Chitral Times

چترال کے ایک اور فرزند کا اعزاز، پروفیسر سید انورعلی شاہ نے پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کرلی

چترال کے ایک اور فرزند کا اعزاز، پروفیسر سید انورعلی شاہ نے پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کرلی


پشاور ( چترال ٹائمز رپورٹ ) چترال کے ایک اور فرزند نے پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کرلی۔ اپر چترال کے خوبصورت گاوں موردیر سے تعلق رکھنے والا سکالر سید انور علی شاہ نے قرطبہ یونیورسٹی پشاور سے پروفیسر ڈاکٹر اسماعیل ولی کی زیر نگرانی پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کرلی ہے ۔


انکی پی ایچ ڈی تھیسس کا موضوع :کہواراور انگریزی میں جزبات کے متعلق استعاری زبان کا تجزیہ“ تھا ۔ ڈیفنس کے موقع پر ایگزامینر پروفیسر ڈاکٹر مستعمر احمد.پروفیسر ڈاکٹر گلزار جلال.پروفیسر ڈاکٹر عرفان اللہ.پروفیسر ڈاکٹر اسماعیل ولی اخگر نے پی ایچ ڈی ریسرچ کے حوالے سےسوالات کیے. جنکا ڈاکٹر سید انور علی شاہ نے زبردست دفاع کیے.


اس موقعے پر انجمن ترقی کہوار پشاور کے عہداران مہربان الہی حنفی.قاضی عنایت جلیل عنبر.سید ابراہیم شاہ طایر.اور فضل نعیم نعیم بھی موجود تھے.


انجمن ترقی کہوار پشاور کے صدر اور کیبنٹ ممبرز نےڈاکٹر سید انور علی شاہ کو کہوار اور انگریزی میں جزبات کے متعلق استعاری زبان کا تجزیہ جیسا اہم موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر نے پر مبارکباد پیش کیں.اور کہوار زبان وادب کیلے ایک اہم خدمات قرار دیے.جو انگریزی زبان وادب میں ڈاکٹر اسماعیل ولی اخگر کے بعد انگریزی ادب کے دوسرے پی ایچ ڈی ہیں.موصوف گزشتہ کچھ برسوں سے یونیورسٹی اف چترال میں انگریزی کے شعبے میں بحیثیت لیکچرر خدمات سرانجام دے رہے ہیں.

chitraltimes phd schlor syed anwar ali shah
Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , ,
50418

چترال میں ایک اور شندور کا وجود – قاضی نذیر بیگ

چترال میں ایک اور شندور کا وجود
سوتکوریک سے جشن شاقلشٹ کا انوکھا سفر
پیار اور محبت کے چند رسومات معدومیت کا شکار جسکا مداوا جشن شاقلشٹ

بونی سے تورکہو کی طرف اگر آپ کو سفر کرنا ہو تو بونی تھانے سے متصل روڈ سے گزرنے والی ہر چوتھی یا پانچویں گاڑی کھوت کی طرف گامزن آپ کو دکھائی دے گی ۔ اور جہاں وادی کھوت کا نام آتا ہے وہاں محبت امن اور بھائی چارے کی انگنت مثالیں اپنی جگہ موجود تو ہیں ہی مگر گزشتہ کئی دہائیوں سے کھوت اپنی گاڑیوں کی وجہ سے بھی خاصا شہرت کا حامل رہا ہے ۔ کیونکہ علاقہ تورکہو کی تقریبا ساٹھ فیصد گاڑیاں وادی کھوت کے باسیوں کے پاس ہیں ۔ یعنی کہ کھوت جانے کے لئے کسی کو بھی کبھی ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کا مسئلہ درپیش نہیں ہوسکتا ہاں یہ الگ بات ہے کہ سیاسی نمائندے اور ممبران کی عدم توجہ کی وجہ سے یہ راستے پر پیج اور کٹھن ضرور ہیں ۔ کھوت پہنج کر سب سے پہلے آپ کو تاریخی مسجد گیسو کی زیارت کا شرف حاصل ہوتا ہے جو اپنے آپ میں ایک مقام رکھتی ہے ۔ یہاں کچھ کہاوتیں ایسی ہیں کہ گیسو مسجد کے اندر پیعمبر علیہ سلام کے گیسو مبارک موجود ہیں جس کی وجہ سے یہ نام ان گیسو شریف سے منسوب ہے۔ مگر اس بات پہ ابھی تک صداقت کم ازکم مجھے نظر نہیں آئی اور نہ ہی کہیں اس کی مستند دلائل موجود ہیں ۔


گیسو مسجد کی زیارت کے بعد شاہی بنگلہ اور کھوت پولوگراونڈ کی سیر کے بعد تمام سیاح کھوت کی تاریخی نہر راجوئے کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں جو کئی صدیوں سے کھوت کی اسی فیصد ابادی کو نہ صرف سیراب کرتی ہے بلکہ سینکڑوں گھرانے اس نہر سے پینے کا پانی بھی حاصل کرتے ہیں اور اس پانی کو ویرمینوغ کہتے ہیں جسے زرعی زمینات کے لئے کمیا بھی تصور کیا جاتا ہے۔ بلکہ اس پانی سے آج سے چند سال پہلے تک اتنی عقیدت ہوا کرتی تھی کہ جب پہلی دفعہ اس نہر میں پانی چھوڑا جاتا تھا تو اس پانی سے محروم علاقے کے لوگ بالٹی بھر کر ایک ایک قطرہ اپنی زمینوں پہ اس نیت سے ڈالا کرتے تھے کہ ویرمینوغ کی تاثیر ان کی زمینوں پر بھی ہو اور ان زمینوں کی فصلوں میں برکت ہو ۔
راجوئے کی ایک الگ ہی تاریخ ہے ۔

راجوئےکی تاریخ

بزرگ کہتے ہیں کہ جب قدیم الایام میں جب کھوت کے لئے نہر کھودی جا رہی تھی اس وقت انجنئیر اور مشینری نہ ہونے کی وجہ سے لوگ بہت تکلیف سے دوچار ہوگئے تھے اور تقریبا شکست مان کر گھروں کو لوٹنے والے ہی تھے تو اچانک ایک پرندہ جس کو مقامی زبان میں اشقوڑہ کہا جاتا ہے ۔ آتاہے اور جہاں تک نہر نکالی گئی تھی وہاں سے کچھ دوری پہ آکر بیٹھ جاتا ہے ۔ ان محنت کشوں میں چند ایک سیانے بھی تھے جو اس وقت اپنے تجربات کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ اس پرندے کا پیچھا کرو اور جہاں جہاں بیٹھ جائے وہاں نشان لگایا کرو تاکہ ہم اس نہر کو کامیاب بناکر کھوت کی آدھی ابادی کو پانی سے خودکفیل کر سکیں گے اور آنے والی نسلوں کے لئے پانی کا انتظام ہوسکے ۔ اس مجمع میں کچھ لوگوں نے اس بات کا مذاق بھی اڑایا مگر اکثر نے حامی بھرلی تو چند لوگوں کو مخصوص اوزاروں کے ساتھ اس پرندے کے پیچھے روانہ کر دیا گیا یہ لوگ اس پرندے کے پیچھے پیچھے چلتے جہاں وہ بیٹھ جاتا وہاں پہ نشان لگاتے جاتے اور اسی طرح کھوت راجوئے کے سروے مکمل ہوگیا اور اس زمانے کے دلیر اور محنت کش لوگوں نے ایک ناممکن کو ممکن بناکر تاریخ رقم کردی ۔ اب تک کھوت میں جب بھی سیاح آتے ہیں تو اس نہر کی سیر کرتے ہیں جہاں سے نہر کا آغاز ہوتا ہے وہاں دو محصوص وال کے زریعے پانی کو چھوڑا اور بند کیا جاتا ہے وہاں تک سیر سپاٹے کی نیت سے سیاح چلے جاتے ہیں اور لطف اندوز ہوجاتے ہیں ۔ اس کو مقامی زبان میں مدوک کہتے ہیں جو شاریگرم جامع مسجد سے چند قدم کی دوری پہ واقع ہے ۔

