Chitral Times

میڈیا اور این جی اوز والے ہوشیار باش!……..فخرالدین اخونزادہ

Posted on
ادارے کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں !

کیا ایک غریب بندے کے  ساتھ مدد کرکے اس کی  تصویر اُتار کر انٹرنیٹ  اور مڈیا پہ اپ لوڈ کرنا لازمی ہے؟  کیا اس سے  مدد لینے والے کی عزت نفس کو ٹھیس نہیں پہنچتا؟ کیا تصویروں کے بغیر یہ نیکی اور فلاحی کام نہیں ہو سکتے؟ کیا واقعی ڈونرز تصویروں کوشائع کرنے کی شرط رکھتے  ہیں؟ کیا یہ ہمارا مذہب، ملکی قانون، بین الاقومی قانون، این جی اوز، پریس کلب اور سکیورٹی کے اداروںکے پالیسی اصولوں کی پاس داری ہے؟آئین ان  سوالوں کا جواب ڈھونڈتے ہیں۔

 

آج کل این جی اوز، خیراتی  اور حکومتی ادارے جن میں تمام ایسے ادارے شامل ہیں جو کسی نہ کسی صورت میں عوام الناس کی رضاکارانہ مدد کا دعویٰ یا ایسی سرگرمیاں کرتے ہیں وہ لوگوں کے ساتھ مالی مدد کرکے ان کی معلومات اور  تصویریں فیس بک پہ اپ لوڈ اور میڈیا کو بھیجتے ہیں۔ اور میڈیا والے اپنے ہی پیشہ ورانہ  اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ان کو اس طرح اپ لوڈ کرتے ہیں جس طرح ان کو موصول ہوتی ہیں۔

 

موضوع نہایت وسیع ہے، ہمارے لیڈرز سڑکوں کا افتتاح کرکے تصویر نکلواتے ہیں اور وہی تصاویر ووٹ مانگتے وقت استعمال کی جاتی ہیں۔ لیکن فی الوقت سیاست کو باہر رکھتے ہوئے ہم خیراتی اداروں کو موضوع بناتے ہیں، کیا سیاستدانوں کو ڈویلپمنٹ سے کوئی تعلق ہونا چاہئے، کیا منتخب نمائندوں کو پالیسی بنانے میں مصروف ہونا چاہئے یا روڈ، سڑکیں بناکر ہم پر احسان جتانا چاہئے؟ یہ موضوع بعد کیلئے اور کسی مناسب وقت کیلئے چھوڑتے ہیں۔

 

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ  کسی شخص کی اجازت کے بغیر آپ اس کی تصویر شائع نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے تحریری اجازت لازمی ہے۔ تصویریںمیڈیا کو بھیجتےوقت اس اصول کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ تصویروں میں موجود لوگ خود نہیںبھیجتے بلکہ تصویر بنانے والا اسے اپنی ملکیت تصور کرکے اس کے استعمال کو بھی اپنا حق سمجھتا ہے۔ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق تصویر میں نظر آنے والا ہی تصویر کا مالک ہوتاہے۔ یہ تحقیقی اصولوں اور  ملکی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

 

بعض اوقات بعض ادارے تصویر بنانے سے قبل متعلقہ شخص کی اجازت حاصل کرنے کیلئے ایک فارم بھرواتے ہیں تاکہ کسی قانونی پیچیدگی کی صورت میں جان چھڑائی جاسکے، لیکن یہاں بھی فارم میں ایسی کوئی شق نہیں ہوتی جو تصویر بنانے والے کو یہ اجازت دے کہ وہ تصویر اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرے۔یہ جرنلزم اور این جی اوز کے پالیسی اصولوں کی  شکنی ہے۔ تمام این جی اوز کیپالیسی یہ ہے کہ امدادی سامان کو با عزت طریقے سے تقسیم کیا جائے۔   ۲۰کلو اٹا، ایک سلائی مشین یا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا کارڈ  لیتے یا کسی تعلیمی اسکالرز شپ دیتے  وقت کی تصویر شائع کرنے سے لوگوں کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ ان کی غربت اور مجبوری اشکارہ ہوجا تی ہے۔ یہ لوگ نفسیاتی کوفت کا شکار ہو جاتے ہیں، لیکن مالی فائدہ چھوٹنے کے خوف سے کوئی اعتراض نہیں کرپاتے یا انہیں فی الوقت اُسکے مضمرات کا احساس نہیں ہوتا یا اُن بے چاروں کو علم ہی نہیں ہوتا کہ اُن کی غریب شکل کو کسطرح بیچا اور اُسکے عوض کتنا اور کیاکمایا جارہاہے۔ ہمارے مذہبی  تعلیمات بھی ہمیں اس کام کی اجازت نہیں دیتیں۔

