Chitral Times

گلگت بلتستان الیکشن کے قومی سیاست پر اثرات۔۔۔۔۔پروفیسرعبدالشکورشاہ

سیاست مصیبت کو دعوت دینے کا نام ہے اور پھر جہاں جائیں یہ مصیبت آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتی، اس مصیبت کی غلط تشخیص کرنے کے بعد اس کے لیے غلط علاج تجویز کیے جاتے ہیں۔ سیاست بھی ایک فن ہے جو کھیلنے والوں کے لیے اردو کا اور جن پر کھیلا جاتا ہے ان کے لیے انگریزی کا فن بن جاتا ہے۔ گلگت بلتستان کے الیکشن کی آمد آمد ہے اور یہ فن اپنی فنکاریاں دکھا رہا ہے۔ گلگت بلتستان کے الیکشن سٹیج سے پردہ اٹھانے کا کام کریں گے اور اصل کہانی تو اس کے بعد شروع ہونے والی ہے۔یہ کہانی گلگت بلتستان سے ہوتی ہوئی پاکستان کے راستے آزادکشمیر تک پہنچے گی۔ گلگت بلتستان کے الیکشن بلکل ایسے ہی مستقبل میں بننے والی حکومت کا نکارہ بجائے گی جیسے لاہور میں پی ٹی آئی کے جلسے نے بجایا تھا۔ پاکستان اور آزادکشمیر کے سیاسی پنڈت بھی اپنی سیاسی پتنگیں پکڑے اوٹ لیے بیٹھے ہیں کہ کب پتہ چلے ہوا کس سمت چلنی ہے اور وہ اپنی پتنگ کو ہوا میں چھوڑ دیں۔

گلگت بلتستان کے الیکشن سیاسی بگ بینگ ثابت ہوں گے جس کے نتیجے میں کافی سیارے ادھر ادھر بکھر سکتے ہیں۔ تین بڑی سیاسی پارٹیاں اپنے امیدوار میدان میں اتار چکی ہیں اگرچہ سب امید سے زیادہ وار کے چکر میں ہیں۔ تینوں پارٹیاں نظریاتی لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور سیاسی کشتی نے ان کو مزید دور کر دیا ہے۔مسلم لیگ ن نے غلط وقت پر غلط تاپ چھیڑ کرغلط راگ شروع کیا ہے جس کی وجہ سے پارٹی کے اندر بھی خاموش مزاحمت موجود ہے جو پارٹی سربراہ کی پالیسی سے متفق نہیں ہے۔ گلگت بلتستان کے نتائیج کے بعد شاید یہ خاموشی مزید دیر تک برقرار نہ رہے۔ پی ڈی ایم جلسے جلوسوں کے سٹیج پر اور میٹنگ رومز میں تو اکھٹے ہو جاتی ہے اس کے علاوہ وہ کسی بھی لحاظ سے متفق و متحد نہیں ہیں کیونکہ سب کی ترجیحات مختلف ہیں۔ اگر ہم گلگت بلتستان میں سیاسی مہم کی تقریروں کا بغور جائزہ لیں تو وہاں پر پی ڈی ایم کے بجائے انفرادی سیاسی پارٹی کی بات ہو رہی ہے اور گلگت بلتستان میں پی ڈی ایم کا متحدہ سیاسی محاذ شروع کرنے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔

پیپلزپارٹی نے حکومت کی گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے لائحہ عمل میں ساتھ دینے کا اشارہ دے دیا ہے۔ اپوزیشن کی میک اپ والی سیاست ابھی زیادہ دیر ڈھکی چھپی نہیں رہ سکتی کیونکہ ایک جانب تو وہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کے خلاف بیان داغ رہی ہے جبکہ دوسری جانب گلگت بلتستان کی عوام کی خیرخواہی کے نعرے بھی لگاتی ہے۔ صوبہ بننے کے اٹل فیصلے کی صورت میں سیاسی پارٹیاں حکومت کا ساتھ دینے پر مجبور ہیں کیونکہ اگر وہ ساتھ نہیں دیتی تو ایک جانب ان پر بھارت ایجینڈے پر کام کرنے کا لیبل لگے گا اور دوسرے جانب وہ گلگت بلتستان میں اپنی سیاسی ساکھ کھو بیٹھیں گی۔ ایفٹف کی طرح صوبہ بھی بن جائے گا اور اپوزیشن کی یہ کوشش ہو گی کہ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے اس لیے وہ ظاہری سطح پر مخالفت کریں گے۔

اپوزیشن پارٹیوں کے سربراہاں گلگت بلتستان صوبے کے لیے گرین سگنل دے چکے ہیں۔ گلگت بلتستان بھی ایفٹیف کی طرح حل ہو جائے گا مگر اپوزیشن اس پر بارگینگ کی پوری کوشش کرے گی۔اگرچہ کچھ زیادہ فائدہ ملنے کی امید نہیں ہے تاہم کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا ہی غنیمت ہے۔ بھارت کی جانب سے 370 اورA 35کی منسوخی نے پاکستانی قومی سلامتی کی اسٹیبلشمنٹ کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ گلگت بلتستان کو آئینی حیثیت دے کر باضابطہ اپنا حصہ بنائیں۔گلگت بلتستان میں الیکشن کا دیر سے انعقاد اور موسم سرما کا چناؤ بھی باضابطہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے کیونکہ موسم سرما کے شروع ہوتے ہی گلگت بلتستان میں نقل و حمل محدود ہو جاتی ہے۔ اسلام آباد میں وزیر اعظم آزاد کشمیر کی سرپرستی میں آل پارٹیز کانفرنس نے بھی گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ایک قرارداد پاس کی ہے مگر یہ قرارداد ایک کاغذ سے بڑھ کر کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ گلگت بلتستان کے الیکشن میں چین اور ایران کے اثرورسوخ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