chitraltimes jashan e shaqlasht torkhow6
بل صفائی مہم کھوت کی اس مشہور نہر کی صفائی مارچ کے آخری دنوں میں شروع ہوجاتا ہے اور تقریبا ایک ہفتے لگاتا کام کرنے کے بعد پائہ تکمیل کو پہنچتا ہے ۔ اس مہم کے لئے بھی باقاعدہ قواعد و ضوابط لاگو ہیں جن کی پیروی ہر ایک پہ لازم و ملزوم ہے ۔ بل صفائی مہم کا طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ اس نہر سے فائیدہ ٹھانے والوں کی کوئی اٹھارہ سے بیس تک مختلف گروپ تشکیل دی گئی ہے جو روز ازل سے اس گروپ میں ہیں اور ہر گروپ میں میں اٹھارہ بیس گھرانے ہوتے ہیں اور اس ایک گروپ کو ایک (پھی) کہتے ہیں ۔ اور دوران صفائی ہر (پھی) یعنی گروپ کو پیمائش کے حساب سے زمہ داری دی جاتی ہے جیسا کے ایک مخصوص جگے کو دکھایا جاتا ہے کہ یہاں سے وہاں تک فلان (پھی) کی زمہ داری ہے اسی طرح ہر (پھی) اپنے اپنے مقررہ جگے کی صفائی کرکے شام کو گھروں کو لوٹتے ہیں ۔ اور اسی طرح سات یا آٹھ دنوں میں بل صفائی موسم مکمل ہوجاتا ہے اور ایک دن مقرر کرکے اس نہر میں پانی چھوڑا جاتا ہے ۔

کھوت_غاری

مدوک سے اگر گاڑی کا سفر ہو تو صرف چالیس منٹ کی مسافت کے بعد آپ کھوت کی مشہور چراگاہ پتیان پہنچ جاتے ہیں ۔ اور یہ کھوت میں بسنے والے تمام باسیوں کی ذاتی ملکیت ہے ۔ اور ہر برادری اور قبیلے کے نام الگ الگ علاقے اور چراگاہیں موجود ہیں جو آپس میں امن اور بھائی چارے کی وجہ سے تاحال منقسم نہیں بلکہ پورا کھوت کے عوام آپس میں مل بانٹ کر اس سے جہاں فائیدہ اٹھانا ہو وہاں فائیدہ اٹھاتے ہیں ۔ ورنہ گرمی کے دنوں میں گائے بیل اور دوسرے جانور وہاں پہ چرنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں جو تقریبا چار سے پانج مہینوں تک وہاں پہ چرتے ہیں اور سردیاں آتے ہی ان کو واپس نیچے بستیوں کی طرف لایا جاتا ہے۔

chitraltimes jashan e shaqlasht torkhow5

غاری_نیسک یا غاریوغ کھوت میں تین الگ الگ نالے ہیں جن کو غاری کہا جاتا ہے ۔ جن میں ووزگ ، اوجو اور پتیان شامل ہیں ۔ یہاں جس غاری کی بات ہورہی ہے یہ پتیان ہے ۔

یہ حدالنظر وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ایک درہ ہے جس کے وسط میں مشہور گراؤنڈ شاقلشٹ واقع ہے ۔
جولائی کے اوائل میں کھوت کے چند خاندان جو مال مویشیوں کی دیکھ بال زمینوں کے لئے کھاد اور سردیوں کے لئیے ایندھن جمع کرنے کی غرض سے دو مہینے کے لئے غاری کا رخ کرتے تھے ۔ جس کے لیے ایک دن مقرر کیا جاتا تھا جس دن پورا کھوت کے مرد و خواتین اپنے مال مویشیوں کو لیکر غاری چھوڑنے جاتے ۔ خواتین اپنے مال مویشیوں کے ساتھ اور مرد ہر دور کے حساب سے گانے اور میوزک کا اہتمام کرتے ۔ مثلا آج سے اگر چالیس یا پچاس سال پیچھے جائیں تو ڈف بجا کر خود سے گانا گاتے ۔ اور شاقلشٹ پہنچ کر پولو اور بوڈی دیک جیسے کھیلوں کا انعقاد ہوتا اور شام ڈھلتے ہی واپس نیچے بستی کی طرف چلے آتے ۔ پھر زمانے کے ساتھ ساتھ سازو سامان بھی بدلتے گئے ڈف کی جگہ سونی اور پینوسونک اور نیشنل کے جاپانی ٹیپ ریکارڈر نے لے لیے اور ایک دور ایسا آیا کہ غاریوغ کے دن ہر کسی کے کندھے پہ مقامی دستکاری سے تیار کردہ رنگ رنگیلے کور میں ملبوس ٹیپ ریکارڈر جن میں اس زمانے کے مشہور گانے بج رہے ہوتے تھے ۔ غاری کی طرف چلے جاتے تھے۔ مذکورہ مقام شاقلشٹ میں جاکر فٹبال، ولی بال اور کرکٹ کھیل کر شام کو واپس آجاتے تھے۔
اور جو لوگ دو مہینے کے لئے وہاں سکونت اختیار کرتے تھے وہ بھی ان دو مہینوں میں چار الگ الگ تہوار منایا کرتے تھے جنکو #تیلاشٹاریک #چھیراشٹاریک #تیلیکی اور #سوتکوریک کہاجاتا تھا ۔

تیل_اشٹاریک:

جب گاؤں کے باسی دوسرے کھوت کے مال مویشیاں لیکر غاری میں دو مہینے گزارنے کے لئے چلے جاتے تھے تو ایک ہفتے تک وہ نہ ہی چائے میں دودھ استعمال کرتے تھے اور نہ ہی کھانے میں دیسی گھی اور مکھن استعمال کرسکتے تھے مقامی اصولوں کے مطابق ان چیزوں پر پابندی عاید ہوتی تھی تاہم ایک ہفتے یعنی گنتی کے ساتھ دن بعد تیل گھی اور مکھن وغیرہ پر سے پابندی ہٹ جاتی تھی اس دن گھی یا مکھن کا بناہوا ہوا طعام کا انتظام ہوجاتا تھا اور تمام اڑوس پڑوس والے مل بانٹ کر کھاتے تھے جس کو تیل اشٹاریک کہاجاتا تھا ۔

چھیر_اشٹاریک :

دو ہفتوں یعنی چودہ دن بعد دودھ پر سے بھی پابندی ہٹ جاتی تھی اور پہلی دفعہ دودھ والی چائے بناتے اور دودھ سے بنے ہوئے مختلف قسم کے لذیذ کھانے جیسا چھیر گرینج۔ چھیرا شاپک ، وعیرہ بنا کر کھاتے اور اس دن کو چھیر اشٹاریک کہاجاتا تھا۔

تیلیکی:

جو بھی نئی نویلی دلہن یا کسی کا نومولود بچہ اگر پہلی دفعہ غاری میں آئے تو ان پر لازم تھا کہ ایک محصوص دن وہ ایک دیکچی میں چاول اور ایک دیکچی میں مقامی مٹر جس کو شاکوچھون کہا جاتا ہے ۔ پکاکر ایک مخصوص جگئے پہ لاکر خواتین مل بیٹھ کر کھالیتی تھیں البتہ اس میں مردوں کا حصہ نہیں ہوا کرتا تھا ۔ جسکو تیلیکی کہاجاتا تھا ۔