 

اسلامی تعلیمات کے  مطابق دو اصول وضع کئے گئے ہیں۔ ایک نیکی کرتے وقت پردہ رکھا جائے، تاکہ اخلاص کا عنصر موجود رہے، اسی لئے ہمیں بتلایا گیا ہے اگر دائیں ہاتھ سے کسی  کو کچھ دے دیا جائے تو بائیں ہاتھ  کو پتہ نہیں ہونا چاہیے۔ دوسرا یہ کہ اگر اُس نیکی کو معاشرے کی تقلید کیلئے انجام دیا جاتاہے اور اُس کے اظہار سے معاشرے میں اُن نیکی کو پھیلانے کا مقصد ہے تو اُس کیلئے ایسا طریقہ کار اپنانا چاہئے جس کا اثر بھی مثبت ہو مگر تاثر بھی مثبت نکلے۔موجودہ وقت ہم جس انداز میں خیراتی سرگرمیاں سرانجام دیتے ہیں اسلام میں یہ ریاکاری کے زمرے میں آتی ہیں۔

 

ہماری معاشرتی روایات بھی ایسے کاموں کا حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ کیا کوئی بندہ اپنا یا اپنے قریبی عزیز کا آٹا لیتے وقت کی تصویر شائع  کرے گا؟ کھبی بھی نہیں۔ کیونکہ وہ اس کو اپنی تزلیل سمجھے گا۔ اگر یہ آپ کیلئے تذلیل کا باعث ہے تو  دوسروں کی بھی توہین ہے۔

 

کچھ ان جی اوز والے یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ یہ ان کے ڈونر کا مطالبہ ہے۔ یا یہ کہ ایک ثبوت کے طورپر تصویر محفوظ کی جاتی ہے۔  این جی اوز  میں میرا طویل تجربہ ہے۔  میں نے کشمیر سے لے کر چترال تک زلزلے اور سیلابزدہ لوگوں کی امداد کی خود نگرانی کی ہے۔  کسی بھی ڈونر کا یہ مطالبہ نہیں ہے۔ البتہ جن جن لوگوں نے “ون مین شو” کے طرز پر خالص اپنی پبلسٹی کے لئے خیراتی ادارے رجسٹر کراچکے ہیں وہ  اپنی شہرت کے لیے ایسے کرتے ہیں جس طرح اوپر ذکر ہے این جی اوز با عزت طریقے سے سامان کی تقسیم چاہتے ہیں۔ تصویر یا ویڈیو  اندرونی استعمال اور  کاموں کی تصدیق کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ یہ خفیہمعلومات صرف رپورٹنگ  کے لیے اکھٹی کی جاتی ہیں۔ شائع کرنے کے لیے نہیں۔ جن کی مدد  سےوہ اپنے اہل‌کاروں کے کاموں کی نگرانی کرتے ہیں۔  اپنے کاموں کی تشہیر کسی اور طریقے سے بھی کی جا سکتی ہے۔ ڈونر کے ہر مطالبے کو ماننا بھی ضروری نہیں ہوتا  آپ اس کے لیے جواز پیش کر سکتے ہیں۔ لوگوں  کے چہرے چھپا کر بھی  ایک تصویر کو شائع کیا جاسکتا ہے۔ افراد کو فرضی نام دیئے جاسکتے ہیں، علاقوں کیلئے جغرافیائی حوالے استعمال کئے جاسکتے ہیں۔

 

لہذا جو کچھ اس مد میں اب تک ہوتا آرہاہے وہ ملکی  اور بین الاقو امی قانون، اداروں کی پالیسی، اور معاشرتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ پیشہ ورانہ اصولوں سے نا واقیفیت ہے۔  میڈیا، این جی اوز  اور حکومتی اداروں  کے اہلکاروں سے گزارش ہے کہ وہ غریب لوگوں  کی عزت نفس کا خیال رکھیں۔ چند پیسے یا اشیا دے کر  لوگوں  کو معاشرتی  پستی پر نہ لے جائیں۔ اپنے اداروں کی پالیسی کو پیشہ ورانہ اخلاقیات کے تابع بنائیں، ملکی اور بین الاقو امی قوانین کے موافق  بنائیں، عالمی اصولوں کے بارے میں آگہی حاصل کریں اور اس  پر سختی سے عمل کریں۔

 

(مضمون نگار اسلام آباد میں زبان وکلچر کی ترقی کا ادارہ، ایف ایل آئی کے سربراہ ہیں)

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , ,
3136