Chitral Times

پیرِ مُغاں ہے مردِ خلیق ..بیاد مفتی نظام الدین شامزئی شہید رحمہ اللہ …..ولی اللہ چترالی

2004ءکا سال پاکستان کے علمائے حق علمائے دیوبند کے لئے انتہائی بھاری اور غم و اندوہ کا سال ثابت ہوا۔ 30 مئی 2004ءکو لگنے والا زخم تو اب بھی ہرا ہے اور جانے اسے مندمل ہونے میں کتنا وقت لگے گا یا پھر یہ زخم کبھی مندمل نہ ہوسکے گا اور ہمیشہ دل و دماغ میں تازہ رہے گا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے یہ سولہ سال پرانا گھاو ¿ نہیں، بلکہ تازہ تازہ ہونے والی غم کی واردات ہے۔ اس دن رو سیاہ دشمن نے وہ چھرا ہماری پشت میں گھونپا کہ اب تک ہم کمر سیدھی نہیں کر سکے۔ تیس مئی کو حضرت اقدس مفتی نظام الدین شامزئی کو شہید کر دیا گیا اور حادثہ فاجعہ کے ٹھیک چار ماہ نو دن بعد نیا زخم مفتی محمد جمیل خان کی شہادت کی صورت میں دیاگیا۔ 2004ءکا سال ان دو شہادتوں کی وجہ سے ہماری زندگی کی تقویم میں ہمیشہ نا قابل فراموش رہے گا۔

حضرت مفتی نظام الدین شامزئی کی شہادت اہل حق کے قلعے پر وہ کاری ضرب تھا جس سے ہمارے در و دیوار ہل گئے۔ حضرت مفتی صاحب عزیمت کی پرخار راہوں کے راہی تھے۔ کسی بھی موقع پر یہ سوچے بغیر کہ انجام کیا ہوگا، لوگ کیا سوچےں گے، ایسا حیران کن قدم اٹھاتے کہ لوگوں کو دیر تک اس کا یقین نہ آتا۔ ان کے مجاہدانہ کارناموں اور عملی اقدامات پر ان کے معتقدین ہی نہیں، مخالفین بھی اش اش کر اٹھتے تھے۔ حضرت مفتی صاحب شہید علیہ الرحمہ بحر العلوم ہی نہیں تھے، خشک مفتی ہی نہیں تھے، بلکہ عمل کے خوگر بلند قد و قامت کے عظیم انسان تھے۔ وہ جہاد فی سبیل اللہ اور راہ حق کے با صواب مجاہدین کے اس وقت بھی سرپرست تھے، جب عالمی تھانیدار کے خوف سے بڑے بڑے مجاہدین کا زہرہ آب اور پِتا پانی ہو گیا تھا اور کسی کو بھی جہاد اور مجاہدین کی حمایت کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔

حضرت مفتی صاحب شہید صاف دل و دماغ کے مالک تھے۔ ان کے دل میں کوئی کھوٹ نہیں تھی۔ جو دل میں ہوتا، وہی زبان پر ہوتا۔ علامہ نے ایسے ہی مردانِ حق کے متعلق کہا ہے

ہزار خوف ہو، لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

قلب و نظر کی اسی صفائی کی تاثیر تھی کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں حضرت کی محبت ڈال دی تھی، ہر طبقے کے لوگ ان کا دل و جاں سے احترام کرتے تھے اور ان کی عظمت کا اعتراف کرتے تھے۔ بقول علامہ

ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیرِ مغاں ہے مردِ خلیق

ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ من کان للہ، کان اللہ لہ یعنی جو شخص اللہ کا ہوجاتا ہے، اللہ اس کا ہوجاتا ہے۔ سو اللہ جس کا ہوجائے، ساری دنیا اس کی گرویدہ نہ ہو تو کیا ہو، چنانچہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر وقار اور احترام بخشا تھا کہ کسی بھی تنازع کے فریق بیچ میں آپ کے آتے ہی اپنے حق اور دعوے سے پیچھے ہٹ جاتے تھے۔ سخت مشکل حالات میں ریاست اور مجاہدین کے درمیان کتنے ہی متنازع امور حضرت شہید نے لمحوں میں نمٹائے۔حضرت اشارہ فرماتے اور مسئلہ حل ہوجاتا۔ ایک ایسے وقت جب ریاست اندرونی خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہی تھی،یہ حضرت مفتی نظام الدین شامزئی شہید جیسے قد آور اور صاحب الرائے شخصیات کے وجود کی برکت تھی کہ بارہا معاملات خرابی کی انتہا تک پہنچ کر تھم گئے۔ آگے اس سے بھی مشکل حالات ملک و قوم کو پیش آنے تھے اور جب یہ حالات آئے تو افسوس اس وقت حضرت وجودی طور پر ہمارے درمیان نہیں تھے، یہی وجہ ہے کہ ملک و قوم کو ان حالات میں بڑی کٹھنائیوں کے درے عبور کرنا پڑے، آپ موجود ہوتے تو قوم کو بڑی عافیت کا سامنا رہتا اور بغیر خون بہے بہت سے معاملات حل ہوجاتے۔ عین ضرورت کے وقت مفتی نظام الدین شامزئی کی شہادت سے نہ صرف دیوبندی مکتب فکر کا ناقابل تلافی نقصان ہوا بلکہ قوم اور ریاست کو بھی ایسی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا کہ جس میں قوم کی ستر ہزار سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔

ایسی معتبر اور معتدل دینی شخصیات کا وجود نہ صرف مذہبی طبقے بلکہ وطن عزیز کی سالمیت کو درپیش چیلنجوں کے لئے بھی ضروری ہے، بالیقین مفتی صاحب کا کم نصیب قاتل صرف ایک مذہبی رہنما کا ہی نہیں بلکہ قوم کا بھی قاتل ہے۔حضرت شہید بلا مبالغہ بے شمار مفلوک الحال خاندانوں کے کفیل بھی تھے۔ ان کی نہایت راز داری کے ساتھ کفالت فرماتے تھے، دستِ قاتل ان مستحق خاندانوں کے رزق اور روزگار کا بھی قتل کیا۔ درجنوں رفاہی ادارے بھی حضرت شہید کے ایک اشارے سے متوقع قیمتی امداد و تعاون کے منتظر رہتے تھے اور ان کا کام بن جایا کرتا تھا، قاتل نے خیر کے اس عظیم سلسلے کا بھی قتل کیا۔ اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلند کرے اور ملک و قوم کو ان کے نقش قدم پر چلنے والے مزید ایسی شخصیات عطاءکرے، آمین۔

Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
36002