سوتکوریک

غاری میں بسنے والے جتنے بھی لوگ ہیں وہ ایک خاص دن پورے کھوت کے لئے دعوت خاص کا انتظام کرتے تھے ۔ جس کا طریقہ کار کچھ یوں تھا ۔ کہ غاری میں بسنے والے ہر گھر کے ذمے ایک چھوٹے سے برتن میں دہی (مچھیر) جمانا ہوتا تھا ۔ اور جن جن کے پاس کھوت سے باہر کے مال مویشی ہوتے تھے ان کے ذمے ایک بڑی پلیٹ میں مقامی کھانا (سناباچی) پکاکر پیش کرنا ہوتا تھا ۔ غاریوغ کے بیس سے پچیس دن بعد سوتکوریک کا اعلان ہوا کرتا تھا جو گیسو مسجد سے ہی جمعہ کے روز اعلان ہوتا تھا اور پورے کھوت میں نمازیوں کے زریعے پیغام (پہنچیا جاتا تھا) اور پھر پانج دن کے اندر پورے کھوت سے مرد حضرات جن میں بچے نوجوان اور بزرگ بھی “جو چل کر پہنچ سکتے تھے” ایک بار پھر عاری کا رخ کرتے تھے۔ اور شاقلشٹ پہنچ کر ان چالیس پینتالیس گھرانوں سے مقامی دہی جسکو مچھیر کہا جاتا ہے ۔ شاقلشٹ پہ جمع کرتے اور پورے عوام مل کر اسے کھاتے اور حسب روایت پولو اور بعد ازاں جب گھوڑے پالنے کا رواج معدوم ہوگیا تو فٹ بال ولی بال اور کرکٹ کھیل کر شام کو واپس گھروں کو لوٹ آتے ۔


وقت کے ساتھ ساتھ سب کچھ بدل گیے۔ جہاں سوتکوریک کے نام پہ یہ تہوار منایا جاتا تھا ۔ وہ معدوم ہوتا چلا گیا وہ رونق نہیں رہی اور نہ ہی کھوت کے باسیوں میں وہ جذبہ اور سکت باقی رہی کہ گہما گہمی کے لمحات میں کچھ وقت نکال کر اس نایاب تہوار کو منانے آتے ۔

chitraltimes jashan e shaqlasht torkhow3


بہرحال اس رونق بھری تہوار کو یوں معدوم ہوتا ہوا دیکھ کر کھوت کے چند جوانوں نے ملکر کر یہ تہیہ کرلیا کہ اس تہوار کو تھوڑی سی وسعت دیکر کم ازکم تورکہو کی حد تک منایا جائے ۔ ان نوجوانوں میں ماسٹر امتیاز علی خان جو اسوقت سکول میں تھے ۔ کچھ بچوں کو لیکر جشن شاقلشٹ کے نام سے ایک ٹورنمنٹ کا انعقاد کیا ۔ اور دھیرے دھیرے اس کو شہرت ملتی گئی ۔ شروعات میں تقریبا کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ مگر سدا بہار نوجوان قاری نجم الدین ۔ شیر فراز ، میر کمال الدین ، نظام الدین ، مقبول حسین ، سجاد حسین اور ایسے ہی کافی ترقی پسند نوجوانوں نے ٹھان لی کہ شاقلشٹ کو ترقی کی منزل پہ پہنچا کر دم لینا ہے ۔ مگر کسی بھی کام کو بہتر طریقے سے کرنے کے لئے حکومت کی پشت پناہی نہ ہو تو وہ کام ممکن نہیں ہوسکتا، مگر ان نوجوانوں نے ہمت نہیں ہاری سالہا سال جشن شاقلشٹ کو بہتر کرتے گئے اور آخر کار شاقلشٹ ویلفئیر سوسائٹی معرض وجود میں آئی ۔ اور تا حال کھوت اور شاقلشٹ میں سپورٹس کے حوالے سے صف اول پہ کوشاں ہے ۔ اس تنظیم کے چیئرمین امتیاز علی خان ہیں ۔ صدر قاری نجم الدین ، نائب صدر شیر فراز, مہنور علیشاہ جنرل سیکریٹری اور قاری امام الدین فینانس سیکریٹری ہیں ۔ امسال بھی ان ہیروں کی محنت اور جستجو کی بدولت بڑے ہی پروقار انداز میں جشن شاقلشٹ اختتام پزیر ہوا ۔ اور اگلے سال کے لئے ہمارے نمائندوں اور ممبران پر چند سوالات چھوڑ گیا ۔ وہ یہ کہ انصاف کی حکومت جو ابھی تک ٹورزم کے حوالے سے بڑے بلند بالا دعوے کرتی آئی ہے ۔ مگر شاقلشٹ جیسے ایک انمول ٹورسٹ سپورٹ ابھی تک حکومت کی آنکھوں سے اوجھل کیوں ہے ؟ آج سے غالبا دو سال پہلے شاقلشٹ کے روڈوں کے حوالے سے سمری بھیجوادی گئی تھی وہ آج تک کیوں لاپتہ ہے ؟ اگر ماحول میں نشے اور دوسرے غلط کاموں کی روکھتام اور بچوں میں صحت مند زندگی کو عام بنانے کے لئے کوشاں اس تنظیم کو کوئی سپورٹ کیوں کرنہیں کرتا؟


یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب آج نہیں تو کل ہمارے نمائندوں کو دینا ہی پڑے گا اور جس انداز سے نوجوانوں میں سپورٹس کا جنون بڑھ رہا ہے کھوت کے نوجوانان شاقلشٹ میں اپنے سامنے ایک بہت بڑے سٹیڈیم کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ جو مستقبل قریب میں اپنے ووٹوں سے بھی مشروط کرسکتے ہیں ۔

chitraltimes jashan e shaqlasht torkhow2

شاقلشٹ کامحل وقوع اور_سیاحت

تین سے چارمربع کلومیٹر پہ پھیلا ہوا یہ سرسبز ہرا بھرا میدان جس کے ایک کونے پہ محکمہ موسمیات کا ٹاور نصب ہے جس کا لاہور کے ساتھ ہوائی رابطے ہیں کے شمال اور جنوب کی طرف خوبصورت پہاڑی سلسلہ جسکو اشپیرو زوم کہاجاتا ہے یہ سلسلہ براستہ کھوتان کھوت اور یارخون کو چند گھنٹوں کی مسافت کے بعد آپس میں ملاتا ہے ۔ اس زمانے کے تندرست اور توانا لوگ صبح کھوت میں گھر سے کسی رشتہ دار کی تعزیت یا مبارکباد کے لئے نکلتے تھے تو شام کو واپس آبھی جاتے تھے اور وہ سلسلہ ابھی تک تسلسل کے ساتھ جاری ہے البتہ اسی دن واپس آنے والے لوگ شاید دنیا میں نہیں رہے مصنوعی خوراک اور نازک مزاجی کے باعث موجودہ دور کے لوگ یہاں سے اکثر بائی روڈ گاڑیوں کے زریعے بونی سے ہوتے ہوئے یارخون چلے جاتے ہیں ۔ اگر کوئی کھوتان کے راستے سے پیدل چلا بھی جائے تو وہ دو دن سیر سپاٹے کے بعد ہی واپس اسی راستے سے لوٹتا ہے ۔


