے تو پولیس اس کو نہیں پکڑ سکتی یہ علاقہ امریکہ ،بھارت اور افغانستان کیلئے سونے کا انڈا دینے والی چڑیا کی طرح اہم ہے اس لئے فاٹا کے اندر فرنیٹر کر ائمز ریگولیشن سے فائدہ اٹھا نے والے ملکی اور غیر ملکی شراکت دار (Stakeholdars) اس کو فاٹا ہی رکھنے کے لئے سرمایہ لگا کر ’’فاٹا بل ‘‘ کے پاؤں میں زنجیر باندھ دیتے ہیں فاٹا بل در حقیقت د سمبر 2016ء میں تیار ہو کر اسمبلی میں پیش ہو نا چاہیے تھا دسمبر 2016ء سے دسمبر 2017ء تک اس کی تیاری میں رکاوٹیں ڈالی گئیں تو اس کی ٹھو س وجو ہات تھیں 11 دسمبر کے دن اسمبلی کے اجلاس میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک رکن اسمبلی نے برملا کہا کہ فاٹا پاکستان کا علاقہ نہیں اس کیلئے بل لانا غیر قانونی ہے یہ امریکہ ،بھارت اور افغانستا ن کا اصل موقف ہے جس کی گونج اب ہمارے پارلیمنٹ میں بھی سنائی دینے لگی ہے قومی اسمبلی میں حزب اقتدار سے تعلق رکھنے والے اور بھی اراکین ہیں جو مذکورہ موقف سے اتفاق کرتے ہیں اور فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کی مخالفت کرتے ہیں کہا جاتا ہے کہ جنرل مشرف کو لال مسجد کے شہداء کی بد دعا لگ گئی تھی اگر اسی طریقے پر نواز شریف کے حوالے سے غور کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ نواز شریف کو فاٹا کے مجبور اور معصوم عوام کی بد دعا لگ گئی جو گذشتہ دو سالوں سے اس انتظار میں ہیں کہ کب فاٹا اصلاحات پر عمل کرنے کا دن آئے گا اور کب ان کو ایف سی آر کے انگریزی قانون کے تحت ہونے والے ظلم سے نجات ملے گی جب ان کی دعائیں رنگ نہ لاسکیں تو انہوں نے بد دعا دی اور بد دعا فوراََ رنگ لے آئی موجودہ پارلیمنٹ کے سامنے یہ سنہرا مو قع ہے کہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف ایک بل پر متفق ہیں اگر حزب اقتدار کے سات یا آٹھ اراکین ووٹ نہ دیں یا بائیکاٹ کریں تو کوئی فرق نہیں پڑ تا اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے یہ موقع اس لئے بھی اہم ہے کہ صوبائی حکومت فاٹا کو صوبے میں ضم کرنے سے اتفاق کرتی ہے اگر ایم ایم اے اگلے الیکشن میں حکومت بنا نے کی پوزیشن میں آگئی تو فاٹا کے انضمام کا معاملہ سرد خانے کی نذر ہو جائے گااور ایف سی آر کو ’’پتھر کی لکیر ‘‘کا درجہ حاصل ہو گا ۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged ,
3275