Chitral Times

کھبی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے ….فیض العزیز فیض.

ماں جس میں موتی کی سی چمک، گلاب کی سرخی، غنچے کی رعنائیت، سونے کی تمتماہٹ اور ستاروں کی جھلملاہٹ سمیت حسن و لطافت کی تمام تر خوشنمائی و رعنائی چھلکتی ہیں ۔ماں وہ لفظ ہے جسے سن کر دلوں کو شادمانی و فرحت نصیب ہوتی ہے اور ماں وہ ہستی ہے جسکی پیشانی پر نور، الفاظ میں محبت، آغوش میں دنیا بھر کا سکون، ہاتھوں میں شفقت اور پیروں تلے جنت ہے اور سب سے بڑھ کر ہمارے چہروں کو شاداں و فرحاں رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ماں اولاد کے لیے پھولوں کی خوشبو، تشنگی کے عالم شیریں پانی، قدم قدم پر رہنمائی کرنے والی اور بہاروں کی برسات ہے ، جس کی چاہت سچی ، جس کی الفت و محبت لافانی، جس کے پیار ومحبت کے جذبات واحساسات میں نمائش اور دکھلاوا نہیں۔ماں وہ ہے جو رات میں اولاد کی ہلکی سی آہٹ سے چونک اٹھے،بستر گیلاہوجائے تو خود بھیگے پر رات گزار کر اپنے لاڈلے کو سوکھے بستر پر سلائے،بچہ پرسکون ہوتو خود کوسکون محسوس کرے، اس کے آرام سے خوش ہو، اور اس کی تکلیف سے غم زدہ وپریشان ہوجاتی ہو۔ان ساری خوبیوں کی مالک ماں ہے۔ اس ماں کے لیے سال میں صرف ایک دن ! بات سمجھ سے بالاتر ہے ۔

اس ماں کی مامتا کو بیان کرتے تابش نے کیا خوب کہا کہ. ایک مدت سے میری ماں سوئی نہیں تابشمیں نے ایک بار کہاتھا کہ مجھے ڈر لگتاہےنپولین کا قول ھے کہ ؛تم مجھے اچھی مائیں دو میں تم کو اچھی قوم دوں گا۔کیونکہ کسی بھی انسان کا کردار اس بات کا ثبوت ھوتا ھے کہ اس کی پرورش اور تربییت کس نھج پر ھوئی ھے۔ دنیا میں جتنے لوگوں نے عظیم کارنامے انجام دیے ھیں ان کے پس پردہ ان کی ماوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا انداز تھا۔ماں ھی وہ ھستی ھے جس کو رب ذولجلال نے تخلیق کا اعجاز عطا کرکے اپنی صفات سے بھرہ مند فرمایا۔ اس کا وجود محبت کا وہ بیکراں سمندر ھے کہ جس کی وسعت کا اندازہ نھیں کیا جاسکتا۔ اسکا دل اتنا وسیع ھے کہ سارے زمانے کے دکھ الام بھی سمٹ آئیں تو اس کی وسعت میں فرق نہیں اتا ایک ایسا سائبان عافیت جس کی چھاوں میں کوی دکھ پریشانی ھمیں چھو نھیں سکتی. حضرت موسی علیہ السلام کے والدہ کی وفات ھوگئ تو اپ علیہ السلام اللہ تعالی سے کلام کرنے طور پر چڑھے تو اللہ تعالی نے کھا ؛اے موسی اب تم سنبھل کر انا تمھارے ماں کا انتقال ھوگیا ھے جب تم ھمارے پاس اتے تھے تو تمھاری ماں سجدہ میں جاکر ھم سے دعائیں کیا کرتی تھی ؛کہ اے سب جہانوں کے رب میرے بیٹے سے کوی چوک ھوجاے تو اسے معاف کردینا.بہرحال ماں وہ عظیم ھستی ھے جس کی دعاوں کی ھم جیسے گنہگاروں کو ھی نھیں پیغبروں، انبیا اکرام، اولیا علہہ رحمہ کو بھی ضرورت ھوتی ھے۔ جس کے لبوں سے نکلی دعا بارگاہ الھی میں شرف قبولیت حاصل کرتی ھے۔

کیا ایک دن کا پیار، تھوڑے سے پھول اور تحائف ایک ماں کیلئے پورے سال کیلئے  کافی ہوتے ہیں؟ ہرگز نہیں! ہماری اقدار ہمیں اس بات کی اجازت قطعی طور پر نہیں دیتیں اور نہ ہی یہ ماں جیسی عظیم ہستی کے شایان شان ہے کہ سال میں ایک بار ماں سے مل کر اور تحفے تحائف دے کر محض رسم پوری کردی جائے۔ ہمارا معاملہ رسم سے آگےعبادت اور خدمت کے درجے کا ہے۔ ماں کے پاس بیٹھنے، ماں کی طرف پیار بھری نظر سے دیکھنے اور ماں سے وہ باتیں کرنا جو اسے پسند ہوں دراصل ہمارے دین کا حصہ ہے۔ جبکہ ماں کو دیکھ کر دن کا آغاز کرنا اور ماں کا دہلیز تک بچوں کو دعاؤں کے ساتھ رخصت کرنا ہماری صدیوں پرانی روایات ہیں۔اپنی بات کروں تو اس معاملے میں زیادہ خوش نصیب نہیں ہوں. سوچتا ہوں کہ کاش آج میری ماں زندہ ہوتی تو اس سے اپنی محبت جتاتے ہوئے کتنا مزہ آتا. آپ میری زندگی سے اس دور میں الگ ہوکر رخصت ہوگئیں جب میں خود قابل رحم تھا. صرف آپ ہی کی محبتوں کا امیدوار تھا. آپکی دعاؤں سے کامیابیوں کی سیڑھی چڑھ کر جب کسی قابل اطمینان منزل تک پہنچ کر پیچھے دیکھا تو آپ کی غیر موجودگی نے سارا لطف کرکرا کردیا. والدہ محترمہ کو بیتے بارہ سال ہوگئے. لیکن لگتا ایسا ہی ہے جیسے کہ میرے قریب ہی کہیں ہیں ان کی آوازیں اکثر آتی ہوئی سنائی دیتی ہیں. بہرحال اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ھم کیا ان کی یاد کے لئے کوئی دن مختص کرتے ھم تو کھبی کسی لمحے میں خود کو ان سے الگ محسوس ہی نہیں کئے. وہ ہونگے کوئی جو کھبی فرصت میں مدر ڈے منا کر خوش ہوتے ہونگے. مجھے یقین ہے کہ میرے معاشرے میں الحمد للہ سب ماووں کے معاملے میں مجھ جیسے بلکہ مجھ سے بھی اچھے ہیں. اللہ رب العزت ھم سب کی مائیں جو کہ رحلت فرما چکی ہیں ان کی مغفرت فرمائے اور جو حیات ہیں ان کے ساتھ حسن سلوک کی روا رکھنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین 

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
35406