حلانکہ مستحکم حکومت ہو اور اگر اس پر خاطرخواہ رقم خرچ کئے جائیں تو وہ دن دور نہیں کہ لڑکے موٹر سائیکل میں کھوتان لشٹ بازار سے سودا سلف لیکر کچھ ہی دیر میں واپس آجائیں گے۔ یا کوئی ایسا اقدام ہو کہ تین سے چار کلومیٹر کی سرنگ کھوت اور یارخون کو بالکل ایسا ہی قریب لے آئے گی جیسے ٹاؤن چترال اور اویون ۔ یہ باتیں بس مشورے کی حد تک ہیں باقی شاقلشٹ کی بات کرتے ہیں ۔
شاقلشٹ سیاحت کی نیت سے جانے والے کھوت سے صرف ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد شاقلشٹ پہنچ جاتے ہیں اور وہاں پہ اپنا کیمپ لگا کر اگر صبح آٹھ بجے آرام سے اٹھکر آہستہ آہستہ چل کر صرف دو گھنٹے کی مسافت کے بعد کھوتان پہنچ جاتے ہیں اور کھوتان میں جہاں بھی وہ بیٹھے
پورا یارخون ، کارگن ، دیوان گول ، بریپ، استچ، دیزگ ، خورزگ، مہتنگ ، بیرزوز، بنگ پائن ، بنگ بالا، یوکوم ، شیچ، دیوان گول، میراگرام نمبر 2, پاور ، پترنگاز ، اور اسی طرح شوڑ کوچ اور وسوم تک کا نظارہ بہت اچھی طرح کرنے کے بعد ایک گھنٹے میں واپس شاقلشٹ پہنچ جائیں گے ۔ اس سے سیاحت کی سیاحت اور ورزش کی ورزش بھی ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح شاقلشٹ سے متصل کئی اور درے ہیں جن میں خوبصورت چوٹیاں ، ہرے بھرے گھاس ، دودھ جیسے بہتے ہوئے آبشار اور کئی کئی کلومیٹر میدان بس سیاحوں کی آمد کا منتظر ہیں ۔


اکثر پہاڑی علاقوں میں جنگلی جانوروں کا ڈر رہتا ہے مگر یہاں یہ علاقہ حد نظر وسیع اور کھلا ڈھلا ہونے کی وجہ سے جنگلی جانور بھی نایاب ہیں ۔ بہت کم بھیڑیے لومڑیوں کے علاؤہ ایک اور جانور پایا جاتا ہے جن کو مقامی زبان میں بیشندی کہاجاتا ہے ۔
شاقلشٹ کے تینوں طرف بہتی ندیاں ہیں جس کی ایک طرف بہت چھوٹی مقدار میں دریا بہتا ہے جو گرمیوں میں تیرنے کے لئے انتہائی موزوں ہے ۔

chitraltimes jashan e shaqlasht torkhow1


میں کبھی شندور گیا نہیں ہوں مگر جس طرح لوگوں سے سنا ہے کہ شاقلشٹ کا میدان شندور سے کافی حد تک بڑا ہے اور ۔ شاقلشٹ تک رسائی شندور سے کئی گنا آسان ہے ۔ بونی سے سے صرف پانج گھنٹے میں شاقلشٹ پہنچا جاسکتا ہے ۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے کے مصداق میں بھی اس خیال کے ساتھ یہ لکھ رہا ہوں کہ کیا پتہ کوئی تو ہو جو ایک دفعہ محبت کی نظر سے اس بہترین مقام کی طرف دیکھے، جس پر تھوڑے سے پیسے خرچ کرے تو حکومت پاکستان کے لئے بہترین ٹورسٹ سپوٹ بن کے سامنے آسکتا ہے اور اس کی بدولت کھوت کے باسیوں کے لئے روزگار کے مواقع فراہم ہوسکتے ہیں اور یہاں سیاحت کا نظام اصولی بنیادوں پہ ہو، یہاں پہ سٹیڈیم بنایا جائے تو آنے والی نسل اسپورٹس کے میدان میں اچھا خاصا نام کماسکتے ہیں اور علاقے کی نمائندگی نیشنل لیول پہ کرسکتے ہیں ۔ اور اگر تھوڑی سی محنت کی جائے تو انشاءاللہ صرف تیس سے پینتیس منٹ کی دوری پہ یارخون وادی کی سیر بھی ممکن ہوسکتی ہے ۔


فی الحال ۔ حکومت وقت کو چاہئیے کہ شاقلشٹ تک روڈوں کی بحالی کو ممکن بنانے کوشش کرے اور سب سے ضروری شاقلشٹ میں کم ازکم ایک چھوٹا سا گیسٹ ہاؤس تعمیر کیا جائے تاکہ مستقبل میں کسی مہمان کی آمد متوقع ہو ۔ اور یہاں کے ماحول کو ملحفوظ خاطر رکھ کر یہاں محصوص مقامات پر لیٹرین تعمیر کیے جائے تاکہ شاقلشٹ کی خوبصورتی ہمیشہ ایسی ہی برقرار رہے ۔
آخر میں بس اتنا سا گزارش ہے کہ جشن شاقلشٹ کو پروموٹ کرنے کے لئے ہر پاکستانی کو ایک دفعہ ضرور تشریف لانا چاہئیے تاکہ جلد سے جلد جشن شاقلشٹ عالمی سطح پہ سیاحوں کو اپنی طرف راغب کرے ۔
بہت بہت شکریہ ۔


طالب دعا قاضی نذیر بیگ

chitraltimes jashan e shaqlasht torkhow
chitraltimes jashan e shaqlasht torkhow4
chitraltimes jashan e shaqlasht torkhow8
chitraltimes shiaqolasht festival torkhow5
chitraltimes shiaqolasht festival torkhow4
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
50290

ایم این اے مولانا چترالی نے چترال کے مختلف مقامات پر 5کروڑ 22لاکھ روپے کے منصوبوں کا افتتاح کردیا

ایم این اے مولانا چترالی نے چترال کے مختلف مقامات پر 5کروڑ 22لاکھ روپے کے منصوبوں کا افتتاح کردیا

چترال(نمائدہ چترال ٹائمز ) چترال سے قومی اسمبلی کے رکن مولانا عبدالاکبر چترالی نے اپنی صوابدیدی ترقیاتی فنڈ سے چترال اور دروش کے چھ مختلف مقامات پر 5کروڑ 22لاکھ روپے کی لاگت سے سڑکوں کی پختگی کے کاموں کا افتتاح کیا جنہیں پاک پی ڈبلیو ڈی کے نگرانی تعمیر کئے جارہے ہیں۔ جماعت اسلامی ضلع لویر چترال کے جنرل سیکرٹری وجیہہ الدین نے ایک اخباری بیان میں روڈ کمیونیکیشن سیکٹر میں ترقیاتی کاموں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہاکہ 69,92000روپے دنین روڈ، 83لاکھ 95ہزار خورکشاندہ، 99لاکھ سنگور روڈ، 68لاکھ 33ہزار روپے جنجریت روڈ، ایک کروڑ69لاکھ روپے سے تین کلومیٹر ایون اٹانی روڈاور بروز گولدور کو ایک کروڑ 31لاکھ روپے سے پختہ کئے جائیں گے۔