شعیہ سربراہان کو ایرانی سفیر اور سنی سربراہان کو چینی سفیر کے زریعے قائل کر لیا گیا ہے۔ بعض اپوزیشن پارٹیاں اور رہنما گلگت بلتستان کے الیکشن کو قبل از انتخابت دھاندلی کا نام بھی دے رہے ہیں مگر یہ محض ایک سیاسی چال کے علاوہ کچھ نہیں، اگر اپوزیشن کی یہ رائے ہوتی تو وہ گلگت بلتستان کے الیکشن کا بائیکاٹ کرتے نہ کہ اپنے امیدواروں کا اعلان کرتے ہوئے الیکشن مہم نہ چلاتے۔ اپوزیشن محض اپنے کھوکھلے بیانات کے زریعے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔گلگت میں پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت بھی مسٹر خان کی زبان استعمال کر رہی ہے جو کہ اچھی روایت نہیں ہے۔ سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان کے انتخابات قومی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوں گے اور یہ مستقبل میں اقتدار کی پیشن گوئی بھی کریں گے۔ن لیگ کی قیادت کے گوجرانوالہ بیانیے کے بعد پارٹی کے اندر خاموش اختلاف اور بددلی موجود ہے جو کچھ امیدواروں کی کھلم کھلا علیدگی کی صورت میں بھی نظر آرہی ہے۔ اس دنگل میں حصہ لینے والے سیاسی پہلوان اپنے داؤ پیچ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں گے کیونکہ پی ڈی ایم کی کوئی مشترکہ اور متفقہ پالیسی نہیں ہے۔

پی ٹی آئی کا اصل مسئلہ مہنگائی ہے نہ کہ پی ڈی ایم۔ جب تک حکومت مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند نہیں کرتی تب تک اپوزیشن اپنا دباؤ بڑھاتی رہے گی۔ عام آدمی کی پی ڈی ایم میں دلچسپی محض ٹی وی اور خبروں کی حد تک ہے، انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ پی ڈی ایم کیا چاہتی ہے یا لندن سے کسی کو لانا ہے یا نہیں۔ عام آدمی مہنگائی کی چکی سے نکلنا چاہتا ہے۔ پی ٹی آئی کو اپنا فوکل پوائنٹ ن لیگ سے ہٹا کر عوامی ریلیف کی طرف موڑنا ہو گا۔مسڑ خان کی تقاریر، اشارات اور لندن روانگی کی باتیں سائے کے پیچھے بھاگنے کے مترادف ہیں۔ لندن سے صر ف مسٹر نواز شریف ہی عدالتوں کو مطلوب نہیں ہے اور بھی کافی لوگ ہیں۔ عوام چاہتی ہے اگر ہمارا وزیراعظم لندن جائے تو جہاز بھر کرسب کو لائے نہ کے ایک فرد کے لیے قومی خزانے پر بوچھ ڈالا جائے، قومی خزانہ پہلے ہی قومے کی حالت میں ہے۔

گلگت بلتستان کے انتخابات کے اثرات آزاد کشمیر کی سیاست پر بھی پڑیں گے۔ آزاد کشمیر کے کئی سیاستدان بھی گلگت بلتستان کے نتائج کے انتظار میں اوٹ لگائے بیٹھے ہیں۔ گلگت بلتستان میں حکومت بنتے ہی سیاسی دھند چھٹ جائے گی اور سیاسی جوڑ توڑ کا آغاز ہو جائے گا۔سیاست کے مولانا پہلے ہی 6دن کے دورہ نیلم کے بعد ایک نئی ہوا چلا چکے ہیں۔ مولانا اپنے خفیہ دست راس پیر مظہر سعید شاہ، سابقہ امیدوار اسمبلی کی ذاتی دعوت پر نیلم رہے جسے سیاسی لحاظ سے ایک نیا آغاز تصور کیا جا رہا ہے۔ سیاسی لحاظ سے جمعیت علماء اسلام ف آزاد کشمیر کی سیاست کے ساتھ نیلم میں بھی اپنا امیدوار لاسکتی ہے۔ گلگت بلتستان کے انتخابات پی ڈی ایم میں بھی ایک نیا موڑ لائے گی۔ پی ڈی ایم گلگت بلتستان کو پانچواں صوبہ بنانے کی راہ میں مین آف سٹیل تو ثابت نہیں ہو سکتی۔مسلم لیگ ن نے قومی اداروں کو ہدف بنا کر غلط وقت پر غلط کارڈ کھیلاہے اور اگر یہ کھیل مزید جاری رہا تو یہ ن لیگ کی سیاست کے لیے بدتر ثابت ہو گا۔ گلگت بلتستان کے انتخابات میں کسی بھی پارٹی کو بھاری اکثریت ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے، نتیجتا اتحاد ی حکومت تشکیل پائے گی تاہم اپوزیشن کافی مضبوط بنے گی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن زیادہ تر اپنے سابقہ امیدواروں پر شرط لگا رہی ہے جبکہ پی ٹی آئی اس دنگل میں پہلی بار شامل ہو رہی ہے۔ کچھ حلقوں میں امیدوار نہ اتارنا بھی ایک منصوبہ بندی ہے نہ کے امیدواروں کا قحظ۔ پی ٹی آئی حکومت میں ہے، وزیراعظم نے دورہ گلگت بلتستان بھی کیا ہے مگر پی ٹی آئی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام میں پہلے جیسی مقبولیت کھو چکی ہے۔

Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
41964