انہوں نے کہاہے کہ ان سڑکوں کی حالت انتہائی مخدوش ہوگئی تھی جن کی تکمیل کے بعد ان کی پختگی یا تو سرے سے نہیں ہوئی تھی یا پختہ سڑک اکھڑ کر کھنڈر کا منظر پیش کررہے تھے جبکہ مولانا چترالی کے ان منصوبوں سے یہ مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بروز یونین کونسل میں بجلی کی ترسیل کا مسئلہ بھی ایک گھمبیر صورت اختیار کرگئی تھی اور اپنی صوابدیدی فنڈ سے یہ مسئلہ بھی حل کردی ہے۔انہوں نے کہاکہ مولانا چترالی نے اسمبلی کے فلور پر بھی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرکے عوام کی صحیح ترجمانی کا حق ادا کررہے ہیں اور ترقیاتی فنڈ سے علاقے کے دیرینہ حل طلب مسائل کی تعداد میں کمی لانے میں مصروف ہیں۔

chitraltimes mna abdul akbar chitrali projects inaguration4
chitraltimes mna abdul akbar chitrali projects inaguration3
chitraltimes mna abdul akbar chitrali projects inaguration

Posted in تازہ ترین, چترال خبریںTagged , , ,
50114

خیبرپختونخوا میں چترال جیسے علاقے ہیں جو زعفران کی پیداوار کیلئے سب سے موزوں ہیں۔گورنر

پشاور (چترال ٹائمز رپورٹ) “چین اور پاکستان نے زرعی مصنوعات کی پروسیسنگ، کوآپریشن اینڈ ایکسچینج” سے متعلق پر ایک آن لائن فورم کاا نعقاد کیا جس کا اہتمام پاکستان میں چینی سفارت خانے اور خیبر پختونخوا-BOIT نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ فورم میں CPEC فیز II کے تحت زراعت کے تعاون کی اہمیت پر زور دیا گیا۔ فورم نے خوراک کی حفاظت کے لئے زراعت کی اہمیت اور غذائی تحفظ کے پائیدار ترقیاتی مقصد کے معاون عنصر پر زور دیا۔


فورم میں دونوں ملکوں سے زیتون، شہد، چائے، تمباکو، مویشیوں, دودھ، ماہی گیری، آلو پروسیسنگ کے شعبوں کے اہم اسٹیک ہولڈرز نے شرکت کی۔ اجلاس سے گورنر خیبر پختونخوا، شاہ فرمان کے ساتھ ساتھ پاکستان میں چین کے سفیر مسٹر نونگ رونگ، چیئرمین CPEC اتھارٹی،عاصم سلیم باجوہ، وزیر اعلی کے معاون خصوصی برائے صنعت و تجارت، عبدالکریم، سیکرٹری زراعت اورچیف ایگزیکٹیو آفیسر BOIT خیبر پختونخوا حسن داؤد بٹ نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر مہمان خصوصی گورنر خیبر پختون خوا شاہ فرمان نے خطاب کرتے ہوئے زراعت میں اضافے اور فروغ کے لئے خیبر پختونخوا کے زراعت دوست ماحولیاتی نظام پر روشنی ڈالی اور یہاں کے پھلوں اور سبزیوں اور ان مصنوعات کا تفصیل سے ذکر کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا میں تیار کردہ دیودار شہد صرف 6-9 فیصد چینی مواد کے ساتھ بہترین معیار کا ہے جو بہت کم ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں چترال جیسے اونچائی والے علاقے ہیں جو زعفران کی پیداوار کے لئے سب سے موزوں ہیں۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں بہترین کوالٹی تمباکو کاشت کیا جاتا ہے اور اس نے غذائی تحفظ کے ابھرتے ہوئے چیلنجوں کو پورا کرنے کے لئے چین اور پاکستان کے مابین زراعت اور تحقیق کے میدان میں مستقبل میں تعاون کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔ پاکستان میں چین کے سفیر مسٹر نونگ رونگ نے دونوں ممالک کے مابین صنعتی تعاون کو بڑھانے اور اسے مزید وسیع کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ زراعت دونوں ممالک کی معاشی ترقی اور خوشحالی کے لئے انتہائی اہم ہے اور تحقیق و ترقی کے میدان میں باہمی تعاون لازمی ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات کو مزید تقویت ملے گی۔چیئرمین CPEC اتھارٹی مسٹر عاصم سلیم باجوہ نے زراعت میں تبدیلی کے منصوبے کے بارے میں وزیر اعظم کے وژن کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ خیبر پختونخوا کے آب و ہوا اور زمین کی بیشتر زراعت کی مصنوعات جیسے تمباکو، چائے اور شہد کی پیداور اور مویشیوں کی نشوونما کے لئے زرخیز ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 100 ایکڑ اراضی پر مشتمل مرچ کی کاشتکاری کا پائلٹ منصوبہ پاکستان میں مکمل ہوچکا ہے اور اس طرح کے مزید منصوبے بھیCPEC صنعتی تعاون فیز II کے تحت پائپ لائن میں ہیں۔

انہوں نے دونوں ممالک کے لئے برآمدات میں اضافے اور محصول کو بڑھانے کے منصوبوں پر کام تیز کرنے پرزور دیا۔وزیر اعلی خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی عبد الکریم نے کہا کہ خیبر پختونخوا چین، افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ایک گیٹ وے ہیں جس سے ذرعی مصنوعات سمیت برآمدات کے لئے ایک اضافی استفادہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ علاقائی ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دینا زراعت کے شعبے کو ترقی دینے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے زراعت کے شعبے کیلئے سپلائی چین اور کولڈ اسٹورج کو بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ خیبر پختون خوا زراعت کی مصنوعات کا مرکز ہے اور چینی کمپنیوں کے ساتھ تجارتی روابط اور پیداوار میں اضافہ کے لئے بھی تعاون حاصل کریں گے۔

انہوں نے زراعت کے شعبہ میں پپلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے پر زور دیا۔ چیف ایگزیکٹو آفیسر KPBOIT حسن داؤد نے دونوں ملکوں کی زرعی شعبہ میں شراکت کو انتہائی سراہا اور دونوں ممالک کے مابین زراعت کی ترقی اور تحقیق کے میدان میں ہم آہنگی کو مستحکم کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے سی پی ای سی کے تحت چینی صنعتی تعاون کی اہمیت کو اجاگر کیا اور سرمایہ کاروں کو ون ونڈو سہولت کی یقین دہانی کرائی۔ چینی سرمایہ کاروں نے زیتون، چائے، شہد، تمباکو، آلو پروسیسنگ، براہ راست اسٹاک اور ڈیری میں تعاون کے طریقوں پر بھی روشنی ڈالی اور یہ کہا کہ دونوں ممالک کے مابین زراعت کو بڑھانے کے لئے آزاد تجارتی معاہدے (ایف ٹی اے) سے استفادہ کیا جائے۔ انہوں نے مشترکہ منصوبوں میں بھی گہری دلچسپی ظاہر کی۔

Posted in تازہ ترین, جنرل خبریںTagged , ,
49530

اکسفورڈ یونیورسٹی سے پہلا چترالی پی-ایچ-ڈی کریں گے

اکسفورڈ: یارخون میراگرام نمبر ۲ کے دور دراز علاقے سے تعلق رکھنے والے عبدالواحد خان کو اکسفورڈ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی میں داخلہ مل گیا ہے۔ وہ آئی آئی ایس کی طرف سے دیے گئے اسکالرشپ سے آکسفورڈ یونیورسٹی میں جغرافیہ اور ماحولیات 
میں اپنا پی-ایچ-ڈی کریں گے۔

چترال سے اس سے پہلے کسی نے اکسفورڈ یونیورسٹی سے پی-ایچ-ڈی نہیں کیا ہے اور یہ پورے چترال کیلئے بڑے فخر کی بات ہے کہ ہزاروں لوگوں میں سے ایک چترالی طالب علم کا دنیا کے بہترین یونیورسٹی میں پی-ایچ-ڈی میں داخلہ ہوا ہے۔ عبدالواحد نے چترال ٹایمز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی تحقیق کا عنوان چترال میں شمولیات اور ان سے لوگوں اور قدرت کا تعلق اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں ہے۔ وہ ڈاکٹر ایریل اہیرن اور ڈاکٹر ابرار چودھری کے زیر نگرانی پی-ایچ-ڈی کریں گے۔

عبدالواحد نے کہا کے وہ اس کامیابی کو اپنی والدہ اور مرحوم والد صوبیدار میجر عبدالحمید خان کے نام کرنا چاہیں گے جنہوں نے بہت مشکل حالات میں انہیں تعلیم کیلئے پہلے آرمی پبلک سکول دروش اور پھر آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول بھیجا۔ انہوں نے اپنے بھائی، بہن، رشتہداروں، اساتذہ اور دوستوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ہر وقت ان کا خیال رکھا۔

عبدالواحد اس سے پہلے دو مرتبہ تعلیم کے غرض سے مکمل اسکالرشپ پر امریکہ بھی گئے تھے اور اس وقت وہ ائی ایی ایس کی اسکالرشپ پر تین سال سے لندن میں ہیں اور فی الوقت اکسفورڈ یونیورسٹی سے ہی ماحولیات اور قدرت کے مطالعے میں ماسٹر کر رہے ہیں۔

عبدالواحد خان کا کہنا ہے کہ “یارخون جیسے علاقے سے اکسفورڑ پہنچنا آج بھی ایک خواب لگ رہا ہے لیکن آج کل کے بدلتے ہوئے حالات میں محنت اور لوگوں کے پیار سے کوئی بھی منزل کسی کیلئے بھی نا ممکن نہیں ہے۔ میں آئی آئی ایس کا مشکور ہوں کہ مجھے آج اتنے فراغ دل اسکالشپ پہ پڑھنے کا موقعہ مل رہا ہے”۔

عبدالواحد کا خواب ہے کہ چترال سے زیادہ زیادہ لوگ دنیا کے بڑے یونیورسٹیوں میں جایئں کیونکہ ہم میں صلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہے صرف وصائل کی کمی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ نوجوان قیادت میں آئیں اور چترال کیلیے کام کریں اور اپنے مسائل کو حل کرنے میں حکومت کو احساس دلایں کہ ہم بھی اس ملک کا حصہ ہیں۔ واحد خان اپنے دوستوں کے ساتھ مل کے چترال ایکیڈمکس، چترال ہیریٹیچ اینڈ انوارنمنٹل سوسایٹی، یارخون آیریا رورل ڈیولپمنڈ ارگینائزشن اور لوک ووکل جیسے تنظیمات کے بانی ہیں اور مختلف طریقوں سے چترال کے لئے کام کر رہے ہیں۔

ہماری طرف سے عبدالواحد خان، ان کے خاندان والوں اور پورے چترال کو اس کامیابی پر مبارک ہو۔

Posted in تازہ ترینTagged , , , , ,
48857

داد بیداد……….آ فت، کشمیراور چترال …….. ڈا کٹر عنا یت اللہ فیضی

Posted on

آزاد کشمیر کا تا زہ ترین زلزلہ بہت بڑی قد رتی آفت ہے 38اموات، 400سے زیا دہ زخمی اور کھر بوں کی جا ئداد، سڑ کوں، نہروں اور دیگر سکیموں کا نقصان، پھر بحا لی کے کام میں نا کامی، اللہ جانے آگے کیا ہو گا؟ چترال میں 8جو لائی کو سیلاب آیا آب پا شی کی 4سکیموں کو بہا لے گیا آب نو شی کی ایک سکیم اس کی زد میں آگئی ڈھا ئی مہینے گذر کئے بحا لی کا کام شروع نہیں ہوا 80ہزار کی آبا دی کے لئے پینے کا پا نی نہیں ہے ڈیڑ ھ لا کھ کی آ بادی آب پا شی کی سکیموں سے محروم ہے کھڑی فصلیں بر باد ہو گئیں۔ سیب، انگور، انا راور آخروٹ کے بڑے بڑے با غا ت کھنڈ رات میں تبدیل ہوئے لو گوں نے با ربار روڈ بلا ک کرکے احتجا ج کیا مقا می انتظا میہ بے بس ہے صو بائی حکومت کے اختیارات ختم کر دیئے گئے ہیں دکھ کی بات صرف یہ نہیں کہ آزاد کشمیر کے ضلع میر پور اور دوسری جگہوں میں زلزلے نے تبا ہی پھیلا ئی دکھ اور افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ اختیارات کی مر کزیت نے آفت زدہ لو گوں کی بحا لی اور امداد کا راستہ بند کیا ہے آزاد کشمیر کی مقا می انتظا میہ اسلا م اباد کی منظوری کے بغیر ہسپتال میں زخمیوں کے لئے ”کینو لا“ بھی نہیں دے سکتی یہ اُس کے دائر ہ اختیار میں نہیں ہے چترال میں 47کروڑ روپے کی لا گت سے 6سال پہلے مکمل ہونے وا لی گو لین گول واٹر سپلائی سکیم 8جو لا ئی کو متاثر ہو ئی یہ پبلک ہیلتھ انجینئر نگ کے محکمے کی سکیم تھی صو بائی حکومت نے سکیم کی دوبارہ بحا لی کے لئے 329ملین روپے کا فنڈ ریلیز کیا لیکن سکیم کا ٹینڈر اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اسلام اباد سے منظور ی نہ ملے یا اسلام اباد کا دفتر خود ٹینڈر طلب نہ کرے قانون میں لکھا ہوا ہے کہ قدرتی آفت کو انگریزی میں ڈیزاسٹر کہا جا ئے گا ڈیزاسٹر کی صورت میں اسلام اباد کا ایک دفتر ذمہ دار ہو گا اس کا نام نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (NDMA) ہے ڈپٹی کمشنر، ایگزیکٹیو انجینئر، چیف انجینئر اور چیف سکرٹری کا کوئی اختیار نہیں یہ کام اُن کے دائرہ کار سے با ہر ہے اگر NDMAکے بجائے مقا می محکمے، مقا می دفتر یا مقا می افیسر کے ذریعے ایک پا ئی خر چ کی گئی تو وہ کر پشن میں شمار ہو گی ”نا زی پا کستان“ کا گسٹا پو یعنی نیب (NAB) حر کت میں آئے گا پھر چر ا غوں میں روشنی نہیں رہے گی 2005سے پہلے ایسا نہیں تھا 2005کے زلزلے کے بعد قدرتی آفت کی صورت میں مصیبت زدہ، غم زدہ اور آفت زدہ لو گوں کی امداد کا کام مقا می حکام اور متعلقہ اداروں سے لیکر اسلام اباد میں ایک دفتر کو دیدیا گیا بالا کوٹ کی نئی سٹی کا منصو بہ اس وجہ سے نا کام ہوا جب بھی قدرتی آفت آتی ہے لو گ بے یارو مد د گا ہو کر دہا ئی دیتے ہیں 2005سے پہلے ضلعی سطح پر ایمر جنسی رسپانس سسٹم(ERS) ہوتا تھا کنٹن جنسی پلان ہوتا تھا اس پلا ن کے تحت ضلع کے اندر مقامی حکام فوراً آفت زدہ عوام کی امداد کے لئے پہنچ جا تے تھے وسائل کو استعمال کر کے بنیا دی ضروریات فراہم کرتے تھے انگریزوں کے دور سے یہ طریقہ رائج تھا اور بہت کامیاب تھا سٹینڈرڈ اوپر ٹینگ پرو سیجر (SOP) یہ تھا کہ ڈپٹی کمشنر ریلیف کے کام کا ذمہ دار ہوتا تھا تما م محکمے ان کے ما تحت ہو تے تھے وہ صو بائی حکومت سے وسائل حا صل کرکے ان محکموں کے ذریعے بحا لی کا کام کرواتا تھا یہ طریقہ آسان تھا کیونکہ لو گ ڈپٹی کمشنر سے رجوع کرتے ہیں اُس کے پاس وسائل اور اختیارات نہ ہوں تو وہ کس طرح لو گو ں کی مدد کرے گا NDMAکا طریقہ کار اتنا پیچیدہ اور طویل ہے کہ ایک تباہ شدہ پائپ لائن کی بحالی کے لئے ٹینڈر طلب کرنے میں دو سال لگتے ہیں جبکہ لو گ بوند بوند پا نی کو ترس رہے ہو تے ہیں اس وجہ سے مقا می پریس کلب میں جب گفتگو ہوتی ہے تو NDMAکو محتصر کر کے ”نیشنل ڈیزاسٹر“کا نام دیا جا تا ہے تو می اخبار کے ایک نا مہ نگا ر نے منیجمنٹ اتھارٹی کی جگہ ”مس منیجمنٹ اتھار ٹی“ لکھ کر دل کی بھڑا س نکا لی تھی جیو فزیکل سروے کی رو سے آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے بعض اضلا ع خصو صا ً چترال، مانسہرہ، دیر،سوات، بٹگرام وغیرہ قدرتی آفتوں کی سرخ لکیر کے اوپر واقع ہیں کسی بھی وقت کوئی بھی آفت آسکتی ہے بعض ایسی آفتیں ہیں جنکی پیش گوئی سے بھی جدید آلا ت اور ٹیکنا لو جی والے ادارے عا جز آگئے ہیں اس لئے قدرتی آفتوں سے نمٹنے کا سا بقہ طریقہ بحا ل کرنے کی اشد ضرورت ہے قدرتی آفتوں سے نمٹنے کا کام مر کزیت کا تقا ضا نہیں کر تا اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا تقا ضا کر تا ہے اس وقت جو اختیارات اسلام اباد میں قا ئم بڑے دفتر کے گریڈ 22کے افیسر کے پاس ہیں وہ اختیارات مقا می نا ئب تحصیلدار کو دیدے جائیں تو مسا ئل فو راً حل ہو سکتے ہیں کیونکہ گریڈ 22کا افیسر مو قع پر مو جو د نہیں نا ئب تحصیلدار مو قع پر مو جو د ہے 2005سے اب تک 14سا لوں میں جتنے زلزلے اور سیلاب آئے ہر مو قع پر اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہونے چاہئیں مو جو دہ حکومت اگر NDMAکو تحلیل کر کے وسائل اور اختیارات مقا می انتظا میہ کو دیدے تو یہ قوم پر حکومت کا احسان ہو گا قدرتی آفات سے متا ثرہ لو گ حکومت کو دعائیں دینگے .

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged , , , ,
26558

زمانہ جاہلیت کی قبیح رسومات ………..میرسیما آمان

Posted on

کتابوں میں جب کبھی زمانہ جاہلیت کا ذکر پڑھا تو بہت ساری توہمات کے علاوہ جس چیز کا سب سے ذیادہ ذکر ہوا وہ ہیں اُس دور کی قبیح رسومات۔اور جہاں تک میرا خیال ہے زمانہ جاہلیت کا لفظ اُس دور کے لیے استعمال ہوا۔جب قُرآن پاک کا نزول نہیں ہوا تھا یعنی ۱۴ سو سال سے بھی پہلے کا دور۔۔اب مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ہم آج اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں۔جہاں بنی ادم چاند پر قدم رکھنے کا شرف حاصل کر چکا ہے۔جہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا کو گلوبل ولیج بنا کر رکھ دیا ہے۔ ” علم ” کا اس قدر بہتات ہو چکا ہے کہ فی بندہ بیک وقت کہیں علوم پر دسترس رکھتا ہے۔اور ” ڈگری ” یعنی تعلیمی اسناد اس قدر اہمیت حاصل کر چکے ہیں کہ لوگ زمین بیچ کر بیٹیوں کو بھی تعلیم دینے لگے ہیں۔مختصرا یہ کہ ” دُنیا ترقی کر چکی ہے “‘لیکن تعجب کی بات یہ نہیں کہ دُنیا نے کتنی ترقی کر لی ہے تعجب تو اس بات پر ہے کہ انسان ” آج ” بھی حق کو اپنانے پر شرمندہ ہے ہچکچاہٹ میں مبتلا ہے آج کا انسان بھی باطل پر یقین رکھتا ہے۔

حیرت اس بات پر ہے کہ آج بھی خود کو” اکیسویں صدی کا آدمی ” کہلوانے کے لیے ” اُنھی رسومات کی پیروی ” کرنی ہے جو زمانہ جاہلیت کی ” علامت” ہو اکرتے تھے۔ یہ کیسا منافقانہ دور ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہم شائد محض وضع قطع میں تبدیلی کو ترقی سمجھ بیٹھے ہیں۔۔آپ پنجاب یا سندھ کے کسی بھی علاقے میں جائیں بہت کم افراد ایسے ملیں گے جو ذاتی مکان میں رہتے ہوں پاکستان کی ۸۰ فیصد ابادی کرائے کے مکانوں پہ دھکے کھانےپر مجبور ہے ذاتی مکان میسر نہیں۔۔۔ وجہ ” غربت ” نہیں بلکہ وہ رسم و رواج ہیں جن کے بھینٹ ہم نے اپنا سکوں چڑھایا ہوا ہے۔

نجانے کب ہم اس معاشرے سے نکلیں گے جہاں بیٹی کی پیدائش سے ہی اسکے لئے جہیز بنانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے،،چند سال پہلے تک ہم چترالی عوام اس بات پر شکر ادا کرتے تھے کہ ہم ایسے علاقوں میں پیدا نہیں ہوئے۔ جہاں سینکڑوں غلط رسومات نے زندگی کے اصل حسن کو گہنا کے رکھ دیا ہے۔مگر آج افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ چترال کی جس سادگی اور انفرادیت پر ہمیں فخر تھا اب وہ ختم ہوتا جا رہا ہےجہیز جیسی لعنت اور دھوم دھام سے شادی بیاہ کے فضول رسومات کا تو یہاں ابتدا ہو ہی چکا ہے،،

چند ماہ پہلے چترال ٹاون کے ہی ایک علاقے میں نواسے کی پیدائش پر ننھیال سے ڈھیروں تحائف کیساتھ ساتھ اس چند دن کے بچے کے لیے ” سونے کی انگوٹھی ” لانے کی رسم دیکھ کر سچ کہوں تو دل حیرت اور دکھ کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب گیا۔۔یہ وہ رسم ہے جو برسوں سے سوات تیمر گیرہ پشاور ہزارہ ہری پور اہیبٹ اباد سائڈز پر برسوں سے رائج ہے۔چترال میں اس رسم کو ترویج دینے اور ایک تعلیم یافتہ خاندان کو ایسا کرتے دیکھنا میرے لیے بڑے افسوس کا لمحہ تھا بحر حال اس ” جہالت ” پر لکھنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔۔

اسکے علاوہ آج کل چترال میں ایک اور چیز بڑی عروج پر ہے وہ ہے ”’ رسم ختم قُرآن ” مدرسے کی کوئی بھی بچی جب قُرآن ختم کرتی ہے تو مدرسے کے تمام اسٹاف اور طالبات سمیت پورے علاقے کواور خاندان والوں کو دعوت دی جاتی ہے گھروں پر شامیانے لگتے ہیں دیگیں پکتی ہیں،،اور کوئی ” ون ڈش ” نہیں تین چار اقسام کے کھانے پکائے جاتے ہیں غرض اتنا ہی خرچہ کیا جاتا ہے جتنا کہ کسی بیٹی کی رخصتی پر کیا جا سکتا ہے۔۔جب ان لوگوں پر اعتراض کرو تو انکا جواب یہ ہوتا ہے کہ مدرسے کے ” اُستاد یا معلمہ ” کا یہ کہنا ہے کہ دوسرے کہیں معاملات پر اگر خرچے کیے جاسکتے ہیں تو ختم قُرآن پر کیوں نہیں؟ختم قُرآن پر خرچہ کرنا تو ثواب ہے۔۔۔۔۔

یہ دین کا علم سکھانے والے اُستاد کے وہ الفاز ہیں جن سے ڈر کے ہر گھرانہ ختم قُرآن کو دھوم دھام سے منانے پر مجبور ہیں،مجھے حیرت ہے ان الفاز پر، نجانے یہ کونسے استاد ہیں جو دین کے عار میں نہ صرف نمود و نمائش کو فروغ دے رہے ہیں بلکہ کم حیثیت افراد کے لیے ختم قُرآن جیسے اہم فریضے کو بھی مشکل بناتے جا رہے ہیں۔۔

اسکے علاوہ شادی بیاہ پر نمود نمائش دن بدن عروج پکڑتا جا رہا ہے۔۔ جہیز کے نام پر جنریٹر سے لیکر گاڑی تک دینے کا افتتاح ہوچکا ہے اور ایسا کرنے والے اپنی اس جاہلانہ حرکت پر بڑی شان محسوس کرتے ہیں۔۔دوسری طرف لڑکے والوں سے سنت نبوی کے مطابق گھریلو ساما ن کے لیے جو تھوڑے پیسے لیے جاتے تھے اب اس رقم کی مقدار ۸۰،۰۰۰ سے لیکر دو سے ۳ لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔۔۔

ذرا سوچیے ۱۵ سے ۲۰۰۰۰ کی تنخواہ لینے والا شخص اگر شادی کرنا چاہے تو معاشرہ اسکو کس پوائنٹ پہ لے آتا ہے ۔۔یہی نہیں بہانے بہانے سے مختلف تقریبات کا اہتمام کرنا ، دعوتیں رکھنا معمول کا حصہ بن چکا ہے۔۔ایک اور چیز جو چترال ٹاون میں ہی دیکھنے میں آئی وہ ہے میکے سے بیٹی کے لیے ناشتہ بھیجنا،،جسمیں کم از کم تیس سے چالیس ہزار اور ذیادہ سے ذیادہ ۶۰ ہزار تک بھی خرچہ آسکتا ہے اور یہ رسم بھی ڈاون ڈسٹر کٹ میں برسوں سے رائج ہے آج چترال میں بھی اسکا آغاذ ہو گیا۔۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر ہم جا کس طرف رہے ہیں ؟؟/ایک طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی ، بیروز گاری بے شمار مسائل اور غربت دوسری طرف دن بدن نت نئے واہیات رسومات زور پکڑتے جا رہے ہیں جو کہ حقیقتا لمحہ فکریہ ہے۔۔

عوام کو ایمانداری سے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کس طرف جارہے ہیں اگر ہمیں پیٹ پر پتھر باندھ کر معاشرے میں ناک اونچی کرنے کے لیے ” اُنھی رسومات ” کو جاری رکھنا ہے جو زمانہ جاہلیت کی علامت ہوا کرتے تھے تو ہمیں اپنےچہروں پر اسلام کے نام پر سجائے گئے دھاری اور بُرقعے بھی ہٹانے ہونگے،ہمیں اپنی الماریوں میں سجائے گئے قرآن پاک لے جا کر مساجد میں رکھنی ہونگی کیونکہ قرآن پاک عمل کے لیے نازل ہوا ہے محض ” مُطالعے ” کے لیے نہیں۔۔

یہی قُرآن پاک تھا جب رسول پاک ؐ پر نازل ہوا تو نبی پاک ؐ نے مسلمانوں کو انھی قبیح رسومات سے ازاد کراوایا تھا آج ہم واپس اُسی اندھیرے کی طرف گامزن ہیں۔۔ اب سوال یہ ہے کہ ان رسومات کا خاتمہ کرے گا کون ؟؟؟ اگر کوئی غریب ادمی ان رسومات کا بائکاٹ کرے گا تو معا شرہ اس ” بائکاٹ ” کو تسلیم ہی نہیں کرےگا،،یہ المیہ ہے اسلِے ان جاہلانہ رسومات کا بائکات کرنے کی ذمہ داری ان افراد پر عائد ہوتی ہے جو صاحب حیثیت ہیں جن کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ معمولی تقریب پر لاکھوں خرچہ کرسکتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اس معاملے میں پیش رفت کرکے دوسروں کے لیے مثال قائم کر سکتے ہیں۔

مگر یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس وقت جو جتنا ذیادہ تعلیم یافتہ ہے جو جتنا ذیادہ مالدار ہے وہ نمود نمائش اور ستائش کا اتنا ہی بھوکہ ہے۔اسلیے مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ اللہ کی لعنت ہو ایسی ” ناک ” پر جو ہمیشہ باطل کو فروغ دینے پر اُونچی ہوتی ہو،،کیا کبھی یہ ناک سچ بولنے پر بھی اونچا ہو سکتا ہے؟؟ کبھی سنت نبوی پر عمل کرنے سادگی اختیار کرنے اور سنت کو فروغ دینے پر بھی اونچا ہوگا؟؟؟

سچ تو یہ ہے کہ نمود و نمائش در حقیقت ایک بیماری ہے جسکا سادہ نام ”’ ا حساس کمتری ہے ”” جو جتنا ذیادہ احساس کمتری میں مبتلا ہو وہ اتنا ہی نمود نمائش کا اشتہار بنا رہتا ہے،اب وقت اگیا ہے کہ اس بیماری پر قابو پایا جائے۔ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ پہلے اپنے اندر کی احساس کمتری کو ختم کرے پھر اپنے ساتھ رہنے والوں کا علاج کرے۔جب تک یہ بیماری ختم نہیں ہوگی. معاشرہ انتشار کا شکار رہے گا حلال روزگار کا تصور ختم ہوگا ڈپریشن بڑھے گی تو معاشرہ خود کشیوں اور جرائم کا آماجگاہ بن جائے گا۔۔

اور جہاں تک بات ہمارے علاقے کا ہے تو یاد رکھیں پوری دنیا میں چترال ایک منفرد شناخت رکھتا ہے چترال کے کسی بھی گھرانے کو یہ ذیب نہیں دیتا کہ وہ چترال کے روایات کے خلاف نت نئے واہیات رسومات کا یہاں پر آغاز کرکے نہ صرف چترال کی اصل شناخت کو مسخ کرے معاشرے میں نت نئے مسائل پیدا کرے۔ بلکہ اپنی اس انفرادیت کو برقرار رکھنے اور مزید بہتر کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایسے تمام نا سور رسومات کا اجتماعی طور پر بائکات کیا جائے۔۔اور چترال کو مثالی معاشرہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں،،

Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged , , ,
24345